احادیث سیف کی اشاعت کے اسباب
وضع سیف قصصاً تسایر مصالح السلطة فی کل عصر
سیف نے اپنے افسانوں کو ہر عہد کے حکام ظلم و جور کی مصلحتوں اور مفاد کے مطابق جعل کیا ہے۔
ہم نے گزشتہ فصل میں اسلامی اسناد و مأخذ کے ایک حصہ کی نشاندہی کی جس میں سیف کے افسانوںنے راہ پائی ہے ۔لیکن ان مأخذکے بیان کرنے سے ہمارا مقصد یہ نہیں ہے کہ ان تمام کتابوں اور رسائل کی فہرست بیان کریں جو کسی نہ کسی طرح سیف کے افسانوں سے متاثر ہوئے ہیں،کیونکہ یہ ایک مشکل اور تقریباًناممکن کام ہے ،اور جو کچھ ہم نے اس سلسلہ میں بیان کیا ہے وہ سمندر کے مقابلے میں ایک قطرہ کے مانند ہے ،بلکہ اس کامقصد یہ ہے کہ مختلف اسلامی مآخذ میں سیف کی جعلی احادیث اور انسانوں کی وسعت کا نمونہ پیش کیاجائے جو علماء واہل تحقیق کی حیرت کا باعث ہواہے۔
اب سیف کی احادیث اور افسانوں کی اشاعت (اسے دروغ گو اور زندیق جاننے کے باوجود )اور علماء ودانشوروں کے اس پر اعتماد کرنے کے اسباب کاخلاصہ ذیل میں بیان کیاجاتاہے:
١۔خود سر حکام کے موافق ہونا
پہلا سبب یہ تھا کہ سیف نے ہمیشہ یہ کوشش کی ہے کہ اس کے قصے اور افسانے ہر زمانے کے حکمراں طبقہ کے مفادات اور مصلحتوں کے موافق اور ہم آہنگ ہوں۔حکمراں طبقہ کی طاقت وقدرت، مصلحتوں اور مفادات کے تحفظ کے سلسلے میں سیف کی خاص توجہ کی بہترین اور واضح دلیل جنگ دارین میں علاء حضرمی کی داستان ہے۔اس واقعہ کے بارے میں سیف کی داستان سے قطع نظر اصل قضیہ یہ ہے:
''جنگی سپاہیوں کا ایک گروہ علاء کے خوف سے قلعۂ دارین میں پناہ لیتا ہے۔اس قلعہ میں پناہ لینے والے سپاہیوں اور علاء کے درمیان پانی ہے جس کی وجہ سے علاء کے لئے قلعۂ دارین تک پہنچنے میں مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔کرازالنکری نام کا ایک شخص علاء اور اس کے سپاہیوں کی اس سے عبور کرنے میں راہنمائی کرتاہے اور اس طرح دارین کا قلعہ علاء کے ہاتھوں فتح ہوتاہے'' ١
حقیقت میں پورا قضیہ یہی ہے جو چند سطروں میں خلاصہ ہوا۔لیکن سیف اپنی عادت کے مطابق اصل قضیہ میں تصرف وتبدیلی ایجاد کرکے اسے یوں نقل کرتاہے:
''میں نے جنگ دارین میں علاء کودیکھا کہ گھوڑے پر سوار ہوکے دریامیں اترا(یا چار ہزارسپاہیوں کے ساتھ دریا میں اترا)جب کہ نہ کسی اونٹ اور نہ کسی گھوڑے کے سم تک تر ہوئے ۔اس کے بعد وہ بحرین کی طرف بڑھا۔جب دہناء کے شورہ زار میں پہنچا ،تو علاء نے اس سرزمین پر خدا سے دعا مانگی،جس کے نتیجہ میں اس سرزمین سے پانی ابلنے لگا....وہاں سے آگے بڑھنے کے بعد معلوم ہوا کہ قافلہ کے ایک شخص کی کوئی چیز وہاں پر رہ گئی ہے۔اس لئے وہ شخص اس چیز کو اٹھانے کے لئے واپس لوٹا ، اس شخص نے اس جگہ پر اپنی چیز تو پالی لیکن وہاں پر پانی کا کوئی نام ونشاں موجود نہ تھا۔'' ٢
ابوہریرہ نے چھوٹی داستانوں کے بارے میں اپنے طریقہ کار کے مطابق علاء کے قصہ کو بھی نقل کیاہے۔چونکہ لوگوں میں اپنے اسلاف اور اجداد کی کرامتیں سننے کا بڑا شوق ہوتاہے ،اس لئے سیف کو اس میں کامیابی ہوتی تھی اور اس کی بیان کی ہوئی داستانیں اور روایتیں فوراً سینہ بہ سینہ نقل ہوکر پھیل جا تی تھیں ،ابوہریرہ کی نقل کی گئی یہ داستانیں مختلف طریقوں سے سیف کے زمانے تک رائج اور زبان زد خاص و عام تھیں اور جب غیر معمولی ذہن والے سیف کا زمانہ آیا تو اس نے مندرجہ بالا داستان کی خالی جگہوں کو پر کیا اور اس میں شاخ و برگ کا اضافہ کرکے اس کے لئے ایک سند بھی جعل کی اور اسے حسب ذیل صورت میں بیان کیا:
'' علاء جب اپنے سپاہیوں کے ساتھ دہناء پہنچا تو وہاں پر اسے ایک صحرا اور اس میں دور دور تک ریت کے ٹیلے نظر آئے اور پانی کا کہیں نام و نشان نہیں تھا ،وہ اس صحرا میں کافی آگے تک بڑھا ،اس کے تمام اونٹ بار سمیت بھاگ گئے اس کے پاس نہ کوئی اونٹ باقی رہا نہ زاد راہ اور نہ پانی ... اس حالت میں سبوں کو اپنی ہلاک کا یقین پیدا ہو گیا اور ایک دوسرے کو وصیت کرنے لگے علاء اس غم و تشویش میں مبتلا لوگوں کی سرزنش اور ملامت کرتے ہوئے انھیں اپنے ساتھ مجموعی طور پر ایک ایسی دعا کرنے پر مجبور کیا جس کا متن خود سیف نے نقل کیا تھا ۔اس دعا کے نتیجہ میں اچانک ان کے سامنے پانی ظاہر ہوا اور اس پانی پر پڑی سورج کی کرنوں کے انعکاس کا مشاہدہ کرکے سب تعجب میں پڑ گئے !اس کے بعد سب پانی کی طرف بڑھتے ہیں اپنی پیاس بجھاتے ہیں اور نہاتے دھوتے ہیں اسی وقت ان کے بھاگے ہوئے اونٹ بھی واپس آجاتے ہیں وہ اونٹوں کو بھی پانی پلا کر آگے بڑھتے ہیں اس تالاب سے کچھ دور پہنچنے کے بعد ،ابو ہریرہ اپنے ایک ساتھی کے ہمراہ تالاب کے کنارے بھولے ہوئے برتن لے آنے کے لئے تالاب کی طرب لوٹتا ہے ۔وہاں پر وہ اس برتن کو تو پاجاتا ہے لیکن اس تالاب کا کہیں نام و نشان تک نظر نہیں آتا ''
