قعقاع ،ایران کی جنگوں میں
اعجزت الاخوات ان یلدن مثلک یا قعقاع ! (بارق۔قعقاع کاماموں)
(سیف کا بیان)
بہر سیر کی فتح
طبری ،سیف سے نقل کرتے ہوئے فتح بہر سیر کی داستان کو حسب ذیل صورت میں بیان کرتاہے:
''ابو مفزر تمیمی نے ایران کے بادشاہ کے مأمور اور ایلچی سے ایک ایسی بات کہی جو ایرانیوں کے فرار کاسبب بنی''۔
اس قصہ کی تفصیل ابو مفزر تمیمی جو سیف کے جعلی اصحاب میں سے ایک ہے کی
زندگی کے حالات پر بحث کے دوران بیان ہوگی۔
حمیری ''روض المعطار ''میں جب مدائن کی تشریح کرنے پر پہنچتا ہے تو اس شہر کو تسخیر کئے جانے کے سلسلہ میں سیف کی روایت بیان کرتے ہوئے اس کے آخر میں لکھتاہے:
''اور قعقاع بن عمرو نے اس سلسلے میں یہ شعر کہے ہیں:ہم نے بہر سیر کو شجع وقافیہ سے مزین اس حق بات کے ذریعہ فتح کیا جو ہماری زبان پر جاری ہوئی ۔ہمارے خوف سے ان کے دل ہل گئے اور وہ ہماری ننگی اورتیز تلواروں کے سامنے آنے سے ڈرگئے''۔
مدائن کی فتح
سیف روایت کرتاہے کہ:
''قعقاع کی کمانڈ میں فوجی دستہ کانام خرساء (خموشان)اور اس کے بھائی عاصم کی کمانڈ میں فوجی دستہ کانام اہوال (وحشت)تھا''۔
ان دو دستوں کے دریائے دجلہ سے عبور کی تفصیلات ہم عاصم سیف کے افسانوی صحابی کی سوانح حیات پر بحث کے دوران بیان کریں گے۔
بہر حال سیف اپنی ایک روایت کے ضمن میں کہتاہے:
''دریائے دجلہ کو عبور کرنے کے دوران سپاہیوں میں غرقدہ نام کے ایک شخص کے علاوہ کوئی شخص غرق نہیں ہوا۔غرقدہ دریا کو عبور کرتے ہوئے اچانک گھوڑے کی پیٹھ سے پھسل کر پانی مین جاگرا۔قعقاع بن عمرو متوجہ ہوا،اس نے ہاتھ بڑھایااور غرقدہ کا ہاتھ پکڑ کر دریائے دجلہ پار کرکے اسے ساحل تک پہنچادیا۔غرقدہ چونکہ ایک قوی پہلوان تھا اور قعقاع کی والدہ بھی خاندان بارق سے تعلق رکھتی تھی ،اس لئے غرقدہ نے قعقاع کی والدہ کی طرف اشارہ کرکے اس لشکر شکن پہلوان سے خطاب کرکے کہا:اے قعقاع! میری بہنیں پھر کبھی تجھ جیسا پہلوان پیدا نہیں کرسکتیں''
سپاہیوں کے مدائن میں داخل ہونے کے سلسلے میں سیف لکھتاہے :
''سب سے پہلا فوجی دستہ جو شہر مدائن میں داخل ہوا،اہوال فوجی دستہ تھا جس کی کمانڈ عاصم بن عمرو کررہاتھا۔اس کے بعد خرساء فوجی دستہ مدائن میں داخل ہوا ۔ سپاہیوں نے اس شہر کی گلی کو چوںمیں کسی فوجی کو نہیں پایا،کیونکہ سبوں نے سفید محل میں پناہ لے رکھی تھی۔اسلامی فوجیوں نے سفیدمحل کو اپنے محاصرے میں لے لیا اور انھیں ہتھیار ڈالنے کوکہا۔انھوں نے مجبور ہوکر ہتھیار ڈال دئے اور جزیہ دینا قبول کیا''۔
بادشاہوں کا اسلحہ ،غنیمت میں
سیف نے حسب ذیل روایت کی ہے:
''مدائن کے فتح ہونے کے دن ،قعقاع شہر سے باہر نکلا اور تلاش و جستجو میں مشغول ہوا، اسی دوران اس کی ایک ایرانی سے مڈبھیڑ ہوئی جو دو چوپایوں کے اوپر ایک بھاری بوجھ لے کرجا رہا تھا ۔اور لوگ چاروں طرف سے اس کی حفاظت کر رہے تھے قعقاع نے اس شخص پر حملہ کیا اور اسے قتل کر ڈالا اور ان دونوں چوپایوں کو اپنے قبضہ میں لے لیا جب ان پر لدے ہوئے سامان کی جستجو کی تو ان میں سے ایک کے اندر کسریٰ ،ہرمز ،قباد ،فیروز ،ہراکلیوس ،ترکمنستان کے بادشاہ خاقان ،ہندوستان کے بادشاہ داہر ،بہرام سیاوش اور نعمان جیسے بادشاہوں کی تلواریں موجود تھیں دوسرے صندوق میں کسریٰ کی زرہ ،کلاہ اس کے پائوں اور ہاتھوں کی حفاظتی سپر اور ہراکلیوس ، خاقان اور داہر کی زرہ سیاوش کی زرہ اور نعمان کی زرہ جو جنگ میں ان سے غنیمت کے طور پر لی گئی تھی موجود تھیں ۔اس کے علاوہ بہرام چوبین اور نعمان کے وہ اسلحہ بھی اس میں موجود تھے جو ان سے اس وقت غنیمت میں لئے گئے تھے جب وہ کسریٰ کی بغاوت کرکے اس سے جدا ہوئے تھے ۔
قعقاع نے یہ سب غنائم یکہ و تنہا اپنے قبضہ میں لینے کے بعد انھیں سپہ سالار اعظم سعد وقاص کی خدمت میں پیش کیا سعد نے تجویز کی کہ ان میںسے ایک تلوار قعقاع اپنے لئے انتخاب کرے ۔قعقاع نے ہر اکلیوس کی تلوار کا انتخاب کیا اس کے علاوہ سعد نے بہرام چو بین کی زرہ بھی اسے بخش دی اور کسریٰ و نعمان کی تلواروں کو جن کے بارے میں عربوں میں کافی شہرت تھی خلیفہ عمر کی خدمت میں مدینہ بھیج دیا کہ مسلمان اسے دیکھ لیں اور باقی غنائم خرساء فوجی دستہ کے سپاہیوں کو بخش دئے ''
یہ سب روایتیں افسانہ سازی کے بہادر اور ماہر سیف بن عمر تمیمی کی ہیں ۔اس داستان کی ، دریائے دجلہ سے سپاہیوں کے عبور کرتے وقت ،عاصم بن عمر و کی سوانح حیات بیان کرتے وقت اور فتح بہرسیر کے واقعہ کے بارے میں ابو مفزر اسود بن قطبہ کے حالات پر روشنی ڈالتے وقت مزید وضاحت کی جائے گی ۔
سند کی پڑتال:
سیف نے اس داستان کو اپنے دو جعلی راوی محمد اور مہلب سے نقل کیا ہے کہ حقیقت مین ان کا کہیں وجود نہیں ہے ۔
ا ن کے علاوہ عصمة بن حارث کو بھی راوی کے طور پر ذکر کیا ہے کہ یہ بھی سیف بن عمر کے جعلی روایوں میں سے ایک ہے اور اس کی زندگی کے حالات مناسب جگہ پر بیان کئے جائیں گے ۔
مزید بر آں نضر بن السری نام کا ایک اور راوی سیف نے پیش کیا ہے کہ اس کے ذریعہ طبری میں چوبیس روایات نقل ہوئی ہیں ۔دو اور راوی رفیل اور ابن رفیل ہیں جن سے طبری نے سیف سے بیس روایتیں نقل کی ہیں ۔
ان سب راویوں کو بھی ہم نے سیف کی روایتوں کے علاوہ کسی اور کتاب میں نہیں پایا ۔
دلچسب بات یہ ہے کہ سیف کے مندرجہ بالا جعلی راویوں کے علاوہ اس داستان کے چند دیگر راوی ایک شخص !قبیلہ ٔحارث کا ایک شخص کے عنوان سے بھی ذکر کئے گئے ہیں ۔کیا آپ بتا سکتے ہیںکہ ان دوافراد کے نام کیا تھے تاکہ ہم انھیں راویوں کی فہرست میں تلاش کریں !!
