|
مقدمہ مؤلف
بسم اللّٰہ الرَّحمٰن الرَّحیم
اسلام کی چودھویں صدی اختتام کو پہنچنے والی ہے ،زمانے کے اس قدر طولانی فاصلہ نے اسلام کی صحیح شکل پہچاننے کے کام کو انتہائی دشوار بنا دیا ہے ۔حقیر نے گزشتہ چالیس برسوں سے زیادہ عرصہ کے دوران معرفت کی اس راہ میں حتی المقدور تلاش و کوشش کی ہے تاکہ شائد اسلام کو اس کی اصلی صورت میں پایا جائے جس صورت میں وہ چودہ سو سال پہلے تھا چوں کہ اسلام کو پہچاننے کے لئے اس کے سوا اور کوئی چارہ نہ تھا اور نہ ہے کہ اس سلسلے میں قرآن مجید ،پیغمبر اکرم ۖکی سیرت اور آپ ۖکی احادیث کی طرف رجوع کیا جائے ۔لہٰذا ہم ابتدا میں قرآن کی درج ذیل آیۂ شریفہ کی طرف رجوع کرتے ہیں ہیں :
(ھُوَ الَّذِی أَنْزَلَ عَلَیْکَ الْکِتٰابَ مِنْہُ آیٰت مُحْکَمٰت ھُنَّ اُمُّ الْکِتٰبِ وَ أُخَرُ مُتَشٰبِھٰت فَأَمّا الَّذینَ فِی قُلُوبِھِمْ زَیْغ فَیَتَّبِعُونَ مٰا تَشٰبَہَ مِنْہُ ابْتِغٰائَ الْفِتْنَةِ وَ ابْتِغٰائَ تَأویلِہ وَمٰا یَعْلَمُ تَأوِیلَہُ اِلَّا اللَّہُ وَ الرّٰاسِخُونَ
فِی العِلْمِ .....) (الف)
..............
الف)۔ آل عمران ٧
''وہ جس نے آپ پر وہ کتاب نازل کی ہے جس میں کچھ آیتیں محکم اور واضح ہیں جو اصل کتاب ہیں اور کچھ متشابہ ہیں (وہ حصہ جو واضح وروشن نہیں ہے )۔اب جن کے دلوں میں کجی ہے وہ ان ہی متشابہات کے پیچھے لگ جاتے ہیں تا کہ فتنہ بر پاکریں اور من مانی تاویلیں کریں حالانکہ اس کی تاویل کا علم خدا کواور انھیں ہے جو علم میں رسوخ رکھنے والے ہیں ''۔
قرآن کریم کی طرف رجوع کرنے سے معلوم ہوتاہے،قرآن مجید میں بعض آیات متشابہ ہیں جو فتنہ انگیزوں کے لئے بہانہ ہیں اور ان کی تاویل خدا کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔دوسری طرف خدائے تعالیٰ قرآن مجید کی تاویل کے طریقہ کو درج ذیل آیت میں معین فرماتاہے :
(''وَأَنْزَلْنٰا اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مٰانُزِّلَ اِلَیْھِمْ '')(الف)
''اور ہم نے آپۖ کی طرف بھی ذکر(قرآن)کونازل کیاہے تاکہ جو کچھ لوگوں کے لئے نازل کیاگیاہے اسے ان سے بیان اور ان پر واضح کردیں''
خدائے تعالیٰ اس آیہ شریفہ میں پیغمبر اکرم ۖ سے فرماتاہے :ہم نے ذکر قرآن مجید کو آپ ۖپر نازل کیاتاکہ آپ ۖ وہ سب کچھ لوگوں سے بیان کردیں جو قرآن مجید میں ان کے لئے نازل کیا گیا ہے ۔لہٰذا قرآن مجید کی تفسیر جس کی بعض آیات متشابہ ہیں فقط پیغمبر اکرم ۖ
کے ذریعہ ہونی چاہئے اور قرآن مجید کی تفسیر کو سیکھنے کا طریقہ ہمیشہ آنحضرت ۖ کی
حدیث اور بعض اوقات آپ ۖ کی سیرت ہے ،کیونکہ رسول خدا ۖ کبھی کبھی اپنے
عمل وکردار سے قرآن مجید کی تفسیر فرماتے تھے ،جیسے :یومیہ نماز کے بارے میں قرآن مجید
نے حکم فرمایاہے اور پیغمبر اسلام ۖ نے اسے اپنے عمل کے ذریعہ لوگوں کو سکھایا ،
پس آنحضرت ۖکی یومیہ نماز اُن آیات کی تفسیر ہے جو قرآن مجید
..............
