ایک سو پچاس جعلی اصحاب(پہلی جلد)
 

پہلا حصہ :
lجیمس رابسن کا مختصر تعارف
lشہرۂ آفاق مستشرق ،ڈاکٹر جیمس رابسن کا نظریہ
lمقدمۂ مؤلف
جیمس رابسن کا مختصر تعارف:

پیدائش: ١٨٩٠ ء
تعلیمی قابلیت:ادبیات عربی وا لٰہیات میں پی،ایچ ، ڈی گلاسکویونیورسٹی میں عربی زبان کے تحقیقی شعبے کے صدر، گلاسکویونیورسٹی کی انجمن شرق شناسی کے سیکریٹری ، منچسٹریونیورسٹی کے عربی شعبے کے پروفیسر،کیمبرج،ملبورن ، اڈمبورن ، سینٹ انڈرسن اور لندن یونیوسٹیوں کے ڈاکٹریٹ کلاسوں کے ممتحن۔

تألیفات: ''اسلامی تمدن کا دوسرے ادیان سے موازنہ''
''علم حدیث پر مقدمہ'' ،''مشکاة المصابیح'' کا چار جلدوں میں ترجمہ و حاشیہ کے علاوہ آپ بہت سے مقالات اور آثار کے مؤلف ہیں۔ ١
..............
١)۔کتاب '' who is who'' طبع سال ١٩٧٤ئ

کتاب ''عبداللّٰہ ابن سبا '' اور کتاب '' خمسون و مائة صحابی مختلق '' کے بارے میں شہرۂ آفاق مستشرق
ڈاکٹر جیمس رابسن کا نظریہ

مولف کے نام ڈاکٹر جیمس کے خط کا ترجمہ
جناب محترم سید مرتضیٰ عسکری صاحب
گزشتہ اگست کے وسط میں آپ کی تالیف کردہ دو کتابیں '' عبداللہ ابن سبا و اساطیر اخریٰ'' اور '' خمسون و مائة صحابی مختلق''موصول ہوئیں ۔میں نے انہی دنوں آپ کے نام ایک خط میں لکھا ہے کہ میں ایک ضعیف العمر شخص ہوں اور صحت مند بھی نہیں ہوں ۔اس لئے مجھے ان کتابوں کے مطالعہ کے لئے کافی وقت کی ضرورت ہے ۔ان کتابوں کے مطالعہ پر توقع سے زیادہ وقت صرف ہو ا ۔میں نے کتابوں کو انتہائی دلچسپی سے دو بار پڑھ لیا۔ جی تو یہ چاہتا تھا کہ اس سلسلے میں ایک مفصل شرح لکھوں ، لیکن میںچاہتا ہوں کہ اس وقت اس خط کے ذریعہ ان دو کتابوں کے بارے میں آپ کی تحقیقی روش اور عالمانہ دقت و باریک بینی کی ستائش کروں ۔ اس پیری میں اطمینان کے ساتھ امید نہیں ہے کہ مستقل میں ایک مفصل شرح لکھ سکوں ،کیوں کہ ممکن ہے میرا بڑھاپا اس مختصر خط کے لکھنے میں بھی رکاوٹ کا سبب بنے ۔اس لئے اس خط کے لکھنے میں مزید تأخیر کرنا مناسب نہیں سمجھتا۔
پہلی کتاب میں '' عبداللہ ابن سبا اور سبائیوں کی داستان'' کے بارے میں کی گئی تحقیق اور جزئیات مجھے بہت پسند آئے ،کیوں کہ اس میں مشرق و مغرب کے قدیم و جدید مولفین اور ان کے استناد شدہ مأخذ کے بارے میں قابل قدر بحث کرکے موضوع کی بخوبی تشریح کی گئی ہے ۔ صفحہ ٥٧پر دیا گیا خاکہ انتہائی مفید ہے یہ خاکہ ''سیف '' کی روایات اور احادیث کے اصلی منابع کی بخوبی نشاندہی کرتا ہے اور واضح کرتا ہے کہ اس کے بعد کے مصنفوں نے کس طرح ان منابع میں سے کسی ایک یاسب پر استناد کیا ہے۔
اس کے بعدبعض ایسے علماء کی فہرست درج کی گئی ہے کہ جنھوں نے ابو دائود وفات ٢٧٥ ھ (کتاب میں غلطی سے ٣١٦ھ لکھا گیا ہے) سے ابن حجر وفات ٨٥٢ھ کے زمانہ تک سیف کی روایتوں کی حیثیت کے بارے میں اپنا نظریہ پیش کیا ہے ۔ان سب لوگوں نے سیف کی تنقید کی ہے اور اس کے بارے میں ''ضعیف''، ''اس کی روایتیں متروک ہیں'' ،''ناچیز ''،''جھوٹا ''، ''احتمالاً وہ زندیق ہے '' ،جیسے جملے استعمال کئے ہیں ۔یہ سب علماء سیف کی روایتوں کے ،ناقابل اعتماد، حتیٰ جعلی ہونے پر اتفاق نظر رکھتے ہیں.یہ ایک قوی اور مطمئن کردینے والی بحث ہے . حدیث کے راویوں کے بارے میں علماء کے نظریات کا مطالعہ کرتے ہوئے ، میں اس بات کی طرف متوجہ ہوا ہوں کہ سب کے سب ایک راوی کی تقویت یا تضعیف پر اتفاق نظر نہیں رکھتے.لیکن سیف کے بارے میں کسی قسم کا اختلاف نہیں پایا جاتا ہے۔اور یہ امر انسان کو تعجب اور حیرت میں ڈالتا ہے کہ اس کے باوجود اس طرح بعد والے مؤلفین نے آسانی کے ساتھ اس (سیف) کی روایتوں کو قبول کیا ہے ؟ ! !