جیسا کہ ہم بتا چکے ہیں کہ سیف کی باتیں سنجیدہ اور بھاری بھرکم ہونے کے بجائے بیشتر لچر اور مضحکہ خیز ہوتی ہیں ،خاص کر جب وہ اپنے افسانوں کے راویوں کو ایک شخص ،یا قبیلہ حارث کا ایک شخص یا ابن رفیل وغیرہ کے عنوان سے ذکر کرتا ہے ۔
ستم ظریفی کی حد ہے کہ ان واضح جھوٹ ،بہتان اور افسانوں پر مشتمل داستان کو سیف نے گڑھاہے اور امام المورخین طبری نے انھیں بے چوں وچرا نقل کرکے اپنی گراں قدر اور معتبر کتاب میں درج کیا ہے اور دوسرے تاریخ دانوں نے بھی اس کے بعد انہی مطالب کو طبری سے نقل کیا ہے ۔
اس داستان کی تحقیق اور اس کے فوائد :
جو کچھ اس بحث و تحقیق سے حاصل ہوتا ہے وہ یہ کہ سیف نے دو تمیمی بھائیوں کی کمانڈ میں ''خاموش '' و ''وحشت'' نامی دو افسانوی فوجی دستے مشخص کئے ہیں اور ایک روایت کے ذریعہ ثابت کیا ہے کہ دریائے دجلہ کو پار کرکے مدائن میں داخل ہونے والے فوجیوں میں یہ دو دستے پیش پیش تھے اور یہ افتخار صرف خاندان تمیم کے ناقابل شکست دو سورمائوں یعنی قعقاع ابن عمرو تمیمی و عاصم ابن عمر و تمیمی کو حاصل ہوا ہے ۔اس کے علاوہ اس بے مثال پہلوان بارقی جو آسانی کے ساتھ کسی کی تعریف نہیں کرتا تھا کی زبانی یہ کہلوایا ہے کہ : '' اے قعقاع !دنیا کی عورتیں کبھی تم جیسا سورما جنم نہیں دے سکتیں !''
یہاں پر بھی قعقاع تمیمی ہی ہے جو فرار کرنے والے سپاہیوں کا پیچھا کرکے غنائم کے محافظین کو قتل کر ڈالتا ہے اور اس قدر غنائم پر قبضہ کرتا ہے ۔ان غنائم میں ایرانی بادشاہوں : کسریٰ ،ہرمز ،قباد ، فیروز اور بہرام چوبین کے علاوہ ہندوستان کے بادشاہ داہر ،روم کے بادشاہ ہراکلیوس اور عرب قحطانی یمانی سلطان نعمان کے اسلحے اور جنگی ساز وسامان شامل تھا ۔اس افتخار سے بڑھ کر مضر خاندان کے عظیم پہلوان اور ناقابل شکست سورما قعقاع بن عمرو تمیمی کے لئے کون سا فخر ہو سکتا ہے کہ اس نے تمام دنیا کے بادشاہوںسے باج لے کر خاندان تمیم کے سرپر فضیلت کا تاج رکھ دیا ہے !!
