ایک سو پچاس جعلی اصحاب(پہلی جلد)
 

قعقاع ،شام کی جنگوں میں
کم من اب لی قد و رثت فعالہ
کتنے ایسے میرے اسلاف و اجداد ہیں جن سے میں نے نیکی اور شجاعت وراثت میں پائی ہے
(سیف کا افسانوی سورما ،قعقاع)

جنگ یرموک کی داستان
طبری ١٣ھ کے حوادث کے ضمن میں سیف سے نقل کرتے ہوئے لکھتا ہے:
''یرموک کی جنگ میں خالد بن ولید نے گھوڑسواروں کی فوج کے ایک دستہ کی کمان قعقاع بن عمر و کو سونپی اور اسے دشمنوں سے لڑنے کا حکم دیا قعقاع نے خود کو جنگ کے لئے آمادہ کیا اور حسب ذیل رجز پڑھے :
'' کاش !جنگجو اور شجاع سپاہیوں کو تہس نہس کرنے سے پہلے تجھے سواروں کے درمیان دیکھتا ،تجھے میدان جنگ میں دیکھ کر تیرا مقابلہ کرتا''
اس کے بعد طبری نے سیف سے نقل کرتے ہوئے جنگ کی تفصیلات درج کرتے ہوئے رومیوں کی جنگی تیاریوں کی عجیب طرز سے توصیف کی ہے:
''رومیوں نے اپنے سپاہیوں کی اس طرح تقسیم بندی کی تھی : اسّی (٨٠)ہزار فوجی ایک دوسرے سے سٹی ہوئی قطاروں کی صورت میں خود کو ایک دوسرے سے باندھے ہوئے تھے !چالیس ہزار فدائی جنگجوئوں نے خود کو زنجیروں سے ایک دوسرے سے وابستہ کر رکھا تھا !چالیس ہزار سپاہیوں نے بھی خود کو دستاروں کے ذریعہ ایک دوسرے سے باندھ رکھا تھا! اس کے علاوہ اسی(٨٠) ہزار سوار اور اسّی ہزار پیدل فوج تھی ،غرض دشمن نے ایک عظیم اور حیرت انگیز فوج کو منظم اور آمادہ رکھا تھا ''
خالد نے اپنے سپاہیوں کے ہمراہ دشمن کی پیدل فوج پر حملہ کیا اور انھیں ایسے تہس نہس کرکے رکھ دیا کہ دشمن کی فوج ایک دیوار کے مانند دھڑام سے گر گئی ۔ رومی فوج اپنی خندق کی طرف دوڑ پڑی اور برگ خزاں کے مانند گروہ گروہ واقوصہ کی خندق میں ڈھیر ہو کر نابود ہوتی گئی اس طرح واقوصہ میں ایک دوسرے سے بندھے ہوئے سپاہیوں کی ایک عظیم قتل گاہ وجود میں آگئی ۔کافی تھا کہ ان میں سے ایک سپاہی کو قتل کیا جاتا اور وہ اپنے ساتھ دس سپاہیوں کو لیکر خندق میں جا گرتا تھا ،اس طرح دشمن کے ایک لاکھ بیس ہزار سپاہی مارے گئے !!''
ابن عساکر اس روایت کے آخر میں ،جسے اس نے واقوصہ کے بارے میں سیف بن عمر سے نقل کیا ہے ،نیز قعقاع کی زندگی کے حالات بیان کرتے ہوئے دو نوں کے آخر میں درج ذیل اشعار نقل کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ : قعقاع بن عمرو تمیمی نے یرموک کی جنگ میں یہ شعر کہے تھے ۔
''کیا تم لوگوں نے نہیں دیکھا کہ ہم یرموک کی جنگ میں اسی طرح فتحیاب ہوئے جس طرح عراق کی جنگوں میں کامیاب ہوئے تھے ؟ہم نے شہر یرموک سے پہلے شہر بصری کو فتح کیا جسے ناقابل تسخیر تصور کیا جاتا تھا ۔ اسی طرح ایسے نئے نئے شہروں کو بھی فتح کیا جنھیں آج تک کسی نے فتح نہیں کیا تھا ۔ ہم نے شہر مرج الصفر کو اپنے سواروں اور پیدل فوج کے ذریعہ فتح کیا ۔جو بھی ہمارے سامنے آجاتا تھا اسے ہم ننگی تلوار سے قتل کر ڈالتے تھے اور جنگی غنائم لے کر لوٹتے تھے ۔واقوصہ کی جنگ میں ہم نے رومیوں کی ایک بڑی تعداد کو ہلاک کیا میدان جنگ میں ہمارے لئے ان کی قدر کبوتر کے فضلہ سے بھی حقیر تھی ۔واقوصہ کی جنگ میں ہم نے ان کی فوج کا قتل عام کیا اور ان کے کشتوں کے پشتے لگا دئے یہ ان کا المناک اور درد ناک انجام تھا''
ابن کثیر نے سیف کی اس روایت کو قعقاع کے اشعار کے ساتھ اپنی تاریخ کی کتاب میں ایک جگہ ذکر کیا ہے ۔
ابن اثیر نے صرف اصل روایت کو نقل کیا ہے لیکن مذکورہ اشعار درج نہیں کئے ہیں ۔
حموی نے لغت '' واقوصہ'' میں روایت کے ایک حصہ کو درج کیا ہے اور یوں لکھتا ہے:
'' واقوصہ شام میں سر زمین حوران میں ایک صحرا ہے ۔وہاں پر ابوبکر کے زمانہ میں اسلامی فوج نے پڑائو ڈال کررومیوں سے جنگ کی ہے اور قعقاع بن عمرو نے اس جنگ میں یہ شعر کہے ہیں :..
یہاں پر مذکورا بالا اشعار میں سے پہلا شعر اور پھر پانچویں سے ساتویں شعر تک درج کیا ہے ۔

