فصل۔ ۹
(۱)مقرب افراد
قرآن مجید
ثم اور ثنا الکتاب الذین اصطفینا من عبدنا فتمنھم ظالم لفنسہ ومنھم مقتصدو منھم سابق بالخیرات باذن اللہ ذلک ھوالفضل الکبیر" (فاطر/۳۲)
ترجمہ۔ پھر ہم نے اپنے بندوں میں سے ان کو بالخصوص قرآن کا وارث بنایا جنہیں (اہل جان کر) منتخب کیا کیونکہ بندوں میں سے کچھ تو (نافرمانی کرکے) اپنی جان پر ستم ڈھاتے ہیں، ان میں سے کچھ (نیکی اور بدی کے) درمیان میں ہیں اور ان میں سے کچھ لوگ خدا کے اختیار سے نیکوں میں (اوروں سے) گویا سبقت لے گئے ہیں۔ یہی (انتخاب و سبقت) تو خدا کا بڑا فضل ہے۔
قرآن مجید
"والسابقون السابقون اولئک المقربون" (واقعہ/۱۰, ۱۱)
ترجمہ۔ اور جو لوگ آگے بڑھنے والے ہیں (واہ کیا کہنا!) وہ تو آگے ہی بڑھنے والے ہیں۔ یہی لوگ (خدا کے) مقرب ہیں۔
قرآن مجید
فاما ان کان من المقربین فروح و ریحان و جنة نعیم (واقعہ/۸۸, ۸۹)
ترجمہ۔ پس اگر وہ (مرنے والے) خدا کے مقربین ہیں تو ان کے لئے آرام و آسائش، خوشبودار پھول اور نعمت کے باغات ہیں۔
قرآن مجید
عینا یشرب بھا المقربون (مطففین/۲۹)
ترجمہ۔ وہ ایک چشمہ ہے جس سے مقربین مستفیض ہوں گے۔
۱۶۶۰۷۔ امام جعفر صادق علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے اس قول لا ثم اور ثنا الکتاب…" کی تفسی میں فرماتے ہیں: "ظالم اپنی خواہشات کی پیروی کرتا ہے اور مقتصد اپنے دل کو خوش رکھنے میں لگا رہتا ہے (اپنے لئے پاکیزگی کی کوشش میں رہتا ہے) جبکہ سابق اپنے پروردگار کی رضا کے گرد گھومتا ہے۔"
(امام جعفر صادق علیہ السلام) معانی الاخبار ص ۱۰۴ حدیث ۱
۱۶۶۰۸۔ اسی آیت کی تفسیر میں فرمایا: "سابق بالخیرات سے مراد امام معصوم ہے، مقتصد سے مراد امام کی معرفت رکھنے والا ہے اور ظالم لنفسہ سے مراد وہ شخص ہے جو امام کی معرفت نہیں رکھتا۔"
(امام علیہ السلام) کافی جلد ۱ ص ۲۱۴ حدیث ۱
۱۶۶۰۹۔ ایضاً: پس ہم میں سے ظالم لفنسہ سے مراد وہ لوگ ہیں جو نیک کام کرتے جبکہ دوسرے (ہمارے مخالف) برے لوگ ہیں۔ مقتصد وہ لوگ ہوتے ہیں جو عبادت گزار، اپنے لئے پاکیزگی کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں، السابق بالخیرات سے مراد (حضرات) علی اور حسن اور حسن اور حسین علیھم السلام اور آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وہ افراد مراد ہیں جو شہید ہوئے ہیں۔"
(امام محمد باقر علیہ السلام) مجمع البیان جلد ۸ ص ۶۳۹
۱۶۶۱۰۔ ایضاً: "اے ابو اسحاق! یہ آیت خاص ہمارے لئے نازل ہوئی ہے۔ پس سابق بالخیرات سے مراد علی بن ابی طالب، حسن اور حسین علیھم السلام ہم (اہل بیت) سے شہید افراد مراد ہیں، مقتصد سے مراد (پرہیزگار) دن کو روزے رکھنے والے تمام رات نماز پڑھنے والے ہیں اور ظالم لنفسہ سے مراد عوام الناس ہیں جن کے گناہ اللہ بخش دے گا۔"
(امام محمد باقر علیہ السلام) تفسیر المیزان جلد ۱۷ ص ۴۹
۱۶۶۱۱۔ ایضاً: السابق بالخیرات وہ لوگ ہیں جو جنت میں بغیر کسی حساب کے داخل ہوں گے، مقتصد سے تھوڑا بہت حساب لیا جائے گا۔ اور الظالم لفنسہ کو حساب و کتاب کے مقام پر پابند کرنے کے بعد جنت میں داخل کیا جائے گا۔ پس یہ وہی لوگ ہیں جو کہیں گے: "الحمد للہ الذی اذھب عنا الحزن" (فاطر/۳۴)
ترجمہ۔ خدا کا شکر ہے جس نے ہم سے (ہر قسم) کا رنج و غم دور کر دیا۔
(رسول اکرم) مجمع البیان جلد ۸ ص ۶۳۸
۱۶۶۱۲۔ خداوند عالم کے قول "والسابقون الاولون من المھاجرین والانصار" اور "والسابقون السابقون اولئک المقربون" کے بارے میں آنحضرت فرماتے ہیں: "اللہ تعالیٰ نے ان آیتوں کو انبیاء اور اوصیاء کے بارے میں نازل کیا ہے۔ پس میں اللہ کے نبیوں اور میرے وصی علی بن ابی طالب (علیھما السلام) وصیوں میں سب سے افضل ہیں۔
(رسول اکرم) اکمال الدین ص ۲۷۶ حدیث ۲۵
۱۶۶۱۳۔ انجیل میں مرقوم ہے: "لوگوں میں اصلاح کرنے والوں کے لئے خوشخبری ہو۔ یہی افراد ہی قیامت کے دن مقربین سے ہوں گے۔"
(امام موسیٰ کاظلم علیہ السلام) تحف العقول ص ۳۹۳
(۲)مقرب افراد کی عبادت
۱۶۶۱۴۔ تم پر سچے دل سے خلوص اور حسنِ یقین لازم ہے کیونکہ یہ مقرب افراد کی سب سے افضل عبادت ہے۔
(امام علی علیہ السلام) غررالحکم حدیث ۶۱۵۹۰
۱۶۶۱۵۔ خدا کی راہ میں سخاوت مقرب افرا دکی عبادت ہے۔
(رسول اکرم) غررالحکم حدیث ۱۷۵۶
۱۶۶۱۶۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایسے تین آدمیوں کے پاس سے گزرے جن کے جسم لاغر اور رنگ تبدیل ہو چکے تھے۔ ان سے پوچھا: "میں کیا دیکھ رہا ہوں؟ تم پر کیا افتاد آن پڑی ہے؟" انہوں نے کہا: "دوزخ کے خوف نے ہمیں اس حال تک پہنچایا ہے۔" انہوں نے فرمایا: "خدا کے اوپر یہ حق ہے کہ وہ دوزخ سے ڈرنے والے کو اس سے بچائے۔" پھر تین اور آدمیوں کے پاس آئے۔ وہ ان سے بھی زیادہ لاغر و زرد رنگت والے تھے۔ ان سے بھی وہی سوال کیا تو انہوں نے جواب دیا: "جنت کے شوق نے ہمیں اس مقام تک پہنچایا ہے۔" حضرت عیسیٰ نے فرمایا: "خدا پر حق یہ ہے کہ تمہیں وہ چیز عطا کرے جس کی تم آس لگائے بیٹھے ہو۔" ان سے گزر کر پھر تین اور آدمیوں کے قرب آئے۔ وہ اور بھی زیادہ نحیف اور زرد پڑ چکے تھے، گویا ان کے چہرے نور کے آئینہ دار ہیں۔ ان سے بھی وہی سوال دہرایا: "تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ میں یہ کیا دیکھ رہا ہوں؟ "انہوں نے جواب دیا: "خدا کی محبت میں ہم اس مرحلے تک پہنچے ہیں۔ "حضرت نے فرمایا: "تم ہی مقرب افراد ہو، تم ہی مقرب افراد ہو۔"
تنبیہ الخواطر جلد ۱ ص ۲۲۴
قولِ موٴلف: ملاحظہ ہو عنوان "محبت (۲)"
(۳)مخلوقات میں اللہ کے سب سے زیادہ مقرب افراد
۱۶۶۱۷۔ سب سے بہتر ایمان والے ہی خدا کے سب سے زیادہ مقرب ہیں۔
(امام علی علیہ السلام) غررالحکم حدیث ۳۱۹۳
۱۶۶۱۸۔ تم میں سے دا کے قریب تر وسیع ترین اخلاق والا ہے۔
(امام زین العابدین علیہ السلام) کافی جلد ۸ ص ۶۹ حدیث ۲۴
۱۶۶۱۹۔ خدا کا سب سے زیادہ مقرب بندہ بہت زیادہ حق بات کہنے والا ہے اگرچہ وہ اس کے خلاف ہی ہو اور حق پر عمل کرنے والا ہے اگرچہ ا س میں اس بندے کی ناپسندیدگی ہی ہو۔
(امام علی علیہ السلام) غررالحم حدیث ۳۲۴۳
۱۶۶۲۰۔ حضرت داؤد اعلیہ السلام کی طرف وحی میں یہ بات بھی ہے کہ اے داؤد! جس طرح متواضع افراد اللہ کے سب سے زیادہ قریب ہیں اسی طرح متکبر آدمی اللہ سے سب سے زیادہ دور ہیں۔
(امام جعفر صادق علیہ السلام) کافی جلد ۲ ص ۱۲۳ حدیث ۱۱
۱۶۶۲۱۔ فرشتوں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: یااللہ! وہ تمام مخلوق سے زیادہ تیری معرفت رکھتے ہیں، سب سے زیادہ تجھ سے ڈرتے ہیں اور سب سے زیادہ تیرے مقرب ہیں۔"
(امام علی علیہ السلام) نہج البلاغہ خطبہ ۱۰۹
قولِ موٴلف: ملاحظہ ہو محبت (۲)
(۴)انسان کب خدا سے قریب تر ہوتا ہے؟
۱۶۶۲۲۔ جب انسان سجدہ کی حالت میں ہوتا ہے تو اس وقت اللہ سے زیادہ قریب ہوتا ہے۔
(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۱۸۹۳۵
۱۶۶۲۳۔ جب بندہ سجدہ میں میں اپنے رب سے دعا کر رہا ہوتا ہے اس وقت وہ اللہ سے زیاہ قریب ہوتا ہے۔
(امام جعفر صادق علیہ السلام) کافی جلد ۳ ص ۳۲۳
۱۶۶۲۴۔ انسان جب ہلکے پیٹ ہوتا ہے تو اس وقت وہ خدا سے زیادہ قریب ہوتا ہے اور جب اس کا پیٹ بھرا ہوتا ہے تو وہ خدا کا مبغوض ہوتا ہے۔
(امام جعفر صادق علیہ السلام) کافی جلد ۶ ص ۲۶۹
قولِ موٴلف: ملاحظہ ہو بابا "سحود"
(۵)قیامت کے دن اللہ سے نزدیک ترین بندہ
۱۶۶۲۵۔ تین طرح کے لوگ ایسے ہیں جو قیامت کے دن خداوند عالم کے نزدیک ترین ہوں گے یہاں تک (مخلوق) حساب کتاب سے فارغ ہو جائے گی۔
۱۔ قدرت رکھنے کے باوجود غیظ و غضب کی حالت میں اپنے زیردستوں پر ظلم کرنے سے بچنے والا۔
۲۔ دو انسانوں کے درمیان صلح کرانے والا بشرطیکہ اپنے قوم و قبیلہ کی وجہ سے کسی کی طرفداری میں حق و انصاف کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے۔
۳۔ حق بات کہنے والا، خواہ اس کے فائدہ میں جائے یا نقصان میں۔
(امام جعفر صادق علیہ السلام) الخصال صدوق ص ۸۱۔ ص ۵
۱۶۶۲۶۔ "کاشتکار" مخلوق خدا کا خزانہ ہیں جو پاکیزہ روزی کاشت کرتے ہیں اور خدا اسے اگاتا ہے۔ یہی لوگ قیامت کے دن مقام و منزلت کے لحاظ سے خدا کے زیادہ مقرب ہوں گے، انہیں "مبارک" کہہ کر پکارا جائے گا۔
(امام جعفر صادق علیہ السلام) کافی جلد ۵ ص ۲۶۱
(۶)تقرب کی انتہا
۱۶۶۲۷۔ خداوند عزو جل فرماتا ہے: کوئی بندہ فرائض سے زیادہ کسی اور چیز کے ذریعہ میرا تقرب حاصل نہیں کرتا۔ وہ نوافل کے ذریعہ میرا اس حد تک تقرب حاصل کر لیتا ہے کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں، جب میں کسی کو اپنا محبوب بنا لیتا ہوں تو اس کا کان ہو جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ ہو جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کی زبان ہو جاتا ہوں جس سے وہ بولتا ہے، اس کا ہاتھ ہو جاتا ہوں جس سے وہ حملے کرتا ہے۔ اگر وہ مجھ سے دعا مانگتا ہے تو اسے قبول کرتا ہوں اور اگر مجھ سے سوال کرتا ہے تو اسے عطا فرمات ہوں۔"
(حضرت رسول اکرم) کافی جلد ۲ ص ۳۵۲ حدیث ۷
۱۶۶۲۸۔ جب مجھے معراج پر لے جایا گیا تو میں نے اپنے رب سے سوال کیا: "پروردگارا! تیرے نزدیک موٴمن کی کیا حیثیت ہے؟" فرمایا: "اے محمد! …میرے بندوں میں سے کوئی بھی بندہ فرائض سے بڑھ کر کسی اور چیز کے ذریعہ میرا تقرب حاصل نہیں کر سکتا، وہ نوافل کے ذریعہ اس قدر میرا قرب حاصل کر لیتا ہے کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں۔ پھر جب میں اس سے محبت کر لیتا ہوں تو اس وقت میں اس کا کان ہو جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ ہو جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کی زبان ہو جاتا ہوں جس سے وہ بولتا ہے، اس کا ہاتھ ہو جاتا ہوں جس سے وہ حملے کرتا ہے۔ اگر مجھ سے دعا مانگتا ہے تو قبول کرتا ہوں اور اگر سوال کرتا ہے تو اسے عطا فرماتا ہوں۔"
(حضرت رسول اکرم) کافی جلد ۲ ص ۳۵۲ حدیث ۸
۱۶۶۲۹۔ خداوند عز و جل فرماتا ہے: "میرا بندہ کسی اور چیز کے ذریعہ میرا قرب حاصل نہیں کرتا جتنا فرائض کی ادائیگی سے کرتا ہے۔ بندہ میرا قرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں، پھر جس سے میں محبت کرتا ہوں تو میں اس کا کان، اس کی آنکھ، اس کا ہاتھ اور اس کی پناہ گاہ بن جاتا ہوں۔ اگر وہ مجھے پکارتا ہے تو اس کو جواب دیتا ہوں اور اگر مجھ سے مانگتا ہے تو میں اسے عطا فرماتا ہوں"
