شرح حدیث 11 - 20 | |||||
حدیث نمبر 11: تسبیح خاك شفا كی فضیلت
<مِنْ فَضْلِہ، اٴَنَّ الرَّجُلَ یَنْسیٰ التَّسْبیحَ وَیُدِیرُ السُّبْحَةَ فَیُكْتَبُ لَہُ التَّسْبِیحُ>29
”(تربت سید الشھداء) كی فضیلت یہ ھے كہ جب خاك شفا كی تسبیح ھاتھ میں لے كر گھمائی جائے تو اس كا ثواب تسبیح و ذكر كا ثواب ھوتا ھے اگرچہ كوئی ذكر و دعا بھی نہ پڑھی جائے“۔ شرح یہ حدیث ان جوابات میں سے ھے جن كو امام زمانہ علیہ السلام نے محمد بن عبد اللہ حمیری كے سوالوں كے جواب میں ارشاد فرمائی ھے، موصوف نے امام زمانہ علیہ السلام سے سوال كیا تھا كہ كیا امام حسین علیہ السلام كی قبر كی مٹی سے تسبیح بنانا جائز ھے؟ اور كیا اس میں كوئی فضیلت ھے؟ امام زمانہ علیہ السلام نے سوال كے جواب كے آغاز میں فرمایا: ”تربت قبر حسین علیہ السلام (یعنی خاك شفا) كی تسبیح بنا سكتے ھو، جس سے خداوندعالم كی تسبیح كرو؛ كیونكہ تربت امام حسین علیہ السلام سے بہتر كوئی چیز نھیں ھے، اس كے فضائل میں سے ایك یہ ھے كہ اگر كوئی ذكر بھی نہ كھے اور فقط تسبیح كو گھماتا رھے تو بھی اس كے لئے تسبیح كا ثواب لكھا جاتا ھے“۔ ھاں پر تربت حسینی یا خاك شفا كے بارے میں دو نكتوں كی طرف اشارہ كرنا مناسب ھے: 1۔ تربت قبر حسین علیہ السلام ان تربتوں میں شمار ھوتی ھے جن كو خداوندعالم نے مبارك قرار دیا ھے؛ كیونكہ یہ اس زمین كا حصہ ھے جس میں حضرت سید الشھداء امام حسین علیہ السلام كا پاك و مبارك جسم دفن ھے۔ خاك شفا كی تسبیح كے مستحب ھونے كے اغراض و مقاصد میں سے یہ بھی ھے كہ جس وقت انسان خاك شفا كی تسبیح كو ھاتھ میں لیتا ھے، تو خداوندعالم كی بارگاہ میں حضرت امام حسین علیہ السلام كی فداكاری اور قربانی كو یاد كرتا ھے ، اور یہ كہ انسان عقیدہ اور خدا كی راہ میں كس طرح فداكاری اور ظالموں كا مقابلہ كرسكتا ھے۔ انسان اس حال میں ان پاك و مقدس ارواح كو یاد كرتا ھے جو معشوق حقیقی كی راہ میں اپنی جان قربان كرچكی ھیں اور ملكوت اعلیٰ (بارگاہ رب العزت) كی طرف پرواز كرچكی ھیں۔ اس عالم میں انسان كے اندر خضوع و خشوع پیدا ھوتا ھے ، اور اس كی نظر میں دنیا اور اس كا ساز و سامان حقیر دكھائی دیتا ھے، نیز اس كے نفس میں مخصوص عرفانی اور معنوی حالت پیدا ھوتی ھے اور یہ حضرت امام حسین علیہ السلام كی تربت كے ارتباط اور توسل كی بنا پر ھے؛ اسی وجہ سے ھم احادیث میں پڑھتے ھیں كہ تربت حسینی پر سجدہ كرنے سے ساتوں پردے ہٹ جاتے ھیں۔ 2۔ تربت حسینی كے منجملہ فوائد اور بركات میں سے ایك فائدہ اور بركت یہ ھے (جس كو اھل بیت علیھم السلام نے ھمیشہ لوگوں كے سامنے بیان كیا ھے) كہ امام حسین علیہ السلام كی مظلومیت لوگوں پر واضح ھوجائے؛ كیونكہ جب نمازی ھر روز نماز كے بعد تسبیح خاك شفا سے فیضیاب ھوتے وقت جب اس كی نظر خاك شفا پر پڑتی ھے تو امام حسین علیہ السلام اور آپ كے اصحاب و اھل حرم كی فداكاریوں كو یاد كرتا ھے، جبكہ یہ بات معلوم ھے كہ ایسے نمونوں كو یاد كرنا (نفسیاتی لحاظ سے) انسان كے نفس میں عجیب و غریب تربیتی اور معنوی اثر پیدا كرتا ھے، اور انسان كو (سچا) حسینی بنا دیتا ھے اور انسانی وجود میں انقلاب حسینی كی روح اور خون كو حركت میں لاتا ھے۔ حدیث نمبر 12: لوگوں كی حاجت روائی كرنا