شاباش ہو سیف پر !جس نے خاندانی تعصب کی بنیاد پر تمام اصولوں کو پائمال کرتے ہوئے خاندان تمیم کے پیروں تلے ایک لڑکھڑاتی سیڑھی قرار دے کر اسے بلند سے بلند لے جانے کی ہر ممکن کوشش کی ہے چاہے اس کا یہ کام کسی ملت یا اسلام کی تاریخ کے نابود ہونے کا سبب کیوں نہ بن جائے !!
جلولا ء کی فتح
طبری نے سیف سے روایت کی ہے :
''خلیفہ عمر نے سپہ سالار اعظم سعد و قاص کو حکم دیا کہ ایرانیوں سے جنگ کرنے کے لئے ہاشم کو جلولاء بھیج دے اور قعقاع بن عمرو تمیمی کو اس کے ماتحت ہر اول دستہ کے سردار کی حیثیت سے مقرر کرے ۔خدا کی طرف سے ایرانیوں کو شکست اور مسلمانوں کی فتحیابی کے بعد عراق اور ایران کے سرحدی علاقوں کی حکومت قعقاع کے سپرد کی جائے ۔
جب ہاشم ،جلولاء پہنچا تو اسے معلوم ہوا کہ ایرانیوں نے اپنے چاروں طرف ایک خندق کھودی ہے اور خود اس میں مخفی ہو گئے ہیں خندق کے اطراف میں تیز دھار والے لوہے کے ٹکڑے اور جنگی سازوسامان کے ٹوٹے پھوٹے آلات پھیلا کے رکھے گئے تھے تاکہ اپنی پناہ گاہ میں داخل ہونے سے اسلامی فوج کے لئے رکاوٹیں کھڑی کر سکیں انھوں نے اپنی پناہ گاہ کے چاروں طرف ایسی رکاوٹیں کھڑی کی تھیں کہ اسلامی فوج کے لئے کسی صورت میں اس کے اندر داخل ہونا ممکن نہیں تھا اس کے برعکس ایرانی جب چاہتے ان تما م رکاوٹوں کے باوجود آسانی کے ساتھ اس پناہ گاہ میں رفت و آمد کر سکتے تھے ۔
مسلمان اس معرکہ میں اسّی (٨٠) دن تک مشرکین پر حملہ کرتے رہے لیکن تقریبا تین ماہ کی اس مدت کے دوران کوئی خاص پیش قدمی نہ کر سکے ۔
ان حالات کے پیش نظر قعقاع ،وہ معروف شہسوار اور ناقابل شکست پہلوان اس تنہا راستہ پر قبضہ کرنے کے لئے مناسب فرصت کی تلاش میں تھا ،جسے مشرکین نے اپنے فوجیوں کی رفت و آمد کے لئے بنا رکھا تھا جب اسے مناسب موقع ملا تو اس نے یکہ و تنہا اس جگہ پر حملہ کیا اور اسے اپنے قبضے میں لے لیا اور پکار کر کہا : اے مسلمانو!تمھارا سپہ سالار اس وقت دشمن کے مورچے کے اندر ہے حملہ کرو!'' قعقاع نے اس لئے یہ جھوٹ بولا تاکہ اسلامی فوج کے حوصلے بلند ہو جائیں اور وہ دشمن پر ٹوٹ پڑیں ۔
قعقاع کی یہ چال کامیاب ہوئی اور اسلامی فوج نے اجتماعی طور پر مشرکین پر حملہ کردیا اس یورش کے دوران انھیں یہ یقین تھا کہ ان کا سپہ سالار ہاشم دشمن کے مورچوں کے اندر گھس گیا ہے ،لیکن اس کے بر عکس قعقاع ابن عمر وتمیمی کو پایا جس نے دشمنوں کی گزرگاہ پر قبضہ کر رکھا تھا۔
اس کے بعد گھمسان کی جنگ چھڑ گئی اور ایرانی جان کے لالے پڑ نے کی وجہ سے اندھا دھند بھاکتے ہوئے خود اسی جال میں پھنس کر ہلاک ہو گئے جسے انھوں نے اپنے دشمن کے لئے رکاوٹ کے طور پر بچھا رکھا تھا ۔ اس طرح ان کے مرنے والوں کی تعداد ایک لاکھ تک پہنچ گئی اور لاشوں سے زمین بھر گئی ۔اسی لئے اس جگہ کی جنگ کو ''جنگ جلولاء '' (الف) کہتے ہیں !!