خلیفہ کے سپاہیوں کا پانی پر چلنا:
اس کے بعد سیف اس قصہ میں کچھ اور اضافہ کرتے ہوئے لکھتا ہے :
''خلیفہ کے سپاہی بحرین کی طرف بڑھتے ہوئے ارادہ کرتے ہیں کہ دارین جائیں۔ان کے اور دارین کے در میان ایک سمندر تھااور اس کو پار کرنے کے لئے کشتی کے ذریعہ ایک دن رات کافاصلہ تھا۔اس سمندر کے کنارے علاء نے اپنے سپاہیوں کو جمع کرکے ان سے خطاب کرتے ہوئے کہا:''خدائے تعالیٰ نے خشکی میں اپنی آیات کو تم لوگوں پر واضح کیا ۔اب جرات مندی کے ساتھ سمندر میں اتر کر دشمن کی طرف دوڑو اور دلیری سے سمندر کو پار کرو!''وہ سب سوار و پیادہ سمندر میں اترے اور گھوڑے ،اونٹ،اور خچر پر سوار سپاہیوں نے دعا پڑھی (جسے سیف نے نقل کیا ہے)وہ سمندر سے ایسے گزرے جیسے کوئی صحرا کی ریت پر قدم رکھ کر آگے بڑھتا ہے جب کہ گھوڑے اور اونٹوں کے سم مشکل سے تر ہوئے تھے ۔اس طرح وہ مرتدوں کے پاس پہنچے اور ان سے جنگ کرکے فتح پائی اس کے بعد اپنی جگہ کی طرف واپس لوٹے اور سمندر سے اسی طرح گزرے جیسے پہلے گزرے تھے۔''
سیف کے ایک افسانوی سورما عفیف ابن منذر تمیمی اس سلسلے میں کچھ شعر کہے جنہیں سیف نے نقل کیا ہے ،اس کے بعد وہ کہتا ہے :
''مسلمانوں کے ہمراہ ایک راہب تھا ۔یہ سب کرامتیں ،خارق العادہ واقعات ،اور ہوا میں فرشتوں کی دعا سن کر وہ مسلمان ہوگیا''۔
سیف نے فرشتوں کی دعا بھی نقل کیا ہے ،اوراس کے بعد لکھتا ہے :
''علاء نے اس لشکر کشی کی رپورٹ ایک خط کے ذریعہ خلیفہ اول ابوبکر کو بھیجی ۔ابوبکر نے علاء کا خط وصول کرنے کے بعد منبر پر چڑھ کر مسلمانوں کے در میان یہ داستان بیان کی ۔''
سیف اپنے زمانے تک سینہ بہ سینہ پھیلے ہوئے ابو ہریرہ کے بیان کردہ اس مختصر قصہ کو پسند کرتا ہے اور اسے ہر طرح سے سند وشاہد اور دلیل و برہان کے ذریعہ محکم بناکر کسی قسم کا شک وشبہ باقی نہ رکھتے ہوئے اس زمانے کے لوگوں کے لئے نقل کرتا ہے ۔چونکہ وہ ہرگز یہ نہیںچاہتا تھا کہ یہ عظمت و کرامت حضرمی شخص ،اہل یمن اور سبائی کے بارے میں بیان کرے ،اس لئے ایک اور افسانہ گڑھ کر اس شخص (علاء )سے مربوط کرامت کی نفی کرتا ہے اور اس سلسلے میں یوں لکھتا ہے:
''علاء حضرمی اور سعد وقاص کے در میان مقابلہ اور رقابت تھی ۔اتفاق سے مختلف جنگوں میں علاء کی سرگرمیاں اور کارروائیاں سعد سے زیادہ تھیں ۔لیکن سعد نے عمر کے زمانے میں قادسیہ کی جنگ میں ایرانیوں پر فتح پائی اور اس نے علاء کے لائے ہوئے جنگی غنائم کے مقابلے میں بہت زیادہ غنائم خلیفہ کو بھیجے تھے ۔لہٰذاعلاء نے اس جنگ میں سر توڑ کوشش کی تا کہ ایرانیوں سے زیادہ غنائم حاصل کرے اور سعد سے پیچھے نہ رہے ۔اس غرض سے اس نے خلیفہ سے کوئی حکم حاصل کئے بغیر سمندری راستہ سے ایرانیوں پر حملہ کیا ،جب کہ وہ اس بات کو سمجھنے سے قاصر تھا کہ اگر جنگوں میں اسے خدا نے سعد کے مقابلے میں کوئی فضیلت و برتری عطا کی تھی تو وہ خلیفہ کی اطاعت اور فرمانبرداری کے سبب تھی اور مرتدوں سے جنگ میں فتحیابی بھی خلیفہ اول ابو بکر کے حکم کی پیروی کے سبب تھی نہ یہ کہ وہ کسی شخصی فضیلت و کرامت کا مالک تھا،جب کہ خلیفہ دوم عمر نے اسے سمندری راستے سے ایرانیوں پر حملہ کرنے سے منع کیا تھا...''
سیف اس کے بعد مزید لکھتا ہے:
''جب علاء نے سمندری راستے سے ایرانیوں پر حملہ کیا اور دونوں فوجیں ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑی ہوگئیں تو ایرانی اس کے اور اس کی کشتیوں کے درمیان حائل ہوگئے اور مسلمانوں کے لشکر نے شکست کھائی اور یہ شکست علاء کی طرف سے خلیفہ کے حکم کی نافرمانی کا نتیجہ تھی ۔اگر خدائے تعالیٰ کی عنایت شامل حال نہ ہوتی تو وہ سب کے سب اس جنگ میں مارے جاتے ۔لیکن عنایت خداوندی نے اس طرح ظہور کیا کہ اس بدون اجازت حملہ کی خبر خلیفہ کو پہنچتی ہے اور خلیفہ کے دل میں یہ بات گزرتی ہے کہ علاء اس نا فرمانی کی وجہ سے شکست کھائے گا ،لہٰذا فورا اسے معزول کرکے اس کی جگہ پر دوسرے سپہ سالار کا انتخاب کرتا ہے اور اس کی مدد کے لئے تازہ دم فوج روانہ کرتا ہے ۔اس طرح خلیفہ کی فہم و فراست کے سبب خدائے تعالیٰ لشکر اسلام کو ہلاکت سے نجات دیتا ہے !''
