ایک سو پچاس جعلی اصحاب(دوسری جلد)
 

تیسرا حصہ :
خاندان مالک تمیمی سے چند اصحاب
اس کتاب کی پہلی جلد میں خاندان مالک تمیمی کے دو اصحاب ''قعقاع بن عمرو'' اور ''عاصم بن عمرو''کے حالات زندگی کی تشریح کی گئی ہے ۔
یہاں پر ہم اس خاندان کے مزید تین افراد ،اسود ، ابو مفزر ،اور نافع کے حالات پر روشنی ڈالیں گے ۔

l ٣۔اسود بن قطبہ تمیمی
l ٤۔ابو مفزر تمیمی
l ٥۔نافع بن اسود تمیمی
سیف کا تیسرا جعلی صحابی اسود بن قطبہ تمیمی
ابن ماکولانے اپنی کتاب ''الاکمال'' میں لکھا ہے :
سیف بن عمر کہتا ہے کہ : اسود نے فتح قادسیہ اور اس کے بعد والی جنگوں میں شرکت کی ہے ۔ اس نے سعد وقاص کی طرف سے فتح جلولا کی نوید عمر کو پہنچائی ہے ۔ دارقطنی نے کتاب'' المؤتلف'' میں اسود کے حالات بیان کرتے ہوئے آخر میں لکھا ہے :
یہ وہ مطالب ہیں جنھیں سیف بن عمر نے اسود کے بارے میں اپنی کتاب '' فتوح'' میں ذکر کیا ہے ۔
ابن عساکر نے بھی اسود کے حالات میں لکھا ہے :
وہ ایک نام آور شاعر ہے ۔اس نے یرموک ،قادسیہ اور دیگر جنگوں میں شرکت کی ہے اور ہر ایک جنگ میں حسب حال اشعار بھی کہے ہیں اور ان میں اپنی اور اپنے خاندان کی شجاعتوں کا ذکر کیا ہے ۔
اس کے بعد ابن عساکر نے اسود کے اشعار کے ضمن میں سیف کی روایتوں کو اپنی تاریخ میں درج کیا ہے اور جو کچھ ہم نے کتاب ''اکمال '' اور کتاب '' والمؤتلف'' سے نقل کیا ہے اس نے ان ہی سے اپنے مطالب کو اختتام بخشا ہے ۔
ابن حجر نے اپنی کتاب '' الاصابہ'' میں گزشتہ منبع سے نقل کرنے کے علاوہ سیف کی کتاب ''فتوح'' سے اسود کے حالات نقل کئے ہیں۔
اس طرح ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ اسود بن قطبہ تمیمی کے بارے میں تمام باتوں کا منبع و سرچشمہ صرف اور صرف سیف بن عمر ہے ۔
اب ہم بھی سیف کے افسانوی افراد ابو مفزر اور اسود بن قطبہ تمیمی کو خود اس کی باتوں سے ثابت کریں گے کہ وہ جعلی شخصیتیں ہیں۔

سیف کی نظر میں اسود کا خاندان
سیف نے ابو بجیدہ نافع بن اسود ،یعنی اپنے اس افسانوی شخص کے بیٹے سے نقل کی گئی روایتوں میں اسود کے شجرہ ٔنسب کو اس طرح تصور کیا ہے :
اسود ،جس کی کنیت ابو مفزر ہے ،قطبہ کا بیٹا اور مالک عمری کا پوتا ہے جو قبیلہ تمیم سے تعلق رکھتا تھا۔
سیف نے اسود کے لئے اس کا ایک بھائی بھی فرض کیا ہے اور اس کا نام اعور رکھا ہے ۔

اسود خالد کے ساتھ عراق میں
سیف کی باتوں کو نقل کرنے والے ،اسود کے حالات کی تشریح کرتے ہوئے کہتے ہیں:
ابو بکر کی خلافت کے زمانے میں اسود بن قطبہ نے خالد بن ولید کے ہمراہ جنگوں میں شرکت کی ہے ۔
اس مطلب کو ہم درج ذیل روایتوں میں پڑھتے ہیں :