قعقاع نے فراریوں کا خانقین تک پیچھا کیا بعض کو قتل کیا اور بعض کو اسیر بنایا ۔ ایرانی فوج کے سردار مہران کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیا ۔اس کے بعد قعقاع قصر شرین کی طرف بڑھا اور حلوان سے ایک فرسخ کے فاصلہ پر پہنچا ۔حلوان کا سرحد بان قعقاع کی پیش قدمی کو روکنے کے لئے مقابلے میں آیا ،لیکن اس جنگ کے نتیجہ میں قعقاع کے ہاتھوں مارا گیا اور مسلمانوں نے حلوان پر بھی قبضہ کر لیا۔
سپہ سالار اعظم سعد وقاص کے مدائن سے کوفہ واپس آنے تک قعقاع بن عمر و ،تسخیر شدہ سرحدی علاقوں اور ان کے اطراف کا حاکم رہا جب وہ سعد وقاص سے ملنے کے لئے کوفہ کی طرف روانہ ہوا تو قباد خراسانی کو سرحد بان کی حیثیت سے مقرر کیا ۔
حموی ،جلولاء کی تشریح کرتے ہوئے لکھتا ہے:
''ایک دریا ہے جو بعقوبہ تک پھیلا ہوا ہے اس کے دونوں کناروں پر اس علاقہ کے باشندوں کے گھر بنے ہیں ۔وہاں پر ١٦ھ میں مسلمانوں اور ایرانیوں کے درمیان ایک گھمسان اور مشہور جنگ واقع ہوئی ہے کہ اس میں ایرانیوں کو سخت ہزیمت اٹھانا پڑی ۔میدان جنگ لاشوں سے بھر گیا اور زمین ان لاشوں سے ڈھک گئی تھی ،اسی سبب سے اسے '' جلولاء و قیعہ '' کے نام سے یاد کیا گیا ہے جیسے کہ سیف کہتا ہے : خدائے تعالیٰ نے جنگ جلولاء میں مشرکین کے ایک لاکھ افراد کو ہلاک کر دیا اور ان کی لاشوں سے زمین بھر گئی ،اسی لئے اسے جنگ جلولاء کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ قعقاع ابن عمر ونے جنگ جلولاء میں شعر کہے :
..............
الف)۔ جللہ ۔یعنی ایسا پردہ اس پر رکھا گیا جس نے اسے پوری طرح ڈھانپ لیا سیف کا کہنا ہے کہ اس زمین کو خون نے پوری طرح ڈھانپ لیا تھا ،اس لئے اسے '' جلولاء '' کہا گیا ۔یعنی خون سے ڈھکی ہوئی زمین۔
'' ہم نے جلولاء میں ''اثابر'' اور ''مہران'' کو موت کے گھاٹ اتار دیا جب ان کے لئے راستے بند ہوگئے اس وقت ہماری فوجوں نے ایرانیوں کو محاصرے میں لے لیا اور ایرانی نسل نابود ہو کر رہ گئی :
اس جنگ کے بارے میں کہے گئے اشعار بہت زیادہ ہیں:
حموی نے حلوان کی تشریح کرتے ہوئے اس کے بارے میں لکھا ہے :
'' یہ جگہ ١٩ھ میں مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہوئی ''
جب کہ سیف بن عمر نے اپنی کتاب میں اسے ١٦ھ لکھا ہے ۔اور قعقاع بن عمر وتمیمی نے حلوان کی فتح کے بارے میں شعر کہے ہیں :
'' کیا تمھیں یاد ہے کہ ہم اور تم نے کسریٰ کے گھروں میں پڑائو ڈالا ؟ ہم نے حلوان کی جنگ میں تمھاری مدد و حمایت کی اور بالاخر ہم سب وہاں ایک ساتھ اترے ۔اور عورتوں اور کنیزوں کے کسریٰ کے اوپر نالہ و شیون کرنے کے بعد ہم نے حلوان میں فتح پائی ''