سیف کی اس جعلی داستان کے مطابق جو کچھ ابو ہریرہ نے جنگ دارین میں علاء کی نسبت عظمت و کرامت کے طور پر بیان کیا تھا،وہ اس خلیفہ کی اطاعت و فر مانبرداری کا نتیجہ تھا،ورنہ ہم نے دیکھا کہ یہی بزرگ صحابی خلیفہ کی نافرمانی کرتا ہے تو کس طرح مصیبت اور بد بختی میں گرفتار ہوتا ہے ۔ خدائے تعالیٰ نے یہ سب نعمتیں خلیفہ کی اطاعت و فرمانبرداری کے سبب علاء اور اس کی فوج کوعطا فرمائی تھیں اور نافرمانی کے سبب اس طرح شکست سے دوچار کیا تھا۔
یہ داستان اور اس جیسی دوسری داستان ،سیف نے ہر زمانے میں وقت کے حکمرانوں کے مفاد کے تحفظ کے لئے جعل کی ہیں۔اس طرح معلوم ہوتا ہے کہ سیف کے افسانوں کے پھیلنے کا سب سے بڑا سبب یہی تھا تا کہ دوسروںکی صحیح روایتیں فراموشی کی نذر ہوجائیں۔
٢۔عوام پسند ہونا
سیف کی باتوں کو شہرت ملنے کا دوسرا سبب یہ ہے کہ اس نے داستانوں اور افسانوں کو مختلف زمانے کے لوگوں کی دلچسپی اور پسند کے مطابق جعل کیا ہے ۔چونکہ عوام الناس پجاریوں کی طرح اپنے نیک اسلاف اور اجداد کی پوجا کرتے ہیں اور ان کی کرامتوں اور کمالات کو سننے کے والہانہ طور سے منتظر رہتے ہیں ،اس لئے سیف نے ایسی روایتیں جعل کی ہیں جو ایسے لوگوں کی تمنائوں کو بہترین صورت میں پورا کرتی ہیں ۔سیف کی روایتوں میں اس حد تک ملتاہے کہ نامور اسلاف اور اجداد کے مقابل قدرت کے لازوال قوانین بھی مطیع و فر مانبردار ہیں اور ان کے حکم کے ما تحت ہیں ،ملائکہ اور جنات ہمیشہ ان کے مددگار تھے اور ان کے حکم کی تعمیل کے لئے تیارکھڑے رہتے تھے ،حیوانات ان سے گفتگو کرتے تھے اور ان کے حکم کی تعمیل کرتے تھے ۔خلاصہ یہ کہ جنگ کے میدانوں میں ان کی بہادری بے مثال ہوتی تھی اور وہ ہمیشہ فاتح و سرفراز ہوتے تھے۔
دوسری طرف ثقافت وادب کے شیدائیوں کو سیف کی روایتوں میں بہترین قصیدے ،بے نظیر تقریریں ،خوشنما رزم نامے اور شیرین خودستائیوں کے علاوہ بہترین اور دلچسپ عبارتوں میں جنگی عہدنامے ،صلح ودوستی کے معاہدے اور وقت کے حکمرانوں کے فصیح و بلیغ فرمان اور حکم نامے ملتے ہیں۔
اسی طرح تاریخ کے دل دادہ اور تاریخ نگار بھی اپنے مقدور کے مطابق دیگر منابع کی نسبت سیف کی روایتوں سے بیشتر فائدہ اٹھاتے ہیں۔تاریخ کے متوالے مشاہدہ کرتے ہیں کہ سیف نے ہر تاریخ نویس کی نسبت واقعات اور تاریخی حوادث کی بیشتر اور مکمل وضاحت کی ہے۔اس نے ہر حادثہ کے جزئیات کو تفصیل سے بیان کیا ہے اور تاریخ کے نوادر اور عجائبات بیان کرنے میں کسی معمولی چیز کو بھی نظر انداز نہیں کیاہے۔کیونکہ سیف خبر سازی میں ماہر اور افسانہ گڑھنے میں کمال رکھتاتھا۔مثال کے طور پر آپ افسانہ نویسوں کے علاوہ کسی تاریخ دان کاسراغ نہیں بتاسکتے ،جس نے سیف بن عمر تمیمی کی طرح کسی سوار کے دریائے دجلہ سے عبور کرتے وقت اس کے گھوڑے کی دم کی حرکت کے بارے میںبھی وضاحت سے تعریفیں بیان کی ہوں! (الف)
مختصر یہ کہ تاریخی حوادث وواقعات کے دل دادہ لوگوں کو جو کچھ سیف سے ملتا ہے وہ نہ صرف دیگر تاریخ دانوں اور حقائق نویسوں سے انھیں نہیں ملتا بلکہ انھیں ان چیزوں کاکہیں اور سراغ ملنا بھی ناممکن ہے۔
٣۔ آسائش پرستوں کی مرضی کے ہم آہنگ ہونا
معاشرے کے سرمایہ داروں ،خود سروں ،طاقت ور لوگوں اور آرام وآسائش کے دلداہ افراد کو سیف کی روایتوں اور افسانوں سے بہت فائدہ پہنچتاہے ۔چونکہ سیف کی دلچسپ داستانیں اور اس کے پر کشش افسانے اس قسم کے لوگوں کی شب باشی ،عیش وعشرت اور تفریحی محفلوں کو خوشحال اور پر رونق بناتے ہیں۔
جس زمانے میں ''عنترة ابن شداد ''،''ابی زید سروجی''اور''الف لیلہ''جیسے افسانے سنانے میں قصہ خوانوں کا بازار گرم تھا اور ان افسانوں سے امیر اور بڑے لوگوں ،سرمایہ دار اور با اثر شخصیتوں کو وقت گزاری میں مشغول رکھا جاتا تھا،تو اہل فکر نے بھی یہ سوچا کہ اپنے نظریات کو داستانوں اور افسانوں کے روپ میں پیش کریں تا کہ انھیں عام لوگ پڑھیں اور ہاتھوں ہاتھ ان کی تبلیغ کریں۔اسی
..............
الف)۔عاصم کے حالات میں اس کاتفصیل سے تذکرہ آیاہے۔
بناء پر ''اخوان الصفا'' (الف) نام کے ایک گروہ نے اپنے افکار ونظریات کو پمفلٹوں کی صورت میں شائع کرکے لوگوں میں تقسیم کئے اور ابن طفیل نے اپنے نظریات کو''حی بن یقطان''(ب)کی داستان
کے روپ میں زبان زد خاص وعام کردیا اور اسی طرح ابن مقفع نے اپنا مقصد کتاب ''کلیلہ ودمنہ ''کے ترجمہ سے حاصل کیا۔اس کے بعد سیف بن عمر آیا اور اس نے ''فتوح ''اور ''جمل ''نامی اپنی دو کتابیں تالیف کرکے ان سب پر سبقت حاصل کی اور اپنے افکار ونظریات کو افسانوں کی شکل دے کر مؤثق اور قابل اعتماد روایتوں،تاریخ اور صحیح سیرت کے طور پر رائج کیا۔اس طرح اپنی آرزؤں کو عملی جامہ پہنانے میں کامیاب رہا۔
خلاصہ یہ کہ حکمران ،اہل قدرت وطاقت اور سرمایہ دار طبقہ سب سیف کی احادیث میں اپنی مرضی کے مطابق مواد پاتے ہیںاور عام لوگوں کی خواہش بھی سیف پوری کرتاہے۔اس کے علاوہ سیف کی احادیث میں علماء اور ثقافت وادب کے شیدائی بھی اپنی بحث وگفتگو کے لئے ضروری چیزیں پاتے ہیں۔اس طرح تاریخ ،قصہ اور افسانوں کے دل دادہ افراد کی چاہت بھی ان سے پوری ہوتی ہے۔بہر حال سیف نے تقریبا بارہ صدیوں تک ان طبقات کو اپنی مرضی کے مطابق جہاں چاہا وہاں
ہانکا ہے اور حسب دلخواہ انھیں مواد فراہم کرتا رہا ہے ۔بالاخر اس کے بیانات اور افسانے زبان زد خاص و عام ہوکر نسل بہ نسل پھیلتے گئے اور لوگ اس کے خود ساختہ افکار و نظریات کو روایاتوں اور صحیح واقعات کی صورت میں پوری قوت کے ساتھ شائع کرتے تھے اور دوسروں کی صحیح اور معتبر احادیث کو فراموش کرتے تھے اس طرح بعض صحیح احادیث و واقعات مفقود ہو گئے ہیں ۔
..............
