ایک سو پچاس جعلی اصحاب(پہلی جلد)
 

قعقاع ،خالد کے ساتھ شام جاتے ہوئے
و فیھم صحابة ورواة مختلفون
اس داستان کی سند میں بہت سے افسانوی اصحاب اور راوی نظر آتے ہیں!
(مؤلف)

خالدکی شام کی جانب روانگی کی داستان
مؤرخین نے لکھا ہے کہ عمرو عاص نے شام میں دشمن کی فوج کی کثرت دیکھ کر ابوبکر کو ایک خط لکھا اور انھیں حالات سے آگاہ کرنے کے علاوہ ان سے مدد طلب کی ۔ابوبکر نے مجلس میں حاضر مسلمانوں سے صلاح و مشورہ کیا۔ان میں سے عمر بن خطاب نے یوں کہا:''اے رسول خدا ۖکے جانشین !خالد کو حکم دیجئے کہ اپنے سپاہیوں کے ساتھ شام کی جانب روانہ ہوجائے اور عمر وعاص کی مدد کرے ''۔ابوبکر نے ایسا ہی کیا اور خالد کے نام ایک خط لکھا ۔جب ابوبکر کاخط خالد کوپہنچا تو اس نے کہا:''یہ عمر کاکام ہے ،چونکہ وہ میرے ساتھ حسد کرتے ہیں اس لئے نہیں چاہتے کہ پورا عراق میرے ہاتھ فتح ہو بلکہ چاہتے ہیں کہ میں عمر وعاص اور اس کے ساتھیوں کی مدد کروں اور ان میں شامل ہوجاؤں۔اگر انھوں نے کوئی کامیابی حاصل کی تو میں بھی اس میں شریک رہوں ،یا ان میں سے کسی کی کمانڈ میں کام کروں تاکہ اگر کوئی کامیابی حاصل ہو تو میرے بجائے اس کو فضیلت ملے '' ١
ایک دوسری روایت میں ہے:
''یہ اعسیر (الف)بن ام شملہ کاکام ہے،اسے یہ پسند نہیں ہے کہ پورا عراق میرے ہاتھوں فتح ہو .....تا آخر ''
سیف یہ نہیں چاہتاتھا کہ خلیفہ عمر اور خالد جیسے سورما کہ دونوں قبیلہ مضر کے بزرگ ہیں کے درمیان بد گمانی دشمنی کی خبر لوگوں میں پھیلے ۔اور یہ بھی نہیں چاہتاتھا کہ خالد کو عراق کی فتح سے محروم رکھے ۔اس لئے اس مسئلہ کے بنیادی علاج کی فکر میں پڑا ہے اور خالد بن ولید کے ہاتھوں عراق کے مختلف شہروں کی فتحیابی کے سلسلے میں مذکورہ داستانیں جعل کی ہیں۔ہم نے ان داستانوں کا کچھ حصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا۔اسی طرح خالد کی عراق سے شام کی طرف روانگی کے سلسلہ میں سیف نے یہ داستان جعل کی کہ :خالد کے شب خون کے نتیجہ میں مصیخ بنی البرشاء میں دو مسلمانوں کا قتل ہونا ،عمر کا ان کے قتل کی وجہ سے خالد پر غضبناک ہونا ،خالد کے مخفی طور پر حج پر جانے کے سلسلے میں خلیفہ ابوبکر کا اس پر ناراض ہونا،خالد کو شام بھیجے جانے کے وجوہات تھے اور وہ عراق کو فتح کرنے سے محروم رہے۔
جیسا کہ ایک اور روایت میں ہے کہ :