(حضرت رسول اکرم) علل الشرائع ص ۱۲ حدیث ۷
۱۶۶۳۰۔ خداوند تبارک تعالیٰ فرماتا ہے: "…میرا مومن بندہ جتنا فرائض کے ذریعہ میرا قرب حاصل کرتا ہے اتنا کسی اور چیز کے ذریعہ سے حاصل نہیں کرتا۔ میرا مومن بندہ اس قدر نوافل ادا کرتا ہے کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں۔ پھر جس سے میں محبت کرتا ہوں تو میں اس کا کان، اس کی آنکھ، اس کا ہاتھ ہو جاتا ہوں اور اس کا موید بن جاتا ہوں، اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو اسے عطا فرماتا ہوں، اور اگر مجھے پکارتا ہوں تو اسے جواب دیتا ہوں۔"
(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۱۱۵۶
۱۶۶۳۲۔ خداوند تعالیٰ فرماتا ہے: "میرا بندہ، جتنا فرائض کے ذریعہ میرا تقرب حاصل کرتا ہے اتنا کسی اور چیز کے ذریعہ حاصل نہیں کرتا۔ میرا بندہ نوافل کے ذریعہ میرا اس حد تک قرب حاصل کر لیتا ہے کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں۔ اور جب میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں تو اس کا کان ہو جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے۔"
(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۲۱۳۲۷
(۷)اللہ تعالیٰ تک رسائی
۱۶۶۳۳۔ "خداوند عالم تک رسائی" ایک ایسا سفر ہے جو رات کی سواری پر سوار ہوئے بغیر طے نہیں ہو سکتا۔
(امام حسن عسکری علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۸ ص ۳۸۰ حدیث ۴
۱۶۶۳۴۔ بندوں سے کٹ کر ہی اللہ تک رسائی ہو سکتی ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم ص ۱۷۵
۱۶۶۳۵۔ جو شخص راہِ خدا میں (خدا کے لئے) صبر کرتا ہے وہ خدا تک پہنچ جاتا ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) دعوات راوندی ص ۲۹۲ حدیث ۳۹
۱۶۶۳۶۔ تم جب تک مخلوق سے قطع رابطہ نہیں کر لو گے خالق تک نہیں پہنچ پاؤ گے،
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم حدیث ۷۴۲۹
۱۶۶۳۷۔ (ائمہ اطہار کی مناجات شبانیہ سے اقتباس) "…پروردگارا! تو ہم پر مہربانی فرما کہ میں تمام دنیا سے مکمل طو رپر کٹ کر صرف تیری ذات کی طرف متوجہ ہو جاؤں اور ہماری قلبی آنکھوں کو اپنی ذات کی روشنی سے منور فرما کہ تجھے دیکھیں، حتیٰ کہ دل کی نگاہیں تیرے نورانی پردوں کو شگافتہ کرکے تیرے سرچشمہٴ عظمت تک رسائی حاصل کر لیں…"
کتاب اقبال الاعمال ص ۶۸۷
۱۶۶۳۸۔ اللہ تعالیٰ کے اس قول…"وانذربہ الذین یخافون ان یحشروا الی ربھم" یعنی اور اس کے ذریعہ سے تم ان لوگوں کو ڈراؤ جو اس بات کا خوف رکھتے ہیں کہ وہ (مرنے کے بعد) اپنے رب کے سامنے جمع کئے جائیں گے (انعام/۵۱) کے بارے میں فرمایا کہ اس کے معنی ہیں "اس قرآن کے ذریعے ان لوگوں کو ڈراؤ جو اپنے رب تک پہنچنے کی آرزو رکھتے ہیں اور انہیں رب کے پاس موجود چیزوں کی ترغیب دلاؤ، کیونکہ قرآن ایسا شفیع ہے جس کی شفاعت قبول کی جائے گی۔"
(امام جعفر صادق علیہ السلام) تفسیر نورالثقلین جلد اول ص ۷۲۰
۱۶۶۳۹۔ (مناجات کے الفاظ ہیں) : "خدایا! تیری ذات پاک ہے، اس شخص کے راستے کس قدر تنگ ہیں جس کا تو ہادی اور رہنما نہیں ہے۔ اور اس شخص کے لئے حق کس قدر واضح ہے جسے تو نے اس کے راستے کی ہدایت فرمائی ہے۔
بارِ الٰہا! ہمیں اس راستے پر چلا جو ہمیں تیری ذات تک پہنچائے، اور اس راہ پر گامزن رکھ جو تیری ذات تک حاضری دینے کے لئے زیادہ نزدیک ہو!"
(حضرت امام زین العابدین علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۹۴ ص ۱۷۴
۱۶۶۴۰۔ (مناجات کے الفاظ ہیں) "خداوندا! مجھے ایسے لوگوں میں قرار دے جنہوں نے تیرا قصد کیا ہے، اور اس میں جدوجہد سے باز نہیں آئے، تیری ذات تک پہنچنے کی راہ کو تو اختیار کیا، اس سے روگرداں نہیں ہوئے اور تجھ تک پہنچنے کے لئے تیری ذات پر اعتماد کیا اور تجھ تک پہنچ گئے۔"
(۸)جو میری طرف ایک بالشت بڑھے…!
۱۶۶۴۱۔ خداوند عز و جل فرماتا ہے: "…جو شخص مجھ سے ایک بالشت بھر قرب حاصل کرتا ہے میں اس سے ایک ہاتھ کے برابر نزدیک ہو جاتا ہوں اور جو ایک ہاتھ آگے بڑھتا ہے میں دوہاتھوں کے برابر اس کی طرف بڑھتا ہوں، جو میری طرف چل کر آتا ہے تو میں اس کی طرف دوڑ کر جاتا ہوں۔"
(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۱۱۳۳
۱۶۶۴۲۔ خداوند کریم فرماتا ہے: "جو ایک بالشت بھر میرا قرب حاصل کرتا ہے میں ہاتھ بھر اس کے نزدیک ہو جاتا ہوں، جو ہاتھ بھر میرے نزدیک ہوتا ہے میں دو ہاتھوں کے برابر اس کی طرف بڑھتا ہوں، اور جو میرے پاس چل کر آتا ہے، میں اس کے پاس دوڑ کر جاتا ہوں۔"
(حضرت رسول اکرم) الترغیب و الترہیب جلد ۴ ص ۱۰۳ حدیث ۳۰
۱۶۶۴۳۔ جو شخص خداوند عز و جل سے ایک بالشت قریب ہوتا ہے خدا اس سے ایک ہاتھ قریب ہوتا ہے، جو اس سے ایک ہاتھ قریب ہوتا ہے وہ اس سے دو ہاتھ قریب ہوتا ہے، جو خدا کی طرف چل کر جاتا ہے خدا اس کی طرف دوڑ کر آتا ہے۔ خدا کی شان بلند و برتر ہے، خدا کی شان بلند و بالاتر ہے اور خدا بلند و بالاتر ہے۔"
(حضرت رسول اکرم) الترغیب و الترہیب جلد ۴ ص ۱۰۴ حدیث ۳۱
۱۶۶۴۴۔ خداوند عز و جل فرماتا ہے: "اے فرزندِ آدم! تو میری طرف اٹھ، میں تیری طرف چل کر آؤں گا تو میری طرف چل کر آ، میں تیری طرف دوڑ کر آؤں گا۔"
(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۱۱۳۸
۱۶۶۴۵۔ "اگر تم خدا کی طرف رخ کرو گے تو خدا کا رخ بھی تمہاری طرف ہو گا، اور اگر خدا کی طرف پشت کرو گے تو خدا کا رخ بھی تم سے پھر جائے گا۔"
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم حدیث ۳۸۵۲
(۹)ذرائع جن سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہوتا ہے
۱۶۶۴۶۔ یا علی! جب بندے نیکی کے ذریعہ اپنے خالق کا قرب حاصل کرتے ہیں تو (گویا) وہ اپنی عقل کے ذریعہ اس کا قرب حاصل کرتے ہیں جو ان سے سبقت لے جاتی ہے۔
(حضرت رسول اکرم) مشکاة الانوار ص ۲۵۱
۱۶۶۴۷۔ بندہ کا اللہ کی ذات سے تقرب: اس کی خلوص نیت سے ہوتا ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم حدیث ۴۴۷۷
۱۶۶۴۸۔ جو شخص فرائض و نوافل کی ادائیگی کے ذریعہ تقربِ خدا حاصل کرتا ہے وہ دوہرا منافع کماتا ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم حدیث ۲۰۵۶
۱۶۶۴۹۔ خدا کا تقرب، اس سے سوال کرنے کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے اور بندوں کا تقرب ان سے سوال نہ کرنے کے ذریعہ سے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم حدیث ۱۸۰۱
۱۶۶۵۰۔ کوہِ طور پر راز و نیاز کی باتوں میں اللہ نے حضرت موسیٰ سے فرمایا: اے موسیٰ! اپنی قوم تک یہ بات پہنچا دو کہ میرا قرب حاصل کرنے والے اتنا کسی اور چیز کے ذریعہ میرا قرب حاصل نہیں کر سکتے، جتنا گریہ و بکاکے ذریعہ حاصل کر سکتے ہیں۔ عبادت گزار اتنا قرب عبادت سے حاصل نہیں کر سکتے جتنا میری حرام کردہ چیزوں سے بچنے کے ذریعہ کر سکتے ہیں۔ زینت کرنے والے کسی اور چیز سے اتنی زینت حاصل نہی کر سکتے جتنی دنیا سے بے نیازی اختیار کرکے اور لوگوں کے ہاتھوں میں موجود چیزوں سے بے رخی کرکے حاصل کر سکتے ہیں۔"
حضرت موسیٰ علیہ السلام عرض کیا: "اے کریم ترین ذات! تونے ایسے لوگوں کے لئے کیا جزا مقرر فرمائی ہے؟"
خداوند عالم نے فرمایا: "موسیٰ! جو لوگ میرے خوف سے رو رو کر میرا قرب حاصل کرتے ہیں وہ لوگ رفیقِ اعلیٰ میں ہوں گے اور بلندیٴ درجات میں ان کا کوئی شریک نہیں ہو گا۔"
(امام محمد باقر علیہ السلام) ثواب الاعمال ص ۲۰۵ حدیث اول
۱۶۶۵۱۔ (حضرت موسیٰ کے ساتھ راز و نیاز کی باتوں میں فرمایا): "اے موسیٰ! میرا قرب حاصل کرنے والے، میری حرام کردہ چیزوں سے اجتناب کرنے سے بڑھ کر کسی طرح میرا قرب حاصل نہیں کر سکتے۔ اسی لئے میں انہیں اپنی ہمیشہ رہنے والی جنت عطا کروں گا اور ان کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کروں گا"
(امام جعفر صادق علیہ السلام) مشکوٰة الانوار ص ۴۵
۱۶۶۵۲۔ اپنے بیٹے کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا: "اے فرزند! میں تمہیں چھ خصلتیں اپنانے کی ترغیب دلاتا ہوں جن میں سے ایک خصلت تمہیں خدا سے قریب اور اس کی ناراضگی سے دور کر دے گی:"
۱۔ خدا کی عبادت کرتے رہو اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ۔
۲۔ خدا کی قدر پر راضی رہو خواہ اسے پسند کرو یا پسند نہ کرو۔
۳۔ خدا کی خوشنودی کے لئے کسی سے محبت یا کسی سے دشمنی کیا کرو۔
۴۔ جو کچھ اپنے لئے پسند کرو وہی دوسروں کے لئے پسند کرو اور جو اپنے لئے ناپسند کرو وہ دوسروں کے لئے بھی ناپسند کرو۔
۵۔ غصے کو پی جایا کرو اور جو تمہارے ساتھ برا سلوک کرے اس سے اچھا سلوک کرو۔
۶۔ خواہشات نفسانی کو ترک کر دو اور مہلک خواہشات کی مخالفت کرو۔
(حضرت لقمان) مستدرک الوسائل جلد ۱۱ ص ۱۷۸ حدیث ۱۲۶۸۴
۱۶۶۵۳۔ خدا کی قسم! اگر تم ان اونٹنیوں کی طرح فریاد کرو جو اپنے بچوں کو کھو چکی ہوں، ان کبوتروں کی طرح نالہ و فغاں کرو جو (اپنے ساتھیوں سے) الگ ہو گئے ہوں، ان گوشہ نشین راہبوں کی طرح چیخو چلاؤ جو گھر بار چھوڑ چکے ہوں اور مال و اولاد سے بھی اپنا ہاتھ اٹھا لو، اس غرض سے کہ تمہیں بارگاہِ الٰہی میں تقرب حاصل ہو، درجہ کی بلندی کے ساتھ اس کے یہاں یا ان گناہوں کے معاف ہونے کے ساتھ جو صحیفہ اعمال میں درج اور کراماً کاتبین کو یاد ہیں، تو وہ تمام بے تابی اور نالہ و فریاد اس ثواب کے لحاظ سے کہ جس کا میں تمہارے لئے امیدوار ہوں، اور اس عتاب کے اعتبار سے جس کا مجھے تمہارے لئے خوف و اندیشہ ہے، بہت ہی کم ہو گا۔
(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ خطبہ ۵۲
۱۶۶۵۴۔ اس بات کو جان لو کہ جو چیز تمہیں اللہ کے قریب کرتی ہے وہ دوزخ سے دور کرتی ہے، اور جو اللہ سے دور کرتی ہے وہ دوزخ کے قریب کرتی ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ مکتوب ۷۶
(۱۰)خداوندِ عالم سے دورترین شخص
۱۶۶۵۵۔ دو شخص خدا سے بہت دور ہیں: ایک وہ انسان جو امراء کا ہم نشین ہوتا ہے، امراء جو بھی ظلم و جور کی باتیں کرتے ہیں، وہ ان کی تصدیق کرتا ہے۔ دوسرے بچوں کا وہ معلم، جو ان سے ہمدردی کا مظاہرہ نہیں کرتا اور نہ ہی تعلیم کے بارے میں خدا کو سامنے رکھتا ہے۔
(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۴۳۸۶۱
۱۶۶۵۶۔ جب کسی شخص کا مطمعٴ نظر صرف اس کا شکم اور شرمگاہ ہوتے ہیں تو وہ خدا سے بہت دور ہو جاتا ہے۔
