سیف بن عمر ۔حدیث جعل کرنے والا سورما
لم یبلغ احد سیف بن عمر فی وضع الحدیث حدیث گڑھنے میں سیف بن عمر کے برابر کوئی نہیں تھا ۔
مؤلف
سیف کی کتابیں
سیف نے '' فتوح ''اور'' جمل ''نام کی دو کتابیں تألیف کی ہیں ۔یہ دونوں کتابیں خرافات ، اور افسانوں پر مشتمل ہیں ۔اس کے باوجود ان کتابوں کے مطالب تاریخ اسلام کی معتبر ترین کتابوں میں قطعی اور حقیقی اسناد کے طور پر نقل کئے گئے ہیں اور آج تک ان سے استفادہ کیا جاتا ہے ۔
سیف نے ان دو کتابوں میں رزمیہ شاعروں کی ایک ایسی جماعت جعل کی ہے ،جنھوں نے ایک زبان ہو کر عام طور پر قبائل مضر کے بارے میں اور خصوصا قبیلہ تمیم کے بارے میں اور ان سے بھی زیادہ عمرو کے خاندان جو خود سیف کا خاندان ہے کے فضائل و مناقب اور عظمتیں بیان کرنے میں آسمان و زمین کے قلابے ملا دئے ہیں ۔
اس طرح سیف نے اپنے خاندان کی بر تری اور عظمت کو جتانے کے لئے اس خاندان کے اچھے خاصے افراد کو رسول خدا ۖکا صحابی بنا کر انھیں اسلام قبول کرنے میں سبقت کرنے والوں کی حیثیت سے پیش کیا ہے اور ان سب کو خاندان تمیم سے شمار کیا ہے ۔
اس کے علاوہ قبیلۂ تمیم سے چند سپہ سالار جعل کئے ہیں جو سیف کی فرضی جنگوں کی قیادت کرتے ہیں ۔مزید بر آن کچھ ایسے راوی بھی جعل کئے ہیں جو خاندان تمیم کے فرضی سورمائوں اور دلاوروں کے افسانے اور بہادریاں بیان کرتے ہیں ۔
اس نے قبیلہ تمیم کے جعلی پہلوانوں اور جنگی دلاوروں کی فرضی بہادریوں اور افسانوی کارناموں کو '' فتوح'' اور'' جمل '' نامی اپنی کتابوں میں درج کیا ہے ۔یہ افسانے اور فرضی قصے ایسے مرتب کئے گئے ہیں جو ایک دوسرے کی تائید کریں ۔
سیف نے اپنی داستانوں میں ایسی جنگوں کا ذکر کیا ہے جو ہر گز واقع نہیں ہوئی ہیں اور ایسے میدان کا ر زار کا نام لیا ہے کہ جن کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں ہے اس کے علاوہ ایسے شہروں قصبوں اور مقامات کا نام لیا ہے جن کا روئے زمین پر کوئی وجود ہی نہیں تھا اور اس وقت بھی ان کا کہیں وجود نہیں ہے ۔
قبیلہ تمیم کے افسانوی بہادروں کے جنگی کار نامے ،شجاعت و دلیری ،ہوشیاری تجربہ اور کامیابیاں ثابت کرنے کے لئے سیف نے دشمنوں کے مقتولوں کی دہشت انگیز تعداد دکھائی ہے ۔ خاص کر ہزاروں دشمن کے مارے جانے یا ایک ہی معرکہ میں صرف تین دن رات کے اندر دشمنوں کے خون کی ندیاں بہانے کی بات کرتاہے ،جب کہ اس زمانے میں اس جنگ کے پورے علاقہ میں اتنی بڑی تعداد تمام جانداروں کی موجود نہیں تھی ،انسانوں کی تو بات ہی نہیں جو اتنی تعداد میں مارے جاتے یا قیدی بنائے جاتے !سیف نے اپنے افسانوں اور خیالی خونیں جنگوں کے واقع ہونے کی تائید میں فرضی رزمی شاعر وں سے منسوب قصیدے اور اشعار بھی لکھے ہیں جن میں قبائل مضر ،خاص کر خاندان تمیم کے جنگی کارنامے ،فخر و مباہات اور عظمتیں بیان کی گئی ہیں اور دشمنوں کی کمزوری ،نااہلی اور زبوں حالی کو بیان کیا ہے ۔
ان سب کے علاوہ سیف بن عمر تمیمی نے خلفائے وقت کی طرف سے ان جعلی اور فرضی بہادروں کے نام حکم نامے اور خطوط جعل کئے ہیں اور ان حکم ناموں میں انھیں فرضی عہد ے اور ترقیاں عطا کی گئی ہیں۔اس کے علاوہ ان فرضی سپہ سالاروں اور نام نہاد سرحدی علاقوں کے لوگوں کے درمیان جنگی معاہدے اور امان نامے بھی جعل کئے ہیں جب کہ حقیقت میں نہ اس قسم کی کوئی جنگ واقع ہوئی ہے اور نہ کوئی فتح یابی اور نہ ہی اس قسم کے افراد کا کوئی وجود ملتا ہے جن کے درمیان کسی قسم کا معاہدہ طے پاتا۔
مختصر یہ کہ اس غیر معمولی ذہن والے جھوٹے اور متعصب شخص سیف نے افسانہ سازی اور جھوٹی داستانوں کے علاوہ بے شمار اصحاب ،سورما،راوی ،رزمی شعراء اور ان کے قصیدے جعل کرکے قبیلۂ مضر اور تمیم خاص کراپنے خاندان بنی عمرو کے فضائل و مناقب کا ایک عظیم منشور تیار کیا ہے اور اسے تاریخ کے حوالے کیا ہے اور ایک ہزار سال گزر نے کے بعد اس وقت بھی ان واقعات کو حقیقی اور قطعی اسناد اور تاریخ اسلام کے خصوصی واقعات کے طور پرمانا جاتا ہے ۔
