فصل۔ ۵
۳۲۸۱۔ (۱) ص ۴۷
قدر
قرآن مجید:
انا کلی شیٴ خلقناہ بقدر، (قمر/۴۹)
ترجمہ۔ بے شک ہم نے ہر چیز اندازہ سے پیدا کی ہے۔
وما تحمل من انثیٰ ولا تضع الابعلمہ وما یعمر من معمر ولاینقص من عمرہ الا فی کتٰب…(فاطر/۱۱)
ترجمہ۔ اور بغیر اس کے علم کے نہ کوئی عورت حاملہ ہوتی ہے اور نہ بچہ جنتی ہے، نہ کسی شخص کی عمر زیادہ ہوتی ہے، نہ کسی کی عمر میں کمی کی جاتی ہے، مگر یہسب کچھ کتاب (لوحِ محفوظ) میں (یقیناً موجود) ہے…
حدیث شریف
۱۶۳۳۵۔ حضرت امیرالموٴمنین علیہ السلام اپنے نافرمان ساتھیوں کی مذمت کرتے ہوئے فرماتے ہیں "میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرتا ہوں ہر اس امر پر جس کا اس نے فیصلہ کیا، ہر اس کام پر جو اس کی تقدیر نے طے کیا اوراپنی اس آزمائش پر جو تمہارے ہاتھوں اس نے کی ہے۔
نہج البلاغہ خطبہ ۱۸۰
۱۶۳۳۶۔ 9; اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرتے ہوئے فرمایا: اور وہ بغیر فکر و تامل کے ہر چیز کا اندازہ کرنے والا ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ ۲۱۳
۱۶۳۳۷۔ 9; اللہ تعالیٰ کی عظمت و بزرگی بیان کرتے ہوئے فرمایا: "میں اُس ذات کی طرف ہمہ تن متوجہ ہو کر اس کی ایسی حمد و ثنا کرتا وہں جیسی حمد اس نے اپنی مخلوقات سے چاہی ہے۔ ا س نے ہر شے کا اندازہ، ہر اندازہ کی ایک مدت اور ہر مدت کے لئے ایک نوشتہ قرار دیا ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ خطبہ ۱۸۳
۱۶۳۳۸۔ 9; اللہ کی توصیف بیان کرتے ہوئے فرمایا: "ایجادِ خلق اور تدبرِ عالم نے اسے خستہ و درماندہ نہیں کیا، نہ ہی (حسب منشاء) اشیاء کے پیدا کرنے سے اسے عجز دامن گیر ہوا ہے اور نہ اسے اپنے فیصلوں یا اندازوں میں شبہ لاحق ہوا ہے، بلکہ اس کے فیصلے مضبوط، علم محکم اور احکام قطعی ہیں۔
(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ خطبہ ۶۵
۱۶۳۳۹۔ عجز و درماندگی اور زیرکی اور دانائی تک سب چیزیں (خدائی) اندازہ کے مطابق ہیں اور اس کی تقدیر کی پابند ہیں۔
(حضرت رسول اکرم) کنز العمال حدیث ۴۹۸
۱۶۳۴۰۔ تقدیر، خدائی نظامِ توحید ہے۔ لہٰذا جو شخص اللہ کو یکتا مانتا اور اس کی تقدیر پر ایمان رکھتا ہے وہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام چکا ہے،
(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۴۸۸)
۱۶۳۴۱۔ تقدیر کو نہ تو طاقت ہی سے ٹالا جاتا ہے، نہ غلبہ سے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۶۳۴۲۔ تقدیر تمہیں وہ کچھ دکھاتی ہے جو تمہارے دل نے سوچا بھی نہیں ہوتا۔
(امام علی نقی علیہ السلام) بحار الانوار جلد ۷۸ ص ۳۶۹
۱۶۳۴۳۔ اگر تیرے لئے میرے سمیت جبرائیل، میکائیل تمام حاملینِ عرش بھی دعا کریں تو تیری شادی اور ازدواج اسی عورت سے ہو گا جو تیرے لئے لکھی جا چکی ہے۔
(حضرت رسول اکرم) کنز العمال حدیث ۵۰۱
۱۶۳۴۴۔ تقدیر، راز ہائے الٰہی میں سے ایک راز ہے، الٰہی پردوں میں سے ایک پردہ ہے، حجاب الٰہی میں اٹھا رکھی گئی ہے اور مخلوقِ خدا سے لپیٹ کر اوجھل کر دی گئی ہے…
