ایک سو پچاس جعلی اصحاب(دوسری جلد)
 

نواں جعلی صحابی حرملہ بن سلمی تمیمی
ابن حجر کی غلطی کا نتیجہ
جو کچھ ہم نے یہاں تک حرملہ بن مریطہ کے بارے میں کہا ،وہ ایسے مطالب تھے جو سیف کی روایتوں کے متن میں آئے ہیں ۔ یعنی ان ہی روایتوں کے پیش نظر ،پیغمبراکرم ۖ کے اصحاب کی سوانح لکھنے والے مؤلفین نے حرملہ بن مریطہ کے حالات زندگی میں بھی پیغمبر خدا ۖ کے صحابی کی حیثیت سے قلم بند کئے ہیں ۔ اس کے علاوہ سیف کی انہی روایتوں کے پیش نظر طد ، نعمان اور بعرانہ جیسی فرضی اور خیالی جگہیں بھی جغرافیہ کی کتابوں میں درج کی گئی ہیں !
ان حالات کے پیش نظر ابن حجر جیسا دانشور ان مطالب پر اپنی طرف سے بھی کچھ بڑھا کر پیش کرتا ہے ۔ اور ممکن ہے اس کے یہ اضافات اس امر کا نتیجہ ہوں کہ جب ابن حجر سیف کی کتاب ''فتوح'' میں حرملہ و سلمی کا افسانہ پڑھ رہا تھا تو ، یا حرملہ و سلمی کو غلطی سے حرملہ بن سلمی پڑھا ہے یا جو کتاب اس کے ہاتھ میں تھی ، اس میں کتابت کی غلطی سے حرملہ و سلمی کے بجائے حرملہ بن سلمی لکھا گیا ہو اور اس چیز نے ابن حجر کو غلطی سے دو چار کیا ہے !
بہر حال جو بھی ہو ،کوئی فرق نہیں در حقیقت بات یہ ہے کہ ابن حجر نے حرملہ بن سلمی نامی ایک نئے تخلیق شدہ صحابی کے لئے اپنی کتاب '' الاصابہ'' میں جگہ مخصوص کرکے لکھتا ہے :
سیف بن عمر تمیمی اور طبری نے لکھا ہے:
خالد بن ولید نے ١٢ھ میں عراق کی زمام حکومت سنبھالنے کے بعد حکم جاری کیا کہ حرملہ بن سلمی ،مذعور بن عدی اور سلمی بن قین اس سے ملحق ہو جائیں ۔جن کی کمانڈ میں مجموعی طور پر آٹھ ہزار جنگجو تھے ۔
جیسا کہ ہم نے اس سے پہلے کہا ہے کہ اس زمانے میں رواج یہ تھا کہ سپہ سالار کا عہدہ صحابی کے علاوہ کسی اور کونہیں سونپا جاتا تھا ۔(ز)
ابن حجر اپنی بات کے آخرمیں حرف ''ز '' اس لئے لایا ہے کہ واضح کرے کہ اس مطلب کو کسی اور مورخ نے ذکر نہیں کیا ہے ،بلکہ یہ حصہ اس کا زیادہ کیا ہو ا ہے ۔

سیف کے افسانوں کی تحقیق
سیف کی روایتوں کے اسناد کی جانچ پڑتال سے واضح ہو جاتا ہے کہ وہ خود ان س داستانوں کا خالق ہے اور مندرجہ ذیل مطالب ہماری اس بات کی حقانیت کو ثابت کرتے ہیں ۔
سیف جب اپنی خاص روش کے تحت کوئی افسانہ لکھتاہے تو اس کے لئے کسی دلاور یا دلاوروں کو خلق کرتا ہے ، پھر کسی گواہ یا کئی گواہوں کو خلق کرتا ہے تاکہ وہ ان دلاوروں کی شجاعتوں اور دلاوریوں کے شاہد رہیں ، پھر ان تمام مطالب کو ایسے روایوں کی زبانی روایت کرتا ہے جو ایک ددسرے سے سنتے ہیں اوراس طرح اس سلسلہ کو اپنے افسانے کے زمانے سے متصل کرتا ہے !