الف)۔نحل٤٤
میں نماز کے بارے میں بیان ہوئی ہیں ۔(الف) اس طرح معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کی معرفت حاصل کرنے کے لئے پیغمبر اکرم ۖکی حدیث اور آپ ۖکی صحیح سیرت جس کا مجموعہ آپ ۖکی سنت ہے کی طرف رجوع کرنے کے علاوہ کوئی اور طریقہ نہیںہے اور رسول اکرم ۖکی سنّت تک دست رسی کا راستہ بھی اہل بیت پیغمبر ۖاور آپ ۖکے اصحاب پر منحصر ہے.ان دوراستوں کے علاوہ سنت رسول ۖتک پہنچنا محال ہے.ان دو اسناد کے بارے میں بھی قرآن مجید فرماتاہے:
(وَ مِمَّنْ حَوْلَکُمْ مِنَ الْأَعْرَابِ مُنٰفِقُونَ وَ مِنْ أَھْلِ الْمَدِینَةِ مَرَدُوا عَلَی النِّفٰاقِ لَا تَعْلَمُھُمْ نَحْنُ نَعْلَمُھُمْ۔۔۔) (ب)
''اور تمہارے اطراف کے علاقہ کے لوگوں میں بھی منافقین ہیں اور اہل مدینہ میں تو وہ بھی ہیں جو نفاق میں ماہر اور سرکش ہیں.تم ان کو نہیں جانتے ہو لیکن ہم خوب جانتے ہیں۔''
ان منافقین کو جو پیغمبر خدا ۖکے زمانے میں مدینہ میں تھے خدا کے علاوہ کوئی نہیں جانتا تھا۔وہ سب پیغمبر اکرم ۖکے صحابیوں (ج) میں سے تھے ۔حقیر نے ان صحابیوں میں سے
مؤمن و منافق کی پہچان کرنے کی غرض سے ان کی زندگی کے سلسلے میں تحقیق شروع کی ہے ، خواہ وہ
..............
الف)۔آنحضرت ۖکی مشہور و معروف حدیث جس میں آپ ۖنے فرمایا:صَلُّوا کَمٰا رَئَیتُمُونی أُصَلِّی (جس طرح مجھے نماز پڑھتے دیکھتے ہو ، اس طرح نماز پڑھو۔
ب)۔توبہ ١٠١
ج)۔ صحابی کے بارے میں جمہور کی تعریف ملاحظہ ہو: الصّحابی من لقٰی النّبی مومناً بہ و مات علی الاسلام، فیدخل فی من لقیہ من طالت مجالستہ لہ او قصرت، و من روی عنہ اولم یرو، و من غزامعہ اولم یغز، ومن رء اہ رویة ولو لم یرہ لعارض کالعمی (و انہ لم یبق بمکة ولا الطائف احد فی سنہ عشر الا اسلم و شھد مع النبی حجة الوداع، و انہ لم یبق فی الاوس والخزرج احد فی آخر عھد النبی الادخل فی الاسلام و ما مات النبی و واحد منھم یظھر الکفر) ملاحظہ ہو ابن حجر کی کتاب ''الاصابہ فی معرفة الصحابہ'' جلد اول کا مقدمہ ص١٣ اور ١٦۔
تفسیر قرآن ، اسلامی احکام اور دیگر علوم اور معارف اسلامی کے سلسلے میں پیغمبر ۖکی احادیث ، فرمائشات اور سیرت بیان کرنے والے ہی کیوں نہ ہوں!
