ایک سو پچاس جعلی اصحاب(دوسری جلد)
 

اسود بن قطبہ، سرزمین شام میں
جو کچھ ہم نے یہاں تک بیان کیا ہے وہ ابو مفزر کے رزمیہ اشعار اور خالد کے ساتھ عراق کی جنگ میں اس کے بارے میں سیف کے بیان کردہ مطالب تھے۔ اس سلسلے میں اس کے بہت سے اشعار ہم نے ذکر نہیں کئے ہیں۔
اب ہم سیف کے اس جعلی صحابی کو شام کی جنگوں میں اپنے رزمیہ اشعار کے ساتھ تاریخ ابن عساکر میں ملاحظہ کرتے ہیں کہ یہ عالم ''اسود'' کے حالات میں صراحت کے ساتھ سیف کا نام لے کر کہتا ہے:
سیف بن عمر کہتا ہے کہ اسود بن قطبہ نے یرموک کی جنگ میں شرکت کی ہے اس کے بعد اس نے قادسیہ کی جنگ میں شرکت کی ہے۔ وہ جنگ یرموک کے بارے میں اپنے اشعار میں یوں تعریف کرتا ہے: ....
اس کے بعد ابن عساکر، اس کے اشعار میں سے تقریباً٦ ١،اشعار کو تین حصوں میںا پنی کتاب میں درج کرتا ہے کہ ابو مفزر ان اشعار میں یرموک کی جنگ، ہر اکلیوس کی شکست اور اسلامی سپاہیوں کے ہاتھوں رومیوں کے بے رحمانہ قتل عام کاذکر کرتا ہے ۔ اور قبیلہ بنی عمرو کے مقا بلے میں دشمن کی فوج کی کثرت اور ان کی بے لیاقتی کا مذاق اڑاتا ہے ۔ ان کے کشتوں کے پشتے لگا دینے ، ان کے تمام افراد کو خاک و خون میں لت پت کرنے اور زمین کو رومیوں کے خون سے سیراب کرکے اپنے دلوں کو آرام بخشنے پر داد سخن دیتا ہے. سر انجام نحویوں کی روش کے مطابق ''عمر ووزید '' کو اپنے مطالب پر گواہ قرار دیتا ہے .لیکن ''عمرو و زید کو گواہ قرار دینا بذات خود مذکورہ رزمیہ اشعار کا ان جنگوں کی روئیداد کی تاریخ کے بعد کہے جانے کی واضح اور قطعی دلیل ہے۔اور اس کی وجہ یہ ہے کہ شہر کوفہ و بصرہ کے عملی مراکز قرار پانے کے بعد عربی ادب کے گروہ اور اس زبان کے صرف و نحو کے قواعد نے شہرت پائی اور اسی زمانے سے لفظ ''زید و عمرو '' کو عربی زبان کے نحو کے قواعد میں مثال کے طور پر لانا رائج ہوا جیسے کہتے تھے:
''ضرب زید عمرا '' یا ''جاء زید ثم عمرو '' یا ان اکرمت زیدا ''لأکرمت عمرا''۔اس طرح ''زید و عمرو '' کو فاعل و مفعول اور مبتداء و خبر کے لئے و سیلہ قرار دیتے تھے۔ تدریس کے اس طریقہ کارنے عام مقبولیت حاصل کرکے نمایاں شہرت پائی اور عربی زبان کی کتابوں میں ثبت اور تدریس میں مورد استفادہ قرار پایا.
لیکن صدر اسلام کی فتوحات میں یہ رسم نہیں تھی کہ ''زید و عمرو'' کا نام لیا جاتا. بلکہ سخن کے مخاطب ان کی اپنی کنیزیں، قبیلہ یا خاندان ہوتے تھے۔
ابن عساکر نے یرموک کی جنگ سے مربوط مذکورہ رزمیہ اشعار کے تیسرے قطعہ کو اپنی تاریخ کی کتا ب ''تاریخ دمشق'' میں نقل کیا ہے اور ابن کثیر نے بھی انہی مطالب کو اپنی تاریخ میں ثبت کیا ہے۔
ہم نے ان مطالب کو اس کیفیت میں سیف کے علاوہ کہین نہیں پایا جبکہ دوسرے راویوں سے جنگ یرموک کے بارے میں صحیح اور متواتر روایتیں دستیاب ہیں اور ابن عساکر نے بھی ان روایتوں کو اپنی تاریخ میں ، اور بلاذری نے اپنی کتاب ''فتوح البلدان'' میں درج کیاہے اور یہ سب سیف کی روایتوں سے اختلاف رکھتی ہیں۔
طبری نے یرموک کی خبر کے بارے میں سیف کی روایتوں کو نقل کیا ہے لیکن اس کے رزم ناموں کو اپنی روش کے مطاق در ج نہیں کیا ہے۔