امغیشیا کی جنگ
طبری نے ١٢ھکے حوادث کے ضمن میں امغشیا کی جنگ کے بارے میں لکھا ہے :
الیس کی جنگ کے بعد خالد بن ولید نے امغیشیا کی طرف فوج کشی کی ۔یہ ''حیرہ'' جیسی سرزمین تھی اور فرات '' باذقلی '' اس زمین کو سیراب کرتی تھی ۔وہاںکے باشندے خالد کے بے امان حملوں کے خوف سے اپنا تمام مال ومتاع چھوڑ کر عراق کے دوسرے شہروں کی طرف بھاگ گئے تھے .
خالد جب محافظوں سے خالی شہر میں داخل ہوا تو اس نے حکم دیا کہ شہر کو تباہ کرکے اسے نیست و نابود کردیں ۔خالد کے سپاہیوں کو شہر امغشیا کو اپنے قبضے میں لینے کے نتیجہ میں ایسا مال ملا کہ اس دن تک ایسی ثروت کبھی ان کے ہاتھ نہیں آئی تھی ۔ہر ایک سوار کے حصے میں صرف مال غنیمت کے طور پر ایک ہزار پانچ سو ملا ۔یہ مال اس انعام و اکرام کے علاوہ تھا جو عموما جنگجوئوں کو انعام کے طور پر دیا جاتا تھا ۔
جب امغیشیا کی فتح کی خبر ابوبکر کو پہنچی تو اس خبر کے پہنچانے والے نے یہ شعر کہا:
''آپ کے شیر خالد نے ایک شیر پر حملہ کرکے اس کو چیر پھاڑ کر رکھ دیا ہے اور اس کا تر و تازہ گوشت اس کے ہاتھ آیا ہے !بے شک ،عورتیں خالد جیسے کسی اور پہلوان کو ہر گز جنم نہیں دیں گی!!''
یاقوت حموی نے اپنی کتاب '' معجم البلدان'' میں طبری کی مذکورہ داستان کو امغشیا کے حالات میں خلاصہ کے طور پر یہاں تک بیان کیا ہے کہ سپاہیوں کو غنیمت کے طور پر بہت سا مال ملا اس کے بعد وہ اضافہ کرتا ہے : '' ابو مفزر '' نے اس جنگ میں چند اشعار کہے ہیں اس کے بعد اس کے چار شعر ذکر کئے ہیں :