(امام جعفر صادق علیہ السلام) اصول کافی جلد ۲ ص ۳۱۹
۱۶۶۵۷۔ جب بندہ اپنے شکم اور شرمگاہ ہی کو اپنا مطمع نظر بنا لیتا ہے تو وہ خدا سے بہت دور ہو جاتا ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) الخصال صدوق ص ۶۳ حدیث ۱۰
قولِ موٴلف: ملاحظہ ہو: "بغض"
فصل۔ ۱۰
اقرار(۱) ص ۱۱۰
۱۶۶۵۸۔ صاحبانِ عقل کا اپنے متعلق اقرار جائز ہوتا ہے۔
(حضرت رسول اکرم) وسائل الشیعہ جلد ۱۶ ص ۱۱۱ حدیث ۲
۱۶۶۵۹۔ یقیناً عقلمند کا اپنے بارے میں اقرار جائز ہوتا ہے۔
(حضرت رسول اکرم) کتاب "الخلاف" جلد ۳ ص ۱۵۷
۱۶۶۶۰۔ میں فاسق کی شہادت کو قبول نہیں کرتا سوائے اس کے کہ وہ اپنے خلاف شہادت دے۔
(امام جعف صادق علیہ السلام) کافی جلد ۷ ص ۳۹۵ حدیث ۵
۱۶۶۶۱۔ ایک مومن اپنی ذات کے بارے میں شہادت کے لحاظ سے شر مومنین کی گواہی سے زیادہ سچا ہوتا ہے۔
(امام جعفر صادق علیہ السلام) صفات الشیعہ ص ۱۱۶ حدیث ۶۰
۱۶۶۶۲۔ جب زکوٰة وصول کرنے والے کو کوفہ سے دیہاتی علاقوں کی طرف روانہ کیا تو بطور نصیحت فرمایا: "پھر ان سے کہو کہ "اے خدا کے بندو! مجھے تمہاری طرف ولیٴ خدا نے بھیجا ہے تاکہ میں تمہارے مالوں میں خدا کا بننے والا حق وصول کروں تو کیا تمہارے اموال میں خدا کا کوئی حق ہے جو تم مجھے ادا کرو؟" اگر کوئی شخص کہے کہ "نہیں!" تو پھر اس سے دوبارہ یہ بات نہ کہنا" کہو۔"
(حضرت علی علیہ السلام) کافی جلد ۳ ص ۵۳۶ حدیث اول
۱۶۶۶۳۔ اصبغ بن بناتہ کہتے ہیں کہ ایک شخص امیرالمومنین علیہ السلام کے پاس آیا اور بولا: "یاامیرالمومنین! میں نے زنا کا ارتکاب کیا ہے لہٰذا مجھے (اس گناہ سے) پاک فرما! امیرالمومنین نے اپنا رخ موڑ لیا۔ پھر اس سے فرمایا: "بیٹھ جا! "اس کے بعد آپ نے لوگوں کی طرف منہ کرکے فرمایا: "تم میں سے جو شخص اس قسم کی برائی کا ارتکاب کرتا ہے تو کیا وہ اسے اسی طرح چھپانے سے عاجز ہوتا ہے جس طرح خدا نے اسے چھپایا ہے؟"
کتاب من لایحضرہ الفیتہ جلد ۴ ص ۳۱ حدیث ۵۰۱۷
قولِ موٴلف: ۱۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ لوگوں کے سامنے اپنے گناہوں کا اقرار مطلقاً ناپسندیدہ اور قابلِ مذمت ہے۔
۲۔ ملاحظہ ہو "توبہ"
(۲)مجبور انسان کااقرار ناقابل اعتبار ہوتا ہے
۱۶۶۶۴۔ جو شخص ڈرانے دھمکانے، قید کئے جانے یا مار پیٹ کی وجہ سے اقرار کرے گا تو اس کا یہ اقرار اس کی سزا کا سبب نہیں بن سکتا اور اس پر حد جاری نہیں کی جائے گی۔
(حضرت علی علیہ السلام) مستدر الوسائل جلد ۱۶ ص ۳۲
۱۶۶۶۵۔ جو شخص تشدد، قید اور ڈرانے دھمکانے کی وجہ سے اقرار کرے گا، اس پر حد جاری نہیں کی جائے گی۔
(حضرت علی علیہ السلام) قرب الاسناد ص ۵۴ حدیث ۱۷۵
۱۶۶۶۶۔ حضرت علی علیہ السلام فرمایا کرتے تھے: "جس سے مار پیٹ، نظربندی، قید و تشدد کے ذریعہ ڈرا کر اقرار لیا جائے اس پر ہاتھ کاٹنے کی (چوری کی سزا کی) حد جاری نہیں کی جائے گی، اگر اعتراف نہ کرے تو اس سے حد ساقط ہو جائے گی…"
(امام محمد باقر علیہ السلام) وسائل الشیعہ جلد ۱۸ ص ۴۹۸ حدیث ۳
۱۶۶۶۷۔ سلیمان بن خالد نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایک شخص کے بارے میں سوال کیا جس نے چوری کی تھی اور اس نے اس سے لڑائی جھگڑا کیا اور اسے تھپڑ مارے تو وہ اصل مسروقہ اشیاء لے آیا۔ "کیا اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا؟" آپ نے فرمایا: "ہاں! کاٹا جائے گا، لیکن اگر اعتراف تو کرے مگر اشیائے مسروقہ کی برآمدگی نہ ہو تو پھر اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا"
(امام جعفر صادق علیہ السلام)
فصل۔ ۱۱
(۱) ص ۱۱۳
قرض
قرآن مجید
من ذاالذی لقرض اللہ قرضا حسنا فیضٰعفہ لہ و لہ اجر کریم۔
ترجمہ۔ کون ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دے تو اللہ اس کے لئے (اجر کو) کئی گناہ کر دے اور اس کے لئے معزز صلہ اور عمدہ جزا ہے۔
حدیث شریف
۱۶۶۶۸۔ جو شخص خدا کو قرض دے گا اللہ اسے اجر عطا فرمائے گا۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم حدیث ۸۰۷۲
۱۶۶۶۹۔ جو اللہ پر بھروسہ کرتا ہے، وہ اس کے لئے کافی ہو جاتا ہے، جو کوئی اس سے مانگتا ہے اسے دے دیتا ہے، جو اسے قرض دیتا ہے وہ اسے ادا فرماتا ہے اور جو شکر کرتا ہے اسے بدلہ دیتا ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ خطبہ ۹۰
۱۶۶۷۰۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے "ان تنصروا اللہ…اگر تم خدا کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا (محمد/۷) پھر فرمایا: "من ذاالذی یقرض اللہ…کون ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دے تو اللہ اس کے اجر کو دوگنا کر دے گا اور اس کے لئے عمدہ جزا ہے (حدید/۱۱) اللہ نے کسی کمزوری کی بنا پر تم سے مدد نہیں مانگی، نہ ہی بے مائگی کی وجہ سے تم سے قرض کا سوال کیا۔ اس نے تم سے مدد چاہی ہے باوجودیکہ "ولہ جنود السموات…" اس کے پاس سارے آسمانوں اور زمین کے لشکر ہیں اور وہ غلبہ و حکمت والا ہے (فتح/۷)……اس نے تو یہ چاہا ہے "لیبلو کم ایکم احسن عملا" کہ تمہیں آزمائے کہ تم میں اعمال کے لحاظ سے کون بہتر ہے؟ (ملک/۲)
(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ خطبہ ۱۸۳
۱۶۶۷۱۔ ایک شخص بہشت کی طرف گیا تو اس کے دروازہ پر لکھا ہوا دیکھا: "صدقے کا ثواب دس گنا ہے اور قرض کا ثواب اٹھارہ گنا"
(حضرت رسول اکرم) الترغیب و الترہیب جلد ۲ ص ۴۰ حدیث ۳
۱۶۶۷۲۔ شب معراج میں نے جنت کے دروازہ پر لکھا ہوا دیکھا: "صدقہ کا ثواب دس گنا اور قرض کا ثواب اٹھارہ گنا ہے۔"
(حضرت رسول اکرم) الترغیب و الترہیب جلد ۲ ص ۴۱
۱۶۶۷۳۔ جنت کے دروازے پر لکھا ہوا ہے: "صدقہ دس اور قرضہ اٹھارہ گنا ہے"
(امام جعفر صادق) من لایھزہ الفقیہ جلد ۲ ص ۵۸
۱۶۶۷۴۔ صدقہ کا ثواب دس گنا، قرض کا ثواب اٹھارہ گنا، دوستوں اور بھائیوں کے ساتھ بھلائی کا ثواب بیس گنا اور صلہٴ رحمی کا ثواب چوبیس گنا ہے۔
(حضرت رسول اکرم) مکارم الاخلاق جلد اول ص ۲۹۳
۱۶۶۷۵۔ ایک قرضہ کا ثواب اٹھارہ گنا ہے اور اگر انسان مر جائے تو اس کو زکوٰة میں شمار کیا جائے گا۔
(امام جعفر صادق علیہ السلام) ثواب الاعمال ص ۱۶۷ حدیث ۳
۱۶۶۷۶۔ میں بہشت میں گیا تو دیکھا کہ اس کے دروازہ پر تحریر تھا: "صدقہ کا دس گنا اور قرض کا اٹھارہ گنا ثواب ہے" میں نے جبرائیل سے پوچھا: "یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ صدقہ دس گنا ہو اور قرض اٹھارہ گنا؟" انہوں نے کہا: اس لئے کہ صدقہ غریب اور امیر ہر قسم کے لوگوں کو مل سکتا ہے جبکہ قرض صرف ضرورت مند اور صاحبانِ احتیاج کے ہاتھوں تک پہنچتا ہے۔"
(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۱۵۳۷۳
۱۶۶۷۷۔ جنت کے دروازہ پر مکتوب ہے "قرضہ کا اٹھارہ گنا ثواب ہے اور صدقہ کا دس گنا کیونکہ قرض صرف ضرورت مند لیتا ہے جبکہ صدقہ کبھی بے نیاز شخص کو بھی مل جاتا ہے۔"
(امام جعفر صادق علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۱۰۳ ص ۱۳۸ حدیث ۲
۱۶۶۷۸۔ میں نے شبِ معراج بہشت کے دروازہ پر لکھ ہوا دیکھا: "صدقہ کا دس گنا ثواب ہے اور قرض کا اٹھارہ گنا" میں نے کہا: "اے جبرائیل! کیا وجہ ہے کہ قرض صدقہ سے افضل ہے؟" انہوں نے کہا: "سائل سوال کرتا ہے جبکہ اس کے پاس کچھ ہوتا ہے اور قرضہ حاصل کرنے والا ضرورت کے بغیر کسی سے سوال نہیں کرتا۔
(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۱۵۳۷۴
۱۶۶۷۹۔ جنت کے دروازے پر تحریر ہے: "صدقہ کے دس ثواب ہیں اور قرض کے اٹھارہ ثواب ہیں" یہ اس لئے ہے کہ قرض حاصل کرنے والا ضرورت کے تحت قرض لیتا ہے جبکہ بعض اوقات صدقہ و خیرات وہ بھی مانگتا ہے جو مستحق نہیں ہوتا۔
(امام جعفر صادق علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۱۰۳ ص ۱۳۹ حدیث ۹
۱۶۶۸۰۔ روایت میں ہے کہ: قرض کا ثواب صدقہ سے اٹھارہ گنا زیادہ ہے، اس لئے کہ قرض وہ شخص حاصل کرتا ہے جو اپنے آپ کو صدقہ لینے کی پستی سے بچاتا ہے۔
(بحارالانوار جلد ۱۰۳ ص ۱۴۰ حدیث ۱۱
۱۶۶۸۱۔ خداوند جل جلالہ فرماتا ہے: "میں نے اپنے بندوں کو دنیا لین دین کے لئے دے دی ہے۔ لہٰذا جو شخص اس سے مجھے قرض دے گا میں بھی اسے اس کا اجر ایک کے بدلے دس سے لے کر سات سو گناہ تک عطا کروں گا اور اس مقدار میں سے جتنا چاہوں دے دوں گا۔ جو مجھے قرض نہ دے میں اس سے مجبور کرکے لوں گا اور اسے وہ خصوصیات عطا کروں گا جو ایسی ہیں کہ اگر ان میں سے کوئی ایک بھی اپنے فرشتوں کو عطا کر دوں تو وہ اس پر خوش ہو جائیں۔ یعنی ۱۔ صلوات ۲۔ ہدایت ۳۔ رحمت، جیسا کہ خداوند عز و جل فرماتا ہے: "الذین اذا اصابتھم مصیبة قالوا انا للہ وانا الیہ راجعون، اولئک علیھم صلوات من ربھم" یعنی یہ وہ لوگ ہیں کہ جب ان پر کوئی مصیبت آ پڑے تو وہ بے ساختہ بول اٹھتے ہیں کہ ہم خدا ہی کے لئے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔ انہی لوگوں پر ان کے پروردگار کی طرف سے "صلوات" ہے (بقرہ/۱۴۵۔ ۱۵۷) یہ ان تین خصوصیات میں سے ایک خصوصیت ہو گی۔ دوسری خصوصیت یہ ہے "…و رحمة…" (ایضا) یہ دوسری خصوصیت اور "واولئک ھم المھتدون" یعنی یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں، تو یہ تیسری خصوصیت ہوئی۔"
(حضرت رسول اکرم) الخصال ص ۱۳۰، ص ۱۳۵
۱۶۶۸۲۔ میرے نزدیک ہدیئے جتنا قرض دینا زیادہ محبوب ہے۔
(امام جعفر صادق علیہ السلام) ثواب الاعمال ص ۱۶۷ حدیث ۴
۱۶۶۸۳۔ جو شخص کسی مظلوم کو قرض دیتا ہے اور پھر بڑے اچھے طریقے سے اس کی واپسی کا مطالبہ کرتا ہے تو (اس کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں لہٰذا) وہ تو ازسرنو اپنے اعمال کو بجا لاتا ہے، اور اللہ تعالیٰ اسے ہر درہم کے بدلے بہشت کا کثیر مال عطا فرمائے گا۔
(حضرت رسول اکرم صلی صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم) ثواب الاعمال ص ۳۴۱ حدیث اول
۱۶۶۸۴۔ اپنے فرزند امام حسن علیہ السلام کو نصیحت کے طور پر فرماتے ہیں"…اور جب تمہیں ایسے فاقہ کش لوگ مل جائیں جو تمہارا توشہ اٹھا کر میدان حشر میں پہنچا دیں پھر کل کو جبکہ تمہیں اس کی ضرورت پڑے۔ تمہارے حوالے کر دیں تو اسے غنیمت جانو، اور جتنا ہو سکے اس کی پشت پر رکھ دو کیونکہ ہو سکتا ہے کہ پھر تم ایسے شخص کو ڈھونڈو اور نہ پاؤ جو تمہاری دولتمندی کی حالت میں تم سے قرض مانگ رہا ہے اس وعدہ پر کہ تمہاری تنگدستی کے وقت ادا کر دے گا تو اسے بھی غنیمت جانو!