سیف کی روایت کی حیثیت :
سیف نے یرموک کی فتح کو ١٣ھ میں بصری کی فتح کے بعد نقل کیا ہے ۔
لیکن ابن اسحاق اور دیگر مورخین نے '' اجنادین ''کی فتح کو '' بصری'' کی فتح کے بعد ذکر کیا ہے اور یرموک کی فتح کو ١٥ھ میں بیان کیا ہے اور اسے اس علاقہ کے شہروں کی آخری فتح جانتے ہیں دوسری جانب ''واقوصہ'' کا کہیں نام و نشان نہیں پایا جاتا ۔اس سلسلے میں صرف بلاذری لکھتا ہے کہ:
''رومیوں نے جنگ '' اجنادین '' کے بعد ''یاقوصہ'' میں ایک بڑی فوج جمع کی اور مسلمانوں نے وہاں پر رومیوں سے جنگ کی اور انھیں پسپا ہونے پر مجبور کیا''
لگتا ہے سیف نے لفظ'' یاقوصہ '' کو اس لئے ''واقوصہ'' میں تبدیل کیا ہے تاکہ اپنے مقصد کو پانے کے لئے مادئہ وقص یعنی گردن توڑنا سے استفادہ کرے اور اپنے فرضی میدان جنگ میں خالد بن ولید کی پیدل فوج کے شدید حملہ کے ذریعہ دشمن کی گردن توڑنے کو ثابت کرے۔

سند کی پڑتال :
سیف نے اس حدیث کے راوی کے طور پرمحمد بن عبداللہ کا نام لیا ہے ،جس کے بارے میں پہلے ہی معلوم ہو چکا کہ وہ سیف کا جعلی راوی ہے ۔اس کے علاوہ ابو عثمان یزید بن اسیدعسانی کو راوی کے طورپر پیش کیا ہے ۔لیکن اس کے بارے میں ہم نے نہ تاریخ طبری میں اور نہ تاریخ ابن عساکر میں کوئی روایت پائی ،اس کے علاوہ چوںکہ ہم نے اس کانام راویوں کی فہرست اور طبقات روایت میں بھی کہیںنہیں پایا ،اس لئے اسے بھی سیف کا جعلی راوی جانتے ہیں۔اور معلوم ہوا کہ یہ شخص بھی اس کے دیگر راویوں اور ناقابل شکست جعلی سورمائوں کی طرح حقیقت میں کوئی وجود نہیں رکھتا ۔