(حضرت علی علیہ السلام) التوحید ص ۳۸۳
۱۶۳۴۵۔ 9; اللہ تعالیٰ جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اس کا اندازہ کرتا ہے، جب اندازہ کرتا ہے تو اسے پورا کرتا ہے اور جب پورا کرتا ہے تو اسے کر گزرتا ہے۔
(امام جعفر صادق علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۵ ص ۱۲۱
۱۶۳۴۶۔ بندوں کے لئے اللہ کی اقسامِ تقدیر کے ساتھ عالم کا وزن قائم ہوا اور یہ دنیا اپنے رہنے والوں کے ساتھ مکمل ہوئی۔
(حضرت علی علیہ السلام غررالحکم
۱۶۳۴۸۔ جو کچھ تمہارے لئے مقدر ہو چکا ہے اس کے ملنے میں کبھی تاخیر نہیں ہو گی۔
(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ حکمت ۳۷۹
۱۶۳۴۹۔ جسے تقدیر پر یقین ہوتا ہے وہ اپنے اوپر نازل ہونے والی مصیبتوں سے نہیں گھبراتا۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۶۳۵۰۔ 9; اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر ایمان رنج و غم کو دور کر دیتی ہے۔
(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۴۸۱
۳۲۸۲ (۲)
قدر ایک تاریک راستہ ہے
۱۶۳۵۱۔ ایک شخص حضرت علی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگا: "یا امیرالموٴمنین! مجھے قدر کے بارے میں کچھ بتائیے!" آپ نے فرمایا: "قدر ایک تاریکہ راستہ ہے، اس پر چلنے کی کوشش نہ کرو!"
اس نے پھر کہا: "یاامیرالمومنین! مجھے قدر کے بارے کچھ بتائیے!" آپ نے فرمایا: "یہ ایک گہرا سمندر ہے۔ اس میں اترنے کی کوشش نہ کرو!"
اس نے پھر کہا:" یا امیرالمومنین! "مجھے قدر کے بارے میں کچھ بتائیے!" آپ فرمایا: "قدر اللہ تعالیٰ کا ایک راز ہے، اسے افشا کرنے کی کوشش نہ کرو۔"
کنزالعمال حدیث ۱۵۶۱
۱۶۳۵۲۔ ایک شخص نے امیرالمومنین علیہ السلام سے عرض کیا: "یاامیرالمومنین! ہمیں قدر کے بارے میں مطلع فرمائیں!" گہرا سمندر ہے اس میں نہ اترو!" اس نے پھر کہا؟ "یا امیرالمومنین! ہمیں قدر کے بارے میں کچھ بتائیے!" فرمایا: "یہ ایک راستہٴ الٰہی ہے اسے ٹٹولنے کا تکلف نہ کرو!" اس نے اصرار کیا: "یاامیرالمومنین! "ہمیں قدر کے بارے میں ضرور بتلائیے" آپ نے فرمایا: "میں انکار کر چکا ہوں تو خواہ مخواہ کیوں پوچھتے ہو! یاد رکھو کہ قدر دو امروں کے درمیان ایک امر ہے جو نہ تو جبر ہے اور نہ ہی تفویض…"
کنزالعمال حدیث ۱۵۶۷
۱۶۳۵۳۔ جو شخص تقدیر کے بارے میں جتنی زبان کھولے گا اس سے قیامت کے دن اسی قدر سوال کیا جائے گا اور جو خاموش رہے گا اس سے کچھ نہیں پوچھا جائے گا۔
(حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کنزالعمال حدیث ۵۳۹
۳۲۸۳۔ (۳)
تقدیرو تدبیر
۱۶۳۵۴۔ تقدیر مقررکردہ اندازوں پر غالب آتی ہے، یہاں تک کہ چارہ سازی ہی تباہی و آفت بن جاتی ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ حکمت ۴۵۹۔ بحارالانوار جلد ۵ ص ۱۲۶
۱۶۳۵۵۔ تمام امور تقدیر کے سامنے بے بس ہیں یہاں تک کہ چارہ سازی ہی تباہی و آفت بن جاتی ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۸ ص ۶۳