مذکورہ مطالب اور سیف کے مقاصد کو بیان کرنے والے اشعار اور قصیدوں کے درج ذیل نمونے قابل غور ہیں :
سیف نے ایک فرضی شاعر قعقاع ابن عمر و تمیمی کی زبانی حسب ذیل (مضمون کے) اشعار بیان کئے ہیں ۔٩
''میں نے اپنے اباو اجداد سے سمندروں کی وسعت کے برابر نیک اعمال اور بزرگی وراثت میں پائی ہے ۔ان میںسے ہر ایک نے عظمت اور بزرگواری کو اپنے والدین سے وراثت میں پایا ہے اور عظمتوں کے عالی درجے اپنے اجداد سے حاصل کئے ہیں اور انھیں بڑھاوا دیا ہے ۔میں ان فخر و مباہات کو ہر گز ضائع ہونے نہیں دوں گا ،میری نسل بھی اگر باقی رہی تو وہ بھی عظمتوں کی بنیاد رکھنے والی ہیں ۔اس لحاظ سے میدان کارزار کے سپہ سالار ہمیشہ ہم میں سے تھے جو بادشاہوں کی طرح دشمن پر کاری ضرب لگاتے تھے اور ان کے پیچھے لشکر شکن سپاہی ہوتے تھے ۔ہم میدان جنگ کے وہ سورما ہیں جن کے خوف و دہشت سے دشمن کے سپاہی تسلیم ہو جاتے ہیں ''
اس کے علاوہ سیف نے ابی مفزر اسود تمیمی کی زبانی یہ قصیدہ کہا ہے :
'' ہم بنی عمرو کے خاندان سے تعلق رکھنے والے ،میدان کارزار کے نیزہ باز ،محتاجوں کو کھلانے والے اور مہمان نواز ہیں''
اور ابو بجید نافع بن اسود تمیمی سے منسوب یہ شعر لکھے ہیں:
'' جب یزدگرد نے فرار کیا ،تو حقیقت میں ہم نے خوف و وحشت کے ہتھیار سے اسے شکست دے دی ''
مزید کہتا ہے :
'' اگر میرے خاندان کے بارے میں پوچھو گے تو ''اسید'' بزرگی و عظمت کا معدن ہے ''
اور ربیع بن مطر تمیمی کی زبانی کہتا ہے :
''اسلام کے سپہ سالار سعد و قاص (الف) کے منادی نے خوش لحن اور سریلی آواز میں ندا دی کہ : بے شک صرف قبیلۂ تمیم کے افراد میدان کار زار کے شہسوار تھے ''
مزید کہتا ہے :
'' قبائل معد اور دیگر قبائل کے حکم یہ نظریہ رکھتے تھے کہ صرف خاندان تمیم کے افراد عجم
..............
الف)۔ سعد بن ابی وقاص ،قادسیہ کی جنگ کا سپہ سالار تھا سعد نے ٥٤ھ یا ٥٥ ھ میں مدینہ میں وفات پائی اسد الغابہ ٢ ٢٩٠و٢٩٣
کے بادشاہوں کے ہم پلہ ہیں''
سیف بن عمر تمیمی نے خاندان تمیم کی عظمت اور فخر و مباہات کی تبلیغ و تشہیر کے لئے صرف انسانوں کا ہی سہارا نہیں لیا ہے بلکہ ان فخر و مباہات کی تبلیغ میں جنات سے بھی مدد لی ہے اور ایک افسانہ گڑھ کر دعویٰ کیا ہے کہ جنات نے بھی آواز کی لہروں کے ذریعہ چند اشعار کہہ کر خاندان تمیم کی عظمتوں کو تمام عرب زبان لوگوں تک پہنچایا ہے ۔طبری نے اس موضوع کو سیف سے نقل کرتے ہوئے اپنی تاریخ میں یوں بیان کیا ہے ۔ ١٠
'' قادسیہ کی جنگ ختم ہونے کے بعد جنات نے اس خبر کو نشر کیا اور لوگوں کو حالات سے آگاہ کیا اور خبر پہنچانے میں انسانوں پر سبقت حاصل کی ''
اس کے بعد لکھتا ہے :
'' اہل یمامہ نے ایک غیبی آواز سنی ۔یہ آواز ان کے سروں کے اوپر سے گزرتے ہوئے گونجتی ہوئی یوں گویا تھی : '' ہم نے دیکھا کہ فوج بیشتر قبیلہ تمیم کے افراد پر مشتمل تھی اور میدان کارزار میں سب سے زیادہ صبر و تحمل والے وہی تھے ۔تمیم کے بے شمار سپاہیوں نے دشمن کے ایک بڑے لشکر پر ایسی یلغار کی کہ گرد وغبار ہو امیںبلند ہو گیا وہ لوگ ایرانی سپاہیوں کے ایک بڑے لشکر پر جو شجاعت اور بہادر ی میں کچھار کے شیروں کے مانند اور پہاڑ کی طرح ثابت قدم تھے حملہ آور ہوئے ایرانیوں کو جنگ قادسیہ کے میدان کارزار میں کٹھن لمحات کا سامنا کرنا پڑا آخر کار وہ تمیم کے سپاہیوں کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو گئے اور ان کے سامنے اپنی عظمتیں کھو بیٹھے ۔جب وہ قبیلہ ٔتمیم کے بہادروں کے مقابلے میں آتے تو اپنے ہاتھ پائوں کو ان کی تلواروں سے کٹتے دیکھتے رہ گئے ۔ یہ آواز اسی طرح پورے جزیرہ نمائے عرب میں بعض لوگوں کے کانوں تک پہنچی ہے !
