ایک سو پچاس جعلی اصحاب(پہلی جلد)
 

تیسرا حصہ :

١۔ قعقاع بن عمر و تمیمی
l پیغمبر ۖ کے زمانے میں
l ابوبکر کے زمانے میں
l حیرہ کی جنگوں میں
l حیرہ کی جنگوں کے بعد
l مصیخ و فراض کی جنگوں میں
l خالد کے شام کی طرف جاتے ہوئے
l شام کی جنگوں کے دوران
l عمر کے زمانہ میں
l عراق کی جنگوں میں
l ایران کی جنگوں میں
l د وبارہ شام میں
l نہاوند کی جنگوں میں
l عثمان کے زمانے میں
l حضرت علی ـکے زمانے میں
l بحث کا خلاصہ
l احادیث سیف کے راویوں کا سلسلہ

قعقاع پیغمبر ۖ کے زمانہ میں
لم نجد لہ ذکرا فی غیر احادیث سیف
ہم نے قعقاع کا نام سیف کی احادیث کے علاوہ کہیں نہیں پایا۔
(مؤلف)
اسلامی تاریخ اور لغت کی دسیوں معروف و مشہور کتابوں میں '' قعقاع بن عمر و'' کا نام اور رسول خدا ۖ کے ایک صحابی کی حیثیت سے اس کی زندگی کے حالات درج کئے گئے ہیں ابو عمر کی تالیف کتاب '' استیعاب'' ١ ان کتابوں میں سے ہے جو آج کل ہماری دست رس میں ہیں ۔اس مؤلف نے قعقاع کی زندگی کے حالات خصوصیت سے لکھے ہیں وہ لکھتا ہے :
'' قعقاع ،عاصم کا بھائی اور عمر و تمیمی کا بیٹا ہے ۔ان دونوں بھائیوں نے جنگ قادسیہ میں جس میں ایرانی فوج کا سپہ سالار رستم فرخ زاد تھا بے مثال اور قابل تحسین شجاعت اور بہادر ی کا مظاہرہ کیا ہے اور شائشتہ و قابل احترام مرتبہ و منزلت کے مالک بن گئے ''
'' استیعاب ''کے مولف کے بعد ابن عساکر '' تاریخ شہر دمشق '' ٢میں قعقاع بن عمرو کے بارے میں یوںر قم طراز ہے :
'' قعقاع ،رسول خدا کا صحابی تھا !وہ ایک قابل ذکر بہادر اور نامور عربی شاعر تھا ۔اس نے ''جنگ یرموک ''اور ''فتح دمشق '' میں شرکت کی ہے ۔اس نے عراق اور ایران کی اکثر جنگوں میں بھی شرکت کی ہے اور شجاعت و بہادری کے جوہر دکھائے ہیں اور قابل ذکر و نمایاں جنگیں لڑی ہیں ''
قعقاع کے بارے میں دوسری صدی ہجری کی ابتداء سے آج تک یوں بیان کیا گیا ہے :
'' قعقاع ،اسلامی جنگوں میں ہمیشہ ایک دادرس و فریاد رس بہادر کی حیثیت سے رہا ہے ٣ وہ خانقین ،ہمدان اور حلوان کا فاتح ہے '' ٤
ان خصوصیت کا مالک قعقاع کون ہے ؟

قعقاع کا شجرۂ نسب
سیف نے قعقاع کا خیالی شجرۂ نسب ذکر کیا ہے :
''قعقاع عمرو ابن مالک کا بیٹا ١ ہے ۔اس کی کنیت ابن حنظلہ ہے ٢ ۔اس کے ماموں خاندان بارق ٣ سے تھے ۔اور اس کی بیوی ہنیدہ ،عامر ہلالیہ کی بیٹی تھی جو خاندان ہلال نخع سے تعلق رکھتا تھا '' ٤

