قعقاع ،عثمان کے زمانے میں
انی لکم ناصح و علیکم شفیق
میں آپ کا شجاع دوست اورخیر خواہ ہوں
( قعقاع افسانوی خیر خواہ )
قعقاع ،عثمان کے زمانے کی بغاوتوں میں
طبری نے سیف بن عمر سے روایت کی ہے :
'' جب قعقاع سبائیوں کی عثمان کے خلافت بغاوت کے سلسلے میں مسجد کوفہ میں منعقدہ میٹنگ سے آگاہ ہوا ،تو فوراً وہاں پہنچ گیا اور انھیں ڈرادھمکا کے ان کی سرگرمیوں کے بارے میں سوال کیا ۔سبائیوں نے اپنے جلسہ کا مقصد اس سے چھپاتے ہوئے کہا : ہم کوفہ کے گورنر سعید کی برطرفی کے حامی ہیں قعقاع نے جواب میں کہا : کاش !تم لوگوں کی خواہش صرف یہی ہوتی !اس کے بعد ان کو منتشر کیا اور مسجد میں رکنے نہیں دیا ''
وہ مزید لکھتا ہے :
جب مالک اشتر سعید کو گورنر کی حیثیت سے کوفہ میں داخل ہونے سے روکنے کے لئے باغیوں کو اکسارہا تھا ،تو ڈپٹی گورنر عمر وبن حریث اس شورش کو روکنے اور نصیحت و رہنمائی کرنے کی غرض سے آگے بڑھا اور انھیں اس سلسلہ میں ہر قسم کی انتہا پسندی سے پرہیز کرنے کو کہا ۔اسی اثنا میں قعقاع بھی وہاں پہنچتا ہے اور ابن حریث سے کہتا ہے کیا تم سیلاب طوفانی لہروں کو نصیحت کی زبان سے پلٹنا چاہتے ہو !؟کیا دریائے فرات کو مہربانی اور نرمی سے اپنے سر چشمہ کی طرف پلٹنا چاہتے ہو !؟ یہ ناممکن ہے !! خدا کی قسم اس بغاوت اور شورش کے شعلوں کو تلوار کی تیز دھار کے علاوہ کوئی چیز بجھا نہیں سکتی اب وہ وقت آگیا ہے کہ یہ تلوار میان سے باہر آئے ۔اس وقت ان کی چیخ پکار بلند ہوگی اور وہ اپنے گنوائے ہوئے وقت کی آرزو کریں گے کہ خدا کی قسم :اس وقت دیر ہوچکی ہوگی وہ ہرگز اپنے عزائم کو نہیں پہنچ پائیں گے،لہٰذا تم چپ رہو اور صبر سے کام لو۔
ابن حریث نے قعقاع کی نصیحت وراہنمائی قبول کی اور اپنے گھر چلاگیا۔وہ مزید کہتاہے:
جب یزید بن قیس مسجد کوفہ میں لوگوں کو سعید کے خلاف بھڑکارہاتھا اور عثمان کے بارے میں بد گوئی کررہاتھا ،تو قعقاع بن عمرو اٹھتاہے اور اس کے سامنے کھڑا ہوکر کہتاہے:کیا تم ہمارے عثمان کے مامور حکام کے استعفا دینے کے علاوہ کچھ
اور چاہتے ہو؟ توہم تمھاری یہ خواہش پوری کردیں گے!