ہم ان گواہوں کے نام اور اسناد کی جستجو و تحقیق کے سلسلے میں مجبور ہو کر تاریخ اور صحابیوں کے حالات پر مشتمل کتابوں اور انساب کی کتابوں کی طرف رجوع کرتے ہیں اور اتفاق سے کبھی کبھی سیف کے راویوں کے نام سے مشابہ راویوں سے مواجہ ہوتے ہیں اور ایسے موقع پر اپنے آپ سے سوال کرتے ہیں ۔
کیا واقعا ًیہ راوی وہی ہے جس کانام سیف نے اپنے افسانے کی سند میں لیا ہے ؟ لیکن یہ شخص سیف سے برسوں پہلے مر چکا ہے لہٰذا ممکن نہیں ہے کہ سیف نے اسے دیکھا ہو اورکہ اس قسم کے مطالب اس نے سنے ہوں ۔
لیکن اس کا یہ دوسرا راوی بھی سیف کے مرنے کے برسوں بعد پید ا ہوا ہے اس لئے ممکن نہیں ہے سیف نے اسے دیکھا ہو اور اس سے بات کی ہو !!
اس کے علاوہ دیگر مشابہ و ہمنام راوی بھی کنیت اور القاب کے لحاظ سے سیف کے راویوں سے مطابقت نہیں رکھتے ہیں ۔
جوکچھ ہم نے کہا یہ اس صورت میں ہے کہ ایسا نام کہیں موجود ہو جس کا مشابہ سیف نے اپنی حدیث کی سند کے عنوان سے ذکر کیا ہو ، اگر ایسا نہ ہو تو کام اور بھی مشکل تر ہو جاتا ہے ، کیوں کہ ایسی صورت میں ہم مذکو رہ مصادر کے علاوہ ادب ، حدیث ،سیرت اور طبقات وغیرہ کی کتابوں کا مطالعہ کرنے پر مجبور ہوں گے تاکہ تحقیق کرکے ایسے راویوں کے وجود یا عدم کے سلسلے میں اطمینان حاصل کریں ۔
ہم نے سیف کے گزشتہ افسانوں اور احادیث میں مشاہدہ کیا کہ وہ اپنے راویوں کے طور پر اکثر محمد ،طلحہ ، مھلب ، عمرو ، اور دیگر چند مجہول الہویہ افراد کو پیش کرتا ہے ۔ ان افراد کو پہچاننے کے لئے تحقیق کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے ، کیوں کہ یہ محمد کون ہے ؟ اگر سیف کے تصور کے مطابق یہ وہی محمد بن عبداللہ بن سواد نویرہ ہے کہ طبری نے سیف سے نقل کرکے اس کی روایت کی گئی ٢١٦،احادیث اپنی تاریخ کبیر میں درج کی ہیں ، تو وہ سیف کا خلق کردہ راوی ہے ۔ ہم نے مذکورہ بالا مصادر میں اس کا کہیں نام و نشان نہیں پایا ۔
طلحہ ،کیا یہ وہی سیف کے خیالات کی تخلیق طلحہ بن عبدالرحمن ہے یا کوئی اور طلحہ ؟
اور مھلب ،کہ سیف نے اسے مھلب بن عقبہ اسدی کے نام سے پہچنوایا ہے ۔ اس کی روایت کی گئی ٧٠ ،احادیث تاریخ طبری میں موجود ہیں ۔ اس کا نام حدیث اور رجال کی کتابوں میں کہیں نہیں پایا جاتا۔
و ، عمر کون ہو سکتا ہے؟ کیا یہ وہی عمرو ہے جس کی نحویوں کی زبانی زید کے ہاتھوں پٹائی ہوتی ہے '' ضَرَبَ زَیْد عَمْراً'' یا کوئی اور عمرو ہے ؟
