مانی اور اس کادین
مانی کون ہے؟
استخرج مانی من ادیان آراء
فلسفیة مختلفة دیناً واحداً عجیباً
''مانی نے مختلف ادیان اور فلسفوں سے ایک نیااور عجیب دین ایجاد کیا''۔
مؤلف
''مانی ''ابن ''بتک'' ٢١٦ع میں بابل کے شہروں میں سے ''رہایکی ''نام کے ایک شہر میں پیدا ہواہے۔
مانی ،جس کے پیر ٹیڑھے تھے ،نقاشی میں انتہائی ماہر اور بہترین خطاط تھا۔اس نے خود ایک خط اور بعض مخصوص لغات اور اصطلاحات ایجاد کئے تھے ،پھر اس نے اپنی تمام تالیف بجز ''سابرقان '' جو اس نے فارسی میں لکھی ہے کو اپنے ایجاد کردہ خط میں سریانی زبان میں لکھا ہے ۔
مانی کا باپ،''بتک''پہلے بت پرست تھا،بعد میں دین ''دیصان '' ٩ قبول کیا مانی اسی دین میں پرورش پائی دین ''دیصان '' نے اس کے افکار پر گہرا اثر ڈالا۔
مانی نے چوبیس ٢٤ سال کی عمر میں پیغمبری کا دعویٰ کیا ١٠ اور مختلف ادیان ،جیسے : زردشتی،ماندائید صابئہ ملسان،ہلینیسم (جو کہ اسکندر کے بعد یونان کا فلسفہ اشراق ہے)بودھ مذہب اور گنوسیزم سے کچھ چیزیں لے کر ایک سانچے میں ڈال کر ایک ایسا عجیب معجون تیار کیا جس میںسے ہر ایک اپنی دلخواہ چیز حاصل کرسکتاتھا،جیسے:پرہیزگاری ،دنیاسے کنارہ کشی،گناہوں کااعتراف،نماز وروزہ جیسی عبادات اوراوراد واذکار وغیرہ....
اس کے علاوہ ہر موضوع ،جیسے :علم ہیئت ،جغرافیہ،علوم طبیعت ،فزیکس،کمسٹری،حیوانات نباتات اور انسانوں کی شناخت ،فرشتوں ،جنات اور دیگر موجودات کی پیدائش ،دنیا کی عمر اور اس کی انتہا کے وقت کے بارے میں ہر مشکل سوال کا توہماتی طریقے سے،عقل ومنطق اور علمی معیار کے خلاف جواب موجود تھا۔
گنوسیزم جو دین مانی کی بنیادی اجزاء کو تشکیل دیتاہے خود ایک خاص دین تھا ،جو ایران اور قدیم یونان کے درمیانی علاقوں کے باشندوں کے اعتقادات اور دین ہلینیسم کی آمیزش سے وجود میں آیا تھا اور بطور خلاصہ عبارت ہے:
دنیا پر حاکم دو بنیادی اصلوں یعنی خیروشر پر ایمان ۔دنیا کے امور پر الٰہی قدرت رکھنے والے سات سیارات پر ایمان۔اور یہ کہ انسان کی روح اشیاء کے حقائق کو پانے ،ترک دنیا اور ازدواج و آمیزش سے پرہیز کرکے بالاخر شرو نجاست کی دنیا سے نجات پاکر خیر وبلندی کی دنیا کی طرف عروج کرسکتی ہے ۔
گنوس بذات خود چند فرقوں میں تقسیم ہوتاہے ،جیسے :گنوس یہودیت اور گنوس مسیحیت ۔ مذہب دیصانیہ ومانی کا پہلا اور اس کے باپ بتک کا دوسرا دین تھا دیصان کے بیٹے کے پیرو اور مرقیونیہ ،مرقیون کے پیرو بھی گنوس مسیحیت کے فرقے ہیں ۔گنوس مسیحیت کے ہر فرقہ کی اپنی ایک مخصوص انجیل ہے ۔اور وہ تمام انجیلوں کو قبول نہیں کرتے ہیں بلکہ ان کی تردید کرتے ہیں (١لف)
روسی مستشرق ''بارتولد''کااعتقاد ہے کہ :''بردسان''(١٥٥۔٢٢٢ع)پہلا سریانی مؤلف تھا،اور اوسا کے مقام زندگی بسر کرتاتھا۔اس نے گنستیزم نام کے بت پرستی کے فلسفہ اور نصرانیت کے در میان ایک قسم کا رابطہ اور ہماہنگی پیدا کی ۔اس سلسلہ میں جن عقائد و نظریات کو ''بردسان '' نے
پیش کیاہے ،انہوں نے مانی کی مانویت کو بہت متاثر کیاہے ۔
ترکیہ کامؤلف ،محمد فؤاد کوبریلی بھی اس موضوع پر لکھی گئی اپنی کتاب کے حاشیہ پر لکھتاہے :
''گنوس معرفت ِاسرار کی بلندترین حد ہے'' (ب)
مانی کا دین
مانی کا مکتب دنیا کی اساس کو دو اصولوں ''نور وظلمت ''اور تین ادوار ماضی ،حال اور مستقبل پر مبنی جانتاہے ۔
ماضی کے دور میں ،نور وظلمت ایک دوسرے سے جدا لیکن ایک دوسرے کے پہلو بپہلو واقع تھے ۔نور اوپر اور ظلمت نیچے اور ہر ایک کا دامن تین اطراف میں پھیلا ہواتھا۔
نور کی دنیا:نظم وضبط ،خوشبختی اور آرام وسکون جیسی تمام نیکیوں کی سرزمین اور ظلمت کی دنیا :تمام برائیوں ،ناپاکیوں ،تشویش وپریشانیوں ،جنگ ومصیبتوں اور بیماریوں کا مرکز ہے ۔
نور کی دنیا پر ''اھورامزدا''کی حکمرانی اور ظلمت وتاریکی کی دنیا پر فرشتہ یا شیطان نام تاریکی کاخدا یا ''اہریمن''حکومت کرتے تھے ۔
ظلمت کی دنیا پانچ طبقوں :کالے بادلوں ،آگ کے خوف ناک شعلوں ،طوفانوں اور
..............
الف)۔''مانی ودین او''(٣٤۔٣٦)
ب)۔تاریخ الحضارة الاسلامیة ،تالیف ف۔بارتولد طبع مصر سال ١٩٤٢ ع ص١١۔١٢
خطرناک بگولوں ،کیچڑ اور بالکل اندھیرے پن پر مشتمل تھی ،ہر طبقہ کی سر پرستی دیو ،شیر ،عقاب و...کی صورت میں ایک شیطان (الف)کے ہاتھ میں تھی ۔
ظلمت کی دنیا کے پانچ طبقوں کو تشکیل دینے والے پانچ عناصر سونا،تانباو... اور پانچ مزے نمکی وتلخی و... تھے۔اور ہر طبقہ ناپاکیوں ،شیطنتوں ،دیؤوں اوردو پا وچار پا وحشی حیوانوں سے بھرا ہواتھا۔
نور کی دنیا کے پانچ طبقے تھے اور ہر طبقہ میں خدا کے اعضاء میں سے ایک عضو ،جیسے:ہوش ،
تفکرو...جو خداکے مظاہر میں قرار پائے تھے ۔نور کی دنیا کا خداوند ایک بادشاہ کے مانند شاہی محل میں جلوہ افروز اور ظلمت کی دنیا کاخدا سور کی شکل میں ناپاکیوں اور کثافتوں کونگلنے میں مشغول تھا۔
ظلمت کی دنیا میں جھگڑے ،دشمنیاں ،جنگ وگریز ، شیاطین کے ایک دوسرے پر مسلسل حملے ،چیر پھاڑ،مار دھاڑ،شور وشر،حیوانیت،شہوت رانی،اوراس قسم کی دوسری نا پاکیاں اور برائیاں نظر آتی ہیں ۔
نور کادرخت :نور کی دنیا ہمیشہ اپنے آپ کو ظلمت کے درخت سے بچا کے رکھتی تھی تاکہ وہ مشتعل ہوکر اس پر حملہ ور نہ ہوجائے ۔بالاخر ظلمت کی دنیا کی تاریکیوں کی وجہ سے جنگ وجدل کا ماحول اس قدر شدید ہوگیا کہ وہ نور کی دنیا کو تہس نہس کرنے پر تل گئے۔اس جنگ وگریز کے ذریعہ عالم بالا یعنی عالم نور تک پہنچ گئے۔عالم بالا کی نورانیت وصفائی وہ دم بخود ہوگئے لہٰذا اس کو اپنی لپیٹ میں لینے کے لئے دیووں اور شیاطین کے لشکرکے ذریعہ عالم نور پر حملہ آور ہوگئے تاکہ اسے فتح کرکے عالم ظلمت میں ضم کرلیں۔
عالم نور کے فرماں رواکے پاس کسی قسم کاجنگی سازو سامان نہیں تھاکہ شیطانوں کامقابلہ
..............
الف)۔ در اصل عربی میں ''اراکنہ ''ذکر ہواہے ۔
کرسکے اور دوسری طرف وہ اپنے طرفدار خداؤں میں سے کسی کو شیاطین سے لڑنے کے لئے بھیجنا بھی نہیں چاہتاتھا۔مجبور ہوکر عالم ظلمت اور ناپاکیوں سے پیکار کے لئے بذات خود آمادہ ہوا۔اس فیصلہ کے نتیجہ میں اس نے پہلی بار کائنات میں ''نہ نہ '' یاحیات وزندگی مطلق کی ماں کے نام سے اپنی تخلیق کو وجود بخشا اور اس نے بھی اپنے طور پر عالم بالا کے پاک ترین جزو یعنی ازلی انسان کی تخلیق کی .
