ایک سو پچاس جعلی اصحاب(پہلی جلد)
 

٤۔سیف بن عمر سب سے خطرناک زندیق
حدیث جعل کرنے والے زندیقیوں کی تعداد صرف اتنی ہی نہیں ہے ، جن کا ہم نے ذکر کیا بلکہ جو زندیقی اس کام میں سرگرم عمل تھے ،وہ ان سے کہیں زیادہ ہیں ۔ابن جوزی اپنی کتاب ''الموضوعا ت ''میں لکھتا ہے :
''زندیقی دین اسلام کو خراب اور مسخ کرنے کے در پے تھے اور کوشش میں تھے کہ خدا کے بندوں کے دلوں مین شک و شبہہ پیدا کریں ۔لہٰذا انہوں نے دین کو اپنے ہاتھوں کا کھلونا بنالیا تھا۔''
اس کے بعد ابن ابی العوجاکی داستان بیان کرتے ہوے آخر میں عباسی خلیفہ مہدی کی زبانی یوں نقل کرتا ہے کہ:
''ایک زندیق نے میرے سامنے اعتراف کیا کہ اس نے چار ہزار احادیث جعل کی ہیں جو لوگوں میں ہاتھوںہاتھ پھیل گئی ہیں ۔''
ان ہی زندیقیوں میں سے ایک ،شیخ کی کتاب کواٹھا کے چوری چھپے اس میں موجود احادیث میں تصرف کرکے قلمی خیانت کرتا تھا۔شیخ ان تصرف شدہ احادیث کو۔اس خیال سے کہ صحیح اور درست ہیں شاگردوں میں بیان کرتا تھا ۔اس کے علاوہ حماد ابن زید سے بھی روایت ہے کہ : زندیقیوں نے چار ہزار احادیث جعل کی ہیں ۔
یہ قلمی خیانت سرکاری اور دربار خلافت کی مورد اعتبار کتابوں میں انجام پائی ہے ۔ہم آج تک نہیں جانتے کہ یہ احادیث کیا تھیں اور ان کا کیا ہو ا یہ دربار خلافت کی سرکاری کتابوں میں جو قلمی خیانت ہوئی ہے وہ کس قسم کی ہے !!البتہ سیف جس پر زندیق ہونے کا الزام تھا صرف اس کے بارے میں معلوم ہو سکا کہ اس نے بھی ہزاروں احادیث جعل کی ہیں ،ان پر کسی حد تک دست رس ہونے کے باوجود ہمیں یہ معلوم نہیںکہ ان کی کل تعداد کتنی ہے جب کہ سیکڑوں برس سے یہ احادیث تاریخ اسلام کے مؤثق مصادر و ماخذ کا حصہ شمار ہوتی آئی ہیں ۔
سیف نے ان احادیث کو جعل کرکے تاریخ اسلام کو اپنے راستے سے منحرف کرنے اور جھوٹ کو حقیقت کے طور پرپیش کرنے میں بڑی کامیابی حاصل کی ہے ۔
اگر ابن ابی العوجاء نے صرف چار ہزار احادیث جعل کرکے حلال کو حرام اور حرام کو حلال بنا دیا ہے ،تو سیف بھی اس سلسلے میں اس سے پیچھے نہیں ہے بلکہ اس نے ہزاروں کی تعداد میں احادیث جعل کی ہیں جن میں رسول اللہ ۖکے مومن ترین صحابیوں کو ذلیل ،کمینہ اور بے شرم و بے حیا بنا کر پیش کیا گیا ہے اور اس کے مقابلہ میں ظاہری طور پر اسلام لانے والوں اور بد ترین کذابوں کا تعارف متقی، پرہیز گار اور دیندار کے طورپر کرایا گیا ہے وہ اسلام کی تاریخ میں توہمات سے بھرے افسانے درج کرنے میں کامیاب رہا ہے تاکہ ان کے ذریعہ حقائق کو الٹا پیش کرکے مسلمانوں کے عقائد اور غیر مسلموں کے افکار پر اسلام کے بارے میں منفی اثرات ڈالے ۔
اسلامی عقائد کو مخدوش کرنے کے سلسلے میں سیف اپنے مذکورہ زندیقی دوستوں کے قدم بقدم چلتا نظر آتا ہے جہاں مطیع نے حدیث جعل کرکے عباسی خلیفہ مھدی کی حمایت حاصل کی ،وہاں سیف نے بھی خلفاء اور وقت کے خود سر حکام کی حمایت اور پشت پناہی حاصل کرنے کے لئے ان کی تائید میں اور ان کے مخالفین کو کچلنے کے لئے احادیث جعل کیں ،تاکہ ان کی حمایت و حفا ظت کے تحت اپنی جھوٹی اور جعلی حدیث رائج کرسکے اور ان کے رواج کا سلسلہ آج تک جاری ہے !
سیف کے افکار و کردار پر زندقہ کا خاص اثر ہونے کے علاوہ وہ ہر ممکن طریقہ سے اسلام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے پر تلا ہوا تھا ،خاندانی اور قبیلہ ای تعصبات بھی اس کے احادیث جعل کرنے میں مؤثر تھے یہ آئندہ کے صفحات میں معلوم ہوگا کہ وہ کس قدر شدید طور پر ان خاندانی تعصبات اور طرفداریوں کے اثر میں تھا ایک ایسے قبیلہ کا تعصب کہ خلفاء راشدین سے لے کر بنی امیہ اور بنی عباس تک تمام حکام وقت اسی قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے اور سیف نے اپنی جعل کردہ روایتوں کو رواج دینے کے لئے اسی تعصب کی طاقت سے بھر پور استفادہ کیا ہے ۔
سیف اور اس کے ہمعصر لوگوں پر اس قبیلہ ای تعصب کے اثرات کو بخوبی جاننے کے لئے ہم اگلے صفحات میں اس موضوع پر الگ سے ایک فصل میں قدرے تفصیل سے بحث و تحقیق کرنے پر مجبور ہیں۔

یمانی اور نزاری قبیلوں کے
درمیان شدیدخاندانی تعصبات

واھج نزارا ًو افرجلد تھا واکشف الستر عن مثالبھا
اٹھو!اور نزاریوں کو دشنام دو ان کی چمڑی اتار لو اور ان کے عیب فاش کردو!