سیف کے یہ افسانوی فاتح سپہ سالار وں کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ اس فرضی اور افسانوی میدان جنگ میں ان کے اطراف سپاہیوں کی ایک جماعت بھی موجود ہو ۔ اس لئے سیف نے قبیلہ مضر کے علاوہ دیگر خاندانوں اور قبیلوں کے بعض طرفدار اور حامی ان کے لئے گڑھ لئے ہیں اور انھیں بھی اس افسانوی جنگ میں کچھ فرضی ذمہ داریاں اور معمولی عہدے عطا کئے ہیں تاکہ اس کے افسانے ہر صورت میں مکمل نظر آئیں اور قبائل مضر ،نزار اور تمیم کی بہادریاں اور نمایاں ہو جائیں اس طرح سیف نے تاریخ اسلام میں ایسے بہت سے صحابی ، تابعین اور راویوں اور لوگوں کے مختلف طبقات کو جعل کیا ہے کہ ان میں سے کسی ایک کا بھی حقیقت میں وجود نہیں تھا اور وہ سب کے سب سیف کی خیالی تخلیق اور اس کے افسانوی افراد ہیں اور جتنی بھی داستانیں اور اشعار ان سے منسوب کئے ہیں وہ سب کے سب اس زندیق سیف کی خیالی تخلیق ہیں ۔
سیف کی تحریفات
سیف ،سورمائوں کو جعل کرنے اور افسانے گڑھنے کے علاوہ اپنی احساس کمتری کی آگ کو بجھانے کے لئے تاریخ اسلام کے حقیقی واقعات میں تحریف کرنے کا بھی مرتکب ہو اہے ۔یعنی تاریخی واقعات کو اصلی اشخاص کے بجائے غیر مربوط افراد سے منسوب کرکے بیان کرتا ہے ۔اس سلسلے میں درج ذیل نمونے قابل بیان ہیں:
اول ۔حقیقی جنگوں میں جن افراد کے ذریعہ فتح و کامرانی حاصل ہوئی ہے ،سیف نے ان کامیابیوں کو بڑی مہارت اور چالاکی کے ساتھ قبیلہ مضر کے کسی حقیقی فرد کے حق میں درج کیا ہے یا یہ کہ اس فوج کی کمانڈ کو قبیلہ مضر کے کسی افسانوی سپہ سالار اور بہادر کے ہاتھ میں دکھایا ہے تاکہ اس طرح اس فتح و کامرانی کو قبیلہ مضر کے کھاتے میں ڈال سکے ۔
دوم ۔اگر قبیلہ مضر کا کوئی فردیا چند افراد حقیقتا کسی مذموم تاریخی عمل کے مرتکب ہوئے ہوں تو سیف خاندانی تعصب کی بنا پر اس شرمناک اور مذموم فعل کو کسی ایسے شخص کے سر تھوپتا ہے جو قبیلہ مضر سے تعلق نہ رکھتا ہو ۔اس طرح خاندان مضر کے فرد یا افراد کے دامن کو اس قسم کے شرمناک اور مذموم فعل سے پاک کرتا ہے خواہ یہ غیر مضری فرد حقیقت میں وجود رکھتا ہو یا سیف کے ان افسانوی افراد مین سے ہو جنھیں اس نے جعل کیاہے ۔
سوم۔اگر قبیلہ مضر کے سردار وں کے درمیان کوئی ناگوار اور مذموم حادثہ پیش آیا ہو اور حادثہ میں دونوں طرف سے قبیلہ مضر کے افراد ملوث ہوں توسیف اپنی ذمہ داری کے مطابق اخبار میں تحریف کرکے افسانہ تراشی کے ذریعہ یا ہر ممکن طریقے سے قبیلہ مضر کو بد نام و رسوا کرنے والے اس ناگوار حادثہ کی پردہ پوشی کرتا ہے ایسے قابل ،مذمت حوادث کے نمونے تیسرے خلیفہ عثمان بن عفان کے خلافت عائشہ ،طلحہ اور زبیر کی دشمنی اور بغاوت میں دیکھے جا سکتے ہیں ،جس کے نتیجہ میں ان کے حامیوں نے عثمان بن عفان کے گھر کا محاصرہ کیا اور بالآخر انھیں قتل کر ڈالا ۔یا ایسے نمونے قبیلہ مضر کے مذکورہ تین سرداروں (عائشہ ،طلحہ وزبیر ) کی خلیفہ مسلمین حضرت علی ں جو خودقبیلہ مضر سے تعلق رکھتے تھے کے خلاف بغاوت مین دیکھے جا سکتے ہیں ، جو بالآخر جنگ جمل پر ختم ہوئی ۔ سیف نے خاندان مضر کے مذکورہ سرداروں کے دامن کو اس رسوائی اور بدنامی سے پاک کرنے کے لئے بڑی مہارت اور چالاکی سے '' عبداللہ ابن سبا'' نامی ایک نام نہاد شخص کا ایک حیرت انگیز افسانہ جعل کرکے مسلّم تاریخی حقائق کو بالکل الٹ دیا اور مضریوں کے دامن کو پاک کرکے ان سب کے بجائے صرف ایک فرضی شخص '' عبد اللہ ابن سبا '' کو قصور وار ٹھہرایا ہے ۔