انسان ازلی اپنے فرزندوں :عناصر پنجگانہ ،ہوا،پانی اور روشنی و...کے ہمراہ جن میں سب سے آگے بادشاہ نخشب تھا نیچے اترا اور ناپاکیوں کی دنیامیں ظلمت اور وحشت کے ساتھ نبرد آزما ہوا۔لیکن آخر کار انسان ِازلی نے شکست کھائی اور اس کے بیٹے شیاطین کے ہاتھوں ٹکڑے ٹکڑے ہوئے اور شیاطین نے انھیں نگل لیا۔نور کے ٹکڑوں کو دیو اور شیاطین کے ذریعہ نگل لینے اور ان کے شکم کی تاریکی و ظلمت میں قرار پانے سے نور و ظلمت کی آمیزش وجود میں آئی کہ یہی زمانہ ٔ حال کا دور ہے اس دور کو آزادی کا دور کہا جاتا ہے ،یعنی ظلمت و تاریکی سے نور کی آزادی کا دور عالم نور کے فرماں روانے اپنے اس عمل سے عالم تخلیق میں اپنی پہلی قربانی پیش کی ،اس کی اور اس کے فرزند وں کی یہ قربانی ظلمت کے زندان سے نور کی آزادی کے لئے تھی۔
عالم نور و ظلمت کے درمیان جنگ کا آغاز ہوا ،نور کی یہ کوشش ہے کہ اپنے ٹکڑوں کو ظلمت کے شکم سے آزادی دلائے اور عالم ظلمت یہ چاہتا ہے کہ نور کے ٹکڑے بدستور اس کی ناپاکیوں کے زندان میں باقی رہیں ۔دوسری طرف نور کے خدا نے فرشتوں اور چھوٹے خدا ئوں کو پیدا کرکے ازلی انسان کی مدد کے لئے بھیجا ۔ازلی انسان نے ان فرشتوں اور چھوٹے خدائوں کی مدد سے خود کو ظلمت و تاریکی کے چنگل سے آزاد کیا ،لیکن اس کے بیٹے تاریکی کے شیاطین کے شکم میں بدستور پھنسے رہے ۔
عالم نور نے اپنے نور کے ٹکڑوں کو آزادی دلانے کے لئے اس دنیا کو پیدا کیا ۔اور عالم ظلمت نے بھی نور کے ٹکڑون کو بدستور زندانی بنا کر رکھنے کے لئے ناپاک اوربرے کام انجام دینے شروع کئے اور پہلی بار شیاطین کے سردار وں جنھوںنے ازلی انسان کے بیٹوں کو کھا لیا تھا میں سے دو کو آپس میں ملا دیا اس آمیزش کے نتیجہ میں ابوالبشر آدم پیدا ہوا کہ نور کا ایک بڑا حصہ اس کے اندر قیدی بنا تھا ۔اس کے بعد ان دو شیاطین نے پھر سے آپس میں آمیزش کی اور اس بار حواء (تمام انسانو کی ماں ) اپنے اندر تھوڑے سے نور کے ساتھ پیدا ہوئیں۔
پھر عالم نور کے خدا نے عیسیٰ کو اپنے ایک چھوٹے خدا کے ہمراہ آدم کی مدد کے لئے بھیجا اور اسے رہبانیت سکھائی تاکہ اپنی ہم جنس مادہ یعنی حوا ء سے پرہیز کرے ۔نر دیو (شیطان) نے جب یہ دیکھا تو اس نے اپنی بیٹی حوا سے آمیزش کی ۔اس سے قابیل پیدا ہو ا قابیل نے اپنی والدہ حواء سے ہمبستری کی تو ہابیل پیدا ہوا ،پھر ایک بار اس سے آمیزش کی اس طرح دو بیٹیوں کو جنم دیا ۔اس تمام زادو ولد کے نتیجہ میں عالم نور کے خدا کے ٹکڑوں کے زندان کے اوپر ایک اور زندان بنتا گیا ۔اس طرح آج تک اور جب تک یہ زادو ولدکا سلسلہ جاری ہے ،نور کا حصہ تاریکی کے پیچیدہ زندانوں میں گرفتار ہوتا رہے گا۔
مانی نے تصورات اور توہمات کے ایک طولانی سلسلہ کے ذریعہ انسان ،نباتات ،حیوانات اور ،جمادات کی تخلیق کی کیفیت کے بارے میں اس طرح تصویر کشی کی ہے ۔ملاحظہ ہو:
خدا نے مومنین کی ارواح کو سورج اور نور کی طرف لے جانے کے لئے چاند کو ایک کشتی بنایا ہے تاکہ ان ارواح کو اوپر اور ان کی اصل جگہ کی طرف لے جائے ،مہینہ کے ابتدائی پندرہ دنوں کے دوران یہ کشتی پہلے ہلال کی صورت میں نمودار ہوتی ہے اور پھر رفتہ رفتہ بڑھتی جاتی ہے اور مومنین کی ارواح کو جمع کرتے ہوئے بڑھتے بڑھتے کمال تک پہنچتی ہے ،کیوں کہ اس کشتی کے سورج کی طرف جانے کے راستے میں مسلسل ارواح سوار ہوتی رہتی ہیں ۔نصف ماہ یعنی چودہویں کے چاند کے بعد ارواح مقدس کو حمل کرنے والی یہ کشتی رفتہ رفتہ چھوٹی ہوتی جاتی ہے ۔اس کا سبب یہ ہے کہ سورج کے ساحل پر نورانی بار مسلسل اتر کر عالم نور میں قدم رکھتا ہے اور کشتی رفتہ رفتہ خالی ہوتی جاتی ہے اور ایک کشتی پھر ہلال کی صورت میں دنیا کے ساحل کی طرف لوٹتی ہے ۔ہلال اور چودھویں کے چاند کے اسرار کا یہی مطلب ہے !!
مانی و خود''فارقلیط''ہے کی ماموریت ،نسل انسان کی نجات اور انسان اور سائر موجودات عالم میں تناسل کے ذریعہ ظلمت کے شکم سے اجزائے نور کی آزادی کے لئے وجود میں آئی ہے ،یہ مأموریت عیسیٰ کی اس ماموریت کے مانند ہے جس میں وہ عالم ازلی میں آدم کی نجات کے لئے بھیجے گئے تھے ،تاکہ وہ آدم کو تولید مثل اور حوا سے آمیزش انجام دینے سے روکیں ۔مانی اس امر پر مامور ہے کہ نور و ظلمت کے درمیان آمیزش کو ختم کردے ۔اس آمیزش کا دور بارہ ہزار سال ہے ۔اس مدت میں سے ٢٧١ھ تک گیارہ ہزار اور سات سو سال گزر ے ہیں ١١ ،اب صرف تین سو سال باقی بچے ہیں کہ ٥٣١ھ میں تعلیمات مانی پر عمل در آمد ہونے کے بعد عالم وجود اور نور و ظلمت کی آمیزش کا خاتمہ ہو جائے گا ۔اس تاریخ کے بعد زوال کا دور اور مستقبل کا زمانہ ہے ،یہ وہ دور ہے جس میں ہر چیز اپنی اصل کی طرف پلٹے گی ۔
عالم بالا یعنی عالم نور میں خیر و خوبی سے بھری بہشتیں ہیں اور مومنین کی ارواح ،فرشتے اور چھوٹے چھوٹے خدا ،سب کے سب نعمتوں سے مالا مال ہیں اور نچلی دنیا ،یعنی عالم ظلمت و تاریکی میں بدی ،ناپاکی بیماریاں دیو ،شیاطین اور بد کردار افراد کی ارواح ہمیشہ دردناک عذاب و مصیبت میں مبتلا رہیں گی ۔١٢
دین مانی میں تکوین کے بارے میں پائے جانے والے اسرار کایہ ایک خلاصہ تھا ۔اب ہم دیکھتے ہیں کہ انبیاء کے بارے میں مانی کا نظریہ کیا تھا۔
انبیاء کے بارے میں مانی کا نظریہ
مانی ،موسیٰ اور ان کی تورات پر اعتقاد نہیں رکھتا تھا۔ وہ کہتا تھا کہ ،گوتم بدھ اور زردشت مشرق میں عیسیٰ جو ماہ سے نہیں ہوئے تھے غرب میں پیغمبری پر مبعوث ہوئے ہیں ۔ خود مانی وہی
'' فارقلیط '' ہے ،جس کے ظہور کے بارے میں عیسیٰ نے انسانی معاشرے کو بشارت دی ہے ،اس نے خود عالم وجود کے مرکز بابل میں ظہور کیا ہے اور مأمور ہے کہ ان پیغمبروں کے مقصد اور دین کو آپس میں جمع کر کے تکمیل تک پہنچائے اور اسے دنیا کی تمام زبانوں میں منتقل کرے ۔١٣
پس چوں کہ وہ خود کو عالم بشریت کی راہنمائی کے لئے مبعوث اور اپنے دین کو تمام ادیان کا جانشین جانتا تھا ،لہٰذا خود اس نے اور اس کے جانشینوں نے اس کے افکار و نظریات کو تمام زبانوں میں ترجمہ کرکے تمام عالم بشریت تک پہنچانے کی کوشش کی تاکہ لوگ ان کو سن کر اس کے دین کی طرف مائل ہو جائیں ۔
اسی لئے اس کے پیرو جس ملت میں تبلیغ کا کام انجام دیتے تھے ،اسی قوم اور مذہب کی اصطلاحا ت سے استفادہ کرتے تھے اور اسی زبان و اصطلاحات میں ان سے مخاطب ہوتے تھے ۔مثلا اگر ایک یہودی کو زندیقی مذہب کی طرف دعوت دینا چاہتے تو دین یہود کی اصطلاحات کو اپنے مطالب سے منسلک کرتے تھے تاکہ اس یہودی کے لئے ان کے مطالب سمجھنے میں آسانی ہو اور زندیقی مذہب اس کے لئے قابل قبول ہو جائے جیسے مہینوں اور فرشتوں وغیرہ کے نام ان کی ہی اصطلاحوں میں بیان کرتے تھے ۔
اس لئے جو کتابیں ایرانیوں کے لئے ترجمہ کی گئی ہیں ،ان میں اصطلاحات ،مہینوں کے نام اور پہلوانوں کے نام دین زردشت کے مطابق استعمال کئے گئے ہیں اور ایرانی افسانے بیان کئے گئے ہیں اسی طرح مسیحیوں کے لئے مسیحی اصطلاحات سے پُر،یونانیوں کے لئے ان کے خدائوں کے نام اور اصطلاحات سے سرشار اور چینیوں کے لئے ان کی اصطلاحات اور بودھ مذہب کی تعلیمات میں بات کرتے تھے۔