چونکہ اہل بیت پیغمبر ۖاور آپ ۖکے اصحاب کی زندگی کے بارے میںمعرفت حاصل کرنا حقیقت میں اسلام کی معرفت ہے،اس لئے ہم نے ان دونوں کی زندگی پر تحقیقات شروع کی۔ ان کی نجی زندگی ، باہمی میل ملاپ، تازہ مسلمانوں سے سلوک ، غیر مسلم اقوام سے تعلقات ، فتوحات اور ان کے ذریعہ پیغمبرۖ اسلام سے روایتیں نقل کرنے کے موضوعات کو مورد بحث و تحقیقات قرار دیا اور دسیوں سال کے مطالعہ اور تحقیق کے نتیجہ میں میرے سامنے حیرت انگیز مطالب واضح ہوئے ۔معلوم ہواکہ سیرت ،تاریخ اور حدیث کی روایتوں میں اس قدر غلط بیانی اور خلط ملط کی گئی ہے جس کی کوئی حد نہیں ۔ قاتل کو مقتول، ظالم کو مظلوم، رات کو دن اور دن کو رات دکھانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی گئی ہے ۔ مقدس اور پارسا ترین صحابی ، جیسے ،ابوذر،عمار ،حجر ابن عدی کا بدکار ،احمق ، ساز شی اور تخریب کار کے طور پر تعارف کرایا گیا ہے اور اس کے مقابلے میں معاویہ ، مروان بن حکم ،ابوسفیان اور زیاد جیسے افراد کو پاک دامن، بے گناہ اور خدا پرست کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔پیغمبر اکرم ۖکی احادیث و سیرت کے بارے میں اس قدر جھوٹی اور بیہودہ حدیثیں اور افسانے گھڑے گئے ہیں کہ ان کے ہوتے ہوئے صحیح اسلام کا اندازہ لگانا ناممکن بن گیا ہے۔یہی جعلی اور جھوٹی احادیث ، اسلام کے چہرے پر بدنما داغ بن گئی ہیں۔ملاحظہ ہو ایک مثال:
حضرت عائشہ سے ایک روایت:
تیمم سے مربوط آیت کی شان نزول کے بارے میں صحیح بخاری ، صحیح مسلم، سنن نسائی ، موطاء مالک ، مسند احمد، ابوعوانہ ، تفسیر طبری اور دیگر موثق و معتبر کتابوں میں ام المؤمنین عائشہ سے اس طرح روایت ہوئی ہے:
عائشہ نے کہا:پیغمبر ۖکی مسافرتوں میں سے ایک سفر میں ہم مدینہ سے باہر آئے اور مقام ''بیدائ'' یا ''ذات الجیش''پہنچے۔(حموی نے دونوں مقام کی تشریح میں کہا ہے کہ یہ مدینہ کے نزدیک ایک جگہ ہے ، جہاں پر پیغمبر اسلام ۖنے غزوۂ بنی المصطلق سے واپسی پر عائشہ کے گلے کے ہار کو ڈھونڈنے کے لئے اپنے لشکر کے ساتھ پڑاؤڈالا تھا)عائشہ نے کہا:
وہاں پر میرے گلے کا ہار گرکر گم ہوگیا تھا۔ پیغمبر ۖاس کی تلاش کے لئے وہاں رُکے اور لشکر نے بھی پڑاؤڈالا۔ اس سر زمین پر پانی نہ تھا اور لوگوں کے پاس بھی پانی نہیں تھا ۔ صبح ہوئی ، پیغمبر ۖ میری آغوش میں سر رکھے سوئے ہوئے تھے !!ابوبکر آئے اور مجھ سے مخاطب ہوکر کہنے لگے پیغمبرۖ اور تمام لشکر کو تم نے یہاں پر اسیر کر رکھا ہے، نہ لوگوں کے پاس پانی ہے اور نہ یہاں پر پانی ملنے کا امکان ہے...ابوبکر نے جی بھر کے مجھ سے تلخ کلامی کی، اور جو منہ میں آیا مجھے کہا اور اپنے ہاتھ اور انگلیوں سے میرے پہلو میں چٹکی لیتے تھے،میری آغوش میں پیغمبرۖ کا سرتھا، اس لئے میں ہل نہیں سکتی تھی۔!!
اس وقت پیغمبر ۖنیند سے بیدار ہوئے،پانی موجود نہیں تھا.خدائے تعالیٰ نے آیۂ تیمم نازل فرمایا۔اسید بن حضیر انصاری نے کہا: یہ آپ خاندان ابوبکر کی پہلی خیر و برکت نہیں ہے جو ہمیں نصیب ہورہی ہے.یعنی اس سے پہلے بھی ، خاندان ابوبکر ، کی خیر و برکت ہمیں نصیب ہوتی رہی ہے.میرے والد ، ابوبکر نے کہا: خدا کی قسم ! مجھے معلوم نہیں تھا میری بیٹی ! کہ تم کس قدر خیر و برکت سے مالامال ہو! اس وقت جو تم یہاں پر مسلمانون کے رُکنے کا سبب بنی تو خدائے تعالیٰ نے تیری وجہ سے ان پر کس قدر برکت نازل کی اور ان کے کام میں آسانی عنایت فرمائی !