یمانی شاعر

وھتک الستر عن ذو ی یمن اولا د قحطان غیر ھا ئبھا
اٹھو !اور یمانیوں کی آبرو لوٹ لو اور قحطان کی اولاد سے ہرگز نہ ڈرو!
نزاری شاعر


تعصب کی بنیاد اور اس کی علامتیں
یمنی ،یعنی عربستان کے جنوب میں رہنے والے قبیلے ،قحطان ،وازد اور سبا کے نام سے مشہور تھے اور جزیرہ ٔ نمائے عرب کے شمال میں آباد قبیلے ،مضر ،نزاد ،معد اور قیس(الف) کے نام سے معروف تھے اور قریش ان ہی میں سے ایک قبیلہ تھا۔ آغاز اسلام سے اور خاص کر رسول خدا ۖکی مدینہ کی طرف ہجرت اور یمانی اور نزار ی خاندانوں کے وہاں جمع ہونے کے بعد سے ہی ان کے افراد کے درمیان فخر و بر تری کے تصادم اور ٹکرائو نظر آتے ہیں۔
اس تاریخ سے پہلے ، مدینہ میں اوس وخزرج نام کے دو قبیلے سکونت کرتے تھے۔یہ دونوں قبیلے ثعلبہ ابن کہلان سبائی یمانی قحطانی کی نسل سے تھے ۔ان دو خاندان کے درمیان سالہا سال جنگ وجدل ،قتل وغارت،خون ریزی اور برادر کشی کاسلسلہ جاری تھا اور وہ ایک لمحہ بھی ایک دوسرے کی دشمنی سے غافل نہیں رہتے تھے ۔پیغمبر اسلام ۖنے مدینہ میں تشریف لانے کے بعد ان دونوں قبیلوں کے درمیان صلح وصفائی کرائی اور چونکہ یہ سب لوگ رسول خدا ۖکی حمایت اور مدد کرتے تھے،اس لئے انہوں نے انصار کالقب پایا۔
شمالی علاقوں کے نزاری قبیلہ سے تعلق رکھنے والے کئی گروہ جو پیغمبر اکرم ۖکے ہمراہ مدینہ ہجرت کر کے آئے تھے وہ مہاجر کہلائے ۔اسلام نے مہاجر وانصار کو آپس میںملایا اور پیغمبر خدا ۖنے بھی ان دو قبیلوں کے افراد کے درمیان عقد اخوت اور بھائی چارے کے بندھن باندھے۔

تعصب کی پہلی علامت
الف)۔ان قبائل کے شجرۂ نسب کے بارے میں کتاب '' جمھرہ نساب العرب''٣١٠۔٣١١،اورکتاب اللباب سمعانی ملاحظہ فرمائیں
دونوں قبیلے ایک مدت تک اطمینان وآرام کے ساتھ ایک دوسرے کااحترام کرتے ہوئے آپس میں زندگی بسر کررہے تھے۔یہاں تک کہ بنی المصطلق کی جنگ پیش آئی اور اس کے ساتھ ہی نزاریوں اور یمانیوں کے درمیان خاندانی تعصبات ،خود پرستی اور خود ستائی کا آغاز ہوا۔
مسئلہ یہ تھا کہ اس جنگ میں جب پانی لانے پر معین افراد ،مریسیع (الف)کے پانی کے منبع پر پہنچے، تو جھجاہ بن مسعور(ب)،جو عمر کے گھوڑے کی لگام پکڑے ہوئے تھا،پانی پر پہنچنے میں سبقت لینے کی غرض سے دھکّم دھکاّ کرتے ہوئے سنان بن وبر جہنی جو قبیلہ خزرج کا طرفدار تھا سے جھگڑپڑے اور نوبت لڑائی تک پہنچ گئی ۔جھجاہ نے چیختے پکارتے بلند آواز میں مہاجرین کے حق میں نعرے لگائے اور ان سے مدد طلب کی ۔سنان نے بھی انصار کے حق میں نعرے بلند کئے اور ان سے امداد کی درخواست کی۔منافقین کا سردار وسرغنہ،عبد اللہ بن ابی سلول خزرجی،یہ ماجرا دیکھ کر مشتعل ہوا موقع کوغنیمت جان کر وہاں پر موجود اپنے قبیلے کے چند افرادکی طرف رخ کرکے کہنے لگا :''آخر کار انہوں نے اپنا کام کرہی دیا وہ ہم پر دھونس بھی جماتے ہوئے ہم پر اپنے ہی وطن میں بالادستی دکھاتے ہیں۔خدا کی قسم !ان بے سہارا قریش کے ساتھ ہماری داستان آستین کا سانپ پالنے کے مانند ہے خدا کی قسم !اگر ہم مدینہ لوٹے تو شریف وباعزت لوگ کمینوں اور ذلیل افراد کو اپنے شہر سے باہر نکال دیں گے''۔پھر اپنے طرفداروں کی طرف رخ کرکے کہا:''یہ مصیبت تم لوگوں نے خود اپنے اوپر مسلط کی ہے۔اپنے شہر کو ان کے اختیار میں دیدیاہے اور اپنے مال ومنال کو ان کے درمیان برادرانہ طور پر تقسیم کیاہے اور اب نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے!خدا کی قسم !اگر تم اپنا مال ومنال انھیں بخشنے سے گریز
الف)۔مدینہ سے ایک دن کی مسافت پر ایک پانی کا سرچشمہ تھا جس کے گرد قبیلہ خزاعہ کے کچھ لوگ زندگی بسر کرتے تھے وہ بنی مصطلق کے نام سے مشہور تھے۔غزوہ بنی مصطلق سنہ ٥یا ٦ ہجری میں واقع ہواہے ۔کتاب ''امتاع الاسماع''ص١٩٥ ملاحظہ ہو۔
ب)۔جھجاہ قبیلہ غفار سے تھا اور اس دن عمر کے پاس بعنوان مزدور کام کررہاتھا ،اسی لئے اس نے مہاجرین سے مدد طلب کی ہے۔ جھجاہ عثمان کے قتل کے بعد فوت ہواہے ۔کتاب ''اسدالغابہ '' ٣٠٩١ ملاحظہ ہو۔
کروگے تو یہ لوگ خود بخود تمھارے وطن سے کہیں اور جانے پر مجبور ہوجائیں گے۔