حدیث کی پڑتال کا نتیجہ
سیف کے کہنے کے مطابق ،یرموک میں جنگ کے لئے آمادہ ہوکر حملہ کرنے والے اور رجزو رزم نامے پڑھنے والے بزرگ اصحاب،ناقابل شکست پہلوان اور اسلام کے سچے سپاہی ،خاندان تمیم کے دوسورماؤں،یعنی قعقاع بن عمرو اور ابو مفزر کے علاوہ اور کون ہوسکتے ہیں؟
''واقوصہ''کی جنگ میں ایک لاکھ بیس ہزار انسان قتل عام کئے جاتے ہیں،سیف نے کمانڈر انچیف،خالد بن ولید اور اس کی پیدل فوج کے برق رفتار حملے کے نتیجے میں صرف واقوصہ کی جنگ میں ایک لاکھ بیس ہزار جوانوں کو خاک وخون میں لوٹتے دکھایاہے۔اس طرح اتنے انسانوں کاخون بہاکر چند لمحوں کے لئے اپنی نہ بجھنے والی پیاس کو تسکین دی ہے،جب کہ دیگر مؤرخین نے اس قسم کی کوئی بات بیان نہیں کی ہے۔انہی میں سے بلاذری بھی ہے جس نے اپنی کتاب ''فتوح البلدان'' میں یرموک میں قتل ہوئے کل افراد کی تعداد ستر ہزار بتائی ہے۔اس کے علاوہ جاننا چاہئے کہ سیف وہ تنہا شخص ہے جس نے یرموک کی جنگ کو ١٣ ھ میں ذکر کیاہے۔
سیف کے افسانوی سورما قعقاع کی جنگوں اور فتوحات کے یہ وہ چند نمونے تھے جنھیں اس نے ابو بکر کے دور میں روایت کیاہے۔عمر کے دور میں شام میں قعقاع کی جنگ وفتوحات کے نمونوں کاجائزہ ہم آنے والی فصل میں پیش کریں گے۔

قعقاع ،عمر کے زمانے میں
قتل فیہ من الروم ثمانون الفاً
''جنگ فحل میں اسّی ہزار رومی قتل کئے گئے ''

فتح دمشق کی داستان:
شہر دمشق کی فتح کے بارے میں سیف لکھتاہے:
''شہر دمشق کے محافظین کے سردار کے ہاں بیٹا پیدا ہواتھا۔محافظین نے ایک ولیمہ کا اہتمام کیاتھا۔اور کھانے پینے میں مشغول ہوئے اور اپنی ذمہ داریوں کوفراموش کرکے شہر کی اہم چوکیوں کی حفاظت سے غافل ہوگئے ۔اس امر سے خالد بن ولید کے علاوہ کوئی مسلمان آگاہ نہیںہوا، چونکہ وہ ہوشیار تھا اور اس سے اس شہر کے باشندوں اور محافظوں سے متعلق کوئی چیز پوشیدہ نہ تھی!
رات ہوتے ہی خالد،قلعہ کے ساکنوں کی مستی اور غفلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے قعقاع بن عمرو اور مذعور بن عدی کے ہمراہ پہلے سے بنائی گئی رسیوں کی سیڑھیاں لے کر قلعہ کے نزدیک پہنچا ۔ انھوں نے رسی کی سیڑھیاں دشمن کے قلعہ کی دیوار کے کنگروں پر پھینکیں دو رسیاں کنگروں میں اٹک گئیں ۔ قعقاع اور مذعور سیڑھیوں سے اوپر چڑھ گئے پھر انھوں نے باقی سیڑھیوں کی رسیاں کنگروں سے محکم باندھ لیں اور دیگر لوگ بھی قلعہ کی دیوارسے اوپر چڑھ گئے ۔اس کے بعد بے خبر ومست محافظین پر حملہ کرکے ماردھاڑ شروع کی۔اورآسانی کے ساتھ ان پر غلبہ پالیا۔اس کے بعد اسلام کے سپاہیوں کے لئے قلعہ کادروازہ کھولدیا...''
ابن عساکر نے اس پوری داستان کو سیف سے نقل کرنے کے بعد اضافہ کیاہے:
''اور قعقاع بن عمرو نے فتح دمشق کی مناسبت سے یہ شعر کہے ہیں:
سلیمان کے دوشہروں (دمشق وتدمر)کے نزدیک ہم نے کئی مہینوں تک استقامت کی اور اپنی تلواروں پر ناز کرنے والے رومیوں سے جنگ کرتے رہے۔جب ہم نے دمشق کے عراقی دروازے کو اپنے قبضے میں لے کر کھول دیا تو ان کے تمام سپاہیوں نے ہتھیار ڈال دئے۔جب پورے شہر پر ہمارا قبضہ ہوگیاتو میں نے حکم دیا کہ ان کے سر تن سے جدا کردئے جائیں اور ان کے گلے پھاڑدئے جائیں۔ جب انھوں نے شہر دمشق اور تدمر میں ہمارے پنجے مستحکم ہوتے دیکھے توخوف ووحشت سے انگشت بدندان رہ گئے''۔
لیکن جیسا کہ ہم نے پہلے بھی اشارہ کیاہے کہ طبری نے اپنی تاریخ میں روایت کے آخر میں اشعار حذف کئے ہیں۔اسی لئے مذکورہ اشعار کو بھی اپنی روایت میں درج نہیں کیاہے۔