الف)۔فرقہ اسماعیلیہ کے دانشوروں کے ایک گروہ نے تقریباً ٣٧٣ھ (٩٨٣ع) میں ''اخوان الصفا''نام کی ایک انجمن تشکیل دی، جس کا مرکز بصرہ میں تھا۔اس گروہ نے اپنے افکار و نظریات کے تحت مختلف موضوعات جیسے :حساب وھندسہ،موسیقی،منطق،نجوم،اور وقت کے دیگر علوم وفنون سے متعلق ٥١ رسالے تالیف کئے اور مبدأ سے معاد تک اپنے عقائد کے ایک حصے کو ان میں بیان کیا۔ان رسالوں کا ترجمہ ١٨٦١ع میں لندن میں کیا گیا۔اور اس کا اصل عربی متن ١٨٨٣ع میں لایپزیک،مصر اور ہندوستان میں دوبارہ طبع ہوا کشف الظنون ٩٢١ ۔دائرة المعارف ٥٢٧١،٥٢٩۔الذریعہ ٣٨٣١، ٧٦٤،٢٣٥٧،٩٨و١٠۔اعیان الشیعہ ج١٠ طبع اول ملاحظہ ہو ۔
ب)۔کتاب ''حی بن یقطان ابن طفیل ابوبکر اشبیلی وفات٥٨١ھ کی تالیف ہے۔یہ ایک داستان ہے جس کاہیرو ''حی بن یقطان''ہے۔ ابن سینا نے اس اسلوب میں دو رسالے لکھے ہیں ان میں سے ایک رسالہ ایک اخلاقی داستان پر مشتمل تھا۔الذریعہ ١٢٨٧۔١٢٩ملاحظہ ہو
٤۔ خاندانی تعصبات کے ہم آہنگ ہونا
مذکورہ مطالب کے علاوہ سیف کی غیر معمولی ذہانت کا اس وقت پوری طرح اندازہ ہوتا ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ اس نے بڑی مہارت سے اپنے مقاصد اور عزائم کو ہر طبقہ اور خاندان کے لوگوں کی خواہشات کے مطابق رکھا ہے ۔وہ اپنی احادیث میں لوگوں کی خواہشات کی رعایت کے ساتھ ساتھ ہر حدیث کی سند کا افتخار عام طور پر مضر قبیلہ اور خاص طور پر خاندان تمیم کو بخشتا ہے ۔اس کے ساتھ ہی ان کے دشمنوں ،یعنی یمانیوں کو ذلیل و خوار اور پست بنا کر پیش کرتا ہے اور یہ مطلب محققین اور علمی کاوش گروں پر بالکل واضح ہے ۔
٥۔ زندیقیوں کے ہم آہنگ ہونا
آخر میں جو چیز قابل توجہ ہے وہ یہ ہے کہ سیف کی احادیث میں اس کے جھوٹ اور تحریفات کا مطالعہ کرتے ہوئے ہم چند ایسے مسائل سے دو چار ہوتے ہیں جو کسی بھی صورت میں اس کے ان مقاصد سے جن کا ہمیں علم ہے مطابقت نہیں رکھتے جب کہ ہم بخوبی جانتے ہیں کہ سیف نے جو جھوٹ بھی بولا ہے یا کسی موضوع کی تحریف کی ہے اس کے پیچھے کسی خاص مقصد کو تحقق بخشنے کا ارادہ رکھتا تھا ۔ اس بات کودیکھتے ہوئے سیف کا تاریخی حوادث کے سالوں کو تغییر دینے کا کیا مقصد تھا؟ ٣ مثال کے طور پر جنگ یرموک ١٥ ھ میں واقع ہوئی ہے ،سیف نے اس کا واقع ہونا ١٣ ھ
میںکیوں لکھا ہے ؟ شہر دمشق ١٥ھ میں فتح ہوا ہے لیکن سیف نے اسے ١٦ھ میں کیوں
لکھا ہے ۔(الف)
سیف نے تاریخی شخصیتوں کے نام کیوں بدل دئے ہیں ؟جیسے امیر المومنین حضرت علی کا قاتل عبدالرحمن ابن ملجم تھا ،لیکن سیف نے خالد بن ملجم ذکر کیا ہے ٤ عبد المسیح بن عمرو نے خالد بن ولید سے جو صلح کی ہے ،اسے عمرو بن عبدالمسیح سے نسبت دی ہے !! (ب)
یاسیف کو کس چیز نے درج ذیل حدیث جعل کرنے پر مجبور کیا ہے ؟
''خلیفہ عمر نے اپنی بیوی ام کلثو م امام علی کی بیٹی سے خواہش کی کہ اس کے مہمانوں کیساتھ ایک ہی دستر خوان پر بیٹھے ۔ام کلثوم نے اس کے جواب میں کہا : اگر تم چاہتے ہو کہ میں مردوں میں ظاہر ہو جائوں تو میرے لئے ایسا لباس نہیں
خرید تے !! '' ٥
کیا یہ مناسب ہے کہ مسلمانوں کا خلیفہ عمر اپنی بیوی سے نامحرم مردوں کے ساتھ پیٹھ کر کھانا کھانے کا تقاضا کرے؟ اور عمرکی بیوی کے لئے اپنے شوہر کی درخواست مستردکرنے کا سبب مردوں کے ساتھ بیٹھنے کے لئے اس کا نامناسب لباس ہو؟!
یہ افسانے اور اس کے مانند دیگر افسانے سیف کو اس کے ان مقاصد تک ہر گز نہیں پہنچاتے جن کا ہمیں علم ہے مگر یہ کہ جو نسبت اسے زندیق ہونے کی دی گئی ہے صحیح ہو! ٦ اور اگر سیف کے زندیق ہونے کی بات صحیح ہو تو اس کی آڑمیں اس نے اپنے جعلی افسانوں کے ذریعہ تاریخ اسلام کو منحرف اور مسخ کرکے رکھ دیا ہے ،اور اس صورت میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ حقائق کو تحریف کرنے میں سیف کا مقصد اسلام سے اس کے عناد اور دشمنی کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا بہرصورت وہ تاریخ اسلام کو
..............