اسی طرح جب کسی دین سے کسی خدا یا فرشتے کو شامل کیا جاتا تھا،تو اسے اس کے تمام ملازموں اور غلاموں کے ساتھ اس دین میں داخل کیا جاتا تھا۔اس طرح ان اواخر تک چھوٹے بڑے خدائوں اور مذہب مانی میں شیاطین کو دور کرنے کے لئے پڑھے جانے والے اوراد واذکار ،طلسمات اور منتر جنتر کی تعداد بے شمار حد تک بڑھ گئی تھی ۔
یہی امر اور اس کے علاوہ انسانی فطرت سے واضح تضاد، جیسے: لوگوں کو بچے پیدا کرنے سے منع کرنا اور دنیا کو نابودی کی طرف کھینچنا،اس بات کا سبب بنے کہ یہ مذہب اپنی پیدائش اور رظاہر کے ایک ہزار سال گزرنے کے بعد نابود ہوگیا۔
مانی کی شریعت
مانی کی شریعت میں نماز ،روزہ اور گانا یعنی خوش الحانی سے اذکار وغیرہ کاپڑھنا ،پائے جاتے ہیں ۔اور وہ سال میں ایک بار عید مناتے ہیں ۔
ان کی عبادت گاہ پانچ حصوں پر مشتمل ہے۔اس دین میں داخل ہونے کاطریقہ یہ ہے کہ انسان پہلے ازدواج ،شہوت ،گوشت اور شراب سے پرہیز کرکے اپنا امتحان لیتاہے۔اگر اس آزمائش میں کامیاب ہوا تو اس دین کوقبول کرنے کے مرحلہ میں داخل ہوتاہے ۔کوئی شخص حقیقت میں مانی کے دین کوپسند کرتا ہو ،لیکن نفسانی خواہشات پر قابو نا پاسکے ،تو وہ عبادت ورریاضت کواپنے اوپر لازم قرار دینے کے علاوہ دین اور صدیقین کے گروہ کے تحفظ کو اپنے اوپر واجب قرار دیتاہے ۔ایسے افراد کو ''سماعین ''کہاجاتاہے ۔مانی کے اکثر پیرو اسی گروہ سے تعلق رکھتے ہیں کہ اس نے ان پر ایک خاص قسم کی نماز اور روزہ واجب کیا ہے ۔''سماعین ''سے بالاتر رتبہ ''صدیقین ''کاہے۔ان کے لئے ایک خاص قسم کی عبادت معین کی گئی ہے اور ان پر صرف سبزی پر مشتمل ایک دن کے کھانے کے علاوہ کھانا حرام قرار دیاگیاہے ۔وہ ایک لباس ایک سال تک استعمال کرتے ہیں۔ان کے لئے واجب قرار دیا گیاہے کہ ہمیشہ سفر میں رہیں اور وعظ و تبلیغ کرتے رہیں۔
''صدیقین ''سے بالاتر ''قسیسان''کا گروہ ہے ، ان کی تعداد ٣٦٠ افراد پر مشتمل ہے ۔ان میں بالاتر مقام کے حامل ''اسقف ''ہیں جن کی تعداد ٧٢ افراد تک پہنچتی ہے ،ان کے بعد ''معلم '' درجہ ہے اور اس سے اوپر مانی کاخلیفہ ہے اور ان سب کے بالاتر خود ''مانی''قرار پایاہے ۔ ١٥
مانی کاخاتمہ
مانی نے چالیس (الف) سال تک دنیا کے مختلف ممالک ،جیسے ہندوستان ،چین ،اور خراسان کادورہ کیا اوراپنے مذہب کی تبلیغ کی ۔وہ ہر جگہ پر اپنے اصحاب میں سے کسی ایک کوجانشین مقرر کرتاتھا۔
٣١ سال تک ایران کے فرماں رواؤں اور بادشاہوں نے مانی کی حمایت وتائید کی اور یہی سبب بنا کہ اس کا دین اس زمانے میں تمام دنیا میں پھیلا۔آخر کار ایران کے باد شاہ ہرمز کے بیٹے بہرام نے مانی اور اس کے دین کی مخالفت کی اور مانی کو اپنی سلطنت میں تین سال روپوشی کے بعد گرفتار کرکے اس کے خلاف مقدمہ چلایا۔
بہرام نے اس مقدمہ کے دوران اس سے کہا:تم نہ جنگ کرتے ہو اور نہ شکار کے لئے جاتے ہو اور نہ کسی بیمار کو شفا بخشتے ہو ،آخر تم کس کام کے ہو؟ مانی نے جواب میں کہا:میں نے تیرے بہت سے خدمت گاروں کو شیاطین،سحر وجادو کے شر سے نجات دلائی ہے اور بہت سے بیماروں کو شفا بخشی ہے اور بہت سے لوگوں کو موت کے چنگل سے نجات دلائی ہے !
کہتے ہیں ،بہرام نے اس سے کہا:تم ،لوگوں کو عالم وجود کی نابودی کی دعوت دیتے ہو لہٰذا یہی بہتر ہے کہ حکم دیدوں کہ اس سے پہلے کہ دنیا نابود ہو تم اپنی آرزو کو پہنچ جاؤاور تمھیں نابود کر دیاجائے۔
..............
الف)۔ابن ندیم نے کتاب ''الفہرست ''کے صفحہ ٤٥٨میں مانی کی مدت عمل چالیس سال بتائی ہے ،جب کہ مانی نے ٢٤٠ ء میں پیغمبری کادعویٰ کیا اور ٢٧٧ء میں ہلاک ہوا ،اس حساب سے اس کی پیغمبری کے ادعا کازمانہ ٣٨ سال تھا۔
اس کے بعد اس نے حکم دیا کہ اس کے ہاتھ پاؤں اور گردن (الف)زنجیر سے جکڑ کر زندان میں ڈال دیاجائے ۔مانی نے اس حالت میں زندان میں ٢٦ روز تک برداشت کیا اور اس کے
بعد مزید تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ دیا۔مانی کی وفات کی تاریخ ٢٧٧ء لکھی گئی ہے ۔اور کہاجاتاہے کہ وفات کے وقت اس کی عمر ٦٠ سال تھی۔
مانی کے مرنے کے بعد بہرام کے حکم سے اس کا سر تن سے جدا کیا گیا اور اس کی لاش کو شہر کے دروازے پر لٹکا دیاگیا ۔١٦
دین مانی کا پھیلاؤ
مانی کا مذہب چوتھی صدی عیسوی کے بعد دنیا کے مختلف مسیحی نشین علاقوں ،جیسے اسپین،جنوبی فرانس،اٹلی،بلغارستان اور ارمنستان میں پھیلا ۔چودھویں صدی عیسوی تک ان علاقوں میں اس مذہب کے پیرو دکھائی دیتے تھے۔ ٧ ١
یہ مذہب ایران کے مشرقی علاقوں ،ہندوستان ،طخارستان اور بلخ میں پھیلا اور آٹھویں صدی میں مانی کا ایک خلیفہ طخارستان کاحاکم بنا۔
ساتویں صدی عیسوی میں مانی کا مذہب چین میں پھیلا اور تبلیغات کی آزادی اس کے ہاتھ آگئی۔آٹھویں صدی کے اواخر میں مشرقی چین کے بادشاہ نے مانی مذہب اختیار کیا۔لیکن نویں صدی میں اس کا مخالف ہوگیا۔پھر چودھویں صدی عیسوی تک یہ مذہب وہاں پایاجاتارہا۔
مسعودی نے مروج الذہب میں لکھاہے :
''طاقتور ترین اور منظم ترین حکومت جو ٣٣٢ ھ سے ٩٤٣ھ تک ترکیہ میں اقتدار پر تھی وہ حکومت ''کوشان''تھی اور اس کامذہب مانی تھا۔
..............
الف)۔لکھا گیاہے کہ جو زنجیر مانی کے ہاتھ پاؤں اور گردن میں ڈالی گئی تھی ،اس کاوزن ،آج کے زمانہ کے مطابق ٢٥ کلوگرام تھا۔
اسلامی ممالک میں دین مانی :
اسلامی ملک میں خلفاء میں سب سے پہلے جس نے مانی مذہب کی طرف میلان دکھایاوہ ولید دوم ( ١٢٥ ھ۔ ١٢٦ ھ)تھا ١٨ مروان بن محمد ،معروف بہ جعدی (وفات ١٣٢ھ)مانوی مذہب کاپیرو تھا۔اس کا لقب جعدی اس لئے پڑا کہ اس نے اپنے استاد جعد بن درہم سے تربیت وہدایت پائی تھی۔
جب عباسی خلفاء نے زندیقیوں کو قتل عام کرنے کافیصلہ کیا اور ان کی تلاش وجستجو شروع کی ، تومانوی عراق اور مغربی ایران سے بھاگ کر ایران کے مشرق وشمال اور ترکستان کی طرف ہجرت کرگئے ۔
ابن ندیم لکھتاہے :میں معز الدولہ کی حکومت کے زمانے میں تین سو مانویوں کوجانتاتھا کتاب ''الفہرست ''کی تالیف کے وقت ان میں سے صرف پانچ آدمی باقی بچے تھے ۔اس زمانے میں مانویوں نے سغد،بجنک،اور سمرقند کی طرف ہجرت کی۔ ١٩
اب جب کہ زندقہ وزندیقیوں کی تاریخ کا ایک حصہ ہم نے اہل نظر اور محققین کی خدمت میں پیش کیا،تو مناسب ہے سیف کے زمانے میں ان کی کارکردگی اور فعالیت کا بھی کچھ ذکر کریں تاکہ مانی ومانویوں کے مسئلہ پر ہر جہت سے بحث وتحقیق ہوجائے۔
مانویوں کی سرگرمی کازمانہ:
مسعودی نے اپنی کتاب ''مروج الذہب''میں اخبار القاہر اور مھدی عباسی کے سلسلے میں یوں ذکر کیاہے :
جب مانی ،ابن دیصان اور مرقیون کی کتابیں عبد اللہ ابن مقفع اور دیگر لوگوں کے ذریعہ فارسی اور پہلوی زبان سے عربی میں ترجمہ ہوئیں اور اسی طرح اسی زمانے میں ابن ابی العوجائ،حماد عجرد،یحییٰ بن زیاد اور مطیع بن ایاس کے ہاتھوں مذہب مانی ،دیصانیہ اور مرقونیہ کی تائید میں کتابیں تالیف کی گئیں تو ان سرگرمیوں کے نتیجہ میں اس کی حکومت کے زمانے میں مانی کے طرفداروں میں اضافہ ہوا اور ان کے عقائد ونظریات کھل کر سامنے آگئے ۔اس لئے اس نے بھی ان لوگوں کو اور دیگر دین مخالف عناصر کو قتل کرنے میں انتہائی سنجیدہ کوشش کی۔ ٠ ٢
اگلی فصلوں میں ہم ان میں سے چند افراد کاذکر کریں گے۔