میں یہاں پرطبری کے بارے میں کچھ اظہار نظر کرنا چاہتا ہوں،جس نے سیف کی روایتوں کو نقل کرنے میں کسی قسم کی تردید نہیں کی ہے۔عصر جدید کی تاریخ نویسی کے اسلوب کے مطابق تاریخ طبری ایک تاریخی اثر شمار نہین ہوتا،کیونکہ ، ایسا لگتا ہے کہ اس کا اصل مقصد اس کی دست رس میں آنے والی تمام روایتوں کو تحریر میں لانا تھا،بجائے اس کے کہ ان کی قدر و قیمت اور اعتبار کے بارے میںوہ کسی قسم کا اظہار نظر بھی کرے۔لہٰذا ایک انسان آسانی کے ساتھ سمجھ سکتا ہے کہ اس کی بعض روایتیں اس کی اپنی ہی نقل کردہ دوسری روایتوں سے زیادہ ضعیف ہیں .شائد اس کو آج کل کے زمانے میں ناقابل قبول اسلوب کے استعمال کی بناپر معذور قرار دے دیں.کم از کم اس نے دوسروں کو بہت سی معلومات بہم پہنچائی ہیں۔آپ جیسے باریک بین دانشور اور علماء ،جعلی روایتوں کے درمیان سے صحیح (ومعتبر) روایتوں کی تشخیص دے سکتے ہیں.
سیف کی ذکر کردہ روایتوں کے بارے میں آپ کی تحقیق (و بحث) کا طرز انتہائی دلچسپ اور مؤثر ہے.آپ نے پہلے سیف کی روایتوں کو بیان کیا ہے اور اس کے بعد ان روایتوں کا ذکر کیا ہے جو دوسروں سے نقل ہوئی ہیں۔پھر ان دو قسم کی روایتوں کی آپس میں تطبیق اور موازنہ کیا ہے۔ ان روایات اوران کی بیان شدہ اسناد کے بارے میں اس دقیق اور صحیح موازنہ نے واضح کردیا ہے کہ سیف نے زیادہ تر نامعلوم (مجہول الہویہ) راویوں سے روایتیں نقل کی ہیں۔اس سے خود یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دوسرے مؤلفین نے ان راویوں میں سے کسی ایک کا نام کیوں ذکر نہیں کیاہے ؟اور اس طرح انسان اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ سیف نے خود ان راویوں کو جعل کیا ہے ۔(سیف کے بارے میں) یہ واقعی (قوی) الزام ایک قابل قبول منطقی نتیجہ ہے ، جو سیف (کی روایتوں) کا دوسروں
(کی روایتوں) سے موازنہ کرنے پر حاصل ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ بحث و گفتگو کے ضمن میں بیان ہوا ہے کہ سیف نے معجزنما اتفاقات بیان کئے ہیں ، جنھیں قبول نہیں کیا جاسکتا،جیسے : صحراؤں کی ریت کا مسلمانوں کے لئے پانی میں تبدیل ہوجانا یا سمندر کا ریگستانوںمیں تبدیل ہوجانا یا گائے کے ریوڑ کا گفتگو کرنا اور مسلمانوں کے لشکر کو اپنی مخفی گاہ کے بارے میں خبر دینا اور اسی طرح کے دوسرے مطالب ۔سیف کے زمانے میں ایسی (جعلی) داستانوں کو تاریخی واقعات کے طور پر دوسروں کے لئے نقل کردینا ممکن تھا،لیکن آج کل تحقیق و تجسس کرنے والے محققین کے لئے ایسی داستانیں ناقابل قبول ہیں۔بعض اطمینان بخش بحث وگفتگو بھی (اس کتاب میں) زیر غور قرار پائی ہے جو ''ابن سبأاور سبائیوں ''کے بارہ میں سیف کی روایات کو مکمل طور سے (جعلی اور) غیر قابل اطمینان ثابت کرتی ہے، یقین نہیں آتا۔
