ایک سو پچاس جعلی اصحاب(دوسری جلد)
 

سیف کا پانچواں جعلی صحابی نافع بن اسود تمیمی

سیف کی زبانی اسود کا تعارف
ابو بجید ،نافع بن اسود ،قطبہ بن مالک کا پوتا اور خاندان بنی عمرو تمیمی کا چشم و چراغ ہے سیف بن عمر نے نافع کے بارے میں یہ شجرہ نسب اپنے تصور کے مطابق جعل کیا ہے ۔
ابن ماکو لانے نافع کے حالات کے بارے میں اس طرح لکھا ہے :
سیف کہتا ہے : ابو بجید نافع بن اسود تمیمی نے ایرانیوں کے ساتھ جنگ میں دلاوریاں دکھانے اور رزمیہ اشعار کہنے کی وجہ سے کافی شہرت پائی ہے ۔
ابن عساکر نے بھی اس کے حالات کی تشریح میں لکھا ہے :
نافع بن اسود تمیمی جس کی کنیت ابو بجید ہے رسول اللہ ۖ کا ایک صحابی ہے اور اس نے عمر سے حدیث نقل کی ہے ،نافع نے دمشق اور عراق کے شہروں کی فتوحات میں شرکت کی ہے اور ان جنگوں کے بارے میں بہت سے رزمیہ اشعار کہے ہیں ۔

دلاوریاں
اس کے بعد ابن عساکر نافع کے ساٹھ سے زائد اشعار سیف ابن عمر سے روایت کرکے چھ قطعات میں نقل کرتا ہے اور اس کے پہلے قطعہ میں کہتا ہے :
سیف بن عمر نے روایت کی ہے کہ ابو بجید نافع بن اسود نے اس طرح شعر کہے ہیں :
مجھے اور میرے خاندان والوں کو ایسا تصور نہ کرنا کہ ہم جنگ کے شعلوں سے ڈر کر آہ و زاری کر تے ہیں !ہم نے دمشق کو فتح کرنے کے بعد دشمن کے لئے اسے آفت و بلا میں تبدیل کردیا۔
لگتا ہے کہ تم نے دمشق اور بصری کی جنگ کو نہیں دیکھا ہے کہ اس دن ہمارے دشمن خاک و خون میں کیسے غلطاں ہوئے ؟
اس دن ہم میدان کارزار میں دشمن پر طوفانی ابر کی مانند موت کی بارش برسارہے تھے ۔
ہم نے دشمن کے ہاتھ کو تمھارے دامنوں سے جدا کردیا ۔کیونکہ پناہ لینے والوں کی حمایت کرنا ہماری پرانی عادت تھی۔
اے میرے مغرور دشمن ! اس وقت جب صرف خالی نعرے سے لوگوں کی حمایت کرنا کافی نہ تھا ،تم بیچارے اور ذلیل وخوار ہوکر خاک وخون یں لت پھت پڑے تھے۔
سب جانتے ہیں کہ خاندان تمیم جنگوں میں فتح وکامرانی اور افتخارات اور دلاوریاں حاصل کرنے میں قدیم زمانے سے معروف ہے اور جنگی غنائم کو حاصل کرنا ہمارا حق ہوتا تھا۔
آزاد ہوکر ہماری پناہ میں آنے والے افراد عزیز ومحترم اور دوست ہیں اور جنھوں نے تمھارے ہاں پناہ لے لی ہے ،وہ ذلیل وخوار اور نابودہیں ۔
اس کے دوسرے رزمیہ اشعار میں یوں آیا ہے :
جس وقت گھمسان کی جنگ چل رہی تھی ،اس وقت ہماری شجاعت ،سربلندی و افتخار کے برابر کسی نے شجاعت نہیں دکھائی ۔
جنگ دمشق میں ہماری کاری ضربوں کے نتیجہ میں موت کے منڈلاتے ہوئے سایوں کے بارے میں رومیوں کے سپہ سالار ''نسطاص'' سے پوچھو ! اگر اس سے پوچھوگے تو وہ جواب میں کہے گا ، ہم وہ بہادرہیں جو ایرانیوں کے جوش وخروش کے باوجود سیلاب بن کر ان کی سرحدوں سے گزرے اور ان لوگوں پر حملہ آور ہوئے جو آرام کی زندگی بسر کررہے تھے اور وسیع زمینوں کے مالک تھے ۔
خدا نے یہی ارادہ کیا ہے کہ صرف تمیم کا خاندان سیف کا قبیلہ اپنی تلاش و کوشش سے جنگ کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لے ۔
مذکورہ دو حماسی اشعار کو ابن عساکر نے سیف سے نقل کرکے فتح دمشق میں ذکر کیاہے ۔
تیسرے رزمیہ اشعار کے حصہ کے بارے میں کہتاہے کہ :
ابو بجید ،نافع بن اسود نے اس طرح شعر کہے ہیں :
اور یہ ہم تھے جو دجلہ کی جنگ میں صبح سویرے اپنے سپاہیوں کے ایک گرواہ کے ہمراہ تلوار اور نیزوں سے دشمن پر بجلی کی طرح ٹوٹ پڑے ۔
اس دن جب تیروں کی بارش تھم گئی اور تلواروں کی باری آئی تو یہ ہماری تلواریں تھیں جودشمنوں پر ٹوٹ پڑیں اور ان کا قتل عام کرکے رکھ دیا۔
ہم انھیں دجلہ اور فرات کے در میانی بیابانوں میں نہروان تک پیچھا کرکے تہ تیغ کیا۔
چوتھے حماسی حصہ کے بارے میں ابن عساکر سیف سے نقل کرکے ابو بجید نافع بن اسود کے درج ذیل اشعار بیان کئے ہیں :
ہمارے درمیان ایسے لوگ بھی ہیں جو اندھے پن کے کاجل سے دشمنوں کی آنکھوںکا علاج کرتے ہیں اور ان کے درد بھرے سروں کو میان سے نکالی گئی ننگی تلواروں سے شفا دیتے ہیں ۔
تم ہمارے گھوڑوں کو دیکھ رہے ہو جو مسلح سواروں کے ساتھ میدان کارزار میں جولانی کررہے ہیں ؟
خدائے تعالیٰ نے میرے لئے عزت ،شرافت اور سربلندی کا گھر
عطاکیاہے ۔
میرے دوست ویاور بھی ایسے مہربان اور بخشش والے ہیں کہ ہرگز کسی پر ظلم نہیں کرتے اور ہمیشہ سخاوت ووفاداری کا دامن پکڑے رہتے ہیں ۔
ہمارے گھر میں عظمت اور عزت نازل ہوئی ہے ،جو ہرگز اس سے باہر نہیں جائے گی۔
دشمنوں کے لئے کون سا دن اس دن کے برابر سخت اور بد قسمتی والا گزرا ، جب ہمارے جوانوں نے ان کو خاک وخون میں غلطاں کرکے رکھ دیا ؟
ان کے علمدار کو ہم نے اس طرح موت کے گھاٹ اتاردیا کہ پتھروں کے نشان اس کے بدن پر نمایاں تھے!
