فصل 40
(۱)کلام
قرآن مجید
اللہ یصد الکلم الطیب…(فاطر/۱۰)
ترجمہ۔ اس کی بارگاہ تک اچھی باتیں (بلند ہو کر) پہنچتی ہیں…
حدیث شریف
۱۷۸۲۳۔ کلام کی نشو و نما اور اگنے کا مقام دل ہے، اس کی امانت گاہ فکر ہے، اس کے قیام کا ذریعہ عقل ہے، اس کو ظاہر کرنے والی زبان ہے، اس کا جسم حروف ہیں، اس کی روح معانی ہیں، اس کا لشکر اعراب ہیں اور اس کا نظام بہتر انداز میں بیان کرنا ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۸۲۴۔ وہ انسان تعجب کے قابل ہے کہ جو چربی سے دیکھتا ہے اور گوشت کے لوتھڑے سے بولتا ہے…
(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ حکمت ۸
۱۷۸۲۵۔ انسان کی دو فضلیتیں ہیں: ایک عقل اور ایک گفتار۔ عقل کے ذریعہ وہ خود استفادہ کرتا ہے اور گفتار کے ذریعہ وہ افادہ کرتا (دوسروں کو فائدہ پہنچاتا) ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۸۲۶۔ حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام سے دریافت کیا گیا: "اللہ تعالیٰ نے سب سے بہتر کس چیز کو خلق فرمایا ہے؟ " فرمایا: "کلام کو" پھر پوچھا گیا کہ: "سب سے بدتر کس چیز کو خلق فرمایا؟" فرمایا: "کلام کو" پھر فرمایا: "کلام ہی کے ذریعہ چہرے سفید ہوتے ہیں اور کلام ہی کے ذریعہ منہ کالے ہوتے ہیں۔
تحف العقول ص ۱۵۴، بحارالانوار جلد ۷۸ ص ۵۵
۱۷۸۲۷۔ بعض اوقات انسان ایک ایسی بات کرتا ہے جو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتی لیکن اس سے خدا راضی ہوتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے قیامت کے دن تک کے لئے اپنی رضا لکھ دیتا ہے، (بسا اوقات) انسان ایسی بات کرتا ہے جو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتی کہ اس حد تک پہنچ جائے گی، لیکن اس سے خدا ناراض ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے قیامت کے دن تک کے لئے اپنی ناراضی لکھ دیتا ہے۔
(حضرت رسول اکرم) الترغیب و الترہیب جلد ۳ ص ۵۳۷ ۔ اسے مالک، ترمذی، نسائی، ابن حاجہ، ابن حبان اور حاکم نے بھی روایت کیا ہے۔
(۲)حملے سے موثر تر بات
۱۷۸۲۸۔ بہت سی باتیں حملہ سے بھی زیادہ کارگر اور زیادہ اثر و نفوذ رکھتی ہیں،
(حضرت علی علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۱ ص ۲۹۱۔ نہج البلاغہ حکمت ۳۹۴
۱۷۸۲۹۔ عورت کی صورت اس کے چہرے میں اور مرد کی صورت اس کی گفتار میں ہوتی ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۱ ص ۲۹۱
۱۷۸۳۰۔ بہت سی باتیں تلوار کی مانند ہوتی ہیں۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۸۳۱۔ بہت سی باتیں بہت بڑا گھاؤ لگاتی ہیں۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۸۳۲۔ بہت سی باتیں تیر سے زیادہ اثر اور نفوذ رکھتی ہیں۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
(قولِ موٴلف: ملاحظہ ہو: باب "شعر"، "مومن اپنی زبان اور تلوار سے جہاد کرتا ہے"
باب "جہاد" (۱) "اپنے ہاتھوں، زبان اور دلوں کے ساتھ جہاد کرو"
نیز باب "معروف" (نیکی) "دل کے ساتھ انکار" اور باب "تلوار کے ساتھ انکار")
(۳)بیہودہ باتوں سے اجتناب کرو
۱۷۸۳۳۔ بے ہودہ باتوں سے پرہیز کرو کیونکہ اس طرح کمینے تو تمہارے پاس جمع ہو جائیں گے لیکن شریف نفرت کرنے لگیں گے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۸۳۴۔ بے ہودہ باتوں سے اجتناب کرو کیونکہ دلوں میں کینہ پیدا کرتی ہیں۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۸۳۵۔ ایسی بات کا نہ کرو جس کا جواب تمہیں برا لگے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۸۳۶۔ جس کی باتیں بری ہوتی ہیں اس کے ملامت کرنے والے زیادہ ہوتے ہیں۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۸۳۷۔ جس کے الفاظ خراب ہوتے ہیں اس کا حصہ بھی بیکار ہوتا ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۸۳۸۔ برے الفاظ استعمال نہ کرو خواہ تمہیں جواب دینے میں دشواری ہی ہو۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۸۳۹۔ بری باتیں کرنا کمینوں کا شیوہ ہوتا ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۸۴۰۔ بری گفتگو عزت و وقار اور مروت و مردانگی کو داغدار کر دیتی ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۸۴۱۔ بری گفتگو قدر و منزلت کو معیوب کر دیتی ہے اور دوستی میں بگاڑ پیدا کر دیتی ہے۔
(۴)بے مقصد باتیں
۱۷۸۴۲۔ کم تر و بے مقصد گفتگو انسان کی سوچ کی آئینہ دار ہوتی ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷ ص ۲۷۸۔ مستدرک الوسائل جلد ۲ ص ۹۱
۱۷۸۴۳۔ انسان کے بہترین مسلمان ہونے کی نشانی یہ ہے کہ وہ بے مقصد باتوں کو ترک کئے رکھتا ہے۔
(حضرت رسول اکرم) بحارالانوار جلد ۲ ص ۱۳۶
۱۷۸۴۴۔ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کا گزر ایک ایسے شخص کے پاس سے ہوا جو بے کار باتیں کر رہا تھا۔ آپعلیہ السلام وہیں رک گئے اور فرمایا: "اے فلاں! تم اپنے محافظ (فرشتوں) کو اپنے رب کے لئے تحریر لکھوا رہے ہو۔ لہٰذا ایسی بات کرو جو تمہارے مقصد (اور فائدہ) کی ہو اور ایسی باتوں کو چھوڑو جو تمہارے مقصد سے سازگار نہیں ہیں۔"
(امام موسیٰ کاظلم علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۱ ص ۲۷۶ جلد ۵ ص ۳۲۷
۱۷۸۴۵۔ حضرت ابوذر غفاری نے کہا: "دنیا کو دو کلموں پر تقسیم کرو، ایک کلمہ حلال کی تلاش کے لئے ہو اور دوسرا آخرت کے لئے، تیسری بات میں نقصان ہی نقصان ہے، کوئی فائدہ نہیں ہے۔ لہٰذا اس کے پیچھے نہ پڑو۔
(امام محمد باقر علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۱ ص ۲۷۸
۱۷۸۴۶۔ ایک دن حضرت امام حسین علیہ السلام نے جناب عبداللہ بن عباس سے فرمایا: "جو بات تمہارے مفاد میں نہیں اس کو اپنے منہ سے نہ نکالو، کیونکہ اس میں مجھے تمہارے لئے گناہ کا اندیشہ معلوم ہوتا ہے، اپنے مفاد کی بات بھی ہیں منہ سے نکالو جہاں اس کا موقع و محل ہو۔
بحارالانوار جلد ۷۸ ص ۱۲۷
۱۷۸۴۷۔ سب لوگوں سے اس شخص کے گناہ زیادہ ہوتے ہیں جو بے معنی باتیں زیادہ کرتا ہے۔
(حضرت رسول اکرم) الترغیب و الترہیب جلد ۳ ص ۵۴
۱۷۸۴۸۔ قیامت کے دن اس شخص کے گناہ سب سے زیادہ ہوں گے جس کی بے معنی باتیں زیادہ ہوں گی۔
(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۸۲۹۳
(۵)فضول باتیں نہ کیا کرو
۱۷۸۴۹۔ فضول باتیں نہ کیا کرو، کیونکہ اس سے تمہارے باطنی عیوب ظاہر ہوں گے اور تمہارے دشمن کی خوابیدہ دشمنی بیدار ہو گی۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۸۵۰۔ ہر فضول چیز کو کسی نہ کسی فضول بات کی ضرورت ہوتی ہے۔
(امام رضا علیہ السلام) تحف العقول ص ۳۲۶۔ بحارالانوار جلد ۷ ص ۳۳۵
۱۷۸۵۱۔ عالم آدمی فضول بات نہیں کرتا۔
(امام جعفر صادق علیہ السلام) مستدرک الوسائل جلد ۲ ص ۹۱
۱۷۸۵۲۔ لائق تحسین ہے وہ شخص جو اپنے بچے ہوئے مال کو خرچ کر دیتا ہے اور اپنی زبان کو فضول باتوں سے روکے رکھتا ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ حکمت ۱۲۳
۱۷۸۵۳۔ ایسے شخص پر تعجب ہے جو ایسی باتیں کرتا ہے جو اسے دنیا میں فائدہ نہیں پہنچاتیں اور آخرت کے لئے اس کا اجر نہیں لکھا جاتا۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۸۵۴۔ ایسے شخص پر تعجب ہے جو ایسی باتیں کرتا ہے کہ اگر اس کی طرف سے دوبارہ بیان کی جائیں تو اسے نقصان پہنچائیں اور اگر بیان نہ کی جائیں تو اسے فائدہ نہ دیں۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۸۵۵۔ فرزند آدمعلیہ السلام کی کوئی بات بھی اس کے فائدہ کے لئے نہیں ہے سوائے امر بالمعروف، نہی عن المنکر اور ذکرِ الٰہی کے۔