الف)۔'' عبداللہ ابن سبا '' ج١فصل ''تحریف سالہا ی حوادث'' ملاحظہ ہو
ب)۔ ملاحظہ ہو کتاب '' عبد اللہ ابن سبا'' ج٢ فصل تحریف اسماء
منحرف کرنے میں کامیاب ہوا ہے اور اس سلسلے میں اس کے مانند کوئی اور نظر نہیں آتا خواہ سیف کا یہ کام اس کے زندیق ہونے کی وجہ سے ہو یا اس کی لاپروائی اور جھوٹ کی عادت کی وجہ سے ،بہر صورت وہ تاریخ اسلام کو خاص کر اسلامی فتوحات ،ارتدادکے خلاف جنگوں اور تاریخی واقعات کو امیرالمومنین حضرت علی ابن ابی طالب علیہما السلام کی خلافت کے زمانے تک تحریف کرنے میں کامیاب رہا ہے۔
جو تاریخ سیف نے تالیف کی ہے وہ اصحاب اور ان کے فتوحات کی سرکاری تاریخ کی حیثیت سے درج ہوئی ہے اور اس تاریخ کے سرکاری حیثیت پانے کا مسلمانوں وغیرہ کیلئے یہ نتیجہ نکلا کہ سب نے قبول کیا ہے کہ مسلمانوں نے ارتداد کی جنگوں اور فتوحات میں ہزاروں انسانوں کا قتل عام کیا ہے ،اور انسانی معاشرہ میں خون کی ندیاں بہا کر ایسا رعب وو حشت اور اضطراب برپا کیا ہے کہ تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی ۔نتیجہ کے طور پر اسلام تلوار اور خون کی ہولی کے ذریعہ پھیلا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ملتیں خود جابر اور ظالم حکام کے خلاف بغاوت کرکے مسلمان سپاہیوں سے جاملتی تھیں ۔اسلام اس طرح پھیلا ہے ،نہ کہ تلوار سے جیسا کہ سیف نے ثابت کیاہے ۔
گزشتہ حصوں کا خلاصہ
اما آن لنا ان نبحث عن الحقیقة
کیا اب وہ وقت نہیں آیا ہے کہ ہم حقیقت کی تلاش کریں؟
١) زندیقیت
ہم نے دیکھا کہ علماء اور دانشوروں نے سیف کی یوں تعریف کی ہے :
''یہ حدیث جعل کرنے والا ،اور اس پر زندیق ہونے کا الزام ہے ''
ہم نے دیکھا کہ سیف کا وطن عراق ،اس کے زمانے میں زندیقیوں کی سرگرمیوں اور ان کے نشو ونما کا مرکز تھا ۔اس لحاظ سے عراق تمام دیگر علاقوں کی نسبت ممتاز و مشخص ہے ۔ اس کے علاوہ ہم نے دیکھا کہ سیف کے ہم عصر زندیقی ،مسلمانوں کے افکار و عقائد کو کمزور اور متزلزل کرنے اور ان کے اتحاد و یکجہتی کی بنیاد یں کھوکھلی کرنے میں کس قدر مصروف تھے اور اس سلسلے میں کیا کچھ نہ کیا ۔ ان میں ایسے افراد بھی پید اہوئے جنھوں نے احادیث جعل کرکے لوگوں کے افکار و عقیدہ میں شبہہ ڈال دیا ۔ ان ہی میں ایک ایسا شخص بھی تھا جس نے قتل ہوتے وقت اعتراف کیا تھا کہ اس نے چار ہزار احادیث جعل کی ہیں جن کے ذریعہ حلال کو حرام اور حرام کو حلال کر دیا ہے ہمیں معلوم نہیں وہ احادیث کہاں گئیں اور ان کا انجام کیا ہوا اور ان احادیث نے خلفاء کی مورد تائید سرکاری کتابوں میں سے کن کن میں نفوذ کیا ہے ۔
لیکن جب ہم نے خود سیف کی جعل کردہ احادیث کی سنجیدگی سے تحقیق کی اور ان کا مطالعہ کیا تو معلوم ہوا کہ اس نے بھی بڑی مہارت سے ہزاروں کی تعداد میں احادیث جعل کی ہیں اور ان کے درمیان ایسی احادیث بھی ملتی ہیں جن میں رسول خدا ۖ کے پرہیزگار اور باتقویٰ اصحاب کو نکما، ذلیل اور کمینہ بنا کر پیش کیا گیا ہے اور اس کے برعکس اسلام کا لبادہ پہنے ہوئے منافقوں اور کذّابوں کو با تقویٰ ، پرہیزگار اور دیندار کی حیثیت سے پہچنوایا ہے ۔ اس طرح توہمات پر مبنی افسانے جعل کرکے تاریخ اسلام کو الٹا دکھاکر مسلمانوں کے عقائد پر حیرت انگیز حد تک برے اثر ات ڈالے ہیں اور غیر مسلموں کے افکار پر اسلام کی نسبت منفی اثرات ڈالنے میں کامبیاب ہوا ہے ۔اس سلسلے میں سیف اپنے ہم عصر تمام زندیقیوں کا ہم فکر اور شریک تھا ۔وہ صرف ایک لحاظ سے اپنے تمام ہم فکروں پر سبقت رکھتا تھا اور وہ یہ کہ اس نے اپنی جعل کی ہوئی اکثر حدیثوں میں وقت کے حکام اور صاحب قدر ت اشخاص کی براہ راست تعریف اور ستائش کی ہے اور ان کے مخالفوں کی مذمت اور بد گوئی کی ہے ۔ اس طرح حکام وقت سے اپنے جھوٹ اور افسانوں کی تائید حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کرکے ان حدیثوں کی اشاعت کے لئے زمین فراہم کی ہے ۔اسی طرح اس کے زمانے میں موجود خاندانی تعصب اور اس کا اپنا شدید خاندانی تعصب جو اس میں اپنے خاندان نزار کے لئے کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا کہ خلفائے راشدین کی ابتداء سے اموی حکمرانوں کے زمانے اور بنی عباسیوں کی سلطنت تک سب کے سب اسی خاندان سے تعلق رکھتے تھے اس کے افسانوں کی اشاعت میں انتہائی مؤثر رہا ہے ۔
٢)۔ تعصب
ہم نے دیکھا کہ سیف کے زمانے میں موجود اسلامی مراکز خاندانی اور قبائلی تعصب کی وجہ سے پے در پے تباہ و برباد ہو گئے اور ہر طرف فتنہ و فساد اور انتہائی خون ریزی کا بازار گرم ہو ا بالاخر یہی امر بنی امیہ کی حکمرانی کی نابودی اور بنی عباس کی خلافت کے بر سر کار آنے کا باعث ہوا ۔ان تمام فتنوں اور بغاوتوں کے بارے میں اس وقت کے شاعروں نے فخر و مباہات اور خود ستائی پر مبنی ولولہ انگیز رزمی قطعات اور قصیدے کہے ہیں ،جو یادگار کے طور پر موجود ہیں اور آج بھی ہم اس زمانے کے شعراء و ادب کے مجموعوں کو ان رزمی قصیدوں سے پر پاتے ہیں ۔
اس کے علاوہ معلوم ہو ا کہ انہی خاندانی تعصبات کی وجہ سے بعض افراد نے اپنے خاندان کی فضیلت ،منقبت اور بالادستی پر مبنی تاریخی قصے اور احادیث جعل کی ہیں اور انھیں اپنے خاندانی فخر و مباہات کی سند کے طور پر دشمن کو نیچا دکھا نے کے لئے استعمال کیا ہے ۔ لیکن اس میدان میں بھی سیف کا کوئی ہم پلہ نہیں ملتا کیوں کہ وہ اپنی کتابوں '' فتوح '' اور ''جمل'' میں شاعروں کی ایک ایسی جماعت جعل کرنے میں کامیاب ہو اہے ،جنھوں نے اپنے رزمی قصیدوں میں قبیلہ مضر کے فخر و مباہات پر عام طور سے اور خاندان تمیم کے بارے میں خصوصی طور سے داد سخن دی ہے ۔اس کے علاوہ سیف نے اپنے خاندان تمیم کے بہت سے ایسے شجاع و بہادر نیز اصحاب پیغمبر ۖ جعل کئے ہیں جن کو اسلامی جنگوں میں فاتح سپہ سالار کی حیثیت سے دکھایا ہے ۔اس کے علاوہ اس نے خاندان تمیم سے احادیث کے بے شمار راوی جعل کئے ہیں
٣)۔من گڑھت
اس کے علاوہ ہم نے مشاہدہ کیا کہ سیف نے فتوح اور ارتداد کی جنگوں میں اپنے افسانوں کے بہادر وں کی شجاعت کے جوہر دکھانے کے لئے قصہ اور کہانیاں گڑھی ہیں ،جب کہ ایسی جنگیں حقیقت میں واقع ہی نہیں ہوئی تھیں ۔اور اس نے ایسے جنگی میدانوں کانام لیا ہے جن کا روئے زمین پر کہیں وجود ہی نہیں تھا ۔اس کے علاوہ ان جنگوں میں قتل کئے گئے افراد کی تعداد لاکھوں بیان کی گئی ہے جب کہ اس زمانے میں پورے علاقے میں تمام جانداروں کی بھی اتنی تعداد نہیں تھی کہ اتنے انسان قتل یا گرفتار کئے جاتے ۔ سیف نے ان افسانوی بہادروں کی زبانی فخرو مباہات اور رزمی قصیدے بیان کئے ہیں اور دشمنوں کی ہجو گوئی کی ہے اس کے علاوہ اس نے اپنے خاندان کے سور مائوں کے نام خلفائے وقت کی طرف سے ترقی کے حکم نامے جعل کئے ہیں اور مذکورہ فاتح سپہ سالاروںکے فتح شدہ فرضی علاقوں کے لوگوں کے ساتھ جنگی معاہدے بھی درج کئے ہیں جب کہ ایسی جنگیں حقیقت میں واقع ہی نہیں ہوئی تھیں ،رونما نہ ہوئے واقعات کو جعل کرنے اور قبیلہ نزار کی فضیلتیں بیان کرنے کے لئے اس شخص کی حرص اس حد تک بڑھ گئی تھی کہ خاندان تمیم کی فضیلتوںکو پھیلانے کے لئے اس نے ملائکہ اور جنات سے بھی خدمات حاصل کرنے میں گریز نہیں کی ہے ۔سیف قبیلہ مضر ،خاندان تمیم خاص کر سیف کے اپنے خاندان بنی عمرو کے فخرو مباہات کی سند جعل کرنے کے لئے ہر قسم کے دھوکہ اور چالبازیوں کو بروئے کار لاتا ہے !