''عمر ،خالد بن ولید کے بارے میں ابوبکر کے پاس مسلسل شکایت کرتے تھے۔لیکن ابوبکر ان کی باتوں پر اعتناء نہیں کرتے تھے اور کہتے تھے:''میں اس تلوار کو دوبارہ نیام میں نہیں ڈالوں گا جسے خدا نے نیام سے باہر کھینچا ہے!''۔ ٢
..............
(الف)اعیسر ،اعسر کا اسم تصغیر ہے ،عربی زبان میں اس شخص کو کہتے ہیں جو بائیں ہاتھ سے کام کرتا ہو۔
اس کے بعد خالد کے نام ابو بکر کے خط کا ایک اور روایت میں ذکر کرتا ہے کہ یہ سب جعلی ہے اور اس میں ذرہ برابر حقیقت نہیں ہے اس پوری مقدمہ سازی کے بعد ایک روایت میں کہتا ہے :٣
''خالد عمر کے بارے میں بد گمان تھا اور کہتا تھا: یہ ان ہی کا کام ہے ۔وہ حسد کی وجہ سے نہیں چاہتے کہ عراق میرے ہاتھوں فتح ہو اور یہ افتخار مجھے ملے اس کے باوجود خدا نے عراق کی سرحدوں کو میرے ہاتھوں توڑدیا اور وہاں کے لوگوں کے دلوں میں میرا خوف ڈال دیا اور مسلمانوں کو میری وجہ سے حوصلہ اور جرأت بخشی ''
باالآخر چھٹی روایت میں کہتا ہے :
''لیکن (خالد) یہ نہیں جانتا تھا کہ عمر کا کوئی قصور نہیں تھا ،یہاں تک کہ قعقاع نے اس سے کہا : عمر کے بارے میں بد ظن نہ ہو خدا کی قسم ابوبکر نے جھوٹ نہیں بولا ہے ۔ اور ظاہر داری نہیں کی ہے ''خالد نے قعقاع سے کہا:'' تم نے سچ کہا !لعنت ہو غصہ و بدگمانی پر ۔خدا کی قسم اے قعقاع !تم نے مجھے خوش بینی پر آمادہ کیا اور عمر کے بارے میں مجھے خوش بین بنا دیا '' قعقاع نے خالد کے جواب میں کہا:'' خدا کا شکر ہے جس نے تمھیں سکون بخشا اور تم میں خیر و نیکی کو باقی رکھا اور شر و بدگمانی کو تم سے دور کیا !!''
اس روایت سے سیف کی زبانی خالد کی جنگوں میں فتحیابیوں ،غنائم وغیرہ کے بارے میں جھوٹ اور افسانوں کے اسرار فاش ہوتے ہیں ۔سیف نے ان سب داستانوں اور افسانوں کو اس لئے گڑھا ہے تاکہ سرانجام خالد کی زبانی یہ کہلوائے کہ:
'' خدا نے میرے ذریعہ عراق کی سرحدوں کو درہم برہم کرکے رکھ دیا ،وہاں کے لوگوں کے دلوں میں میرا خوف ڈال دیا اور مسلمانوں کو ان سے جنگ کرنے کی جرأت وہمت بخشی ''
سیف کے بقول خالد بن ولید کے بعد یہ سب فضل وافتخار خاندان تمیم کے بے مثال سورما ''قعقاع ''اور اس کے تمیمی بھائیوں تک پہنچتے ہیں اور سر انجام قعقاع کی وجہ سے عمر کی نسبت خالد کی بد گمانیاں دور ہو جاتی ہیں ۔
اسی طرح ہم نے خون کے دریا کی داستان میں دیکھا کہ کس طرح یہ فضل وشرف ان دوناقابل شکست سور مائوں کے درمیا ن تقسیم ہوتے ہیں ۔
سیف نے خالد بن ولید کے لئے عراق کی طرح شام میں بھی قابل توجہ افتخارات کے افسانے گڑھے ہیں ،انشاء اللہ ان کا ہم آگے ذکر کریں گے ۔