(حضرت رسول اکرم) الترغیب و الترہیب جلد ۳ ص ۵۳۷
۱۷۸۵۶۔ انسان کبھی ایسی بات کرتا ہے جس سے اس کا مقصد صرف لوگوں کو ہنسانا ہوتا ہے ایسی بات اسے آسمان کی بلندیوں سے بھی بالاتر مقام سے نیچے گرا دیتی ہے۔
(حضرت رسول اکرم) الترغیب و الترہیب جلد ۳ ص ۵۳۷
۱۷۸۵۷۔ کیا تم میں کوئی ایسا شخص ہے جو کسی بات سے اپنے ساتھیوں کو ہنساتا ہے؟ اس طرح وہ خدا کو اپنے آپ سے ناراض کر لیتا ہے اور وہ اس سے کبھی راضی نہیں ہوتا حتیٰ کہ اسے جہنم میں ڈال دیتا ہے۔
(حضرت رسول اکرم) الترغیب و الترہیب جلد ۳ ص ۵۳۷
۱۷۸۵۸۔ ایک شخص جنت کے اس قدر قریب ہو چکا ہوتا ہے کہ اس کے اور بہشت کے درمیان صرف ایک نیزے کا فاصلہ رہ جاتا ہے، لیکن وہ کوئی ایسی کر دیتا ہے جس سے بہشت کا فاصلہ "صنعاء" کے فاصلے سے بھی زیادہ ہو جاتا ہے۔
(حضرت رسول اکرم) الترغیب و الترہیب جلد ۳ ص ۵۳۸
(۶)لغو باتیں نہ کرو
۱۷۸۵۹۔ لغو باتیں نہ کرو کیونکہ ان کا کم از کم جرم لعنت و ملامت ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۸۶۰۔ لغو باتیں نہ کرو کیونکہ جس کی باتیں زیادہ ہوتی ہیں اس کے گناہ بھی زیادہ ہوتے ہیں۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۸۶۱۔ بات نہ کر سکنے میں قباحت، لغو باتوں کے بیان سے بہتر ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۸۶۲۔ زیادہ لغو باتیں، ننگ و عار کا موجب ہوتی ہیں۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۸۶۳۔ زیادہ لغو باتیں، ہم نشین کو دل تنگ کر دیتی ہیں اور صاحبانِ ریاست کی توہین کا موجب ہوتی ہیں۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۸۶۴۔ لغو باتیں (اپنوں سے دور کرکے) اغیار کے قریب کر دیتی ہیں،
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۸۶۵۔ لغو باتیں (دشمنی کی) آگ کو بھڑکاتی ہیں،
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
(۷)کثرتِ کلام
۱۷۸۶۶۔ کثرتِ کلام میں بے مقصد الفاظ زیادہ ہوتے ہیں اور معانی بہت کم ہوتے ہیں نہ تو اس کی انتہا نظر آتی ہے اور نہ ہی اس سے کسی کو فائدہ حاصل ہوتا ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۸۶۷۔ زیادہ باتیں نہ کرو کیونکہ ان میں لغزشیں ہوتی ہیں ساتھ پھر یہ اکتاہٹ کا موجب ہوتی ہیں،
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۸۶۸۔ حضرت خضرعلیہ السلام نے جناب موسیٰ علیہ السلام کو جو نصیحتیں کیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے: "زیادہ اور بے مقصد باتیں نہ کریں، اس لئے کہ زیادہ باتیں علماء کے لئے عیب کا سبب ہوتی ہیں اور بے سمجھ لوگوں کے عیوب کو ظاہر کر دیتی ہیں۔"
(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۴۴۱۷۶
۱۷۸۶۹۔ جو زیادہ باتیں کرتا ہے وہ بکنے لگ جاتا ہے اور جو غور و فکر سے کام لیتا ہے وہ بصیرت حاصل کرتا ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) شرح ابن ابی الحدید جلد ۱۶ ص ۹۷
۱۷۸۷۰۔ طولانی گفتگو کلام کی آفت ہوتی ہے۔
(حضرت رسول اکرم) غررالحکم
۱۷۸۷۱۔ جو غیرمتعلقہ باتوں کو طول دیتا ہے وہ اپنے آپ کو ملامت کا نشانہ بناتا ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۸۷۲۔ کثرت کلامی اکتاہٹ کا موجب ہوتی ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۸۷۳۔ زیادہ باتیں سمجھدار انسان کو بھلا دیتی ہیں اور برباد شخص کے اکتانے کا موجب ہوتی ہیں۔ لہٰذا زیادہ باتیں نہ کرو کہ خود بھی تنگ آ جاؤ، نہ ہی اس قدر کم بولو جس سے تمہاری اہانت ہو۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
(۸)کثرتِ کلام سے دل مردہ ہو جاتے ہیں