(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغة مکتوب ۳۱
۱۶۶۸۵۔ جس شخص کے پاس اس کا مسلمان ضرورت مند بھائی قرض لینے کے لئے اور وہ دے بھی سکتا ہو لیکن نہ دے تو اللہ تعالیٰ اس پر بہشت کی خوشبو کو حرام کر دیتا ہے۔
(حضرت رسول اکرم) امالی صدوق ص ۳۵ حدیث ۱
(۲)تنگدست کو مہلت دینا
قرآن مجید:
و ان کان ذوعسرة فنظرة الیٰ میسرة و ان تصدقوا خیرلکم ان کنتم تعلمون۔ (بقرہ/۲۸۰)
ترجمہ۔ اور اگر کوئی تنگدست (تمہارا قرضدار) ہو تو اسے خوشحالی تک مہلت دو، اور اگر تم سمجھو تو تمہارے حق میں یہ زیادہ بہتر ہے کہ (اصل بھی) بخش دو۔
حدیث شریف
۱۶۶۸۶۔ جو شخص کسی تنگدست مقروض کو مہلت دے تو خدا پر حق ہو جاتا ہے کہ اس کو ہر روز صدقہ کا اتنا ثواب عطا فرمائے جتنا اس کا قرض ہے اور یہ سلسلہ اس کی مکمل ادائیگی تک جاری رہتا ہے۔
(حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بحارالانوار جلد ۱۰۳ ص ۱۵۱ حدیث ۱۷
۱۶۶۸۷۔ جو کسی تنگدست مقروض کو مہلت دے گا، خداوندِ عالم اسے اس (قیامت کے) دن اپنے سایہ میں رکھے گا جس دن اس کے سایہ کے بغیر کوئی اور سایہ نہیں ہو گا۔
(حضرت رسول اکرم) کافی جلد ۸ ص ۹ حدیث ۱
۱۶۶۸۸۔ جب آپ مسجد میں داخل ہوئے تو فرمایا: "تم میں سے کون ہے جسے یہ بات خوش کرتی ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ جہنم کی وسعت و کشادگی سے محفوظ رکھے؟" ہم سب نے عرض کیا: "یا رسول اللہ! ہم سب کو یہی بات خوش کرتی ہے!" آپ نے فرمایا: "جو شخص کسی تنگدست مقروض کو قرض کی ادائیگی میں مہلت دے، یا اس سے قرض کا بوجھ اتارے تو اللہ تعالیٰ اسے کشادہ اور وسیع جہنم سے بچا لے گا۔"
(حضرت رسول اکرم) الترغیب و الترہیب جلد ۲ ص ۴۶ حدیث ۱۵
۱۶۶۸۹۔ جو شخص کسی مومن کو قرض دے اور اسے اس کی خوشحالی تک ادائیگی کی مہلت دے تو اس کا قرض کا مال زکوٰة میں شمار ہو گا، قرض دینے والا ملائکہ کے درود و سلام میں شامل رہے گا اور قرض کی ادائیگی تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
(حضرت رسول اکرم) ثواب الاعمال ص ۱۶۶ حدیث اول
۱۶۶۹۰۔ جو شخص اپنے مقروض کی تکلیف کو دور کرے یا اپنے قرض پر قلم پھیر دے تو وہ قیامت کے دن عرش کے سایہ میں ہو گا۔
(رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۱۵۳۷۹
۱۶۶۹۱۔ جو شخص یہ چاہتا ہے کہ ا س کی دعا منظور ہو اور اس کے دکھ دور ہوں تو اسے چاہئے کہ تنگدست مقروض کو مہلت دے۔
(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۱۵۳۹۸
۱۶۶۹۲۔ تم اپنے حق کو ضرور حاصل کرو لیکن مستحسن طریقے سے خواہ پورا ملے یا ادھورا۔
(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۱۵۴۰۵
۱۶۶۹۳۔ مفلوک الحال تنگدست کی بددعا سے بچو!
(رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۱۵۴۲۴
۱۶۶۹۴۔ تم لوگوں سے پہلے کی بات ہے کہ ایک شخص کا محاسبہ کیا گیا تو اس کے اعمالنامہ میں اس کے سوا اور کچھ نہیں تھا کہ وہ ایک متمول انسان تھا اور لوگوں کے ساتھ میل جول رکھتا تھا، اپنے ملازمین سے کہتا تھا کہ تنگدست مقروض سے درگزر سے کام لیا جائے۔
اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "ایسا کرنے کا تو ہم پر زیادہ حق بنتا ہے۔ لہٰذا اس شخص کے گناہوں سے درگزر کیا جائے!"
(حضرت رسول اکرم) الترغیب و الترہیب جلد ۲ ص ۴۴ حدیث ۷
۱۶۶۹۵۔ جس طرح تمہارے مقروض کے لئے یہ بات جائز نہیں ہے کہ مال کے ہوتے ہوئے تمہارے قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول سے کام لے، اسی طرح تمہارے لئے بھی جائز نہیں کہ اس کی تنگدستی کے بارے میں علم رکھتے ہوئے اس پر سختی کرو۔
(حضرت رسول اکرم) ثواب الاعمال ص ۱۶۷ حدیث ۵
قولِ موٴلف: ملاحظہ ہو: "ولایت" نیز "دین" (قرض)
فصل ۱۲
(۱)قرعہ
قرآن مجید
ذٰلک من انباء الغیب……………………یختصمون (۴۴/آل عمران)
ترجمہ۔ (اے رسول!) یہ بات غیب کی خبروں میں سے ہے جس کی ہم تمہیں وحی کرتے ہیں۔ تم تو ان (مریم کے سرپرستوں) کے پاس موجود نہیں تھے جب وہ لوگ اپنے قلم (پانی میں بطور قرعہ) ڈال رہے تھے کہ کون مریم کی کفالت کرتا ہے اور تم اس وقت بھی ان کے پاس موجود نہیں تھے جب وہ آپس میں جھگڑ رہے تھے۔
فساھم فکان من المدحضین۔ (صافات/۱۴۱)
ترجمہ۔ پس (اہلِ کشتی نے) قرعہ ڈالا تو (یونس کا) نام نکلا اور وہ اس کو دریا میں گرائے جانے والوں میں سے تھے۔
حدیث شریف
۱۶۶۹۶۔ جب معاملہ خدا کے سپرد کر دیا جائے تو قرعہ سے بڑھ کر اور کونسی صورت عدل و انصاف پر مبنی ہو سکتی ہے؟ کیا خداوند عالم نہیں فرماتا: "فساھم فکان من المدحصٰین۔"
(امام جعفر صادق علیہ السلام) من لایھزہ الفقیہ جلد ۳ ص ۹۲ حدیث ۳۳۹۱
۱۶۶۹۷۔ جس معاملے میں قرعہ اندازی کی جائے اس سے بڑھ کر اور کونسا معاملہ عدل و انصاف پر مبنی ہو سکتا ہے۔ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: "فساھم فکان من المدحضین"؟ پھر فرمایا: "جس معاملے میں دو انسان اختلاف کرتے ہیں اس کی اصل بھی کتاب اللہ (قرآن پاک) میں موجود ہے، لیکن وہاں تک لوگوں کی عقلوں کی رسائی نہیں ہوتی۔
(امام جعفر صادق علیہ السلام) کافی جلد ۷ ص ۱۴۸ حدیث ۱
۱۶۶۹۸۔ سب سے پہلے جس کے بارے میں قرعہ اندازی کی گئی وہ مریم بنت عمران ہیں جن کے بارے میں خداوند عالم فرماتا ہے: "وما کنت لو ھم ان یلقون اقلابھم…" (آل عمران/۴۴)
۱۶۶۹۹۔ جس معاملہ میں چند لوگوں نے قرعہ اندازی کی اور اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کر دیا تو صحیح معنی میں حقدار کے نام کا قرعہ نکلے گا۔
(امام محمد باقر علیہ السلام) من لا یحضرہ الفقیہ جلد ۳ ص ۹۲
۱۶۷۰۰۔ یمن میں حضرت علی علیہ السلام کے پاس ایسے تین لوگوں کو لایا گیا جنہوں نے ایک عورت سے ایک ہی وقت میں ہم بستری کی تھی اور اس سے بچہ پیدا ہو گیا تھا۔ آپ نے ان میں سے دو آدمیوں کو اکٹھا بلا کر پوچھا: "کیا تم اس بات کو تسلیم کرتے ہو کہ یہ بچہ اس شخص کا ہے؟" انہوں نے انکار کیا، پھر دوسرے دو کو اکٹھا کرکے یہی سوال کیا تو انہوں نے بھی انکار کیا۔ اسی طرح تیسری مرتبہ پھر اور دو کو بلایا اور پوچھا تو انہوں نے بھی انکار کیا۔ اس پر آپ نے قرعہ اندازی فرمائی اور جس کے نام قرعہ نکلا بچہ اسے دیدیا۔ نیز اس کے ذمہ دو تہائی دیت مقرر فرمائی۔
چنانچہ جب یہ ماجرا حضرت رسول خدا کے سامنے ذکر ہوا تو آپ اس قدر مسکرائے کہ آپ کے دندان مبارک ظاہر ہو گئے۔
(سنن ابن ماجہ حدیث ۲۳۴۸
۱۶۷۰۱۔ جب حضرت پیغمبر خدا نے حضرت علی سے یمن میں عجیب واقعات کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے یہ عجیب واقعہ بیان فرمایا: "میرے پاس کچھ افراد آئے جنہوں نے ایک لونڈی کو خریدا اور سب نے ایک ہی () میں اس سے ہم بستری کی، جس سے ایک لڑکا پیدا ہوا۔ اس کے بارے میں ان میں جھگڑا ہونے لگا۔ ہر ایک یہی کہتا تھا کہ لڑکا اس کا ہے۔ پس میں نے ان کے درمیان قرعہ اندازی کی اور جس کے نام کا قرعہ نکلا میں نے لڑکا اس کو دے دیا، لیکن ان سے اس کے حصہ کی ضمانت لی۔"
اس پر آنحضرت نے فرمایا: "چند لوگ جب آپس میں جھگڑا کریں اور پھر اپنا معاملہ خدا کے سپرد کر دیں تو حقدار کو اس کا حصہ مل جاتا ہے۔"
شیخ صدوق نے اس روایت کو حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے بیان کیا ہے، البتہ "جھگڑا کریں" کی جگہ پر "قرعہ ڈالیں" فرمایا ہے۔ (حضرت علی علیہ السلام) وسائل الشیعہ جلد ۱۸ ص ۱۸۸ حدیث ۵
۱۶۷۰۲۔ جب حضرت پیغمبرِ خدا سفر پر تشریف لے جاتے تھے تو اپنی ازدواج کے درمیان قرعہ ڈالتے تھے۔
(حضرت عائشہ) وسائل الشیعہ جلد ۱۸ ص ۱۸۸ حدیث ۶
۱۶۷۰۳۔ ہر نامعلوم معاملے میں قرعہ اندازی کی جائے۔
(امام موسیٰ کاظم علیہ السلام) من لا یحضرہ الفقیہ جلد ۳ ص ۹۲
فصل ۱۳
صدی (سو سال)
(۱) ص ۱۲۲
ہر سو سال میں دین کی تجدید ہوتی ہے
۱۶۷۰۴۔ میری امت میں ہر سو سال میں کچھ لوگ "سابقون" (سبقت کرنے والے) ہوتے ہیں۔
(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۳۴۶۲۶
۱۶۷۰۵۔ اللہ تعالیٰ اس امت کے لئے ہر سو سال کے آغاز میں کسی ایسے شخص کو بھیجتا ہے جو امت کے لئے دین کی تجدید کرتا ہے۔
(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۳۴۶۲۳
۱۶۷۰۶۔ ہم اہلبیت میں گزشتہ لوگوں کے کچھ ایسے عادل جانشین ہوتے ہیں جو دین سے غالی لوگوں کی دین میں تحریف، جھوٹے لوگوں کی طرف سے دین میں داخل کی جانے والی چیزوں اور جاہلوں کی تاویل کا خاتمہ کرتے ہیں۔
(امام جعفر صادق علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۲ ص ۹۲ حدیث ۲۱
۱۶۷۰۷۔ ہر صدی میں اس دین کی ذمہ داری کچھ عادل لوگ اٹھا لیتے ہیں جو اس دین سے اور جھوٹے لوگوں کی طرف سے دین میں کی جانے والی تاویلوں، جاہلوں کی طرف سے دین میں داخل کی جانے والی چیزوں اور غالیوں کی طرف سے کی جانے والی تحریف کا خاتمہ کر دیتے ہیں۔ اس طرح وہ دین کو ایسا صاف کر دیتے ہیں جیسے لوہار کی بھٹی لوہے کی آلائشوں کو صاف کر دیتی ہے۔
(حضرت رسول اکرم بحار الانوار جلد ۲ ص ۹۳ حدیث ۲۲
۱۶۷۰۸۔ خداوند عالم کے اس قول "ولکل امة رسول" یعنی ہر امت کے لئے خاص ایک (ایک) رسول ہے، (یونس/۴۷) کے بارے میں فرمایا: "اس کی باطنی تفسیر یہ ہے کہ اس امت کے لئے ہر صدی میں آلِ محمد سے خدا کا ایک بھیجا ہوا بندہ امت کی طرف آتا ہے اور ایسے لوگ خدا کے ولی اور خدا کے فرستادہ ہوتے ہیں۔
(امام محمد باقر علیہ السلام) تفسیر عباسی جلد ۲ ص ۱۲۳ حدیث ۲۳
۱۶۷۰۹۔ اللہ تعالیٰ کے اس قول "یوم ندعوا کل اناس بامامھم" یعنی اس دن جب ہم تمام لوگوں کو ان کے امام کے ساتھ بلائیں گے (بنی اسرائیل/۷۱) کے بارے میں فرمایا: "خدا اس امت کو ہر سو سال بعد اس کے امام کے ساتھ پکارے گا۔" راوی کہتا ہے کہ میں نے عرض کیا۔ "پھر تو حضرت رسول خدا اپنی صدی میں، حضرت علی اپنی صدی میں حضرت حسن کو اپنی صدی میں امام حسین اور ان کے بعد دوسرے ائمہ علیہم السلام اپنی اپنی صدیوں میں تشریف لائیں گے؟" فرمایا: ہاں ایسا ہی ہے!!"