مؤلف نے اس کتاب میں اشارہ کیا ہے کہ بعض مستشرقین کی اطلاعات سیف کی روایتوں پر مبنی ہیں.مثال کے طور پر مسلمانوں کی ابتدائی جنگوں میں بہت سے لوگوں کے قتل ہونے کی خبر اور یہ اعتقاد کہ ابن سبأ نام کا ایک گمنام یہودی پیغمبر ۖکے اصحاب کے اعتقادات میں نفوذ پیدا کرکے لوگوں کو عثمان کے خلاف شورش پر اکسانے کا اصلی محرّک ہوا اور وہی عثمان کے قتل کاسبب بھی بنا ، (اسی طرح) وہ علی اور طلحہ و زبیر کے درمیان جنگ کے شعلے بڑھکانے میں بھی کامیاب ہوا ۔بعض امور میں ممکن ہے یہ صحیح ہو،لیکن تمام مواقع پر ہرگز یہ حقیقت نہیں ہوسکتی۔یہ (بات) عبد اللہ ابن سبا کے بارے میں دائرة المعارف اسلامی کے طبع اول اور دوم میں شائع ہوئے چند مقالات میں واضح طور پر ذکر ہوئی ہے۔سیف نے قبیلہ تمیم سے سور ماؤں کو جعل کرنے میں کافی وقت صرف کیا ہے ،یہ قبیلہ سیف کا خاندان تھا،لیکن سر و یلیم مویر بہت پہلے کہہ چکے ہیں کہ مرتدوں کی جنگوں کے دوران کس طرح قبیلہ تمیم نے خلیفہ ٔاول کے لشکر کے سامنے ہتھیار ڈالدئے تھے۔یہاںپر سرٹامس آرنالڈ کے بیان کی طرف بھی اشارہ کیا جاسکتا ہے جو اس امر کی طرف توجہ دلاتے ہین کہ اسلام کے ابتدائی فتوحات زیادہ تر دینی عقائد کے پھلاؤ کے بجائے اسلامی حکومت کو وسعت دینے کے لئے تھے۔
دوسری کتاب (خمسون و مائة صحابی مختلق) میں اس نکتہ کی طرف توجہ دی گئی ہے کہ سیف کا وجود دوسری صدی ہجری کی پہلی چوتھائی میںتھا اور وہ قبائل ''مضر'' میں ''تمیم'' نامی ایک قبیلہ سے تعلق رکھتا تھا اور کوفہ کا رہنے والاتھا ، یہ مطلب انسان کو سیف کی داستانیں گھڑنے میں اس کے خوہشات اور اسباب وعوامل کا مطالعہ کرنے میں مدد کردیتا ہے.اس کتاب میں ''زنادقہ ''اور ''مانی''کے پیرؤں کے بارے میں بھی بحث ہوئی ہے،چونکہ اُس معاشرے میں خاندانی تعصب کا سلسلہ پیغمبر ۖکے زمانہ سے عباسیوں تک جاری رہاہے اور اس تعصب کی وجہ سے سیف شمالی قبائل کی تعریفیں کرتا ہے اور ان سے بہادر اور شعراء جعل کرتاہے، جنہوں نے اس قبیلہ کے سور ماؤں کے بارے میں شعر کہے ہیں، اس نے قبیلہ ''تمیم''سے پیغمبر کے کچھ اصحاب جعل کئے ہیں اور غزوات اور جنگوں کی داستانیں گڑھی ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں ہے ،اور اپنے جعلی سورماؤں کی بہادری جتلا نے کے لئے لاکھوں لوگوں کو قتل کرنے اور بہت سے افراد اسیر بنانے کا ذکر کیا ہے ۔ جو اشعار اس نے اپنے سور ماؤں سے منسوب کئے ہیں وہ قبائل ''مضر ''پھر قبیلہ ''تمیم'' اور '' بنی عمرو''کی ستائش و مدح سے مربوط ہیں ،کہ سیف اسی خاندان سے تعلق رکھتا ہے (الف) ۔