بادشاہوں کے کتنے تاج اور قیمتی دست بند ہم نے غنیمت میں لے لئے ؟
خاندان تمیم سے تعلق رکھنے والے ہمارے جنگجو ایسے قدر ومنزلت کے مالک ہیں کہ جہاں جہاں پر قدم رکھیں گے وہاں پر خوشی ومسرت کی بہار لائیں گے۔
ہم نے دشمن کے قلب پر حملہ کیا ۔دشمن پر فتح پانے کے بعد میدان کارزار سے گزرگئے ۔اس مدت میں ہماری آنکھوں نے نیند نام کی کوئی چیز نہیں دیکھی ۔
چھ دن کی نبرد آزمائی کے بعد دشمن پر ایسی کاری ضربیں لگائیں کہ وہ پھر سر اٹھانے کے لائق نہ رہے ۔اس کے بعد ان کے جنگی ساز وسامان کو مال غنیمت کے طور پر اپنے قبضے میں لے لیا۔
اس کے بعد ہم نے کسریٰ پر حملہ کیا اور اس کی سپاہ کو تہس نہس کرکے رکھ دیا ۔
اس وسیع میدان کارزار میں ہم قبیلہ تمیم کے علاوہ کوئی ایسا اپنے وطن سے دور موجود نہ تھا جو دشمن کے جگر کو نیزوں کے ذریعہ ان کے سینوں سے چیر کر نکال لیتا۔
اس کے بعد ہم نے مدائن کی سرزمینوں پر حملہ کیا جن کے بیابان وسیع اور دلکش تھے۔ہم نے کسریٰ کے خزانوں کو غنیمت کے طور پر اپنے قبضے میں لے لیا اور وہ شکست کے بعد بھاگ کھڑا ہوا۔
طبری نے بھی سیف سے نقل کرتے ہوئے مدائن پر مسلمانوں کی فتح کی صورت حال بیان کرنے کے بعد اس حماسہ کے دوشعر شاہد کے عنوان سے درج کئے ہیں ۔ابن اثیر اور ابن کثیر نے بھی انہی مطالب کو نقل کرنے میں طبری کی پیروی کی ہے اور اس سے نقل کیاہے۔
پانچویں قطعہ کے بارے میں جو بذات خود ایک طولانی قصیدہ ہے ابن عساکر یوں بیان کرتاہے :ابو بجید نافع بن اسود یوں کہتاہے:
قبائل''معد '' (الف)اور دیگر قبائل کے منصفوں کا اعتراف ہے کہ تمیمی بڑے بادشاہوں کے برابر تھے ۔
وہ فخر و عزت ،جاہ و جلال اور عظمت والے افراد ہیں خاندان '' معد'' میں ان کی سر بلندی پہاڑ کی چوٹی کے مانند ہے ۔
وہ پناہ گاہ ہیں اور ان کے ہمسائے جب تک ان کی پناہ میں ہوں ہر قسم کی ضرورت و احتیاج سے بے نیاز ہوتے ہیں ۔
جو بھی ان کا دوست و ہمدم بن جائے اور ان کی سخاوت کے دسترخوان پر حاضر ہو جائے وہ فربہ او رچاق چوبند اونٹ کے گوشت سے اس کی مہمان نوازی کرتے ہیں ۔
کیسے ممکن ہے کہ غیر عرب خاندان تمیم سے برابری کا دعوی کریں جب کہ یہ لوگ ہرقسم کی سماجی سر بلندی اور بزرگواری کے لحاظ سے مشہور و معروف ہیں ؟
وہ حاجتمند وں اور بیچاروں کو بذل و بخشش کرکے انھیں پنجہ مرگ سے نجات دلانے میں بے مثال ہیں ۔
جب دوسروں کے ہاتھ عظمت و افتخار کی بلندی تک پہنچنے سے محروم ہوتے ہیں ،اس وقت بھی خاندان تمیم پوری طاقت کے ساتھ عظمت و سر بلندی تک پہنچنے کے لئے دراز ہوتے ہیں ۔
حاجتمند وں کی حاجت روائی اور درد مندوں کی دستگیری میں تمام مال و متاع
..............
الف)۔ حجاز کے اعراب ،جزیرہ نمائے عرب کے شمال کے باشندوں جو مختلف قبائل پر مشتمل ہیں کو ''معد'' کہتے ہیں قریش اور تمیم بھی انہی میں سے ہیں ۔
بخش دینے میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں کرتے !
یہ خاندان تمیم کے ہی شہسوار ہیں جو اپنے نجیب گھوڑوں کو پہاڑوں پر سے دوڑاتے ہوئے میدان کار زار میں پہنچادیتے ہیں ۔
ان کے گھوڑے راستے کی مشکلات کے باوجود سستی ،کمزوری اور تھکاوٹ کا اظہار نہیں کرتے یہ گھوڑے خاندان تمیم کے شہسوار وں کو مال غنیمت تک پہنچاتے ہیں اسی لئے تمیمی ہمیشہ مال غنیمت حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔
ان کے بہت سے دلاوروں نے نخلستانوں اور باغوں کو غنیمت میں لے لیا ہے۔
مال غنیمت میں خاندان تمیم کا حصہ جنگ کے سرداروں کے برابر ہوتا تھا خدائے تعالیٰ نے پہلے سے ہی خاندان تمیم کو ان نیک خصوصیات سے نوازا تھا۔
اور جب اسلام آیا،تب بھی قبائل ''معد'' کی قیادت کی باگ ڈور خاندان تمیم کے ہی ہاتھوں میں رہی اور خدا نے انھیں ان جگہوں کی طرف ہجرت کرنے کی ہدایت کی جہاں پر ان کی دنیا وآخرت کی بھلائی تھی۔
ان مقامات اور مرغزاروں کی طرف اگر عرب ہجرت نہ کرتے تو وہ عجم کے بادشاہوں کے نشیمن بن جاتے!
تمیمی اس عظیم ہجرت میں منظم گروہوں اور صفوف کی شکل میں جنگلی شیروں اور فتح و کامرانی کے ہراول دستوں کی طرح آگے بڑھتے تھے۔
(تمیمی ) شہسوار، بلند قامت اور تیز رفتار اور سرکش گھوڑوں پر پوری طرح مسلح ہوکر جنگ کے لئے آمادہ تھے، کہ
خطاب آیا: اے تمیمیو! تم سر بلندی اور بہتر زندگی کی راہ میں اچھی طرح لڑو کیوں کہ فقط تم ہی مشکلات اور سختیوں میں لوگوں کے کام آنے والے ہو !
تم ۔مشرکوں کے مقابلے میں اپنی صفوف کو منظم کرو اور ننگی تلواروں سے ان پر ٹوٹ پڑو!
اس جنگ میں تمیمیوں نے دشمنوں کو اپنی تلواروں سے ٹکڑے ٹکڑے کر کے رکھ دیا ، کیوں کہ تمیمی دلیر کبھی ناقص کام انجام نہیں دیتے ،
شہسوار ،گردو غبار میں اٹے ہوئے اپنے نیزوں اور تلواروں سے میدان کا رزار میں دشمن کی صفوں کو چیرتے ہوئے ان کے قلب پر حملہ کرتے تھے ۔
یہ کام صرف خاندان تمیم کے بہادر ،دلاور اور شجاع جوانمرد وں کے ہاتھوں انجام پاتا تھا نہ ڈر پوک اور سست مردوں کے ہاتھوں !