اس افسانہ میں سیف چند دیگر راویوں کا بھی نام لیتا ہے جن کا نام رجال کی کتابوں میں آیا ہے ،جیسے'' عبد اللہ بن مغیرہ عبدی ''اور '' ابوبکر ہذلی ''
کیا سیف نے ان دو راویوں کو دیکھا ہے اور ان کی باتوں کو سنا ہے ؟ یا یہ کہ صرف ایک افسانہ گڑھا کیا ہے اور ان کو دیکھے بغیر یا اس کے بغیر کہ انھوں نے سیف کو دیکھ کر اس سے کوئی بات کی ہو ، ان سے نسبت دے دی ہے ؟!یہ ہمیں معلوم نہ ہو سکا ؟
اب جب کہ واضح ہو چکاا کہ سیف کی احادیث صرف اس کے ذہن کی پیدا وار ہیں تو ذرا اس افسانہ کی اشاعت کرنے والے منابع پر بھی ایک نظر ڈالتے ہیں :
١۔ امام المؤرخین ،محمد بن جریر طبری نے اپنی تاریخ کبیر میں ١٢،٢١ھ کے حوادث کے ضمن میں سند کے ذکر کے ساتھ ۔
٢۔ ابن ماکولا نے اپنی کتاب '' اکمال '' میں سند کی ذکر کے ساتھ۔
٣۔ سمعانی نے اپنی کتاب '' انساب'' میں سند کے ساتھ
٤۔ یاقوت حموی نے اپنی کتاب '' معجم البلدان '' میں سند کے ساتھ۔ اس بیان کے ساتھ کہ ابن خاضبہ کے ہاتھ کی لکھی ہوئی سیف کی کتاب فتوح اس کے سامنے تھی ۔
درج ذیل دانشوروں نے مذکورہ علماء سے مطالب نقل کئے ہیں :
٥۔ ابن اثیر نے اپنی کتاب '' اسد الغابہ'' میں براہ راست سیف بن عمر اور طبری سے نقل کیا ہے
٦۔ ذہبی نے اپنی کتاب '' تجرید اسماء الصحابہ '' میں کتاب اسد الغابہ سے نقل کیا ہے ۔
٧۔ ابن حجر نے کتاب '' الاصابہ '' میں طبری سے ۔
٨۔ عبدالمؤمن نے کتاب '' مراصد الاطلاع '' میں یاقوت حموی سے ۔
٩۔ ابن اثیر نے کتاب '' اللباب '' میں سمعانی سے ۔
١٠۔ دوبارہ ابن اثیر نے اپنی تاریخ میں طبری سے نقل کیا ہے
١١۔ ابن خلدون نے اپنی تاریخ میں طبری سے ۔
١٢۔ زبیدی نے کتاب '' تاج العروس '' میں روایت کے ایک حصہ کو سند کے ساتھ نقل کیا ہے ۔

دسواں جعلی صحابی ربیع بن مطربن ثلج تمیمی
صحابی ، شاعر اور رجز خوان
ربیع بن مطر کی سوانح عمری بیان کرتے ہوئے ابن عساکر لکھتا ہے :
ربیع بن مطر ایک ماہر رزمیہ شاعر تھا ، جس نے رسول خدا ۖ کو درک کیا ہے ۔ربیع ،دمشق بیسان اور قادسیہ کی جنگوں کے دوران اسلامی فوج میں حاضر تھا اور اس نے اس سلسلے میں
اشعار کہے ہیں ۔
ابن عساکرمزید لکھتا ہے :
سیف بن عمر سے روایت ہے کہ ربیع بن مطر نے بیسان کی جنگ میں اس طرح اشعار
کہے ہیں :
'' میں نے بیسان کی جنگ میں قلعوں میں مستقر ہوئے لوگوں سے کہا کہ جھوٹے وعدے کسی کام کے نہیں ہوتے ۔
اے بیسان !اگر ہمارے نیزے تمھاری طرف بلند ہو گئے تو تمھیں ایسے دن سے دو چار ہونا پڑے گا کہ لوگ تمھارے اندر رہناپسند نہ کریں گے !