سند کی پڑتال :
خالد کی عراق سے شام کی جانب روانگی کے بارے میں سیف کی حدیث کے راوی وہی ہیں جنھیں داستان ''الفراض''میں نقل کیا گیا ہے ۔جن کے بارے میں پہلے ہی معلوم ہوچکا ہے کہ وہ سب راوی جعلی اور سیف کے خیالات کی تخلیق تھے۔

اس جانچ کا خلاصہ :
طبری نے اپنی تاریخ میں ١٢ ہجری کے حوادث کا ذکر کرتے ہوئے خالد کے ہمراہ قعقاع کی جنگوں کے بارے میں سیف کی روایتوں کا ذکر کیا ہے اور حموی نے اپنی جغرافیہ کی کتاب میں سیف کے ذکر کردہ مقامات کا نام لیا ہے ، اس کے بعد طبری سے ابن اثیر ،ابن کثیر ،ابن خلدون اور دیگر مورخین نے ان تمام مطالب کو نقل کرکے اپنی تاریخ کی کتابوں میں درج کیا ہے ،جن کا ہم نے ذکر کیا جیسا کہ ہم عرض کر چکے ہیں کہ صحابہ کی تاریخ کے بارے میں مذکورہ مورخین نے صرف طبری سے نقل کیا ہے اور طبری کی معتبر تاریخی سند سیف ابن عمر تمیمی کی کتابیں ''فتوح '' اور ''جمل '' ہیں ہم نے اس مطلب کو '' سبائیوں کے افسانے کا سرچشمہ '' کے عنوان سے اپنی کتاب '' عبد اللہ ابن سبائ'' میں واضح طورسے بیان کیا ہے ۔
سیف کے علاوہ دوسروں کی روایتیں :
بلاذری نے اپنی معتبر کتاب '' فتوح البلدان'' میں عراق میں خالد کی فتوحات کو تفصیل سے بیان کیا ہے، لیکن اس نے وہاں پر قعقاع اور لاکھوں انسانوں کے قتل عام کا کوئی ذکر نہیں کیا ہے ،اور اس کے علاوہ متعدد جنگوں جیسے الثنی ،الولجہ اور حصید وغیرہ اور کئی شہروں کو فتح کئے جانے کا بھی ذکر نہیں کیا ہے ۔
طبری نے بھی سیف کے علاوہ ابن اسحاق کے ذریعہ خالد کی جنگوں کا ذکر کیا ہے اور اس میں تقریبا بلاذری کی طرح قعقاع اور دیگر مطالب کے بارے میں کوئی اشارہ نہیں ملتا ۔
دینوری نے بھی اپنی کتاب '' اخبار الطوال '' میں عراق میں خالد کی جنگوں کے بارے میں کچھ مطالب درج کئے ہیں اس میں بھی قعقاع اور دیگر افسانوں کا کہیں ذکر نہیں ہے بلکہ جو کچھ اس سلسلے میں کہا گیا ہے وہ صرف سیف ابن عمر تمیمی کے یہاں پایا جاتا ہے اور وہ ان تمام افسانوں اور جھوٹ کا سر چشمہ ہے ۔٤

خالد شام جاتے ہوئے
سیف خالد ابن ولید کے سفر شام کے بارے میں لکھتا ہے :
''خالد نے عراق کے علاقہ '' سماوہ'' کے ایک گائوںکی طرف حرکت کی اور وہاں سے قصوان میں واقع '' مصیخ بہراء '' پر حملہ کیا اور مصیخ ایک بستی ہے '' نمر'' کے باشندے مئے نوشی میں مصروف تھے اور ان کا ساقی یہ شعر پڑھ رہا تھا :'' اے ساقی مجھے صبح کی شراب پلا دے اس سے قبل کہ ابوبکر کی سپاہ پہنچ جائے '' کہ تلوار کی ایک ضرب سے اس طرح اس کا سرتن سے جدا کیا گیا کہ شراب کا جام جو اس کے ہاتھ میں تھا خون سے بھر گیا''
طبری نے سیف سے نقل کرتے ہوئے ایک اور روایت پیش کی ہے :
'' خالد نے ولید بہراء کے اسیروں کو اپنے ساتھ ایک جگہ لے گیا وہاں پر اسے اطلاع ملی کہ غسانیان نے ''مرج راہط '' میں فوج کشی کی ہے لہٰذا وہ ان کی طرف بڑھ گیا اور ''مرج الصفر '' کے مقام پر ان سے رو برو ہوا ان کا سردار '' حارث ابن الایہم '' تھا خالد نے ان سے سخت جنگ کی اور اس کو اور اس کے خاندان کو نابود کرکے رکھ دیا اس کے بعد چند دن وہاں پر قیام کیا اور جنگی غنائم کا پانچواںحصہ وہیں سے ابوبکر کی خدمت میں مدینہ بھیجا اس کے بعد قنات بصری کی طرف بڑھا یہ شام کے ابتدائی شہروں میں سے ایک شہر تھا جو خالد کے ہاتھوں فتح ہوا اور خالد نے اس شہر میں پڑائو ڈال دیا پھر خالد قنات بصری سے نو ہزار سپاہیوں کے ساتھ رومیوں سے لڑنے کے لئے '' واقوصہ'' کی طرف بڑھا اور وہاں پر رومیوں سے جنگ کی ''طبری کی روایت کا خاتمہ ۔