اسود ،'' الثنی'' اور ''زمیل '' کی جنگوں میں
طبری ١٢ھ کے حوادث کے ضمن میں سیف سے نقل کرتے ہوئے لکھتا ہے :
'' ربیعة ابن بجیر تغلبی '' اپنے لشکر کے ہمراہ سر زمین '' الثنی '' و ''بشر '' میں داخل ہوا یہ وہی سرزمین '' زمیل '' ہے اور قبیلہ '' ہذیل'' والے وہاں کے ساکن تھے ۔خالد جب جنگ '' مصیخ'' سے فارغ ہوا تو وہ ''الثنی ''و '' زمیل'' کی طرف روانہ ہوا ۔یہ علاقہ آج کل ''رصافہ'' کی مشرق میں واقع ہے ۔خالد نے دشمن کو تین جانب سے محاصرہ میں لے لیا اور رات کی تاریکی میں تین طرف سے ان پر حملہ کرکے ایسی تلوار چلائی کہ اس جنگ میں ان کا ایک آدمی بھی صحیح و سالم بھاگ نہ سکا کہ اس خوفناک قتل عام کی خبر دوسروں تک پہنچائے ۔خالد نے وہاں کے جنگی غنائم کا پانچواں حصہ (خمس) ابوبکر کی خدمت میں مدینہ بھیج دیا۔
طبری اس داستان کو جاری رکھتے ہوئے لکھتاہے :
قبیلہ ٔ ہذیل والے اس جنگ سے بھاگ گئے اور انھوں نے زمیل میں پناہ لے لی سیف اس جگہ کو ''بشر '' کہتا ہے اور'' عتاب بن فلان'' کا سہارا لیا ۔عتاب نے ''بشر '' میں ایک بڑا لشکر تشکیل دیا تھا ،خالد نے اسی جنگی چال کو یہاں پر بھی عملی جامہ پہنایا ،جس سے اس نے ''الثنی ''کی جنگ میں استفادہ کیا تھا اور '' عتاب'' کی فوج پر رات کی اندھیری میں تین جانب سے حملہ کیا اور دشمن کے ایسے کشتوں کے پشتے لگا دئے کہ اس دن تک کسی نے ایسا قتل عام نہیں دیکھا تھا خالد اور اس کے سپاہیوں نے اس جنگ میں کافی مال غنیمت پایا۔
یہ وہ مطالب تھے جنھیں طبری نے سیف سے نقل کرکے اپنی کتاب میں درج کیا ہے اور دوسرے مؤلفین نے بعد میں یہی مطالب اس سے نقل کرکے اپنی کتابوں میں درج کئے ہیں ۔
حموی نے بھی سیف کی روایت پر اعتماد کرکے '' الثنی'' کی تشریح میں لکھا ہے :
'' الثنی'' اول پر فتحہ دوسرے پر کسرہ اور یائے مشدد ''رصافہ'' کے مشرق میں ایک معروف سر زمین ہے '' تغلب '' اور'' بنو بحیر'' کے خاندان خالد بن ولید سے لڑنے کے لئے وہاں پر جمع ہوئے تھے اور ایک لشکر گاہ تشکیل دی تھی ۔لیکن خالد نے اپنی جنگی چال سے ان پر فتح پائی اور سب کو قتل کر ڈالا ۔یہ جنگ ابوبکر کی خلافت کے زمانے میں ١٢ھ میں واقع ہوئی ہے اور ابو مفزر نے اس جنگ سے متعلق اشعار کہے ہیں ۔
اس کے بعد حموی ان مطالب کے شاہد و گواہ ابو مفزر کے پانچ اشعار اپنی کتاب میں نقل کرتاہے ۔
یہی دانشور لفظ ''زمیل '' کے بارے میں سیف کی کتاب ''فتوح'' سے نقل کرکے لکھتاہے :
'' زمیل'' رصافہ کی مشرق میں ''بشر'' کے نزدیک ایک سر زمین ہے ۔خالد بن ولید نے ١٢ھ میں ابوبکر کی حکومت کے زمانے میں اس علاقہ کے '' تغلب '' و ''نمیر'' اور دیگر قبیلوں پر حملہ کرکے ان سے جنگ کی ابو مفزر نے اس جنگ کے بارے میں کچھ اشعار کہے ہیں۔
مذکورہ مطالب کے ضمن میں حموی نے ابو مفزر کے پانچ اشعار شاہد کے طور پر سیف سے نقل کئے ہیں ۔ ان اشعار میں ابو مفزر نے '' الثنی'' اور اس جگہ کی جنگ کا تصور پیش کیا ہے اور '' زمیل'' و ''بشر '' کا نام لیا ہے ۔اس کے علاوہ ''ہذیل '' ،'' عتاب'' ''و عمرو'' اور دیگر پہلوانوں کا ذکر کیا ہے کہ انھوں نے کس طرح اپنے بے امان حملوں سے ان کے فوجیوں کو تہس نہس کرکے رکھ دیا اور ان کے مال و متاع حتی عورتوں کو بھی اپنے قبضے میں لے لیا !
عبد المؤمن نے بھی حموی کے مطالب کا خلاصہ اپنی کتاب ''مراصدالاطلاع'' میں نقل کیا ہے ۔
ابن عساکر ابو مفزر کے بارے میں سیف سے نقل کرتے ہوئے لکھتا ہے :
ابو مفزر نے خلافت ابوبکر کے زمانے میں ''حیرہ'' کی فتح کے بعد اپنے چند اشعار کے ضمن میں یوں کہا ہے :
'' ہماری طرف سے ابوبکر کو یہ پیغمام پہنچا ئو اور یہ کہہ دو کہ :ہم نے ساسانی بادشاہوں کی نصف سے زیادہ سرزمینوں اور شہروں پر قبضہ کر لیا ہے ۔
جو کچھ ہم نے یہاں تک ذکر کیا یہ سیف کے وہ مطالب ہیں جو اس نے '' امغشیا '' ،'' بشر '' اور حیرہ کی فتوحات اور خالد کی کارکردگیوں اور اس کی جنگی چالوں کے بارے میں لکھے ہیں۔ جبکہ بلاذری نے صدر اسلام کی جنگوں اور حوادث کے بارے میں اپنی کتاب میں انتہائی باریک بینی سے کام لیتے ہوئے ان واقعات کے تمام جزئیات کو قلم بند کیا ہے اور ان میں چھوٹی سے چھوٹی چیز کو بھی نظر انداز نہیں کیا ہے، لیکن سیف کے مذکورہ مطالب میں سے کسی ایک کی طرف بھی اپنی کتاب ''فتوح البلدان'' میں اشارہ تک نہیں کیاہے۔

سیف کی روایات کی تحقیق
''امغیشیا'' کے بارے میں سیف کی٩ روایتوں کی ایک سند کے طور پر طبری نے ''محمد بن نویرہ '' کانام لیا ہے اور ہم نے قعقاع کی داستان میں کہا ہے کہ وہ سیف کا جعلی راوی ہے اور حقیقت میں وجود ہی نہیں رکھتا۔ دوسرا ''بحر بن فرات عجلی'' ہے کہ ہم نے اس راوی کو بھی سیف سے ہی پہچانا ہے کہ اس کی دوروایتوں میں اس کا نام لیا گیا ہے اور اس کے علاوہ یہ نام حدیث کی ان تمام کتابوں میں کہیں نہیں پایا جاتا جن میں حدیث کے راویوں کے نام اور ان کا تذکرہ ملتا ہے۔ اس لحاظ سے ہم اسے بھی سیف کی تخلیق شمار کرتے ہیں۔