اے بیسان !آرام سے ہو اور اکڑو مت !صلح کا انجام بہتر ہے اسے
قبول کرو !
اب جب کہ قبول نہیں کرتے ہو اور بیوقوفوں کی طرف سے سراب کے مانند دی گئی امیدوں کی خوش فہمی میں مبتلا ہو چکے ہو تو اسی حالت میں رہو ۔چوں کہ انھوں نے جنگ کے علاوہ کسی اور چیز کو قبول نہیں کیا ،ہماری اس جنگ ۔ جس سے ہم کبھی منہ نہیں موڑتے، کی بلائیں ان کے سر پر پے در پے نازل ہوئیں ۔
ہم نے ان کا قافیہ ایسے تنگ کر دیا کہ وہ طولانی بد بختیوں ، مصیبتوں اور تاریکیوں سے دو چار ہوئے
ہم نے کسی جنگ میں شرکت نہیں کی مگر یہ کہ ہمارے قبیلہ نے اس کے افتخارات کو خصوصی طور پر اپنے لئے ثبت کیا ہو۔
جب وہ بے بس ہوئے تو انھوں نے ہم سے معافی مانگی ،پھر ہم نے آدھے دن کے اندر ہی ان کے بزرگوں اور سرداروں کو بخش دیا۔
سیف کے کہنے کے مطابق ربیع نے طبریہ کی فتح کے سلسلے میں یہ اشعار کہے ہیں :
ہم ان کی سرحدوں پر قبضہ کرتے ہیں اور ہم ان کے مانند نہیں ہیں جو جنگ سے کتراتے ہیں ۔
وہ ڈرکے مارے اپنے گھروں کے اندر پائے جانے والے ہر سیاہ نقطہ پر تلوار او ر نیزہ سے حملہ کرتے ہیں ۔
ہمارے جوانوں نے بلندیوں سے اترتے ہوئے گروہ گروہ کی صورت میں ان پر حملے کئے اور وہ ڈر پوک ایسے بھاگ رہے تھے جیسے ان پر بجلی گرنے والی ہو ۔
جب ان پر خوف و دحشت طاری ہو گئی تو ہم نے انھیں جھیل کے نزدیک ہونے سے روکا۔
دمشق کی روئداد کو نظم کی صورت میں یوں بیان کرتا ہے :
حمص کے شہر اور رومیوں کے مرغزاروں میں رہائش کرنے والوں سے پوچھ لو کہ انھوں نے ہماری کاری ضرب کو کیسی پائی؟
یہ ہم تھے جو مشرق کی جانب سے کسی رکاوٹ کے بغیر ایک ایک شہر کو پیچھے چھوڑ تے ہوئے ان تک پہنچے ۔
ہم نے مر غزاروں میں ان کے کشتوں کے پشتے لگا دئے ، اس حالت میں رومیوں نے اپنے مقتولوں کو چھوڑ کر فرار اختیار کیا ۔
عربی گھوڑے ان کو میدان کار زار سے ایسے لے کے بھاگ رہے تھے کہ اپنی جان کی قسم میں کبھی اس کا تصور بھی نہیں کرسلتا تھا ۔
ان گھوڑوں نے انھیں ان کے مقصد و آرام گاہ حمص تک پہنچادیا ۔
ربیع بن مطر نے قادسیہ کی جنگ ،اسلام کے دلاوروں کی توصیف اور میدان جنگ سے فرار کرنے والے ایرانیوں کی تعقیب کے بارے میں یہ اشعار کہے ہیں :
جب میدان دشمنوں سے کھچا کھچ بھرا تھا تو ،عاصم بن عمرو ان پر بجلی کی طرح ٹوٹ پڑا .