۱۶۳۵۶۔ سب معاملے تقدیر کے آگے سرنگوں ہیں یہاں تک کہ کبھی تدبیر کے نتیجہ میں موت بھی واقع ہو جاتی ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) شرح نہج البلاغہ جلد ۱۸ ص ۱۲۰۔ نہج البلاغہ حکمت ۱۶
۱۶۳۵۷۔ سب معاملے تقدیر کے تابع ہیں نہ کہ تدبیر کے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۶۳۵۸۔ جب تقدیر کے سامنے سب تدبیریں ناکام ہو جاتی ہیں۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۶۳۵۹۔ جب تقدیر نازل ہو جاتی ہے تو احتیاط اور دوراندیشی ناکام ہو جاتی ہیں۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۶۳۶۰۔ تقدیر ایک اٹل چیز ہے، لہٰذا اس سے خوف بیکار ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۶۳۶۱۔ تقدیر دوراندیشی پر غالب آ جاتی ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
(قولِ موٴلف: ملاحظہ ہو: عنوان "دوراندیشی"
نیز: "قضا" (۱) بابا "ارادہ اور قضا"
۳۲۸۴۔ (۴)
تقدیراور عمل
۱۶۳۶۲۔ ایک شخص نے حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا: "اللہ کرے میں آپ کے قربان جاؤں! کیا انسان کو تقدیر کے مطابق مصیبتیں پہنچتی ہیں یا عمل کی وجہ سے؟
امام علیہ السلام نے فرمایا: "تقدیر و عمل کا آپس میں روح و جسم جیسا رشتہ ہے جسم کے بغیر روح کا احساس نہیں ہوتا اور روح بغیر جسم کے غیرمتحرک صورت میں ہوتی ہے۔ جب دونوں ملتے ہیں تو ان میں قوت و صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ اسی طرح عمل و تقدیر کا باہمی رشتہ ہے۔ اگر تقدیر عمل پر واقع نہ ہو تو خالق کی مخلوق سے پہچان باقی نہ رہے اور تقدیر ایک غیرمحسوس سی چیز رہے۔ اسی طرح اگر عمل تقدیر کے مطابق نہ ہو تو کبھی وجود میں نہ آ سکے اور مکمل نہ ہو پائے، بلکہ دونوں مل کر ہی قوت اختیار کرتے ہیں۔ اور اللہ اپنے نیک بندوں کی مدد فرماتا ہے۔
التوحید ص ۳۶۷۔ بحار الانوار جلد ۵ ص ۱۱۲
۳۲۸۵۔ (۵)
کن چیزوں کا شمار تقدیر میں ہوتا ہے؟
۱۶۳۶۳۔ دوا و علاج کا تعلق تقدیر سے ہے۔ پس جسے اللہ چاہتا ہے اور جس چیز کے ساتھ چاہتا ہے وہ اسے فائدہ پہنچاتی ہے۔
(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۲۸۱۸۲
۱۶۳۶۴۔ کسی شخص نے حضرت رسول خدا سے دریافت کیا: "آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہم بیماری کا علاج کرتے ہیں، یا افسوں (تعویذ) کرتے ہیں یا کوئی اور کام کرتے ہیں جس سے بیماری دور ہو جائے۔ کیا یہ چیزیں اللہ کی تقدیر کو بدل سکتی ہیں؟" آنحضرت نے فرمایا: "بلکہ یہ چیزیں تو خود تقدیر میں شامل ہیں!"
کنزالعمال حدیث ۶۳۳
۱۶۳۶۵۔ کسی شخص نے آنحضرت سے سوال کیا: "یارسول اللہ! افسوں کے ذریعہ شفا طلب کی جاتی ہے۔ کیا یہ چیز بھی اللہ کی تقدیر کو بدل سکتی ہے؟" آپ نے فرمایا: "یقیناً یہ بھی تقدیر میں شامل ہے۔"
بحارالانوار جلد ۵ ص ۸۷
۱۶۳۶۶۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے افسوں کے بارے میں پوچھا گیا کہ کیا یہ تقدیر کو ٹال سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا: "اس کا شمار بھی تقدیر میں ہوتا ہے!"