جستجو
ابو مفزر جیسے شخص کے رزمی اشعار صرف سیف کے ہاں پائے جاتے ہیں ، جبکہ دوسرے راوی نہ ابو مفزر کو جانتے ہیں نہ انھیں اس کے رزمیہ اشعار کی کوئی خبر ہے.اگر سیف کے ان اشعار پر غور و خوض کیا جائے تو بڑی آسانی کے ساتھ یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ سیف اسی کوشش میں ہے کہ اپنے آپ کو ایک داخلی و نفسیاتی رنجش و غم و غصہ سے نجات دے اور اپنے خاندانی تعصبات کو اس قسم کے ا شعار کہہ کر ٹھنڈا کرے اور اپنے دل کو تسکین بخشے اور اپنے قبیلہ ''خاندان بنی عمرو '' کے لئے فخر و مباہات کے نمونے تخلیق کرے ملاحظہ ہو ، کہتا ہے :
عمر و و زید جانتے ہیں کہ جب عرب قبائل ہمارے جاہ و جلال سے خوف زدہ ہوتے ہیں تو ڈر کے مارے بھاک کھڑے ہوتے ہیں.پھر ہم آسانی کے ساتھ ان کی سرزمینوں پر قبضہ جمالیتے ہیں۔
ہم نے یرموک میں اس قدر تاخیر کی تا کہ رومی ہمارے ساتھ لڑنے کے لئے خود کو آمادہ کرسکیں ، پھر ہم نے ان پر حملہ کرکے انھیں تہ تیغ کیا اور اپنی پیاسو ان کے خون سے بجھائی !
کیا تم نہیں جانتے کہ ہم نے یرموک میں ہر کلیوس کے جنگی دستوں کا کوئی پاس نہیں کیا اور انھیں مکمل طور پر تہس نہس کرکے رکھدیا؟
یہاں پرسیف اس احتمال سے کہ کہیں ان اشعار کے بارے میں قارئین یہ تصور نہ کریں کہ اسلام کے یہ سپاہی مھاجر وانصار تھے اور انھوں نے تجربہ کار اورجنگ آزمودہ رومیوں کا کوئی خوف نہ کیا ! لہٰذا اس شبہہ کو دور کرنے کی کوشش کرتاہے اور ابو مفزر کی زبانی یہ شعر کہتاہے:
یہ خاندان بنی عمرو اور قبیلہ تمیم کے افراد سیف خود بنی عمرو سے تھا تھے جو رومیوں کے مقابلے میں نبرد آزما ہوئے کیوں کہ وہ میدان جنگ کے ماہرجنگجو تھے ۔ ایسے جنگجو جو میدان کارزار میں کبھی تلوار وں کی جھنکار اور خوں ریزی سے خائف نہیں ہوتے تھے ،بلکہ مشکلات اور سختیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے ہیں ۔
بنی عمر و کے خاندان میں قوی ہیکل اور دلیر سردار پائے جاتے ہیں جو خطر ات کے مقابلے میں پہاڑ کی طرح ثابت قدم رہتے ہیں ۔
ہم خاندان بنی عمرو نے میدان کارزار میں بارہا دشمن کے مرکز پر حملہ کرکے ان پر خوف و دحشت طاری کی ہے ۔
یہ ہم خاندان بنی عمرو تھے جنھوں نے یرموک کی جنگ میں دشمن کی منظم صفوں کو چیر تے ہوئے آگے بڑھ کر رومیوں کے جنگل میں پھنسے اسلام کے سپاہیوں کو رہا ئی دلائی۔
اس کے بعد دعا کی صورت میں کہتا ہے :
خدا ایسا دن نہ دکھلائے جب ہر ا کلیوس کے سپاہی اپنے مقابلے میں خاندان تمیم کے بہادروںاور دلاوروں کو نہ پائیں ،تاکہ وہ ہماری کاری ضربوں کو کبھی فراموش نہ کر سکیں !

سیف کے افسانہ کا نتیجہ
یہ شعلہ بار رجز خوانیاں اور رزم نامے ہیں جو سیف کے جعلی پہلوانوں کی شجاعتوں اور دلاوریوں کی تائید کرتے ہیں ۔اس طرح سیف قارئین کو خاندان تمیم کے ابو مفزر ،اسود بن قطبہ جیسے رزمی شاعر اور رجز گو کے وجود کو قبول کرنے پر مجبور کرتا ہے ۔