سیف کی روایت کا دوسروں کی روایت سے موازنہ :
طبری نے فتح جلولاء اور فتح حلوان کے بارے میں اپنی کتاب میں سیف بن عمر تمیمی کی روایت کے علاوہ کسی اور کی روایت کے بارے مین کوئی ذکر نہیں کیا ہے جب کہ یہ داستانیں دینوری اور بلاذری کی کتابوں میں درج کئے گئے واقعات کے بر عکس ہیں ۔دینوری اور بلاذری نے لکھا ہے :
''جلو لاء میں مسلمانوں کا حملہ ایک ہی دن شروع ہوا اور اس دن شام تک جنگ جاری رہی۔افق پر سرخی نمودار ہوتے ہی مسلما نوں کی کا میابی کے آثار نظر آنے لگے اور دشمن بھاگنے پر مجبور ہوگئے اور شام ہوتے ہی جنگ ختم ہوئی ۔دشمن کے چھوٹے بڑے خیموں پر مسلما نوں نے قبضہ کرلیا۔''
جب کہ سیف کہتا ہے:
''مسلما نوں کا حملہ او ر ان کی پیش قدمی اسّی دن تک جاری رہی۔''
وہ مزید کہتا ہے :
''سر حدی علاقوں کے ایک حصہ کی حکومت قعقاع بن عمرو تمیمی کو دیدی گئی ۔''
جب کہ بلا ذری اور دینوری نے لکھا ہے :
''جرید بن عبداللہ بجلی قحطانی یمانی نے چار ہزار سپاہیوں کی سر کردگی میں جلولاء کی حکومت اپنے ہاتھ میں لے لی اور اسی نے حلوان کو بھی فتح کیا ہے ۔''
نہ کہ بقول سیف قعقاع بن عمرو تمیمی نے !!
سند کی جانچ :
سیف نے اس داستان کو بھی محمد اور مھلب سے نقل کیا ہے جب کہ یہ دونوں اس کے جعلی راوی ہیں ۔
اسی طرح سیف نے اس روایت کے راوی کے طور پر عبداللہ محفز کا ذکر کیا ہے جس نے اپنے باپ سے رو ایت کی ہے ۔عبداللہ محفز سے مجموعی طور پر چھہ احادیث تاریخ طبری میں سیف کے ذریعہ درج ہوئی ہیں ۔
سیف کی نظر میں اس روایت کا ایک اور راوی مستنیر بن یزید ہے کہ تاریخ طبری میں سیف کے ذریعہ اس سے اٹھارہ روایتیں نقل ہوئی ہیں ۔
اس کے علاوہ بطان بن بشیر ہے ،جس سے سیف کی تاریخ طبری میں صرف ایک روایت نقل ہوئی ہے اور حماد بن فلان !!البرجمی ہے جس نے اپنے باپ سے روایت کی ہے ۔اس سے سیف کے ذریعہ طبری میں دو روایتیں نقل ہوئی ہیں ۔
ہم نے سیف کے مذکورہ بالا راویوں کو راویوں کا فہرست اور طبقات میں بہت تلاش کیا لیکن ان کا کہیں کوئی نام و نشان نہیں پایا ۔صرف سیف کے یہا ں ان کا سراغ ملتا ہے چونکہ گزشتہ تجربے کی روشنی میں جا ن گئے ہیں کہ سیف اشخاص کو جعل کرنے میں ماہر ہے ،اس لئے ہم سمجھ گئے کہ یہ راوی بھی اس کے تخیلات کی تخلیق اور جعلی ہیں ۔
اس کے علاوہ ہم نے اس سے پہلے بھی اشارہ کیا ہے کہ سیف کی روایتیں سنجیدہ ہونے کے بجائے مضحکہ خیز ہوتی ہیں ،خاص کر جب وہ اپنے افسانوں کے لئے کسی راوی کو حماد بن فلان !!کے نام سے ذکر کرتا ہے جس نے جناب فلاں سے روایت کی ہے !!