یا اس مرد مہمان نواز کی طرح ، سبوں کو حیرت میں ڈال کر ہرمزان کی اس شان و شوکت کو درہم برہم کر کے رکھ دیا ۔
میں نے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا کہ حنظلہ نے نہر میں ایرانیوں پر حملہ کرکے ان کے کشتوں کے پشتے لگادئے ۔
یہی وقت تھا جب سعد وقاص نے بلندآواز میں کہا : جنگ کا حق صرف تمیمیوں نے اد ا کیا ہے ۔
یہی وہ دن تھا جب ہمیں انعام کے طور پر اچھے نسل کے گھوڑے ملے اور ایسے انعام حاصل کرنے میں ہم دوسرے لوگوں پر مقدم تھے ۔
ابن حجر بھی اپنی کتاب '' الاصابہ '' میں ربیع بن مطر کے بارے میں لکھتا ہے :
اس ربیع بن مطر نے رسول خدا ۖ کو درک کیا ہے ۔سیف نے اپنی کتاب فتوح میں دمشق ، قادسیہ اور طبرستان جیسے شہروں کی فتح کے بارے میںاس کے کافی اشعار درج کئے ہیں ۔ منجملہ طبرستان کی فتح کے بارے میں لکھے گئے اس کے اشعار حسب ذیل ہیں :
ہم سرحدوں پر حملہ کرتے ہیں اور انھیں اپنے قبضے میں لے لیتے ہیں ہم ان لوگوں کے مانند نہیں ہیں جو جنگ سے کتراتے ہیں۔
چوں کہ ان پر جنگ کا خوف طاری تھا اس لئے ہم نے ان کو جھیل کے نزدیک جانے سے روکا ۔
ابن حجر اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے لکھتا ہے :
ابن عساکر بھی کہتا ہے کہ اس ربیع بن مطر نے رسول خدا ۖ کو درک کیا ہے اور آنحضرت ۖکی خدمت میں پہنچاہے ۔
ان دو دانشوروں ابن عساکر اور ابن حجر نے سیف کی باتوں پر اعتماد کرتے ہوئے اس خیالی شاعراور صحابی کے دمشق ،بیسان اور طبرستان کی جنگوں میں شرکت کرنے کا یقین کرکے اسے اپنی کتابوں میں درج کیاہے اور سیف نے اس کی زبانی اپنے خاندان کی شجاعتوں اور دلاوریوں کے بارے میں کہے گئے اشعار کو شاہد کے طور پر پیش کیا ہے ۔جب کہ ہم نے اس سلسلے میں پہلے ہی کہا ہے کہ حقیقت میں خاندان تمیم والے ان قبیلوں میں سے نہیں تھے ،جنھوں نے اپنے وطن عراق سے باہر قدم رکھا ہو اور دیگر قبیلوں کے دوش بدوش شام کی جنگوں میں شرکت کی ہو ۔
ابن عساکر نے اپنی تاریخ (٥٣٥١)میں اسی موضوع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے
لکھا ہے :
تمیمیوں کا وطن عراق تھا ،انہوں نے اپنی اسی جائے پیدائش پر ایرانیو ں سے جنگ کی ہے ۔
چونکہ طبری اور ابن عساکر نے فتوحات کی داستانوں میں سیف کے اس افسانوی شاعر و صحابی کا کہیں ذکر نہیں کیا ہے ،لہٰذا ایسا لگتا ہے کہ سیف نے ''ربیع ''کو صرف ایک سخن ور شاعر خلق کیا ہے اور اسے ان فتوحات کی شجاعتوں اور دلاوریوں میں شریک قرارنہیں دیا ہے۔

ربیع کے باپ اور دادا کے نام میں غلطی
کتاب ''تجرید ''میں سیف کے شاعر ''ربیع ''کو اس طرح پہچنوا یا گیا ہے

ربیع بن مطرف تمیمی
''تاج العروس ''کے مؤ لف زبیدی نے بھی کتاب ''تجرید ''کی پیروی کرتے ہوئے لفظ ''ربع''کے بارے میں یوں لکھا ہے :
''امیر ''کے وزن پر ''ربیع ''اصحاب رسول ۖ میں سے پانچ صحا بیوں کانام تھا ...