ابو مفزر ،عراق اور ایران میں
طبری ١٤ھ کے حوادث کے ضمن میں سیف سے نقل کرتے ہوئے لکھتا ہے :
خلیفہ عمر نے قادسیہ کی جنگ کے بعد اس جنگ کے مامور جنگجوئوں کو انعام و اکرام سے نوازا اور ابو مفزر کو '' دار الفیل '' نام کا ایک گھر یا زمین کا ٹکڑا عطا کیا
مزید ١٦ھ کے ضمن میں بہر سیریا '' ویہ اردشیر'' کی فتح کی خبر کو سیف سے نقل کرکے خلاصہ کے طور پر لکھا ہے :
اسلام کے سپاہیوں نے ہرسیر ( یا ویہ اردشیر ) کے اطراف میں جو مدائن کسریٰ کے نزدیک سے اور پادشاہ ایران جہا ں رہتا ہے پڑائو ڈالا۔
شہر کو مسلمانوں کی دسترس سے محفوظ رکھنے کے لئے اس کے چاروں طرف ایک گہری خندق کھود ی گئی تھی اور محافظ اس کی حفاظت کرتے تے ،لشکر اسلام نے اس شہر کا محاصرہ کیا ،بیس عدد سنگ انداز منجنیقوں کے ذریعہ شہر پر زبر دست پتھر ائو ہو رہا تھا۔
اسلامی سپاہیوں کی طرف سے شہر و یہ اردشیر پر دبائو اور محاصرہ کے طولانی ہونے کی وجہ سے محاصرہ میں پھنسے لوگ بری طرح قحط زدہ ہو گئے اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ کتے اور بلیوں کو کاٹ کاٹ کر کھانے پر مجبور ہوئے ۔
سیف، انس بن جلیس سے نقل کرکے کہتا ہے :
جب ویہ اردشیر پر ہمارا محاصرہ جاری تھا اسی حالت میں ایران کے پادشاہ کی طرف سے ایک ایلچی ہمارے پاس آیا اور اس نے کہا:پادشاہ کہتاہے:کیاتم لوگ اس شرط پر صلح کرنے پر راضی ہوکہ دجلہ ہماری مشترک سرحد ہو ،دجلہ کے اس طرف کی زمین اور پہاڑ ہمارے اور دجلہ کے اس طرف کی زمین تمھاری ہو؟ اگر اس پر بھی سیر نہیں ہوتے تو خدا تمھارے شکموں کو کبھی سیر نہ کرے !!
ایران کے پادشاہ کے ایلچی کی باتوں کے سننے کے بعد مسلمان فوجیوں میں سے ابو مفزر اسود بن قطبہ آگے بڑھا اور پادشاہ کے ایلچی کے سامنے کھڑا ہوا اور اس سے ایک ایسی زبان میں بات کی کہ نہ وہ خود جانتاتھا کہ کیا کہہ رہاہے اور نہ اس کے ساتھی!حقیقت میں وہ فارسی زبان نہ جاننے کے باوجود پادشاہ کے ایلچی سے فارسی میں بات کررہاتھا!!
پادشاہ کا ایلچی ابو مفزر کی باتوں کو سننے کے بعد واپس چلاگیا اور تھوڑی ہی دیر میں لوگوں نے دیکھا کہ ایرانی سپاہی تیزی کے ساتھ دریائے دجلہ کو عبور کرکے اس کے مشرقی علاقہ میں مدائن کی طرف پیچھے ہٹے ۔مسلمانوں نے ابو مفزر سے سوال کیا :آخر تم نے پادشاہ کے ایلچی سے کیاکہا؟کہ خدا کی قسم وہ سب فرار کرگئے؟!ابو مفزر نے جواب میں کہا:قسم اس خدا کی جس نے محمد ۖ کو بھیجاہے ،مجھے خود بھی معلوم نہیں کہ میں کیا کہہ رہاتھا!صرف اس قدر جانتاہوں کہ خود بخود میری زبان پر کچھ کلمات جاری ہوئے ۔امید رکھتاہوں جو کچھ میں نے کہا ہوگا وہ ہمارے فائدے میں ہوگا۔
سعد وقاص اور دیگر لوگوں نے بھی ابو مفزر سے پادشاہ کے ایلچی سے اس کی باتوں کے معنی پوچھے لیکن ابو مفزر خود ان کے معنی سے بے خبر تھا !
اس کے بعد سعد نے حملہ کا حکم جاری کیا ۔لیکن اس بڑے شہر سے ایک آدمی بھی اسلامی سپاہ سے لڑنے کے لئے آگے نہیں آیا ،صرف ایک آدمی نے فریاد بلند کی اور امان کی درخواست کی ۔ مسلمانوں نے اسے امان دے دی ۔اس کے بعد اس مرد نے کہا:شہر میں داخل ہوجاؤ،یہاں پر کوئی فوجی موجود نہیں ہے جو تمھارا مقابلہ کرے ۔
اسلامی فوج شہر میں داخل ہوئی ۔چند بے پناہ افراد کے علاوہ وہاں پر کسی کو نہ پایا ،جنھیں انھوں نے اسیر بنایا۔اسیروں سے پادشاہ اور اس کے لشکر کے بارے میں سوال کیا کہ وہ کیوں فرار کرگئے ۔انھوں نے جواب میں کہا: پادشاہ نے تم سے جنگ کی راہ ترک کرکے صلح کرنے کا پیغام بھیجا تھا۔لیکن تم لوگوں نے جواب میں کہاتھا''ہمارے درمیان تب تک ہرگز کوئی معاہدہ نہیں ہوسکتا جب تک ہم افریدون علاقہ کا شہدا اور سرزمین کوثی کا چکوترانہ کھا لیں !'' پادشاہ نے آپ کا پیغام سننے کے بعد کہا:افسوس ہوہم پر!ان کی زبان سے فرشتے بولتے ہیں!! اس کے بعد وہ یہاں سے دورترین شہر کی طرف بھاگ گئے ۔
یہ وہ مطالب ہیں جنھیں طبری نے سیف سے نقل کیاہے ۔البتہ سیف نے جو اشعار اپنے افسانوی سورمااسود کی زبانی بیان کئے ہیں ان کو طبری نے نقل نہیں کیاہے ۔ابن اثیر اور ابن کثیر نے بھی انہی مطالب کو طبری سے نقل کیاہے ۔ابن عساکر نے بھی ان مطالب کو ابو مفزر کی تشریح کے سلسلے میں صراحت کے ساتھ سیف کے نام لے کر اپنی تاریخ میں درج کیاہے اور آخر میں ابو مفزر کی زبانی سیف کے رزمیہ اشعار کے تین قطعے بھی نقل کئے ہیں ۔
ان اشعار میں سیف نے ابو مفزر کی زبانی ویہ اردشیر کی فتح کی وضاحت کرتے ہوئے کہاہے :
یہ شہر صرف چند فارسی کلمات کے ذریعہ فتح ہواہے ،جنھیں خدائے تعالیٰ نے ابو مفزر نامی ایک عرب کی زبان پر جاری کیا!
اور خدانے صرف مجھے ابو مفزر کو صرف اس ذمہ داری کی انجام دہی کے لئے پیدا کیاہے ۔
دشمن خوف ووحشت سے اپنی زبان دانتوں تلے دباتے ہوئے اپنے سامنے موت کے سائے منڈلاتے دیکھ کر ہلاکت ورسوائی کے گڑھے میں گرگئے۔
اس کے بعد ابو مفزر اسی جگہ سے یعنی مدائن ،ویہ اردشیر کے فتح شدہ شہر سے مکہ ومدینہ والوں خاص کر خلیفہ وقت ابا حفص عمر کو نوید بھیجتے ہوئے کہتاہے:
خلیفہ مطمئن رہیں ،یہ میں ہوں ! ابو مفزر جو ہمیشہ دشمنوں کے ساتھ پیکار کے لئے آمادہ ہے۔
یہ میں ہوں !جو ان کی صفوں کو چیرنے کا افتخار حاصل کرتاہوں ۔
یہ میں ہوں !جس نے خدا کی طرف سے زبان پر جاری کئے گئے کلمات کی بناء پر ویہ اردشیر کو فتح کرکے کسریٰ کا موت کے گھاٹ تک پیچھا کیااور.....
حموی لفظ''بہرسیر'' کے بارے میں لکھتاہے :
ابو مفزر بہر سیر کی فتح کے بارے میں یوں کہتاہے ....
اس کے بعد ابن عساکر کے نقل کئے گئے اشعار میں سے تین اشعار کو نقل کرتاہے اور کہتاہے کہ :اس سلسلے میں اس نے بہت سارے اشعار کہے ہیں اس کے بعد ویہ اردشیر کی داستان کو اس طرح شروع کرتاہے :
سیف کی کتاب '' فتوح ''میں آیاہے .....
حمیری نے بھی اپنی کتاب ''الروض المعطار '' میں لفظ''مدائن '' کے بارے میں سیف سے روایت نقل کرتے ہوئے لکھاہے :
قعقاع بن عمرو نے اپنے اشعار میں کہاہے :
ہم نے شہر ویہ اردشیر کو صرف اس کلام کے ذریعہ فتح کیا جسے خدا نے ہماری زبان پر جاری کیاتھا.....
اسی طرح اشعار کو آخر تک بیان کرتاہے جنھیں ہم نے قعقاع کے حالات میں اس کتاب کی پہلی جلد میں درج کیاہے ۔
اس کے بعد حمیری مزید کہتاہے :
اسود بن قطبہ نے دریائے دجلہ سے مخاطب ہوکر کہا:
اے دجلہ! خدا تجھے برکت دے ۔اس وقت اسلام کے سپاہی تیرے ساحل پر لشکر گاہ تشکیل دے چکے ہیں ۔خدا کا شکر ادا کرکہ ہم تیرے لئے عطا کئے گئے ہیں ۔لہٰذا مسلمانوں میں سے کسی ایک کوبھی نہ ڈرانا۔ وہ لفظ ''افریدون '' کے بارے میں لکھتاہے :
''افریدون'' عراق میں مدائن کے نزدیک ایک جگہ ہے ۔انس بن حلیس نے کہاہے کہ ہم نے اس زمانے میں ویہ اردشیر کو اپنے محاصرے میں لے لیاتھا .....
اور داستان کو آخر تک بیان کرتے ہوئے کہتاہے :
جب تک علاقۂ افریدون کا شہد نہ کھالیں.....