ابن حجر نے بھی نافع کے اس قصیدہ کے ٩اشعارسیف سے نقل کرکے اپنی بات کے شاہد کے طور پر درج کئے ہیں ،اور کہتا ہے :
سیف نے اپنی کتاب '' فتوح'' میں نافع سے بہت سے اشعار نقل کئے ہیں جس میں وہ اپنے خاندان پر افتخار کرتا ہے ۔شام و عراق کی جنگوں میں اپنی شرکت پر داد سخن دیتا ہے ،منجملہ کہتا ہے :
'' معد'' کے انصاف پسندوں اور تمام منصفوں نے گواہی دی ہے کہ صرف خاندان تمیم ہی بڑے بادشاہوں کی ذمہ داریاں نبھاسکتے ہیں اور ان کا مقابلہ کر سکتے ہیں ...۔
ابن عساکر نے نافع کے اشعار کا چھٹا بند یوں بیان کیا ہے :
ہم نے رومیوں کے'' سقس''(ساکس)رومی کو قتل کرنے کے بعد اس کی لاش کو زمین پرپھینک دیا جب کہ لنگڑی لومڑیوں نے اس کا محاصرہ کر رکھا تھا۔
اس کی لاش روم کے مرغزار میں پڑی تھی نہ کہ اس کے باپ کی ملکیت میں جہاں وہ چاہتا تھا۔
رومیوں کے ساتھ ہماری جنگ کا آغاز یہ تھا کہ عامر نے اس کے سر پر اپنی تلوار کی ایک ضرب سے کمر تک اسے دو ٹکڑے کرکے رکھ دیا !
ابن عساکر یہ چند شعر ذکر کرنے کے بعد نافع کے حالات کو دار قطنی اور ابن ماکولا سے سیف کے ذریعہ نقل کرکے اپنی بات تمام کرتا ہے ۔
لیکن طبری سیف سے ایک روایت نقل کرتے ہوئے نافع کے اشعار سے صرف درج ذیل دو شعر نقل کرتا ہے :
ہمارے سوار فوجیوں نے سمندر جیسی زیبا اور وسیع سرزمین ''مدائن'' پر قدم رکھا....
اس کے بعد ١٦ھکے حوادث کے ضمن میں جلولا کی جنگ کے بارے میں سیف سے نقل کرتا ہے ۔سیف سے ایک روایت میں جلولا کی جنگ کے بارے میں نافع سے منسوب چار شعر کو حسب ذیل نقل کرتاہے :
'' جلولا '' کی جنگ میں ہمارے پہلوانوں نے قوی شیروں کی طرح میدان کا رزار میں حملے کئے ۔
میں ایرانیوں کو چیر پھاڑ کے قتل کرتے ہوئے آگے بڑھتا تھا ،اور کہتا تھا ،مجوسیوں کے ناپاک بدن نابود ہو جائیں ۔
اس دن جب سر تن سے جدا ہو رہے تھے ،'' فیروزان '' ہمارے چنگل سے بچ نکلا اور بھاگ گیا لیکن '' مہران '' مارا گیا۔
جب ہمارے دشمن موت کے گھاٹ اتاردئے گئے تو رات کو بیابانوں کے درندے ان کی لاشوں کے استقبال کے لئے آئے ۔
ابن کثیر نے بھی انہی مطالب کو تاریخ طبری سے نقل کرکے اپنی کتاب میں درج کیا ہے ۔
ہم نے طبری کی کتاب میں مذکورہ اشعار کے چھ قطعات کے علاوہ نافع سے مربوط کوئی اور شعر نہیں پایا ،جب کہ ابن ماکولا''نافع '' کی تشریح میں کہتا ہے :
سیف نے کہا ہے کہ اس نے ایرانیوں کے ساتھ جنگ میں کافی شہرت حاصل کی ہے اور بہت سے شعر کہے ہیں ...
ابن حجر کہتا ہے:
سیف نے اس سے بہت سے اشعار نقل کئے ہیں جن میں نافع نے اپنے خاندان پر ناز کیا ہے ...
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سیف نے اپنے افسانوی سورما کے نام پر بہت سے اشعار کہے ہیں اور طبری نے اپنی عادت کے مطابق ان اشعار کو درج کرنے سے اجتناب کیا ہے ۔
ہم نے '' نافع'' کے کافی تعداد میں کہے گئے اشعار کی جستجو کی لیکن ان میں سے تھوڑے ہی اشعار حموی اور حمیری کے ہاں دستیاب ہوئے کہ ان دو عالموں نے اپنی بات کے اقتضا کے مطابق مقامات کی تشریح کرتے ہوے شاہد کے طور پر ان سے استناد کیا ہے ۔ہم ہر ایک فتح کے بارے میں سیف سے نقل کرکے خلاصہ بیان کرنے کے بعد ان اشعار کی طرف بھی اشارہ کریں گے ۔

شاعر نافع ،ایران میں
طبری نے صراحت کے ساتھ سیف کا نام لے کر فتح '' ہمدان'' ''رے'' اور ''گرگان '' کے بارے میں اپنی تاریخ میں مفصل طور پر درج کیا ہے ہم یہاں پر اس کا خلاصہ ذکر کرتے ہیں :
خلیفہ عمر نے ہمدان اور اس کے مشرق میں واقع دیگر سر زمینوں کو خراسان تک فتح کرنے کا حکم '' نعیم بن مقرن '' کے نام جاری کیا اور اسے حکم دیا کہ ان علاقوں کو فتح کرے ۔
نعیم نے اطاعت کرتے ہوئے ''رے'' کی طرف لشکر کشی کی ،اس جنگ میں گرگان کے لوگ بادشاہ کی مدد کے لئے آئے دونوں لشکر کوہ رے کے دامن میں ایک دوسرے سے نبرد آزما ہوئے نعیم اپنے فوجیوں کے ایک حصے کو چوری چھپے محاذ جنگ کے پیچھے بھیج چکا تھا ۔اس نے پوری طاقت کے ساتھ دشمن پر حملہ کیا ۔ایرانی چوں کہ آگے پیچھے دونوں طرف سے اسلامی فوج کی زد میں آچکے تھے اس لئے مقابلے کی تاب نہ لاتے ہوئے سخت شکست و حزیمت سے دو چار ہوئے اور بھاگ کھڑے ہوئے۔اس گیرودار میں بے شمار ایرانی کام آئے ۔
نعیم نے فتح پانے کے بعد غنائم جنگی کا پانچویں حصہ ''اسود بن قطبہ'' کی سرپرستی میں چند دیگر معروف کوفیوں کے ہمراہ خلیفہ کی خدمت میں مدینہ روانہ کیا ۔
جب عمر کو فتح کا پیغام پہنچا خلیفہ نے حکم دیا کہ '' نعیم '' اپنے بھائی '' سوید بن مقرن '' کو ''قومس'' کی فتح پر مامور کرے۔
سوید خلیفہ کے حکم سے ایک لشکر لے کر '' قومس '' کی طرف روانہ ہوا اور اس جگہ کو کسی قسم کی مزاحمت اور خوں ریز ی کے بغیر فتح کر لیا۔
اس کے بعد طبرستان کے علاقہ پر بھی ایک فوجی معاہدے کے تحت قبضہ کیا ۔ وہا ں سے گرگان کا رخ کیا اور '' بسطام'' کے مقام پر پڑائو ڈالا اور وہیں سے بادشاہ '' رزبان صول'' کے نام خط لکھا اور اسے تسلیم و اطاعت کرنے کو کہا ''رزبان '' نے مثبت جواب دیا اور مسلمانوں کے گرگان پر حملہ نہ کرنے کی صورت میں جزیہ دے کر جنگ سے دوری اختیار کی ۔ یہ عہد نامہ ١٨ ھ کو لکھا گیا اور طرفین میں رد و بدل ہوا۔
مذکورا بالا باتیں طبری کے بیانات کا خلاصہ تھیں:
حمیری لفظ '' رے '' کی طرف اشارہ کرکے اسی داستان کو لکھتا ہے :
.....اور ابو بجید نافع بن اسود نے ''رے'' کی جنگ میں یہ اشعار کہے تھے : کیا ہماری محبوبہ کو یہ خبر ملی کہ جو گروہ ''رے '' میں ہمارے مقابلے میں جنگ کے لئے اٹھا تھا، وہ موت کا زہر کھا کر ہلاک ہوگیا؟!