اس کے بعد ایک ایک کرکے ان کے نام لینے کے بعد لکھتا ہے :
...ایک اور ربیع بن مطرف تمیمی شاعر ہے جس نے دمشق کی فتح میں شرکت کی ہے ۔
ابن عساکر کی کتابوں ''اصابہ ''اور ''تہذیب ''میں سیف کا یہ افسانوی شاعر وصحابی اس طرح پہچنوایا گیا ہے :

ربیع بن مطربن بلخ
ہم نے اس سلسلے میں ابن عساکر کی تاریخ کے قدیمی ترین قلمی نسخہ جو قدیمی ترین منبع ہے جس میں سیف کی احادیث کو مکمل اسناد کے ساتھ پیش کیا گیا ہے کو دیگر تمام مصادر سے صحیح تر جانا ۔اس نسخہ میں سیف کے اس خیالی شاعر کا یوں تعرف ہوا ہے :

ربیع بن مطر بن ثلج (الف)
اس ترتیب اور تسلسل کے ساتھ یہ زیبا و دلچسپ تعرف (اول ''ربیع ''پھر ''مطر ''اور پھر ثلج ) در حقیقت اصلی نام گزار یعنی سیف بن عمر تمیمی کے ادبی ذوق اور کارنامہ کی حکایت ہے ۔
اسی ترتیب سے یہ نام اردو میں حسب ذیل ہے :
بہار ولد بارش ،نواسہ ٔبرف !!
ابن ماکولا اپنی کتاب ''اکمال ''میں لفظ ''ثلج ''کے بارے میں لکھتا ہے :
اور مطر بن ثلج تمیمی وہ ہے جس کا نام سیف نے لیا ہے ۔
پھر تین سطروں کے بعد لکھتا ہے :
میرے خیال میں ربیع بن ثلج تمیمی شاعر مطر کا بھائی ہے ۔
اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ابن ماکولا نے مطر اور ربیع کو دو بھائی اور ثلج تمیمی کے بیٹے تصور کیا ہے ، جب کہ سیف ، جو خود ان کا خالق ہے ان دونوں کو باپ بیٹے کی حیثیت سے پہچنواتا ہے ، جیسا کہ تاریخ بن عساکر میں ربیع بن مطر بن ثلج ذکر ہو ا ہے۔
ربیع بن مطر بن ثلج سے مربوط اس کی زندگی کے حالات اور اس کے اشعار کے بارے میں
..............
الف ( ربیع: بہار مطر : بارش ثلج: برف
پایا ،یہی تھا جس کا اوپر ذکر کیا ، چوں کہ ہم نے اس صحابی اور شاعر کا نام ان مصادر کے علاوہ کہیں نہیں پایا ، جنھوں نے سیف بن عمر سے مطالب نقل کئے ہیں اس لئے اسے ہم سیف کے ذہن کی تخلیق اور جعلی جانتے ہیں ۔
یہ بھی قابل ذکر ہے کہ ہم نے سیف کے بیان میں ایسا کوئی مطلب نہیں پایا جو ربیع بن مطر کے رسول خدا ۖ کے صحابی ہونے پر دلالت کرتا ہو !بلکہ احتمال یہ ہے کہ ابن عساکر نے ربیع کے بارے میں سیف سے جو اشعار اور دلاوریاں نقل کی ہیں وہ ہجرت کی دوسری دہائی سے مربوط ہیں اور اس زمانے میں واقع ہوئی جنگوں میں ربیع کی شرکت کی حکایت کرتے ہیں ۔ اس لئے ابن عساکر نے یہ نتیجہ نکلا کہ ربیع بن مطر اس زمانے میں ایک ایسا مرد ہونا چاہئے جو سن و سال کے لحاظ سے اتنا بالغ ہو کہ ان جنگں میں سر گرم طور پر شرکت کر سکے ۔ اس بنا ء پر ربیع رسول خدا ۖ کو درک کیا ہوگا اور آنحضرت ۖکا صحابی محسوب ہونا چاہئے !!