۱۷۸۷۴۔ خدا کے ذکر کے علاوہ زیادہ باتیں نہ کرو کیونکہ ذکرِ الٰہی کے علاوہ کثرتِ کلام دل کو سخت کر دیتی ہے اور جس کا دل سخت ہوتا ہے وہ خدا سے بہت دور ہو جاتا ہے۔
(حضرت رسول اکرم) بحار جلد ۷۱ ص ۲۸۱ ، الترغیب و الترہیب جلد ۳ ص ۵۳۸، اسے ترمذی اور بیہقی نے بھی روایت کیا ہے۔
۱۷۸۷۵۔ جو زیادہ بولے گا وہ زیادہ لغزشیں کرے گا، جس میں حیا کم ہو اس میں تقویٰ کم ہو گا، جس میں تقویٰ کم ہو گا اس کا دل مردہ ہو جائے گا، اور جس کا دل مردہ ہو گیا وہ دوزخ میں جا پڑا۔
(حضرت علی علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۱ ص ۲۸۶۔ ص ۲۹۳۔ نہج البلاغہ حکمت ۳۴۹
۱۷۸۷۶۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرمایا کرتے تھے: "ذکرِ خدا کے علاوہ زیادہ باتیں نہ کرو، کیونکہ جو لوگ ذکرِ خدا کے علاوہ زیادہ باتیں کرتے ہیں ان کے دل پتھر ہو جاتے ہیں اور وہ اس بات کو نہیں جانتے۔"
(امام جعفر صادق علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۱ ص ۳۰۱
۱۷۸۷۷۔ معراج کے موقع پر ہونے والی گفتگو میں یہ بھی تھا: "اے محمد! تمہارے لئے لازم ہے کہ خاموشی اختیار کرو، کیونکہ سب سے زیادہ آباد دل، صالح اور خاموش افراد کے ہوتے ہیں جبکہ سب سے زیادہ ویران دل ایسے لوگوں کے ہوتے ہیں جو بے معنی باتیں کرتے ہیں۔"
بحارالانوار جلد ۷۷ ص ۲۷
(قولِ موٴلف: ملاحظہ ہو: باب "قلب" (دل) "جو چیزیں دل کو مردہ کر دیتی ہیں"
(۹)کم گوئی
۱۷۸۷۸۔ کسی شخص کے اسلام کا حسن اس کی کم گوئی میں ہے۔
(حضرت رسول اکرم) اسے احمد بن حنبل نے بھی روایت کیا ہے، المعجم
۱۷۸۷۹۔ جس کی باتیں کم ہوں گی اس کے عیب چھپے رہیں گے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۸۸۰۔ باتیں کم کرو اس طرح ملامت سے بچے رہو گے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۸۸۱۔ جب عقل کامل ہو جاتی ہے تو باتیں کم ہو جاتی ہی۔
(حضرت علی علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۱ ص ۲۹۰۔ نہج البلاغہ حکمت ۷۱
۱۷۸۸۲۔ مجھے یہ بات قطعاً پسند نہیں ہے کہ کسی شخص کی زبان اس کے علم سے طویل تر ہوجس طرح یہ بات بھی مجھے بالکل ناپسند ہے کہ اس کا علم اس کی عقل سے زیادہ ہو۔
(امام محمد باقر علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷ ص ۹۲
۱۷۸۸۳۔ عہد ماضی میں میرا ایک دینی بھائی تھا کہ اگر بولنے میں اس پر غلبہ پا لیا جاتا تو خاموشی میں اس پر غلبہ حاصل نہیں کیا جا سکتا تھا۔ وہ بولنے سے زیادہ سننے کا خواہشمند رہتا تھا۔
(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ حکمت ۲۸۹
۱۷۸۸۴۔ اگر اپنی جان کی سلامتی اور عیبوں کی پردہ پوشی چاہتے ہو تو باتیں کم کرو اور خاموشی زیادہ اختیار کرو۔ اس سے تمہاری فکر میں اضافہ ہو گا اور دل نورانی ہو گا۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۸۸۵۔ اللہ کو جب کسی بندے کی بھلائی مطلوب ہوتی ہے تو اسے کم گوئی، کم خوری اور کم خوابی کا الہام کر دیتا ہے،
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۸۸۶۔ کم گوئی، عیوب کو چھپاتی اور گناہوں کو گھٹاتی ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۸۸۷۔ کم گوئی، عیبوں کی پردہ پوشی کرتی ہے اور لغزشوں سے محفوظ رکھتی ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
(قولِ موٴلف: ملاحظہ ہو: باب "کلام" ۱۳ "کلام دوا کی مانند ہے"
(۱۰)کلام اس وقت تک تمہارے قابو میں ہے جب تک بولو نہیں
۱۷۸۸۸۔ جب تک منہ سے بات نہیں نکالو گے اس وقت تک کلام تمہارے قابو میں ہے۔ جب منہ سے بات نکال دیتے ہو تو پھر تم خود اس کے قابو میں آ جاتے ہو، لہٰذا زبان کو بھی اسی طرح سنبھال کے رکھو جس طرح اپنے سونے چاندی کو سنبھال کے رکھتے ہو، کیونکہ بعض اوقات بعض باتیں بڑی نعمت کو سلب کر دیتی ہیں۔