اس کے علاوہ ہم نے دیکھا ہے کہ سیف کے افسانوں کے سورمائوں کے لئے کچھ معاونین کی ضرورت تھی اس لئے اس نے غیر مضریوں پرمشتمل کچھ معاون بھی جعل کئے ہیں اور ان کے لئے معمولی درجے کے عہدے مقرر کئے ہیں ۔اس طرح اس نے تاریخ اسلام میں بہت سے اصحاب تابعین اور حدیث کے راوی جعل کئے ہیں ،جن کا حقیقت میں کوئی وجود ہی نہیں تھا بلکہ وہ سب سیف بن عمر کے تخیلات کی تخلیق ہیں ۔
٤)۔حقائق کو الٹا کرکے دکھا نا
ہم اس حقیقت سے بھی واقف ہوئے کہ سیف نے بعض ایسے افسانے جعل کئے ہیں ،جن میں تاریخ کے صحیح واقعات کو تحریف کرکے ایسے افراد سے نسبت دی ہے کہ یہ واقعات کسی بھی صورت میں ان سے مربوط نہ تھے ۔مثال کے طور پر قبیلہ مضر کے علاوہ کسی اور خاندان کے کسی سور ما کو نصیب ہوئی فتحیابی کو کسی ایسے سپہ سالار کے نام درج کیا ہے جو خاندان مضر سے تعلق رکھتا تھا چاہے اس مضری سورما کا کوئی وجود نہ بھی ہو اور وہ محض سیف کے ذہن کی تخلیق ہو!اسی طرح اگر قبیلہ مضر کے کسی سردار سے کوئی نامناسب اور ناگوار واقعہ رونما ہو اہو تو اسے بڑی آسانی کے ساتھ کسی غیر مضری شخص سے نسبت دے دیتا ہے اور سیف کے لئے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ غیر مضری فرد حقیقی ہو یا اس کا جعل کردہ اور فرضی۔بہر حال اس کا مقصد یہ ہے کہ مضری فردسے بد نما داغ صاف کرکے اسے کسی غیر مضری شخص کے دامن پر لگایا جائے۔
٥)۔پردہ پوشی
سیف نے قبیلہ مضر کے بعض ایسے سرداروں کے عیبوں پر پردہ ڈالنے کے لئے بھی حقائق میں تحریف کی ہے ،جو ناقابل معافی جرم وخطاکے مرتکب ہوئے ہیں ۔جیسا کہ ہم نے خلیفہ عثمان کے معاملہ میں عائشہ،طلحہ و زبیرکے اقدامات کے بارے میں دیکھا جو عثمان کے قتل پر تمام ہوئے ۔یا ان ہی تین اشخاص یعنی عائشہ ،طلحہ وزبیرکے امام علی کے خلاف اقدامات جو جنگ جمل کی شکل میں ظاہر ہوئے ۔چونکہ یہ سب قبیلہ نزار و مضر سے تعلق رکھتے تھے،اس لئے سیف نے کوشش کی کہ اس عیب سے ان تمام افراد کے دامن کو پاک کرے ۔لہٰذا اس نے ''عبداللہ ابن سبا''کے حیرت انگیز افسانہ کو جعل کرکے تمام فتنوں ،بغاوتوں اور برے کاموں کو ابن سبا اور سبائیوں کے سرتھوپ دیا۔سیف نے جس ابن سباکا منصوبہ مرتب کیاہے ،وہ یہودی ہے اور اس نے یمن سے اٹھکر مسلمانوں کے مختلف شہروں میں فتنہ اور بغاوتیں بر پاکی ہیں ۔سیف،عبداللہ اور اس کے پیرئوں کو سبائی کہتا ہے اور اس خیالی گروہ کو یمنی بتاکر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ یمنی روئے زمین پر فتنہ گر اور بدترین لوگ ہیں ۔اس طرح بدترین اعمال کے عاملوں ،جو در حقیقت قبیلہ نزار ومضر سے تعلق رکھتے تھے ،کی مضحکہ خیزطور پر پردہ پوشی کرتا ہے ۔لیکن قبیلہ مضر کے علاوہ دیگر افراد ،جیسے عمار یاسر ،ابن عدیس اور مالک اشتر وغیرہ ،جو سب قحطانی تھے ،کو سیف نہ فقط بری نہیں کرتابلکہ ان حوادث میں ان کی مداخلت کو محکم تر کرکے ان پر اپنے افسانے کے ہیرو عبداللہ ابن سبا کی پیروی ،ہم فکری اور مشارکت کا الزام لگاتا ہے وہ اس طرح قبیلۂ مضر کی ان رسوائیوں پر پردہ ڈالتا ہے ۔
٦)۔کمزور کو طاقتور پر فدا کرنا
لیکن قبیلہ مضر کے کسی سردار اوراسی قبیلہ کے کسی معمولی شخص کے در میان اگر کوئی ٹکرائو یااختلاف پیدا ہوتا ہے ،تو سیف اس خاندان کے معمولی فرد کو خا ندان کی عظمت پر قربان کردیتا ہے سیف کا مقصد خاندان مضر کی عظمت و بزرگی ،زرو زور کے خدائوں کے فخرو مباہات ،نامور پہلوانوں سپہ سالاروں کی شجاعت وبہادری کی ترویج و تبلیغ ہے اور اس راہ میں وہ کوئی کسراٹھا نہیں رکھتا۔اس کی مثال کے لئے سیف کا خالد بن سعید اموی مضری کو خلیفہ اول ابوبکر کی بیعت نہ کرنے پر سر کوب اور بد نام کرنا اورمالک بن نویرہ پر صرف اس لئے ناروا تہمتیں لگانا کہ خالد بن ولید نزاری کی حیثیت محفوظ رہے،کافی ہے۔
لیکن اگر کسی مضری اور یمانی کے در میان کوئی ٹکرائو یا حادثہ پیش آیا ہو اور سیف نے اسے سبائیوں کے افسانہ میں ذکر نہ کیا ہو تو اس کے لئے الگ سے قصہ اور افسانہ جعل کرکے اس میں حتیٰ الامکان یمنی کو ذلیل و خوار کرتا ہے اور مضری شخص کے مرتبہ و منزلت کو اونچا کرکے پیش کرتا ہے ۔اس سلسلے میں مضری خلیفہ عثمان کے ذریعہ ابوموسیٰ اشعری یمنی کو معزول کرنے کا مسئلہ قابل توجہ ہے۔
٧)۔حدیث سازی کا تلخ نتیجہ
ان تمام امورکے نتیجہ میں اسلام کی ایک ایسی تاریخ مرتب ہوئی ہے جو بالکل جھوٹ اور افسانوں سے بھری ہے ۔اس طرح تاریخ اسلام میں ،اصحاب ،تابعین ،راویوں ،سپہ سالاروں اور رزمیہ شعراء پر مشتمل ایسے اشخاص مشہور ہوئے ہیں ،جن میں سے ایک کابھی وجود سیف کے افسانوں سے باہر ہر گزپایا نہیں جاتا۔اس کے با وجود سیف سے نقل کرکے ان میں سے ہر ایک کی زندگی کے حالات لکھے گئے ہیں اور انھیں تاریخ کی معتبر کتابوں اور دیگر دسیوں کتابوں میں مختلف موضوعات کے تحت درج کیا گیا ہے کہ ہم نے گزشتہ بحثوں میں ان میں سے ستر کے قریب نمونوں کا ذکر کیا ہے ۔