اس نے مزید روایت کی ہے:
جب عثمان کا محاصرہ کیاگیا تو خلیفہ نے مختلف اسلامی شہروںکو خط لکھا اور ان سے مد د چاہی ۔ عثمان کے جواب میں قعقاع بن عمرو ،ساتھیوں کے ایک گروہ کے ہمراہ کوفہ سے مدینہ کی طرف عثمان کی مدد کے لئے روانہ ہوا ۔ادھر عثمان کا محاصرہ کرنے والے باغیوں کو یہ اطلاع ملی کہ مختلف شہروں سے لوگ عثمان کی مدد کے لئے آرہے ہیں اور ان کو یہ بھی پتا چلا کہ معاویہ شام سے اور قعقاع بن عمرو کوفہ سے اور ......خلیفہ کو نجات دینے کے لئے مدینہ کے طرف آرہے ہیں،تو انھوں نے محاصرہ کا دائرہ تنگ تر کرکے عثمان کا کام تمام کردیا اور اسے قتل کرڈالا۔جب عثمان کے قتل کی خبر راستے میں ہی قعقاع کوملی تو وہ اپنے ساتھیوں سمیت کوفہ پلٹ گیا۔
یہ تھی ،عثمان کے خلاف لوگوں کی بغاوت اور اس میں قعقاع کے رول کے بارے میں ، سیف کی روایت ۔آئندہ فصل میں ہم امام علی ںکے زمانے میں قعقاع کے رول کے بارے میں سیف کی روایت کا جائزہ لیں گے۔
قعقاع ،امام علی کے زمانے میں
نادی علی ان اعقرواالجمل
علی نے فریاد بلند کی ،اونٹ کوپے کرو!
(مؤرخین)
امر قعقاع بالجمل فعقر
قعقاع نے حکم دیا اونٹ کوپے کرو اور اونٹ پے کیاگیا۔
(سیف بن عمر)
جنگ جمل کی داستان ،سیف کی روایت کے مطابق:
طبری نے سیف سے یوں روایت کی ہے :
حضرت علی بن ابیطالب کی خلافت کے زمانہ میں کوفہ کے باشندوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ امام کی مدد کرتے ہوئے ان کے ساتھ بصرہ جائیں گے۔لیکن ابو موسیٰ اشعری جو عثمان کے زمانے سے کوفہ کا گورنر تھا نے انھیں بصرہ جانے سے روکا ۔اس کی وجہ سے زید بن صوحان ابوموسیٰ سے الجھ گیا اور ان دونوں کے درمیان تلخ کلامی ہوئی !آخر میں قعقاع اٹھا اور بولا:
میں آپ سبوں کا دوست اور ناصح ہوں،میں چاہتاہوں کہ آپ لوگ ذرا عقل سے کام لیں اور میری بات مان لیں،کیونکہ میری بات عین حقیقت ہے۔جو کچھ گورنر ابو موسیٰ اشعری نے کہا، وہ حق بات ہے لیکن قابل اعتماد نہیں ہے۔جہاں تک زید کی بات کا تعلق ہے ،چونکہ اس بغاوت میں خود اس کا ہاتھ ہے،اس لئے اسے ہرگز قبول نہ کرنا ۔(الف)۔حق و حقیقت یہ ہے کہ بے شک لوگوں کو حکومت اور خلیفہ کی ضرورت ہے تاکہ وہ پوری طاقت کے ساتھ معاشرے کی اصلاح کا اقدام کرے اور سماج میں نظم وضبط برقرار کرے ۔ظالموں کو قرار واقعی سزادے اور مظلوموں کی دادرسی کرے امام علی ـ لوگوں کے حاکم مقرر ہوئے ہیں۔انھوں نے خیر خواہانہ طور پر لوگوں کو اپنی حمایت کی دعوت دی ہے۔وہ لوگوں کو اصلاح کی طرف بلارہے ہیں ۔لہٰذا ان کاساتھ دو اور ان کی اطاعت کرو۔
صلح کا سفیر
طبری نے مزید روایت کی ہے :
قعقاع بن عمرو کوفہ کے کمانڈروں میں وہ پہلا کمانڈر تھا ،جس نے علی کا ساتھ دیا۔اور جب ذی قار کے مقام پر علی کی خدمت میں پہنچا،تو حضرت نے اسے اپنے پاس بلاکر اسے بصرہ کے لوگوں کی جانب اپنا سفیر اور ایلچی بنا کر روانہ کیا اور فرمایا:
اے ابن حنظلیہ !ان دو مردوں (طلحہ وزبیر) سے ملاقات کرو (سیف کا کہنا ہے کہ قعقاع
١لف۔سیف نے اس افسانہ میں زید بن صوحان کو اس کے مقام ومنزلت کے پیش نظر خاص طور پر سبائی جتلاکر قعقاع کی زبانی اس کی اس طرح تصویر کشی کی ہے۔
رسول خدا ۖکا صحابی تھا)اور انھیں اسلامی معاشرے میں اتحاد ویکجہتی قائم کرنے کی دعوت دو اور معاشرے میں اختلاف وافتراق سے انھیں خبر دار کرو!اس کے بعد فرمایا:ان کا جواب سننے کے بعد اگر کسی خاص امر میں تمھارے پاس میرا حکم موجود نہ ہو تو ،تم کیا کروگے؟قعقاع نے جواب میں کہا:آپ کے حکم کے مطابق ان دونوں سے ملوں گا۔اگر کوئی ایسا امر پیش آیا جس کا حکم آپ نے نہ دیا ہوتو میں اپنی رائے اور اجتہاد سے اس کا تدارک کروں گا۔ان کے ساتھ جو بھی سزاوار ہو،مشاہدہ کے مطابق اسی پر عمل کروں گا۔
امام علی ںنے جواب میں کہا:تم اس کام کے لائق ہو ،جاؤ!