ان باتوں کے بارے میں پیغمبر اسلام ۖ کو اطلاع دی گئی اور آپ ۖ سے اجازت طلب کی گئی تاکہ عبد اللہ کو قتل کرڈالاجائے۔لیکن آنحضرت ۖ نے موافقت نہیں کی بلکہ آپ ۖنے نرمی ،مہربانی اوحکمت عملی سے مسئلہ کو بخوبی حل کیا۔تدبیر کے طور پر آپ ۖنے فوراً لشکر کو کوچ کرنے کاحکم دیا۔اس دن سپاہی دن رات مسلسل ومتواتر چلتے رہے ۔دوسرے دن جب صبح ہوئی اور سورج چڑھا تو گرمی کی شدت بڑھنے لگی اور سپاہیوں کا گرمی سے دم گھٹنے لگا،قریب تھا کہ سب کے سب تلف ہوجائیں ۔اس وقت آنحضرت ۖ نے رُکنے اور آرام کرنے کاحکم دیا۔ سپاہی اتنے تھک چکے تھے کہ سواری سے اترتے ہی لیٹے اور بے حال ہو کر سوگئے ،اس طرح کسی میں یہ ہمت ہی باقی نہ رہی تھی کہ غرور وتکبر سے بیہودہ گوئی کرے ،اسی وقت آنحضرت ۖپر سورۂ منافقون نازل ہوا جس کی آٹھویں آیت میں فرماتاہے :
''یَقُوْلُوْنَ لَئِنْ رَجَعْنَا اِلٰی الْمَدِیْنَةِ لَیُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْھَا الْاَذَلَّ وَ لِلّٰہِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُوْلِہ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ''(منافقون٨)
''یہ لوگ کہتے ہیں کہ اگر ہم مدینہ واپس آگئے تو ہم صاحبان عزت ،ان ذلیل افراد کو نکال باہر کریں گے،حالانکہ ساری عزت اللہ ،رسول ۖاور صاحبان ایمان
کے لئے ہے''
جب جھجاہ اور انصار کے جوانوں کی داستان کو شاعر حسان بن ثابت انصاری نے سنا ،توغصہ میں آکر مھاجرین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کنایہ اور مذاق اڑانے کے انداز میں اس (مضمون کا)شعر کہا:
''بیہودہ لوگ عزت وشرافت کے مقام پر پہنچے اور برتری پائی اور فریعہ (حسان کی ماں)کابیٹا تنہا وبیکس رہ گیا''۔ ١
صفوان بن معطل نے جب یہ شعر سنا ،تو مہاجرین میں سے ایک شخص کے پاس جاکر کہا:
''خداکی قسم !حسان کے شعر میں میرے اور تمھارے علاوہ کسی کی طرف اشارہ نہیں تھا،وہ ہمارا دل دکھانا چاہتاتھا۔آؤ!تاکہ اسے تلوار سے سبق دیں۔اسے مہاجر نے اس سلسلے میں ہر قسم کے اقدام سے پرہیز کیا۔نتیجہ کے طور پر صفوان ننگی تلوار لہراتے اور للکارتے ہوئے تنہا حسان کی طرف بڑھا اور اسے اس کی خاندان کے افراد کے درمیان حملہ کرکے زخمی کردیااور کہا:
''مجھ سے تلوار کا مزا چکھ ،کیونکہ میں شاعر نہیں ہوں کہ تیری ہجو اور بدگوئی کا شعر میں جواب دوں''
رسول خدا ۖ نے یہاں پر بھی ان دونوں میں صلح وصفائی کرائی اور مسئلہ کو خیریت سے نمٹایا۔ ٢ اور اس طرح مہاجرین قریش اور یمانی انصار کے دوقبیلوں کے در میان فخرو غرور کی بنیادوں پر ایک دوسرے پر سبقت کرنے کی پہلی لڑائی رسول اللہ ۖ کی حکمت عملی سے ختم ہوئی ۔

تعصب کی دوسری علامت
خاندانی تعصب نے دوسری بار رسول خدا ۖ کی رحلت کے بعد سر اٹھایا۔یہ ماجرا اس وقت پیش آیا جب قبیلہ اوس وخزرج کے انصار بنی سقیفہ بنی ساعدہ میں جمع ہوئے اور پیغمبر خدا ۖ کے جنازہ کو تجہیز وتکفین کے بغیرآپ ۖ کے خاندان میں چھوڑ کر خلافت کے انتخاب میں لگ گئے ۔ قبیلہ خزرج کے رئیس ،سعد بن عبادہ نے انصار سے خطاب کرتے ہوئے کہا:
''رسول خدا ۖکے بعد حکومت خود تم لوگ اپنے ہاتھ میں لے لو''۔انصار نے ایک زبان ہوکر بلند آواز میں کہا:''ہم تمھاری تجویز سے اتفاق رکھتے ہیں ،صحیح کہتے ہو،ہم تمھارے نظریہ اور حکم کی مخالفت نہیں کریں گے''۔
جب یہ لوگ اس سلسلہ میں صلاح ومشورہ اور تبادلہ خیال میں مصروف تھے کہ سقیفہ بنی ساعدہ میں انصار کے جمع ہونے کی خبر بعض مھاجرین تک پہنچ گئی تو وہ فوراً انصار کے اجتماع میں پہنچے اور تقریر کرتے ہوئے کہا:
''امراء اور حکام مہاجرین میں سے ہوں اور وزرا ء آپ انصار میں سے''۔
انصار میں سے ایک آدمی اٹھا اور کہا:
''اے انصار کی جماعت !تم لوگ خود زمام حکومت اپنے ہاتھ میں لے لو ،تاکہ لوگ تمھارے سائے میں اور تمھاری حمایت میں آجائیں اور کوئی تم لوگوں سے مخالفت کرنے کی جرأت نہ کرے ۔اور کسی کو یہ طاقت نہ ہو کہ تمھارے حکم کے علاوہ کسی اور کی اطاعت کرے۔تم لوگ طاقت ،توانائی، لشکراور شأن وشوکت کے مالک ہو،اور طاقتور ،مجاہد ،باتجربہ اور محترم ہو۔لو گ تم سے امیدیں باندھے ہوئے ہیں تا کہ دیکھ لیں کہ تم لوگ کیا کر تے ہو ۔تم لوگوں میں اختلاف پیدا نہ ہونا چاہئے،ورنہ تباہ ہوجائوگے اور حکومت تمھارے ہاتھوں سے چلی جائے گی ۔مہاجرین کی بات وہی ہے جو تم لوگوں نے سنی ۔اگر وہ لوگ ہمارے ساتھ اتفاق نہ کریں اور ہماری تجویز کو قبول نہ کریں گے تو ہم اپنے لوگوںمیں سے ایک آدمی کو حاکم منتخب کریں گے اور وہ بھی اپنوں میں سے ایک حاکم کا انتخاب کریں ۔''
اس مہاجر نے یہ تقریر سن کر کہا :
''ایک میان میں ہرگز دو تلواریں نہیں سماسکتی ہیں اور ایک شہر میں دو حاکم امن سے نہیں رہ سکتے ۔اس کے علاوہ خدا کی قسم !عرب آپ لوگوں کی ہرگز اطاعت نہیں کریں گے ،چونکہ ان کا پیغمبر ۖآپ کے خاندان سے تعلق نہیں رکھتا ۔''
انصاری نے اپنے ساتھیوں کی طرف رخ کرکے کہا :
''اے انصار کی جماعت !اپنے ہاتھ محکم رکھو اور مہاجرین کے ہاتھ پر ہر گز بیعت نہ کرو اور اس شخص کی باتوں پر کان نہ دھرو ،کیوں کہ اس طرح حکومت اور فرماں روائی میں تمھارا حق ضائع ہو جائے گا ۔اگر انھوں نے تم لوگوں کی تجویز قبول نہ کی تو انھیں اپنے شہر و دیار سے نکال باہر کرو اور زمام حکومت اپنے ہاتھ میں لے لو کہ خداکی قسم تم لوگ حکومت اورفرماں روائی کے لئے ان سے لائق و شائستہ ہو''
اس کے بعد مہاجرین کی طرف رخ کرکے کہا :
''خدا کی قسم اگر چاہو تو ہم جنگ کو از سر نوشروع کرنے پر آمادہ ہیں ''
اس مہاجر نے جب انصار کی یہ باتیں سنیں تو جواب میں کہا:
''اس صورت میں خدا تجھے قتل کر دے گا!...''
اور انصاری نے فورا جواب میں کہا :'' خدا تجھے قتل کر دے گا!''
اس تلخ گفتگو کے بعد اس مرد مہاجر نے بیعت کے لئے اپنا ہاتھ ابو بکر کی طرف بڑھا دیا ٣ اس کے بعد حضار بھی اس کی بیعت کے لئے آگے بڑھے ۔(الف)
اس طرح حکومت و ریاست کو ہاتھ میں لینے کی انصار کی کوشش ناکام رہی۔ اس واقعہ کے نتیجہ میں یہ دو قبیلے نزاری اور یمانی ایک دوسرے کے خلاف ہجو و بدگوئی پر اتر آئے ۔قریش میں سے ابن ابی عزہ نے اس بارے میں انصار سے مخاطب ہو کر کہا:
''غلط طریقہ سے خلافت کو ہاتھ میں لینے کی کوشش کرنے والوں سے کہہ دو !کہ کسی مخلوق سے آج تک ایسی غلطی سرزد نہیں ہوئی ... ان سے کہہ دو ،کہ خلافت قریش کا حق ہے اور محمد ۖکے خدا کی قسم !کہ اس میں تمھارے لئے کوئی بنیاد و اساس موجود نہیں ہے ''
..............
الف)کیا خلیفہ کے انتخاب میں اتفاق آرا ء اور جمہور کی بیعت اسی کو کہتے ہیں (مترجم)
جب یہ بات گروہ انصار تک پہنچی تو انھوں نے اپنے شاعر نعمان بن عجلان سے اس کے جواب میں شعر کہنے کو کہا ،اور اس نے حسب ذیل ( مضمون کے ) شعرکہے:
''قریش سے کہہ دو کہ تمھارے وطن ،مکہ کو فتح کرنے والے ہم تھے ،ہم جنگ حنین کے سورما اور جنگ بدر کے شہسوار ہیں تم نے کہا ہے کہ سعد بن عبادہ کا خلیفہ بننا حرام ہے لیکن (کہا) ابوبکر جس کا نام عتیق ابن عثمان کا خلیفہ بننا جائز اور حلال ہے !!''
گمراہ اور نادان قریش ایک جگہ جمع ہو کر داد سخن دیتے تھے اور برابر کہتے تھے ۔جب یہ خبر حضرت علی علیہ السلام کو پہنچی تو وہ غصہ کی حالت میں مسجد میں پہنچے اور ایک تقریر کے ضمن میں فرمایا:
''قریش کو یہ جاننا چاہئے کہ انصار کو چاہنا ایمان کی علامت ہے اور اس سے دشمنی نفاق کی نشانی ہے ، انھوں نے اپنی ذمہ داری کو پورا کیا ہے (الف) اور اب تمھاری باری ہے ...''
اس کے بعد اپنے چچا زاد بھائی فضل کی طرف اشارہ کیا کہ شعر کی زبان میں انصار کی حمایت کرے ۔فضل نے حسب ذیل (مضمون کے ) چند شعر کہے:
''انصار تیز تلوار کے مانند ہیں اور جو بھی ان کی تلوار کے نیچے قرار پائے گا وہ ہلاک ہو جائے گا''
اس کے بعد حضرت علی علیہ السلام نے ایک خطبہ پڑھا اور اس کے ضمن میں فرمایا:
''خدا کی قسم انصار جس طرف ہوں میں ان کے ساتھ ہوں ،کیوں کہ رسول خدا ۖ نے فرمایا ہے : ''جہاں کہیں انصار ہوں میں ان کے ساتھ ہوں ''حضار نے ایک زبان ہو کر کہا: خدا آپ پر رحمت نازل کرے ،اے ابو الحسن !آپ نے صحیح فرمایا''
..............