٨)۔ سیف کی احادیث پھیلنے کے اسباب
ہم نے سیف کی احادیث کے پھیلنے کے اسباب کے بارے میں کہا کہ اس کی حیرت انگیز روایات اور افسانوں کے پھیلنے اور علماء و دانشوروں کی طرف سے ان کو اہمیت دینے کے اسباب درج ذیل ہیں :
١۔ سیف نے اپنی داستانوں اور افسانوں کو ایسے جعل کیا ہے کہ ہر زمانے کے حکمرانوں ، ارباب اقتدار اور دولتمندوں کے مفادات اور مصلحتوں کا تحفظ کر سکیں ۔جیسا کہ ہم نے علاء خضری کی داستان میں دیکھا کہ دار ین کی جنگ میں وہ اپنے پیادہ و سوار سپاہیوں کے ہمراہ سمندر کے پانی سے ایسے گزر ا جیسے وہ صحرا کی نرم ریت پر چل رہا تھا جب کہ اس سمندر ی فاصلہ کو کشتی سے طے کرنے کے لئے ایک شب و روز کا زمانہ درکار تھا اس کے علاوہ اس جنگ میں جتنی بھی کرامتیں اس نے دکھائیں وہ سب علاء کی جانب سے خلیفہ اول کی فرمانبرداری و اطاعت کے نتیجہ میں تھیں چوں کہ جب یہی علاء دوسرے خلیفہ کی اجازت کے بغیر بلکہ اس کی نا فرمانی کرتے ہوئے ایران پر حملہ کرتا ہے تو شکست سے دو چار ہوتا ہے اور ذلیل و خوار ہو جاتا ہے ۔اس لئے اگر علاء سے کوئی کارنامہ دیکھنے میں آیا ہے تو وہ صرف خلیفہ اول کی اطاعت کے نتیجہ میں تھا ،نہ یہ کہ علاء کسی ذاتی فضل و شرف کا مالک تھا کیوں کہ ہم نے دیکھا کہ دوسری بار خلیفہ دوم کی نافرمانی کے نتیجہ میں اس کے فضل و شرف کا کہیں نام و نشان نظر نہیں آتا ۔ اس قسم کے افسانے وقت کی سیاست کے مطابق اور خلافت کی مصلحتوں اور مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے جعل کئے گئے ہیں۔اسی لئے یہ افسانے ہر زمانہ میں حکمراں طبقہ اور ان کے حامیوں کی طرف سے مورد تائید وحمایت قرار پائیں گے۔
٢۔اس نے اپنے افسانوں کو عوام پسند،ہر دل عزیز اور ہر زمانے کے متناسب جعل کیاہے۔ اسلاف کی پوجا کرنے والے اس افسانوں میں اپنے اجداد کی بے مثال عظمتیں اور شجاعتیں پاتے ہیں۔ثقافت وادب کے شیدائی منتخب اور دلچسپ اشعار اور نثر میں بہترین اور دلپسند عبارتیں پاتے ہیں۔تاریخ کے متوالوں کو بھی ایک قسم کے تاریخی اسناد،جیسے خطوط،عہد نامے،دستاویز اور تاریخ کے بارے میں جزئیات ملتے ہیں اور عیش وعشرت کی زندگی گزارنے والوں کو بھی سیف کے افسانوں میں اپنا حصہ ہاتھ آتاہے تاکہ اپنی شب باشی کی محفلوں میں اس کے شیرین قصوں اور داستانوں سے لطف اندوز ہوسکیں ۔
مختصر یہ کہ حکام اور اہل اقتدار ،جو کچھ اپنی سیاست کے مطابق چاہتے ہیں سیف کے افسانوں میں پاتے ہیں۔اس کے علاوہ عام لوگ بھی اپنی چاہت کے مطابق مطالب سے محروم نہیں رہتے ۔علماء اور ادب کے شیدائی بھی اپنی مرضی کے مطابق بحث و مباحثے میں کام آنے والی چیزوں سے مستفید ہوتے ہیں۔
ہم نے مشاہدہ کیا کہ سیف کو دوسروں پر اس لئے سبقت حاصل ہے کہ اس نے دوسروں کی نسبت اپنے شخصی مفاد کو کامیابی کے ساتھ تمام طبقوں کی خواہشات کے مطابق ہماہنگ کیا ہے اس نے مختلف طبقات کی خواہشات کو پورا کرنے کے باوجود عام طور پر قبیلۂ مضر کو اور خاص طور پر خاندان تمیم کو ہمیشہ کے لئے با افتخار بنانے میں کوئی کوتاہی نہیں کی ہے۔اس کے علاوہ اپنے خاندان کے دشمنوں جیسے ،یمنیوں اور سبائیوں کو ذلیل وخوار کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ہے۔
٩)۔ سیف کے مقاصد
مذکورہ بالاتمام چیزوں کا سیف کے بیانات میں واضح طور پر مشاہدہ ہوتاہے۔لیکن تاریخی حواد ث کی تاریخوں میں تحریف کرنے کا کیا سبب تھا؟اور کس چیز نے سیف کو اس بات پر مجبور کیا کہ تاریخی اشخاص کے نام بدل دے ،مثال کے طور پر عبد الرحمن ابن ملجم کے بجائے خالد بن ملجم بتائے؟یا کون سی چیز اس کا باعث بنی کہ وہ یہ داستان گڑھے کہ عمر اپنی بیوی سے یہ کہیں کہ مردوں کے ساتھ بیٹھ کرکھانا کھائے!اور ان کی بیوی کا اپنے شوہر کی تجویز پر اطاعت نہ کرنے کاسبب اس کانامناسب لباس ہو؟اور اسی طرح کی دوسری مثالیں ؟یہ وہ مسائل ہیں جن سے سیف کے وہ مقاصد پورے نہیں ہوسکتے جن سے ہم واقف ہیں ،مگر یہ کہ اس پر زندیق ہونے کا الزام صحیح ثابت ہو اور اگریہ الزام اس پر صحیح ثابت ہوجائے تو یہ ثابت ہوجائے گا کہ ان تمام جھوٹ اور افسانوں کے گڑھنے کا اس کا اصلی مقصد اسلامی تاریخ کے حقائق میں تبدیلی لانے،تحریف کرنے اور انھیں مسخ کرنے کے علاوہ کچھ اور نہیں تھا۔اور اس میں سیف اس قدر کامیاب ہوا ہے کہ یہ کامیابی اس کے علاوہ کسی اور زندیق کو نصیب نہیں ہوئی ہے۔