مانویوں کے چند نمونے
لعلّی اصادف فی باقی ایامی
زماناًاصیب دلیلا علی ھدیٰ
شائد ہم مستقبل میں حقیقت اور ہدایت کا راستہ پاجائیں گے ۔
عبداللہ ابن المقفع
١۔ عبداللہ بن مقفع
٢۔ابن ابی العوجا
٣۔ مطیع بن ایاس
٤۔ سیف بن عمر
چوں کہ علم رجال کے علماء نے سیف پر زندیقی ہونے کا الزام لگایا ہے ،لہٰذا ہم اس فصل میں بعض ایسے افراد کا جائزہ لیں گے جن پر اسلام میں زندیقی ہونے کا الزام لگایا گیا ہے تاکہ سیف کے ساتھ ان کی ہماہنگ سرگرمی کا پتا چلے ۔
١۔عبداللہ بن مقفع
عبداللہ بن مقفع (١٠٦ ھ ١٤٢ ھ)٢١عبداللہ بن مقفع عباسی خلیفہ منصور کا ہم عصر تھا اس نے ارسطاطالیس وغیرہ کی کتابیں ،جو منطق میں تھیں منصور کے لئے عربی میں ترجمہ کیں ۔ عبداللہ اسلام میں پہلا شخص تھا جس نے ارسطو کی کتابوں کے ترجمہ کا کام شروع کیا ۔اس کے علاوہ اس نے کتاب ''کلیلہ ودمنہ '' اور دوسری کتابوں کا فارسی سے عربی میں ترجمہ کیا ہے اس نے ''الادب الصغیر '' و ''الادب الکبیر '' اور والیتیمہ '' جیسے فصیح و بلیغ رسالہ بھی تحریر کئے ہیں۔
عبداللہ پر زندیق ہونے کا الزام لگایا گیا ،عباسی خلیفہ مھدی کہتا تھا :
''میں نے زندیقیوں کی کوئی ایسی کتاب نہیں دیکھی جو عبداللہ مقفع کی خبر نہ دیتی ہو ''
عبداللہ کے بارے میں ایسی باتیں کہی گئی ہیں لیکن ہم نے جو کچھ کتاب '' کلیلہ و دمنہ '' میں برزویۂ طبیب کے باب میں مشاہدہ کیا اس کے علاوہ کوئی ایسی چیز نہ پائی جو عبداللہ کے زندیقی ہونے پردلالت کرتی ہو محققین کا یہ نظریہ ہے کہ اس کتاب (کلیلہ ودمنہ ) کے برزویہ طبیب کے باب کا خود ابن مقفع کے ہوتھوں برزویہ طبیب کی زبانی لکھا گیا ہے ۔برزویہ طبیب کے باب میں اس طرح آیا ہے:
''میں نے دیکھا کہ لوگوں کے نظریات مختلف ہیں ،اور ان کی خواہشات متناقض ہیں، ایک طائفہ دوسرے پر حملہ کرتا ہے اور اسے دشمن جانتا ہے عیب نکالتا ہے اس کی بات کی مخالفت کرتا ہے ۔ اور دوسرا طائفہ بھی اس کے ساتھ یہی برتائو کرتا ہے ۔جب میں نے ایسا دیکھا تو سمجھ لیا کہ ان لوگوں کے ساتھ ہمسفر نہیں ہو سکتا ....''
پھر کہتا ہے '' پھر میں ادیان کی طرف پلٹ گیا ،اور عدل و انصاف کو ان میں تلاش کرنے لگا ،جس کسی کے پیچھے دوڑا اسے اپنے سوال کے جواب میں بے بس پایا ،یا ان کے جواب کو عقل و شعور کے مطابق نہیں پایا تاکہ میری عقل ان کی پیروی کرنے پر مجبور ہوتی ۔سوچنے لگا کہ اپنے اسلاف کے دین پر باقی رہوں ،دل نے تائید نہ کی اور اس بات کی اجازت نہ دی کہ اپنی عمر کو ادیان کی جستجو میں صرف کروں ۔دوسری طرف میں نے دیکھا کہ موت نزدیک ہے انتہائی فکر و پریشانی میں پڑا ،چوں کہ تردید اور تذبذب کی وجہ سے خوف و ہراس سے دو چار تھا ،سوچا کہ بہتر یہ ہے کہ کراہت سے اجتناب کروں اور اسی چیز پر اکتفا کروں جس کی دل گواہی دے کہ یہ تمام ادیان کے مطابق ہے ،لہٰذا کسی کو مارنے اور ضرب لگانے سے ہاتھ کھینچ لیا ...''
اس کے بعد کہتا ہے : میں نے قبول کیا کہ کسی پر ظلم نہ کروں گا ،بعثت انبیاء ،قیامت اور ثواب و عذاب کا انکار نہ کروں گا اور بد کرداروں سے دوری اختیار کروں گا...''
اس کے بعد کہتا ہے :اس حالت میں میرے دل نے آرام و سکون کا احساس کیا اور حتی المقدور اپنے حال ومال میں اصلاح کی کوشش کی ،اس امید سے کہ شائد اپنی عمر کے باقی دنوں میں ایک فرصت ملے اور راہ کی راہنمائی ،قوت نفس اور کام میں ثبات حاصل ہو جائے میں اسی حالت پر باقی رہا اور بہت سی کتابوں کا ترجمہ کیا۔
مذکورہ نمونہ سے ابن مقفع کا طرز تفکر ہمارے اوپر واضح ہوجاتا ہے دین میں شک ،بظاہر دین زردشت سے اسلام کی طرف مائل ہونے کے باوجود ادیان میں سے کسی ایک کو قبول کرنے میں تردید، اس کے بعد ادیان میں سے اس حصہ کو قبول کرنا جو تمام ادیان میں مشترک اور مورد تصدیق ہو،جیسے آدم کشی سے پرہیز کسی کواذیت و آزار دینے سے اجتناب اور بہت سی کتابوں کا ترجمہ کرنا اور یہ بذات خود ان چیزوں کے صحیح ہونے کا ثبوت ہے جو زندیقیوں کی کتابوں کی نقل کے مطابق اس کی طرف نسبت دی گئی ہے ،اور شائد سر انجام یہی تذبذب اور پریشانی اس کے لئے زندیقیوں کا دین قبول کرنے کا سبب بنی ہو ،تاکہ فلسفہ تکوین سے اپنے ہر سوال کا جواب حاصل کر سکے ، چاہے دنیا سے رو گردانی اور امور کے بارے میں جانکاری بصورت توہمات ہی کیوں نہ حاصل ہو ۔
یہ سب چیزیں عبداللہ کی فطرت و مزاج سے پوری طرح مربوط ہیں کہ وہ کہتا ہے :
'' شائد زندگی کے باقی دنوں میں کوئی اسی فرصت ہاتھ آئے اور مجھے ایک رہبر ملے''
٢۔ابن ابی العوجا
عبد الکریم ابن ابی العوجا ،معن بن زائد ہ شیبانی(الف) کاماموں تھا یہ بصرہ کا ضعیف الاعتقاد ترین فرد اور زندیقی تھا ٢٢ حدیث ،تاریخ اور دینی مناظروں کی بہت ساری کتابوں میں اس کا ذکر آیا ہے من جملہ مجلسی کی بحار الانوار میں اس کے بارے میں یوں لکھا گیا ہے :٢٣
''ابن ابی العوجا ء حسن بصری کے شاگردوں میں سے تھا۔اس نے توحید اور اسلام کی یگانہ بت پرستی سے منہ موڑ لیا تھااعمال حج کا منکر اور اسے بے اعتقادی کی نگاہ سے دیکھنے کے باوجود مکہ گیا ۔چوں کہ وہ بد فطرت اور گستاخ تھا اس لئے علماء میں سے کوئی بھی اس کے ساتھ ہم نشینی اور گفتگو کرنا پسند نہیں کرتا تھا ایک دن اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ حضرت ابو عبداللہ جعفر ابن محمد الصادق کی خدمت میں پہنچا اور بات کرنے کی اجازت چاہی ،لیکن اس شرط کے ساتھ کہ امان میں ہو حضرت نے اسے اجازت دے دی ۔ابن ابی العوجا ء نے مراسم حج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا : کب تک اس خرمن کو اپنے پیروں سے کوٹتے رہیں گے ، اس پتھر سے پناہ حاصل کرتے رہیں گے ،اس بلند و محکم گھر کی پوجا کرتے رہیں گے اور رم خوردہ اونٹ کی طرح اس کے گرد گھومتے رہیں گے ؟ جب کہ کسی صاحب نظر عقلمند نے یہ عمل مقرر نہیں
..............
الف)۔کتاب جمھرة انساب العرب ص٣١٦میں آیا ہے کہ وہ بنی عمرو بن ثعلبہ بن عامر بکری کے قبیلہ سے تعلق رکھتا تھا۔
کیا ہے ،چوںکہ آپ کے باپ اس کام کے بانی تھے اور آپ اس کے اسرار سے واقف ہین لہٰذا جواب دیں ''
حضرت ابو عبداللہ امام جعفر صادق ںنے جواب میں فرمایا: ''بیشک جسے خدا اس کی اپنی گمراہی پر چھوڑ دیتا ہے اور اس کی عقل کی آنکھیں اندھی ہو جاتی ہیں وہ حق کو نا پسنداور بری نظر سے دیکھتا ہے ۔شیطان اس پر غالب آکر اسے ہلاکت و نابودی کے گڑھے میں ایسے پھینک دیتا ہے کہ اس سے بچ نکلنے کا کوئی راستہ باقی نہیں رہتا یہ وہ گھر ہے جس سے خدا ئے تعالیٰ اپنے بندوں کا امتحان لیتا ہے تاکہ مناسک حج انجام دینے سے ان کی اطاعت و فرمانبرداری معلوم ہو جائے اسی لئے انھیں حکم دیا گیا ہے کہ اسکی تکریم و تعظیم کریں اور اس کے دیدار کے لئے آئیں ۔خدا نے اس جگہ کو پیغمبروں کا مرکز اور نماز گزاروں کا قبلہ قرار دیا ہے اور یہ کام خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کا ایک حصہ ہے اور یہ وہ راستہ ہے جو اس کی بخشش و عنایتوں پر منتہی ہوتا ہے اور بیشک خدائے تعالیٰ اس کا سزاوار ہے کہ اس کے فرمان کی اطاعت کی جائے''
ابن ابی العوجاء نے کہا: آپ نے اپنی بات میں خدا کانام لے کر غائب کا حوالہ دیا !