الف)۔ حضرت امیر المومنین علیہ السلام کا مقصود یہ ہے کہ انصارنے پیغمبر اسلام ۖکی نصرت اور دین اسلام کی مدد کی ۔
اس طرح حضرت علی علیہ السلام نے از سر نو بھڑکنے والے فتنے کے شعلوں کو بجھا دیا اور اپنے چچا زاد بھائی رسول خدا ۖکی طرح حکمت عملی اور عقلمندی سے حالات کو پر سکون کیا ۔٤
یہ پہلا قدم تھا جس کے نتیجہ میں ملت اسلامیہ کا اتحاد متفرق ہو کر دو حصوں میں بٹ گیا ۔ان میں سے ایک حصہ مضری خاندان تھا ،جو بنی عباسیوں کے خاتمہ تک خلافت و سلطنت پر قابض رہا اور دوسرا حصہ خاندان یمانی تھا جو ہمیشہ کے لئے خلافت واقتدار سے محروم رکھا گیا۔ان دونوں خاندانوں
کے ساتھ بعض دیگر افراد نے بھی عہد و پیمان باندھ کر اپنے اصلی خاندان اور نسب کو فراموش کرکے خود کو ان ہی خاندانوں میں ضم کر دیا تھا ۔اس کے علاوہ ان خاندانوں میں آزاد ہونے والے غلام بھی مربوطہ خاندان کے غم و شادی میں شریک ہو کر ان کی ایسی طرفداری اور دفاع کرتے تھے جیسے خود ان کی اولاد ہوں ۔دوسری طرف مربوطہ قبیلہ بھی ان کے ساتھ اپنے فرزند وں جیسا سلوک کرتا تھا ۔

عربی ادبیات میں تعصب کا ظہور
مذکورہ دو قبیلوں (مضر و یمانی) میں خود ستائی ،غرور تکبر اور ایک دوسرے کو برا اور کمینہ ثابت کرنے کا سلسلہ نئے سرے سے شروع ہوا ۔رزمیہ ،خودستائی اور ہجو و بد گوئی نے عربی ادبیات کی نثر و نظم پر عجیب اثر ڈالا ۔اس سلسلے میں قبیلہ کے اصل نامور شعراء ،جیسے کمیت و دعبل اور اس سے منسوب شعرا ء جیسے ابونواس اور حسن ہانی قابل ذکر ہیں۔
ایام جاہلیت اور اسلام کے زمانہ میں تمام جزیرہ نمائے عرب میں ان دو قبیلوں کے درمیان خاندان کے سورمائوں اور ان کے نسبتی و قرابتی طرفداروں کی بہادری کو اجاگر کرکے اس پر فخر و مباہات کرنے اور ان کی عظمت اور کارناموں کے گیت گانے کا دور دورہ تھا۔
مسعودی اپنی کتاب '' التنبیہ و الاشراف '' میں لکھتا ہے : (الف)
..............
الف)۔ملاحظہ ہو کتاب '' التنبیہ و الاشراف '' تالیف مسعودی طبع ١٣٥٧ ھ مصر ص٩٤و٩٥
'' معد بن عدنان کا خاندان اپنے آپ کو پارسیوں (ایرانیوں) کے ساتھ ہم نسل و نسب جاننے کے سبب یمنیوں کے خاندان پر فخر و مباہات کرتا تھا ،جریر بن عطیہ نے اس فخر کو شعر کی صوررت میں حسب ذیل (مضمون میں ) بیان کیا ہے :
''ہمارا جد اعلیٰ ابراہیم خلیل ہے تم ہمارے اس فخر سے چشم پوشی نہیں کر سکتے ہو اور ہماری یہ قرابت انتہائی فخر و مباہات کا سبب ہے ہم شیر دل اسحٰق کی اولاد ہیں جو میدان کارزارمیں زرہ کے بجائے لباس مرگ زیب تن کرتے تھے اور خود ستائی کے وقت سپہید ،کسریٰ ،ہرمزان اور قیصر پر فخر کرتے ہیں ،ہمارے اور اسحٰق کی اولاد کے اجداد ایک ہیں اور ہم دونوں کا شجرۂ نسب مقدس پیغمبر اور پاک رہبر تک پہنچتا ہے ۔ ہماری اور پارسیوں (ایرانیوں ) کی نسل ایسے اجداد تک پہنچتی ہے کہ ہمیں اس بات پر کسی قسم کی تشویش نہیں ہے کہ دوسرے قبیلے ہم سے جدا ہوجائیں''
یا اپنے قبیلے کے فخر و مباہات کے بارے میں کہے گئے اشعار میں اسحاق بن سوید عدوی قرشی یوں کہتا ہے :
''اگر قبیلہ قحطان اپنی شرافت و نجابت پر کبھی ناز کرے تو ہمارا فخر و مباہات ان سے بہت بلند ہے ۔کیوں کہ ابتداء میںہم اپنے چچا زاد بھائیوں ،اسحاق کی اولاد کی حکومت کے دوران ان پر فرمان روائی کرتے تھے اور قحطان ہمیشہ ہمارے خدمت گار اور نوکر تھے ہم اور ایرانی ایک ہی نسل اور ایک باپ سے ہیں اور ایسا افتخار ہوتے ہوئے ہمیں کسی قسم کا خوف و تشویش نہیں ہے کہ کوئی ہم سے جدا ہو جائے ''
یا قبیلہ نزار کا ایک شخص یوں کہتا ہے :
'' اسحاق و اسماعیل کی اولاد نے بہت سے قابل افتخار اور عظیم کا رنامے انجام دیئے ہیں ۔ ایرانی اور نزاری نسل کے شہسوار ایک ہی باپ کی عظیم اصیل اور پاک اولاد ہیں '' ٥
مسعودی اپنی کتاب کے صفحہ ٧٦ پر لکھتا ہے :
''یمنی ضحاک کے وجود پر فخر کرتے ہیں اور یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ وہ قبیلہ ازدسے تھا ۔ اسلام میں بھی شعراء نے ضحاک کا نام عزت و احترام سے لیا ہے ، اور ابو نواس حسن ابن ہانی و بنی حکم بن سعد قحطانی کا آزاد کردہ تھا اپنے ایک قصیدہ میں ضحاک کے وجود پر فخر کرتا ہے اور اس کے ساتھ ہی نزار ی قبائل کے تمام افراد کو دشنام اور برا بھلا کہتا ہے ۔ ''
یہ وہی قصیدہ ہے جس کی بنا پر نزاری عباسی خلیفہ ہارون رشید نے اس بے احترامی کے جرم میں ابو نواس کو طولانی مدت کے لئے زندان میں ڈلوا دیا تھا حتٰی کہا جاتا ہے کہ اس سلسلے میں اس پر حد بھی جاری کی تھی۔
بہر حال ،ابو نواس نے اس قصیدہ میں یمنی اور قحطانی سے منسوب ہونے پر فخر کرتے ہوئے ضحاک کو احترام و عظمت کے ساتھ یاد کیا ہے اور اس سلسلے میں کہتا ہے :
'' ناحط کے محلوں کے مالک ہم ہیں اورصنعا کا خوبصورت شہر ہمارا ہے جس کے محرابوں میں مشک کی مہک پھیلتی ہے ۔ضحاک ہم میں سے ہے جس کی پرستش جنات اور پرندے کرتے تھے اٹھو !اور نزار کی اولاد کو دشنام دو اور ان کی ہجو کرو ۔ان کی کھال اتار دو اور ان کے عیبوں کو طشت از بام کردو''
نزاریون کی ایک جماعت ابونواس کے اس قصیدہ کا جواب دینے پر آمادہ ہوتی ہے ۔ان میں سے قبیلہ نزار کے بنی ربیعہ کا ایک آدمی نزار کے مناقب اور اعزازات بیان کرتے ہوئے یمن و یمنیوں کو برا بھلا کہہ کر ان کا مذاق اڑاتا ہے اور ان کے عیبوں سے پردہ اٹھا تے ہوئے کہتا ہے :
'' معدو نزار کی ستائش کرو اور ان کی عظمت پر فخر کرو ۔یمنیوں کی حرمت کو تار تار کردو اور قحطان کی اولاد سے کسی صورت میں تشویش نہ کرو..''