<مَنْ كٰانَ في حٰاجَةِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ كٰانَ اللهُ فِي حٰاجَتِہِ>30
”جو شخص خداوندعالم كی حاجت31 كو پورا كرنے كی كوشش كرے تو خداوندعالم بھی اس كی حاجت روائی اور اس كی مرادوں كو پوری كردیتا ھے“۔ شرح اس حدیث كو شیخ صدوق علیہ الرحمہ نے اپنے پدر بزگوار سے، انھوں نے سعد بن عبد اللہ سے، انھوں نے ابوالقاسم بن ابو حلیس (حابس) سے انھوں نے حضرت امام مھدی علیہ السلام سے نقل كیا ھے۔ امام علیہ السلام نے حلیسی كے خلوص اور عام طور پر اس اخلاقی نكتہ كی طرف اشارہ فرمایا ھے: جو شخص خداوندعالم كی حاجت كو پورا كرنے كی كوشش كرے تو خداوندعالم بھی اس كی حاجت روائی كرتا ھے اور اس كی مرادوں كو پوری كردیتا ھے۔ اگرچہ خداوندعالم كی حاجت سے مراد اس حدیث كے دوسرے حصہ میں حضرت امام حسین علیہ السلام كی خلوص نیت كے ساتھزیارت كرنا ھے، لیكن امام زمانہ علیہ السلام نے اس كو ایك عام قانون كی صورت میں بیان كیا ھے اور امام حسین علیہ السلام كی زیارت كو اس كا ایك مصداق قرار دیا ھے، یعنی اگر انسان ان كاموں كو انجام دے جن كا انجام دینا مطلوب اور جن كے سلسلہ میں خدا كا حكم ھو، اس وجہ سے اس كو ”خداوندعالم كی حاجت اور طلب“ كھا جاسكتا ھے، لہٰذا خداوندعالم بھی انسان كے كاموں كی اصلاح كردیتا ھے۔ اس بات كی یاددھانی مناسب ھے كہ خداوندعالم كسی چیز كا محتاج نھیں ھے بلكہ وہ قاضی الحاجات یعنی حاجتوں كا پورا كرنے والا ھے اور تمام مخلوق سراپا اس كی محتاج ھے۔ جیسا كہ خداوندعالم نے ارشاد فرمایا: < یَااٴَیُّہَا النَّاسُ اٴَنْتُمُ الْفُقَرَاءُ إِلَی اللهِ وَاللهُ ہُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِیدُ>32 ”انسانو! تم سب اللہ كی بارگاہ كے فقیر ھو اور اللہ صاحب دولت اور قابل حمد و ثنا ھے“۔ اس حدیث میں خداوندعالم كی حاجت كی طرف اشارہ ھوا، اس كی وجہ یہ ھے كہ خداوندعالم كی حاجت مخلوق كی حاجت میں ھے، دوسرے لفظوں میں یوں كھا جائے كہ جس شخص نے لوگوں كی حاجت روائی كی گویا اس نے خدا كی حاجت پوری كی ھے۔ اس حدیث میں دوسرا احتمال یہ پایا جاتا ھے كہ ”خدا كی حاجت“ سے مراد خداوندعالم كے احكام مراد ھوں، چاھے وہ امر ھو یا نھی، جن كو خداوندعالم چاہتا ھے، اور اگر كوئی شخص خدا كے احكام كی اطاعت كرے تو خداوندعالم بھی اس كی حاجت پوری كرتا ھے۔ حدیث نمبر 13: استغفار، بخشش كا ذریعہ
<إِذٰا اسْتَغْفَرْتَ اللهَ، فَاللهُ یَغْفِرُ لَكَ>33
”اگر تم خدا سے استغفار كروگے تو خداوندعالم بھی تم كو معاف كردےگا“۔ شرح شیخ كلینی علیہ الرحمہ اس حدیث شریف كو امام زمانہ علیہ السلام كی احادیث كے ضمن میں بیان كرتے ھیں۔ حدیث كا خلاصہ یہ ھے كہ یمانی نام كا ایك شخص سامرہ میں آتا ھے۔ امام زمانہ علیہ السلام كی طرف سے اس كے لئے ایك تھیلی پھنچتی ھے جس میں دو دینار اور دو لباس تھے، لیكن وہ ان كو كمترین ھدیوں میں شمار كرتے ھوئے ردّ كردیتا ھے، لیكن كچھ دنوں بعد اپنے اس كام پر شرمندہ ھوتا ھے، اور ایك خط لكھ كر معذرت خواھی كرتا ھے، اور اپنے دل میں توبہ كرتے ھوئے یہ نیت كرتا ھے كہ اگر دوبارہ (امام علیہ السلام كی طرف سے) كوئی ھدیہ ملے گا تو اس كو قبول كرلوں گا۔ چنانچہ كچھ مدت بعد اس كو ایك ھدیہ ملتا ھے، اور امام علیہ السلام یمانی كے لئے اشارہ كرتے ھوئے فرماتے ھیں: ”تم نے ھمارا ھدیہ ردّ كركے غلطی كی ھے، اگر تم خدا سے مغفرت طلب كرو تو خداوندعالم تمھیں معاف كردے گا“۔ اس توقیع مبارك میں د و نكات كی طرف اشارہ ھوا ھے: 1۔ امام زمانہ علیہ السلام اسرار اور مخفی باتوں كا علم ركھتے ھیں، یھاں تك كہ لوگوں كے دل كی نیت سے بھی آگاہ ھیں؛ لہٰذا حضرت امام صادق علیہ السلام آیہٴ شریفہ <قُلْ اعْمَلُوا فَسَیَرَی اللهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُہُ وَالْمُؤْمِنُونَ>34 كے ذیل میں بیان ھونے والی حدیث میں فرماتے ھیں: ”مومنین سے مراد، ائمہ (معصومین علیھم السلام) ھیں“۔ 2۔ خداوندعالم سے طلب مغفرت كرنا گناھوں كی بخشش كا سبب ھے۔ اور چونكہ طلب ایك امرِ قلبی كا نام ھے اور لفظوں كی صورت میں بیان كرنے كی ضرورت نھیں ھے، اس حدیث سے یہ معلوم ھوتا ھے كہ صرف طلب مغفرت (شرمندگی اور دوبارہ گناہ نہ كرنے كے عزم كے ساتھ) گناھوں كی بخشش اور توبہ كے لئے كافی ھے۔ البتہ مكمل توبہ كے لئے كچھ خاص شرائط ھیں جن كی طرف حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے ایك حدیث كے ضمن میں اشارہ فرمایا ھے۔ 35 حدیث نمبر 14: ایك دوسرے كے حق میں استغفار كرنا
<لَوْلاٰ اسْتِغْفٰارُ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ لَہَلَكَ مَنْ عَلَیْہٰا> 36
”اگر تم میں ایك دوسرے كے لئے طلب مغفرت نہ ھوتی تو زمین پر بسنے والے تمام لوگ ھلاك ھوجاتے “۔ شرح امام مھدی علیہ السلام ابن مہزیار سے ایك طولانی خطاب میں اپنے شیعوں كو ایك دوسرے كے حق میں استغفار كرنے كی رغبت دلاتے ھیں؛ كیونكہ اس كام كے فوائد اور بركتیں زمین اور اس پر بسنے والوں سے عذاب كا دور رھنا ھے۔ قرآنی آیات سے یہ معلوم ھوتا ھے كہ اس دنیا میں عذاب الٰھی سے محفوظ رھنے كے لئے دو سبب پائے جاتے ھیں: 1۔ پیغمبر اكرم (ص) كا وجود مبارك: جیسا كہ خداوندعالم ارشاد فرماتا ھے: <مٰا كٰانَ اللهُ لِیُعَذِّبَہُمْ وَاٴَنْتَ فِیْہِمْ>37 ”حالانكہ جب تك تم ان كے درمیان موجود ھو تو خدا ان پر عذاب نھیں كرےگا“۔ 2۔ استغفار: جیسا كہ خداوندعالم ارشاد فرماتا ھے: <مٰا كٰانَ اللهُ لِیُعَذِّبَہُمَْ وہُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ>38 ”اور اللہ ان لوگوں پر جب وہ توبہ و استغفار كرتے رھیں ھرگز عذاب نھیں كرے گا“۔ اس حدیث سے بھی دو نكات معلوم ھوتے ھیں: الف) گناہ، اسی دنیا میں ھلاكت اور عذاب كا سبب ھوتا ھے۔ ب) استغفار، بخشش كا سبب ھے، خصوصاً اگر ایك دوسرے كے حق میں استغفار كیا جائے۔ حدیث نمبر 15: انسان كا امام غائب سے فیض حاصل كرنا
<اٴَمّٰا وَجْہُ الْاِنْتِفٰاعِ بِي فِي غَیْبَتِي فَكَالْاِنْتِفٰاعِ بِالشَّمْسِ إِذٰا غَیَّبَتْہٰا عَنِ الْاٴَبْصٰارِ السَّحٰابُ>39