سیف کی روایتوں کا دوسروں سے موازنہ
جو کچھ یہاں تک کہاگیا وہ سیف بن عمر کے ابو مفزر اور اس کے کلام کے ذریعہ شہر ویہ اردشیر کی فتح کے بارے میں جعل کئے گئے مطالب ہیں ۔اور اس کے یہی افسانے مسلمہ سند اور تاریخی متون کے عنوان سے شعرو ادب ،تاریخ اور اسلام کے سیاسی اسناد کی کتابوں میں درج ہوگئے ہیں کہ ہم نے چند نمونوں کی طرف اشارہ کیا،جب کہ دوسرے مؤرخین ،جو سیف پر اعتماد نہیں کرتے ،جیسے بلاذری اور ابن قتبہ دینوری نے ویہ اردشیر کی فتح کو اس سے مختلف صورت میں ذکرکیاہے جو سیف کی روایتوں سے مطابقت نہیں رکھتے ،انھوں نے لکھاہے کہ ویہ اردشیر کی فتح ایک شدید جنگ اور طولانی محاصرہ کے بعد حاصل ہوئی ہے کہ محاصرے کے دوران خرما کے درختوں نے دوبارہ میوے دیدئے اور دوبارے قربانی کی گئی ، یعنی مسلمان فوجوں نے شہر ویہ اردشیر کی دیواروں کے پاس دو عید قربان منائیں اور اس مدت تک وہاں پر رکے رہے ۔یہی اس بات کا اشارہ ہے کہ محاصرہ کی مدت دوسال تک جاری رہی ۔ دینوری لکھتاہے :
جب اسلام کے سپاہیوں کے ذریعہ شہر کا محاصرہ طولانی ہواتو شہر کے باشندے تنگ آگئے ، سر انجام اس علاقے کے بڑے زمینداروں نے مسلمانوں سے صلح کی درخواست کی ،جب ایرانی پادشاہ یزدگرد نے یہ حالت دیکھی تو اس نے سرداروں اور سرحد بانوں کو اپنے پاس بلاکر اپنا خزانہ اور مال ومتاع ان میں تقسیم کیا اور ضروری قبالے انھیں لکھ کے دئے اور ان سے کہا:
اگر یہ طے ہوکہ ہمارا یہ مال ومتاع ہمارے ہاتھ سے چلا جائے تو تم لوگ اجنبیوں سے زیادہ مستحق ہو۔اگر حالات دوبارہ ہمارے حق میں بدل گئے اور ہم اپنی حکومت کو پھر سے اپنے ہاتھ میں لے سکے تو اس وقت جو کچھ ہم نے آج تمھیں بخش دیاہے ،ہمیں واپس کردینا ۔
اس کے بعد اپنے نوکر چاکر ،خاص افراد اور پردہ نشینوں کو لے کر ''حلوان'' کی طرف روانہ ہوا اور جنگ قادسیہ میں کام آنے والے رستم فرخ زاد کے بھائی خرداد بن حرمز کو اپنی جگہ پر حاکم مقرر کرگیا۔

سند کی تحقیق
بہرسیر(یا ویہ اردشیر) کے افسانے کو سیف نے سماک بن فلان ہجیمی سے اور اس نے اپنے باپ محمد بن عبد اللہ نویرہ اور انس بن حلیس سے نقل کیاہے ۔ہم نے محمد بن عبداللہ کو قعقاع وعاصم کی داستانوں میں پہچان لیا کہ یہ سیف کا جعلی راوی ہے اور حقیقت میں وجود نہیں رکھتا ،دلچسپ بات یہ ہے کہ سیف نے انس بن حلیس کو محمد بن عبد اللہ کا چچا بتایاہے ،اس سے اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ اس قسم کا راوی کس حد تک حقیقی ہوسکتاہے !
اس کے با وجود ہم نے سماک بن فلان ،اس کے باپ اور انس بن حلیس کے سلسلے میں تمام مصادر کی طرف رجوع کیا ۔لیکن انھیں سیف کے علاوہ کہیں اور نہیں پایا۔اس بناء پر ہم ان تینوں راویوں کو بھی سیف کے جعلی راویوں میں شمار کرتے ہیں ۔

دو روایتوں کا موازنہ
بہر سیر (یا ویہ اردشیر ) کی فتح صرف ابو مفزر تمیمی کے ان کلمات سے حاصل ہوئی ہے جنھیں ملائکہ نے فارسی زبان میں اس کی زبان پر جاری کردیاتھا۔ایسے کلمات جن کے معنی وہ خود بھی نہیں جانتا تھا اور نہ اس کے ساتھی ۔اس دعوے کی دلیل ایک شعر سے جسے خود اسود بن قطبہ نے کہاہے اور وہ اس میں کہتاہے :
میں نے بہرسیر کوخدا کے حکم سے صرف فارسی میں چند کلمات کے ذریعہ فتح کیا۔
اس کا دوسرا شاہد یہ ہے کہ بڑے افسانوی سورما قعقاع نے بھی ایک شعر کے ضمن میں کہاہے کہ:
بہر سیر کو ہم نے ان کلمات سے فتح کیا جنھیں خدا نے ہماری زبان پر جاری کیاتھا!
اس طرح وہ افسانہ کو آخر تک بیان کرتاہے ۔
دیگر مؤرخین ،جنھوں نے دوسرے منابع سے روایتیں حاصل کی ہیں اور سیف کی باتوں پر اعتماد نہیں کیاہے ،کہتے ہیں :
بہر سیر(یاویہ اردشیر) کی فتح ایک شدید جنگ اور دوسال کے طولانی محاصرہ کے نتیجہ میں حاصل ہوئی ہے ۔اس طولانی محاصرہ کے دوران بڑے اور عام زمینداروں نے تنگ آکر مسلمانوں سے صلح کی درخواست کی اور اس طرح محاصرہ سے رہاپائی ۔