خاندنی تعصبات کی نبا پر ہونے والی خونیں جنگیں
خاندانی تعصبات ،شعر وشاعری ،فخرو مباہات بیان کرنے ،بہادر یاں جتلانے اور خود ستائی وغیرہ تک ہی محدود نہیں رہے ہیں ،بلکہ تاریخ کے سیاہ صفحات اس امر کے گواہ ہیں کہ بعض اوقات خونیں جنگیں بھی اس بنا پر واقع ہوئی ہیں ۔
امویوں کی خلافت کے آخری دنوں میں یہ تعصبات انتہا کو پہنچے اور سر انجام اس حکومت کی نابودی کا سبب بنے ۔
مسعودی اپنی کتاب ''التنبیہ والاشراف ''میں لکھتا ہے :٦
''جب خلافت ولید بن یزید (الف)کے ہاتھ میں آگئی ،اس نے خاندان نزار کو دربار خلافت میں بلا کر ان کی عزت و احترام کیا ۔انھیں بڑے بڑے عہدوں پر تعینات کیا اور یمنیوں کو دربار خلافت سے نکال باہر کرکے ان کے سا تھ سرد مہری دکھائی اور ذلیل وخوار کیا ۔خلیفہ کی سرد مہری کاشکار ہونے والے یمنی بزرگ شخصیتوں میں اس خاندان کا سردار ،خالد قسری(ب)بھی تھا،جو ولید کے خلیفہ بننے سے پہلے عراق کا گورنر تھا ۔ولید نے خالد کو عزل کرکے اس کی جگہ پر عراق کے ڈپٹی کمشنر ، یوسف بن عمر ثقفی (ج) کو گورنر کے عہدہ پر مقررکیا ۔یوسف،خالد کو گرفتار کرکے کوفہ
..............
١لف)۔ولید،عبد الملک کا نواسہ تھا،اس کی ماں ام محمد تھی ،وہ مشہور و معروف شخص حجاج کا بھتیجا تھا ۔ولید، ہشام کی وفات کے روز بدھ کے دن ٦ربیع الاول ١٢٥ھ کو تخت خلافت پر بیٹھا ۔اور جمعرات ١٢٦ھ کو جب جمادی الثانی کے دو دن باقی بچے تھے ،قتل ہوا(جمہرہ انساب العرب ص٨٤ ومروج الذہب )
ب)۔خالد قسری ،عراق، فارس،اہوزاور کرمانشاہ کاگورنر تھا(التنبیہ والاشراف ،مسعودی ص٢٨٠)
ج)۔یوسف ابن عمر ،ہشام کے زمانے میں یمن کا حکمراں تھا،اس کے بعد عراق کاحاکم بنا،اسی لئے ولید نے اسے برقرار رکھا ۔یوسف ولید کے بیٹوں کے ساتھ قتل کیا گیا۔(وفیات الاعیان ابن خلکان ٦٨٦۔١١٠)
لے گیا اور وہاں پر اسے جسمانی اذیتیں پہنچاکر قتل کرڈالا۔
ولید نے اس واقعہ اور خالد کی گرفتاری کے بعد ایک قصیدہ کہا اور اس میں یمنیوں کی سرزنش کی اور انھیں دشنام دیانیز نزاریوں کی تعریف و تمجید کی اور خالد قسری کی نزاریوںکے ہاتھوں گرفتار ی کو بھی اپنے لئے ایک افتخار شمار کرتے ہوئے کہا:
'ہم نے سلطنت اور حکومت کو نزاریوں کی پشت پناہی سے مظبوط اور محکم بنادیا اور اس (الف)اگر یمنی باعزت اور قابل قدر خاندان سے ہوتے تو خالد کے نیک کام اتنی جلدی تمام نہ طرح اپنے دشمنوں کی تنبیہ کی یہ خالد ہے جو ہمارے ہاتھوں گرفتار ہوا ہے اگر یمنی مرد ہوتے تو اس کے بچاؤ کے لئے اٹھتے ہم نے ان کے سرداروں اور رئیسوں کو ذلیل وخوار کرکے رکھ دیا۔
ہوتے وہ اپنے رئیس کو اس طرح قیدی اور عریاں حالت میں نہ چھوڑتے کہ وہ طوق وزنجیر میں بندھا ہوا ہمارے ساتھ چلتا۔ یمنی ہمیشہ ہمارے غلام تھے اور ہم مدام انھیں ذلیل وخوار کرتے تھے''۔ ٧
مسعودی لکھتاہے :
''ولید نے بہت برے ،ناشائستہ اور بیہودہ کام انجام دئے،جس کی وجہ سے لوگ اس سے متنفر اور بیزار ہوگئے ۔یہی چیز باعث بنی کہ اس کے چچا زاد بھائی یزید بن ولید نے ان حالات سے استفادہ کرکے لوگوں کو اس کے خلاف بغاوت کرنے پر اکسایا اور اس کاتختہ الٹ دیا''۔
..............