صحیح بخاری کی روایت اور دوسروں کی روایتوں کے مطابق، عائشہ نے کہا: آخر کار جب میرے اونٹ کو اپنی جگہ سے اٹھایا گیا ، تومیرے گلے کا ہار اس کے نیچے مل گیا۔
ہم نے اس حدیث پر کتاب ''احادیث عائشہ'' میں تفصیل سے بحث و تحقیق کی ہے، اس لئے یہاںپر اس کے صرف ایک حصہ پر بحث کرتے ہیں۔ (الف)
..............
الف)۔ملاحظہ ہو مؤلف کی کتاب ''احادیث شیعہ ''حصہ دوم فصل ''المسابقة والتیمم والافک''۔
عائشہ کی روایت پر تحقیق:
اولاً ، کہاگیا ہے کہ یہ واقعہ پیغمبر اکرم ۖکے غزوہ ٔبنی مصطلق سے واپسی پر رونما ہوا ہے،
یعنی جنگ ِاحزاب جوجنگ خندق کے نام سے مشہور ہے کے بعد یہ جنگ (غزوہ بنی المصطلق )
٦ ھ میں واقع ہوئی ہے ۔اس غزوہ میں مہاجر وانصار کے درمیان کنویں سے پانی کھینچنے کے مسئلہ پر اختلاف رونما ہوا اور نزدیک تھا کہ آپس میں لڑ پڑیں ،اس لئے رسول خدا ۖنے لشکر کوبے موقع کوچ کرنے کاحکم دیا تاکہ آپ ۖ اصحاب کے درمیان اس احتمالی ٹکراؤ کو روک سکیں ۔ آپ ۖاس سفر میں کسی جگہ پڑاؤ نہیں ڈالتے تھے ،مگر یہ کہ نماز کے وقت،اور نمازادا کرنے کے وقت سے زیادہ نہیں رکتے تھے اس طرح رات گئے تک سفر کرتے تھے اور جب رات کے آخری حصہ میں کہیں رکتے تھے تو اصحاب تھکاوٹ سے نڈھال ہوکر سوجاتے تھے ۔رسول خدا ۖ اور آپ ۖکے لشکر کی اس غزوہ سے واپسی کے دوران ایسی حالت تھی کہ پیغمبر اکرم ۖ کے لئے ممکن نہیں تھا کہ بلا سوچے سمجھے صرف عائشہ کے گلے کے ہار کے لئے ،کہیں رات بھر کے لئے عائشہ کی روایت میں بیان شدہ صورت میں پڑاؤ ڈالتے ۔
اس کے علاوہ دوسری ایسی روایتیں بھی موجود ہیں جن میں اس آیت کی شان نزول ،ام المؤمنین کی بیان کردہ شأن نزول کے برخلاف ہے ۔ہم یہاں پر ان روایتوں کے بیان سے صرف نظر کرتے ہوئے اس سلسلے میں صرف قرآن مجید کی طرف رجوع کرتے ہیں:
قرآن مجید میں دو جگہوں پر وضو وغسل اور ان کے بدل یعنی تیمم کاایک ساتھ ذکر ہواہے ۔
اولاً سورہ نسا کی ٤٣ویں آیت میں فرماتاہے:
''ےٰااَےُّھَا الذَّینَ آمَنُوا لاٰتَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ وَ اَنْتُمْ سُکٰاریٰ حَتّٰی تَعْلَمُوا مٰا تَقُولُونَ وَ لاٰ جُنُباً اِلاّٰ عٰابِرِی سَبیلٍ حَتّٰی تَغْتَسِلُوا وَ اِنْ کُنْتُمْ مَرْضیٰ اَوْ عَلیٰ سَفَرٍ أَوْ جٰائَ اَحَد مِنْکُمْ مِنَ الْغٰائِطِ أَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسٰائَ فَلَمْ تَجِدُوا مٰائً فَتَیَمَّمُوا صَعیداً طَیِّباً فَامْسَحُوا بِوُجُوھِکُمْ وَاَیْدِیْکُمْ اِنَّ اللّٰہَ کٰانَ عَفُوّاً غَفُوراً''(نسا٤٣)
ایمان والو ! خبردار نشہ کی حالت میں نماز کے قریب بھی نہ جانا،جب تک یہ ہوش نہ آجائے کہ تم سمجھنے لگو کیا کہہ رہے ہو،اور جنابت کے حالت میں بھی (مسجد میں داخل نہ ہونا)مگریہ کہ راستے سے گزر رہے ہو ،جب تک غسل نہ کرلو اور اگر بیمار ہو یا سفر کی حالت میں ہو اور کسی کے پاخانہ نکل آئے ، یاعورتوں سے باہم جنسی ربط قائم کرو اورپانی نہ ملے توپاک مٹی سے تیمم کرلو ،اس طرح کہ اپنے چہروں اور ہاتھوںپر مسح کرلو بیشک خدا بہت معاف کرنے والا اور بخشنے والا ہے۔
ثانیاً سورہ مائدہ کی چھٹی آیت میں فرماتاہے :
''یٰا اَیُّھَاالَّذینَ آمَنُوااِذٰاقُمْتُمْ اِلَی الصَّلٰوةِفَاغْسِلُوا وُجُوھَکُمْ وَاَیْدِیَکُمْ اِلَیٰ الْمَرٰافِقِ وَامْسِحُوابِرُء وسِکُمْ وَاَرْجُلَکُمْ اِلَی الْکَعْبَیْن وَاِنْ کُنْتُمْ جُنُباً فَاطَّھَّرُوا وَاِنْ کُنْتُمْ مَرْضیٰ اَوْ عَلیٰ سَفَرٍ أَوْجٰائَ أَحَد مِنْکُمْ مِنَ الْغٰائِطِ اَوْلاٰمَسْتُمُ النِّسٰائَ فَلَمْ تَجِدُوامٰائً فَتَیَمَّمُواصَعیداًطَیِّباًفَامْسَحُوا بِوُجُوھِکُمْ وَأیْدِیْکُمْ مِنْہُ.....''(مائدہ ٦)
ایمان والو !جب بھی نماز کے لئے اٹھو تو پہلے اپنے چہروں کواور کہنیوں تک اپنے ہاتھوں کو دھوؤاور اپنے سر اور ٹخنے تک پیروں کامسح کرو اور اگر جنابت کی حالت میں ہو تو غسل کرواور اگر مریض ہویا سفر کی حالت میں ہو یا پاخانہ وغیرہ نکل آیا ہے یاعورتوں سے باہم جنسی تعلق قائم کرو اور پانی نہ ملے توپاک مٹی سے تیمم کرلو ،اس طرح کہ اپنے چہرے اور ہاتھوںکامسح کرلو۔
اس لحاظ سے اسی وقت جب وضو اور غسل کاحکم بیان ہوا ،تیمم کاحکم بھی بیان ہواہے ایسا نہیں ہے کہ مسلمانوں نے ١٣ سال مکہ میں اور ٥سال مدینہ میں صرف وضواور غسل کیا اور انہیں کبھی تیمم کرنے کی ضرورت ہی نہ پڑی ہو یہاں تک کہ خدائے تعالیٰ نے ام المؤمنین کے گلے کے ہار کی برکت سے مسلمانوں کو یہ سہولت عنایت کی ہو.!!