وہ دو محاذوں پر پوری قدرت کے ساتھ تیز رفتار گھوڑوں پر سوار ہو کر ہمارے مقابلے میں آئے .
ان کے گھوڑے یک رنگ ، یا سیاہ تھے یا سرخ ۔ ایسے گھوڑ ے تھے کہ بعض اوقات ہمارے حملوں کے مقابلے میں تاب نہ لاتے ہوئے فرار کو قرار پر ترجیح دیتے تھے ہم نے ان کو پہاڑ کے دامن میں ایک ایک کرکے یا دو دو کرکے پکڑ کر موت کے گھاٹ اتار دیا اور ان کو قتل کرکے اپنی تمنا پوری کی۔
خدا جزائے خیر دے اس گروہ کو جس نے دشمن کے سر پر انتقام کی تلوار ماری اور اجر دے انھیں جنہوں نے ایسا کام انجام دیا۔
حموی نے بھی ''بسطام'' اور ''گرگان'' کی فتح کے بارے میں سیف کی باتوں پر استناد کرکے ''نافع بن اسود '' کا نام لیا ہے۔ مثلاً ''بسطام اور اس کی فتح کے بارے میں لکھتا ہے:
خلیفہ عمر نے حکم جاری کیا تھا کہ ''نعیم بن مقرن'' ''رے'' اور ''قومس'' کی طرف لشکر کشی کرے اور یہ لشکر کشی ١٨و١٩ھ میں واقع ہوئی ہے۔
نعیم کا ہراول دستہ اس کے بھائی ''سوید بن مقرن '' کی سرپرستی میں ''رے '' اور ''قومس'' کی طرف روانہ ہوا ۔ چونکہ ان دونوں علاقوں کے باشندوں میں لڑنے کی طاقت نہ تھی ۔ اس لئے انہوں نے صلح کی تجویز پیش کی اور سرانجام ان کے درمیان صلح نامہ لکھا گیا۔ ابو بجید نافع بن اسود نے اس سلسلے میں یہ شعر کہے ہیں:
اپنی جان کی قسم! اس میں کسی قسم کا شک و شبہہ نہیں ہے کہ ہم میدانِ جنگ میں حاضر ہونے اور اس کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لینے میں دوسروں سے زیادہ سزاوار ہیں!
جب صبح سویرے جنگ کا بگل بجتا ہے تو یہ ہم خاندان تمیمی ہیں جو خوشی خوشی اس کا مثبت جواب دیتے ہیں۔
ہم نے ''بسطام '' کی سخت اور وسیع جنگ میں دشمن کو نابود کرنے کے لئے کمر ہمت باندھی۔
اس کام میں ہم نے اپنے نیزے گھمائے اور انھیں دشمن کے خون سے رنگین کیا۔

لفظ ''گرگان'' اور ''رے'' کے سلسلہ میں حموی کی دلیل
حموی اپنی کتاب ''معجم البلدان '' میں لکھتا ہے :
جب سوید بن مقرن نے ١٨ھمیں ''بسطام '' کی فتح سے فراغت پائی تو اس نے گرگان کے بادشاہ ''زربان صول'' کے نام ایک خط لکھا اور اسے اطاعت کرنے کا حکم دیا اور خود سپاہ لے کر گرگان کی طرف روانہ ہوا۔ زربان نے صلح کی درخواست کی اور مسلمانوں کے گرگان پر حملہ نہ کرنے کی صورت میں جزیہ دینے پر آمادہ ہوا۔ سوید صلح کو قبول کرتے ہوئے گرگان میں داخل ہوا اور صلح نامہ لکھا گیا۔ ابو بجید نافع بن اسود نے اس سلسلے مین یہ شعر کہے ہیں:
سواد نے ہمیں گرگان کی طرف بلایا، جس سے پہلے رے ہے ۔ اس کے بعد صحرا نشین گرگان کی طرف روانہ ہوئے۔
حموی شہر ''رے''کی تشریح میں لکھتا ہے کہ ابوبجید، جو لشکر میں شامل تھا''رے'' کا یوں ذکر کرتا ہے:
سواد نے ہمیں گرگان کی طرف بلایا جس کے پہلے رے ہے۔ اس کے بعد صحرا نشین اس کی طرف بڑھے ۔ ہمیں ''رے '' کی چراگاہ اور سبزہ زار جو زینت و نعمت کے سبب ہیں بہت پسند آئے۔
پوپھٹتے ان سبزوں میں عجیب رونق ہوتی ہے جو بڑے بادشاہوں کی شادیوں کی یاد
تازہ کرتی ہے.
حموی مذکورہ اشعار کو بیان کرنے کے بعد ''گرگان'' کے بارے میں تشریح کرکے اپنی بات ختم کرتا ہے.
مذکورہ مطالب کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ حموی نے ''رے '' اور ''گرگان ''کی تشریح میں سیف کی باتوں اور اس کی داستانوں پر اعتماد کیا ہے ۔ اس نے ان داستانوں کی سیف سے نقل کرکے اپنی عادت کے مطابق رزمیہ اشعار کو حذف کیا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ حموی نے سیف کی روایتوں سے ان ہی دلاور یوں کو ذکرکیا ہے جو فرضی ابو بجید اور جعلی کمانڈر سوید سے مربوط ہیں، اور سوید کو ''صیغۂ تکبیر ''سے ''سواد '' نقل کیاہے ۔ اس کے بعد اسے بلاذری اور دیگر دانشوروں کی روایتوں سے ربط دیتا ہے جنہوں نے سپاہ کی قیادت کا عہدہ دار ''عروۂ طائی '' کو بتایا ہے۔

سیف کی روایت کا دوسروں سے موازنہ
بلا ذری نے ''رے ''اور ''قومس''کی فتح کے بارے میں لکھا ہے کہ خلیفہ عمر نے اپنے کارگزار عمار یاسر کو حکم دیا کہ ''عروة بن خیل طائی'' کو ''رے '' کو فتح کرنے پر مامور کرے ۔ عروہ نے ''رے'' کی طرف لشکر کشی کی اور اسے فتح کیا۔ اس کے بعد خود مدینہ چلاگیا اور اس فتح کی نوید خلیفہ کی خدمت میں پہنچائی۔
''رے '' کی فتح کے بعد خلیفہ کے حکم سے ''سلمة الضبی'' نے سپاہ کی کمانڈ سنبھالی اور فوج کے ساتھ ''قومس'' اور اس کے اطراف کے دیگر علاقوں کی طرف لشکر کشی کی ''قومس '' کے باشندوں نے صلح کی تجویز پیش کی اور سلمہ کے ساتھ معاہدہ کیا اور پانچ لاکھ درہم جزیہ کے طور پر ادا کئے۔
بلاذری نے گرگان کی فتح کے بارے میں لکھا ہے:
خلیفہ ٔعثمان نے ٢٩ھ میں کوفہ کی حکومت پر ''سعید بن عاص اموی'' کو مقرر کیا .سعید نے گرگان کو فتح کرنے کی غرض سے اس علاقہ کی طرف فوج کشی کی اور گرگان کے بادشاہ کے ساتھ دولاکھ درہم پر صلح کی اور اس علاقے کو اپنے علاقوں میں شامل کیا .اس کے بعد سرزمین طبرستان کو بھی اپنے قبضے میں لے لیا.