(حضرت علی علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۱ ص ۲۸۶، ص ۲۹۱۔ نہج البلاغہ حکمت ۳۸۱
۱۷۸۸۹۔ جب کوئی بات منہ سے نکالتے ہو تو اس کے قبضہ میں آ جاتے ہو اور جب تک اسے روکے رکھتے ہو تو اپنے قبضہ میں کئے رکھتے ہو۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۸۹۰۔ اپنی زبان کی حفاظت کرو، کیونکہ باتیں انسان کے قابو میں اس کی قیدی ہوتی ہیں، لیکن اگر اسے کھلا چھوڑ دیتا ہے تو وہ خود ان باتوں کے قابو میں آ کر ان کا قیدی بن جاتا ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۱ ص ۲۹۳
۱۷۸۹۱۔ جاہل خود اپنی زبان کا قیدی ہوتاہے۔
(امام علی نقی علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۸ ص ۳۶۸
۱۷۸۹۲۔ خاموشی میں انسان پشیمان ہونے سے بچا رہتا ہے، خاموشی کی وجہ سے جو کمی رہ جاتی ہے اس کی تلافی اس فائدہ کے حصول سے زیادہ آسان ہے جو بات کرنے کی وجہ سے حاصل نہیں ہو سکا جیسے برتن میں موجود چیز کی حفاظت اس کے منہ بند رکھنے کے ساتھ ہوتی ہے۔
(امام علی علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۷ ص ۲۱۵
۱۷۸۹۳۔ خاموش رہنے سے جو نقصان ہوتا ہے اس کی تلافی اس فائدہ کے حصول سے زیادہ آسان ہے جو بولنے کی وجہ سے ضائع ہو جاتا ہے۔ برتن میں موجود اشیاء کی حفاظت اس کا منہ بند رکھنے سے ہوتی ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ مکتوب ۳۱
(1۱)کلام کا شمار عمل میں ہے
۱۷۸۹۴۔ تیرا کلام، تیرے لئے محفوظ کر لیا جاتا ہے اور تیرے نامہٴ اعمال میں ہمیشہ کے لئے ثبت کر دیا جاتا ہے، لہٰذا اپنے کلام کو ان چیزوں میں عمل میں لا ؤ جو تمہیں (اپنے رب کے) قریب کر دیں۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۸۹۵۔ جو یہ شخص یہ جانتا ہے کہ اس کے کلام کا شمار عمل میں ہے تو وہ باتیں کرنا کم کرتا ہے اور مطلب کی بات کے علاوہ کلام نہیں کرتا۔
(حضرت علی علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۱ ص ۲۷۹
۱۷۸۹۶۔ جو شخص یہ جانتا ہے کہ اس کا کلام عمل کا جزو ہے وہ مطلب کی بات کے علاوہ کلام نہیں کرتا۔
(حضرت علی علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۱ ص ۲۸۱ ۔ نہج البلاغہ حکمت ۳۴۹
۱۷۸۹۷۔ جو شخص یہ جانتا ہے کہ اس کا کلام، عمل ہے تو وہ مطلب کی بات کے علاوہ نہیں بولتا۔
(امام جعفر صادق علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۷ ص ۲۸۹
۱۷۸۹۸۔ جو شخص یہ جانتا ہے کہ اس کا کلام عمل کے مقام پر ہے تو وہ مطلب کی بات کے علاوہ کوئی کلام نہیں کرتا۔
(حضرت رسول اکرم) بحارالانوار جلد ۷۱ ص ۳۰۶
۱۷۸۹۹۔ جو شخص اپنے کلام کو عمل میں شمار نہیں کرتا اس کی خطائیں زیادہ ہوتی ہیں اور سزا اس کے سامنے ہوتی ہے۔
(حضرت رسول اکرم) بحارالانوار جلد ۷۱ ص ۳۰۴
۱۷۹۰۰۔ جو شخص یہ جانتا ہے کہ اس کی باتوں کا مواخذہ ہو گا تو اسے چاہئے کہ کم سے کم گفتگو کرے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
(۱۲)جو کچھ جانتے ہو سب کچھ نہ کہہ دو
۱۷۹۰۱۔ مجھ سے ایک بات سنو جو تمہارے لئے قیمتی چیزوں سے زیادہ بہتر ہے (وہ یہ کہ) تم میں سے کوئی شخص مطلب کی بات کے علاوہ کوئی کلام نہ کرے، مطلب کی باتوں میں بھی بہت سی باتیں نہ کہے، مگر صرف اس وقت جب ان کا موقع و محل دیکھے، کیونکہ بہت سے بولنے والے جو بے موقع بات کہہ دیتے ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو قصوروار بنا بیٹھتے ہیں۔
(امام جعفر صادق علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۱ ص ۲۸۲۔ ص ۲۸۸ جلد ۲ ص ۱۳۰
۱۷۹۰۲۔ جو بات نہیں جانتے اسے منہ سے نہ نکالو، بلکہ ہر وہ بات بھی منہ سے نہ نکالو جو تم جانتے ہو کیونکہ خداوند سبحان نے تمہارے اعضا و جوارح پر کچھ فرائض عائد کئے ہیں جن کے ذریعہ وہ قیامت کے دن تمہارے خلاف صدائے احتجاج بلند کریں گے۔