حضرت ںنے جواب میں فرمایا:'' افسوس ہو تم پر !جو ہمیشہ اپنی مخلوق کے ہمراہ حاضر اور شاہد اور اس کی شہ رگ سے زیادہ نزدیک ہو وہ کیسے غائب ہو سکتا ہے ؟!وہ اپنے بندوں کی باتوں کو سنتا ہے ان کی حالت کو محسوس کرتاہے اور ان کے اندرونی اسرار کو جانتاہے ''
ابن ابی العوجاء نے کہا:'' اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہر جگہ موجود ہے ؟ پس جب وہ آسمان پر ہے تو زمین پر کیسے موجود ہو سکتا ہے ؟ اور جب زمین پر ہو تو آسمان پر کیسے ہوسکتاہے؟!
حضرت نے فرمایا: '' تم نے اپنے بیان کردہ و صف سے ایک مخلوق کی بات کی ہے کہ جب وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ پر منتقل ہو جاتا ہے تو اس کی پہلی جگہ خالی ہو جاتی ہے اور دوسری جگہ اس سے پُر ہو جاتی ہے ۔اس وقت وہ نہیں جانتا کہ جس جگہ سے وہ اٹھا تھاوہاں پر اس کے اٹھنے کے بعد کیا گزرا۔لیکن ،عادل اور جزا دینے والے خدا سے کوئی جگہ خالی نہیں ہے اور وہ کسی فضا یا جگہ کو پُر نہیں کرتا اور مکان کے لحاظ سے نزدیکی اور دوری اس کے لئے مصداق ومعنی ٰ نہیں رکھتی ''
اس کے علاوہ بیان کیا گیا ہے کہ ابن ابی العوجا نے ،آتش جہنم میں گرفتار لوگوں کے بارے میں خدا کے اس فرمان:''اگر ان کی کھال جل جائے تو ہم ان پر دوسری کھال چڑھادیں گے تاکہ وہ ہمیشہ عذاب میں رہیں۔''کے بارے میں سوال کیاکہ : ''دوسری کھال کا کیا قصور ہے؟'' (الف)
حضرت نے فرمایا:''افسوس ہوتم پر !دوسری کھال وہی پہلی کھال ہے،جب کہ وہ پہلی کھال نہیں بھی ہے۔''
ابن ابی العوجا نے کہا:''ایک دنیوی مثال سے سمجھا ئیے تاکہ مطلب سمجھنا آسان ہوجائے ''
حضرت نے فرمایا:''کوئی حرج نہیں،جب کوئی شخص کسی کچی اینٹ کو توڑ کر اس کی مٹی کو دوبارہ قالب میں ڈال کر پھر اس سے اینٹ بناتاہے ،تو یہ دوسری اینٹ وہی پہلی اینٹ ہے جب کہ پہلی اینٹ بھی نہیں ہے ۔'' ٢٤
یہ بھی ذکر کیا گیاہے کہ دوسرے سال ابن ابی العوجاء نے مسجد الحرام میں حضرت
..............
الف)۔وَکُلَّمٰا نَضِجَتْ جُلُودُھُمْ بَدَّلْنٰاھُمْ جُلُوداً غَیْرَھٰا لِیَذُوقُوا الْعَذٰابَ (نسائ٥٦)
امام صادق ں سے ملاقات کی ۔حضرت نے اس سے پوچھا:''کون سی چیز تمھارے یہاں آنے کاسبب بنی ہے؟''
اس نے جواب میں کہا:''عادت اور ہم وطنوں کی پیروی ،تاکہ لوگوں کی دیوانگی،سر منڈوانے اور پتھر مارنے سے عبرت حاصل کروں''۔
حضرت نے فرمایا:''کیا ابھی تک گمراہی اور بغاوت پر باقی ہو؟!''
ابن ابی العوجا امام سے کچھ کہنے کے لئے آگے بڑھا ،حضرت نے اپنی ردا کو اس کے ہاتھ سے کھینچتے ہوئے فرمایا:''لاٰجِدٰالَ فِی الْحَجِّ '' (الف)(حج میں جھگڑا ممنوع ہے)۔
اس کے بعد فرمایا:''اگر وہ بات صحیح ہو جوتم کہتے ہو جب کہ ہرگز ایسا نہیں ہے تو ہم دونوں آخرت میں یکساں ہوں گے ۔لیکن اگر وہ صحیح ہو جو ہم کہتے ہیں جب کہ بیشک یہی صحیح ہے تو ہم آخرت میں کامیاب ہوں گے اور تم ہلاک ونابود ہوگے''۔ ٢٥
ایک اور روایت میں یوں آیا ہے:ایک دفعہ ابن ابی العوجا اور اس کے تین ساتھیوں نے مکہ میں آپس میں ایک منصوبہ بنایا کہ قرآن مجید کی مخالفت کریں۔ہر ایک نے قرآن مجید کے ایک حصہ کی ذمہ داری لے لی کہ اس کے مثل عبارت بنائیں گے۔
دوسرے سال چاروں آدمی مقام ابراہیم کے پاس جمع ہوئے۔ان میں سے ایک نے کہاکہ''جب میں قرآن مجید کی اس آیت پر پہنچا ،جہاں کہاگیاہے: یٰا أَرْضُ ابْلِعِی مٰائَکِ وَیٰا سَمٰائُ أَقْلِعِی وَغِیضَ الْمٰائُ وَقَضَی الْاَمْرُ (ب) ''اے زمین اپنے پانی کو نگل لے اور اے آسمان اپنے پانی کو روک لے اور پانی زمین میں
..............
الف)۔ بقرہ ١٩٧
ب)۔ ہود٤٤
جذب ہو گیااور خدا کا حکم انجام پاگیا''تومیں نے دیکھا کہ یہ ایسا کلام نہیں ہے جس سے مقابلہ کیا جاسکے ، لہٰذا میں نے قرآن سے مقابلہ کرنے کاارادہ ترک کردیا''
دوسرے نے کہا:جب میں اس آیت پر پہنچا: '' فَلَمّٰا اسْتَیْئَسُوا مِنْہُ خَلَصُوا نَجِیّٰاً''(الف)''پس جب وہ لوگ اس سے مایوس ہوگئے تو اسے چھوڑکر چلے گئے '' تو میں قرآن سے مقابلہ کرنے سے ناامید ہوا۔
وہ یہ باتیں اسرار کے طور پر چپکے چپکے ایک دوسرے سے کررہے تھے کہ اسی اثناء میں حضرت امام صادق ںنے ان کے نزدیک سے گزرتے ہوئے قرآن مجید کی درج ذیل آیت کی تلاوت فرمائی:
''قُلْ لَئِنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلیٰ أَنْ یَأْتُوا بِمِثْلِ ھٰذٰا الْقُرْآنِ لاٰیَأْتُونَ بِمِثْلِہِ ''(ب)''آپ کہہ دیجئے کہ اگر انسان اور جنات سب اس بات پر متفق ہوجائیں کہ اس قرآن کا مثل لے آئیں تو بھی نہیں لاسکتے''
انہوں نے سر اٹھاکے حضرت کو دیکھا اور قرآن مجید کی آیت میں حضرت کی زبانی اپنے اسرار فاش ہوتے دیکھ کر انتہائی تعجب وحیرت میں پڑگئے۔ ٢٦
مفضل بن عمر کہتاہے :''میں نے مسجد النبی ۖمیں ایک شخص کو ابن ابی العوجا سے یہ کہتے ہوئے سنا :''عقلمندوں نے محمد ۖ کی اطاعت کرتے ہوئے ان کی دعوت قبول کی،اور اذان میں ان کا نام خدا کے نام کے ساتھ قرار پایاہے''۔ابن ابی العوجاء نے جواب میں کہا:''محمدۖ کے بارے میں بات کو مختصر کرو،میری عقل ان کے بارے میں پریشان ہے ۔اور ایسی کسی اصل کو بیان کرو جسے محمدۖلائے ہوں'' ٢٧
..............
الف)۔یوسف ٨٠
ب)۔بنی اسرائیل٨٨
ابن ابی العوجاء کی گفتگو اور مناظروں کے یہ چند نمونے تھے ۔
اس کی زندگی کے حالات کے بارے میں کتاب ''لسان المیزان''میں آیاہے: ٢٨
''وہ بصرہ کارہنے والاتھا۔دوگانہ پرستی کے عقیدہ سے دوچار ہوا۔بوڑھوں اور جوانوں کو دھوکہ دے کر گمراہ کرتاتھا۔اس لئے عمرو بن عبید نے اسے دھمکایا وہ ان دھمکیوں کی وجہ سے کوفہ کی طرف بھاگ گیا۔کوفہ کے گورنر محمد سلیمان نے اسے پکڑکر قتل کرڈالا اور اس کے جسد کو سولی پر لٹکادیا''۔
اس کی گرفتاری اور قتل کے واقعہ کو طبری نے ١٥٥ہجری کے حوادث کے طور پر یوں بیان کیاہے:
''کوفہ کے گورنر محمد بن سلیمان نے عبد الکریم بن ابی العوجاء کو زندیقی ہونے کے الزام میں گرفتار کرکے زندان میں ڈال دیا ۔بہت سے لوگوں نے منصور کے پاس جا کر اس کی شفاعت کی ،جس نے بھی اس سلسلے میں کوئی قدم اٹھایا اور بات کی وہ خود زندیقی ہونے کا ملزم ٹھہرا ۔منصور نے مجبور ہوکر کوفہ کے گورنر کو لکھا کہ خلیفہ کا قطعی حکم صادر ہونے تک ابن ابی العوجاء کے ساتھ کچھ نہ کرے اور اس کے معاملہ میں دخل نہ دے ،ایسا لگتا ہے کہ ابن ابی العوجاء اپنے طرفداروں کے اقدامات سے با خبر تھا لہٰذا اس نے خلیفہ کے خط کے پہنچنے سے پہلے گورنر سے تین دن کی مہلت مانگی اور ایک لاکھ دینار بطور رشوت دینے کا وعدہ بھی کیا ۔ جب یہ درخواست اور تجویز گورنر کو ملی تو اس نے خلیفہ کا خط پہچنے سے پہلے ہی اس کے قتل کا حکم دے دیا جب ابن ابی العوجاء کو اپنی موت کے بارے میںیقین ہو گیا تو اس نے کہا : خدا کی قسم تم مجھے قتل کر رہے ہو لیکن جان لو کہ میں نے چار ہزار احادیث جعل کی ہیں اور انھیں تمھارے درمیان منتشر کر دیا ہے اور ان کے ذریعہ حلال کو حرام ،اور حرام کو حلال کر دیا ہے ۔خدا کی قسم میں نے تم لوگوں کو مجبور کر دیا ہے کہ جس دن روزہ رکھتے تھے افطار کرو اور جس دن افطار کرتے تھے روزہ رکھو''٢٩
کاش !مجھے معلوم ہوتا کہ جن احادیث کو اس زندیق نے جعل کیا ہے ،کون سی احادیث ہیں ، ان کی روئیداد کیا ہے اور وہ کن کتابوں میں درج کی گئی ہیں ۔اگر اس زندیق نے اپنی زندگی سے نا امید ہوتے وقت اعتراف کیا ہے ،کہ اس نے چار ہزار احادیث جعل کی ہیں جن کے ذریعہ اس نے حلال کو حرام اور حرام کو حلال کیا ہے ،تو دیگر غیر معروف زندیقیوں کے ذریعہ جعل اور مکتب خلفاء کی مورد اعتماد کتابوں میں درج ہونے والی احادیث کی تعداد کتنی ہوگی؟
٣۔مطیع ابن ایاس
ابو سلمی مطیع ابن ایاس (الف)اموی اور عباسی دور کے شعراء میں سے تھا ۔وہ کوفہ میں پیدا ہوا تھا اور وہیں پرورش پائی تھی۔مطیع ایک ظریف طبع، بد فطرت اور بے حیا شاعرتھا۔ وہ اپنے اشعار میں اپنے باپ کو بے حیائی کے ساتھ بر ابھلا کہہ کر اس کا مضحکہ اڑاتا تھا ، اس لئے اس کے باپ نے اسے ملعون اور عاق کر دیا تھا۔٣٠
مطیع نے اپنی شہرت کے آغاز میں اموی خلیفہ عمر ابن یزید ابن عبد الملک کی خدمت میں حاضر ہوکر اس کی مدح سرائی کی اور اپنے آپ کو اس کے ہاں معزز بناکر دس ہزار درہم کا انعام حاصل کیا.عمر نے اس کا تعارف اپنے بھائی ولید بن عبد الملک سے کرایا۔مطیع نے ولید کے حضوراس کی مدح میں تین شعر پڑھ کر سنائے اور ولید وجد میں آگیا اور اس کی پاداش میں اس نے مطیع کو ایک ہفتہ تک
..............