ہم نے یہاں پر بلاذری کے مطالب کو خلاصہ کے طور پر بیان کیا ہے۔

موازنہ کا نتیجہ
سیف نے اپنی روایت میں سرزمین رے کے فاتح کے طور پر ''نعیم بن مقرن'' کا ذکر کیا ہے اور ''قومس'' ''طبرستان'' ''بسطام'' اور ''گرگان'' کے فاتح کے طور پر اس کے بھائی ''سوید '' کا نام لیا ہے اور ان تمام فتوحات کو ١٨و١٩ھ میں انجام پانا بتاتاہے، جبکہ دوسرے معروف اور نامور مورخین نے سرزمین ''رے'' کا فاتح ''عروة بن زید خیل طائی '' کو بتایا ہے اور ''قومس '' اور اس کے اطراف کے دیگر علاقوں کو فتح کرنے والے اس کے جانشین کا نام ''سلمةالضبی'' بیان کیا ہے اور گرگان اور طبرستان کا فاتح ''سعید اموی '' کو بنایاہے خاص کر اس موخر الذکر فتح کی تاریخ خلافت ِعثمان کا زمانہ ٢٩ھ ثبت کیا ہے !!یہ سیف اور دیگر مورخین کی روایتوں میں نمایاں اختلافات کے نکات ہیں۔
ان روایتوں کا مذکورہ سرسری جائزہ اور مختصر موازنہ انجام دینے سے یہ آسانی کے ساتھ واضح ہوجاتا ہے کہ حموی نے سیف کی روایتوںپر کس قدر اعتماد کیا ہے اور ان روایتوں اور علاقوں کی فتح کو صحیح اور معتبر جانا ہے کہ اس طرح نظم و نثر کی صورت میں سیف کی روایتوں کو قطعی سند کے طور پر اپنی کتاب میں درج کیا ہے ۔ یہاں پر ہم ایک بار پھر حموی کی تحریر پر غور کرتے ہیں.

برجان برگان!
حموی کی ''معجم البلدان''میں لفظ ''برجان'' کے بارے میں یوں لکھا گیا ہے:
مسلمانوں نے ''برجان '' کو عثمان کی خلافت کے دوران فتح کیا .ابوبجید تمیمی نے اس فتح کے بارے میں یہ اشعار کہے ہیں:
پہلے ہم نے گرگان پر حملہ کیا، ہمارے سوار دستوں کو میدان کا ر زار میں دیکھ کر اس کی حکومت متزلزل ہوکر سرنگوں ہوگئی۔
شام کے وقت جب ہم نے حملہ روکا، تو وہاں کے لوگ سرزمین روم اور برجان کے درمیان سراسیمہ ادھر ادھر بھاگ رہے تھے۔
اسی کتاب میں لفظ ''رزیق '' کے بارے میں آیا ہے:
ایران کے بادشاہ کسریٰ کے بیٹے ، یزدگرد شہریار کے قتل کا واقعہ ایک پن چکی میںپیش آیا ابوبجید نافع بن اسود تمیمی نے اس سلسلے میں یوں کہا ہے:
ہم تمیمیوں نے سراسیمہ بھاگتے ہوئے یزدگرد کے شکم کو خنجر سے چاک کرکے ہلاک کردیا ۔ ''مرو'' کی جنگ میں ہم ان کے مقابلے پر آئے ۔کیا تم گمان کرتے ہو کہ وہ تیز پنجوں والے پہاڑی چیتے ہیں!
ہم نے ''رزیق'' کی جنگ میں ان کو تہس نہس کرکے ان کی ہڈیوںکو چکلنا چور کرڈالا.
سورج ڈوبنے تک ہم ان کے میمنہ اور میسرہ پر مسلسل حملے کرتے رہے .
خدا کی قسم !اگر خدا کا ارادہ نہ ہوتا، تو ''رزیق'' کی جنگ میں دشمنوں میں سے ایک فرد بھی زندہ نہ بچتا۔

رزیق
طبری نے ''برجان '' کی فتح کے بارے میں جس کا حموی نے نام لیا ہے اور اسی طرح ''رزیق'' میں یزدگرد شہریار کے تمیمیوں کے ہاتھوں قتل ہونے کے بارے میں سیف سے کچھ نقل نہیں کیا ہے کہ ہم اس کا مقابلہ و موازنہ کرتے ۔ مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ ساسانیوں کا آخری بادشاہ یزدگردخود ایرانیوں کے ہاتھوں ماراگیا ہے۔
اگر طبری نے یزد گرد کے مارے جانے کے بارے میں سیف کی روایتوں کو اپنی کتاب میں در ج کیا ہوتا ، تو ہمیں پتہ چلتا کہ سیف نے آوارہ اور دربدر ہوئے ساسانی بادشاہ کے تمیمی دلاوروں کے خنجر کی ضربات سے مارے جانے کی کیسی منظر کشی کی ہے تا کہ اپنے افسانوی شاعر ابوبجید کے ذریعہ یزدگرد کے مارے جانے کے بارے میں شعر کہلوا کر قبیلہ تمیم کے افتخارات میں ایک اور افتخار کا اضافہ کرتا.

ابوبجید ، کتاب ''صفین''میں
یہاں تک بیان شدہ مطالب نافع کے بارے میں تھے، جو ہم نے ان علماء کے ہاں پائے ۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ نصر بن مزاحم نے بھی جنگ صفین میں ابوبجید کا نام لیا ہے اپنی کتاب ''صفین'' کے صفحہ ٥٦٤ میں لکھتا ہے:
ابوبجید نافع بن اسود تمیمی نے جنگ صفین میں درج ذیل اشعار کہے ہیں:
میری طرف سے ''علی کو درود پہنچاؤاور ان سے کہنا : جس نے آپ کا فرمان قبول کیا ، اس نے سختیوں کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھالیا ہے .
علی نے اسلام کے گنبد کو ویرانی کے بعد پھر سے تعمیر کیا ۔ یہ عمارت پھر سے کھڑی ہوکر پائیدار ہوگئی ہے۔
گویا اسلام کی ویر انی کے بعد ایک نیا پیغمبر آیا اور اس نے نابود شدہ طریقوں کو پھر سے زندہ کیا ۔
نصر اس داستان میں اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہتا ہے:
اور جب علی جنگ صفین سے واپس آرہے تھے تو نافع نے یہ اشعار کہے:
ہم نے دمشق اور اس کے اطراف کی سرزمینوں کے کتنے بوڑھے مردوں، عورتوں اور سفید بال والوں کو ان کی اولاد کے سوگ میں بٹھادیا!
کتنی جوان عورتیں اس جنگ صفین میں اپنے شوہروں کے قتل ہونے کے بعد ان کے نیزوں کی وارث بن کر بیوہ ہوچکی ہیں؟!
وہ اپنے شوہروں کے سوگ میں بیٹھی ہیں، جو انھیں قیامت تک نہیں ملیں گے ۔
ہم تمیمی ایسے جنگجوہیں کہ ہمارے نیزے دشمن کو اس طرح لگتے ہیں کہ ان کا بچنا
مشکل ہوتا ہے۔
ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ نصر ابوبجید کے رزمیہ اشعار کہاں سے لایا ہے ؟کیا نافع کانام اور اس کے اشعار سیف کے علاوہ کسی اور کی زبان پر بھی آئے ہیں؟
اس سلسلے میں ہم نصر بن مزاحم کی کتا ب ''صفین'' کی طرف دوبارہ رجوع کرتے ہیں اور اس کے صفحہ ٦١٢ پرا س طرح پڑھتے ہیں:
...''عمر وبن شمر'' سے متعلق گفتگو کے ضمن میں اس طرح آیا ہے:
جب علی صفین کی جنگ سے واپس ہوئے ، (تو عمرو بن شمرنے) اس طرح شعر کہے :
وکم قدر ترکنا فی دمشق و ارضھا...