”لیكن میری غیبت میں مجھ سے فیض حاصل كرنا اسی طرح ھے جس طرح بادلوں كے پیچھے چھپے سورج سے فیض حاصل كیا جاتا ھے“۔ شرح امام زمانہ علیہ السلام كا یہ كلام اس حدیث كا آخری حصہ ھے جس كو آپ نے اسحاق بن یعقوب كے جواب میں تحریر فرمایا ھے، شیخ صدوق اور شیخ طوسی علیھما الرحمہ نے اس حدیث كو نقل كیا ھے۔ اس حدیث مبارك میں امام زمانہ علیہ السلام كی غیبت كبریٰ كو بادلوں كے پیچھے چھپے سورج سے تشبیہ دی ھے۔ اس تشبیہ میں بہترین نكات پائیں جاتے ھیں، جن میں بعض كی طرف اشارہ كیا جاتا ھے: 1۔ امام مھدی علیہ السلام نے اپنے كو سورج كے مشابہ قرار دیا ھے، جس طرح سورج موجودات كے لئے آب حیات اور نور و حرارت وغیرہ كا باعث ھوتا ھے اور اس كے نہ ھونے كی صورت میں تمام موجودات كی زندگی سامان سفر باندھ لیتی ھے، اسی طرح معاشرہ كی معنوی زندگی اور اس كی بقاء بھی امام زمانہ علیہ السلام كے وجود سے وابستہ ھے۔ بعض اسلامی روایات میں بیان ھوا ھے كہ ائمہ معصومین علیھم السلام خلقت ِمخلوق كا اصلی ترین مقصد ھیں۔ 2۔ جس طرح سورج منجملہ مخلوقات میں سے ایك مخلوق ھے لیكن اس كے ساتھ ساتھ موجودات كے لئے نور و حرارت سے فیضیاب ھونے میں واسطہ ھے۔ اسی طرح امام علیہ السلام كا وجود بھی مخلوقكے فیض حاصل كرنے میں ایك عظیم واسطہ ھے، اور خداوندعالم كا فیض جیسے نعمت اور ھدایت وغیرہ اسی واسطہ كے ذریعہ مخلوقات تك پھنچتا ھے۔ 3۔ جس طرح لوگ بادلوں كے پیچھے سے سورج كے نكلنے كا انتظار كرتے ھیں تاكہ اس سے مكمل اور كامل طور پر فائدہ اٹھاسكیں، امام زمانہ علیہ السلام كی غیبت كے زمانہ میں بھی مومنین آپ كے ظھور كا انتظار كرتے ھیں اور ان كے ظھور سے نا امید نھیں ھوتے۔ 4۔ امام زمانہ علیہ السلام كے وجود كا منكر بالكل اسی طرح ھے جیسے كوئی بادلوں كے پیچھے چھپےسورج كا منكر ھوجائے۔ 5۔ جس طرح بادل سورج كو مكمل طریقہ سے نھیں چھپاتے اور سورج كا نور زمین اور زمین والوں تك پھنچتا رہتا ھے، اسی طرح غیبت بھی امام علیہ السلام كے فیض پھنچانے میں مكمل مانع نھیں ھے، لہٰذا (بہت سے مومنین) آپ كے وجود مبارك سے فیضیاب ھوتے رہتے ھیں، توسل: امام علیہ السلام سے فیضیاب ھونے كے منجملہ راستوں میں سے ایك راستہ ھے۔ 6۔ جس طرح بعض علاقوں میں معمولاً بادل چھائے رہتے ھیں، لیكن كبھی كبھی سورج بادلوں كو چیرتے ھوئے ان كے درمیان سے نمایاں ھوجاتا ھے اور بہت سے لوگ سورج كو دیكھ لیتے ھیں اگرچہ تھوڑی ھی دیر كے لئے ھی كیوں نہ ھو، اسی طرح بعض مومنین امام زمانہ علیہ السلام كی خدمت مبارك میں حاضر ھوتے ھیں اور آپ كے وجود سے (براہ راست) فیضیاب ھوتے ھیں، چنانچہ اس طرح عام لوگوں كے لئے امام علیہ السلام كا وجود ثابت ھوجاتا ھے۔ 7۔ جس طرح سورج سے دیندار اور بے دین لوگ فائدہ اٹھاتے ھیں اسی طرح امام زمانہ علیہ السلام كے وجود كی بركتیں پوری دنیا كے شامل حال ھوتی ھیں، اگرچہ لوگ آپ كو نہ پہچانیں اور آپ كی قدر نہ جانیں۔ 8۔ جس طرح سورج كی كرنیں دروازوں اور كھڑكیوں كے اندازہ كے مطابق كمرے میں آتی ھیں اور لوگ اسی مقدار میں اس سے فائدہ اٹھاتے ھیں، اسی طرح امام زمانہ علیہ السلام كے وجود كی بركتوں سے فیضیاب ھونا بھی انسان كی قابلیت اور صلاحیت كی بنا پر ھوتا ھے۔ انسان جس قدر اپنے سے موانع اور پردوں كو دور كرتا ھے اور اپنے دل (كی آغوش) كو مزیدپھیلاتا ھے اتنا ھی آپ كے وجود كی بركتوں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھاتا ھے۔ 9۔ جس طرح بادل سورج كو ختم نھیں كرتے اور صرف سورج كے دیكھنے میں ركاوٹ پیدا كرتے ھیں، امام زمانہ علیہ السلام كی غیبت بھی صرف آپ كے دیدار میں مانع ھے۔ حدیث نمبر 16: امام علیہ السلام كے ظھور میں تاخیر كی وجہ