سیف کا کارنامہ
قبیلہ تمیم کے خاندان بنی عمرو کے لئے ایک ایسی کرامت ثبت کرنا جس کے جیسی کوئی اور کرامت نہ ہو!کیونکہ وہ اس خاندان کے ایک ایسے معنوی فرد کو پیش کرتاہے جس کی زبان پر ملائکہ ایسے کلمات جاری کرتے ہیں کہ ان کے معنی نہ وہ خود جانتاہے اور نہ اس کے ساتھی ۔اس قسم کے کلام کے نتیجہ میں ایک بڑا شہر مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہوتاہے اور اس طرح خاندان تمیم کے حق میں تاریخ کے صفحات میں ایک عظیم افتخار ثبت ہوجاتاہے ۔اس لحاظ سے کہ:
خاندان بنی عمرو تمیمی صرف تلوار سے ہی مشکل کشائی اور سرزمینوں کو فتح نہیںکرتے ہیں بلکہ اپنے کلام سے بھی یہ کارنامے انجام دیتے ہیں ۔
زمین پر '' افریدون '' جیسے مقامات اور جگہوں کی تخلیق کرنا ،تا کہ ان کا نام ''معجم البلدان '' اور '' الروض المعطار'' جیسی کتابوں میں درج ہوجائے ۔

ابو مفزر اسود بن قطبہ کی سرگرمیوں کے چند نمونے
طبری کی گراں قدر اور معتبر کتاب تاریخ کے مندرجہ ذیل موارد میں صراحت کے ساتھ سیف سے نقل کرتے ہوئے ابو مفزر اسود بن قطبہ تمیمی کانام لیاگیاہے:
١۔ جلولاء کی جنگ اور اس کی فتح کے بعد سعد وقاص نے جنگی اسیروں کو اسود کے ہمراہ خلیفہ عمر کے پاس مدینہ بھیجاہے ۔
٢۔رے کی فتح کے بعد سپہ سالار ''نعیم بن مقرن'' نے جنگی غنائم کے پانچویں حصہ (خمس) کو ''اسود'' اور چند معروف کوفیوں کے ہمراہ خلیفہ عمر کی خدمت میں مدینہ بھیجا۔
٣۔ ٣٢ھ کے حوادث کے ضمن میں ''اسود'' تمیمی کانام دیگر تین افراد کے ساتھ لیاگیا ہے جنھوں نے ایک خیمہ کے نیچے ایک انجمن تشکیل دی تھی ۔
٤۔ اس کے علاوہ ٣٢ھ میں ابو مفزر اسود بن قطبہ '' نے ابن مسعود اور چند دیگر نیک نام ایرانی مسلمانوں کے ہمراہ ،جلیل القدر صحابی ابوذر غفاری کی جلا وطنی کی جگہ ''ربذہ '' میں پہنچ کر اس عظیم شخصیت کی تجہیز و تکفین میں شرکت کی ہے ۔
٥۔ قادسیہ کی جنگ میں ''اغواث'' کے دن ''اعور ابن قطبہ'' نامی ایک شخص کی ''شہر براز''کے ساتھ جنگ کی داستان بیان کی گئی ہے کہ طبری کے مطابق سیف نے روایت کی ہے کہ اس نبرد میں دونوں پہلوان مارے گئے اور اعور کے بھائی نے اس سلسلے میں یہ شعر کہے ہیں :
ہم نے ''اغواث''کا جیسا تلخ و شیرین کوئی دن نہیں دیکھا کیونکہ اس دن کی جنگ واقعاً خوشی اور غم کا سبب تھی۔
اس کے باوجود ہم نہیں جانتے کہ آیا سیف نے اپنے خیال میں ابو مفزر بن قطبہ کے لئے اعور نام کا کوئی بھائی تخلیق کیاہے کہ اسود نے اس طرح اس کاسوگ منایاہے ،یایہ کہ اعور بن قطبہ کانام کسی اور شخص کے لئے تصور کیاہے ؟!

یہ پنجگانہ موارد اور دوسروں کی روایتیں
طبری نے مذکورہ پنجگانہ موارد کو اسود بن قطبہ کے بارے میں نقل کرکے اپنی تاریخ میں درج کیاہے ،جب کہ دوسرے مؤرخین جنھوں نے جلولا،قادسیہ،رے اور عثمان کے محاصرے کی روائیداد کی تشریح کی ہے ،نہ صرف ''اسود'' اور اس کی سرگرمیوں کا کہیں نام تک نہیں لیاہے بلکہ ان واقعات سے مربوط باتوں کو ایسے ذکر کیاہے کہ سیف کے بیان کردہ روایتوں جنھیں طبری نے نقل کیاہے سے مغایرت رکھتی ہیں۔
سیف نے اپنے افسانوی شخص'' اسود'' کو تمام جنگوں میں شرکت کرتے دکھایاہے اور اسے خوب رو ،معروف ،موثق اور بااطمینان حکومتی رکن کی حیثیت سے پہچنوایاہے اسیروں اور جنگی غنائم کو اس کی سرپرستی میں قرار دیاہے اور خاص کر اسے جلیل القدر صحابی ابوذر غفاری کی تجہیز وتکفین میں ، مشہور ومعروف صحابی مسعود کے ساتھ دکھایاہے ۔ہم اس آخری مورد پر الگ سے بحث وتحقیق کرینگے .