تحقیق کا نتیجہ
١۔حموی اپنی کتاب ''معجم البلدان'' میں سیف سے نقل کرکے ''امغیشیا'' نام کے ایک شہر کا ذکر کرتاا ہے اور سیف کے افسانوی شاعر ابو مفزر کی زبانی اپنے مطالب کی تائید میں اشعار ذکر کرتا ہے۔ لیکن طبری نے اپنی روش کے مطابق ابو مفزرکے بارے میںاپنے مطالب کے آخر میں ان اشعار کو حذف کردیا ہے۔
جس شہر ''امغیشیا'' کی بڑی عظمت اور اہمیت کے ساتھ سیف نے تعریف کی ہے.ممکن تھا کہ سیف کے زمانہ سے نزدیک ہونے اور ابوبکرکے زمانہ میں اس جنگ کے واقع ہونے کی وجہ سے لوگ سیف کے جھوٹ کو شک و تردید کی نگاہ سے دیکھتے ،لہٰذا اس نے بڑی چالاکی و شیطنت سے اس کا بھی حل نکال لیا، لہٰذا وہ اپنے افسانوی شہر امغشیا کی روئیداد کو اس حد تک پہنچاتا ہے کہ خالد نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ شہر کو ایسا ویران اورنیست و نابود کردیں کہ زمین پر اس کا نام و نشان باقی نہ رہے۔ اس طرح سیف اطمینان کا سانس لیتا ہے اور ''امغشیا'' کے نام سے جعل کئے گئے اپنے شہر کے وجود کے بارے میں اٹھنے والے ممکنہ سوالات سے اپنے آپ کو بچالے جاتا ہے۔
٢۔سیف نے اپنے افسانوی شہر ''امغشیا'' کو خالد مضر ی کے ہاتھوں ویران اور نابود کرکے ایک طرف خاندان قریش و تمیم کے لئے فخر و مباہات کا اظہار کر کے اپنے خاندانی تعصبات کی پیاس بجھائی ہے اور دوسری طرف اپنے زندیقی مقصد کے حصول کے لئے ایسے بے رحمانہ اور وحشتناک قتل عام کو اسلام کے سپاہیوں کے سر تھوپتا ہے کہ ایک ہزار دوسو سال تک دہشت گردی اور بے رحمی کا یہ قصہ تاریخ کی کتابوں میں نقل ہوتارہے اور اسلام کے دشمنوں کو بہانہ ہاتھ آئے !جبکہ اسلام کے سپاہیوں کا دامن ایسے جرائم سے پاک اور منزہ ہے۔
٣۔''الثنی'' و''زمیل'' کی جنگوں کی داستان کو طبری نے سیف سے رجز خوانیوں کے بغیر نقل کیاہے۔ لیکن حموی نے سیف کی باتوں پر اعتماد کرتے ہوئے اس کے مصدر یعنی سیف کی کتاب ''فتوح '' کی طرف اشارہ کیا ہے اور اسے صرف ''زمیل'' کے بارے میں نقل کیا ہے۔
سیف نے ان دوروایتوں میں خاندان تمیم کے لئے افتخار حاصل کیا ہے اور اپنے دیرینہ دشمن ربیعہ پر کیچڑ اچھا لتے ہوئے کہتا ہے:وہ اپنی عورتوں کو تمیم کے طاقت ور مردوں کے ہاتھوں میں گرفتار ہوتے دیکھ کر رسوا ہوگئے۔

سیف کی روایتوں کا ماحصل
١۔اس نے تین جگہیں تخلیق کی ہیں تا کہ جغرافیہ کی کتابوں میں ان کا نام درج ہوجائے.
٢۔ایک مختصر جملہ میں خالد کی تعریف کی ہے تا کہ اسے شہرت بخشے :''عورتیں خالد جیسے سور ماکو ہرگز جنم نہیں دے سکتیں''۔
٣۔اس نے خاندان تمیم کے لئے افتخارات جعل کئے ہیں اور قبائل ربیعہ پر مذمت اور طعنہ زنی کی بوچھار کی ہے۔
٤۔اس نے اشعار کہے ہیں تا کہ شعر و ادب کی کتابوں میں درج ہو جائیں۔
٥۔سر انجام اس نے تاریخ اسلام میں قبائل تمیم سے ''اسود بن قطبہ'' نامی ایک صحابی ، سپہ سالار اور حماسی شاعر کا اضافہ کیا ہے جو سیف بن عمر تمیمی کے خیالات کی تخلیق ہے اور حقیقت میں وجود ہی نہیں رکھتا۔