کتنے بوڑھے مردوں ، عورتوں اور سفید بال والوں کو ہم نے ان کی اولاد کے سوگ میں بٹھادیا ؟!...تا آخر۔
یہاں تک کہ وہ صفحہ ٦١٣ پر لکھتا ہے:
اور سیف کی روایت میں آیا ہے کہ: ابو بجید نافع بن اسود نے اس طرح نغمہ سرائی کی ہے:
الا ابلغا عنی علیا تحیة ، فقد قبل ...
میرا سلام علی کو پہنچاؤ اور ان سے کہو کہ جس نے آپ کی اطاعت کی اس نے مشکلات کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھالیا ہے... تاآخر۔
یہاں پر نصر بھی اپنے مآخذ ،یعنی سیف کا کھلم کھلا نام لیتا ہے.
لہٰذا معلوم ہوتا ہے کہ سیف نے اسلام کی مشہور اور فیصلہ کن جنگوں کو بھی نہیں چھوڑا ہے اور ان جنگوں کو بھی اپنے خاندان تمیم کے افسانوی دلاوروں کے وجود سے محروم نہیں کیا ہے تا کہ اس طرح وہ ہر جنگ میں اپنے خاندان یعنی قبیلۂ تمیم کے کسی طرح افتخارات کا اضافہ کرنے کی کوشش کرے ۔ حقیقت میں سیف کے بارے میں یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ''کوئی جگہ ایسی نہیں جہاں پر اس مکار لومڑی کے نقش قدم نہ پائے جائیں''!!
اس طرح علماء اور دانشوروں نے سیف کے افسانوں اور اس کی ذہنی مخلوقات کو اپنی کتابوں میں درج کیا ہے۔ بعض اوقات ان مطالب کو سیف سے نسبت دیکر مآخذ کو کھلم کھلا بیان کرتے ہیں اور بعض اوقات اپنی روایت کے راوی کانام نہیں لیتے ۔ یہی امر سبب ہوتا ہے کہ محقق ایسی روایتوں سے دوچار ہوکر پریشان ہوجاتا ہے۔ اور یہ امور تاریخی حقائق کی تلاش و تحقیق کرنے والوں کے لئے حیرت و تعجب کا سبب بنتے ہیں، ان ہی میں ابن حجر کے وہ مطالب بھی ہیں جو اس نے اپنی کتاب ''اصابہ'' میں نافع کے حالات کے بارے میں درج کئے ہیں ۔ ملاحظہ ہو:
دار ''قطنی '' نے اپنی کتاب ''مؤلف'' میں لکھا ہے کہ ابوبجید نافع بن اسود نے عراق کی سرزمینوں کی فتح میں شرکت کی ہے اور اس سلسلے میں اس نے چند اشعار بھی کہے ہیں، من جملہ
وہ کہتا ہے:
اگر پوچھو گے تو تمہیں معلوم ہوگا کہ میرا خاندان ''اسید ''ہے اور میری اصل ، افتخارات کا منبع و سرچشمہ ہے .
اس کے بعد ابن حجر اضافہ کرتے ہوئے لکھتا ہے:
...اور سیف نے اپنی کتاب ''فتوح'' میں نافع سے بہت سے اشعار نقل کئے ہیں.
ہم اس بات کونہیں بھولے ہیں کہ سیف کی نظر میں قبیلۂ ''اسید'' جو افتخارات کا منبع اور شرافت کا معدن ہے ، حقیقیت میں وہی سیف کا خاندان یعنی قبیلۂ تمیم ہے۔
جو کچھ بیان ہوا ، اس کے پیش نظر ہم ، ادیب اور نامور عالم ''مرزبانی'' کویہ حق دیتے ہیں کہ وہ سیف کے افسانوی شاعر اور صحابی رسول ۖ، نافع بن اسود کے لئے اپنی کتاب ''معجم الشعراء '' میں جگہ معین کرے اور اس کے وجود کو ایک مسلم حقیقت تصور کرے اور اس کی زندگی کے حالات پر روشنی ڈالے اور سیف نے اس سے نسبت دیکر جو اشعار لکھے ہیں ان کو اپنی کتاب میں درج کرے۔
کتاب ''معجم الشعرائ'' تالیف مرزبانی (وفات ٣٨٤ھ ) میں مؤلف کی حیات تک پانچ ہزار سے زائد عرب شعراء کی زندگی کے حالات درج ہیں ۔لیکن اس کتاب کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ ہمیں دستیاب ہواہے اور اس کابڑا حصہ ،مؤلف کی وفات کو ایک ہزار سال سے زیادہ کا عرصہ گزرنے کی وجہ سے نیست ونابود ہوگیاہے۔اسی لئے اس میں نافع اور اس کے باپ ،اسود کے حالات نہیں پائے جاتے۔
لیکن ابن حجر نے ''مرزبانی ''کی کتاب سے سیف کے ان دو جعلی اصحاب کے اشعار نقل کرکے ان دو افسانوی شاعروں کے بارے میں ہمارے لئے مذکورہ کتاب میں موجود کمی کی کسی حد تک تلافی کی ہے ۔اگر چہ مذکورہ کتاب کسی کمی کے بغیر بھی ہم تک پہنچ جاتی تو وہ ہمیں اس بارے میں کسی صورت سے مدد نہ کرتی ،کیونکہ ''مرزبانی'' نے اکثرو بیشتر شعراء کے حالات کی تشریح اور ان کے اشعار مآخذ اور سند کا ذکرکئے بغیر اپنی کتاب میں درج کئے ہیں ۔یہ کہاں سے معلوم ہو کہ سیف کے تمام یا اکثر افسانوی شعراء اور ان کے اشعار حقیقی شعراء کے عنوان سے مرزبانی کی کتاب میں درج نہ ہوئے ہوں ؟!
ہم دوبارہ اصل مطلب کی طرف پلٹتے ہیں اور نافع کے بارے میں ابن حجر کی باتوں کا جائزہ لیتے ہیں ۔ابن حجر نے مرزبانی کی کتاب ''معجم الشعرائ'' کا حوالہ دے کر نافع کے حالات کی تشریح میں لکھا ہے:
مرزبانی کہتاہے :ابو بجید نے جس نے دوران جاہلیت اور اسلام دونوں زمانوں کو درک کیا ہے عبد اللہ بن منذر حلاحل تمیمی کے سوگ میں چند دردناک اشعار کہے ہیں ۔
اس عبد اللہ نے ،خالد بن ولید کے ہمراہ یمامہ کی جنگ میں شرکت کی ہے اور وہاں پر مارا گیاہے ۔اس (مرزبانی) نے عبد اللہ منذر کے سوگ میں نافع کے مرثیہ ''ماکان یعدل...'' کے مطلع سے درج کیاہے کہ میں (ابن حجر ) نے مذکورہ اشعار اسی عبداللہ منذر کی تشریح کے ذیل میں نقل کئے ہیں ۔
اس کے بعد ابن حجر اپنی کتاب ''اصابہ'' میں عبد اللہ منذر کی تشریح میں لکھتاہے :
''مرزبانی '' نے اپنی کتاب ''معجم الشعراء ''میں ذکر کیاہے کہ عبد اللہ منذر نے خالد بن ولید کے ہمراہ یمامہ کی جنگ میں شرکت کی اور اسی جگہ پر ماراگیا۔نافع بن اسود تمیمی ،جو خود اس جنگ میں موجود تھا ،نے عبد اللہ کے سوگ میں یہ اشعار کہے ہیں:
جاؤ ،خدا تمھیں ایسے جواں مرد سے دور نہ رکھے جو جنگ کی آگ بھڑکانے والا ،بذل وبخشش کرنے والا اور انجمنوں اور محفلوں والا انسان تھا !