اسود بن قطبہ کے افسانہ کی تحقیق:
طبری نے رے کی فتح کے بارے میں روایت کی سند ذکر نہیں کی ہے ۔لیکن دیگر جنگوں اور واقعات جیسے :قادسیہ ،جلولا،محاصرہ ٔعثمان اور ابوذر کی تجہیز وتکفین میں شرکت کے بارے میں سیف کی روایتوں کی سندیں حسب ذیل ہیں :
محمد ،زیاد،مھلب،مستنیر بن یزید اپنے بھائی قیس اور باپ یزید سے ،اور کلیب بن حلحال ، حلحال بن ذری سے ۔ہم نے پہلے ثابت کیاہے کہ یہ سب راوی سیف کی تخلیق ہیں اور حقیقت میں وجود نہیں رکھتے ۔
اسی طرح اپنے راویوں کاذکر کرتے ہوئے ''ایک مرد سے '' (عن رجل ) روایت کی ہے اور اسے کسی صورت سے ظاہر نہیں کیاہے اور ہم نہیں جانتے سیف کے خیال میں ''یہ مرد'' کون ہے ؟
اس کے علاوہ مجہول الہویہ دو افراد سے بھی روایت کی ہے اور ہمیں معلوم نہ ہوسکا کہ سیف کی نظرمیں یہ دو آدمی کون ہیں تا کہ ان کے وجود یا عدم کے سلسلے مین بحث و تحقیق کرتے !!
اس کے علاوہ ہم نے سیف کی داستان کے ہیرو ابو مفزر اسود بن قطبہ کا سیف اور اس کے افسانوی راویوں کے علاوہ کسی اور کے ہاں سراغ نہیں پایا۔
لگتاہے کہ نقل کرنے والوں سے ''اسود'' کی کنیت لکھنے میں غلطی ہوئی ہو اور انھوں نے اسے ''ابو مقرن '' لکھاہو ۔جیساکہ ہم اس جیسے ایک مورد سے پہلے دوچار ہوچکے ہیں اور شائد اسی اندراج میں غلطی نے ہی ابن حجر کو بھی شک وشبہہ سے دوچار کیاکہ اس نے ''ابومقرن ''اور '' ابو مفزر'' کو دو اشخاص تصور کیاہے ۔ان میںسے ایک ابومقرن اسودبن قطبہ ،کہ جس کا ذکر سیف کے افسانوں میں گزرا اور دوسرا '' ابو مفزر '' کے لقب سے نام ذکر کئے بغیر۔ابن حجر نے ''اصابہ'' میں ''الکنی '' سے مربوط حصہ میں اس کا ذکر کیاہے ۔

چوتھا جعلی صحابی ابو مفزر تمیمی
ابن حجر نے اپنی کتاب ''اصابہ'' کے ''الکنی ''سے مربوط حصہ میں ابو مفزر تمیمی کا ذکر یوں کیا ہے :
سیف بن عمر نے اپنی کتاب '' فتوح '' میں ابو ذر غفاری کی وفات کے سلسلے میں بعض راویوں ،جیسے '' اسماعیل بن رافع نے محمد بن کعب سے نقل کرتے ہوئے ابو مفزر کے اس موقع پر موجود ہونے کی خبر دی ہے ،اور ابوذر کی وفات کی داستان کے ضمن میں لکھا ہے:
....جو افراد '' ربذہ'' میں ابو ذر غفاری کی تدفین کے موقع پر ابن مسعود کے ہمراہ موجود تھے ،ان کی تعداد ( ١٣ ) تھی اور ان میںسے ایک ابومفزر تمیمی تھا ۔اس کے علاوہ کہتا ہے :
ابومفزر ان افراد میں سے ہے جس پر خلافت عمر کے زمانے میں شراب پینے کے جرم میں خلیفہ کے حکم سے حد جاری کی گئی ہے ،اور ابو مفزر نے ایک شعر میں اس واقعہ کو اس طرح بیان کیا ہے :
اگر چہ مشکلات او ر سختیوں کو برداشت کرنے کی ہمیں عادت تھی ہم شراب و کباب کی محفلوں میں قدم رکھنے کے آغاز سے ہی صبر و شکیبائی کی راہ
اپنا چکے تھے ۔
جیسا کہ ہم نے کہا کہ ابن حجر دو آدمیوں کو فرض کرکے شک و شبہ سے دو چار ہو ا ہے ایک کو ''ابو مقرن اسود بن قطبہ '' فرض کیا ہے اور اس کا نام اور اس کے حالات کو رسول اللہ ۖ کے صحابیوں کے حصے میں درج کیا ہے اور دوسرا '' ابو مفزر'' کو فرض کیا ہے اور اس کی داستان کو کتاب ''اصابہ'' کے ''الکنی''کے حصہ میں ذکر کیا ہے جو اصحاب کی کنیت سے مخصوص ہے ۔
لیکن یہ امر قابل ذکر ہے کہ ابن حجر نے ابوذر غفاری کی تدفین کے موقع پر ابو مفزر کی موجودگی کے بارے میں جو روایت سیف سے نقل کی ہے ،وہ اسی موضوع پر طبری کی سیف سے نقل کی گئی دوسری روایت سے سند اور ابوذر غفاری کی تدفین کے مراسم میں افراد کی تعداد کے لحاظ سے واضح اختلاف رکھتی ہے اور ہم نے اسے نقل کیا ہے ۔
اس کے علاوہ ابن حجر کے بیان میں یہ مطلب ذکر ہوا ہے کہ ابو مفزر تمیمی پر شراب پینے کے جرم میں خلیفہ عمر کے حکم سے حد جاری کرنے کا موضوع سیف کی روایات میں تین الگ الگ داستانوں میں ذکر ہو ا ہے اور ان میںسے کسی ایک میں بھی اسود بن قطبہ یا اس کے شعر کا نام و نشان نہیں ہے ۔شاید سیف کے لئے اس قسم کے صحابی کو جعل کرنے ،اس کی شجاعتیں اور کمالات دکھانے ، بہر شیر ( یا اردشیر ) کے میدان کا رزار میں فرشتوں کے ذریعہ اس کی زبان پر فارسی کلمات جاری کرکے ایرانیوں کو میدان جنگ سے معجزا تی طور پربھگا نے کا سبب یہ ہوگا کہ سیف کے مذہب میں جس پرزندیقی ہونے کا الزام ہے شراب پینا معمول کے مطابق ہے اور اسے ذکر کرنا کوئی اہم نہیں ہے