(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ حکمت ۳۸۲۔ بحار جلد ۷۱ ص ۲۸۸ ۔ شرح ابن ابی الحدید جلد ۱۹ ص ۳۲۲
۱۷۹۰۳۔ عقلمندی اسی میں ہے کہ جو چیزیں انسان کے علمی احاطہ میں ہیں ان سب کو منہ سے نہ نکال دے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۹۰۴۔ جو کچھ جانتے ہو، سب منہ سے نہ نکال دو، ورنہ یہی بات تمہاری جہالت کے لئے کافی ہو گی۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۹۰۵۔ ہر سنی ہوئی بات کو بیان نہ کرو، ورنہ تمہاری بے قوفی کے لئے یہی بات کافی ہو گی۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۹۰۶۔ کسی آدمی کے جھوٹا ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی ہوئی بات کو بیان کرتا ہے۔
(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۸۲۰۸
(قولِ موٴلف: ملاحظہ ہو: باب "کذب"، "تھوڑا سا جھوٹ"
(۱۳)کلام دوا کی مانند ہے
۱۷۹۰۷۔ کلام دوا کی مانند ہے۔ اگر کم (استعمال) ہو تو مفید ہوتی ہے اور اگر زیادہ (استعمال) ہو تو مہلک ہوتی ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۹۰۸۔ جب گفتگو کم ہو تو بہتری زیادہ ہوتی ہے اور اگر جواب کثرت کے ساتھ ہوں تو حقیقت گم ہو جاتی ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۹۰۹۔ عقلمند یا تو اپنی ضروریات کے مطابق بات کرتا ہے یا دلیل کے ساتھ۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۹۱۰۔ گفتگو دوہری صفات کے درمیان ہوتی ہے اور وہ ہیں کثرت و قلت کی عادتیں۔ کثرت کے ساتھ گفتگو بکواس ہوتی ہے اور قلت کے ساتھ گفتگو عاجزی و بات نہ کر سکنا ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۹۱۱۔ دانا شخص کی بات اگر صحیح ہو تو دوا ہوتی ہے اور اگر غلط ہو تو بیماری ہوتی ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
(۱۴)خاموشی سے بہتر باتیں
۱۷۹۱۲۔حضرت امام زین العابدین علیہ السلام سے دریافت کیا گیا کہ "کلام افضل ہے یا سکوت؟" آپ نے فرمایا: "ان میں سے ہر ایک کے لئے کئی آفتیں ہیں۔ اگر دونوں اپنی آفات سے محفوظ ہوں تو کلام سکوت سے بہتر ہے۔" پھر سوال کیا گیا: "فرزندِ رسول! وہ کیسے؟" آپ نے فرمایا: "اس لئے کہ خداوند عز و جل نے انبیاء و اوصیأ کو سکوت کے ساتھ نہیں کلام کے ساتھ بھیجا ہے، نہ تو جنت کا استحقاق سکوت کے ساتھ ہے نہ ہی ولایتِ خداوندی کا حصول سکوت کے ساتھ ہے اور نہ جہنم سے اجتناب سکوت کے ساتھ ہے بلکہ ان سب چیزوں کا تعلق کلام کے ساتھ ہے…"
بحارالانوار جلد ۷۱ ص ۲۴۴، وسائل الشیعہ جلد ۸ ص ۵۳۲
۱۷۹۱۳۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اپنے والد گرامی سے بیان فرماتے ہیں کہ آپعلیہ السلام نے ایک باتونی شخص سے فرمایا: "اے شخص! تم کلام کی توہین اور سبکی کر رہے ہو۔ تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے جب پیغمبروںعلیہ السلام کو بھیجا تو انہیں سونا چاندی دے کر مبعوث نہیں فرمایا بلکہ انہیں قوتِ گویائی کے ساتھ مبعوث فرمایا اور مخلوق نے اپنا تعارف بھی کلام ہی کے ذریعہ فرمایا، اس پر دلائل و براہین قائم فرمائے۔"
فروع کافی جلد ۸ ص ۱۴۸ ۔ روضة الکافی حدیث ۱۲۸
۱۷۹۱۴۔ گفتگو سے روح کو سکون ملتا ہے اور خاموشی سے بدن کو راحت نصیب ہوتی ہے۔
(امام جعفر صادق علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۱ ص ۲۷۶
۱۷۹۱۵۔ خاموشی اور بات نہ کر سکنے کی نسبت حق بتا کہنا بہتر ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
(۱۵)خاموشی سونا اور گفتگو چاندی ہے
۱۷۹۱۶۔ حضرت لقمان نے اپنے بیٹے سے فرمایا: "میرے بیٹے! اگر تمہارا یہ خیال ہو کہ کلام چاندی ہے تو یہ بھی یاد رکھو کہ خاموشی سونا ہے۔"