یہ داستان کہاں تک پہنچی
فتح دمشق کی داستان کو طبری اور ابن عساکر دونوں نے سیف سے نقل کیاہے اور دوسروں جیسے،ابن اثیر اور ابن کثیر نے اسی طرح طبری سے نقل کرکے اپنی کتابوں میں درج کیاہے۔خاص کر ابن کثیر اس روایت کو اس طرح شروع کرتاہے:
''سیف کہتاہے .....''
اس کے بعد داستان کو آخر تک لکھتاہے۔

سیف کی روایت کا دوسروں کی روایت سے موازنہ :
بلاذری نے فتح دمشق کی تشریح کرتے ہوئے اپنی کتاب ''فتوح البلدان '' میں لکھا ہے:
''خالدبن ولید نے ''دیرخالد ''کے باشندوں سے یہ شرط رکھی کہ اگر اسے ایک سیڑھی دیدیں ، جس کے ذریعہ وہ دمشق کے قلعہ کی دیوار پر چڑھ سکے تو ان کے خراج میں تخفیف کردے گا۔کہ آخر کار ابو عبید نے خالد کے مطالبہ کو پورا کیا''۔

سند کی پڑتال
فتح دمشق کی داستان کو سیف نے صرف ایک جگہ اور ایک روایت میں تین راویوں ،ابو عثمان ،خالد اور عبادہ سے نقل کیاہے۔ابو عثمان کے بارے میں پہلے ہی معلوم ہوچکاہے کہ وہ سیف کا جعلی راوی اور اس کے ذہن کے تخلیق ہے۔
لیکن خالد وعبادہ جن سے طبری اور ابن عساکرنے سیف کے ذریعہ سولہ روایتیں نقلی کی ہیں کے بارے میں ہم فہرست اور طبقات رجال میں کوئی سراغ نہ پاسکے۔