بہر حال ،خواہ سیف کے زندیقی ہونے اور اسلام کے ساتھ اس کی دشمنی کے سبب یا جھوٹ اور افسانے گڑھنے میں اس کی غفلت اور حماقت کی وجہ سے ،جو بھی ہو ،اس نے تاریخ اسلام کو خاص کر ارتداد اور فتوح کی جنگوں میں اور ان کے بعد حضرت علی ـکی خلافت کے زمانے تک کے تاریخی حوادث میں زبردست تحریف کی ہے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ جو کچھ سیف نے جعل کیا ہے وہ اسلام ،پیغمبر اسلام ۖکے اصحاب ان کی جنگوں اور فتحیابیوں کی باقاعدہ اور معتبر تاریخ محسوب ہوتاہے۔جھوٹ اور افسانوں پر مشتمل اس قسم کی تاریخ کو باقاعدہ طور پر تسلیم کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسلام کے دشمنوں کو یہ دعویٰ کرنے کا موقع ملا کہ اسلام تلوار کے ذریعہ اور ہزار ہا انسانوں کے خون کی ہولی کھیلنے کے بعد پھیلا ہے۔جب کہ حقیقت یہ نہیں ہے بلکہ یہ خود ملتیں اور قومیں تھیں جو ظالم اور جابر حکام کے خلاف بغاوت کرکے اسلام کے سپاہیوں کی صف میں شامل ہوکر گروہ گروہ دین اسلام قبول کرتی تھیں۔حقیقت میں اسلام اسی طرح پھیلاہے نہ کہ تلوار کے ذریعہ جیسا کہ سیف کا دعویٰ ہے۔
١٠)۔ ہماری ذمہ داری :
یہ وہ تاریخ ہے جسے سیف نے تاریخ اسلام کے طور پر تدوین کیا ہے اور یہ عوام الناس میں محترم قرار پاکر تسلیم کی گئی ہے اور جو کچھ دوسروں نے حقیقی واقعات پر مشتمل تاریخ اسلام لکھی ہے ،سیف کے افسانوں کی وجہ سے ماند پڑگئی ہے اور سرد مہری وعدم توجہ کا شکار ہوکر فراموش کردی گئی ہے۔اس طرح ہر نسل نے جو کچھ سیف کے افسانوں سے حاصل کیا،اسے اپنے بعد والی نسل کے لئے صحیح تاریخی سند کے طور پر وراثت میں چھوڑا اور اس کے تحفظ کی تاکید کی ہے۔اسی طرح صدیاں گزرگئیں۔
گزشتہ بارہ صدیوں سے یہی حالت جاری ہے۔اور ہماری تدوین شدہ تاریخ ،خصوصاً فتوح ،ارتداد اور پیغمبر خدا ۖکے اصحاب کی تاریخ کی یہی ناگفتہ بہ حالت ہے ۔لیکن کیا اب وقت نہیں آیا ہے کہ ہم ہوش میں آئیں اور اپنے آپ کو اس زندیق کے فتنوں کے پھندوں سے آزاد کریں؟ کیااب بھی وہ وقت نہیں آیا ہے کہ ہم حقیقت کی تلاش کریں ؟اگر ہمیں ایسا موقع ملا اور اس بات کی اجازت ملی کہ تاریخ کی بڑی کتابوں اور معارف اسلامی کے دیگر منابع کے بارے میں تعصب اور فکری جمود سے اوپر اٹھ کر بحث وتحقیق کریں تاکہ اسلام کے حقائق سے آشنا ہو سکیں تو ایسی بحث کے مقدمہ کے طور پر سب سے پہلے رسول خدا ۖکے سچے اور حقیقی اصحاب کی شناخت اور پہچان ضروری ہو گی اور اس سلسلے میں پہلے سیف کے جعلی اصحاب کو پہچاننے کی ضرورت ہے ایسے صحابی جنھیں اس نے سپہ سالار اور احادیث کے راویوں کی شکل میں جعل کیا ہے اور اپنی احادیث کی تائید کے لئے اپنی روایتوں میں بے شمار راوی جعل کئے ہیں اور شعراء ،خطباء حتٰی جن و انس سے بھی مدد حاصل کی ہے جب کہ ان میں سے کسی ایک کا بھی حقیقت میں وجود نہیں ہے ۔
اس کتاب کے اگلے حصوں میں ہم سیف کے افسانوں کے ایسے سورمائوں کے بارے میں بحث و تحقیق کریں گے جو پیغمبر اسلام ۖکے اصحاب کے طور پر پیش کئے گئے ہیں خدا شاہد ہے کہ ہم نے جو یہ کام اور راستہ اختیار کیا ہے اس میں اسلام کی خدمت اور خدا کی رضامندی حاصل کرنے کے علاوہ کوئی اور مقصد کارفرما نہیں ہے ۔
ہم اس کتاب کو اس کے تمام مطالب اور مباحث کے ساتھ علماء اور محققین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ اس کی تکمیل میں اپنی راہنمائی اور علمی تنقید کے ذریعہ ہماری مدد اور تعاون فرمائیں ۔
خد ا ئے تعالیٰ سے دعا ہے کہ حق و حقیقت کی طرف ہماری راہنمائی و دستگیر ی فرمائے !اور اپنی پسندیدہ راہ کی طرف راہنمائی فرمائے !
گزشتہ بحث کا ایک جائزہ اور
آئندہ پر ایک نظر
گزشتہ فصلوں میں ہم نے زیر نظر مباحث کی بنیاد کے طور پر چند کلی مسائل بیان کئے اور اس طرح زندیقیت اور زندیقیوں کا تعارف کرایا اور خاندانی تعصبات کی بنیاد پر حدیث اور تاریخ اسلام پر پڑنے والے برے اثرات سے واقف ہوئے ۔ اس کے علاوہ اس حقیقت سے بھی واقف ہوئے کہ سیف بن عمر ایک زبر دست متعصب اور خطر ناک زندیقی تھا ۔اس میں زندیقیت اور تعصب دو ایسے عامل موجود تھے جو حدیث جعل کرنے کے لئے اسے بڑی شدت سے آمادہ کرتے تھے ۔اور یہی قوی دو عامل اسے تاریخ اسلام میں ہر قسم کے جعل ،تحریف ،جھوٹ اور افسانہ سازی میں مدد دیتے تھے جس کے نتیجہ میں اس نے اپنے تخیلات کی طاقت سے بہت سے راوی ،شاعر اور اصحاب کو اپنی احادیث اور افسانوں کے کردار کے طور پر جعل کرکے انھیں اسلام کی تاریخ و لغت میں داخل کر دیا ہے
اس کتاب کی تالیف کا مقصد سیف کے جعل کئے ہوئے افراد کے ایک گروہ کا تعارف کرانا ہے جنھیں اس نے تاریخ اسلام میں پیغمبر ۖ کے اصحاب کی حیثیت سے پیش کیا ہے
سیف نے اپنے جعلی اور افسانوی اصحاب میں سے اہم اور نامور افراد کو خاندان تمیم سے مربوط ثابت کیا ہے ،جو اس کا اپنا خاندان ہے اور باقی اصحاب کو دوسرے مختلف قبیلوں سے مربوط دکھایا ہے اب ہم ان کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے ان میںسے ہر ایک کے بارے میں الگ الگ فصل میں بحث و تحقیق کریں گے ۔ہم اس بحث کا آغاز خاندان تمیم سے مربوط جعلی اصحاب سے کرتے ہیں ،جن کا سرغنہ اور سب سے پہلا شخص '' قعقا ع بن عمرو'' ہے ۔
|