قعقاع ،مصیخ اور فراض میں
وبلغ قتلاھم فی المعرکة والطلب مائة الف
''جنگ فراض میں مقتولین کی تعداد ایک لاکھ تک پہنچ گئی''
(سیف)
مصیخ کی جنگ
طبری نے سیف سے روایت کی ہے کہ :
'' ایرانی اور مختلف عرب قبیلوں نے ''حصید '' میں شکست کھانے کے بعد '' احنافس'' سے پسپائی اختیار کرکے ''حوران '' و ''قلت'' کے درمیان واقع ایک جگہ '' مصیخ'' میں اپنی منتشر فوج کو پھر سے منظم کیا جب اس فوج کے ''مصیخ '' میں دوبارہ منظم ہونے کی خبر خالد کو ملی ،تو اس نے قعقاع ،ابی لیلیٰ بن فدکی ا عبد بن فدکی اور عروہ بن بارقی کو ایک خط لکھا اور اس خط میں ذہن نشین کرایا کہ فلاں شب فلاں وقت پر اپنی فوج کو لے کر '' مصیخ '' کے فلاں مقام پر پہنچ جائیں وہ بھی وعدہ کے مطابق مقررہ وقت پر اس جگہ حاضر ہوئے انھوں نے تین جانب سے دشمن پر شب خون مارا اور ان کے کشتوں کے پشتے لگادیئے ۔ لوگوں نے اس قتل عام کے مناظر کی بھیڑ بکریوں کی لاشوں پر لاشیں گرنے سے تشبیہ دی ہے !!''
وہ مزید لکھتا ہے :
'' دشمن کی سپاہ کے کیمپ میں عبد الغزی نمری اور ولید بن جریر بھی موجود تھے انھوں نے اسلام قبول کیا تھا اور ان کے اسلام قبول کرنے کی گواہی کے طور پر ابوبکر کا خط بھی ان کے پاس موجود تھا یہ دونوں بھی اس جنگ میں قتل کئے گئے ۔ان کے مارے جانے کی خبر ابوبکر کو پہنچی اور خاص کر یہ خبر کہ عبد الغزی نے اس شب تین جانب سے ہونے والے حملہ کو دیکھ کر فریاد بلند کی تھی کہ : اے محمد ۖکے خدا تو پاک و منزہ ہے !'' چوں کہ یہ دونوں بے گناہ مارے گئے تھے اس لئے ابوبکر نے ان کی اولاد کو ان کا خون بہا ادا کیا ۔ عمر نے ان کے مارے جانے اور اسی طرح مالک بن نویرہ کے قتل کے بارے میں خالد پر اعتراض کیا اور اس سے ناراض ہو گئے اور ابوبکر ،عمر کی تسلی کے لئے یہی کہتے تھے '' جو بھی فوج کے درمیان رہے گا اس کا یہی انجام ہوگا!''
یہ داستان کہاں تک پہنچی؟
حموی نے سیف کی روایت کو اعتبار کی نگاہ سے دیکھا ہے اور '' مصیخ'' کے بارے میں سیف کا حوالہ دیتے ہوئے اس کی تشریح کی ہے اور اسے ایک واقعی جگہ کے طور پرپیش کیاہے اور لکھتاہے :
'' مصیخ '' حوران اور قلت'' کے درمیان ایک جگہ ہے جہاں پر خالد بن ولید اور خاندان تغلب کے درمیان جنگ ہوئی تھی ''
اسی کے بعد لکھتا ہے :
'' قعقاع نے اس جنگ کے بارے میں یہ اشعار کہے ہیں :
'' مصیخ کی جنگ میں خاندان تغلب کے کارناموں کے بارے میں ہم سے پوچھو !کیا عالم اور جاہل برابر ہوتے ہیں ؟ جب ہم نے ان پر شب خون مارا تو اس کے نتیجہ میں ان کا صرف نام ہی باقی رہا ۔ ''ایاد''اور ''نمور'' (الف)کے قبیلے بھی خاندان تغلب کے دوش بدوش تھے اور وہ بھی ان باتوں کو جوان کے وجود کو لرزہ بر اندام کئے دے رہی تھیں سن رہے تھے''