سیف '' عبداللہ ابن سبا'' کے حیرت انگیز افسانہ کا منصوبہ مرتب کرتا ہے اور اس افسانہ کے ہیرو جو قطعا غیر مضری ہے کا نام ''ابن سبا''رکھتا ہے اور ایسا تصور پیش کرتا ہے کہ ''ابن سبا''یمن کے شہر صنعا سے اٹھتاہے ۔اسلامی ممالک کے مختلف بڑے شہروں کا دورہ کرتا ہے اور یمنی طرفداروں کو اپنے ساتھ جمع کرکے بالآخر عثمان کے زمانے کی بغاوت اور حضرت علی کے خلاف جنگ جمل برپا کرتا ہے ۔اس طرح سیف ،ان تمام بغاوتوں ،جنگوں اور فتنوں کا ذمہ دار ''عبداللہ ابن سبا''اوراس کے طرفداروں کو ٹھہرا تا ہے جو سب کے سب یمنی ہیں نہ کہ مضری۔
سیف اس حیرت انگیز افسانہ گو گڑھنے کے بعد اسے اپنی وزنی اور معتبر کتاب میں درج کرتا ہے اور تمام حوادث اور بد بختیوں کو ''عبداللہ ابن سبا''اور اس کے حامیوں کے سر تھوپتاہے جو سب کے سب اس کے خیالی اور جعلی افراد تھے اور اس نے ان کانام ''سبائی''رکھا تھا ۔اس طرح خاندان مضر کے سرداروں جو حقیقت میں ان واقعات اور حوادث کے ذمہ دار تھے کے دامن کو ہر قسم کی تہمت اور آلودگی سے پاک کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اپنے آپ کو اس بڑے غم سے نجات دلاتا ہے جو قبیلہ مضر کے لئے شرمندگی اور ذلت کا سبب تھا۔
سیف،''عبداللہ''کو جعل کرکے اس کا نام ''ابن سبا''رکھتا ہے اور اسے سبائیوں سے نسبت دیتا ہے تا کہ اس کا یمنی ہونا مکمل طور پر ثابت ہوجائے اور اس کے قحطانی ہونے میں کسی قسم کا شک و شبہ باقی نہ رہے ۔ کیا سبا بن یشجب بن یعرب بن قحطان تمام قحطانیوں کا جد اعلیٰ نہیں ہے اور یمن کے تمام قبائل کا شجرہ ٔنسب اس تک نہیں پہنچتا ؟اس لحاظ سے اگر یہ کہا جائے کہ فلاں شخص سبائی یا قحطانی ہے تو اسے ایک ایسے شخص سے نسبت دی ہے جو یمنی ہے ،جس طرح اگر اسی شخص کو یمنی کہیں تو ایک ایسی جگہ کی نسبت دیں گے جو سبا اورقحطانیوں کی اولاد کی جائے پیدایش ہے ۔اس وضاحت کے پیش نظر سیف بن عمر ،''عبداللہ ابن سبا ''کے حامیوں اور پیرو کاروں کو بھی سبائی کہتا ہے تا کہ یہ ثابت کرے کہ ''عبداللہ ابن سبا''کے تمام حامی اور پیرو یمنی تھے اور کسی کے لئے شک و شبہ باقی نہ رہے کہ قبیلہ ٔسبا کے افراد ،یمنی اور قحطانی سب کے سب بد فطرت ہیں اور بغاوت و فتنہ انگیزی میں ایک دوسرے کے برابر ہیں اور مثال نہیں رکھتے ۔صاف ظاہرہے کہ سیف نے ایک تیر سے دو کے بجائے کئی شکار کئے ہیں !زندیق ہونے کی وجہ سے اس نے اسلام کو افسا نہ اور تاریخ اسلام کو قصہ اور داستان کا نام دے کر حقائق کی تحریف کی ہے اور واقعات کو توہمات کے پردے میں چھپایا ہے اور اس طرح ملت کے خود غرضوں کو خوش کیا ہے اور تعصب کی بنا پر جزیرہ نمائے عرب کے شمال میں رہنے والے قبیلہ مضر کے دامن کو ہر رسوائی سے پاک کرنے کے علاوہ یمنیوں کی قدرت و منزلت کو گراکر اس قدر پست و ذلیل کیا ہے کہ تاریخی واقعات کا مطالعہ کرنے والے رہتی دنیا تک سبائیوں ،یمنیوں اور قحطانیوں کو لعنت ملامت کرتے رہیں گے ۔مختصر یہ کہ سیف نے مانی کی تردید لکھ کر تاریخی واقعات سے نا جائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے فرضی اور جعلی سور مائوں کو جعل کیا ہے ۔