<وَلَوْ اٴَنَّ اٴشْیٰاعَنٰا (وَ فَّقَہُمُ اللهُ لِطٰاعَتِہِ) عَلَی اجْتِمٰاعٍ مِنَ الْقُلُوبِ فِي الْوَفٰاءِ بِالْعَہْدِ عَلَیْہِمْ لَمٰا تَاٴَخَّرَ عَنْہُمُ الْیُمْنَ بِلِقٰائِنٰا، وَ لَتَعَجَّلَتْ لَہُمُ السَّعٰادَةُ بِمُشٰاہَدَتِنٰا عَلیٰ حَقِّ الْمَعْرِفَةِ وَ صِدْقِہٰا مِنْہُمْ بِنٰا، فَمٰا یَحْبِسُنٰا عَنْہُمْ إِلاّٰ مٰا یَتَّصِلُ بِنٰا مِمّٰا نَكْرَہُہُ وَلاٰ نُوٴْثِرُہُ مِنْہُمْ>40
”اگر ھمارے شیعہ (خدا ان كو اطاعت كی توفیق دے) اپنے عھد و پیمان كو پورا كرنے كی كوشش میں ھمدل ھوںتو پھر ھماری ملاقات كی بركت میں تاخیر نھیں ھوتی، اور ھمارے دیدار كی سعادت جلد ھی نصیب ھوجاتی، ایسا دیدار جو حقیقی معرفت اور ھماری نسبت صداقت پر مبنی ھو، ھمارے مخفی رھنے كی وجہ ھم تك پھنچنے والے اعمال كے علاوہ كوئی اور چیز نھیں ھے جبكہ ھمیں ان سے ایسے اعمال كی امید نھیں ھے“۔ شرح یہ اس خط كے جملے ھیں جس كو امام زمانہ علیہ السلام نے شیخ مفید علیہ الرحمہ كے لئے بھیجا تھا۔ امام علیہ السلام نے اس خط میں شیخ مفید علیہ الرحمہ كو چند سفارشیں كرنے اور اپنے شیعوں كے لئے كچھ احكام بیان كرنے كے بعد اس اھم چیز كی طرف اشارہ كیا جو غیبت كا سبب ھوئی ھے۔ امام علیہ السلام شیعوں كے درمیان خلوص اور ھمدلی نہ ھونے كو اپنی غیبت كا سبب شمار كرتے ھیں۔ تاریخ كے پیش نظر یہ بات واضح ھے كہ جب تك لوگ نہ چاھیں اور سعی و كوشش نہ كریں تو حق اپنی جگہ قائم نھیں ھوپاتا، اور حكومت اس كے اھل كے ھاتھوں میں نھیں آتی۔ حضرت علی ، امام حسن اور امام حسین علیھم السلام كی تاریخ اس بات پر بہترین دلیل ھے۔ اگر لوگ حضرت علی علیہ السلام كی خلافت پر اصرار كرتے تو پھر آج تاریخ كا ایك دوسرا رخ ھوتا، لیكن اس وقت كے لوگوں میں دنیا طلبی اور خوف و وحشت وغیرہ اس بات كا سبب بنی كہ ھمیشہ تك دنیا والوں مخصوصاً شیعوں كو ظلم و ستم كے علاوہ كچھ دیكھنے كو نہ ملا۔ افسوس كہ ھماری كوتاھی اور ھمارے بُرے كام اس بات كا سبب ھوئے كہ وہ محرومیت اب تك چلی آرھی ھے۔ اس حدیث كے مطابق امام زمانہ علیہ السلام كے ظھور كی تعجیل كے سلسلہ میں ھماری ذمہ داری ھے كہ ھم اپنے اور اپنے رشتہ داروں پر امام علیہ السلام كو مقدم كریں، اور اسلامی احكام كو جاری كریں اور اسلام كی تبلیغ كے ذریعہ دنیا والوں كے سامنے امام زمانہ علیہ السلام كا تعارف كرائیں، اور دلوں كو امام كی طرف متوجہ كریں، تاكہ خدا كی مشیت سے بہت جلد ھی لوگوں میں امام زمانہ علیہ السلام كو قبول كرنے كا زمینہ ھموار ھوجائے۔ اس حدیث مبارك سے چند چیزیں معلوم ھوتی ھیں: 1۔ خداوندعالم نے شیعوں سے عھد و پیمان لیا ھے كہ ائمہ معصومین علیھم السلام كی پیروی كریں اور یھی پیروی امام زمانہ علیہ السلام كی ملاقات كے شرف كا سبب ھے۔ 2۔ شیعوں كے بُرے اعمال اپنے امام سے دوری كا سبب بنے ھیں؛ لہٰذا ھمارے نیك اعمال امام زمانہ علیہ السلام سے رابطہ میں موٴثر واقع ھوسكتے ھیں۔ حدیث نمبر 17: غیبت، منجملہ تقدیرات الٰھی میں سے ھےv