آپ ان مطالب کو صرف سیف کے افسانوں میں پاسکتے ہیں ۔دیگر لوگوں نے ''مصیخ '' اور اس جنگ کے بارے میںکسی قسم کا اشارہ تک نہیں کیاہے ۔کیوں کہ وہ حقیقت لکھنے کی فکر میں تھے نہ کہ افسانہ سازی میں ۔
سند کی پڑتال:
''مصیخ بنی البرشائ'' کے بارے میں سیف کی حدیث ''حیرہ'' کے واقعات کے بعد اور ان ہی حوادث کا سلسلہ ہے ۔اس لحاظ سے اس کی سند بھی وہی ہے جو ''حیرہ'' کے بارے میں بیان ہوئی ہے اور ہم نے ثابت کیا ہے کہ اس کے تمام راوی سیف کے خیالات کی تخلیق ہیں ۔
جانچ پڑتال کا نتیجہ
جیسا کہ ہم نے کہا کہ تاریخ دانوں نے اس قصہ کے بارے میں کچھ نہیں لکھا ہے تاکہ ہم ان کے اور سیف کے بیان کے درمیان موازنہ و بحث کریں ،بلکہ یہ تنہا سیف ہے جس نے یہ روایت جعل کی ہے ،اور انشاء اللہ ہم جلد ہی اس کے جھوٹ اور افسانہ نویسی کے سبب پر بحث و تحقیق کریں گے ۔
..............
الف)۔ سیف نے ایسا خیال کیا ہے کہ ایاد ،نموراور تغلب کے قبیلوں نے ایک دوسرے کے دوش بدوش جنگ میں شرکت کی ہے ۔
داستان مصیخ کے نتائج :
١۔ '' مصیخ بنی البرشائ'' نام کی ایک جگہ کی تخلیق کرنا تاکہ اسے جغرافیہ کی کتابوں میں درج کیا جاسکے ۔
٢۔ عبد ابن فدکی اور اس کے بھائی ابو لیلیٰ نام کے دو صحابی جعل کرنے کے علاوہ '' نمری'' نام کے ایک اور صحابی کو جعل کرنا جسے ابوبکر نے عبداللہ نام دیا ہے تاکہ ان کی زندگی کے حالات سیف کے افسانوں کے مطابق درج ہوں ۔
٣۔ افسانوی سورما قعقاع کے اشعار بیان کرنا۔
٤۔ ایک خونیں اور رونگٹے کھڑے کرنے والی جنگ کی تخلیق کرنا تاکہ میدان میں بھیڑ بکریوں کی طرح انسانی کشتوں کے پشتے لگتے دکھائے جائیں جس سے ایک طرف اپنے اسلاف کے افسانے سننے کے شوقین اور دوسری طرف اسلام کے دشمنوں کے دل شاد کئے جائیں اور اس قسم کی چیزیں سیف کے افسانوں کے علاوہ کہیں اور نہیں پائی جاتیں !
فراض کی جنگ
طبری نے سیف سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے:
''واقع مصیخ کے بعد تغلب کے بھگوڑ ے''دارالثنی''اور ''زمیل''میں جمع ہوئے اور خالد بن ولید نے قعقاع کے ہمراہ ان پر وہی مصیبت توڑی جو مصیخ میں رو نما ہوچکی تھی۔''
اس کے بعد لکھتاہے:
''خالد ،شام اور عراق کی سرحد پر واقع ''فراض ''کی طرف روانہ ہوا ۔سیف کہتاہے :رومی مشتعل ہوئے اور انہوں نے ایرانی سرحد بانوں سے اسلحہ اور مدد حاصل کی اور مختلف عرب قبیلوں ،جیسے تغلب ،ایاد اور نمر سے بھی مدد طلب کی اس طرح ایک عظیم فوج جمع کر کے خالد بن ولید کے ساتھ ایک لمبی مدت تک خونیں جنگ لڑی ۔ سرانجام اس جنگ میں رومیوں نے شکست کھائی اور سب کے سب میدان جنگ سے بھاگنے پر مجبور ہوئے ۔خالد نے حکم دیا کہ بھاگنے والوں کے سر تن سے جدا کئے جائیں ۔ خالد کے سوار ،فراریوں کو گروہ گروہ کی صورت میں ایک جگہ جمع کرکے ان کا سر تن سے جدا کرتے تھے ۔اس طرح مقتولین کی کل تعداد ایک لاکھ تک پہنچ گئی۔''