سیف کی روایت کا دوسروں کی روایات سے موازنہ:
ہم نے مشاہدہ کیا کہ طبری نے سیف سے جلولاء کی جنگ ،اس کی وجہ تسمیہ اور اس جنگ میں مقتولین کی تعداد کے بارے میں مطالب ذکر کئے ہیں جو سب کے سب اس کے بر عکس ہیں جن کا دوسروں نے ذکر کیا ہے ۔
حموی نے داستان سیف کے ایک حصہ کو سیف کے قعقاع سے نسبت دئے گئے اشعار کو جلولاء کی تشریح میں اپنے مطالب کی دلیل کے طور پر درج کرتے ہوئے تاکید کی ہے کہ جلولاء اور حلوان کے بارے میں سیف کی کتاب میں بہت سے اشعار موجود ہیں ۔
لیکن طبری نے اپنی عادت کے مطابق ان تمام اشعار میں سے ایک شعر بھی اپنی کتاب میں درج نہیں کیا ہے ۔ وہ سیف سے نقل کرتے ہوئے عراق وایران کے سر حدی علاقوں کی حکومت قعقاع بن عمرو تمیمی کے ہاتھ میں ہونا بیان کرتا ہے اور حلوان کا فاتح بھی اسی کو ٹھہرا تا ہے ۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس علاقے کی حکومت جریر بن عبداللہ بجلی قحطانی یمانی کے ہاتھ میں تھی اور یہی جریر یمانی ہے جس نے حلوان کو کرمانشاہ تک فتح کیا ہے ،نہ کہ قعقاع نے !
اور یہ نکتہ ہم نے گزشتہ بحثوں میں مکرر کہا ہے کہ طبری نے اس داستان کو براہ راست سیف سے نقل کرکے اپنی تاریخ میں درج کیا ہے اور دیگر مورخین ،جیسے ابن کثیر ،ابن اثیر ،ابن خلدون اور میر خواند،سبوں نے طبری سے نقل کرکے اسے اپنی تاریخ کی کتابوں میں درج کیا ہے ۔
اس حدیث کے نتائج :
١۔ناقابل تسخیر مورچہ پر قبضہ کرنے کی صورت میں قعقاع کے افتخارات میں ایک اور فخر کا اضافہ کرنا۔
٢۔ خاندان تمیم کے افسانوی سورما قعقاع کے ہاتھوں ایرانی سپہ سالار مہر ان کا قتل ہونا۔
٣۔ حلوان کی فتح اور اس کے سرحدبان کا قتل ہونا۔
٤۔ تسخیر شدہ سرحدی علاقوں پر خاندان تمیم کے ناقابل شکست بہادر قعقاع کی حکومت جتلا کر خاندان تمیم کے سر پر فضیلت کا تاج رکھنا۔
٥۔ اور آخر کار جنگ جلولاء میں ایک لاکھ انسانوں کے قتل عام کا مسلمانوں کی دوسری جنگوں
میں کئے گئے انسانی قتل عام میں اضافہ کرکے ان لوگوںکے لئے ایک اور سند فراہم کرنا ،جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اسلام تلوار سے پھیلا ہے ۔
یہاں تک ہم نے قعقاع کی ایران میں فتوحات کے سلسلے میں سیف کی روایات کا جائزہ لیا اگلی فصل میں ہم ان دیگر فتوحات کے بارے میں تحقیق کریں گے جن کو سیف نے ایران کی فتح کے بعد دوبارہ شام میں اس افسانوی سورما قعقاع کے لئے جعل کیا ہے۔
|