(حضرت امام محمد باقر علیہ السلام) تفسیر نورالثقلین جلد ۳ ص ۱۹۰ حدیث ۳۲۵
۱۶۷۱۰۔ اللہ تعالیٰ نے ہر صدی اور ہر زمانے کے لئے کچھ لوگوں کو اپنی ذات کے لئے مخصوص کیا ہے، پیغمبر کے بعد جنہیں اپنی مہربانی سے بلند درجہ اور عالی مرتبہ عطا فرمایا ہے، انہیں اپنی ذات کے لئے حق کی دعوت دینے والا اور حق کی ہدایت کرنے والا قرار دیا ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) نورالثقلین جلد ۳ ص ۴۲۲ حدیث ۴۶
فصل۔ ۱۴
اقتصادیات
(۱) (۱۲۵)
اقتصاد
۱۶۷۱۱۔ اسلام اور مسلمانوں کی بقا اسی بات میں ہے کہ مالیات کا نظام ان لوگوں کے ہاتھ میں ہو جو حق کو سمجھتے اور اموال کو نیکی کے کاموں میں خرچ کرتے ہوں، اس لئے کہ اسلام اور مسلمانوں کی تباہی ا س بات میں ہے کہ مالیاتی نظام ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں چلا جائے جو نہ تو حق کو سمجھتے ہوں، اور نہ ہی اموال، کو نیک راہوں میں خرچ کرتے ہوں۔
(امام جعفر صادق علیہ السلام) کافی جلد ۴ ص ۲۵ حدیث ۱
۱۶۷۱۲۔ جن لوگوں کے حکمران عادل ہوں اور اشیاء کے نرخ سستے رکھیں تو سمجھ لیا جائے کہ اللہ ان سے راضی ہے۔ جن کے حکمران ظالم اور نرخ مہنگے ہوں تو جان لیا جائے کہ خدا ان سے ناراض ہے۔
(حضرت رسول اکرم) کافی جلد ۵ ص ۱۶۲ حدیث اول
۱۶۷۱۳۔ مہنگائی بداخلاق بنا دیتی ہے، بددیانتی کا سبب بنتی ہے اور مسلمان کو سخت پریشان کرتی ہے۔
(امام جعفر صادق علیہ السلام) کافی جلد ۵ ص ۱۶۴ حدیث ۶
۱۶۷۱۴۔ خداوند عالم کے اس قول "انی ارا کم بخیر" یعنی شعیب نے اپنی قوم سے کہا کہ میں تم کو آسودگی میں دیکھ رہا ہوں (ہود/۸۴) اس لئے کہ ان کی اشیاء کے نرخ سستے تھے۔
(امام جعفر صادق علیہ السلام) من لا یحضرہ الفقیہ جلد ۳ ص ۲۶۸
قولِ موٴلف: اسلامی اقتصادیات کے بارے میں میزان الحکمت کے مندرجہ ذیل ابواب کا مطالعہ کیا جائے،
عنوان "اجارہ کرایہ عنوان "حرفت" دستکاری
"ارض" زمین "حرام" حرام
"تبذیر" فضول خرچی "حقوق" حقوق
"تجارت" تجارت "احتکار" ذخیرہ اندوزی
"جزیہ" جزیہ "حلال" حلال
"بخل" بخل "حاجت" ضرورت
عنوان "اسراف" فضول خرچی عنوان "دین" قرضہ
"مسکن" ٹھکانہ، رہائش گاہ "ربا" سود
"خمس" خمس "رزق" رزق
"خیانت" خیانت "رشوة" رشوت
"دنیا" دنیا "زکوٰة" زکوٰة
"زھد" زہد "سوال" سوال
"سحت" حرام کمائی "مسرقہ" چوری
"شوق" بازار "سئح" بخل
"شرکت" شراکت "صدقہ" صدقہ خیرات
"صناعة" صنعت و حرفت "ضمان" ضمانت
"طمع" لالچ "ظلم" ظلم
"عدل" عدل "معروف" نیکی
"عیش" زندگی "غش" ملاوٹ
"غل" ملاوٹ "غنیٰ" تونگری
"فقر" تنگدستی "قرض" قرضہ
"قناعت" قناعت "قمار" جوا
"کسب" کمائی، کاروبار "مال" مال
"انفاق" خرچ کرنا "انفال" انفال
"ارشا" وراثت "وقف" وقف
(۲)کاروبار میں میانہ روی کے فوائد
۱۶۷۱۵۔ میانہ روی گزر اوقات کی مقدار کو پورا کرتی ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) بحارالانوا جلد ۷۸ ص ۱۰ حدیث ۶۷
۱۶۷۱۶۔ میانہ روی اخراجات میں نصف کمی کر دیتا ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم حدیث ۵۶۵
۱۶۷۱۷۔ میانہ روی سے قلیل مال بڑھتا ہے اور اسراف (فضول خرچی) سے کثیر مال بھی ختم ہو جاتا ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم حدیث ۳۳۴، ۳۳۵
۱۶۷۱۸۔ اخراجات میں میانہ روی نصف معیشت ہے۔
(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۵۴۳۴
۱۶۷۱۹۔ جو میانہ روی کو اپنا لیتا ہے اس پر اخراجات کا بوجھ نہیں پڑتا۔
(حضرت علی علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۱ ص ۳۴۲
۱۶۷۲۰۔ انسان اخراجات میں میانہ روی سے کبھی غریب نہیں ہوتا۔
(امام موسیٰ کاظم علیہ السلام) من لا یحضرہ الفقیہ جلد ۲ ص ۶۴
۱۶۷۲۱۔ جس شخص نے میانہ روی اختیار کی وہ کبھی غریب نہیں ہو گا۔
(حضرت علی) فصل صدوق ص ۶۲۰
۱۶۷۲۲۔ جو اخراجات میں میانہ روی اختیار کرتا ہے تونگری بھی اس کا ساتھ دیتی ہے اور یہی میانہ روی اس کی غربت و تنگدستی کی تلافی و نقصان کو پورا کرتی ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم حدیث ۱۹۶۵
۱۶۷۲۳۔ جو اخراجات میں میانہ روی اختیار کرتا ہے میں ضمانت دیتا ہوں کہ وہ غریب اور تنگدست نہیں ہو گا۔ خداوند عالم فرماتا ہے "لیسئلونک ما ذا ینفقون قل العفو" یعنی لوگ تم سے سوال کرتے ہیں کہ خدا کی راہ میں کیا خرچ کریں، تو تم کہہ دو کہ جو تمہاری ضرورت سے بچ جائے (بقرہ/۲۱۹) چنانچہ "عفو" (ضرورت سے بچ جانے والی) درمیانی چیز ہے۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے "والذین اذا انفقوا لم لیرفوا ولم تقتروا وکان بین ذلک قواماً" یعنی وہ لوگ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ تنگی کرتے ہیں۔ ان کا خرچ اس کے درمیان ہوتا ہے (فرقان/۶۷) یہاں پر "قوام" سے مراد اوسط درجے کا خرچ ہے۔
(امام جعفر صادق علیہ السلام) من لا یحضرہ الفقیہ جلد ۲ ص ۶۴
۱۶۷۲۴۔ فضول خرچی سے مال جاتا رہتا ہے اور اعتدال کے ساتھ خرچ کرنے سے مال بڑھتا رہتا ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۱ ص ۳۴۷
۱۶۷۲۵۔ جو خوشحالی اور فاقہ مستی میں اعتدال سے کام لیتا ہے وہ اپنے آپ کو حوادث زمانہ کے (ساتھ مقابلہ کے) لئے تیار رکھتا ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم حدیث ۹۰۴۸
۱۶۷۲۶۔ اپنے فرزند امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: "بیٹا اپنے معاش میں اعتدال پسندی سے کام لیا کرو۔"
(حضرت علی علیہ السلام) امالی طوسی ص ۸ حدیث ۸
۱۶۷۲۷۔ جو اخراجات میں میانہ روی اور اعتدال سے کام لیتا ہے اللہ تعالیٰ اسے بے نیاز کر دیتا ہے۔
(حضرت سول اکرم( تنبیہ الخواطر جلد اول ص ۱۶۷
قولِ موٴلف: ملاحظہ ہو باب "لباس"
(۳)اقتصاد کے بارے میں متفرق احادیث
۱۶۷۲۸۔ اقتصاد (اعتدال اور میانہ روی) کی ایک حد ہوتی ہے۔ جب وہ اس حد سے بڑھ جائے تو وہ بخل ہوتا ہے۔
(امام حسن عسکری علیہ السلام) الدرة الباہرہ ص ۴۳
۱۶۷۲۹۔ میانہ روی کی آخری حد قناعت ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم حدیث ۶۳۶۴
۱۶۷۳۰۔ مومن کی سیرت میانہ روی ہے اور اس کا کردار راہِ ہدایت پر چلنا ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم حدیث ۱۵۰۱
۱۶۷۳۱۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک میانہ روی سے بڑھ کر کوئی اخراجات زیادہ محبوب نہیں ہیں۔
(حضرت رسول اکرم) بحارالانوار جلد ۷۶ ص ۲۶۹
۱۶۷۳۲۔ میانہ روی ایسی چیز ہے جسے خداوند عز و جل پسند فرماتا ہے اور فضول خرچی ایسا معاملہ ہے جو خداوند عز و جل کو پسند نہیں۔
(امام جعفر صادق علیہ السلام) خصال صدوق ۳۶، ص ۱۰ حدیث ۳۶
۱۶۷۳۳۔ اعتدال پسندی، اچھی وضع قطع اور نیک ہدایت، نبوت کے بیس سے کچھ زیادہ اجزاء میں سے ایک ہے۔
(حضرت رسول اکرم) تنبیہ الخواطر ص ۱۶۷
فصل۔ ۱۵
قصے اور داستانیں
قصے اور داستانوں کی مفصل فہرست کے لئے ملاحظہ ہو:
بحارالانوار جلد ۱۱ ص ۹۷ حضرت آدم اور حوا کی داستانیں
۔۔۔۔۔جلد ۱۱ ص ۲۷۰ ۔۔۔۔۔۔ادریس ۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔جلد ۱۱ ص ۲۸۵ ۔۔۔۔۔۔۔نوح۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔جلد ۱۱ ص ۳۴۳ ۔۔۔۔۔۔۔ہود۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔جلد ۱۱ ص ۳۶۶ شداد اور ارم ذات العماد۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔جلد ۱۱ ص ۳۷۰ حضرت صالح اور ان کی قوم۔۔۔۔
۔۔۔۔۔جلد ۱۳ ص ۳۹۲ ۔۔۔الیاس، ایلیا اور الیسع۔۔۔۔
۔۔۔۔۔جلد ۱۳ ص ۴۰۴ ۔۔۔ذوالکفل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔جلد ۱۳ ص ۴۰۸ ۔۔۔لقمان اور ان کی حکمتیں
۔۔۔۔۔جلد ۱۳ ص ۴۳۵ اشموئیل، طالوت اور جالوت کی داستانیں
۔۔۔۔۔جلد ۱۴ ص ۱ حضرت داؤد کے قصے
۔۔۔۔۔جلد ۱۴ ص ۴۹ اصحاب سبت کے قصے
۔۔۔۔۔جلد ۱۴ ص ۹۰ حضرت سلیمان کا وادی النحل سے گر
۔۔۔۔۔جلد ۱۴ ص ۱۰۹ حضرت سلیمان کا ملکہ بلقیس کے ساتھ قصہ
۔۔۔۔۔جلد ۱۴ ص ۱۴۳ قوم سبا اور اہل ثرثار کا قصہ
۔۔۔۔۔جلد ۱۴ ص ۱۴۸ اصحاب رس اور حضرت حنظلہ کی داستان
۔۔۔۔۔جلد ۱۴ ص ۱۶۱ حضرت شعیا اور حیقوق علیہما السلام کے قصے
۔۔۔۔۔جلد ۱۴ ص ۱۹۱ حضرت مریم اور ان کی ولادت کی داستان
۔۔۔۔۔جلد ۱۴ ص ۲۰۶ حضرت عیسیٰ کے قصے
۔۔۔۔۔جلد ۱۴ ص ۳۴۵ حضرت عیسیٰ کے وصی کی داستانیں
۔۔۔۔۔جلد ۱۴ ص ۳۵۱ حضرت اولیا، حضرت دانیال حضرت عزیز اور بخت النصر کی داستانیں
۔۔۔۔۔جلد ۱۲ ص ۱ حضرت ابراہیم کے قصے
۔۔۔۔۔جلد ۱۲ ص ۱۴۰ حضرت لوط کے قصے
۔۔۔۔۔جلد ۱۲ ص ۱۷۲ حضرت ذوالقرنین کے قصے
۔۔۔۔۔جلد ۱۲ ص ۲۱۶ حضرت یعقوب اور یوسف کی داستانیں
۔۔۔۔۔جلد ۱۲ ص ۳۳۹ حضرت ایوب کے قصے
۔۔۔۔۔جلد ۱۲ ص ۳۷۳ حضرت شعیب کے قصے
۔۔۔۔۔جلد ۱۳ ص ۱ ۔۔۔۔موسیٰ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔جلد ۱۳ ص ۲۴۹ قارون کا قصہ
۔۔۔۔۔جلد ۱۳ ص ۲۵۹ گائے کے ذبح کی داستان
۔۔۔۔۔جلد ۱۳ ص ۲۷۸ حضرت موسیٰ اور خضر کی داستانیں
۔۔۔۔۔جلد ۱۳ ص ۳۷۷ بلعم بن باعور کی پوری داستان
۔۔۔۔۔جلد ۱۳ ص ۳۸۱ حضرت حزقل کا قصہ
۔۔۔۔۔جلد ۱۳ ص ۳۸۸ حضرت اسماعیل کا قصہ
۔۔۔۔۔جلد ۱۴ ص ۳۷۹ حضرت یونس اور ان کے والد متی کا قصہ
۔۔۔۔۔جلد ۱۴ ص ۴۰۷ اصحاب کہف کے قصے
۔۔۔۔۔جلد ۱۴ ص ۴۳۸ اصحاب اخدود (خندق والوں) کے قصے
۔۔۔۔۔جلد ۱۴ ص ۴۴۵ حضرت جرجیس کے قصے
۔۔۔۔۔جلد ۱۴ ص ۴۴۸ خالد بن سنان عبسی کا قصہ
۔۔۔۔۔جلد ۲۱ ص ۲۵۲ ابو عامر راہب اور مسجد ضرار کے قصے
۔۔۔۔۔جلد ۷۸ ص ۳۸۳ بوہر اور یوذاسف کا قصہ
۔۔۔۔۔جلد ۹۶ ص ۱۰۱ ان بہشتیوں کی داستان جنہوں نے اپنے مال سے حق خدا کو روکا
کنزالعمال جلد ۱۵ ص ۱۵۰ داستانوں کی کتاب
۔۔۔۔۔۔جلد ۱۵ ص ۱۵۰ بہرے، مبروص اور اندھے کے قصے
۔۔۔۔۔۔جلد ۱۵ ص ۱۵۲ ہزار دینار قرضہ لینے والے کا قصہ
۔۔۔۔۔۔جلد ۱۵ ص ۱۵۴ غار والے کا قصہ
۔۔۔۔۔۔جلد ۱۵ ص ۱۵۷ حضرت موسیٰ اور خضر کی داستان
۔۔۔۔۔۔جلد ۱۵ ص ۱۵۹ اصحاب اخدود (خندق والوں) کے قصے
۔۔۔۔۔۔جلد ۱۵ ص ۱۶۳ گہوارے میں بولنے والے بچوں کی داستانیں