<اٴَقْدٰارُ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ لاٰ تُغٰالَبُ وَإِرٰادَتُہُ لاٰ تُرَدُّ وَ تَوْفیقُہُ لاٰ یُسْبَقُ>41
”جو چیزیں خداوندعالم نے مقدّر فرمادی ھیں وہ كبھی مغلوب نھیں ھوتیں، اور اس كا ارادہ كبھی ردّ نھیں ھوتا، اور اس كی توفیق پر كوئی چیز سبقت حاصل نھیں كرسكتی“۔ شرح یہ حدیث امام زمانہ علیہ السلام كے اس كلام كا حصہ ھیں جس كو آپ نے اپنے دو نائبوں عثمان بن سعید اور ان كے فرزند محمد ابن عثمان كے لئے بھیجے گئے خط میں تحریر كیا تھا۔ امام علیہ السلام اس توقیع میں اپنی غیبت كے مسئلہ كی طرف اشارہ كرتے ھوئے فرماتے ھیں: یہ موضوع تقدیر الٰھی ھے اور خدا كا حتمی و یقینی ارادہ اس سے متعلق ھے۔ امام مھدی علیہ السلام نے اس توقیع میں چند نكات كی طرف اشارہ فرمایا ھے: 1۔ كوئی بھی شخص تقدیر الٰھی كے مقابلہ میں كامیاب نھیں ھوسكتا؛ كیونكہ وہ ”مقدِّر كلّ قَدَر“ ھے اور اس كی قدرت تمام قدرتوں سے بلند و بالا ھے۔ 2۔ اگر خداوندعالم كسی چیز كے بارے میں حتمی ارادہ كرلے تو پھر اس كے ارادہ پر كوئی غالب نھیں آسكتا اور اس كے نافذ كرنے میں مانع نھیں ھوسكتا؛ كیونكہ اس كے ارادہ سے اوپر كسی كا ارادہ نھیں ھوسكتا۔ جیسا كہ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام كی دعا میں ھم پڑھتے ھیں: ”پروردگارا! حمد و ثنا تجھ سے مخصوص ھے كیونكہ تو ایسا صاحب قدرت ھے جو كبھی مغلوب نھیں ھوتا“۔42 حدیث نمبر 18: زمانہٴ غیبت میں فقھا كی طرف رجوع كرنا
<اٴَمَّا الْحَوٰادِثُ الْوٰاقِعَةُ فَارْجِعوُا فیہٰا إِلٰی رُوٰاةِ حَدیثِنٰا، فَإِنَّہُمْ حُجَّتِي عَلَیْكُمْ وَ اٴَنَا حُجَّةُاللهِ عَلَیْہِمْ>43
”لیكن ھر زمانہ میں پیش آنے والے حوادث (اور واقعات) میں ھماری احادیث بیان كرنے والے راویوں كی طرف رجوع كرو، كیونكہ وہ تم پر ھماری حجت ھیں اور میں ان پر خدا كی حجت ھوں“۔ شرح یہ حدیث ان مطالب كا ایك حصہ ھے جس كو امام زمانہ علیہ السلام نے اسحاق بن یعقوب كے سوالات كے جواب میں ارشاد فرمایا ھے۔ اس حدیث شریف میں امام علیہ السلام زمانہٴ غیبت میں اپنے شیعوں كو رونما ھونے والے حوادث كے موقع پر ان كی ذمہ داری كی طرف اشارہ فرماتے ھیں۔ امام مھدی علیہ السلام اپنے شیعوں كو شرعی یا معاشرتی مسائل كو سمجھنے كے لئے روایان حدیث (كہ جو فقھائے شیعہ ھیں) كی طرف رجوع كرنے كا حكم دیتے ھیں؛ كیونكہ یھی حضرات حدیث كو اچھی طرح سمجھتے ھیں، اور خاص و عام، محكم و متشابہ اور صحیح و باطل كو پہچانتے ھیں۔ امام زمانہ علیہ السلام كی نظر میں ”راویان حدیث“ وہ لوگ نھیں ھیں جو فقط روایت كو نقل كرتے ھیں بغیر اس كے اس كو صحیح طور پر سمجھے ھوئے ھوں؛ كیونكہ ایسے افراد شرعی و غیر شرعی مشكلات كو حل نھیں كرسكتے۔ عصر غیبت میں فقھا كی طرف رجوع كرنا كوئی مستحب كام نھیں ھے بلكہ ایك واجب شرعی ھے؛ كیونكہ فقھائے كرام امام زمانہ علیہ السلام كی طرف سے اس كام كے لئے مقرر ھوئے ھیں اور امام علیہ السلام كے فرمان كی مخالفت نھیں كی جاسكتی۔ حدیث نمبر 19: زكوٰة، نفس كو پاك كرنے والی ھے