موضوع کی اہمیت:
ہم نے یہاں پر عائشہ کی حدیث کو نمونہ کے طور پر بیان کیا ہے ۔عائشہ کی اس حدیث میں آیہ ٔ کریمہ کی شأن نزول کی بات کی گئی ہے جو بذات خود علم تفسیر کاجزو ہے ،اور تیمم کی علت کے بارے میں تشریح بھی کی گئی ہے جو حقیقت میں احکام اسلام میں سے ایک حکم ہے اور اس کے علاوہ پیغمبر اسلام ۖ کی سیرت کی بات بھی کی گئی ہے کہ کس طرح رسو ل خدا ۖنے اپنی بیوی کی خوشنودی کے لئے جذبات میں آکر تمام مصلحتوں سے چشم پوشی کرکے لشکر اسلام کے ساتھ ایک خشک اور بے آب سرزمین پر صرف اپنی بیوی کے گلے کے ہار کے لئے صبح تک پڑاوکیا۔جب کہ کسی عام فوجی کمانڈر سے بھی اس قسم کی توقع نہیں کی جاسکتی ہے چہ جائیکہ حکمت وبصیرت والے پیغمبر ۖسے !! اور سب سے بڑھ کر اس حدیث سے ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ خدائے تعالیٰ نے اس ناشائستہ وبے جاعمل پر اپنے پیغمبر ۖکی تنبیہ اور سرزنش کرنے کے بجائے قرآن مجید کی ایک آیت نازل فرماکر تیمم کاحکم جاری کیا اور اس طرح مسلمانوں کی ایک گتھی حل کردی ۔
دشمنان اسلام اس حدیث اور داستان سے کیا نتیجہ لیں گے ؟!افسوس!کہ اس قسم کی احادیث جو اسلام کوحقیر وپست اور پیغمبر اسلام ۖ کو ہلکا ،شہوت پرست اور کم عقل ثابت کرتی ہیں،بہت ہیں۔
ہم اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ اس قسم کی احادیث کو ام المؤمنین عائشہ،ابوہریرہ اور دیگر اصحاب سے نسبت دینے کی تصدیق کریں اور کہیں کہ یہ نسبت سو فیصدی صحیح ہے ،ممکن ہے ان میں سے بعض کو زندیقیوں یا دیگر دشمنان اسلام نے دین میں تخریب کاری کے لئے جعل کرکے ان سے منسوب کردیاہو۔لیکن یہ ناقابل انکار حقیقت ہے کہ اس قسم کی احادیث ،حدیث کی مشہورترین وصحیح کتابوں ،معتبر تفسیروں ،سیرت اور تاریخ کی موثق کتابوں میں درج ہیں ۔اس قسم کی احادیث حقائق کو اس حد تک الٹا دکھانے کی باعث بنی ہیں کہ خدا کی صفات کوغلط رنگ میں پیش کرکے مجسم ومرئی اور پیغمبر خدا ۖکو ایک شہوت پرست اور بے شعور اور قرآن مجید کو ناقص وقابل اصلاح صورت میں دکھایا گیاہے ۔ (الف)
پروردگارا! مسلمانوں کے باور کئے گئے ان ہزاروں جھوٹ اور افسانوں کے مقابلے میں کیا کیاجائے ؟!ایک ہزار سال سے زیادہ عرصہ گزر چکاہے کہ مسلمان ان افسانوں کے عادی بن کر ان پر اعتقاد رکھتے ہیں اور انھیں اسلام کی صحیح احادیث،پیغمبر اکرم ۖکی سچی سیرت ،اسلام کی مؤثق تاریخ کے طور پر تسلیم کرچکے ہیں اور اسی سبب سے صحیح اسلام کو نہیں پہچان سکے ہیں !
خداوندا ! کیا ان منحرف شدہ حقائق کو چودہ سو سال کے بعد حقائق آشکار کرکے ہزاروں جرائم سے پردہ اٹھایاجائے یامسلمانوں کی عظیم اکثریت کی چاہت کے سامنے ہتھیار ڈال دئے جائیں اور خاموش تماشائی بن کر زبان پر مہر لگالی جائے؟!
بار الٰہا !کیا یہاں پر خاموشی اختیار کرنا ان تمام جرائم پر پردہ ڈالنے کے مترادف نہیں ہے؟
اور کیا خود یہ خاموشی سب سے بڑا گناہ نہیں ہے ؟جی ہاں !بیشک ان تمام جرائم کے مقابلے میں خاموشی اختیار کرنا خود ان جرائم سے سنگین تر جرم ہے ۔اسی لئے حقیر نے حدیث وتاریخ ،حدیث کی شناخت اور اسلام کی صحیح تاریخ کے سلسلے میں میں بحث وتحقیق شروع کی ہے اور خدا کی خوشنودی کے لئے اس
کی مدد سے قدم آگے بڑھائے ہیں۔
اب قارئین کرام اور علوم اسلامی کے محققین کی خدمت میں کتاب ''خمسون ومائة صحابی مختلق'' کے مباحث کا پہلا حصہ پیش کیا جاتاہے ۔
ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم
العسکری
تہران: ٢٤ جمادی الثانی ١٣٩٦ ھ۔
..............
الف)۔مؤلف کامقالہ''سرگزشت حدیث ''ملاحظہ ہو۔
| |