۔۔۔۔۔۔جلد ۱۵ ص ۱۶۴ ماشطہ بن فرعون کا قصہ
(۴)مفید ترین قصے
قرآنِ مجید
فاقصص القصص لعلھم یتفکرون۔ (اعراف/۱۷۶)
ترجمہ۔ (اے پیغمبر!) یہ قصے ان لوگوں سے بیان کرو تاکہ یہ لوگ غور و فکر کریں۔
نحن نقص علیک احسن القصص
ترجمہ۔ (اے رسول!) ہم تم پر تم سے قرآن میں ایک نہایت بہترین قصہ بیان کرتے ہیں اگرچہ تم اس سے پہلے (اس سے) بالکل واقف نہ تھے۔
لقد کان فی قضصہم……………………………(یوسف/۱۱۱)
ترجمہ۔ اس میں شک نہیں کہ ان لوگوں کے قصں میں عقلمندوں کے واسطے عبرت ہے، یہ کوئی ایسی بات نہیں جو (خواہ مخواہ) گھڑ لی گئی ہو، بلکہ (جو آسمانی کتابیں) اس سے پہلے موجود ہیں ان کی تصدیق کرتی ہیں اور ہر چیز کی تفصیل ایمانداروں کے لئے ہدایت و رحمت ہے۔
حدیث شریف
۱۶۷۳۴۔ (اور تم پر لازم ہے کہ) گزشتہ زمانے کے اہلِ ایمان کے وقائع و حالات میں غور و فکر کرو کہ (صبر آزما) ابتلاؤں اور (جانکاہ) مصیبتوں میں ان کی کیا حالت تھی…غور کرو کہ جب ان کی جمعیتیں یک جا اور خیالات یکسو…تھے…اور (تصویر کا یہ رخ بھی) دیکھو کہ جب ان میں پھوٹ پڑ گئی، یک جہتی درہم برہم ہو گئی، ان کی باتوں اور دلوں میں اختلافات کے شاخسانے پھوٹ نکلے اور وہ مختلف ٹولیوں میں بٹ گئے تو کئی گروہ بن کر ایک دوسرے سے لڑنے بھڑنے لگے۔ پس تو ان کی یہ نوبت ہو گئی کہ اللہ نے ان سے عزت و بزرگی کا لباس اتار لیا، نعمتوں کی آسائشیں ان سے چھین لیں، اور تمہارے درمیان ان کے واقعات حکایات عبرت بن کر رہ گئیں۔
(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ خطبہ ۱۹۲
۱۶۷۳۵۔ پس قرآن کا علم حاصل کرو کہ وہ بہترین کلام ہے، اس میں غور و فکر کرو کہ یہ دنوں کی بہار ہے، اس کے نور سے شفا حاصل کرو کہ سینوں (کے اندر چھپی ہوئی بیماریوں) کے لئے شفا ہے۔ اس کی خوبی کے ساتھ تلاوت کرو کہ اس کے واقعات سب واقعات سے زیادہ فائدہ بخش ہیں۔
(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ خطبہ ۱۱۰
آیات قصص کی تفسیر
"نحن نقص علیک احسن القصص" (یوسف/۱۳) کی تفسیر کے بارے میں امام راغب، مفردات میں فرماتے ہیں کہ "القص" کے معنی ہیں "پیروی کرنا، یا تابعداری کرنا" جیسا کہ کہا جاتا ہے "قصصت اثرہ" یعنی میں اس کے پیچھے پیچھے چلا پس "قصص" پیچھے چلنے کو کہتے ہیں۔ قرآن مجید میں ہے "فارتدا علی آثار ھما قصصا" یعنی پھر دونوں اپنے قدم کے نشانوں کو دیکھتے دیکھتے الٹے پاؤں پھرے (کہف/۶۴) اسی طرح فرماتا ہے "قالت لاختہ قصیہ" یعنی موسیٰ کی ماں نے ان کی بہن سے کہا کہ تم اس کے پیچھے پیچھے چلی جاؤ (قصص/۱۱)
معلوم ہوا کہ "قصص" سے مراد ایک دوسرے کے پیچھے ذکر ہونے والے واقعات اور اخبار ہیں جیسا کہ خداوند عالم فرماتا ہے "لھو القصص الحق" یعنی یہ سچی خبریں اور واقعات ہیں۔ (آل عمران/۶۲) نیز فرماتا ہے" و فی قصصھم عبرة" یعنی ان کے قصوں میں عبرت ہے۔ (یوسف/۱۱۱) پھر فرماتا ہے "وقص علیہ القصص" یعنی ان سے اپنے قصے کو بیان کیا (قصص/۲۵) یہ بھی کہ "نحن نقص علیک احسن القصص" یعنی ہم، آپ سے ایک نہایت عمدہ قصہ بیان کرتے ہیں (یوسف/۳) وغیرہ۔ معلوم ہوا کہ "قصص" سے مراد "قصہ" ہی ہے۔ اور "احسن القصص" سے مراد "احسن اور نہایت عمدہ قصہ ہے" ۔ جبکہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ لفظ "قصص" مصدر ہے جس کے معنی ہیں "روایت بیان کرنا" لہٰذا اگر مصدر ہو تو حضرت یوسف کا قصہ نہایت ہی عمدہ داستان ہو گی ا س لئے کہ اس میں عبودیت میں توحید کے اخلاص اور بندہ ہے پر خدا کی حکومت کی مثالیں موجود ہیں اور اس بات کا ذکر ہے کہ اگر بندہ اس کی محبت کی راہوں پر چلے تو وہ اس کی صحیح معنوں میں تربیت کرتا، اسے ذلت کے گڑھوں سے نکال کر عزت کی بلندیوں پر فائز فرماتا ہے، اسارت کے تاریک کنوؤں اور عذاب و سختیوں کی قید سے نکال کر عزت اور بادشاہت کے تخت پر لا بٹھاتاہے۔
اگر لفظ "قصص" مصدر ہو تو اس کے معنی ہوں گے یوسف علیہ السلام کا قصہ ایک بہترین کلام، عمدہ ترین واقعہ اور احسن ترین خبر ہے جس میں عشق و محبت کے واقعات کو پاکیزہ ترین انداز اور ممکن حد تک عمدہ ترین صورت میں پیش کیا گیا ہے۔ پس اس آیت کے معنی…جنہیں خد ا سب سے بہتر جانتا ہے…یہ ہوں گے کہ:
"اے پیغمبر! ہم تم پر یہ قرآن وحی کی صورت میں بھیج کر ایک نہایت عمدہ قصہ بیان کرتے ہیں اگرچہ تم اس سے پہلے اس سے بالکل بے خبر تھے۔
تفسیرالمیزان جلد ۱۱ ص ۷۵
قولِ موٴلف: ملاحظہ ہو "قرآن"
(۵)قصہ گو افراد کی مذمت
۱۶۷۳۶۔ حضرت امیرالمومنین نے ایک شخص کو قصہ بیان کرتے ہوئے دیکھا تو اسے کوڑے مار کر بھگا دیا۔
(امام جعفر صادق علیہ السلام)
۱۶۷۳۷۔ (آپ کے سامنے قصہ گو لوگوں کا ذکر ہوا تو فرمایا) "خدا ان پر لعنت کرے یہ ہم پر طعن و تشنیع کرتے ہیں۔
(امام جعفر صادق علیہ السلام) کافی جلد ۷ ص ۲۶۳
۱۶۷۳۸۔ "والشعرأ یتبعھم الغاؤن" یعنی شاعروں کی پیروی تو گمراہ لوگ کیا کرتے ہیں (شعرأ/۲۲۴)، کے بارے میں فرمایا "شعراء" سے مراد "قصہ گو" ہیں۔
(امام جعفر صادق علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۲ ص ۲۶۴
فصل۔ ۱۶
(۱) ص ۱۳۴
قصاص
قرآنِ مجید:
ولکم فی القصاص………………………تتقون (بقرہ/۱۷۹)
ترجمہ۔ اے عقل والو! قصاص میں تمہاری زندگی ہے، تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔
یٰا یھاالذین امنوا کتب علیکم القصاص فی القتلی…(بقرہ/۱۷۸)
ترجمہ۔ اے مومنو! جو لوگ مارے ڈالے جاتے ہیں ان کے بدلے میں قصاص (جان کے بدلے جان) لینے کا حکم دیا جاتا ہے۔
الشھرالحرام بالشھر الحرام…………………………معن المتیقن (بقرہ/۱۹۶)
ترجمہ۔ حرمت والا مہینہ حرمت والے مہینے کے برابر ہے۔ سب حرمت والی چیزیں ایک دوسرے کے برابر ہیں۔ پس جو شخص تم پر زیادتی کرے تو جیسی زیادتی اس نے تم پر کی ہے ویسی ہی زیادتی تم بھی اس پر کرو، خدا سے ڈرتے رہو اور خوب سمجھ لو کہ خدا پرہیزگاروں کا ساتھی ہے۔
وکتبنا علیھم فیہا……………………ھم الظٰلمون (مائدہ/۴۵۱)
ترجمہ۔ اور ہم نے اس (توریت) میں ان (یہودیوں) پر یہ فرض کر دیا تھا کہ جان کے بدلے جان، آنکھ کے بدلے آنکھ، ناک کے بدلے ناک، کان کے بدلے کان، دانت کے بدلے دانت اور زخم کے بدلے ویسا ہی برابر کا بدلہ زخم ہے۔ پھر جو (مظلوم، ظالم کی) خطا معاف کر دے تو یہ اس کے گناہوں کا کفارہ ہو جائے گا، اور جو شخص خدا کی نازل کی ہوئی (کتاب) کے مطابق حکم نہ دے تو ایسے ہی ولگ ظالم ہیں۔
ولاتقتلوا النفس التی………………………………کان منصورا۔ (بنی اسرائیل/۳۳)
ترجمہ۔ اور جس جان کا مارنا خدا نے حرام کر دیا ہے اسے قتل نہ کرنا مگر جائز طور پر، اور جو شخص ناحق مارا جائے تو ہم نے اس کے وارث کو (قاتل پر قصاص کا) اختیار دیا ہے۔ پس اسے چاہئے کہ قتل (خون کا بدلہ لینے) میں زیادتی نہ کرے، بے شک اس کی مدد کی جائے گی۔
حدیث شریف
۱۶۷۳۹۔ اے لوگو! قصاص کو زندہ رکھو، حق کو زندہ رکھو اور فرقوں میں نہ بٹ جاؤ، خود بھی سلامتی میں رہو اور دوسروں کو بھی سلامتی سے رہنے دو اس طرح تم صحیح و سالم اور بچے رہو گے۔
(حضرت رسول اکرم) امالی شیخ مغید ص ۵۳ حدیث ۱۵
۱۶۷۴۰۔ اللہ تعالیٰ کے اس قول "ولکم فی القصاص حیواة…" کے بارے میں فرمایا: "قصاص میں زندگی اس لئے ہے کہ جو شخص کسی کو قتل کرنا چاہے گا اسے یہ معلوم ہو گا کہ اس سے بھی قصاص لیا جائے گا، اور اس کی جان بھی چلی جائے گی۔ لہٰذا وہ قتل سے باز رہے گا۔ اس طرح ایک تو اس کی زندگی بچ جائے گی جس کے قتل کا ارادہ کیا گیا تھا۔ اور قتل کا ارادہ کرنے والے کی جان بھی قصاص سے محفوظ رہے گی۔ ان دو کے علاوہ اور لوگوں کی جانیں بھی محفوظ رہیں گی کیونکہ انہیں علم ہو گا کہ قصاص واجب و لازم ہے۔ لہٰذا اس کے خوف سے وہ قتل کی جرأت نہیں کریں گے۔
(امام زین العابدین علیہ السلام) تفسیر منسوب۔ امام حسن عسکری ص ۵۹۵
۱۶۷۴۱۔ میں نے چار باتیں ایسی کی ہیں جن کی تصدیق اللہ نے قرآن میں نازل کر دی ہے۔ ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ میں نے: "قتل (بطور قصاص)، قتل میں کمی پیدا کرتا ہے" پس خداوند تعالیٰ نے قرآن مجید میں نازل فرما دیا "ولکم فی القصاص حیوٰة…"
(حضرت علی علیہ السلام) امالی طوسی ۴۹۴ حدیث ۱۰۸۲
۱۶۷۴۲۔ خداوند عالم نے ایمان کو واجب کیا ہے شرک کی آلودگیوں سے پاک کرنے کے لئے …اور قصاص کو واجب قرار دیا ہے خونریزی کے انسداد کے لئے…
(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ حکمت ۲۵۲
۱۶۷۴۳۔ پتھر جہاں سے آیا ہے اسی طرف سے پلٹا دو، کیونکہ سختی کو صرف سختی کے ساتھ ہی روکا جا سکتا ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم حدیث ۵۳۹۴
۱۶۷۴۴۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پانچ تلواروں کے ساتھ معبوث فرمایا ہے۔ جن میں ایک تلوار نیام میں بند ہے اور اس کے کھولنے کچا کام ہمارے غیر کے پاس ہے جبکہ اس کے حکم دین کا اختیار ہمیں ہے۔ یہ وہ تلوار ہے جس کے ذریعہ قصاص لیا جاتا ہے جس کے بارے میں خداوند تعالیٰ فرماتا ہے: النفس بالنفس…" یعنی جان کے بدلے جان ہے…چنانچہ ا س کا حکم ہم دیتے ہیں لیکن اس کا چلانا مقتول کے ورثاء کا کام ہے۔
(امام جعفر صادق علیہ السلام) تفسیر عباسی جلد اول ص ۳۲۴ حدیث ۱۲۸
(قولِ موٴلف: ملاحظہ ہو: بابا "سلاح" (اسلحہ) "پانچ تلواریں")
۱۶۷۴۵۔ اے لوگو! میں بھی تمہاری طرح بشر ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ عنقریب تمہارے پسِ پشت میرے بارے میں کچھ بجو قسم کے لوگ باتیں بنانے لگیں۔ لہٰذا میں نے تم میں سے جس کسی کی عزت، بال، کھال یا مال میں سے جو کچھ لیا ہے تو محمد کی یہ عزت، بال، کھال اور مال سب حاضر ہیں، اٹھ کر اس کا قصاص لے لے، تاکہ بعد میں کوئی یہ نہ کہے کہ میں محمد کی دشمن و ناراضگی سے ڈرتا تھا اس لئے قصاص نہیں لیا۔ ایسا ہرگز نہیں ہے کیونکہ دشمنی و ناراضگی نہ تو میری فطرت ہے اور نہ ہی میری عادت ہے۔