فحل کی جنگ
طبری اور ابن عساکر نے سیف سے نقل کرتے ہوئے اس طرح روایت کی ہے:
''دمشق کو فتح کرنے کے بعد ابوعبیدہ''فحل''کی طرف روانہ ہوا۔رومیوں نے اسلامی فوج سے لڑنے اور ان کی پیشقدمی کو روکنے کے لئے اسّی ہزار فوج آمادہ کر رکھی تھی اور گھات لگاکر اچانک اسلامی فوج پر حملہ کیا۔مسلمانوں نے شجاعت اور دلیری کے ساتھ رومیوں کے اس اچانک حملہ کاڈٹ کر مقابلہ کیا۔اس طرح ایک گھمسان جنگ چھڑگئی ۔یہ جنگ ایک دن اور ایک رات جاری رہی۔مسلمانوں نے رومیوں کی فوج کو تہس نہس کرکے رکھ دیا اور سر انجام یہ جنگ مسلمانوں کی فتحیابی اور رومیوں کی ہزیمت پر ختم ہوئی۔
رومیوں نے پہلے سے ہی ایک خندق کھود کر اس میں پانی بھر دیاتھا تا کہ اسلامی فوج کی پیشقدمی کو روک سکیں۔لیکن شکست کھاکر پیچھے ہٹتے ہوئے رومی خود اس خندق میں گر کر دلدل میں پھنس گئے ۔ایسے پھنسنے والوں کاحال معلوم ہی ہے کہ کیا ہوگا!اس طرح اس جنگ میں اسّی ہزار رومی ہلاک ہوگئے مگر یہ کہ کوئی فرار ہونے میں کامیاب ہواہو !
ابن عساکر نے اس داستان کے آخر میں یہ اضافہ کیاہے:
''اور قعقاع بن عمرو نے فحل کی فتحیابی کے سلسلے میں اس طرح شعر کہے ہیں:
''کتنے ایسے میرے اسلاف ہیں،کہ ان کے نیک کام مجھے وراثت میں ملے ہیں۔میرے اجداد ایسے ہیں جن کی عظمت وبزرگواری سمندر کے مانندہے۔انھوں نے بھی فضائل کو اپنے اجداد سے وراثت میں پایاتھا اور بصیرت وبلند نظریات کی بناپر ان فضائل کو چار چاند لگائے تھے ۔میں نے بھی اپنی ذمہ داری کے مطابق ان مفاخر وفضائل کو بڑھاوادیا اور انھیں نقصان پہنچنے نہیں دیا۔میری اولاد بھی اگر میرے بعد زندہ رہے تو وہ بھی ان فضائل و مفاخر کے بانی ہوں گے ''
''فوج کے سپہ سالار ہمیشہ ہم میں سے رہے ہیں ،وہ بادشاہوں کی طرح حملہ کرتے ہیں ، ان کے پیچھے بہادر فوج ہے ۔ہم میدان کارزار کے بہادر ہیں ،جس وقت سرحد کے محافظ سستی دکھاتے ہیں ،ہم ان پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور ان پر فتح پاتے ہیں ''
فحل کی جنگ میں جب میرا گھوڑا کرو فر کے ساتھ لمبی لمبی سانسیں لینے لگا اور بلائیں چاروں طرف سے گھیرنے لگیں تو لوگ میری سر بلندی اور بہادر ی کا مشاہدہ کر رہے تھے ۔اگر میری جگہ پر کوئی اور ان بلائوں سے مقابلہ کرنے کے لئے میدان میں آتا تو بے چارہ اور ذلیل ہو کے رہ جاتا اور ایسے کام کو اپنے ذمہ لینے پر شرمندہ ہو جاتا !''
عربی گھوڑے فحل کے میدان کارزار میں گردو غبار کو آسمان پر اڑاتے ہوئے دشمن کی فوج کو کچلے دے رہے تھے ،سر انجام ان کے گھوڑوں نے اپنے ہی سرداروں کو دلدل میں گرادیا اور وہ اٹھنے کے قابل نہ رہے ۔اس کے بعد ہم نے سر نیزوں سے دشمن پر حملہ کیا ۔ ہم نے ان کی فوج کو دلدل میں نابود کرکے رکھ دیا اس دن تمام نگاہیں مجھ پر متمرکز تھیں ۔
اس کے علاوہ سیف نے روایت کی ہے کہ قعقاع نے جنگ فحل میں یہ شعر کہے ہیں:
''فحل کی جنگ میں ہم اتنے مشکلات سے دو چار ہوئے کہ جس کے خوف سے پہلوان اپنے اسلحہ کو گھر میں ہی بھول جاتے تھے ۔میں اس دن اپنے مشہور گھوڑے پر پوری طاقت سے سوار ہوکر اپنے بہادر فوجیوں کے ساتھ دشمن پر تیر باران کرتا تھا ۔ بالاخر ہم نے مقاومت کرنے والے دشمن کے فوجیوں کو تلوار کے وار سے منتشر کرکے بھگا دیا''
''ہم ہی ہیں جنھوں نے عراق کو اپنے گھوڑوں سے عبور کیا اور شام میں اپنی تلواروں کے سائے میں جنگ لڑی اور عراق اور اس کی جنگوں کے بعد بہت سے نصرانیوں کو نابود کرکے رکھ دیا ''
حموی نے سیف کی اس روایت پر استناد کرکے لغت ''فحل'' کے بارے میں لکھا ہے :
''جس سال مسلمانوں کے ہاتھوں دمشق فتح ہوا ،اسی سال فحل میں مسلمانوں اور اسّی(٨٠) ہزار رومی فوج کے درمیان جنگ ہوئی اور قعقاع بن عمرو تمیمی نے اس جنگ کے بارے میں یوں کہا ہے ...:
اس کے بعد روایت کی سند کے بارے میں کسی قسم کا اشارہ کئے بغیر چار شعر ذکر کئے ہیں۔