(امام جعفر صادق علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۱ ص ۲۹۹
۱۷۹۱۷۔ خاموشی سونا اور کلام چاندی ہے۔
(حضرت رسول اکرم) بحارالانوار جلد ۷۱ ص ۲۹۴
۱۷۹۱۸۔ مومن بندہ جب تک خاموش رہتا ہے اس وقت تک نیکوکار لکھا جاتا ہے اور جب بات کرتا ہے تو پھر نیکوکار یا گناہ گار لکھا جاتا ہے۔
(امام جعفر صادق علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۱ ص ۳۰۷
۱۷۹۱۹۔ حضرت داؤد علیہ السلام نے اپنے فرزند جناب سلیمان علیہ السلام سے فرمایا: "بیٹے! تمہیں نیک باتوں کے علاوہ باقی طویل خاموشی اختیار کرنا چاہئے کیونکہ طویل خاموشی پر پشیمانی ہوتی ہے جو کثرتِ کلام سے کئی مرتبہ پشیمانی کا سامنا کرنے سے کہیں بہتر ہے، فرزند من! اگر کلام کو چاندی قرار دیا جائے تو خاموشی کو سونا قرار دینا چاہئے۔"
بحارالانوار جلد ۷۱ ص ۲۷۸
(قولِ موٴلف: مذکورہ متضاد احادیث کو باہم مربوط کرنے کے لئے غور کیا جائے)
(۱۶)خاموشی ہمیشہ قابل ستائش نہیں ہوتی
۱۷۹۲۰۔ حکمت کی بات پر خاموش رہنے میں بہتری نہیں جیسا کہ جہالت کی بات پر زبان کھولنے میں بہتری نہیں ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۱ ص ۳۹۱ جلد ۲ ص ۸۱ شرح ابن ابی الحدید جلد ۱۹ ص ۹
۱۷۹۲۱۔ جس خاموشی میں غور و فکر نہ ہو وہ غفلت ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۱ ص ۲۷۵
(امام جعفر صادق علیہ السلام) المحاسن، خصال صدوق ۔ معانی الاخبار۔
۱۷۹۲۲۔ خاموشی اس شخص کے لئے عبادت ہے جو خدا کو یاد کرتا ہے۔
(حضرت رسول اکرم) بحارالانوار جلد ۷۱ ص ۲۹۴
۱۷۹۲۳۔ غور و فکر کے بغیر خاموشی گونگاپن ہے،
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۹۲۴۔ عالم کو اپنے علم پر خاموشی اختیار نہیں کرنا چاہئے، نہ جاہل کے لئے مناسب ہے کہ وہ خاموش رہے۔ (یعنی عالم کو اپنا علم بیان کرنا چاہئے اور جاہل کو اس سے علم حاصل کرنا چاہئے) اس لئے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: فائلوا اھل الذکران کنتم لاتعلمون" یعنی اگر تم نہیں جانتے تو علماء سے پوچھو۔
(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۲۹۲۶۵
۱۷۹۲۵۔ ہر (نیا) آنے والا سرگردان ہوتا ہے، لہٰذا اس سے کھل کر باتیں کرو۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
(قولِ موٴلف: ملاحظہ ہو باب "بدعت"، "جب بدعتیں ظاہر ہونے لگیں"
نیز: عنوان "نیکی" (۲)
(۱۷)کلام سے بہتر خاموشی
۱۷۹۲۶۔ جو خاموشی تمہارے وقار کا موجب بنے اس کلام سے بہتر ہے جو تمہیں ننگ و عار کا لباس پہنائے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۹۲۷۔ جس بات کے نتیجہ میں ملامت کا شکار ہونا پڑے اس سے وہ سکوت بہتر ہے جس کے نتیجے میں سلامتی حاصل ہو۔
(حضرت علیعلیہ السلام) غررالحکم
۱۷۹۲۸۔ جو خاموشی تمہیں شرافت کا لباس پہنائے وہ اس کلام سے بہتر ہے جو تمہیں پشیمانی کا شکار کر دے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۹۲۹۔ (نامہٴ اعمال میں) برائی لکھوانے کی بجائے خاموشی بہتر ہے اور نیکی لکھوانے سے خاموشی بہتر نہیں ہے۔
(حضرت رسول اکرم) بحارالانوار جلد ۷۱ ص ۲۹۴
۱۷۹۳۰۔ گونگاپن جھوٹ بولنے سے بہتر ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۹۳۱۔ بات نہ کر سکنا واہیات باتوں سے کہیں بہتر ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
(۱۸)اولیاء اللہ کی خاموشی
۱۷۹۳۲۔ اولیاء اللہ خاموش رہتے ہیں، ان کی خاموشی ذکر (الٰہی) ہوا کرتی ہے۔ وہ (تخلیقِ خداوندی میں) غور و فکر کیا کرتے ہیں، ان کا یہ غور و فکر عبرت ہوتا ہے۔ پھر جب باتیں کرتے ہیں تو ان کا باتیں کرنا حکمت ہوتی ہے۔