سیف نے قبیلہ'' مضر '' کے بعض لوگوں کو ان جنگوں کے اصلی ہیرو کے عنوان سے پیش کیا ہے ،جن کے حقیقی رہبر دوسرے قبیلوں کے بہادر تھے۔ بعض موارد میں (سیف نے ) اس وقت کے معاشرے میں موجود افراد کو بہادروں کے طور پر پیش کیا ہے اور بعض دیگر موارد میں کچھ اور (جعلی) رہبر وں کا نام لیا ہے جو اس کے (اپنے ) تخیل کی ایجاد ہیں۔ یہ موضوع بھی مورد بحث قرار پایا ہے کہ سیف کی جھوٹی روایات کا( مقصد ) ایک طرف عام لوگوں (مسلمانوں) کے افکار میں تشویش پیدا کرکے ان کے اعتقادات میں تبدیلیاں لانا تھا اور دوسری طرف (مسلمانوں کے لئے ) غیر مسلمین میں ایک غلط تصور ایجاد کرنا تھا ۔سیف سند جعل کرنے اور جھوٹی خبر یں گڑھنے میںایسی مہارت رکھتا تھا کہ اس کی جعلی روایتیں (بعض افراد کے نزدیک ) ایک حقیقی تاریخ کے عنوان سے مورد قبول قرار پائی ہیں۔
یہ سیف کی خطائوں کا یک خلاصہ ہے ،جس کی وجہ سے وہ مجرم قرار پایا ہے ۔''مؤلف'' نے کتاب کے اصلی حصہ میں ٢٣اشخاص (جعلی اصحاب ) کے بارے میں مفصل بحث کی ہے اور سیف کی روایتوں کے چند نمونے پیش کرکے واضح طور پرثابت کیا ہے کہ سیف کی رواتیں کس طرح بنیادی منابع اور موثق اسناد کے ساتھ زبردست تضاد رکھتی ہیں۔ روایت جعل کرنے میں ہی نہیں بلکہ
..............
١لف۔سیف کا نسب قبیلہ تمیم کے ایک خاندان ''بنی عمرو'' تک پہنچتاہے ۔
ایسے راویوں کے نام ذکر کرنے میں بھی یہ فرق صاف نظر آتا ہے جن کا حقیقت میں کوئی وجود ہی نہیںتھا ۔
یہ کتاب انتہائی دقت و مہارت کے ساتھ لکھی گئی ہے اور اس میں سیف (کی روایتوں ) کے قابل اعتماد ہونے کے خلاف انتہائی اطمینان بخش بحث کی گئی ہے۔ جب کہ بعض معروف مولفین نے بھی سیف کی روایتوں کو اپنی تالیفات میں نقل کیا ہے ،اس کے علاوہ سیف کی دو کتابیں (فتوح و جمل) پر بھی بحث کی گئی ہے اور ثابت کیا گیا ہے کہ ان کے مطالب اور اس کے بعد والے مولفین کی تالیفات (جنھوں نے ان مطالب پر تکیہ کیا ہے) بھروسہ کے قابل نہیں ہیں۔
یہ (کتاب )ایک انتہائی محکم اور فیصلہ کن تحقیق ہے ،جو بڑی دقت ،دور اندیشی ،اور تنقید کی عالی کیفیت پر انجام پائی ہے ۔مجھے اس بات پر انتہائی خوشی ہے کہ ان بحثوں کے مطالعہ کے لئے کافی وقت نکال سکا ۔یہ بحثیں میرے لئے مکمل طور پر قابل قبول اور اطمینان بخش ہیں ،اور مطمئن ہوں کہ جو لوگ ان کتابوں کا کھلے ذہن سے مطالعہ کریں گے وہ ان میں موجودتنقید ی توانائی کی ستائش کریں گے ۔
کتابیں ارسال کرنے پر آپ کا انتہائی شکر گزار ہوں اور معذرت چاہتا ہوں کہ پیری اور دیگر ناتوانیوں کی وجہ سے جواب لکھنے میں تاخیر ہوئی ۔
آپ کا عقیدت مند
جیمس رابسن
پتہ : جیمس رابسن ۔ 17ووڈ لینڈزڈرایو ۔گلاسکو ،Q.E9,4Gانگلستا ن