سیف نے ''عبداللہ ابن سبا''کو جعل کرکے اسے سبائی ،صنعائی اور یمنی کہا ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ''عبداللہ ابن سبا''نے اسلامی ممالک کے تمام مراکز ،جیسے :شام،مصر،کوفہ اور بصرہ وغیرہ کا سفر کرکے ہر جگہ پر لوگوں کو وہاں کے گورنروں کے خلاف شورش اور بغاوت پر اکسایا اور آخر کار اپنے حامیوں اور پیرئووں کے ہمراہ مدینہ پہنچا اور خلیفہ عثمان کے گھر کا محاصرہ کیا اور اس کے بعد انھیں قتل کر ڈالا ۔کچھ مدت کے بعد حضرت علی ابن ابیطالب کی حکومت کے دوران جنگ جمل میں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ دوبارہ ظاہر ہوا ۔جو جنگ خاندان مضر کے ایک معروف شخصیت کی حکمت عملی اور فہم و فراست کے نتیجہ میں صلح کے نزدیک پہنچ چکی تھی ،سبائیوں کی سازشوں اور براہ راست مداخلت سے ایک خونریز جنگ میں تبدیل ہوگئی ،جب کہ خاندان مضر کے سردار حضرت علی ،عائشہ ،طلحہ اور زبیر اس جنگ سے نہ راضی تھے اور نہ مطلع!!
سیف نے ''عبداللہ ابن سبا ''کا افسانہ اس لئے گڑھا ہے تا کہ یہ ثابت کرے کہ مضریوں کے پست اغراض کے سبب پیش آنے والی تمام دہشت گردیاں ،خون ریزیاں ،اختلافات اور برادر کشیاں اصل میں یمنیوں کی حرکتوں کانتیجہ ہیں اور قبیلہ مضر کے سردار اور بزرگ افراد جیسے ام المومنین عائشہ ،طلحہ ،زبیر،معاویہ،مروان اور ان ہی جیسے دسیوں افراد کا دامن ان رسوائیوں سے پاک و منزہ ہے،اور ان میں ایک فرد بھی اپنی پوری زندگی میں معمولی سی لغزش و خطا کا مرتکب بھی نہیں ہوا ہے اور یہ لوگ اتنے پاک و بے قصور ہیں جیسا یعقوب کے بیٹے کو پھاڑ کھانے والا بھیڑیا!
اس کے بر عکس خاندان مضر کے علاوہ دیگر نمایاں شخصیات،جنہوں نے ان تاریخی واقعات میں شرکت کی ہے،جیسے عمار یاسر و عبد الرحمٰن عدیس کہ دونوں رسول اکرم ۖ کے صحابی اور قحطانی تھے ،یا مالک اشتر جو تابعین میں سے اور قحطانی تھے اور ان کے علاوہ دیگر قحطانیوں کو نہ صرف سیف نے تہمتوں سے بری نہیںرکھا ہے بلکہ انھیں تخریب کاریوں میں ملوث ثابت کرنے کی بھر پور کوشش کی ہے اور انھیں ''عبداللہ ابن سبا''یہودی کا پیرو اور آلہ کار ثابت کرتا ہے ۔اس طرح سیف نے قبیلہ مضر کے سرداروں سے سرزد ہونے والے نا پسند اور مذموم واقعات کو اپنے افسانوں کے ذریعہ چھپانے کی کوشش کی ہے ۔
چہارم۔سیف کی تحریفات کی اقسام میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اگر قبیلہ مضر کے کسی معروف اور مالدار شخص اور اسی قبیلہ کے کسی معمولی فرد کے درمیان کوئی اختلاف یا ٹکرائو پیدا ہوتا تو سیف اس قبیلہ کی معمولی فرد کو قبیلہ کی مجد و عظمت کے لئے قربان کرکے اسے پائمال کردیتا ہے ۔قبیلہ مضر کی مجد و عظمت کے تحفظ کے لئے سیف ہر قیمت پر دل و جان سے کوشش کرتا نظر آتا ہے اور اس سلسلے میں سیف سے پہلے قبیلہ مضر کے حکمراں اور صاحب قدر ت افراد کے تحفظ کو ترجیح دیتا ہے اور اس کے بعد اس قبیلہ کے سورمائوں ،شہسواروں اور سپہ سالاروں کے فخر و مباہات اور احترام کے تحفظ میں کسی قسم کی کسر باقی نہیں رکھتا ۔