<اٴمّٰا اٴَمْوٰالُكُمْ فَلاٰ نَقْبَلُہٰا إِلّا لِتَطَہَّرُوْا، فَمَنْ شٰاءَ فَلْیَصِلْ وَ مَنْ شٰاءَ فَلْیَقْطَعْ، فَمٰا آتٰانِي اللهُ خَیْرٌ مِمّٰا آتٰاكُمْ> 44
”لیكن تمھارے مال كو ھم صرف اس وجہ سے قبول كرلیتے ھیں تاكہ تم پاك ھوجاؤ۔ لہٰذا جو چاھے ادا كرے جو چاھے ادا نہ كرے۔ خداوندعالم نے جو چیزیں ھم كو عطا كی ھیں ان چیزوں سے بہتر ھے جو تمھیں عطا كی ھیں“۔ شرح یہ حدیث ان مطالب كا ایك حصہ ھے جن كو امام زمانہ علیہ السلام نے اسحاق بن یعقوب كے سوالات كے جواب میں اپنی توقیع میں تحریر فرمایا ھے۔ اسحاق بن یعقوب كہتے ھیں: میں نے كچھ سوالات جمع كئے اور آپ كے دوسرے نائب خاص محمد بن عثمان عمری كی خدمت میں پیش كئے، اور ان سے گزارش كی كہمیرے ان سوالات كو امام زمانہ علیہ السلام كی خدمت میں پھنچا دیجئے اور ان كے جوابات كی بھی درخواست كیجئے۔ امام زمانہ علیہ السلام نے ایك توقیع میں اپنے قلم سے چند چیزوں كی یاد دھانی كے بعد اس طرح فرمایا: ”لیكن تمھارے مال كو ھم صرف اور صرف اس وجہ سے قبول كرلیتے ھیں تاكہ تم پاك ھوجاؤ۔ لہٰذا جو چاھے اپنا مال بھیجے جو چاھے نہ بھیجے ۔ خداوندعالم نے جو چیزیں ھم كو عطا كی ھیں ان چیزوں سے بہتر ھے جو تمھیں عطا كی ھیں“۔ امام زمانہ علیہ السلام اپنے اس كلام مبارك میں اس نكتہ كی طرف اشارہ فرماتے ھیں كہ مالی واجب حقوق كو ادا كرنے كا فائدہ خود انسان تك پھنچتا ھے، اور امام علیہ السلام اس مال كو اس وجہ سے قبول كرتے ھیں تاكہ خود ادا كرنے والا پاك و پاكیزہ ھوجائے، نہ یہ كہ امام خود اس چیز كا محتاج ھوتا ھے۔ قرآن كریم نے زكوٰة سے متعلق، آیت میں اس نكتہ كی طرف اشارہ كیا ھے: <خُذْ مِنْ اٴَمْوَالِہِمْ صَدَقَةً تُطَہِّرُہُمْ وَتُزَكِّیہِمْ بِہَا وَصَلِّ عَلَیْہِمْ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَہُمْ> 45 ”(اے پیغمبر!) آپ ان كے اموال میں سے زكوٰة لے لیجئے تاكہ اس كے ذریعہ یہ پاك ھوجائیں اور انھیں دعائیں دیجئے كہ آپ كی دعا ان كے لئے تسكین قلب كا باعث ھوگی“۔ حدیث نمبر 20: مالی واجبی حقوق كو ادا كرنے كا فائدہ تقویٰ ھے
< اٴَنَّہُ مَنِ اتَّقیٰ رَبَّہُ مِنْ اخْوٰانِكَ فِي الدِّینِ وَ اٴَخْرَجَ مِمّٰا عَلَیْہِ إِلیٰ مُسْتَحِقّیہِ، كٰانَ آمِناً مِنَ الْفِتْنَةِ الْمُبْطِلَةِ، وَ مِحَنِہَا الْمُظْلِمَةِ الْمُظِلَّةِ وَ مَنْ بَخِلَ مِنْہُمْ بِمٰا اٴَعٰارَہُ اللهُ مِنْ نِعْمَةِ عَلیٰ مَنْ اٴَمَرَہُ بِصِلَتِہِ، فَإِنَّہُ یَكُونُ خٰاسِراً بِذٰلِكَ لِاٴُوْلاٰہُُ وَآخِرَتِہِ> 46
”بے شك كہ جو شخص اپنے دینی بھائی كے حقوق كے سلسلہ میں حكم الٰھی كا احترام كرے اور اپنے ذمہ مالی حقوق كو اس كے مستحق تك پھنچائے تو ایسا شخص باطل راہ كی طرف لے جانے والے فتنوں سے اور خطرناك بلاؤں سے محفوظ رہتا ھے، اور جو شخص بخل سے كام لے اور خداوندعالم نے جن نعمتوں كو اس كے پاس امانت ركھا ھے ان میں سے مستحق كو نہ دے، تو ایسا شخص دنیا و آخرت میں گھاٹا اٹھانے والا ھوگا“۔ شرح یہ كلام حضرت امام زمانہ علیہ السلام كے اس دوسرے خط كا ایك حصہ ھے جس كو آپ نے شیخ مفید علیہ الرحمہ كے نام لكھا ھے۔ امام علیہ السلام نے خط كے اس حصہ میں واجبی مالی حقوق كو ان كے مستحق تك پھنچانے اور اس كام كی خیر و بركت كی طرف اشارہ كیا ھے۔ امام علیہ السلام ان لوگوں كے لئے جو اھل تقویٰ ھیں اور ان كے ذمہ مالی حقوق ھیں (جیسے خمس اور زكوٰة وغیرہ) اگر وہ ان كو مستحق تك پھنچائیں تو امام علیہ السلام اس بات كی ضمانت لیتے ھیں كہ وہ اس خدا پسند عمل كے نتیجے میں فتنوں اور بلاؤں سے محفوظ رھیں گے، اور جو لوگ مالی حقوق كی ادائیگی میں كوتاھی سے كام لیں اور حقوق شرعیہ ادا كرنے میں كنجوسی كریں تو ان كے نصیب میں دنیا و آخرت كے گھاٹے كے علاوہ كچھ نھیں ھوگا۔ حقوق شرعی ادا كرتے وقت شیطان انسان كو بھكاتا ھے اور اس كو فقر و تنگدستی سے ڈراتا ھے۔ امام زمانہ علیہ السلام اپنے اس بیان سے ھمیں یہ سمجھانا چاہتے ھیں كہ واقعیت اور حقیقت یہ ھے كہ خمس و زكوٰة وغیرہ كی ادائیگی نہ كرنا فقر و تنگدستی كا باعث ھے نہ كہ راہ خدا میں خیرات كرنا۔ مالی واجب حقوق كو ادا كرنا بلكہ مستحب حقوق كو ادا كرنے سے نہ صرف یہ كہ انسان كے مال میں بركت ھوتی ھے بلكہ اس كی معنوی روزی میں بھی اضافہ ھوتا ھے، اس طرح اس كو اندھیری راھوں میں چراغ ھدایت مل جاتا ھے تاكہ راستہ كو گڑھے سے تمیز دے سكے۔ -------------------------------------------------------------------------------- 29. احتجاج، ج2، ص 312، بحار الانوار، ج53، ص165، ح4۔ 30. كمال الدین، ج 2، ص 493، ح 18، الخرائج والجرائح، ج 1، ص 443، ح24، بحار الانوار، ج51، ص331، ح 56۔ 31. خدا كی حاجت سے كیا مراد ھے؟ اس كی وضاحت چند سطروں كے بعد ملاحظہ فرمائیے۔ 32. سور ہ فاطر، آیت15۔ 33. كافی، ج 1، ص 521، ح 13، كمال الدین، ج 2، ص 490، ح 13، ارشاد، ج 2، ص 361، اعلام الوری، ج2، ص264، كشف الغمة، ج 3، ص251، بحار الانوار، ج51، ص329، ح 52، مدینة المعاجز، ج 8، ص 85۔ 34. سور ہ توبہ، آیت105۔ ترجمہ آیت: ” پیغمبر كہہ دیجئے كہ تم لوگ عمل كرتے رھو كہ تمھارے عمل كو اللہ ،رسول اور صاحبان ایمان سب دیكھ رھے ھیں۔ ۔ ۔ “۔ 35. تفسیر برھان، ج2، ص838، ح 2۔ (3) دیكھئے: نهج البلاغہ، حكمت 417، بحار الانوار، ج6، ص 36 تا 37، ح 59۔ 36. دلائل الامامة، ص297۔ 37. سورہ ٴ انفال، آیت 33۔ 38. سورہ ٴ انفال، آیت 33۔ 39. كمال الدین، ج2، ص485، ح10،الغیبة، شیخ طوسی، ص292، ح247، احتجاج، ج2 ، ص284،اعلام الوری، ج2، ص272، كشف الغمة، ج3، ص340، الخرائج و الجرائح، ج3، ص1115، بحار الانوار، ج53، ص181، ح10۔ 40. احتجاج، ج2، ص315، بحار الانوار، ج53، ص177، ح8۔ 41. كمال الدین، ج2، ص511، ح42، الخرائج و الجرائح، ج3، 1111، بحارالانوار، ج53، ص191، ح19۔ 42. صحیفہٴ سجادیة، دعا 49، شمارہ14، مہج الدعوات، ص222، بحار الانوار، ج92، ص428، ح43۔ 43. كمال الدین، ج2، ص484، ح10، الغیبة، شیخ طوسی، ص291، ح247، احتجاج، ج2 ، ص284،اعلام الوری، ج2، ص271، كشف الغمة، ج3، ص338، الخرائج و الجرائح، ج3،ص1114، بحار الانوار، ج53، ص181، ح10، وسائل الشیعہ، ج27، ص140، ح33424۔ 44. كمال الدین، ج2، ص484، ح4، الغیبة، طوسی، ص290، ح247، احتجاج، ج2 ، ص283،اعلام الوری، ج2، ص271، كشف الغمة، ج3، ص339، الخرائج و الجرائح، ج3،ص1114، بحارالانوار، ج53، ص180، ح10۔ 45. سورہ توبہ،آیت103۔ 46. احتجاج، ج2، ص325، بحار الانوار، ج53، ص177، ح8۔ |