یہ داستان کہاں تک پہنچی :
ابن اثیر نے یہی مطالب طبری سے نقل کئے ہیں اور اپنی تاریخ میں انھیں درج کیا ہے :
ابن عساکر نے قعقاع کے حالات کے بارے میں سیف کی روایت کو نقل کیا ہے اور اس کے آخر میں لکھتا ہے :
''قعقاع بن عمرو نے خالد کے '' واقوصہ'' کی جانب بڑھنے کے بارے میں یہ اشعار کہے ہیں '' :

قعقاع کے رزمیہ اشعار
'' ہم نے خشک اور تپتے صحرائوں کو اپنے گھوڑوں کے ذریعہ طے کیا اور ''سومی'' کے بعد ''فرافر''کی طرف آگے بڑھے ۔وہیں پر ''بہرائ'' کی جنگ کا آغاز کیا اور یہ وہی جگہ تھی جہاں پر ہمارے سفید اور زرد اونٹ ہمیں حملہ کے لئے ان غیر عرب اجنبیوں کی طرف لے گئے جو بھاگ رہے تھے ۔میں نے شہر بصری سے کہا : اپنی آنکھیں کھول دے اس نے خود کو اندھا بنا لیا کیوں کہ ''مرج ا لصفر ''کے مقام پر'' ایہم'' اور ''حارث غسانی' ' کی سرکردگی میں بعض گروہ خونخوار درندوں کی طرح جمع ہو گئے تھے۔ ہم نے ''مرج الصفر '' میں جنگ کی اور خاندان غسان کی ناک کاٹ کے رکھ دی اور انھیں شکست فاش سے دو چار کیا !اس دن ان لوگوں کے علاوہ جو ہماری تلواروں سے ٹکڑے ٹکڑے ہو کر زمین پر بکھرے پڑے تھے بقیہ تمام غسانی بھاگ گئے ۔وہاں سے ہم پھر بصری کی طرف لوٹے اور اسے اپنے قبضہ میں لے لیا اور اس نے بھی جو کچھ ہم سے پوشیدہ تھا ہمارے سامنے کھول کر رکھ دیا ۔ہم نے بصری کے دروازے کھول دیئے اس کے بعد وہاں سے اونٹوں پر سوار ہوکر '' یرموک'' کے قبائل کی طرف بڑھے ''
اس رجز کو ابن عساکر نے سیف کی روایت کے آخر مین درج کیا ہے جب کہ طبری نے اپنی عادت کے مطابق کہ وہ اکثر اشعار و رجز کو حذف کردیتا ہے اس رجز کا ذکر نہیں کیا ہے اور سیف کی روایت سے اسے حذف کر دیا ہے ۔
حموی بھی مصیخ کی معرفی میں سیف کی حدیث کو سند قرار دے کر لکھتا ہے :
' 'مصیخ بہرائ''شام کی سرحد پر ایک اور بستی ہے۔ خا لد بن ولید نے شام جاتے ہوئے ''سومی '' کے بعد وہاں پر پڑائوڈالا ۔چونکہ خالد نے مصیخ کے لوگوں کو مستی کی حالت میں پایا اوریہی مستی ان کے لئے موت کا سبب بنی ۔جب خالد نے اپنے سپاہیوں کو ان پر حملہ کرنے کا حکم دیا،ان کے بزرگ و سردار نے یہ حالت دیکھ کر چیختے ہوئے کہا : ''اے ساقی !صبح کی شراب پلا!اس سے قبل کہ ابوبکر کی فوج پہنچ جائے ،شائد ہماری موت نزدیک ہو اور ہم کچھ نہ جانتے ہوں ''
کہ تلوار کی ایک ضرب سے اس کاسر تن سے جدا کیا گیا اور خون و شراب باہم مل گئے۔ان کا کام تمام کرنے کے بعد ان کے اموال پر غنیمت کے طور پر قبضہ کیا گیا ۔غنائم کے پانچویں حصہ کو ابوبکر کے لئے مدینہ بھیج د یا گیا۔
اس کے بعد خالد یرموک کی جانب بڑھا ۔قعقاع بن عمرو نے مصیخ بہراء کے بارے میں یہ اشعار کہے ہیں :
یہاں پر حموی نے مذکورہ بالا اشعار کے شروع کے تین شعر ذکر کئے ہیں۔
حموی نے یرموک کے موضوع کے بارے میں بھی سیف کی اسی روایت سے استناد کرتے ہوئے لکھاہے:
''قعقاع بن عمرو نے خالد کے عراق سے شام کی جانب روانگی کے بارے میں اس طرح کہاہے: ...''
اور یہاں پر وہ مذکورہ اشعار کادوسرا حصہ ذکر کرتاہے۔
عبد المؤمن نے یرموک اور مصیخ کی تشریح کرتے ہوئے اپنی کتاب ''مراصد الاطلاع''میں حموی کی روایت سے استناد کیاہے۔

