مقدمہٴ مترجم | |||||
خداوندعالم نے ھمیشہ نوع بشر كی ھدایت كے لئے كوئی نہ كوئی انتظام كیا ھے، یہ ایك سنت الٰھی ھے اور سنت الٰھی میں كبھی تبدیلی نھیں آسكتی۔ جناب آدم (ع) سے لے كر ختمی مرتبت حضرت رسول اكرم (ص) تك تمام انبیاء علیھم السلام انسان كی ھدایت كے لئے اس دنیا میں رنج و الم اور مصائب برداشت كرتے رھے، اور جب یہ نبوت كا سلسلہ ختم ھونے لگا تو رسول اسلام (ص) نے اس ھدایت كے سلسلہ كو امامت كی شكل میں آگے بڑھاتے ھوئے فرمایا: ”اِنِّی تَارِكٌ فِیْكُمُ الثَّقَلَیْنِ كَتَابَ اللهِ وَ عِتْرَتِی؛ مَا اِنْ تَمَسَّكْتُمْ بِہِمَا لَنْ تَضِلُّوْا بَعْدِی اَبَداً ۔ ۔ ۔ “۔ 1 ”بے شك میں تمھارے درمیان دو گراں قدر چیزیں چھوڑے جا رھا ھوں: ایك كتاب خدا اور دوسرے میری عترت، جب تك تم ان دونوں سے متمسك رھو گے میرے بعد ھرگز گمراہ نھیں ھوگے“۔ حضرت رسول اكرم (ص) جانتے تھے كہ میرے بعد امت ،گمراھی كا شكار ھوجائے گی لہٰذا اپنی امت كو گمراھی سے بچانے اور اس كی ھدایت كے لئے ایسا نسخہ پیش كیا جو حقیقت میں ھدایت كا ضامن ھے، مسلمانوں نے قرآن كو ظاھری طور پر لے لیا لیكن عترت رسول كو چھوڑ دیا جبكہ حدیث رسول دونوں سے تمسك كا حكم دیتی ھے اور اسی صورت میں ھدایت ممكن ھے۔ حضرت علی علیہ السلام نے لوگوں كی لاكھ ھدایت كرنی چاھی لیكن ان كے دلوں میں بغض و حسد بھرا ھوا تھا، جس كی وجہ سے ان كی آنكھوں پر پردے پڑے ھوئے تھے۔ آنحضرت (ص) نے اپنے بعد آنے والے ائمہ (علیھم السلام) كا نام بنام تعارف كرایا اور امام كی معرفت كے سلسلہ میں یہ مشھور و معروف حدیث ارشاد فرمائی،جسے شیعہ اور اھل سنت نے آنحضرت (ص) سے نقل كی ھے : ”مَنْ مَاتَ وَ لَمْ یَعْرِفْ اِمَامَ زَمَانِہِ مَاتَ مِیْتَةً جَاہِلِیَةً۔ “ 2 ”جو شخص اپنے زمانہ كے امام كی معرفت اور انھیں پہچانے بغیر مرجائے تو اس كی موت جاھلیت (كفر) كی موت ھوگی“۔ اس سلسلہ امامت كی آخری كڑی حضرت امام مھدی علیہ السلام ھیں ، جو دنیا كی ھدایت كرتے ھیں، لیكن آج ھمارے امام ھماری نظروں سے غائب ھیں، ھم اسی امام كے ظھور كے منتظر رہتے ھیں اور جمعہ كے دن دعائے ندبہ میں امام علیہ السلام كے فراق میں مزید آنسو بھاتے ھیں۔ لیكن امام علیہ السلام كی صحیح معرفت كے بغیر راہ انتظار كو طے كرنا ممكن نھیں ھے، لہٰذا امام مھدی علیہ السلام كے اسم گرامی اور نسب كی شناخت كے علاوہ ان كی عظمت اور ان كے رتبہ كی كافی مقدار میں شناخت بھی ضروری ھے۔ ”ابو نصر“ امام حسن عسكری علیہ السلام كے خادم؛ امام مھدی علیہ السلام كی غیبت سے پھلے امام عسكری علیہ السلام كی خدمت میں حاضر ھوئے، امام مھدی علیہ السلام نے ان سے سوال كیا: كیا مجھے پہچانتے ھو؟ انھوں نے جواب دیا: جی ھاں، آپ میرے مولا و آقا اور میرے مولا و آقا كے فرزند ھیں! امام علیہ السلام نے فرمایا: میرا مقصد ایسی پہچان نھیں ھے!؟ ابو نصر نے عرض كی: آپ ھی فرمائیں كہ آپ كا مقصد كیا تھا۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: ”میں پیغمبر اسلام (ص) كا آخری جانشین ھوں، اور خداوندعالم میری (بركت كی) وجہ سے ھمارے خاندان اور ھمارے شیعوں سے بلاؤں كو دور فرماتا ھے“۔ 3 لہٰذا ھماری ذمہ داری ھے كہ اپنے امام كی شخصیت اور صفات كو اچھی طرح پہچانیں تاكہ ھم آپ كے حقیقی انتظار كرنے والوں میں شمار ھوں۔ ممكن ھے بعض لوگوں كے ذھنوں میں یہ سوال پیدا ھوكہ كس طرح ایك انسان كی اتنی طولانی عمر ھوسكتی ھے؟! 4 اس سوال كی وجہ یہ ھے كہ آج كل كے زمانہ میں عام طور پر 80 سے 100 سال كی عمر ھوتی ھے، لہٰذا ایسی عمر كو دیكھنے اور سننے كے باوجود اتنی طولانی عمر پر یقین كس طرح كرے، ورنہ تو طولانی عمر كا مسئلہ عقل اور سائنس كے لحاظ سے بھی كوئی ناممكن بات نھیں ھے، دانشوروں نے انسانی بدن كے اعضا كی تحقیقات اور جائزے سے یہ نتیجہ نكالا ھے كہ انسان بہت زیادہ طولانی عمر پاسكتا ھے، یھاں تك كہ اس كو بڑھاپے اور ضعیفی كا احساس تك نہ ھو۔ چنانچہ برنارڈ شو نامی دانشور كا كھنا ھے: ”ماھرین اور دانشوروں كے نزدیك یہ ایك مسلم الثبوت حقیقت ھے كہ انسان كی عمر كے لئے كوئی حد معین نھیں كی جاسكتی، یھاں تك كہ طول عمر كے لئے بھی كوئی حد معین نھیں ھوسكتی“۔ 5 اسی طرح پر وفیسر ”اٹینگر“ كا كھنا ھے: ”ھماری نظر میں عصر حاضر كی ترقی اور ھمارے شروع كئے كام كے پیش نظر اكسویں صدی كے لوگ ہزاروں سال زندگی بسر كرسكتے ھیں“۔ 6 قارئین كرام! مذكورہ دانشوروں كے نظریہ سے یہ بات معلوم ھوجاتی ھے كہ انسان ہزاروں سال زندگی بسر كرسكتا ھے، دوسری طرف ھم اس خدا كو مانتے ھیں جو ھر چیز پر قادر ھے، لہٰذا اس كی قدرت كے پیش نظر تقریبا 11 سوسال سے زیادہ عمر گزار لینا كوئی تعجب كی بات نھیں ھے۔ خداوندعالم ھمیں امام زمانہ علیہ السلام كی صحیح معرفت حاصل كرنے اور آپ كی غیبت كے زمانہ میں اپنے فرائض پر عمل كرنے كی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین یا رب العالمین) رَبّنا تَقبّل مِنّا اِنَّكَ اَنتَ السَّمِیْعُ العَلِیْم۔ اقبال حیدر حیدری - حوزہ علمیہ قم -------------------------------------------------------------------------------- 1. بحار الانوار، ج2، ص 100۔ 2. بحار الانوار، ج 51، ح 7، ص 160۔ 3. كمال الدین، ج2، باب 43، ح12، ص 171۔ 4. اس وقت 1427 ہجری قمری ھے اور چونكہ امام زمانہ علیہ السلام كی تاریخ پیدائش 255 ہجری قمری ھے لہٰذا اس وقت آپ كی عمر مبارك 1172 سال ھے۔ 5. راز طول عمر امام زمان علیہ السلام، علی اكبر مھدی پور ص 13۔ 6. مجلہ دانشمند، سال 6، ش6، ص 147۔ |