الف)۔ اس کے بعد شعر کے آخرتک طبری کی روایت کے مطابق ہے ،اس کے علاوہ طبری کادعویٰ ہے کہ ان اشعار کو ایک یمنی شاعر نے ولید کی زبانی کہاہے تا کہ یمینیوں کی شورش کا سبب بنیں ۔ابن اثیر نے بھی طبری کے اس نظریہ کی تائید کی ہے۔(طبری ١٧٨١٢ وابن کثیر ١٠٤٥)
یزید کی اپنے چچیرے بھائی ولید کے خلاف شورش اور تختہ الٹنے کی سازش میں یمنیوں نے یزید کی بھر پور حمایت اور مدد کی اور خلیفہ کے طور پر اس کی بیعت کی۔ (الف)
اس بغاوت میں نہ صرف خود ولید قتل ہوا بلکہ اس کی ولی عہدی کے نامزد دو بیٹے حکم وعثمان بھی مارے گئے ۔ اس کے علاوہ اس کا ایک زبردست اور باوفا طرفدار یعنی یوسف بن عمر بھی دمشق میں قتل کیا گیا۔
اصبغ بن ذوالة الکلبی یمانی (ب)اس واقعہ کے بارے میں اشارہ کرتے ہوئے کہتاہے :
''خاندان نزار ،خاص کر بنی امیہ وبنی ہاشم کے سرداروں اور بزرگوں کو کون یہ خبر دے کہ ہم نے خالد قسری کے قصاص میں خلیفہ ولید کو قتل کردیا اور اس کے جانشین دو بیٹوں کو بھی بے مصرف غلاموں کی مانند کوڑیوں میں بیچ دیا''۔
خلیفہ ابن خلیفہ بجلی یمانی نے بھی اپنے قصیدہ میں یوں کہاہے:
''ہم نے خلیفہ ولید کو خالد کے قصاص میں دروازہ پر لٹکادیا اور اس کی ناک رگڑ کے رکھدی ، لیکن خدا کے حضور سجدہ کے طور پر نہیں !قبیلہ نزار اور معد کے لوگو!اپنی ذلالت، ناکامی اور پستی کا اعتراف کرو کہ ہم نے تمھارے امیرالمؤمنین کو خالد کے قصاص میں مار ڈالا''۔
مسعودی مروج الذہب میں لکھتاہے: ٨
''شاعر کمیت (ج) نے ایک قصیدہ کہاہے ، جس میں اس نے نزار کی اولاد :مضر ،
..............
الف)۔یزید شب جمعہ ١٢٦ ھ کو اس وقت خلافت پر پہنچا ،جب جمادی الثانی کے سات دن باقی بچے تھے اور اول ذی الحجہ ١٢٦ ھ کو اس دنیا سے چلاگیا۔یزید کی خلافت کی مدت ٥ مہینے اور دودن تھی ۔(مروج الذہب ١٥٢٣)
ب)۔ اسبغ ان افراد میں سے تھا جس نے ان شورشوں میں خود حصہ لیاتھا۔(طبری ١٥٩٥٢۔١٩٠٢)
ج)۔ کمیت بن یزید اسدی ،خاندان مضر سے تعلق رکھتاتھا۔بنی امیہ کے زمانے میں زندگی بسر کرتاتھا اس نے عباسیوں کی
خلافت کو نہیں دیکھا ہے۔خاندانی تعصبات کی وجہ سے ایک لمحہ بھی اسے یمنیوں کی ہجو گوئی سے نجات نہیں ملی ہے۔صاحب اغانی ،مذکورہ قصیدہ کے بارے میں لکھتاہے :یہ ٣٠٠ ابیات پر مشتمل تھا اور اس میں اس نے یمنی قبیلہ کے کسی ایک خاندان کو بھی اپنی ہجو وبدگوئی سے معاف نہیں کیا ہے۔(اغانی ٢٤٢١٦و ٢٥٦)
ربیعہ،ایاد اور انمار کی ستائش کی ہے اور ان کے مناقب ،خوبیوں اور افتخارات کو تفصیل سے بیان کرتے ہوئے ایسا ظاہر کیا ہے کہ یہ لوگ متعدد جہات سے قحطانیوں اور یمانیوں پر فضیلت رکھتے ہیں اس کے علاوہ اس نے یمنیوں پر رکیک حملے کرکے انھیں گالیاں دی ہیں''۔
یہ قصیدہ اس امر کا باعث بنا کہ ان دونوں قبیلوں کی دشمنی کی داستانیں زبان زد ہوگئیں ۔اس قصیدہ کے درج ذیل بعض حصوں میں کمیت نے صراحتاً یا کنایتاًحبشہ کی داستان اور یمن پر ان کے تسلط کی طرف اشارہ کیاہے:
''چاند اور آسمان پر موجود ہروہ ستارہ ونورانی نقطہ جس کی طرف ہاتھ اشارہ کرتے ہیں،ہمارا ہے۔خدا نے نزار کی نام گزاری کرکے انھیں مکہ میں رہائش پزیر کرنے کے دن سے ہی فخرو مباہات کو صرف ہماری قسمت قرار دیاہے۔قوی ہیکل بیگانے کبھی نزار کی بیٹیوں کو اپنے عقد میں نہیں لاسکے ہیں،گدھے اور گھوڑی کی آمیزش کی طرح نزار کی بیٹیاں ہرگز سرخ وسیاہ فام مردوں سے ہمبستر نہیں ہوئی ہیں ''۔
مسعودی لکھتاہے:
دعبل ابن علی خزاعی (الف)نے ایک طولانی قصیدہ کے ذریعہ کمیت کوجواب دیاہے اور یمنیوں کے فضائل ومناقب بیان کرتے ہوئے خوب داد سخن د ی ہے،ان کے بادشاہوں اور امیروں کی نیکیاں گنتے ہوئے فخرومباہات کااظہار کیاہے۔اس کے علاوہ کھلم کھلا اور کنایہ کی صورت میں
..............