نسخہ برداری میں مزید غلطیاں
حموی نے اپنی کتاب '' معجم البلدان'' میں لفظ '' گرگان'' کی تشریح میں سیف سے نقل کرنے کے بعد اس کی فتح کے طریقے کے بارے میں '' سوید بن قطبہ '' کے مندرجہ ذیل دو اشعار کو شاہد کے طور پر پیش کیا ہے ۔
لوگو! ہمارے قبیلہ بنی تمیم کے خاندان اسید سے کہہ دو کہ ہم سر زمین گرگان کے سر سبز مرغزاروں میں لطف اٹھا رہے ہیں۔
جب کہ گرگان کے باشندے ہمارے حملہ اور جنگ سے خوف زدہ ہوئے اور ان کے حکام نے ہمارے سامنے سر تسلیم خم کیا !
'' سوید بن قطبہ '' در اصل '' اسود بن قطبہ '' ہے کہ نقل کرنے والے سے کتاب سے نسخہ برداری کے وقت یہ غلطی سرزد ہوئی ہے ۔
طبری نے بھی سیف بن عمر سے ایک داستان نقل کرتے ہوئے '' سوید بن مقرن '' اور گرگان کے باشندوں کے درمیان انجام پانے والی صلح کے ایک عہدنامہ کا ذکر کیاہے اس کے آخر میں ''سواد بن قطبہ ''نے گواہ کے طور دستخط کئے ہیں یہ '' سواد '' بھی در اصل '' اسود'' ہے جو حروف کے ہیر پھیر کی وجہ سے غلط لکھا گیا ہے ۔

اسناد کی تحقیق
سیف کی احادیث میں مندرجہ ذیل راویوں کے نام نظر آتے ہیں :
محمد ،بحرین فرات عجلی ، سماک بن فلاں ہجیمی اپنے باپ سے ،انس بن حلیس، زیاد ، مہلب ، مستنیربن یزید اپنے بھائی اور باپ سے ،کلیب بن حلحال ذری نے اپنے باپ سے خصوصیات کے بغیر ایک مرد سے اور مزید دو مجہول افراد اورعامر ،مسلم ،ابی امامہ ،ابن عثمان عطیہ اور طلحہ۔ ان افراد کے بارے میں ہم اس کی روایات میں کسی قسم کا تعارف اور خصوصیات نہیں پائے کہ ان کو پہچان سکیں مثلا ہمیں معلوم نہ ہو سکا کہ عامر سے اس کا مقصود شعبی ہے یا کوئی اور ؟!او ر طلحہ سے اس کا مقصود طلحہ ابن عبد الرحمن ہے یا اور کوئی ۔ بہر حال اس نے اپنی روایتوں میں ایسے راویوں کا نام لیا ہے کہ جن کے بارے میں ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ وہ اس کے جعلی راوی اور اس کی ذہنی تخلیق ہیں !!
اس کی روایت کے ضمن میں چند دیگر راویوں کا نام بھی ذکر ہوا ہے کہ ہم سیف کی بیہودہ گوئیوں اور افسانہ سرائیوں کے گناہ کا مرتکب انھیں نہیں ٹھہراتے ،خاص طور پر جب ہم دیکھتے ہیں کہ وہ سیف تنہا شخص ہے جو ان افسانوں کو ایسے راویوں سے نسبت دیتا ہے ۔

بحث کا خلاصہ
سیف نے ابومفزر اسود بن قطبہ کو بنی عمرو تمیمی کے خاندان سے ذکر کرکے انھیں فتوحات میں مسلمانوں کے مشہور شاعر اور ترجمان کی حیثیت سے پیش کیا ہے ۔
سیف نے اسے حیرہ کی فتوحات میں ،جیسے : الیس ،امغشیا، مقر ،الثنی اور زمیل کی جنگوں میں خالد کے ساتھ شرکت کرتے دکھایا ہے اور اس سے چھ رزم نامے اور رجز بھی کہلوائے ہیں ۔
اس نے یرموک اور قادسیہ کی جنگوں میںاس کی شرکت دکھائی ہے اور اس سلسلے میں اس کی زبان سے تین رزمیہ قصیدے بھی کہلوائے ہیں ۔
'' ویہ اردشیر'' کی جنگ میں اس کی عظمت کو بڑھا کے پیش کیاہے اور اس کو ایک معنوی مقام کا مالک بنا کر اطمینان و سکون کا سانس لیا ہے ۔ایرانی پادشاہ کے ایلچی کے جواب میں ، اس کی زبان پر ملائکہ کے ذریعہ فارسی زبان کے کلمات جاری کئے ہیں، جبکہ نہ خود اس زبان سے آشنا تھا اور نہ اس کے ساتھی فارسی جانتے تھے۔
اس نے فارسی میں پادشاہ کے ایلچی سے کہا تھا:
ہم ہرگز تمہارے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں کریں گے جب تک علاقہ ٔافریدون کا شہد اور کوثی کے مالٹے نہ کھالیں ۔
مشرکین نے ان ہی کلکمات کے سبب ڈر کے مارے میدان کا رزار سے فرار کیا اور شہر کو محافظوں سے خالی اور تمام مال ومتاع کے سمیت مسلمانوں کے اختیار میں دیدیا اور سیف نے اپنے افسانوی شاعر کی زبانی اس سلسلے میں تین رجز کہلوائے ہیں۔
اسی طرح سیف نے ابو مفزر کے لئے جعل کئے گئے ایک بھائی جو جنگ قادسیہ میں اغوا ث کے دن اپنے حریف کے ہاتھوں ماراگیا تھا کے سوگ میں شعر کہکر اپنے افسانوی شاعر ابومفزر سے منسوب کئے ہیں!
اور سر انجام اس نے اپنے خیالی سورماکو جلولا اور رے کی جنگوں میں شریک کر کے اسے جنگی اسیروں اور مال غنیمت کو خلیفہ عمر کے حضور مدینہ پہنچانے کی سرپرستی سونپی ہے۔
اور ان تمام افسانوں کو ایسے راویوں کی زبانی روایت کی ہے جو سیف کی داستان کے خیالی ہیرو کے ہی مانند خیالی تھے، جیسے:محمد،زیاد،مھلب،مستنیربن یزید اس کے بھائی قیس سے اور اس نے اپنے باپ سے، کلیب بن حلحال ذری نے اپنے باپ سے ،بحرین فرات عجلی، سماک بن فلان ہجیمی اپنے باپ سے ، انس بن حلیس اور ایک بے نام و نشان، اور دیگر مجہول راوی سے۔
یہاں پر یہ دیکھنا لطف سے خالی نہیں ہے کہ ابو مفزر کے بارے میں سیف کی روایات اور افسانوں کو کن اسلامی مصادر میں درج کیا گیا ہے اور کن مؤلفین نے دانستہ یا نادانستہ طور پر سیف کے جھوٹ اور افسانوں کی اشاعت کی ہے۔