تمام لوگوں میں اس جیسا مردنہ تھا اور جدوجہد اور بذل وبخشش میں اس کا کوئی مانند نہ تھا۔
تم (عبد اللہ )چلے گئے اور خاندان عمرو اور قبیلہ تمیم کے دوسرے خاندانوں کو تنہا چھوڑ گئے تا کہ وہ نیازمندی اور بیچارگی کے وقت فخر کے ساتھ تمھارا نام زبان پر لائیں ۔
اس شعر میں سیف کے قبیلہ تمیم کے بارے میں خاص کر اس کے اپنے خاندان بنی عمرو کے بارے میں افتخارات کا اظہار واضح طور سے مشہود ہے ۔
اسی طرح ابن حجر نے ''مرزبانی ''کی کتاب سے نقل کرکے نافع بن اسود کے حالات کی تشریح میں مندرجہ ذیل دوشعر اور درج کئے ہیں :
جنگی غنائم کی کتنی بڑی مقدار ہمارے ہاتھ آئی جب کہ ہم بلند قامت گھوڑوں پر سوار تھے۔
کتنے بہادروں کو ہم نے تلوار کی ضرب سے موت کے گھاٹ اتاردیا اور لاش خور ، ان کی لاشوں پر اچھل کود کررہے تھے۔
''ابن حجر''،''مرزبانی'' کی تحریر اور اس کی کتاب میں درج کئے گئے اشعار پر اعتماد کرتے ہوئے عبد اللہ منذر حلاحل کو اصحاب رسول ۖکی فہرست میں قرار دیتاہے اور اس کی زندگی کے حالات پر روشنی ڈالتاہے ،جبکہ کسی بھی دوسرے تاریخی مآخذ اور عربوں کے شجرہ نسب میں اس کا نام کہیں ذکر نہیں ہواہے ۔یہ کہاں سے معلوم ہو کہ یہ عبد اللہ بھی سیف کے دوسرے افسانوی سورماؤں کی طرح اس کاجعل کردہ اور خیالی کردار نہ ہو؟
ہم نافع کے بارے میں گفتگو کا خاتمہ ابن عساکر کی اس بات سے کرتے ہیں جہاں وہ اپنی بات کے آغاز پر نافع کے بارے میں لکھتاہے :
اس شاعر نے رسول خدا ۖ کازمانہ درک کیا ہے اور آنحضرت ۖکے حضور
پہنچاہے :
ہمیں ابن عساکر کی اس بات کی کوئی دلیل نہیں ملی ،صرف نافع کے اشعار کے پانچویں بند میں آیاہے :
صدر اسلام میں ایسے پیشرو تھے،جو اپنی مہاجرت میں عظمت وافتخار سے سربلند ہوکر مھاجرین کے مقام تک پہنچاہے۔
ابن عساکر کا دوسرا دعویٰ یہ ہے کہ نافع نے خلیفہ عمر سے حدیث نقل کی ہے ۔
ہمیں اس سلسلے میں سیف کے جعلیات میں نافع کی زبانی عمر کی حدیث نام کی کوئی چیز نظر نہیں آئی۔

روایت کی تحقیق
نصر بن مزاحم ،ابن ماکولا ،ابن عساکر اور ابن حجر جیسے علماء ودانشور ،نافع کے بارے میں اپنی بات کو بلاواسطہ سیف سے نقل کرتے ہیں اور اس سلسلے میں سیف کے کسی راوی یا راویوں کا نام نہیں لیتے اور صرف اس پر اکتفا کرتے ہیں کہ :
''سیف کہتاہے ....'' اور ان علماء نے دار قطنی سے نقل کرتے ہوئے بھی اس روش کی رعایت کی ہے۔
لیکن ابن عساکر جہاں پر فتح دمشق کے بارے میں نافع کے اشعار کو اپنی کتاب میں سیف سے نقل کرتاہے وہاں سیف کے راویوں کانام اس صورت میں لیتاہے ۔
سیف نے ''ابو عثمان '' سے اور اس نے ''خالد'' و''عبادہ'' سے یوں نقل کیاہے ....
اور اس طرح حدیث کے راویوں کاذکر کرتاہے ۔
ان راویوں کی تحقیق کے سلسلے میں قابل ذکر بات یہ ہے کہ جس ابو عثمان کا سیف نے ذکر کیا ہے ، در حقیقت یہ '' یزید بن غسان '' کے لئے سیف کی جعل کردہ کنیت ہے ۔ہم نے سیف کے اسناد کی تحقیق کے دوران اسی کتاب کی پہلی جلد میں اس نام کے سلسلہ میں یہ ثابت کیا ہے کہ اس قسم کے کسی شخص کا حقیقت میں ہر گز کوئی وجود نہیں ہے اور یہ سیف کا جعلی راوی ہے ۔اس کے علاوہ '' خالد '' اور ''عبادہ'' دونوں مجہول الھویہ ہیں ۔
تاریخ طبری میں نافع کے بارے میں سیف سے دو روایتیں نقل ہوئی ہیں جن میں چند راویوں کا نام لیا گیا ہے کہ یہ نام حدیث اور رجال کی کتابوں میں پائے جاتے ہیں حقیقت میں سیف ان کا نام لے کر دوسرے موارد کی طرح یہاں پر بھی اپنے جھوٹ پر پردہ ڈالنے کے لئے ان حدیثوں کو حقیقی راویوں سے منسوب کرتا ہے ۔اور ہم بھی اس بات کی تاکید کرتے ہیں کہ سیف کی دروغ بافی کے گناہ کو ان راویوں کی گردن پر نہ ڈالیں ،خاص کر جب کہ سیف وہ تنہا شخص ہے جو ان راویوں پر اس قسم کی تہمتیں لگاتاہے۔

بحث کا خلاصہ
قطبہ بن مالک تمیمی عمر ی کا پوتا ابو بجید نافع بن اسود ایک افسانوی صحابی ہے جسے سیف نے ایک قوی اور مشہور شاعر کی حیثیت سے پیش کیا ہے ۔
اسے یمامہ کی جنگ میں خالد بن ولید کے ساتھ دکھایا ہے '' عبد اللہ حلاحلی تمیمی '' کے سوگوار کی حیثیت سے پیش کیا ہے دمشق اور بصری کی فتوحات میں اس کی شرکت دکھائی ہے اور ان تمام واقعات کے بارے میں اس کی زبان سے اشعار ذکر کئے ہیں ۔
اس نے قادسیہ اور مدائن کی جنگیں دیکھی ہیں اور ان سے ہر ایک کے لئے دلفریب رزمیہ اشعار لکھے ہیں ۔
رومیوں کے ساتھ جنگ کے بارے میں ایک شعلہ بار قصیدہ اور '' جلولا'' و ''رے '' کی جنگوں کے بارے میں رزمیہ اشعار بھی اس کے نام درج ہیں ۔
سیف کی روایتوں کے مطابق گرگان ،گیلان اور برجان کی جنگوں کے بارے میں بھی اس نے زیبا اشعار کہے ہیں اور اپنے قبیلہ تمیم کے بارے میں دلاوریوں اور افتخارات کے قصیدہ لکھے ہیں ؛

نافع کے افسانہ کا سر چشمہ
ان تمام افسانوں کا سر چشمہ سیف کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے لیکن ان افسانوں کی اشاعت اور پھیلائو میں درج ذیل دانشوروں اور علماء نے اپنی اپنی نوبت کے مطابق ابو بجید نافع بن اسود کی داستان کو بلا واسطہ یا با واسطہ سیف سے نقل کرکے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے ۔
١)۔ نصر بن مزاحم ( وفات ٢١٢ھ )
٢)۔ دار قطنی ( وفات ٣٨٥ھ )
٣)۔ ابن ماکولا ( وفات ٤٧٥ھ )
ان تینوں علماء نے صراحت سے کہا ہے کہ نافع کی داستان انھوں نے سیف سے نقل کی ہے
٤)۔ ابن عساکر (وفات ٥٧١ھ) اس نے اپنے مطالب کو سیف اور ابن ماکولا سے نقل کیا ہے
٥)۔ طبری ( وفات ٣١٠ھ ) اس نے سیف سے مطالب نقل کرکے ان کے اسناد کا بھی ذکر کیا ہے.