بحار الانوار جلد ۵ ص ۹۸
۱۶۳۶۷۔ ابن بناتہ کہتے ہیں کہ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام ایک دیوار سے پاس سے گزر رہے تھے جو دوسری دیوار پر گرا چاہتی تھی۔ آپ وہاں سے ہٹ کر دوسری طرف ہو گئے۔
اس پر کسی نے کہا: امیرالمومنین! آپ اللہ کی قضا سے بھاگ رہے ہیں؟" آپ نے فرمایا: "میں اللہ کی قضا سے بھاگ کر اس کی قدر کی طرف جا رہا ہوں!"
بحارالانوار جلد ۴۱ ص ۲ جلد ۵ ۹۷
۱۶۳۶۸۔ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام ایک دیوار کے ساتھ بیٹھے لوگوں کے درمیان فیصلے کر رہے تھے اور دیوار گرا چاہتی تھی۔ کسی نے کہا: "آپ اس دیوار کے ساتھ نہ بیٹھیں کہ یہ گرنے والی ہے۔" حضرت نے فرمایا: "انسان کی حفاظت اس کی اجل کرتی ہے!" چنانچہ جب آپ وہاں سے اٹھ کھڑے ہوئے تو دیوار زمین پر آ گری، امیرالمومنین علیہ السلام اسی قسم کا کام کیا کرتے تھے، اور اسی کا نام "یقین" ہے۔
(امام جعفر صادق علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۴۱ ص ۶
(قولِ موٴلف: دونوں حدیثوں کو باہم جمع کرنے کے باے میں آپ خود ہی غور کریں)
۱۶۳۶۹۔ جب حضرت امیرالمومنین علیہ السلام جنگ صفین سے واپس تشریف لے آئے تو ایک شخص نے آ کر آپ سے کہا: "یاامیرالمومنین! آپ مجھے بتایئے کہ یہ جو جنگ ہمارے اور ان لوگوں کے درمیان واقع ہوئی ہے کیا یہ اللہ کی قضا و قدر کے تحت تھی؟"
آپ نے ارشاد فرمایا: "تم جس قلعہ پر چڑھتے ہو یا جس وادی میں اترتے ہو اس میں بھی اللہ کی قضا اور قدر ہوتی ہے…"
۱۶۳۷۰۔ عکرمہ کہتے ہیں کہ جب حضرت علی علیہ السلام جنگ صفین سے واپس آئے تو آپ کے اصحاب میں سے ایک بزرگ آدمی نے کھڑے ہو کر عرض کیا: "امیرالمومنین! ارشاد فرمائیے کہ کیا ہمارا شام کی طرف جانا اللہ کی قضا و قدر کے تحت تھا؟"
آپ نے ارشاد فرمایا: "مجھے اس ذات کی قسم جس نے دانے کو خلق فرمایا (یا شگافتہ کیا) اور حیات کو پیدا کیا، ہم جس وادی سے بھی گزرے اور جس بلندی پر بھی چڑھے وہ سب اللہ کی قضا اور قدر کے تحت ہی تھا"
اس پر اس شخص نے کہا:" پھر تو میں اپنے تمام دکھوں کا اجر اللہ ہی کے پاس سمجھتا ہوں" یہ سن کر حضرت نے ارشاد فرمایا: بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس سفر میں تمہارے اجر کو عظیم کر دیا ہے۔ تم جب بھی کسی بلندی پر چڑھے یا کسی وادی میں اترے اور جہاں جہاں پر بھی تمہیں کوئی مجبوری یا اضطرار کی حالت پیش آئی اللہ سب کا اجر عظیم عطا فرمائے گا۔
اس شخص نے کہا: "یاامیرالمومنین! یہ کیسے ہو سکتا ہے جبکہ ہمیں اس طرف قضا اور قدر ہی تو لے گئی؟"
امام علیہ السلام نے فرمایا: "خداد تم پر رحم کرے! شاید تم نے قضا و قدر کو حتمی و لازمی سمجھ لیا ہے (کہ جس کے انجام دینے پر ہم مجبور ہیں!) اگر ایسا ہوتا تو پھر نہ ثواب کا کوئی سوال پیدا ہوتا اور نہ عذاب کا، نہ وعدے کے کچھ معنی رہتے اور نہ وعید کے، نہ ہی اللہ کی طرف سے کسی گناہگار کے لئے ملامت ہوتی اور نہ کسی نیکوکار کے لئے تعریف ہوتی، نہ ہی کسی نیکی کرنے والے کو اس کی نیکی کا ثواب ملتا اور نہ کسی گناہگار کو اس کی سزا ملتی۔ یہ نظریہ تو ان لوگوں کا ہے جو بتوں کے پجاری، شیطان کا لشکر اور رحمان کے دشمن ہیں، وہ اس امت کے قدری اور مجوسی ہیں۔