اس کا نمونہ خالد بن سعید اموی ( خاندان مضر کی ایک معمولی فرد ) اور خلیفہ وقت ابوبکر بن قحافہ ( قبیلہ مضر کا ایک با اقتداراور زبر دست حاکم ) کی داستان میں بخوبی مشاہدہ کیا جا سکتا ہے ۔ چوں کہ خالد مضری نے ابوبکر کی بیعت سے انکار کرکے اس کے خلاف بغاوت کی ہے اس لئے سیف اس کی بھر پور مذمت اور سر زنش کرتا ہے اور اسے بدنام کرتا ہے اگر چہ خالد قبیلہ مضر کا ایک معروف شخص ہے لیکن خلیفہ کے مقابلہ میں ایک معمولی فرد ہے ۔ ١١
پنجم۔بعض اوقات سیف اس طرح بھی حقائق کی تحریف کرتا ہے کہ اگر ایک یمنی اور مضری کے درمیان کوئی واقعہ پیش آئے اور سیف نے اس کا عبداللہ ابن سبا کے افسانہ کے ذریعہ علاج نہ کیا ہو تو اس کے لئے الگ سے ایک افسانہ گڑھ لیتا ہے ۔اور اپنے مخصوص انداز سے یا جس طرح بھی ممکن ہو سکے اس قضیہ میں یمنی کی قدر ومنزلت کو پائمال کرکے مضری شخص کے مقام ومنزلت کو بلند کرکے پیش کرتاہے ۔اس کا نمونہ وقت کے خلیفہ عثمان بن عفان مضری کے ذریعہ ابو موسیٰ اشعری یمانی کو معزول کرنے کے واقعہ میں مشاہدہ کیاجاسکتا ہے۔سیف نے اس داستان میں حتیٰ الامکان یہ کوشش کی ہے کہ ابو موسیٰ اشعری کے مقام ومنزلت کو گھٹا کر پیش کرے اور اس کی سابقہ خدمات سے چشم پوشی کرے اور اس کے مقابلہ میں مضری خلیفہ کی منزلت کو بڑھا چڑھا کر پیش کرے اور اس کا دفاع کرے۔ ١٢
آخر میں سیف بن عمر تمیمی کے افسانوی اور جعلی کارناموں کو درج ذیل صورت میں خلاصہ کیا جاسکتاہے :
١۔ اس نے بالکل جھوٹ اور بہتان پر مشتمل اپنے افسانوں کو تاریخ اسلام کے طور پر مرتب کیاہے۔
٢۔ اصحاب رسول ۖ،تابعین ،حدیث نبوی ۖکے راویوں،سپہ سالاروںاور رزمیہ شاعروں کے نام سے اسلام کی ایسے نام نہاد معروف اورمعتبر شخصیات جعل کی ہیں کہ حقیقت میں سیف کے افسانوں سے باہر ان کا کہیں سراغ نہیں ملتا،کیونکہ ان کا کہیں وجود ہی نہیں ہے۔
٣۔ سیف کے گڑھے ہوئے افسانے ،اشخاص اور مقامات ایک خاص صورت وسبب کے تحت اسلامی مآخذ میں درج کئے گئے ہیں اور یہی اسلامی تاریخ اور اس کے حقائق کے اپنی اصلی راہ سے منحرف ہونے کاسبب بنے ہیں۔اگلی فصل اس حقیقت کی نشاندہی کرتی ہے۔
سیف سے حدیث نقل کرنے والے
مآخذ کی فہرست
وضع سیف تاریخاً کلہ اختلاق
سیف نے اسلام کی ایسی تاریخ گڑھی ہے جو سراسر جھوٹی ہے۔
مؤلف
سیف کی احادیث میں اس قدر واضح طور پر جھوٹ ،افسانہ سازی اور تحریفات کے باوجود (اور خود سیف بھی ان صفات سے مشہور تھا)اس کی جعلی احادیث نے اسلامی کتابوں میں خاصی جگہ پائی ہے اور نام نہاد معتبر اسلامی اسناد میں یہ احادیث درج ہوئی ہیں ۔ستم ظریفی کی حد یہ ہے کہ بڑے علماء نے بھی اس کے افسانوں اور جعلی احادیث کو اپنی کتابوں میں تفصیل سے درج کیاہے ۔ہم اس فصل میں اس تلخ اور حیرت انگیز حقیقت کی نشاندہی کرنے کے لئے سیف کی احادیث نقل کرنے والے علماء اور ان کی کتابوں کی فہرست قارئین کرام کی خدمت میںپیش کرتے ہیں:
الف ۔وہ علماء جنھوں نے پیغمبر اسلامۖ کے اصحاب کی سوانح حیات لکھی ہیں اور سیف کے جعلی اصحاب کو بھی آنحضرت ۖکے واقعی اصحاب کی فہرست میں درج کیاہے:
١۔البغوی وفات ٣١٧ ھ کتاب:معجم الصحابہ
٢۔ ابن قانع وفات ٣٥١ ھ کتاب : معجم الصحابہ
٣۔ابو علی ابن السکن وفات ٣٥٣ ھ کتاب:حروف الصحابہ
٤۔ ابن شاہین وفات ٣٨٥ ھ کتاب:معجم
٥۔ ابن مندہ وفات ٣٩٥ ھ کتاب:اسماء الصحابہ
٦۔ ابو نعیم وفات ٤٣٠ ھ کتاب:فی معرفة الصحابہ
٧۔ ابن عبدالبر وفات ٤٦٣ ھ کتاب:استیعاب فی معرفة الاصحاب
٨۔ عبد الرحمن بن مندہ وفات ٤٧٠ ھ کتاب:التاریخ
٩۔ ابن فتحون وفات ٥١٩ ھ کتاب:التذییل علی الاستیعاب
١٠۔ابو موسیٰ وفات ٥٨١ ھ کتاب:علیٰ اسماء الاصحاب
١١۔ابن اثیر وفات ٦٣٠ ھ کتاب:اسد الغابة فی معرفةالصحابہ
١٢۔الذھبی وفات ٧٤٨ ھ کتاب:تجرید اسماء الصحابہ
١٣۔ابن حجر وفات ٨٥٢ ھ کتاب:الاصابہ فی تمییز الصحابہ
ب۔ درج ذیل علماء نے بھی حقیقی سپہ سالاروں اور ملک فتح کرنے والوں کے ساتھ ساتھ سیف کے افسانوی سور ماؤں کی زندگی کے حالات بھی قلم بند کئے ہیں:
١٤۔ابو زکریا وفات ٣٣٤ ھ کتاب:طبقات اھل موصل
١٥۔ابو الشیخ وفات ٣٦٩ ھ کتاب:تاریخ اصبہان
١٦۔حمزة بن یوسف وفات ٤٢٧ ھ کتاب:تاریخ جرجان
١٧۔ابو نعیم وفات ٤٣٠ ھ کتاب:تاریخ اصبہان
١٨۔ابوبکر خطیب وفات ٤٦٣ ھ کتاب:تاریخ بغداد
١٩۔ابن عساکر وفات ٥٧١ ھ کتاب:تاریخ مدینہ دمشق
٢٠۔ابن بدران وفات ١٣٤٦ ھ کتاب:تہذیب تاریخ دمشق
ج۔سیف کے جعل کئے گئے شعراء کا درج ذیل کتاب میں تعارف کیا گیاہے:
٢١۔ مرزبانی وفات ٣٨٤ ھ کتاب:معجم الشعرائ
د۔ سیف کے جعلی سور ماؤں کے نام ان کتابوں میں بھی درج کئے گئے ہیں جو اسامی کے تلفظ میں غلطی کو دور کرنے کے لئے تالیف کی گئی ہیں،جیسے:
٢٢۔دار قطنی وفات ٣٨٥ ھ کتاب:المختلف
٢٣۔ابو بکر خطیب وفات ٤٦٣ ھ کتاب:الموضح
٢٤۔ابن ماکولا وفات ٤٨٧ ھ کتاب:الاکمال
٢٥۔رشاطی وفات ٥٤٢ ھ کتاب:المؤتلف
٢٦۔ابن الدباغ وفات ٥٤٦ ھ کتاب:مشتبہ الاسماء
ھ۔سیف کی بعض ذہنی مخلوقات اور جعلی افراد کا شجرہ ٔنسب (جو خود سیف کی تخلیق ہے)درج ذیل کتابوں میں درج کیا گیاہے:
٢٧۔ابن حزم وفات ٤٥٦ ھ کتاب:الجمہرة فی النسب
٢٨۔سمعانی وفات ٥٦٢ ھ کتاب:الانساب
٢٩۔مقدسی وفات ٦٢٠ ھ کتاب:الاستبصار
٣٠۔ابن اثیر وفات ٦٣٠ ھ کتاب:اللباب
و۔سیف کے بعض جعلی راویوں کی سوانح حیات درج ذیل کتابوںمیں دیکھی جاسکتی ہے:
٣١۔رازی وفات ٣٢٧ ھ کتاب:الجرح والتعدیل
٣٢۔ذھبی وفات ٧٤٨ ھ کتاب:میزان الاعتدال
٣٣۔ابن حجر وفات ٨٥٢ ھ کتاب:لسان المیزان
ز۔سیف کے جعلی مقامات اور فرضی جگہوں کی تفصیلات درج ذیل کتابوں میں ذکر ہوئی ہیں:
٣٤۔ابن الفقیہ وفات ٣٤٠ ھ کتاب:البلدان
٣٥۔حموی وفات ٦٢٦ ھ کتاب:معجم البلدان
٣٦۔حموی وفات ٦٢٦ ھ کتاب:المشترک لفظاً والمفترق صقعاً
٣٧۔عبد المؤمن وفات ٧٣٩ ھ کتاب:مراصد الاطلاع
٣٨۔حمیری ١ وفات ٩٠٠ ھ کتاب:الروض المعطار
ح۔جن کتابوں میں مخصوص طور سے اسلامی جنگوں کاذکر ہواہے،ان میں بھی سیف کی بعض جعلی روایتیں ذکر کی گئی ہیں،جیسے درج ذیل کتابیں:
٣٩۔ابو مخنف وفات ١٥٧ ھ کتاب:کتاب:الجمل
٤٠۔نصر بن مزاحم وفات ٢١٢ ھ کتاب:الصفین
٤١۔شیخ مفید وفات ٤١٣ ھ کتاب:الجمل
٤٢۔ابن ابی بکر وفات ٨٤١ ھ کتاب:مقتل عثمان
..............