٦)۔ ابن اثیر (وفات ٦٣٠ھ )
٧)۔ ابن کثیر (وفات ٧٧٤ھ)
٨)۔ ابن خلدون (وفات ٨٠٨ھ)
ان تین دانشوروں نے بھی نافع کی داستان کو طبری سے نقل کرکے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے ۔
٩)۔ مرزبانی (وفات ٣٨٤ھ)
١٠)۔ یاقوت حموی ( وفات ٦٢٦ھ)
١١)۔ حمیری (وفات ٩٢٠ھ)
نافع کے بارے میں جن مطالب کو با واسطہ یا بلا واسطہ مذکورہ بالا دانشوروں نے نقل کیا ہے مؤخرالذکر تین علماء نے بھی اپنی روایت کے مآخذ کی طرف اشارہ کئے بغیر ان ہی مطالب کو اپنی کتابوں میں نقل اور درج کیا ہے ۔

نافع کے بارے میں سیف کے افسانوں کے نتائج
سیف نے مالک تمیمی کے پوتے بو بجید نافع بن اسود کو اپنے خیال میں خاندان بنی عمرو تمیم سے خلق کیا ہے ،اسے ایک شریف ،شاعر اور ایک صحابی کی حیثیت سے ذکر کرکے خاندان تمیم کے لئے فخر و مباہا ت اور سربلندی کا سبب قرار دیا ہے ۔
اسے بالکل اسی طرح امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کے وفادار اور ثابت قدم صحابیوں میں شمار کیا ہے ۔ جیسے اس سے پہلے اس کے قبیلے کے بھائی قعقاع بن عمرو کو وقت کے نامور سورما اور دلاور کے طور پر خلق کرکے حضرت علی علیہ السلام کے دوستدارکی حیثیت سے ذکر کیا تھا ۔چوں کہ ہم نے حدیث اور رجال کی کتابوں کے علاوہ دیگر مأخذ میں کافی جستجو اور تحقیق کے باوجود ان افسانوی باپ بیٹے کا سیف کی احادیث کے علاوہ کہیں نام و نشاں نہیں پایا ۔ اس لئے ان کو سیف کے جعلی اور افسانوی اشخاص میں شمار کرتے ہیں ۔
سیف جو اپنے قبیلے اور خاندان کے افتخارات کے علاوہ کسی اور چیز کی فکر نہیں کرتا ،اپنے افسانوی شاعر کے ذریعہ اپنے قبیلہ تمیم بالاخص خاندان ''اسید'' وبنی عمرو کے بارے میں ستائشوں کے دلخواہ قصیدے لکھواکر ان کو سر بلندی اور شہرت بخشتاہے اور نافع کے باپ ''اسود بن قطبہ'' کی زبان پر جاری کرائے گئے اشعار میں بھی انہی مقاصد کی پیروی کرتاہے ۔
غور کیجئے کہ ،وہ کس طرح اپنے خاندان کے حق میں داد سخن دیتے ہوئے خود ستائی کرتاہے ، ملاحظہ ہو:
حجاز کے تمام منصفوں نے اس کی گواہی دی اور اعتراف کیا ہے کہ خاندان تمیم دنیا کے عظیم بادشاہوں کے برابر ہے!
یہ تلاش کوششیں ،خاندان تمیم کی سخاوت وبخشش کا نتیجہ ہے نہ کہ سست اور کمزور اشخاص کا۔
خدائے تعالیٰ نے ایسا ارادہ کیاہے کہ صرف قبیلہ تمیم کے خاندان بنی عمرو کے افراد دشمنوں کے حملوں کا مقابلہ کرکے انھیں دور کریں ۔
قبائل تمیم کے تمام افراد بخوبی جانتے ہیں کہ میدان جنگ میں حاضری اور غنائم کو حاصل کرنے میں قیادت وسرپرستی کی باگ ڈور قدیم زمانے سے قبیلہ اسید کے خاندان بنی عمرو ہی کے ہاتھوں میں تھی۔
یہ اور ان سے کہیں زیادہ اشعار کو سیف نے ان دو شاعر باپ بیٹوں کی زبان پر جاری کیاہے ۔اور ان کے ذریعہ قبیلہ تمیم اور اسید کے خاندان بنی عمرو کی اسی طرح ستائش کی ہے جیسے اس سے پہلے اس نے خاندان تمیم کے اپنے دو بے مثال افسانوی سورما،''قعقاع''و''عاصم'' کی جنگوں میں ان کی تعجب خیز شجاعتوں اور دلاوریوں کو دکھاکر مالک تمیمی کے خاندان کو قبیلہ تمیم کے تمام افتخارات کا سرچشمہ ثابت کیاتھا اسے اپنے قبیلے کا چمکتا ستارہ بناکر پیش کیاتھا۔
اس قابل فخر خاندان تمیم کے افراد کا جس طرح سیف نے تصورکیا ہے ،اس کا اندازہ اس کے مندرجہ ذیل شجرہ نسب کے خاکہ سے کیا جاسکتاہے :
مالک تمیمی
عمرو
قطبہ
قعقاع
عاصم
اسود
اعور
عمرو
نافع
سیف نے اپنے اسی خیالی خاندان میں چار اصحاب وجنگی سردار ،دو تابعین،چھ رزمیہ شعراء اور احادیث کے راوی جعل کئے ہیں ۔
اس قبیلہ کے لئے سیف کے جعل کئے گئے مذکورہ فخرومباہات کے علاوہ اس نے خاندان تمیم سے پیغمبر اسلام ۖ کے لئے چند منہ بولے بیٹے بھی خلق کرکے اس خاندان کے افتخارات میں چارچاند لگائے ہیں کہ انشاء اللہ ہم اس موضوع پر الگ سے بحث وتحقیق کریں گے۔
قارئین محترم سے گذارش ہے کہ تاریخ ،حدیث ،انساب ،ادبیات،طبقات صحابی،شعرائ، رجال اوراخبار واحادیث کی کتابوں کا خود بھی مطالعہ کرکے دیکھیں کہ کیا سیف کی احادیث اور اس کے افسانوں کے علاوہ بھی کہیں اس افسانوی خاندان کا نام ونشان ملتاہے ؟!