(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۳۹۸۳۱
قصاص کے بارے میں علمی گفتگو
آیہٴ قصاص کے نزول اور ا س سے پہلے کے دور میں عرب معاشرہ قصاص اور قاتل کو سزائے موت دینے کا قائل تھا۔ البتہ ان کے قصاص کی کوئی حد مقرر نہیں تھی بلکہ یہ قبائل کی طاقت پر منحصر تھا، کیونکہ بعض اوقات تو ایک مرد کے بدلے ایک مرد کو اور ایک عورت کے بدلے ایک عورت کو قتل کر دیا جاتا تھا جبکہ بعض مرتبہ ایسا بھی ہوتا کہ ایک مرد کے بدلے دس مردوں کو اور ایک غلام کے بدلے میں ایک آزاد کو قتل کیا جاتا۔ کسی قبیلہ کسی رعایا کے فرد کے بدلے میں قاتل قبیلہ کے سردار کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا، بلکہ بسا اوقات صرف ایک مرد کے قتل کے بدلے میں ایک پورے قبیلے کو تباہ و برباد کر دیا جاتا۔
یہودیوں میں بھی قصاص کا رواج تھا اور وہ اس کے قائل تھے، جیسا کہ توریت باب ۲۱, ۲۲ سفر خروج، اور فصل ۳۵ سفر عدد میں بھی اس کا تذکرہ ہے۔ قرآن مجید نے بھی اسے یوں بیان کیا "وکتبنا علیھم فیھا ان النفس بالنفس والعین بالعین والانف بالانف والاذن بالاذن والسن بالسن والجروح قصاص" "یعنی ہم نے الواح میں ان کے لئے لکھ دیا ہے کہ ایک شخص کے بدلے ایک شخص، آنکھ کے بدلے آنکھ، ناک کے بدلے ناک، کان کے بدلے کان، دانت کے بدلے دانت اور زخم کے بدلے زخم کا قصاص لیا جائے گا۔" (مائدہ/۴۵)
لیکن جیسا کہ بیان کیا جاتا ہے عیسائیوں میں قتل کے بارے میں معافی اور خون بہا (دیت) کے علاوہ کوئی اور حکم نافذ نہیں تھا۔
اسی طرح دوسری اقوام و قبائل میں ان کے طبقات کے مختلف ہونے کے لحاظ سے بھی قتل کے بارے میں قصاص کا حکم تھا، یہ اور بات ہے کہ عصر حاضر کی طرح ان کے ہاں کوئی صحیح و مقررہ ضابطہٴ قصاص نافذ نہیں تھا۔
اس دوران اسلام کے عادلانہ نظام نے ایک منصفاہ راہ دکھائی، وہ یوں کہ نہ تو اس نے قصاص کو مکمل طور پر منسوخ کیا اور نہ ہی غیرمحدود پیمانے پر اس کی تائید کی، بلکہ قصاص کے حکم کو بحال رکھا لیکن قاتل کے لئے صرف سزائے موت ہی پر اکتفا نہیں کی، بلکہ ساتھ ہی مقتول کے وارثوں کو اختیار دے دیا کہ چاہیں تو قاتل کو معاف کر دیں اور چاہیں تو اس سے دیت (خون بہا) لے لیں۔ اس کے علاوہ قاتل اور مقتول کے درمیان مساوات کو بھی پیش نظر رکھا۔ وہ اس طرح کہ آزاد کے بدلے آزاد کو، غلام کے بدلے غلام کو اور عورت کے بدلے میں عورت کو ہی قتل کیا جائے گا۔
لیکن عصر حاضر میں قصاص اور خاص طور پر سزائے موت پر اعتراض کیا جاتا ہے اور ترقی یافتہ ممالک نے جو قوانین شہریت مرتب کئے ہیں ان میں قصاص کو صحیح نہیں سمجھا جاتا بلکہ انسانوں پر اس کے اجرا کی مخالفت کی جاتی ہے۔
ان کی دلیل یہ ہے کہ قاتل کو سزائے موت دینا ایک ایسا امر ہے جسے انسان کی طبیعت پسند ہی نہیں کرتی بلکہ اس سے نفرت بھی کرتی ہے۔ نیز یہ کہ ا س سے انسانیت کی توہین ہوتی ہے، رحم کے تقاضوں کے بھی خلاف ہے۔ اسی طرح وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ پہلے تو ایک قتل نے انسانی معاشرے سے ایک فرد کو کم کر دیا تھا ، دوسرے قتل نے اس کمی کو پورا کرنے کی بجائے ایک اور فرد کو ختم کر دیا، یہ کمی بالائے کمی ہے۔ ان کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ قتل کرکے قصاص لینا سنگدلی اور جذبہٴ انتقام کی علامت ہے، لہٰذا عوام کی تربیت کرکے سنگدلی کو ختم کیا جائے اور جذبہٴ انتقام کے تحت قاتل کو قتل کرنے کی بجائے سزا کے طور پر اس کی تربیت کرنی چاہئے۔ یہ سزا، قتل کے علاوہ ہونی چاہئے مثلاً قید بامشقت وغیرہ۔
وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ جو مجرم قتل کا ارتکاب کرتا ہے اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ نفسیاتی مریض ہوتا ہے اورکم عقلی کی وجہ سے اتنے بڑے جرم کا مرتکب ہوتا ہے، یہی وجہ ہے عقلمندوں کی عقل یہ کہتی ہے کہ ایسے مجرموں کو نفسیاتی ہسپتالوں میں داخل کرکے ان کا علاج کیا جائے۔
وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ "قوانین شہریت" معاشرتی تقاضوں کے پیش نظر وضع کئے جائیں کیونکہ معاشرہ ایک حال پر قائم نہیں رہتا بلکہ اس میں تغیر تبدل ہوتا رہتا ہے۔ لہٰذا قصاص کے حکم کو بدل دینا چاہئے کیونکہ اس کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ قصاص کے قوانین ابد تک کے لئے معتبر ہوں اور ترقی یافتہ اقوام پر بھی ان کا اجرا کیا جائے۔ اس لئے کہ عصر حاضر کے معاشرتی تقاضے اس بات کے خواہاں ہیں کہ جتنا ہو سکے افراد کی تعداد سے بھرپور استفادہ کیا جائے، ایسے قوانین بنائے جا سکتے ہیں جن سے مجرموں کو سزا بھی مل جائے اور ان کے وجود سے بھی استفادہ کیا جا سکے۔ نیز سزا ایسی ہو جو نتیجہ کے لحاظ سے قتل کے برابر ہو جیسے عمر قید یا طویل المیعاد قید وغیرہ۔ اس طرح سے ایک طرف تو معاشرے کا حق محفوظ ہو جاتا ہے اور دوسری طرف مقتول کے ورثاء کی دادرسی ہو جاتی ہے۔
یہ وہ اہم وجوہات جو سزائے موت کے مخالف اپنے نظریہ کے ثابت کرنے کے لئے پیش کرتے ہیں۔ لیکن قرآن مجید نے ان سب کا جواب صرف ایک آیت کے ذریعہ دے دیا ہے اور وہ یہ کہ : "ْن قتل نفسا بغیر نفس او فسا دفی الارض فکا نما قتل الناس جمیعا۔ و من احیا ھا فکا نما احیا الناس جمیعا" یعنی جو شخص کسی ایسے شخص کو قتل کر دے جس نے نہ تو کسی کو قتل کیا، اور نہ ہی زمین میں فساد کا ارتکاب کیا ہو، تو یہ ایسے ہے جیسے اس نے تمام لوگوں کو قتل کر دیا، اسی طرح جو ایک شخص کو بچا لے تو گویا اس نے تمام انسانیت کو بچا لیا ہے۔ (مائدہ/۳۲)
چونکہ افرادِ انسانی کے درمیان رائج قوانین وصفی اور اعتباری ہوتے ہیں جن میں انسانی معاشرے کی مصلحت کو پیش نظر رکھا جاتا ہے لیکن اصل وجوہات جو قانون سازی کا موجب بنتی ہیں۔ وہ انسان کے خارجی حالات ہیں جو اسے نقائص کے دور کرنے اور اس کی تکوینی ضروریات کے پورا کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔
یہی خارجی حالات جو اس قسم کی کیفیت کا موجب ہوتے ہیں ، انسانوں کی تعداد یا ان کی قوت و طاقت یا ضعف و کمزوری پر منحصر نہیں ہیں بلکہ ان کے انسان ہونے کے ناطے ان پر احکام کا دارومدار ہوتا ہے۔ انسان خواہ ایک ہو یا ہزاروں، اس کی انفرادی حیثیت ہو یا اجتماعی، انسانیت کے لحاظ سے سب یکساں ہیں۔ ایک انسان بھی انسان ہے اور ہزاروں انسان بھی انسان ہیں۔ ایک عورت بھی انسان ہے اور ہزاروں عورتیں بھی انسان ہیں۔
اسی بنا پر جو شے انسانیت کے وجود کے لئے خطرناک ہو اور حیاتِ انسانی کے لئے خطرہ کا موجب ہو انسان کا فرض ہے کہ اس سے اپنا دفاع کرے خواہ اسے اس کو ختم کرکے ہی اپنا دفاع کرنا پڑے۔ یہی وجہ ہے کہ جس شخص کو یہ شک ہو کہ کوئی شخص اسے قتل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تو اسے قتل کرنا جائز ہے اور کیونکہ اس کے سوا اس کے پاس کوئی اور چارہ نہیں ہوتا۔
یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ اقوام، جو قصاص کو صحیح نہیں سمجھتیں، اگر ان کے استقلال و آزادی اور قومی نام نہاد حیثیت کو خطرات لاحق ہوتے ہیں، جنگ کے سوا انہیں اور کوئی چارہ کار نظر نہیں آتا تو بے درنگ اس کے دفاع پر آمادہ ہو جاتے ہیں اور جنگ کرنے سے نہیں چوکتیں، چہ جائے کہ دشمن ان کے غارت کرنے یا انہیں نیست و نابود کرنے کا پورا تہیہ کئے ہوئے ہو۔ اس بارے میں یہ اقوام اپنے ہی بنائے ہوئے قوانین کے غلط ہونے کا تاحد امکان دفاع کرتی ہیں، حتیٰ کہ دشمن کو قتل کرنے سے بھی باز نہیں آتیں، جنگ کے سوا انہیں کوئی اور راستہ نہ ملے تو جنگ کرنے سے بھی گریز نہیں کرتیں۔
انہی تباہ کن، ہلاکت خیز اور نسل کی بربادی کی موجب جنگوں کے لئے مختلف اقوام ہمیشہ اپنے آپ کو تباہ کن ہتھیاروں سے لیس کرتی رہتی ہیں۔ ان کی دیکھا دیکھی دوسری قومیں بھی اسی کوشش میں مصروف رہتی ہیں کہ اپنے آپ کو اس طرح کے مہلک ہتھیاروں سے مسلح کریں کہ اسلحہ کی اس دوڑ میں ترقی یافتہ اقوام سے پیچھے نہ رہ جائیں، اور طاقت کا توازن برقرار رہے۔
ان اقوام کے پاس اس کی اور کوئی دلیل نہیں ہوتی سوائے اس کے کہ وہ اپنی اجتماعی و معاشرتی بقا کی حفاظت کر رہی ہوتی ہیں جس کے لئے وہ جنگ کا سہارا لیتی ہیں، حالانکہ اگر دیکھا جائے تو ایک انسان، معاشرہ اور اجتماع کی زندگی میں کوئی فرق نہیں، کیونکہ ایک انسان بھی تو معاشرہ ہی کا ایک فرد ہوتا ہے۔ جس طرح کسی معاشرہ کی زندگی عزیز ہوتی ہے اسی طرح ایک انسان کی زندگی بھی قابل قدر حیثیت کی حامل ہوتی ہے۔ جب فرد و معاشرہ کی زندگی ایک جیسی ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ معاشرہ کی بقا و تحفظ کے لئے تو مہلک اور تباہ کن جنگوں کا سہارا لیا جائے اور فرد کی حفاظت کا کوئی بندوست نہ ہو۔ جبکہ یہ فرض کیا جا چکا ہے کہ معاشرہ اسی طرح مدنی الطبع ہے جس طرح انسان ہوتا ہے۔
پھر یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ جنگ کے ذریعہ ا ن لوگوں کو قتل کیا جاتا ہے جو کسی کے قتل کا ارادہ رکھتے ہیں حالانکہ ابھی انہوں نے کسی کو قتل نہیں کیا ہوتا۔ یہ اقدام ان اقوام کے نزدیک جائز بھی ہے اور صحیح بھی لیکن وہ پھر بھی قصاص کو صحیح نہیں جانتے جبکہ اس کا تعلق اقدامِ قتل کے بعد ہوتا ہے! آخر اس کی کیا وجہ ہے؟ نیز ایک اور بات بھی قابل غور ہے وہ یہ کہ انسانی فطرت تاریخی واقعات کے ردعمل کا حکم دیتی اور کہتی ہے کہ "فمن یعمل مثقال خیرة خیرا یرہ و من یعمل مثقال ذرة شرایرہ" یعنی جو ذرہ برابر نیکی کرتا ہے وہ اسے دیکھ لیتا ہے اور جو ذرہ برابر برائی کرتا ہے بھی دیکھ لیتا ہے (سورہ زلزال/۸)
اگرچہ یہ کلام قرآن ہے کہ لیکن انسانی فطرت کی ترجمانی کر رہا ہے۔ نیز ہر عمل کے ردعمل کا نظریہ اس کے پیش نظر ہے۔ مگر تعجب تو اس بات پر ہے کہ اس ردعمل کو اپنے خودساختہ قوانین ہیں تو پیش نظر رکھا جاتا ہے لیکن ایک قاتل مجرم کے قتل کرنے کو ظلم و خلاف قانون سمجھا جاتا ہے!!