١)۔ ابو عبد اللہ ، محمد بن عبد اللہ ملقب بہ حمیری کتاب ''الروض المطار فی اخبار الاقطار'' کامؤلف ہے۔اس کتاب کا قلمی نسخہ مدینہ منورہ میں شیخ الاسلام کے کتاب خانہ میں موجود ہے۔اور مؤلف نے اس کا مطالعہ کیاہے۔
ط۔سیف کی ''فتوح ''نامی کتاب، جو سرتاپا افسانہ ہے،کو درج ذیل معتبر اور وزنی تاریخی
کتابوں میں حقیقی سند کے طور پر درج کیاگیاہے:
٤٣۔ابن خیاط وفات ٢٤٠ ھ کتاب:تاریخ خلیفہ
٤٤۔بلاذری وفات ٢٧٩ ھ کتاب:فتوح البلدان
٤٥۔طبری وفات ٣١٠ ھ کتاب:تاریخ طبری
٤٦۔ابن اثیر وفات ٦٣٠ ھ کتاب:تاریخ ابن اثیر
٤٧۔ذھبی وفات ٧٤٨ ھ کتاب:تاریخ ذھبی
٤٨۔ابن کثیر وفات ٧٧١ ھ کتاب:تاریخ ابن کثیر
٤٩۔ابن خلدون وفات ٨٠٨ ھ کتاب:تاریخ ابن خلدون
٥٠۔سیوطی وفات ٩١١ ھ کتاب:الخلفائ
ی۔مخصوص مواقع کے بارے میں جعل کئے گئے سیف کے افسانوں نے خصوصی موضوعات سے مربوط تألیف کی گئی درج ذیل کتابوں میں بھی راہ پائی ہے:
٥١۔ابن کلبی وفات ٢٠٤ ھ کتاب:انساب الخیل
٥٢۔ابن اعرابی وفات ٢٣١ ھ کتاب:اسماء الخیل
٥٣۔العسکری وفات ٣٩٥ ھ کتاب:الاوائل
٥٤۔غندجانی وفات ٤٢٨ ھ کتاب:اسماء خیل العرب
٥٥۔ابو نعیم وفات ٤٣٠ ھ کتاب:دلائل النبوة
٥٦۔بلقینی وفات ٨٠٥ ھ کتاب:امر الخیل
٥٧۔قلقشندی وفات ٨٢١ ھ کتاب:نہایة الارب
ک۔عربی زبان کی ادبی کتابوں میں بھی کافی مقدار میں ان افسانوں کو شامل کیا گیاہے،جیسے:
٥٨۔اصبہانی وفات ٣٥٦ ھ کتاب:الاغانی
٥٩۔ابن بدرون وفات ٥٦٠ ھ کتاب:ابن عبدون کے قصیدہ کی شرح
ل۔لغت کی کتابیں بھی سیف کے افسانوں سے محروم نہیں رہی ہیں،جیسے:
٦٠۔ابن منظور وفات ٧١١ ھ کتاب:لسان العرب
٦١۔زبیدی وفات ١٢٠٥ ھ کتاب:تاج العروس
م۔بہر حال جہاں کہیں بھی نظر ڈالیں اس مکار لومڑی کے نشان نظر آئیں گے،حتیٰ حدیث کی کتابوں میں بھی،جیسے:
٦٢۔ترمذی وفات ٢٧٩ ھ کتاب:صحیح ترمذی
٦٣۔النجیرمی وفات ٤٥١ ھ کتاب:اصل مسموعات
٦٤۔ابن حجر وفات ٨٥٢ ھ کتاب:فتح الباری
٦٥۔متقی ھندی وفات ٩٧٥ ھ کتاب:کنز العمال
ن۔اس کے بعد قدرتی بات ہے کہ بعض اوقات سیف کا نام جھوٹ بولنے والوں اور روایت جعل کرنے والوں کے عنوان سے ایسی کتابوں میں آئے جو اس قسم کے اشخاص کی شناخت کے لئے تالیف کی گئی ہیں،جیسے:
٦٦۔عقیلی وفات ٣٢٢ ھ کتاب:الضعفائ
٦٧۔ابن جوزی وفات ٥٩٧ھ کتاب:الموضوعات
٦٨۔سیوطی وفات ٩١١ ھ کتاب:اللئالی المصنوعة
اس کے علاوہ متقدمین ،متاخرین ،مستشرقین اور مغربی اسلام شناسوں کی ہزاروں کتابیں سیف کے جعلیات سے بھری ہیں۔
|