الف)۔اس کا باپ ابو قراعہ ،ایاس بن سلمی کنانی ،فلسطین کا رہنے والاتھا ،عبدالملک ابن مروان نے ابو قراعہ کو چند لوگوں کے ہمراہ حجاج بن یوسف ثقفی کی مدد کے لئے کوفہ بھیجا ۔ابو قراعہ نے کوفہ میں ہی رہائش اختیار کی اور وہاں پر ام مطیع سے شادی کی ( ملاحظہ ہو '' اغانی'' ج١٢ص٨٦ ؛اور تاریخ بغداد تالیف خطیب ج٣ص٢٢٣و٢٢٤)
اپنی می نوشی کی محفل میں اپنا ہم نشین بنایا.اس کے بعد اس کے لئے بیت المال سے ایک دائمی وظیفہ مقرر کیا. اس طرح اموی خلافت کے دربار میں مطیع نے راہ پائی اور حکومت کے ارکان اور اہل کاروں کا ہمدم بن گیا۔
مطیع،یحییٰ بن زیاد حارثی،(الف)ابن مقفّع اور والبہ آپس میں جگری دوست تھے اور دوسرے سے جدا نہیں ہوتے تھے حتیٰ وہ ایک دوسرے کی ہر قسم کی خواہش کو پوری کرنے میں کسی قسم کی دریغ نہیں کرتے تھے۔اور ان سب پر مانوی مذہب کے پیرو کار اور زندیقی ہونے کا الزام تھا۔ ٣١
بنی امیہ کے خاتمہ اور عباسی خلافت کے آغاز میں مطیع، عبد اللہ ابن معاویہ(ب) سے جاملا۔ اس وقت عبد اللہ ایران کے مغربی علاقوں کا حاکم تھا، مطیع اس کا ہمدم اور ہم نشین بن گیا۔عبد اللہ اور اس کی پولیس کے افسر جو ایک دہریہ اور منکر خدا تھا کے ساتھ مطیع کی اس ہم نشینی اور دوستی کے بہت سے قصے موجود ہیں۔
عباسیوں کی حکومت میں مطیع ، پہلے منصور کے بیٹے جعفر کا ہم نشین بنا. چونکہ منصور نے اپنے بھائی مہدی کی جانشینی کے لئے لوگوں سے بیعت لے لی تھے. اس لئے جعفر اپنے باپ سے ناراض تھا. جشن بیعت کے دن بہت سے مقررین اور شعرا نے اپنے بیانات اور اشعار پڑھ کے داد سخن حاصل کی. مطیع بھی اس محفل میں حاضر تھا، اس نے بھی اس مناسبت سے شعر پڑھے، اپنے اشعار کے اختتام پر مطیع نے منصور کی طرف رخ کرکے کہا: اے امیر المومنین ! فلاں نے فلاں سے ....ہمارے لئے رسول خدا ۖسے نقل کیا ہے کہ آنحضرت ۖنے فرمایا:''مہدی موعود، محمد ابن عبد اللہ ہے کہ اس کی والدہ ہم میں نہیں ہے، وہ روی زمین کو اس طرح عدل و انصاف سے بھر دے گا، جیسے وہ ظلم و جور سے بھری
..............
الف): کہا جاتا ہے کہ یحییٰ ، عباسیوں کے پہلے خلیفہ ابو العباس سفاح کا ماموں زاد بھائی تھا۔ یحییٰ ایک بد کار اور بیہودہ شاعر تھا۔
ب): عبد اللہ بن معاویہ ، جعفر ابن ابیطالب کا بیٹا تھا جو اصفہان ، قم، نہاوند اور ایران کے دیگر مغربی شہروں کا حاکم تھا۔ وہ اور اس کی پولیس کا افسر ، قیس بن عیلان ،لوگوں کے ساتھ بُرا سلوک کرتے تھے (اغانی،ج١٢،ص٧٥۔٨٥)
ہوگی، اور یہ آپ کا بھائی عباس بن محمد بھی اس بات کا گواہ ہے''.(الف) اس کے فورا بعد عباس کی طرف رخ کرکے کہا: ''میں تمہیں خدا کی قسم دیتا ہوں کہ کیا تم نے بھی یہ بات نہیں سنی ہے؟'' عباس نے منصور کے ڈر سے ہاں کہہ دی اس تقریر کے بعد منصور نے لوگوں کو حکم دیا کہ مہدی کی بیعت کریں۔ جب محفل بر خواست ہوئی تو عباس نے کہا: ''دیکھا تم لوگوں نے کہ اس زندیق نے پیغمبر خداۖ پر جھوٹ اور تہمت باندھی اور صرف اسی پر اکتفا نہین کی بلکہ مجھے بھی گواہی دینے پر مجبور کیا، میں نے ڈرکے مارے گواہی دیدی اور جانتا ہوں جس کسی نے میری گواہی سنی ہوگی ، وہ مجھے جھوٹا سمجھے گا''۔ جب یہ خبر جعفر کو پہنچی تو وہ آگ بگولا ہوگیا. جعفر ایک بے شرم اور شراب خوار شخص تھا۔ ٣٢
چونکہ مطیع کا زندیقی ہونا زبان زد خاص و عام تھا، اس لئے عباسی خلیفہ منصوریہ پسند نہیں کرتا
کہ اس کا بیٹاجعفر ، مطیع کا ہمدم اور ہم نشین بنے.لہٰذا ایک دن منصور نے مطیع کو اپنے پاس بلاکر اس سے کہا : کیا تم اس پر تلے ہو کہ اپنی ہم نشینی سے جعفر کو فاسد اور بد کار بناؤاور اسے اپنے مذہب ، یعنی زندیقیت کی تعلیم دو؟! ''
مطیع نے جواب میں کہا: ''نہیں ، خلیفہ !ایسا نہیں ہے.آپ کا فرزند ، جعفر اپنے زعم میں جنیوں کی بیٹی کا عاشق ہوگیا ہے۔ اس لئے اس سے شادی کرنے کے لئے اصرار کر رہا ہے اور اپنے مقصد تک پہنچنے کے لئے تعویض نویسوں اور رمّالوں کو اپنے گرد جمع کر رکھا ہے اور وہ بھی اس اہم مسئلہ کے لئے سخت کوشش میں ہیں، اس حساب سے جعفر کے ذہن میں کفر و دین، مذاق و سنجیدگی جیسی چیزوں کے لئے کوئی جگہ ہی نہیں رہ گئی ہے کہ میں اسے فاسد بناؤں''
منصور چند لمحوں کے لئے سوچ میں ڈوب گیا، اس کے بعد بولا:'' اگر یہ بات سچ ہے جو تم کہہ رہے ہو تو جتنی جلد ہو سکے اس کے پاس واپس جائو اور اپنی ہو شیاری ،نگرانی ،اور ہم نشینی سے جعفر کو
..............
ب):اس طرح مطیع نے ایک حدیث جعل کی تا کہ ثابت کرے کہ منصور عباسی کا بیٹا محمد ، وہی اسلام کا مہدی موعود ہے.