سیف کی روایت کا دوسروں کی روایت سے موازنہ:
جو کچھ خالد کی فتوحات کے بارے میں ذکر کیا گیاوہ سیف ابن عمر کی تحریر ہے۔ لیکن دوسروں کی تحریروں میں ایک تو ''مصیخ بہرائ''کا کہیں ذکر نہیں آیاہے۔دوسرے فتح بصری کے بارے میں تمام مورخین اس بات پر متفق القول ہیں کہ خالد کے وہاں پہنچنے سے پہلے ابو عبیدہ جراح ،یزید بن ابوسفیان ،اور شرجیل بن حسنہ کی سربراہی میں اسلامی فوج وہاں پر پہنچ چکی تھی ۔خالد اور اس کی فوج وہاں پہنچنے کے بعد ان سے ملحق ہوئی ۔اس لحاظ سے بصری صرف خالد اور اس کی سپاہ کے ہاتھوں فتح نہیں ہواہے۔ ٥

سند کی پڑتال:
سیف ،خالد کے عراق سے شام کی جانب جانے کے بارے میں محمد ومہلب سے روایت کرتا ہے کہ یہ دونوں راوی اس کے جعلی اصحاب ہیں ۔اسی طرح عبیداللہ بن محفز بن ثعلبہ سے بھی روایت کی ہے کہ اس نے قبیلہ بکر بن وائل کے کسی ایک فردسے روایت کی ہے ۔لیکن عبید خود ان افراد میں سے ہے جو مجہول ہیں اور وہ سیف کے ذہن کی مخلوق ہے ۔طبری نے سیف کی چھ روایتیںاس سے نقل کی ہیں ۔لیکن بکر بن وائل کے قبیلہ کاوہ فرد معلوم نہیں کون ہے کہ ہم راویوں کی فہرست میں اس کو تلاش کرتے !!

تحقیق کانتیجہ :
ابن عساکر قعقاع کے حالات کے بارے میں شروع سے آخر تک صرف سیف کی ایک حدیث کو نقل کرتا ہے اور خاص کرتاکید کرتا ہے کہ یہ سیف کی روایت ہے۔
طبری نے خالد کے شام کی طرف سفر کے بارے میں سیف کی حدیث کو نقل کیاہے لیکن اپنی
عادت کے مطابق اس کے رجز کوحذف کردیا ہے ۔
حموی نے اس روایت کے ایک حصہ کو مصیخ کے ذکر میں اور دوسرے حصہ کو یرموک کی تشریح میں کسی راوی کانام لئے بغیر ذکر کیا ہے اور یہی امر سبب بن جاتاہے کہ ایک محقق اس پر شک وشبہ کرے کہ ممکن ہے قعقاع کا نام سیف کی روایتوں کے علاوہ بھی کہیں آیا ہو ۔اسی طرح یہ شبہ مصیخ کے بارے میں بھی دکھائی دیتا ہے جب کہ وہ (محقق) نہیں جانتا کہ مصیخ سیف کے خیالات کی تخلیق ہے اور حقیقت میں اس کا وجود ہی نہیں ہے ۔

سیف کی حدیث کے نتائج :
١۔ خالد بن ولید کے لئے شجاعتیں اور افتخارات درج کرانا۔
٢۔ مصیخ نام کی ایک جگہ کی تخلیق کرنا تاکہ یہ نام جغرافیہ کی کتابوں میں درج ہو جائے ۔
٣۔قعقاع کے اشعار سے ادبیات عرب کو مزین کرنا ۔
٤۔شام میں پہلی فتح کو خالد بن ولید اور اس کے عراقی سپاہیوں کے نام درج کرانا کیوں کہ عراق سیف ابن عمر کا وطن ہے ۔