سیف کی روایت کا دوسروں کی روایت سے موازنہ:
طبری نے ''فحل'' کی پوری داستان سیف سے نقل کی ہے ،اور معمول کے مطابق اس سے مربوط رجز و شعر کو حذف کیا ہے ۔
ابن عساکر نے بھی فحل کی پوری داستان سیف سے نقل کی ہے اور اس سے مربوط اشعار بھی ذکر کئے ہیں ۔
حموی نے اس داستان کا تھوڑ ا سا حصہ لغت '' فحل '' کے سلسلے میں سند کے بغیر ذکر کیا ہے لیکن اس داستان سے مربوط مطالب ،ان مطالب سے مختلف ہیں جو دیگر مورخین نے اس سلسلے میں درج کئے ہیں مثال کے طور پر بلاذری نے اس معرکہ میں قتل ہوئے لوگوں کی تعداد دس ہزار بتائی ہے ۔اس کے علاوہ کسی بھی مورخ نے شام کی جنگوں میں خاندان تمیم کے سورمائوں کی شرکت کا ذکر نہیں کیا ہے ۔
ابن عساکر لکھتا ہے :
''مورخین کا اتفاق ہے کہ شام کی فتوحات میں قبائل اسد ،تمیم اور ربیعہ میں سے کسی نے شرکت نہیں کی ہے بلکہ وہ اپنی لشکر گاہ یعنی عراق کے حالات کے مطابق وہیں پر ایرانیوں سے بر سر پیکار تھے '' ١

سند کی پڑتال :
سیف نے داستان فحل ،ابو عثمان یزید سے روایت کی ہے جب کہ پہلے معلوم ہو چکا ہے کہ اس کاحقیقت میں کوئی وجود ہی نہیں ہے بلکہ وہ سیف کا جعل کردہ راوی ہے ۔