اس سے روکو''٣٣
حماد عجرد اور اس کی معشوقہ نیز یحیٰ بن زیاد اور اس کی معشوقہ کے ساتھ مطیع کی بہت سی داستانیں مشہور ہیں اس کے اکثر اشعار گانے والی عورتوں کے بارے میں ہیں ٣٤ ان میں سے وہ ''جوہر'' نام کی ایک مغنیہ کے بارے میں کہتا ہے:
''نہیں !خدا کی قسم مھدی کو ن ہے وہ تو تیرے ہوتے ہوئے مسند خلافت پر بیٹھے ؟ اگر تو چاہے تو منصور کے بیٹے کو خلافت سے اتار نا تیرے لئے آسان ہے ''
جب مطیع کا یہ شعر خلیفہ عباسی مھدی کو سنایا گیا ،تو اس نے ہنس کر کہا: ''خدا اس پر لعنت کرے ! جتنی جلد ممکن ہو سکے ان دونوں کو آپس میں ملا دو ،اس سے پہلے کہ یہ فاحشہ مجھے تخت خلافت سے اتاردے ''٣٥
کتاب ''اغانی'' کے مؤلف نے مطیع کی بیہودگیوں اور بے حیائیوں کی بہت ساری داستانیں نقل کی ہیں من جملہ یہ کہ :
'' ایک دفعہ یحیٰ،(الف) مطیع اور ان کے دوسرے دوست ایک جگہ جمع ہو کر مسلسل چند روز تک شراب نوشی میں مشغول رہے ۔ایک رات یحیٰ نے اپنے دوستوں سے کہا: افسوس ہو تم پر !ہم نے تین دن سے نماز نہیں پڑھی ہے اٹھو تماز پڑھیں ،مطیع نے محفل میں حاضر مغنیہ سے کہا تو سامنے کھڑی ہو جااور ہماری امامت کر ،یہ عورت صرف ایک نازک باریک اور خوشبو دار اندرونی لباس پہنے ہوئے تھی اور نیچے شلوار بھی نہیں پہنے تھی ان کے سامنے امامت کے لئے کھڑی ہو گئی اور جب وہ سجدے میں گئی ...مطیع نے نماز کو توڑ کر بے حیائی سے بھر پور چند شعر پڑھے ،جن کو سن کر سبوں نے اپنی نماز
..............
الف)۔یحیٰ بن زیاد حارثی منصور کا ماموں تھا اور بنی الحرث بن کعب میں سے تھا ،اغانی ١٤٥١١۔اور مھدی کی سفارش پر منصور نے اسے اہواز کے علاقوں کا گورنر منصوب کیا تھا۔اغانی ٨٨١٣
توڑ دی اور ہنستے ہوئے پھر سے شراب پینے میں مشغول ہو گئے'' ٣٦
مطیع نے ایک تاجر جو کوفہ میں اس کا دوست بن گیا تھا کو فاسد اور گمراہ بنا دیا تھا ۔ ایک دن یہ تاجر مطیع سے ملا اور مطیع نے اس سے کہا : اس کا دستر خوان شراب اور مختلف کھانوں سے پر اور آمادہ ہے اس کے بعد اسے دعوت دی کہ ان کی محفل میں شرکت کرے اس شرط پر کہ خدا کے فرشتوں کو پرا بھلا کہے !چوں کہ اس تاجر کے دل میں تھو.ڑی سی دینداری موجود تھی اس لئے اس نے جواب میں کہا : خدا تم لوگوں کو اس عیش و عشرت سے محروم کرے !تم نے مجھے ذلت و رسوائی میں پھنسا دیا ہے ۔یہ کہہ کر یہ تاجر مطیع سے دور ہو گیا راستے میں حماد سے اس کی ملاقات ہوئی تاجر نے مطیع کی داستان اسے سنادی ۔حماد نے جواب میںکہا: مطیع نے اچھا کام نہیں کیا ہے جس کا مطیع نے تجھ سے وعدہ کیا تھا میں اس سے دوبرابر نعمتوں سے مالا مال دسترخوان سجا کر تجھے دعوت دیتا ہوں لیکن اس شرط
پر کہ خدا کے پیغمبروں کو دشنام دو کیوں کہ فرشتوں کا کوئی قصور نہیں ہے کہ ہم انھیں دشنام دیں بلکہ یہ پیغمبر ہیں جنھوں نے ہمیں مشکل اور سخت کام پر مجبور کیا ہے !تاجر اس پر بھی برہم ہوا اور اس پر نفرین کر
کے چلا گیا اور یحیٰ بن زیاد کے پاس پہنچا اس سے بھی وہی کچھ سناجو مطیع اور حماد سے سنا تھا اس لئے تاجر نے اس پر بھی لعنت بھیجی ۔
بالآخر تینوں افراد نے اس تاجر کو کسی قید وشرط کے بغیر اپنی شراب نوشی کی بزم میں کھینچ لیا سب ایک ساتھ بیٹھے ۔شراب پینے میں مشغول ہوئے ۔تاجر نے ظہر وعصر کی نماز پڑھی جب تاجر پر شراب نے پورا اثر کرلیا تو مطیع نے اس سے کہا :فرشتوں کو گالیاں دو ورنہ ہماری بزم سے چلے جاؤ تاجر نے قبول کیا اور فرشتوں کو گالیا دیں،پھر یحیٰ نے اس سے کہا: پیغمبروں کو گالیاں دو ورنہ یہاں سے چلے جائو اس نے اطاعت کرتے ہوئے پیغمبروں کو بھی گالیاں دیں ۔اس کے بعد اس سے کہا گیا کہ:اب تمھیں نماز بھی چھوڑنا پڑے گی ورنہ یہاں سے چلے جانا پڑے گا ۔تاجر نے جواب میں کہا : اے حرام زادو !اب میں نماز بھی نہیں پڑھوں گا اور یہاں سے بھی نہیں جائوں گا اس کے بعد جو کچھ اس سے کہا گیا اس نے اسے انجام دیا۔٣٧
ایک دن مطیع نے یحیٰ کو خط لکھا اور اسے دعوت دی کہ اس کی بزم شراب نوشی میں شرکت کرے ۔کہتے ہیں کہ اس روز عرفہ تھا وہ لوگ روز عرفہ اور شب عید صبح ہونے تک شراب پینے میں مشغول رہے ،اور عید قربان کے دن مطیع نے حسب ذیل (مضمون )اشعار پڑھے :
'' ہم نے عید قربان کی شب مئے نوشی میں گزاری جب کہ ہمارا ساقی یزید تھا ۔ہم نشینوں اور ہم پیالوں نے آپس میں جنسی فعل انجام دیا اور ایک دوسرے پر اکتفا کی اور...وہ ایک دوسرے کے لئے مشک وعود جیسی خوشبو تھے ''(الف)
بے شرمی اور بے حیائی کے یہ اشعار لوگوں میں منتشر ہوئے اور آخر کار سینہ بہ سینہ عباسی خلیفہ مہدی تک پہنچے ،لیکن اس نے کسی قسم کا رد عمل نہیں دکھایا۔
اسی طرح اس نے درج ذیل اشعار (مضمون ) کے ذریعہ عوف بن زیاد کو اپنی مئے گساری کی بزم میں دعوت دی ہے : اگر فساد و بد کاری چاہتے ہو تو ہمای بزم میں موجود ہے ...''٣٨
ایک سال مطیع اور یحیٰ نے حج پر جانے کا ارادہ کیا اور کاروان کے ساتھ نکلے راستہ میں زرارہ کے کلیسا کے پاس پہنچے تو اپنا ساز و سامان کا روان کے ساتھ آگے بھیج دیا اور خود شراب نوشی کے لئے کلیسا میں داخل ہو گئے تاکہ دوسرے دن کاروان اوراپنے سازوسامان سے جا ملیں گے لیکن وہ مئے
نوشی میں اتنے مست ہوئے کہ ہوش آنے پر پتا چلا کہ حجاج مکہ سے واپس آرہے ہیں !اس لئے حاجیوں کی طرح اپنے سرمنڈواکر اونٹوں پر سوار ہو کر کاروان کے ہمراہ اپنے شہر کی طرف لوٹے۔
اس قضیہ سے متعلق مطیع نے یہ اشعار کہے ہیں:
''تم نے نہیں دیکھا : میں اور یحییٰ حج پر گئے ،وہ حج جس کی انجام دہی بہترین تجارت
..............
الف)۔ہم نے مطیع سے انتہائی نفرت کے باوجود ان مطالب کا اس لئے ذکر کیا ہے کہ ان چیزوں کو واضح کئے بغیر سیف کے ماحول اور اس کی سرگرمیوں کو پوری طرح سمجھنا ممکن نہیں ہے ۔
ہے ہم خیر و نیکی کے لئے گھر سے نکلے ،راستہ میں زرارہ کے کلیسا کی طرف سے ہمارا گزر ہوا ۔لوگ حج سے مستفید ہوکر لوٹے اور ہم گناہ و زیان سے لدے ہوئے پلٹے''٣٩
اس کے علاوہ کتاب ''دیرہا'' تالیف الشابشتی ،میں مطیع سے مربوط چند اشعار حسب ذیل (مضمون کے) نقل کئے گئے ہیں:
'' ہم اس میخانے میں پادریوں کے ہم نشین اورمئے خواروں کے رقیب تھے اور زُنار میں بندھا ہوا آہو کا بچہ (کسی نوخیز لڑکے یا لڑکی سے متعلق استعارہ ہے ) ....میں نے اس بزم کے کچھ حالات تم سے کھل کر بیان کئے اور کچھ پردے میں بیان کئے!''
کہتے ہیں کہ مطیع قوم لوط کی بیماری میں مبتلا تھا ،ایک دفعہ اس کے چند رشتہ دار اس کے پاس آئے اور اسے اس نا شائشتہ اور غیر انسانی حرکت پر ملامت کرتے ہوئے کہا: حیف ہو تم پر !کہ قبیلہ میں اس قدر مقام و منزلت اور ادبی میدان میں اس قدر کمال کے حامل ہونے کے باوجود خود کو اس شرمناک اور ناپاک کام میں آلودہ کر رکھا ہے؟! اس نے ان کے جواب میں کہا: تم لوگ بھی ایک بار امتحان کرکے دیکھ لو!پھر اگر تمھارا کہنا صحیح ہو تو خود اس کام سے اجتناب کرکے ثابت کرو!! انھوں نے اس سے نفرت کا اظہار کیا اس کے بعد اس سے منہ موڑ تے ہوئے کہا: لعنت ہو تیرے اس کام، عذر و بہانہ اور ناپاک پیش کش پر ۔(الف) ٤٠
مطیع ،بستر مرگ پر
ہادی عباسی کی خلافت کے تیسرے مہینے میں مطیع فوت ہوگیا اس کے معالج نے بستر مرگ
..............