قعقاع رسول خدا ۖکا صحابی
طبری اور ابن عساکر ،دونوں کا قول ہے کہ سیف نے یوں بیان کیا ہے :
'' ْقعقاع رسول خدا ۖکے اصحاب میں سے تھا ۔'' ١
ابن حجر شعری نے سیف کا نقل کیا ہوا قعقاع کا قول حسب ذیل ذکر کیا ہے :
'' میں تہامہ کی ترقی و درخشندگی کو دیکھ رہا تھا ،جس دن خالد بن ولید ایک نفیس گھوڑ ے
پر سوار ہو کر سواروں کی قیادت کر رہا تھا ،میں سیف اللہ کی فوج میں محمد ۖکی تلوار تھا اور آزادانہ طور پر سب سے پہلے اسلام لانے میں سبقت کرنے والوں کے شانہ بشانہ قدم بڑھارہا تھا ''

قعقاع سے منقول ایک حدیث :
ابن حجر '' اصابہ '' میں قعقاع کی زندگی کے حالات کے بارے میں سیف سے نقل کرتے ہوئے خود قعقاع کی زبانی یوں نقل کرتا ہے :
''رسول خدا ۖ نے مجھ سے فرمایا: تم نے جہاد کے لئے کیا آمادہ کیا ہے ؟ میںنے جواب میں کہا: خدا اور اس کے رسول ۖکی اطاعت اور اپنا گھوڑا ۔آنحضرت ۖ نے فرمایا:سب کچھ یہی ہے ''
ابن حجر ،سیف سے نقل کرتے ہوئے قعقاع کی زبانی مزید نقل کرتا ہے :
''میں رسول خدا ۖکی رحلت کے وقت وہاں پر موجود تھا ۔جب ہم نے ظہر کی نماز پڑھ لی تو ایک شخص مسجد میں داخل ہوا اور بعض لوگوں سے مخاطب ہو کر کہا: انصار سعد کو خلیفہ منتخب کرنے کے لئے جمع ہوئے ہیں تاکہ رسول خدا ۖسے کئے ہوئے معاہدے اور وصیت کو کچل کے رکھ دیں ۔ مہاجرین یہ خبر سن کر پریشان ہو گئے.... '' (الف)
ابن حجر مزید لکھتا ہے :
'' ابن مسکن نے کہا ہے کہ سیف بن عمر ضعیف ہے ،یعنی اس کی یہ روایت قابل اعتبار نہیں ہے ''
..............
الف)۔ عبداللہ ابن سباج١،بحث سقیفہ میں اس جعلی حدیث پر تحقیق کی گئی ہے ۔
علم رجال کے عالم و دانشور رازی نے بھی اس داستان کو خلاصہ کے طور قعقاع کی زندگی کے حالات میں ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے :
''سیف کی روایتوں کو دیگر لوگوں نے قبول نہیں کیا ہے ،لہٰذا یہ حدیث خود بخود مردود ہے اور ہم نے اسے صرف قعقاع کو پہچاننے کے لئے نقل کیا ہے '' ٢
ابن عبد البر نے قعقاع کی زندگی کے حالات کے بارے میں رازی کی پیروی کی ہے اور جو کچھ اس نے اس کے بارے میں لکھا ہے اور سیف کے بارے میں نظریہ پیش کیا ہے سب کو اپنی کتاب
کتاب میں درج کیا ہے ۔