الف)۔دعبل خزاعی اور اس کے تعصب کے بارے میں ملاحظہ ہو (اغانی ٦٨٢٠۔١٤٥)
نزاریوں کا دل دکھاتے ہوئے کہتاہے :
''زندہ باد ہمارے قبیلوں کے سردار ،زندہ باد !ہمارے شہر۔اگر یہودی تم میں سے ہیں اور اگر تم عجمی ہونے کے سبب ہم پر فخر کرتے ہوتو یہ نہ بھولو کہ خدائے تعالیٰ نے یہودیوں کو بندر اور سور کی شکل میں مسخ کردیاہے اور ان مسخ شدگان کے آثار سرزمین ایلہ،خلیج اور اقیانوس احمر میں موجود ہیں ،کمیت نے جو کچھ اپنے اشعار میں کہاہے،ہم سے خون کاطالب نہیں تھا،لیکن چونکہ ہم نے پیغمبر اسلام ۖکی نصرت کی ہے،اس لئے اس نے ہمارے خلاف ہجو وبدگوئی کی ہے۔خاندان نزار اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہمارا قبیلہ،یعنی انصار پیغمبر خدا ۖ کی مدد کرنے پر فخر ومباہات کرتے ہیں''۔
شاعر کمیت کی بات یمنیوں اور نزاریوں کے درمیان بھر پور انداز میں پھیل گئی اور ہر قبیلہ دوسرے پر اپنے فخرو مباہات جتلاتے ہوئے اپنی بزرگی پر ناز کرتاتھا۔اس طرح لوگ دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئے اور خاندانی تعصبات کی شدت اپنی انتہاء تک پہنچ گئی ۔حتیٰ شہرو دیہات بھی
اس سے محفوظ نہ رہے۔یہ سلسلہ امویوں کے آخری خلیفہ مروان کے زمانہ تک جاری رہا۔
مروان نے اپنے خاندان نزار کو اہمیت دی اور یمنیوں کو نکال باہر کیا اس طرح اس
نے خود اپنی سلطنت کو متزلزل کردیا۔نتیجہ یہ نکلا کہ یمنیوں نے عباسیوں کی دعوت پر لبیک
کہہ کر ان کی مدد کی بنی امیہ کی خلافت سرنگوں ہوگئی اور عباسی اقتدار پر قابض ہوگئے۔اسی
خاندانی تعصبات کا نتیجہ تھا کہ معن بن زائدہ (الف)نے اپنے رشتہ داروں ربیعہ ونزار
کی طرفداری میں یمن کے لوگوں کوخاک و خوں میں غلطاںکردیا اس طرح ربیعہ
..............
الف)۔ معن بن زائدہ شیبانی کو امویوں اور عباسیوں کی طرف سے اقتدار ملا،اور خوارج نے آخر کار سگستان (سجستان)میں ١٥١ ھ یا ١٥٢ ھ یا ١٥٨ ھ میں اسے قتل کردیا۔(وفیات الاعیان ٣٣٢٤)
ویمنیوں کے درمیان اتحاد ویکجہتی کاسالہا سال قبل منعقد شدہ عہدو پیمان (الف) ٹوٹ گیا۔اور اسی خاندانی تعصبات کی بنا پر عقبہ بن سالم نے بحرین اور عمان میں معن بن زائدہ کے اقدامات کے شدید رد عمل کے طور پر خاندان عبد القیس اور ربیعہ کے دوسرے قبائل کاقتل عام کیا۔
جو کچھ بیان ہوا یا جوکچھ باقی رہا یہ سب خونین حوادث نزار اور قحطان کے دوقبیلوں کے در میان خاندانی تعصبات کا نتیجہ تھا۔اور سیف نے اسے اچھی طرح درک کیاتھا اور اپنے طور پر اظہار کرنے پر اتر آیاتھا۔
جن حوادث کا ہم نے ذکر کیاا ن سے معلوم ہوتاہے کہ یہ سبب خونیں جنگیں ،ان بیانات ، شعر گوئی اور قصیدہ گوئی کا نتیجہ تھیں ،جن میں طعنہ زنی ،گالی گلوچ، بے بنیاد نسبتیں، ایک قبیلہ کادوسرے کے خلاف برا بھلا کہنا اور اپنے فخرو مباہات پر ناز کرناتھااور ان تمام موارد کو ایک لفظ یعنی''خاندانی فخرو مباہات''میں خلاصہ کیا جاسکتاہے۔

حدیث سازی میں تعصب کااثر
اگر کوئی شعروادب کے دیوان کا مطالعہ کرے تو اسے اس قسم کے جذبات کا اظہار اور خاندانی تعصبات کے بے شمار نمونے نظر آئیں گے ۔
قبیلہ نزار و قحطان ایک دوسرے کے خلاف خود ستائی اور فخر و مباہات جتانے میں صرف حقیقی افتخارات یا واقعی ننگ و رسوائیوں کو بیان کرنے اور گننے تک ہی محدود نہیں رہے ،بلکہ اس تعصب نے دونوں قبیلوں کے متعصب لوگوں کو اس قدر اندھا بنا دیا تھا کہ ان میں سے بعض افراد اپنے قبیلہ کے حق
میں تاریخی افسانے گڑھنے پراتر آئے حتی انھوں نے احادیث اور اسلامی روایتیں جعل کرنے سے بھی گریز نہیں کیا ۔اور بعض افراد ان افسانوں کو جذباتی تقریروں اور اشعار کا روپ دے کر اپنے دشمن قبیلہ کو نیچا دکھاتے تھے ۔
ان خاندانی تعصبات اور فخر و مباہات کے افسانہ نویسوں ،داستان سازوں ،جھوٹ گڑھنے والوں اور ہوائی قلعے بنانے والوں میں سیف بن عمر تمیمی کی حد تک کوئی نہیں پہنچا ہے ۔ہم اگلی فصل میں اس کے جعل کردہ افسانوں اور احادیث اور ان کے اسلام پر اثرات کے بارے میں بحث و تحقیق کریں گے ۔
..............
الف) ۔ سید رضی ،نہج البلاغہ میں ابن کلبی سے روایت کرتے ہیں کہ امیرالمؤمنین علی ںنے ربیعہ اور یمن کے درمیان ایک عہد نامہ مرقوم فرمایا،جس کاآغاز اس طرح کیاتھا:یہ وہ ضوابط ہیں جو یمن کے رہنے والے شہر نشین اورصحرا نشین اور ربیعہ کے رہنے والے شہر نشیں اور صحرا نشین ....(نہج البلاغہ ج٣ رسالہ ٧٤ ص١٤٨)