مذکورہ تصریحات کے علاوہ اسلام و قرآن تمام دنیا میں اگر کسی انسان کی عظمت، قدر و قیمت، و شخصیت و حیثیت کا قائل ہے اور جس معیار پر کسی انسان کو پرکھتا ہے، وہ ہے "خدا اور دینِ توحید پر ایمان" اسی بنا پر ایک پورے انسانی معاشرہ اور ایک موجد انسان کی قدر و قیمت حیثیت و شخصیت و وزن برار ہیں، جب اسلام کا معیار یہ ہے تو اس کے نزدیک ایک فرد اور معاشرہ میں کوئی فرق نہیں۔ چنانچہ اسلام کہتا ہے کہ "جو شخص کسی ایک موحد مومن کو قتل کرے تو گویا اس نے تمام انسانیت کا قتل کیا۔ اس لئے کہ ایک فرد کا قاتل اور پورے معاشرہ کا قاتل فطرت کے حکم کے اعتبار سے یکساں ہیں کیونکہ دونوں حقیقت کے تجاوز کرنے اور انسانیت کی ہتکِ حرمت کے مرتکب ہوتے ہیں۔ لہٰذا فطرت کے اصول کے مطابق ایک انسان کے قاتل اور تمام افراد کے قاتل میں کوئی فرق نہیں ہے۔
دنیا کی متمدن قومیں جو قصاص کے حکم پر اعتراض کرتی ہیں اس لئے نہیں کہ اس حکم میں کسی قسم کا نقص جانتی ہیں، جیسا کہ ہم ابھی بتا چکے ہیں، بلکہ اس لئے کہ وہ دین کے احترام اور شرف کو تسلیم نہیں کرتیں۔ اگر وہ دین کے لئے کم سے کم شرف کی قائل ہوتیں یا اسی شرف یا معاشرتی تمدن کے برابر اس کا وزن تسلیم کرتیں۔ جبکہ قصاص کی اہمیت اس سے کئی گناہ زیادہ ہے…تو یقینا اس بارے میں بھی اس اصول کا کبھی انکار نہ کرتیں۔
علاوہ ازیں اسلام عالمی سطح پر ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ ازل سے ابد تک اس کی عمومی حیثیت مسلمہ ہے ایک قوم یا کسی ایک ملک کے ساتھ اس کا خصوصی تعلق نہیں ہے۔ دنیا کی متمدن اور ترقی یافتہ اقوام اس کے حکمِ قصاص پر اس لئے اعتراض کرتی ہیں کہ وہ سمجھتی ہیں کہ اس کے تمام افراد مکمل طور پر تربیت یافتہ ہیں اور ان افراد کی حکومت دنیا کی بہترین حکومت ہے۔ عصرِ حاضر کی متمدن دنیا حکم قصاص پر اس لئے اعتراض کرتی ہے کہ دنیا نے جو اعداد و شمار اکٹھے کئے ہیں ان کی رو سے وہ یہ سمجھتی ہے کہ دنیا میں ترقی یافتہ افرا دکی بہت بڑی تعداد موجود ہے اور اقوام عالم مجموعی طور پر قتل وغارت سے خودبخود نفرت کرتی ہیں، لہٰذا بہت کم تعداد میں قتل و غارت کی نوبت آتی ہے۔ اس لئے چونکہ قتل و خون کی صورت بہت کم پیش آتی ہے اس لئے وہ "خون کا بدلہ خون" سے کم سزا پر راضی ہیں۔
یہ ہے ان ترقی یافتہ اقوام کی دلیل لیکن اگر ان کی یہ دلیل صحیح بھی ہو تو مذکورہ صورت میں اسلام کو بھی اس بات پر اصرار نہیں ہے کہ "خون کا بدلہ خون" ہی ہو بلکہ اس صورت میں وہ قصاص کی صورت میں قتل کو لازم اور حتمی نہیں سمجھتا بلکہ اس نے ایک اور اختیار بھی دیا ہے یعنی معاف کر دینا۔
اسی لئے اس بات میں کیا حرج ہے کہ قصاص کی صورت میں اسلام کا حکم بھی باقی رہے اور تمدن و ترقی یافتہ دنیا اس کے دوسرے پہلو کو اختیار کرکے قاتل و مجرم کو سزائے موت دینے کی بجائے اسے معاف کر دے جیسا کہ خود آیہٴ قصاص میں اسی بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: "ہر مجرم قاتل کو اگر مقتول کا بھائی جو اس کے خون کا وارث ہے، معاف کر دے اور دیت (خون بہا) لے کر راضی ہو جائے، قاتل بھی اس کی ادائیگی میں ٹال مٹول نہ کرے، اس کے احسان کا بدلہ چکا دے، (تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے)۔ یہ اندازِ بیان بجائے خود ایک اندازِ تربیت ہے اور اس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ اگر افرادِ ملت کی تربیت اس حد تک ہو چکی ہو کہ معافی عمومی طور پر ایک قابل فخر و موجبِّ افتخار سرمایہ سمجھا جانے لگے تو مقتول کے وارث بھی انتقام کی بجائے معافی کے رشتے کو ہی منتخب کریں گے اور سمجھیں گے "جو لطف عفو میں ہے، انتقام میں نہیں۔"
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا دنیا میں ہمیشہ سے ہر جگہ اسی طرح کا تمدن اور ترقی یافتہ معاشرہ موجود ہے؟ نہیں! ایسا ہرگز نہیں ہے کیونکہ ہمیشہ سے چلا آ رہا ہے کہ دنیا میں کچھ ایسی قومیں بھی ہیں جن کا انسانی اجتماعی و معاشرتی شعور، ابھی اس حد تک نہیں پہنچا!
ایسی صورت میں معاشرے کے لئے ضروری ہو جاتا ہے کہ پھر وہ دوسری راہ اختیار کرے۔ لہٰذا اس طرح کے معاشروں میں صرف معاف کر دینے سے بات نہیں بنے گی یعنی اگر حکمِ قصاص کا اجرا نہ کیا جائے تو معاشرہ تباہ و برباد ہو جائے گا۔ اس بات کا شاہد ہمارا روزمرہ مشاہدہ ہے کہ مجرم افراد کو بامشقت قید سے کسی قسم کا خوف نہیں ہوتا، نہ کسی ناصح و واعظ کی پند و نصیحت ان کے لئے کارگر ثابت ہوتی ہے۔ وہ نہیں سمجھ پاتے کہ "انسانی حقوق" کیا ہوتے ہیں؟
اس قسم ے افراد کے لئے جیلیں تو امن و سکون کا گہوارہ بن جاتی ہیں حتیٰ کہ ان کا ضمی بھی جیلوں ہی میں جا کر سکون حاصل کرتا ہے۔ وہ لوگ جیل سے باہر کی زندگی کو جیل کے اندر کی زندگی سے زیادہ معزز سمجھتے ہیں جو حقیقت میں ایک پست اور بدبختی کی زندگی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے لوگوں کو نہ تو جیلوں کا خوف ہوتا ہے نہ اپنے لئے ذلت اور ننگ تصور کرتے ہیں، نہ ہی جیل کی مشقت سے ڈرتے ہیں، نہ وہاں کی مشقت و سختی کی پرواہ کرتے ہیں۔
اسی طرح ہم یہ بھی دیکھ رہے ہیں کہ جو معاشرے ابھی ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوئے، جن میں قصاص کا حکم کارفرما نہیں ہے، ان میں تباہیوں اور بربادیوں کے اعداد و شمار میں روزبروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ جس سے یہ نتیجہ بآسانی نکالا جا سکتا ہے کہ "قصاص کا حکم ایک عمومی حکم ہے، جو ترقی یافتہ اور ترقی پذیر دونوں طرح کی اقوام کو شامل ہے جبکہ ترقی پذیر یا غیرمتمدن اقوام کی تعداد دوسروں سے زیادہ ہے۔
اگر کوئی ملت ترقی کی اس حد تک پہنچ جائے اور اس کی تربیت اس انداز ہو کہ معاف کر دینے سے اسے روحانی مسرت حاصل ہو، تو اسلام بھی اس سے یہ نہیں پوچھا گا کہ تم نے اپنے باپ کے قاتل کو کیوں معاف کر دیا، اس لئے کہ اسلام بھی درگزر کر دینے کی تعلیم دیتا ہے۔ لیکن اگر کوئی قوم انخطاط و پستی کی راہ پر گامزن ہو اور نعمت خداوندی کا کفران نعمت سے جواب دے تو ایسی قوم کے لئے "قصاص" کا حکم زندگی کے درس کی حیثیت رکھتا ہے۔ جبکہ وہاں بھی عفو اور معافی کے حکم کو نظرانداز نہیں کیا گیا۔
البتہ ان لوگوں کا یہ کہنا کہ "انسانیت پر رحم و کرم اس بات کا متقاضی ہے کہ قاتل کو سزائے موت نہ دی جائے" اس لئے قابل قبول کیونکہ ہر مقام اور مرحلے پر رحم و کرم قابل ستائش و لائق تعریف نہیں ہوتا۔ اسے فضلیت کے زمرے میں شمار نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ سنگدل مجرم جسے انسانیت کا پاس نہیں اور دوسروں کے لئے اس کے دل میں رحم و کرم کا نرم گوشہ موجود نہیں، کسی کا قتل اس کے لئے ایسا ہے جیسے وہ پانی پی رہا ہو، قانون شکنی کا مرتکب ہو رہا ہو، آئین و قانون کی دھجیاں اڑا رہا ہو، اسے کسی کی جان اور عزت و ناموس کا ذرہ بھر خیال نہ ہو، اس پر رحم و کرم اور مہربانی درحقیقت نیک، صالح، قانون کا احترام کرنے والے افراد پر ظلم کے مترادف ہو گا۔ اگر کسی شرط و شرائط کے بغیر مطلق طور پر کسی پر رحم و ترس کھایا جائے تو اس سے انسانی معاشرے کا ڈھانچہ تباہ ہو کر رہ جائے گا۔ سارا نظام مختل ہو جائے گا اور انسانیت تباہی کے دہانے پر پہنچ جائے گی۔ انسانی فضلیتیں و اقدار تباہ ہو جائیں گی، بقول فارسی شاعر کے:
ترحم ہر پلنگان تیز دندان ستمکاری بود بر گو سفندان
یعنی تیز دانتوں والے چیتوں اور بھیڑیوں پر رحم درحقیقت بھیڑ بکریوں پر ظلم ہو گا۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ رحمدلی ایک قابلِ ستائش خصلت اور سنگدلی و جذبہٴ انتقام بری چیز ہے تو اس سے بھی کسی کو انکار نہیں، لیکن اس کا جواب وہی ہے جو ابھی بیان ہو چکا ہے۔ بلکہ یہاں پر تو ہم یہ بھی کہیں گے کہ ظالم سے مظلوم کا انتقام لینا اور حق و عدلت کی امداد، و طرفداری، مذموم یا بری بات نہیں ہے، اس لئے کہ اس طرح سے عدل و انصاف کے ساتھ محبت کا اظہار ہوتا ہے جو قابل ستائش ہے اور جس کا شمار فضلیت میں ہوتا ہے، رزذالت کے زمرے میں نہیں آتا علاوہ ازیں قصاص کو اس لئے لازم قرار دیا گیا ہے، اس سے انتقام لینا مقصود نہیں بلکہ اصل مقصد عمومی افراد کی تربیت اور فتنہ و فساد و دیگر برائیوں کا سدباب کرناہے۔
وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ قتل جیسے جرم کا ارتکاب بذات خود ایک نفسیاتی بیماری ہے۔ لہٰذا قاتل ایک نفسیاتی مریض ہوتا ہے جسے ہسپتالو ں میں داخل کرکے اس کا نفسیاتی علاج کیا جانا چاہئے۔ یہ قاتل کے لئے بذات خو دایک نہایت ہی معقول عذر ہے، حالانکہ یہ بودی دلیل اس بات کا موجب ہو رہی ہے کہ قتل و غارت، جرائم اور فحاشی میں دن بدن اضافہ ہوتا رہے جس سے انسانی معاشرہ تباہی کے کنارے پر پہنچ چکا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر مجرم جو قتل یا کسی دوسرے بڑے جرم سے لطف اندوز ہوتا ہے جب اس بات کا خیال کرتا ہے کہ جرم کا ارتکاب ایک عقلی و نفسیاتی بیماری ہے اور اسے اس جرم میں معذور سمجھ ر معاف کر دیا جائے گا، بلکہ حکومت اس قسم کے افرا دکا بڑی ہمدردی، پیار و محبت کے ساتھ علاج و معالجہ کرتی ہے، اس کے ساتھ نہایت ہمدردانہ سلوک کیا جائے گا، اسی طرح سب حکومتیں اس کے ساتھ ایسا سلوک کریں گی، تو واضح سی بات ہے کہ ایسے مجرم ہر روز کم از اکم ایک شخص کو تو ضرور قتل کریں گے پھر اس کا انجام صاف ظاہر ہے۔
وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ: "عالمِ انسانیت کو ایسے وجود سے استفادہ کرنا چاہئے، وہ اس طرح سے کہ ان سے کٹھن اور مشکل کام لئے جائیں، اور انہیں زندان میں رکھ کر معاشرہ میں داخل ہونے سے اور دوسرے جرائم کے ارتکاب سے روکا جا سکتا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ایسا کہنے والے اگر واقعاً سچ کہتے ہیں اور اپنی باتوں میں حقیقت سے کام لیتے ہیں تو پھر جب قانونی طور پر جسے سزائے موت دی جا رہی ہوتی ہے جو کہ موجودہ عام قوانین میں راجء ہے، تو اس وقت وہ یہ فیصلہ کیوں نہیں کرتے؟
پس معلوم ہوا کہ جہاں کسی کو سزائے موت دینی ہے وہاں پر وہ سزائے موت ہی کو دیگر تمام امور سے اہم سمجھتے ہیں۔ وہاں زندہ رکھنے، مشقت کے کام لینے اور جیلوں میں ڈالنے کی بات نہیں کرتے۔ ہم پہلے بھی بتا چکے ہیں کہ فطرت اور حیثیت کے لحاظ سے فرد اور اجتماع برابر ہیں، (المیزان جلد اول ص ۴۳۴ ، ۴۳۸)
(۲)قصاص سے درگزر کرنا
قرآن مجید
"فمن تصدق بہ فھو کفارة لہ" (مائدہ/۴۵)
ترجمہ۔ تو جو شخص اس سے درگزر کرے تو اس کے لئے کفارہ ہو گا۔
حدیث شریف
۱۶۷۴۶۔ جس مسلمان کے جسم کو کسی قسم کی تکلیف پہنچے اور وہ اسے معاف کر دے تو اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کا درجہ بلند کر دے گا اور اس کی خطا کو معاف کر دے گا۔
(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۳۹۸۵۰
۱۶۷۴۷۔ جب کسی مسلمان کے جسم کو کوئی زخم آئے اور وہ اس سے درگزر سے کام لے تو اللہ تعالیٰ اس کا اسی قدر کفارہ قرار دے گا جتنا اس نے درگزر سے کام لیا ہو گا۔
(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۳۹۸۵۱
۱۶۷۴۸۔ جس کسی کے جسم میں نصف دیت کے مطابق کوئی تکلیف پہنچے اور وہ اس سے درگزر سے کام لے تو اللہ تعالیٰ اسے اس کے نصف گناہوں کا کفارہ قرار دے گا، اگر ایک تہائی دیت کے برابر ہو گا تو ایک تہائی گناہ معاف ہوں گے، اگر ایک چوتھائی کے برابر ہو تو اس کے چوتھائی گناہ معاف ہوں گے۔ اسی طرح اس کی مقدار اس کا کفارہ ہو گا۔
(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۲۹۸۶۱
۱۶۷۴۹۔ جو کسی کے خون (کا بدلہ لینے) سے درگزر سے کام لے گا تو اس کا ثواب جنت کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔
(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۳۹۸۵۴
۱۶۷۵۰۔ جب کسی کے جسم میں کوئی تکلیف پہنچے اور وہ اسے خدا کے لئے معاف کر دے تو یہ اس کے لئے اس کے گناہوں کا کفارہ ہو گا۔"
(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۳۹۸۵۳
۱۶۷۵۱۔ جب آپ سے خداوند عالم کے اس قول "فمن تصدق بہ فھو کفارة میں سوا لہ" کے بارے کیا گیا تو آپ نے فرمایا: "جو شخص جس قدر کسی کو معاف کرے گا اسی قدر اس کے گناہوں کا کفارہ ہو گا۔
(امام جعفر صادق علیہ السلام) کافی جلد ۷ ص ۳۵۸ حدیث اول
۱۶۷۵۲۔ جب آپ سے اسی آیت کے بارے میں ابو بصیر نے سوال کیا تو آپ نے فرمایا: "اس کے گناہوں کا اسی قدر کفارہ ہوگا جس قدر اس نے اپنے زخم یا کسی اور مصیبت کو معاف کیا گیا ہو گا۔"
(امام جعفر صادق علیہ السلام) کافی جلد ۷ ص ۳۵۸ حدیث ۲
(قولِ مولف: ملاحظہ ہو: "عفو"
|