اس کے بعد قعقاع اپنی ماموریت پر روانہ ہوا۔جب ان (عائشہ،طلحہ وزبیر)کے پاس پہنچا،تو ان سے گفتگو کی ۔ام المومنین عائشہ نے اس کی بات مان لی اور طلحہ وزبیر نے بھی توافق کیا اور کہا:شاباش ہو!سچ کہتے ہو اور حق یہی ہے۔اس طرح انھوں نے دو گروہوں کے درمیان صلح وآشتی قائم کرنے پر اتفاق کیا۔
جب قعقاع صلح وآشتی کی نوید لے کر امام علی ںکی خدمت میں پہنچا تو علی ںاٹھ کر منبر پر تشریف لے گئے اور تقریر کرتے ہوئے بولے:
تم لوگ یہ جان لو کہ میں کل روانہ ہورہاہوں۔تم لوگ بھی تیار رہنا۔لیکن جس نے عثمان کے خلاف کوئی اقدام کیا ہو وہ ہمارے ساتھ نہ آئے ۔ہم احمقوں کی حمایت سے بے نیاز ہیں۔
سبائیوں کی میٹنگ:
سبائیوں نے جب دو سپاہیوں کے درمیان صلح کی خبر سنی تو بڑی تیزی کے ساتھ آپس میں جلسہ منعقد کرکے صلاح و مشورہ کرنے لگے ۔کافی گفتگو کے بعد عبداللہ بن سبا نے یہ تجویز پیش کی کہ :'' دونوں سپاہوں کے قائدین کی بے خبری میں ہم راتوں رات جنگ کے شعلے بھڑکا دیں گے اور انھیں آپس میں ٹکرا دیں گے '' اس تجویز پر تمام سبائیوں نے موافقت کی اور قول و قرار کے بعد متفرق ہو گئے۔
دوسری طرف دونوں فوجیں ایک دوسرے کے سامنے صف آراہوئیں ۔حضرت علی ـ،طلحہ اور زبیر نے اپنی فوج کے مختلف دستوں کے کمانڈروں کو بلا کر انھیں مطلع کیا کہ دونوں گروہوں کے درمیان صلح کا معاہدہ طے ہونے والا ہے اور جنگ نہیں ہوگی ۔نتیجہ کے طور پت دو طرف کے سپاہیوں نے صلح و آشتی کی امید میں وہ دن آرام سے گزارا ۔لیکن اسی رات تاریکی میں سبائیوں نے عبداللہ ابن سبا کی سرکردگی میں جنگ کے شعلے بھڑکا دئے اور دونوں فوجوں کو ایک دوسرے سے ٹکرادیا۔
قعقاع کی جنگ
جنگ چھڑ گئی اسی گرما گرمی کی حالت میں قعقاع اپنے ساتھیوں کے ہمراہ طلحہ کے نزدیک سے گزررہا تھا کہ اس نے طلحہ کو یہ کہتے ہوئے سنا :'' اے خدا کے بندو!میری جانب آجائو ،صبر کرو! صبر کرو! قعقاع نے طلحہ سے کہا : تم زخمی ہو چکے ہو اور اپنی طاقت کھو بیٹھے ہو ،اپنے گھر چلے جائو۔
طبری سیف سے مزید روایت کرتا ہے :
قعقاع نے جنگ کی اس حالت میں مالک اشتر کی شماتت کرتے ہوئے کہا : کیا تم جنگ کی طرف نہیں بڑھو گے ؟! چوں کہ مالک اشتر نے اس کا کوئی جواب نہ دیا اس لئے قعقاع اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے بولا : ہم مضری جنگ میں اپنے مد مقابل سے لڑنے میں دیگر لوگوں سے زیادہ ماہر ہیں ۔اس کے بعد وہ جنگ کو جاری رکھتے حسب ذیل رجز خوانی کرنے لگا:
''جب ہم کسی پانی پینے کی جگہ پر وارد ہوتے ہیں تو اسے پاک و صاف کرکے رکھتے ہیں اور جس پانی پر ہم قبضہ کر لیتے ہیں تو کسی کی مجال نہیں کہ اس کی طرف دست درازی کرے ''
طبری نے مزید روایت کی ہے :
''زفر بن حارث آخر ی شخص تھا جس نے میدان کا رزار میں جاکر جنگ کی قعقاع نے جاکر اس کا مقابلہ کیا ۔
عائشہ کے اونٹ کے اطراف میں جنگ شدت اختیار کر گئی تھی ،اس اونٹ کے اطراف میں قبیلہ بنی عامر کے مردوں میں سے ایک بھی زندہ نہ بچا ،اس وقت قعقاع نے حکم دیا کہ عائشہ کے اونٹ کو پئے کردیں ۔عائشہ کے اونٹ کے مارے جانے کے بعد قعقاع نے ہی عام معافی کا اعلان کیا اور اپنے اطراف میں موجود سپاہیوں سے کہا :''تم امان میںہو !!'' اس کے بعد اس نے اور زفربن حارث نے اونٹ کے پالان کی پٹیاں کاٹ دیں اور عائشہ کے محمل کو اس سے جدا کر کے آہستہ سے زمین پر رکھ دیا اور اس کے اطراف میںحفاظت کا انتظام کیا۔
جب عائشہ کا اونٹ قتل ہوا تو لوگ (جنگ جمل کے حامی) بھاگ گئے اور جنگ کے شعلے فوراً بجھ گئے ۔یہ کامیابی قعقاع بن عمرو تمیمی مضری کے وجود کی برکت سے نصیب ہوئی ۔جنگ کا عفریت فرار کر گیا اور خطرات ٹل گئے ۔
جنگ جمل کا فخر بھی ابتدا ء سے آخر تک خاندان تمیم کو ہی نصیب ہوا ۔کیوں کہ قعقاع بن عمرو تمیمی کے ذریعہ ہی قوم کے قائدین کے درمیان دوستی و آشتی کا باب کھلتا ہے ۔ سبائیوں کے عبداللہ بن سبا کی سرکردگی میں جنگ کے شعلے بھڑکا نے اور قعقاع کی صلح کی کوششوں پر پانی پھیرتے ہوئے برادر کشی کا بازار گرم کرکے مسلمانوں کے درمیان اختلاف و تفرقہ ڈالنے کے بعد بھی قعقاع بن عمر و تمیمی ہی ہمت و حوصلہ سے میدان کا رزار میں اتر کر ،عرب قوم کو نابود کرنے والی جنگ کے ان شعلوں کو اپنی تدبیر و حکمت عملی سے بجھاتا ہے اور عائشہ کے اونٹ کو قتل کرنے کے بعد جنگ کا خاتمہ کرتا ہے ۔ عام معافی کا اعلان کرنے والا بھی قعقاع بن عمرو تمیمی ہی تھا ۔
حضرت علی ںاور عائشہ کی پشیمانی
طبری سیف بن عمر سے نقل کرتے ہوئے عائشہ اور قعقاع بن عمر و کے درمیان گفتگو کی حسب ذیل روایت بیان کرتا ہے :
عائشہ نے قعقاع بن عمرو تمیمی سے کہا:
''خدا کی قسم !تمنا کرتی ہوں کاش اب سے بیس سال پہلے مر چکی ہوتی ''
امام علی ـنے بھی قعقاع سے یہی کہا ۔علی اور عائشہ کے جملے یکساں تھے ۔
طبری مزید روایت کرتا ہے :