بلکہ اللہ نے تو بندوں کو خودمختار بنا کر مامور کیا ہے اور (عذاب سے) ڈراتے ہوئے نہی کی ہے۔ اس کی نافرمانی اس لئے نہیں ہوتی کہ وہ (…) گیا ہے، نہ اس کی اطاعت اس لئے کی جاتی ہے کہ اس نے مجبور کر رکھا ہے، نہ اس وجہ سے کی جاتی ہے کہ وہ ہر چیز کا مالک ہے کہ اسے کسی نے کچھ دیا ہے اور نہ ہی اس نے آسمانوں و زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان مجھے دکھائی دے رہا ہے، ان سب کو بیکار پیدا کیا ہے یہ تو ان لوگوں کا خیال ہے جنہوں نے کفر اختیار کیا پس افسوس ہے ان پر جنہوں نے کفر اختیار کیا، آتش جہنم کے عذاب سے۔"
پھر اس شخص نے پوچھا: "وہ کونسی قضا و قدر تھی جس کی وجہ سے ہمیں جانا پڑا؟" آپ نے فرمایا: "قضا کے معنی حکمِ باری کے ہیں جیسا کہ اس کا ارشاد ہے، وقضی ربک الاتعبدوا الاریاہ" یعنی تمہارے پروردگار نے تو حکم دے دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی پرستش نہ کرو۔" (یعنی یہاں ہر "قضیٰ" بمعنی "امراء کے لئے)۔
کنز العمال حدیث ۱۵۶۰
۱۶۳۷۱۔ (اللہ کی طرف سے) اطاعت کا حکم، معصیت سے نہی، اچھے کاموں کی بجاآوری، برے کاموں سے رکنے کی قدرت، اس کے تقرب کے لئے اس کی امداد، اس کی نافرمانی پر اس کا مدد نہ کرنا، وعدہ و وعید، ترغیب و ترہیب، غرض یہ سب کچھ ہمارے افعال میں اللہ کی قضا اور ہمارے اعمال میں خدا کی قدر ہے…
(حضرت علی علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۵ ص ۹۶
۳۲۸۵۔ (۶)
فرقہٴ قدریہ
۱۶۳۷۲۔ "قدریہ" اس امت کے مجوسی ہیں۔
(حضرت رسول اکرم) کنزل العمال حدیث ۵۶۶
۱۶۳۷۳۔ قدریہ پر ستر انبیاء کی زبانی لعنت کی گئی ہے۔
(حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کنزالعمال حدیث ۵۶۳
۱۶۳۷۴۔ قدریہ کے ساتھ نہ تو نشست و برخاست رکھو اور نہ ہی ان سے کوئی لین دین کرو۔
(حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کنزالعمال حدیث ۵۶۴
۱۶۳۷۵۔ میری امت میں دو فرقہ ایسے ہیں جن کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں، ایک "مرحبہٴ" اور دوسرے "قدریہ"۔
(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۵۵۸۔ بحارالانوار جلد ۵ ص ۷
۱۶۳۷۶۔ کوئی رات کسی رات سے اور کوئی دن کسی دن سے اسقدر مشابہ نہیں جتنا مرحبہٴ، یہودیوں سے اور قدریہ نصرانیوں سے مشابہ ہیں۔
(امام محمد باقر علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۵ ص ۲۰ة
(قولِ موٴلف: مرحبہٴ اور قدریہ کے بارے میں احادیث بہت زیادہ ہیں۔ تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو: کنزالعمال جلد اول ص ۱۱۸ ۔ ص ۱۴۰، اور بحارالانوار جلد ۵ باب اول ص ۱۶)
۳۲۸۷۔ (۷)
قدریہ کون لوگ ہیں؟