اس کے بعد طبری لکھتا ہے:
''خالدکی اس فوج کشی کے دوران متعدد جنگیں لڑی گئیں اور بہت سے رزمیہ قصیدے لکھے گئے .... اس کے بعد خالد ''حیرہ'' کی طرف واپس ہو ااور قعقاع کے بھائی عاصم بن عمرو کو حکم دیا تاکہ فوج کے ساتھ چلے اور باقی فوجیوں کی کمانڈ شجرہ بن اعزکے ہاتھ میں دی اور یہ افواہ پھیلائی کہ باقی فوجیوں کے ہمراہ پیچھے پیچھے خود بھی آرہا ہے ۔اس طرح ماہ ذی قعدہ کے پانچ دن بچے تھے کہ وہ چھپکے سے فوج سے خارج ہوا اور حج انجام دینے کی غرض سے مکہ کی طرف روانہ ہو ا۔ جب وہ حج سے واپس آیا تو اس وقت ابھی باقی فوجی حیرہ نہیں پہنچے تھے ۔خالد کے اس اچانک سفر کی خبر خلیفہ ابوبکر کو پہنچی خلیفہ کو یہ خبر سخت ناگوار گزری ۔انھوں نے غضبناک ہو کر تنبیہ کے طور پر خالد کو عراق کے بجائے اسے شام کی ماموریت دے دی ''
حموی اس روایت پر اعتبار کرتے ہوئے ''فراض ''کے بارے میں لکھتاہے:
''جو کچھ سیف کی کتاب''فتوح''میں آیاہے،اس کے مطابق ،خالد بن ولید نے ''فراض''جو شام ، عراق اور جزیرہ کی مشترک سرحد پر فرات کی مشرق میں واقع ہے اور رومیوں ،عرب اور ایرانیوں نے وہاں پر اجتماع کیاتھا میں قبیلہ بنی غالب پر اچانک حملہ کیا اور گھمسان کی جنگ کی''۔سیف کہتاہے:اس جنگ میں ایک لاکھ انسان مارے گئے ۔اس کے بعد خالد ١٢ ھ میں جب ماہ ذی الحجہ کے دس دن باقی بچے تھے سفر حج سے واپس بحیرہ پہنچا ۔قعقاع نے اس واقعہ کے بارے میں یہ شعر کہے ہیں:
''میں نے سرزمین ''فراض ''میں ایرانیوں اور رومیوں کے اجتماع کو دیکھا کہ ایام کے طولانی ہونے کی وجہ سے اس کی سلامتی خطرے میں پڑگئی تھی ۔جب ہم وہاں پہنچے تو ان کی جمعیت کو تتر بتر کرکے رکھ دیا اور اس کے بعد قبیلۂ بنی رزام پر شب خون مارا۔ابھی اسلام کے سپاہی جابجا نہیں ہوئے تھے کہ دشمن سر کٹی بھیڑوں کی طرح بکھرے پڑے تھے۔''
سند کی پڑتال
فراض کی روایت بیان کرنے والے بھی سیف کے دو راوی محمدومہلب ہیں اور پہلے ہی معلوم ہو چکا ہے کہ ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے اور وہ سیف کے جعلی راوی ہیں ۔اس کے علاوہ سیف کا ایک اور راوی ظفر بن دہی ہے کہ انشا ء اللہ اس کی آئندہ وضاحت کریں گے ۔ان کے علاوہ اس نے بنی سعد سے ایک شخص کوراوی کے طور پر ذکر کیا ہے کہ ہمیں معلوم نہ ہو سکا کہ سیف کے خیال میں اس کا کیا نام تھا تاکہ ہم اس کی تحقیقات کرتے۔
بحث کا نتیجہ:
سیف کے جعلی صحابی ابی مفزرکے سلسلے میں بحث کے دوران ''الثنی''اور ''زمیل''کی جنگ کے بارے میں بھی انشاء اللہ تفصیل سے بیان کریں گے ۔لیکن ''فراض'' کی جنگ میں خالد کے اچانک حملہ کرکے شب خون مارنے اور ایک لاکھ انسانوں کا قتل عام کرنے ،قعقاع کی خو دستائی اور رجز خوانی وغیرہ اور خالد کے چوری چھپے حج پر جانے کے بارے میں صرف سیف نے روایت اور افسانہ سازی کی ہے ۔طبری پہلا مشہور مورخ ہے جس نے سیف کے افسانوں کو نقل کرکے لوگوں کی نگاہ میں اپنی معتبر تاریخ کی کتاب میں درج کیاہے ۔اور ان افسانوں کو دوسر ے تاریخ دانوں نے طبری سے نقل کیا ہے ۔اس میں صرف یہ فرق ہے کہ طبر ی نے اپنی عادت کے مطابق اپنی تاریخ میں اشعار اور رجز خوانیوں کوثبت نہیں کیا ہے اگر چہ اس امرکی طرف اشارہ کرتاہے کہ ان جنگوں میں بہت سے رزمیہ اشعار کہے گئے ہیں۔
لیکن مشہور جغرافیا نویس ،حموی نے قعقاع کی رجز خوانیوں میں سے ایک حصہ سیف کی کتاب ''فتوح ''سے نقل کیا ہے اور ایک حصے کو ''الفراض ''کے ذکر کے ذیل میں اپنی کتاب میں ذکر کرتا ہے ۔
لیکن یہ بات قابل غورہے کہ طبری نے سیف سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ خالد بن ولید نے اس طرح ظاہر کیا کہ وہ اپنی فوج میں موجود ہے ،لیکن چوری چھپے اس وقت حج کے لئے نکل جاتا ہے جب کے ماہ ذیقعدہ کے ابھی پانچ دن باقی تھے اور حموی کے قو ل کے مطابق ذی الحجہ کے ١٠دن باقی تھے جب وہ واپس آکر اپنی فوج سے ملحق ہو تا ہے ۔سوچنے کی بات ہے کہ سپہ سالار کی ٢٥ دن فوج کی غیر حاضری کو سپاہی کس طرح نہ سمجھ سکے ؟!اس مدت میں فوج کے لئے نماز کی امامت کے فرائض کس نے انجام دئے (الف)؟! اس کی غیر حاضری سے فوج کے افسر تک کیسے آگاہ نہ ہوسکے؟! اور اس سے بھی بڑھ کر ،خالد نے اس زمانے میں ''حیرہ ''سے مکہ تک کا سفر نوہی دنوں میں کس طرح طے کیا ؟!یہ وہ مسائل ہیں جو ہمیں غور وفکر پر مجبور کرتے ہیں اور اس امرکاسبب بنتے ہیں کہ ان مسائل پر بیشتر بحث وتحقیق کریں ۔انشاء اللہ ہم بعد میں اس سلسلے میں مزید بحث وتحقیق کریں گے
کہ سیف نے کیوں ان حالات میں خالد بن ولید کے لئے اس طرح کے حج کی داستان جعل کی ہے۔
..............
(الف)۔اس زمانے میں رسم یہ تھی کہ ،بہر صورت اسلامی فوج کی نماز پنجگانہ کی امامت فوج کاسردار کرتاتھا۔
جنگ فراض کی داستان کے نتائج:
١۔ میدان کارزار میں مضری خاندان کے سپہ سالار خالد بن ولید اور تمیمی خاندان کے سورما قعقاع کے کمالات وافتخارات دکھانا۔
٢۔حج کی لمبی مسافت کو طے کرنے میں خالد بن ولید کی کرامت کااظہار کرنا۔
٣۔شجرہ نامی ایک شخص کو رسول ۖکے صحابی کے طور پر جعل کرنا۔
٤۔جنگ میں ایک لاکھ انسانوں کے قتل عام کی داستان گڑھ کر اسلام کے دشمنوں کو شاد کرنا۔
٥۔اسلامی ادبیات میں اشعار کا اضافہ کرکے اپنے اسلاف کی کرامتیں سننے کے شوقین لوگوں کو افسانوی اشعار سے خوش کرنا۔
|