جانچ پڑتال کا نتیجہ :
فتح دمشق میں ''دیرخالد ''کے باشندے ،خالد بن ولید کو ایک سیڑھی دیتے ہیں تاکہ اس کے ذریعہ وہ دمشق کے قلعہ پر چڑھ سکے ۔جبکہ سیف کہتاہے کہ قعقاع اور اس کے ساتھی رسیوں سے سیڑھیاں بنائیں اور ان کے ذریعہ قلعہ کے برج پر چڑھے۔
سیف کہتاہے کہ جنگ فحل مین اسّی ہزار دشمن کے سپاہی مارے گئے ،جب کہ دوسرے مورخین اس جنگ میں قتل ہوئے لوگوں کی تعداد تقریباً دس ہزار بتاتے ہیں۔
سیف نے فحل کی جنگ اور اس میں دشمن کی شکست کو فتح دمشق کے بعد ذکر کیا ہے ،جبکہ دوسرے مؤرخین کاکہنا ہے کہ یہ جنگ فتح دمشق سے پہلے واقع ہوئی ہے۔
سیف نے اپنے افسانوی سورما،قعقاع بن عمرو سے فتح فحل کے بارے میں اشعار نقل کئے ہیں ۔طبری نے اپنی روش کے مطابق انھیں اپنی روایتوں میں حذف کیا ہے ، جب کہ ابن عساکر نے طبری کے برعکس ان تمام اشعار کو درج کیاہے ۔اورحموی نے لغت''فحل''کے بارے میں ،جیسا کہ ذکر ہوا،سیف کی روایتوں اور اشعار کے ایک مختصر حصہ کو درج کرنے پر اکتفاء کی ہے۔
طبری نے یہ داستان سیف سے نقل کی ہے اور اس کے بعد والے مؤرخین ،جیسے ،ابن اثیر،ابن کثیراور ابن خلدون نے مذکورہ داستان کو طبری سے نقل کرکے اپنی تاریخ کی کتابوں میں درج کیاہے۔خاص کر ابن کثیر اس سلسلے میں داستان کے مصدر یعنی طبری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یوں لکھتاہے:
''امام ابوجعفر ،فتح دمشق کے بارے میں ذکر کرنے کے بعد سیف بن عمر سے نقل کرتے ہوئے یوں روایت کرتے ہیں :......''

سیف کی حدیث کے نتائج:
١۔قلعہ دمشق پر چڑھ کر قلعہ کو تسخیر کرنے میں خاندان تمیم کے افسانوی اور ناقابل شکست سورما قعقاع بن عمرو کی شجاعت و بہادری دکھانا۔
٢۔جنگ فحل میں واقعی مارے گئے افراد کے علاوہ ستر ہزار انسانوں کا قتل عام دکھانا۔
٣۔ قعقاع سے منسوب رزمی اشعار کو نشر کرنا ،جس میں اس نے ثابت کیا ہے کہ خاندان تمیم کے بہادر میدان کارزار کے بادشاہ ہیں ،وہ ایک دوسرے سے بہتر ناقابل شکست اور نامور ہیں ،قدرت اور جوانمردی انھیں اپنے اسلاف سے وراثت میں ملی ہے اور اسی سلسلے کی ایک کڑی یعنی قعقاع کو یہ بہادری اپنے اجداد سے وراثت میں ملی ہے اور اس کے بعد اس کی اولاد بھی اس بہادری کے بانی ہیں ۔وہ (قعقاع) جنگوں میں فتح و کامرانی کا مرکز ی کردار تھا اور وہ تنہا سورما ہے کہ جس کی طرف میدان کا رزار میں نگاہیں متمرکز رہتی ہیں !

تحقیقات کا خلاصہ :
قعقاع وہی ناقابل شکست سورما ہے جس نے یرموک کی جنگ کا محاذ کھولا اور اس جنگ میں عراق کی جنگوں کی طرح فتح و کامرانیاں حاصل کیں ۔ قعقاع نے یرموک ،دمشق اور فحل کی جنگوں میں شرکت کی ہے اور ان میں سے ہر ایک کے بارے میں رزمیہ اشعار کہے ہیں!
ان جنگوں کا نتیجہ ایک لاکھ دس ہزار انسانوں کا قتل عام ہے جو مسلمانوں کے ہاتھوں خاک و خون میں غلطاں کئے گئے اور اس سے قبل والے مقتولین میں ان کا اضافہ ہوا ہے ۔
یہ سب مطالب سیف کے افسانوں کا نتیجہ ہیں اور وہ تنہا قصہ گو اور افسانہ سازہے جو اس طرح کی بیہودگیوں کا خالق ہے ۔
یہ وہ مطالب تھے جو ہم نے سیف کی روایتوں میں شام کے مختلف نقاط میں قعقاع کی افسانوی جنگوں کی صورت میں پائے ۔سیف کے مطابق شام کی فتوحات کے بعد قعقاع دو بارہ عراق لوٹا ہے اور چند دیگر جنگوں میں شرکت کرکے فتوحات حاصل کی ہیں جن کا ہم اگلی فصل میں جائزہ لیں گے ۔