سند کی تحقیقات
قعقاع کے شجرہ ٔنسب کو سیف ،صعب بن عطیہ کی زبانی ،اس کے باپ بلال ابن ابی بلال سے روایت کرتا ہے ۔سیف کی روایتوں میں نو مواقع پر صعب کا نام ذکر ہو ہے کہ پیغمبر ۖکے سات اصحاب کی زندگی کے حالات ان روایتوں سے حاصل کئے گئے ہیں ۔(الف)
اس کی کنیت ،جو ابن الحنظلیہ بتائی گئی ہے اور یہ کہ قعقاع رسول خدا ۖکا صحابی ہے یہ سب سیف کی روایتیں ہیں اور اس کی روایتوں کی سند میں محمد بن عبداللہ بن سواد بن نویرہ کا نام ذکر ہوا ہے ۔طبری کی کتاب '' تاریخ طبری '' میں سیف کی روایتوں میں سے ٢١٦روایتوں کی سند میں عبداللہ کا نام آیا ہے ۔
سیف کی روایت میں مذکورہ محمد بن عبداللہ سے منقول قعقاع کی بیوی کانام مہلب بنت عقبہ اسدی بیان ہوا ہے ۔تاریخ طبری میں سیف کی ٧٦ روایات کی سند میں مہلب کا نام ذکر ہوا ہے ۔
لیکن قعقاع کے شعر کے بارے میں یہ ذکر نہیں ہو ا ہے کہ سیف نے کسی راوی سے نقل کیا
..............
الف)۔ملاحظہ ہو اسی کتاب کی جلد ٢ میں عفیف بن المنذر اور دیگر چھ تمیمی اصحاب کی زندگی کے حالات۔
ہے تاکہ ہم اس کے راوی کے بارے میں بحث کریں ۔
اسی طرح جنگی آمادگی کے بارے میں رسول خدا ۖسے نقل کی گئی اس کی حدیث اور سقیفہ کے دن اس کا مسجد میں موجود ہونا ،یہ دونوں چیزیں سیف کے افسانہ کے ہیرو '' قعقاع '' سے نقل ہوئی ہیں، اس کے علاوہ اس کی کوئی اور سند نہیں ہے ۔
ہم نے حدیث ،تاریخ ،انساب اور ادب کی تمام کتابوں میں جستجو کی تاکہ مذکورہ راویوں کا کہیں کوئی سراغ ملے ،لیکن ہماری تلاش کا کوئی نتیجہ نہ نکلا چوں کہ ان کے نام یعنی صعب ،محمد ،مہلب اور خود قعقاع سیف کی روایتوں کے علاوہ کہیں اور نہیں پائے جاتے لہٰذا حدیث شناسی کے قاعدے اور قانون کے مطابق ہم نے فیصلہ کیا کہ ان کا کوئی وجود ہی نہیں تھا اور یہ سب کے سب سیف کے ذہنی تخیل کی تخلیق اور جعلی ہیں ۔
تحقیقات کا نتیجہ : جو کچھ اب تک قعقاع کے بارے میں ہم نے بیان کیا وہ صرف سیف کی روایت تھی ،کسی اور نے اس کے بارے میں کسی قسم کا ذکر نہیں کیا ہے کہ ہم اس کا مقابلہ اور مقائسہ کرتے ۔سیف ان مطالب کا تنہا ترجمان ہے ۔اس طرح اس کے مطالب کے واسطے روایتوں کی سند بھی اس کے ذہن کی تخلیق معلوم ہوتی ہے ۔

سیف کی حدیث کا نتیجہ
اول ۔ سیف اپنے مطالب کا مطالعہ کرنے والے کو اس طرح آمادہ کرتا ہے کہ ایک مطیع اور فرمانبردار کی طرح آنکھ بند کرکے مست و مدہوشی کے عالم میں ایک نغمہ سننے والے کی طرح اس کی باتوں میں محو ہو جائے ۔
دوم ۔ قعقاع کے بارے میں جو کچھ بیان ہوا اور جو مطالب آئندہ آئیں گے اس سے معلوم ہوگا کہ سیف نے رسول خدا ۖکے لئے ایک ایسا صحابی جعل کیا ہے جو بزرگوار اور جلیل القدر ہے اور یہ بزرگوار ،خاندان تمیم کی عظمت کا نمونہ ہے ۔یہ ایک خوش ذوق شاعر اور رسول خدا ۖکی احادیث کا راوی ہے کہ اس کے بارے میں اصحاب کی زندگی کے حالات اور احادیث کے راویوں کی شناخت کے ذیل میں گفتگو ہوگی ۔