اس افسانہ کا ماحصل
سیف نے ربیع بن مطر تمیمی کوخلق کرکے:
١۔ عربی ادبیات کے خزانے میں مزید اشعار اور دلاوریوں کا اضافہ کیا ہے ۔
٢۔ رسول خدا ۖ کے اصحاب میں ایک اور صحابی و شاعر کا اضافہ کیا ہے ۔
٣۔ آنے والی نسلیں سیف کی باتوں پر تکیہ کر کے اور ربیع کی دلاوریوں پر مشتمل اشعار کے پیش نظر تصور کریں گی کہ قبیلہ تمیم کے افراد نے اپنے وطن عراق سے دور مشرقی روم کی جنگوں میں بھی شرکت کی ہے اور اس طرح قبیلہ تمیم کے گزشتہ افتخارات میں چند دیگر فخر و مباہات کا اضافہ کیا ہے ۔ اس سلسلے میں ان کا شاعر ربیع کہتا ہے :
اے بیسان !اگر ہمارے نیزے تمھاری طرف بلند ہو گئے تو تمھیں ایسے دن سے دو چار ہونا پڑے گا کہ لوگ تمھارے اندر رہنے میں بے دلی
دکھائیں گے ۔
طبرستان کی جنگ میں ان کی شرکت کے بارے میں شہادت کے طور پر کہتا ہے :
یہ ہم تھے جنھوں نے انھیں شکست دینے کے بعد ان کے لئے (طبریہ) کے جھیل تک پہنچنے میں روکاوٹ ڈالی ۔
یہ ہم تھے جو مشرق کی جانب سے کسی رکاوٹ کے بغیر ایک ایک شہر کو اپنے پیچھے چھوڑتے ہوئے ان تک پہنچے ۔
ان کا شاعر فریاد بلند کرتے ہوئے کہتا ہے :
تمام زمانوں میں کوئی ایسا میدان کارزار نہ تھا کہ ہم نے وہاں پر قدم نہ رکھا ہو اور تمام افتخارات اپنے لئے مخصوص نہ کئے ہوں ۔
یہاں تک کہ سپاہ اسلام کے سپہ سالار سعد وقاص کو جوش و خروش میں لاکراس کی زبانی
کہلواتا ہے :
اس قادسیہ کی جنگ میں تلاش و کوشش اور جوش و جذبہ صرف قبیلہ تمیم نے دکھایا ہے !!

افسانہ کے اسناد کی تحقیق
ابن عساکر نے ربیع بن مطر کے بارے میں اپنے مطالب کے اسناد کو سیف بن عمر تک پہنچایا ہے اور ان کے نام لئے ہیں ۔لیکن خود سیف نے اپنے اسناد اور راویوں کو تعرف نہیں کیا ہے جس کے ذریعہ ہم ان کے وجود یا عدم کے بارے میں تحقیق و جستجو کرتے ۔

ربیع کے افسانہ کو نقل کرنے والے علما
١۔ ابن عساکر نے سند کے ساتھ اپنی تاریخ میں
٢۔ ابن حجر نے سندکے ساتھ اپنی کتاب '' الاصابہ '' میں ۔
٣۔ ذہبی نے سند کے بغیر اپنی کتاب '' تجرید '' میں ۔
٤۔ زبیدی نے سند کے بغیر اپنی کتاب '' تاج العروس '' میں ۔
٥۔ ابن بدران نے کتاب '' تہذیب تاریخ ابن عساکر '' میں ۔