الف)۔مطیع کی ان بدکاریوں کے بارے میں اگر مزید تفصیلات معلوم کرنا ہو تو کتاب اغانی ٨٥١٢ ملاحظہ فرمائیں ۔اظہار نفرت کے باوجود ہم ان مطالب کا اس لئے ذکر کرتے ہیں کہ اس قسم کی بدکاریوں سے پردہ اٹھائے بغیر سیف کے زمانہ اورحالات کا ادراک کرنا ممکن نہیںہے ۔
پر اس سے سوال کیا کہ تمھیں کس چیز کی آرزو ہے ؟ اس نے جواب میں کہا : چاہتا ہوں کہ نہ مروں۔٤١
مطیع کے پسماندگان میں ایک بیٹی باقی تھی ۔چند زندیقیوں کے ہمراہ اسے ہارون رشید کے پاس لایا گیا ، اس نے زندیقیوں کی کتاب پڑھ کر اس کا اعتراف کرتے ہوئے کہا : یہی وہ دین ہے جس کی مجھے میرے باپ نے تعلیم دی ہے اور میں نے اس سے منھ موڑ لیا ہے ۔اس کی توبہ قبول کر لی گئی اور اسے گھر بھیج دیا گیا۔٤٢
یہ شاعر اس قدر بے شرمی ،بے حیائی اور بدکاری کے باوجود اموی اورعباسی خلفاء اور ان کے جانشینوں کے مصاحبین اور ہم نشینوں میں شمار ہوتا تھا !خطیب بغدادی اس کی زندگی کے حالات کے بارے میں لکھتا ہے : مطیع خلیفۂ عباسی منصور اور اس کے بعد مھدی کے مصاحبین میںسے تھا۔٤٣
کتاب اغانی میں درج ہے کہ مھدی ،مطیع سے اس بات پر بہت راضی اور شکر گزار تھا کہ اس زمانے کے تمام خطیبوں اور شعراء میں وہ تنہا شخص تھا جس نے اس کے بھائی منصور کے سامنے ایک جھوٹی اور جعلی حدیث بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ مھدی وہی مھدی موعود ہے ۔
اس کے علاوہ لکھا گیا ہے کہ منصور کی پولیس کے افسر نے اسے رپورٹ دی کہ مطیع پر زندیقی ہونے کا الزام ہے اور خلیفہ کے بیٹے جعفر اور خاندان خلافت کے چند دیگر افراد کے ساتھ اس کی رفت و آمد ہے اور بعید نہیں ہے کہ وہ انھیں گمراہ کر دے ۔منصور کے ولی عہد مھدی نے خلیفہ کے پاس مطیع کی شفاعت کی اور کہا : وہ زندیقی نہیںہے بلکہ بدکردار ہے ،منصور نے کہا: پس اسے بلا کر حکم دو کہ ان ناشائستہ حرکتوں اور بدکاریوں سے باز آجائے۔
جب مطیع مھدی کے پاس حاضر ہوا ،مھدی نے اس سے کہا: اگر میں نہ ہوتا اور تمھارے حق میں گواہی نہ دیتا کہ تم زندیقی نہیں ہو تو تمھاری گردن جلاد کی تلوار کے نیچے ہوتی ... اس جلسہ کے اختتام پر مھدی کے حکم سے انعام کے طور پر سونے کے دو سو دینار مطیع کو دئے گئے ۔اس کے علاوہ مھدی نے بصرہ کے گورنر کو لکھا کہ مطیع کو کسی عہدہ پر مقرر کرے گورنر نے بصرہ کے زکوٰة کے مسئول کو بر طرف کرکے اس جگہ پر مطیع کو مامور کیا۔٤٤
کہتے ہیں کہ ایک دفعہ کسی کام یا کسی چیز کے سلسلے میں مھدی مطیع سے ناراض ہوا اور اس کی سر زنش کی ۔مطیع نے جواب میں کہا : جو کچھ میرے بارے میں تمھیں معلوم ہوا ہے اگر وہ صحیح ہو تو میرا عذر ،میری مدد نہیں کرے گا اور اگر جھوٹ اور حقیقت کے خلاف ہو تو یہ بیہودہ گوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی یہ بات مھدی کے ذوق کو بہت پسند آئی اور اس نے کہا: اس طرز سے بات کرنے پر میں نے تجھے بخش دیا اور تیرے اسرار کو فاش نہیں کروں گا۔٤٥
زندیقیوں کے مطابق ضبط نفس اور ترک دنیا اور مطیع کی بے شرمی اور بے حیائی پر مبنی رفتار و کردار کے درمیان کسی قسم کا تضاد نہیں ہے ،بلکہ مطیع کو عصر منصور کے مانویوں کے فرقۂ مقلاصیان سے جاننا مناسب اور بجا ہوگا ،کہ ابن ندیم اس فرقہ کے حالات کے بارے میں لکھتا ہے :وہ اس مذہب کے پیرئوں اور دین مانی کی طرف تازہ مائل ہونے والوں کو اس بات کی اجازت دیتے تھے کہ ہر وہ کام انجام دیں جس کی مذہب ہر گز اجازت نہیں دیتا اور اسی گروہ کے لوگ سرمایہ داروں اور حکام وقت کے ساتھ رابطہ رکھتے تھے ۔٤٦
شائد مطیع زندیق اور اس جیسے دیگر بے شرم و بے حیا افراد مانی کی مقرر کردہ شریعت کی حد سے تجاوز کر گئے ہوں ،کیوں کہ اس نے معین کیا ہے کہ : جو بھی مانی کے دین میں آنا چاہتا ہو ،اسے شہوت ،گوشت ،شراب اور ازدواج سے پرہیز کرکے اپنے آپ کو آزمانا چاہئے ...اگر اس دین کو قبول کرنے کے اس امتحان میں پاس ہو سکا تو ٹھیک ،ورنہ اگر صرف مانی کے دین کو پسند کرتا ہو اور تمام مذکورہ چیزوں کو ترک نہ کر سکے ،تو مانی کی مقرر کردہ عبادت کی طرف مائل ہو اور صدیقین سے محبت کرکے مانی کے دین میں داخل ہونے کی آمادگی کا موقع اپنے لئے محفوظ رکھ سکتا ہے ۔٤٧
شائد یہ لوگ ،مانی کی طرف سے دی گئی اس دینی اجازت یا چھوٹ کی حد سے گزر کر انسانیت سے گر گئے اور بے شرمی و بے حیائی کے گڑھے میں جا گرے ہیں ۔
مطیع کی زندگی کے حالات پر تحقیق و مطالعہ کے دوران ایک ایسی بات ہمارے سامنے آئی جو اس کے زندیقی ہونے کی سب سے واضح دلیل ہے اور وہ داستان حسب ذیل ہے :
''مطیع کے پسماندگان میں صرف ایک بیٹی بچی تھی ۔ اسے چند زندیقیوں کے ہمراہ ہارون رشید کے پاس لایا گیا ۔مطیع کی بیٹی نے زندیقیوں کی کتاب پڑھ کر اپنے زندیقہ ہونے کا اعتراف کیا اور کہا: یہ وہی دین ہے جس کی مجھے میرے باپ نے تعلیم دی ہے ''
خلاصہ
مذکورہ بالاتین افراد اور ان کی رفتاروکردار ،زندیقیوں اور مانی کے پیرؤں کانمونہ تھا،جو سیف بن عمر کے زمانے میں مانویوں کی سرگرمیوں اور ان کے پھلنے پھولنے کا بہترین نقشہ پیش کرتا ہے ۔
ان میں کا پہلا شخص (عبداللہ بن مقفع )مانو یو ں کی کتابو ں کا ترجمہ کرکے مسلمانوں میں شائع کرتا ہے۔
دوسرا آد می (ابن ابی العوجائ)جو مستعد اور تیز طرار ہے.ہر جگہ حاضر نظر آتا ہے ،کبھی مکہ میں امام جعفر صادق کے ساتھ فلسفہ حج پر مناظرہ کرتا ہوا اور حاجیوں کے عقل وشعورپر مذاق اڑاتا نظر آتاہے اور کبھی مدینہ منورہ میں مسجد النبی میں ۖحضرت محمد ۖ کے خداکی توہین کرتا ہوا نظر آتا ہے اور کبھی بصرہ میں نوجوانوں کے پیچھے پڑجاتا ہے تاکہ انھیں گمراہ کرے ۔اس طرح وہ ہر جگہ مسلمانوں کے عقائد کو خراب کرنے اور تفرقہ اندازی اور ان کے افکار میں شک وشبہہ پیدا کرنے کی انتھک کوششوں میں مصروف دیکھائی دیتا ہے ۔
تیسرا شخص (مطیع بن ایاس ) انتہائی کوشش کرتاہے کہ لاابالی ،بے شرمی وبے حیائی ،فسق و فجور اور بد کاری کواسلامی معاشرہ میں پھیلا کر لوگوں کوتمام اخلاقی وانسانی قوانین پائمال کرنے کی ترغیب دے ۔ان تمام حیوانی صفات کے باوجود عباسی خلیفہ مہدی اس بدکردار کی صرف اس لئے ستائش ،حمایت اور مدد کرتا ہے کہ اس نے اس کی بیعت کے سلسلے میں ایک حدیث جعل کی تھی۔
اس نے اور اس کے دیگر دوساتھیوں نے علم و آگاہی کے ساتھ مسلمانوں کے اجتماعی نظام کی بنیادوں میں جان بوجھ کر دراڑ اور تزلزل پیدا کرنے میں کوئی دقیقہ اٹھانہیں رکھا۔بالآخر وہ بصرہ میں اپنے لئے قافیہ تنگ ہوتے دیکھ کر کوفہ کی طرف بھاگ جاتا ہے اور وہاں پر بھی بد کرداریوں کے وجہ سے گرفتار ہوکر زندان میں ڈال دیا جاتا ہے اور اس کے بعد سزائے موت سے دوچار ہوتا ہے ۔
ان حالات میں وہ تمام لوگ جو اس کی شفاعت کے لئے دوڑ دھوپ کرتے ہیں زندیقی عقیدہ رکھنے کے متہم تھے اور انہو ں نے خلیفہ کو مجبور کیا تا کہ وہ کوفہ کے گورنر کے نام اس کو قتل کرنے سے ہاتھ روکنے کا حکم جاری کرے ،اور خلیفہ نے مجبور ہوکر ایسا ہی کیا۔لیکن خلیفہ کے اس حکم کے بصرہ پہنچنے سے پہلے ہی اسے کیفر کردار تک پہنچادیا جاتاہے ۔جب وہ اپنے سر پر موت کی تلوار منڈ لاتے ہوے دیکھتا ہے اور اسے یقین ہو جا تا ہے کہ اب مرنا ہی ہے تو اس وقت اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ اس نے چار ہزار ایسی احادیث جعل کی ہیں جن کے ذریعہ حلال کو حرام اور حرام کو حلال کرکے رکھدیا ہے اور اس طرح لوگوں کو روزہ رکھنے کے دن افطار کرنے اور افطار کرنے کے دن روزہ رکھنے پر مجبور کردیا ہے
|