اس افسانہ کو نقل کرنے والے علما
ابو مفزر تمیمی کے بارے میں سیف کے مذکورہ افسانے مندرجہ ذیل منابع و مصادر میں پائے جاتے ہیں:
١۔طبری نے اپنی تاریخ کی عظیم کتاب میں ١٢۔٢٣ھ کے حوادث کے ضمن میں ذکر کیا ہے اور اس کے اسناد بھی درج کئے ہیں۔
٢۔دار قطنی (وفات ٣٨٥ھ) نے اپنی کتاب ''مؤتلف'' میں ''اسود'' کے حالات کے ذیل میں ،سند کے ساتھ ذکر کیا ہے۔
٣۔ابن ماکولا(وفات ٤٨٧ھ)نے اپنی کتاب ''اکمال'' میں اسود'' کے حالات کے ذیل میں، سند کے ساتھ ذکر کیاہے۔
٤۔ابن عساکر (وفات ٥٧١ھ ) نے اپنی کتاب '' تاریخ دمشق'' میں اسود کے حالات کے ذیل میں سیف بن عمر ،دار قطنی اور ابن ماکولا سے نقل کرکے سند کے ساتھ درج کیا ہے ۔
ٍ ٥۔ حموی ( وفات ٦٢٦ھ ) نے اپنی کتاب '' معجم البلدان '' میں شہروں اور علاقوں کے بارے میں لکھے گئے تفصیلات کے ضمن میں نقل کیا ہے ۔
٦۔ حمیری ( وفات ٩٠٠ ھ) نے اپنی کتاب '' الروض المعطار'' میں شہروں اور علاقوں کے بارے میں لکھے گئے تفصیلات کے ضمن میں درج کیا ہے ۔
٧۔ مرز بانی (وفات ٣٨٤ ھ ) نے اپنی کتاب '' معجم الشعراء ) میں شعراء اور رجز خوانوں کے حالات کی تشریح کے ضمن میں اپنے پیشرئوں سے نقل کرتے ہوئے سند کی طرف اشارہ کئے بغیر درج کیا ہے ۔
٨۔ عبد المومن ( وفات ٧٣٩ ھ ) نے اپنی کتاب '' مراصد الاطلاع'' میں حموی سے نقل کرکے درج کیاہے۔
٩۔ابن اثیر (وفات ٦٣٠ ھ) نے اپنی تاریخ میں درج کیا ہے ۔
١٠۔ ابن کثیر ( وفات ٧٧٤ھ) نے اپنی تاریخ میں درج کیا ہے ۔
١١۔ابن خلدون (وفات ٨٠٨ھ) نے اپنی تاریخ میں درج کیاہے ۔
١٢۔مقریزی (وفات ٨٤٥ھ) نے اپنی کتاب '' خطط'' میں درج کیا ہے ۔
١٣۔ابن حجر ( وفات ٨٥٢ھ ) نے اپنی کتاب '' الاصابہ '' میں'' ابو مفزر'' کی داستان کو دارقطنی سے اور بہرسیرومیں فارسی زبان میں بات کرنے کے افسانہ کو سند ذکر کئے بغیرمر زبانی سے نقل کیا ہے ۔
١٤۔ ابن بدران (وفات ١٣٤٦ھ ) نے اپنی کتاب '' تہذیب تاریخ ابن عساکر '' میں ابن عساکر (وفات ٥٧١ھ ) سے نقل کیا ہے ۔
مذکورہ اخبار و روایات سیف بن عمر تمیمی کے وہ مطالب ہیں جو اس نے اپنے جعلی صحابی اسود بن قطبہ تتمیمی کے بارے میں تخلیق کئے ہیں ۔
لیکن جس '' اسود'' کو سیف نے جعل کیا ہے وہ اس '' اسود بن قطبہ'' کے علاوہ ہے جسے امام علی علیہ السلام نے حلوان کا کمانڈرمقرر کیا تھا اور امام نے اس کے نام ایک خط بھی لکھا تھا امام کا یہ خط آپ کے دیگر خطوط کے ضمن میں نہج البلاغہ میں درج ہے حلوان میں امام کا مقرر کردہ سپہ سالار '' اسود '' خاندان تمیم سے تعلق نہیں رکھتا تھا ۔ابن ابی الحدید نے '' شرح نہج البلاغہ' ' میں اسود کا ذکر کرتے ہوئے اسے سبائی قحطانی بتایا ہے ۔ ابن ابی الحدید لکھتا ہے :
میں نے متعدد نسخوں میں پڑھا ہے کہ وہ اسود بن قطبہ ،حلوان میں امام کا سپہ سالار جس کے نام امام نے خط بھی لکھا ہے حارثی ہے اور خاندان بنی حارث بن کعب سے تعلق رکھتا ہے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ مذکورہ بنی حارث بن کعب کا شجرہ نسب چند پشت کے بعد سبائی قحطانی قبائل کے '' مالک بں اود'' سے ملتا ہے ۔اس کے حالات اور سوانح حیات کو ابن حزم نے '' جمہرہ انساب'' کے صفحہ ٣٩١میں درج کیا ہے ۔
موخر الذکر '' اسود '' کے باپ کانام نہج البلاغہ کے بعض نسخوں میں ''قطیبہ '' لکھا گیا ہے اور نصر بن مزاحم کی کتاب '' صفین'' میں اس کا نام '' قطنہ '' ذکر ہو اہے ۔اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ سیف نے اپنے جعلی صحابی یعنی اسود بن قطبہ تمیمی کا نام امام کے نمایندہ کے نام کے مشابہ جعل کیا ہے ۔اور یہی شیوہ اس نے خزیمة بن ثابت سماک بن خرشہ اور زربن عبداللہ کا نام رکھنے میں بھی اختیار کیا ہے انشاء اللہ ہم اس کتاب میں ان کے بارے میں بھی بحث و تحقیق کریں گے۔