۱۶۳۷۷۔ قدریہ وہ لوگ ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ تمام خیر و شر یعنی اچھائی و برائی ہمارے اپنے ہاتھوں میں ہے۔ ایسے لوگوں کے لےء میری شفاعت میں کوئی حصہ نہیں، نہ میرا ان سے کوئی تعلق ہے اور نہ ہی ان کا مجھ سے کوئی تعلق ہے۔
(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۶۵۱
۱۶۳۷۸۔ میری امت کے دو گروہ ایسے ہیں جن کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ ایک مرحبہٴ اور دوسرے قدریہ۔
کسی نے پوچھا: "یارسول اللہ! مرحبہٴ کون لوگ ہیں؟" فرمایا: "جو کہتے ہیں کہ ایمان کافی ہے، عمل کی ضرورت نہیں" پھر پوچھا: "…قدریہ کون ہوتے ہیں؟" فرمایا: "جو کہتے ہیں کہ برائی ہمارے مقدر میں نہیں ہے۔"
(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۶۴۲
۱۶۳۷۹۔ ہائے قدریہ بیچارے! وہ چاہتے تو یہ تھے کہ اللہ کو عادل ثابت کریں، لیکن انہوں نے تو اللہ کو اس کی قدرت و سلطنت ہی سے نکال دیا۔
(امام موسیٰ کاظم علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۵ ص ۵۴
(قولِ موٴلف: ملاحظہ ہو: "ایمان" باب "مرحبہٴ")
۳۲۸۸۔ (۸)
لیلة القدر
قرآنِ مجید
انا انزلناہ فی لیلة القدر۔ (القدر/۱)
ترجمہ۔ یقیناً ہم نے قرآنِ مجید کو شب قدر میں اتارا۔
انا انزلناہ فی لیلة مبارکة۔ (دخان/۳)
ترجمہ۔ یقیناً ہم نے قرآنِ مجید کو بابرکت رات میں نازل فرمایا۔
حدیث شریف
۱۶۳۸۰۔ حمران سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ کے اس قول "انا انزلناہ فی لیلة مبارکة کے بارے میں سوال کیا کہ یہ کونسی رات ہے؟" آپ نے فرمایا: "یہ وہی لیلة القدر ہی میں نازل ہوا، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: "فیہا یفرق کل امر حکیم" یعنی اس رات میں تمام دنیا کے لئے حکمت و مصلحت کے (سال بھر کے) کام فیصل کئے جاتے ہیں، (دخان/۴)
امام علیہ السلام نے فرمایا: "لیلة القدر میں آنے والے سال تک کے تمام امور یعنی اچھائی اور برائی طاعت و معصیت، پیدا ہونے والے بچے، موت و رزق و روزی وغیرہ، غرض سب کچھ مقدر کر دیئے جاتے اور لکھ دیئے جاتے ہیں۔ پھر جو چیزیں اس سال کی قضا و قدر میں آ جاتی ہیں وہ حتمی ہوتی ہیں اور اسی میں اللہ کی مشیت ہوتی ہے۔"
راوی نے پوچھا: "لیلة القدر خیر من الف شھر" یعنی شب قدر ہزار مہینے سے افضل ہے، اس سے کیا مراد ہے؟"
امام نے فرمایا: "اس سے مراد ہر عمل صالح ہے، خواہ نماز ہو یازکوٰة یا نیکی کا کوئی دوسرا کام۔ جو اس رات انجام دیا جائے وہ ان ہزار مہینوں میں انجام دیئے جانے سے افضل ہے جن میں لیلة القدر نہ ہو، اگر اللہ تعالیٰ ان اعمال کا ثواب موٴمنین کے لئے دوگناہ نہ کرے تو وہ خود وہاں تک نہیں پہنچ سکتے، لیکن اللہ ان کی نیکیوں کو دوگنا کر دیتا ہے۔"
وسائل الشیعہ جلد ۷ ص ۲۵۶
۱۶۳۸۱۔ جب ماہِ رمضان المبارک کا آخری عشرہ پہنچ جاتا تو حضرت رسول خدا اپنی کمر کس لیتے، عورتوں سے دوری اختیار کر لیتے، راتوں کو جاگا کرتے اور عبادت کے لئے گوشہ نشین ہو جاتے۔
(امام جعفر صادق علیہ السلام) وسائل الشیعہ جلد ۷ ص ۲۵۷
(قولِ موٴلف: ملاحظہ ہو وسائل الشیعہ جلد ۷ ص ۲۵۶
باب ۳۱، ص ۲۵۸، باب ۳۲)
|