حضرت علی ـابن ابی طالب نے قعقاع بن عمرو کو مامور کیا کہ ان افراد کا سر تن سے جدا کردے ،جنھوں نے عائشہ کے بارے میں شعر کہہ کر اس کی بے احترامی کی تھی ۔
ان میں سے ایک شعر یہ کہا گیا تھا:
'' اے ماں !تیرا جرم نافرمانی ہے ''
اور دوسرے نے کہا تھا:
'' اے ماں !توبہ کر کیوں کہ تونے خطا کی ہے ''
حضرت علی ںنے یہ حکم جاری کرنے کے بعد قعقاع سے کہا : میں انھیں سخت سزا دوںگا۔ اس کے بعد حکم دیا کہ ان دونوں کے کپڑے اتار دئے جائیں ہر ایک کو سو سو
کوڑے مارے ۔
مورخین نے سیف کی روایت طبری سے نقل کی ہے
یہ تھا اس داستان کا خلاصہ جس کی طبری نے سیف بن عمر سے ،جنگ جمل ،اس کے وقوع کے اسباب اور افسانوی سورما قعقاع بن عمرو تمیمی کے نمایاں خدمات اور قابل ذکر سرگرمیوں کے بارے میں روایت کی ہے ۔اور ان ہی مطالب کو ابن کثیر اورابن اثیر نے طبری سے نقل کرکے اپنی تاریخ کی کتابوں میں درج کیا ہے ۔
ابن کثیر اپنے بیان کے آغاز میں کہتا ہے : سیف بن عمر نے اس طرح کہا ہے .... اور اس کے آخر میں لکھتا ہے : یہ اس کا خلاصہ ہے جسے ابو جعفر طبری ......
ابن خلدون نے بھی جمل کے بارے میں درج کی گئی اپنی داستان کے آخر میں لکھاہے : ابو جعفر طبری کی روایت کے مطابق جنگ جمل کا یہ ایک خلاصہ ہے ۔
دوسرے مورخین نے بھی سیف کے افسانے کو طبری سے اقتباس کیا ہے منجملہ میر خواند بھی ہے کہ جس نے ''روضة الصفا '' میں جنگ جمل کے بارے میں طبری کے نقل کئے ہوئے مطالب درج کئے ہیں ۔
ان مردود اور باطل مطالب کی وقعت معلوم کرنے کے لئے ایک تفصیلی تجزیہ اور تشریح کی ضرورت ہے کہ یہاں پر اس کی گنجائش نہیں ہے ۔ہم نے اس کے ایک بڑے حصے کی ''اسلامی تاریخ میں عائشہ کا کردار ''نام کی اپنی کتاب کی فصل ''عائشہ پیغمبر خدا ۖکے دامادوں کے دوران'' میں تشریح کی ہے اور یہاں پر اس کے ایک حصے کو خلاصہ کے طور پر پیش کرنے پر اکتفا کرتے ہیں تاکہ واضح ہو جائے کہ دوسری صدی ہجری کے اس افسانہ ساز ،سیف بن عمر نے کس طرح حقائق میں تحریف کی ہے اور کس طرح اسلام اور تاریخ اسلام کا مضحکہ اڑاتے ہوئے اپنے زندیقی اور مانوی پن کے ناپاک عزائم کو عملی جامہ پہنانے کے لئے دوستی کے لباس میں اسلام کو نابود کرنے کے درپئے رہا ہے ۔ اس کے علاوہ یہ بھی واضح ہوتا ہے امام المورخین ابو جعفر جریر طبری جیسے نام کا عالمی شہرت یافتہ شخص اور مورخ کس طرح اور کیوں اس دروغ گو اور عیار افسانہ ساز کا آلۂ کار بن گیا!!
|