(حضرت رسول اکرم) بحارالانوار جلد ۶۹ ص ۲۸۹۔ امالی شیخ مغید، اور اس کتاب میں ہے:
"…ان کی خاموشی فکر پر مبنی ہوتی ہے، اور بولتے ہیں تو ان کا بولنا ذکرِ الٰہی ہوتا ہے۔"
۱۷۹۳۳۔ اللہ کے کچھ بندے ایسے ہیں جن کے دل خوفِ خدا سے شکستہ ہو چکے ہیں، جن کی بنا پر وہ خاموش رہتے ہیں حالانکہ وہ بڑے فصیح و عقلمند ہوتے ہیں ، اپنے پاکیزہ اعمال کی وجہ سے خدا کی طرف جانے کے لئے جلدی میں ہوتے ہیں۔ وہ کثیر اعمال کو بھی کثیر نہیں سمجھتے اور قلیل اعمال پر ان کے دل راضی نہیں ہوتے…"
(حضرت علی علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۸ ص ۳۰۹۔ جلد ۶۹ ص ۲۸۶
(قولِ موٴلف: ملاحظہ ہو: باب "نظر" (غور و فکر) "جس غور و فکر کا کوئی نتیجہ نہیں ہوتا"
نیز: باب "خیر"
(۱۹)احسن کلام
۱۷۹۳۴۔ احسن کلام وہ ہے جس کا سننا کانوں پر ناخوشگوار نہ گزرے اور ذہن جس کے سمجھنے سے تھک نہ جائیں۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۹۳۵۔ احسن کلام وہ ہے جسے حسنِ ترتیب سے مزین کیا جائے اور اسے ہر خاص و عام سمجھ لیں۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۹۳۶۔ بہترین اور احسن کلام وہ ہے جو نہ تو تھکا دے اور نہ ہی کم ہو۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۹۳۷۔ احسن کلام (صرف) کلامِ الٰہی ہی ہے۔
(حضرت رسول اکرم) اسے نسائی اور ابن ماجہ نے بھی روایت کیا ہے، المعجم
(قولِ موٴلف: ملاحظہ ہو: باب "قرآن" ، "قرآن سب سے احسن کلام ہے")
(20)جامع کلام
۱۷۹۳۸۔ مجھے جامع کلام دے کر مبعوث کیا گیا ہے اور رعب کے ساتھ میری نصرت کی گئی ہے۔
(حضرت رسول اکرم) اسے بخاری اور مسلم نے بھی روایت کیا ہے۔ المعجم
۱۷۹۳۹۔ رعب کے ساتھ میری نصرت کی گئی ہے اور مجھے جامع کلام عطا کیا گیا ہے۔
(حضرت رسول اکرم) اسے مسلم اور احمد بن حنبل نے بھی روایت کیا ہے، المعجم
۱۷۹۴۰۔ عطاء بن سائب حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ امام علیہ السلام اپنے مقدس آباؤ اجداد کے ذریعہ حضرت رسول خدا سے روایت فرماتے ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "مجھے پانچ چیزیں ایسی عطا کی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں۔ ۱۔ میں ہر گورے اور کالے کی طرف مبعوث کیا گیا ہوں ۲۔ زمین پر میرے لئے مقام سجدہ قرار دی گئی ہے ۳۔ رعب کے ساتھ میری نصرت کی گئی ہے ۴۔ مالِ غنیمت میرے لئے حلال قرار دیا گیا ہے جومجھ سے پہلے کسی نبی کے لئے حلال نہیں تھا اور ۵۔ مجھے جامع کلام سے نوازا گیا ہے۔" عطا ابن سائب کہتے ہیں کہ میں نے امام محمد باقر علیہ السلام سے عرض کیا کہ: "جامع کلام سے کیا مراد ہے؟" فرمایا: "قرآن مجید"۔
بحارالانوار جلد ۹۴ ص ۱۴۔ ۱۵
۱۷۹۴۱۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد بزرگوار سے سنا کہ حضرت رسول خدا کے پاس ایک بادیہ نشین عرب آیا اور عرض کیا: "میں دیہات میں رہتا ہوں، لہٰذا آپ مجھے کوئی جامع کلام تعلیم فرمائیے!" آنحضرت نے فرمایا: "میں تجھے حکم دیتا ہوں کہ غصہ نہ کیا کر" اس شخص نے اپنی بات کو تین مرتبہ دہرایا اور تینوں مرتبہ یہی جواب سنا۔ آخر اسے سمجھ میں آ گیا اور کہنے لگا: "اس کے بعد میں کسی اور بات کا سوال نہیں کروں گا…"
کافی جلد ۲ ص ۳۰۳
۱۷۹۴۲۔ یزید بن سلمہ جعفی کہتے ہیں: "یا رسول اللہ ! میں نے آپ سے بڑی تعداد میں احادیث سنی ہیں جس سے مجھے خوف لاحق ہو گیا کہ آخری حدیث، پہلی حدیث کو فراموش نہ کر دے۔ لہٰذا مجھے ایسی بات بتائیں جو سب سے جامع ہو۔" آپ نے فرمایا: "جن باتوں کا تمہیں علم ہے ان میں خدا سے ڈرتے رہو۔"
(صحیح ترمذی جلد ۱ ص ۱۵۶
(قولِ موٴلف: ملاحظہ ہو: باب "اسلام"، "جامع اسلام"
نیز: باب "خیر"، "ساری کی ساری خیر" اور باب "جن چیزوں سے دنیا و آخرت حاصل کی جاتی ہے")
(۲۱)پاکیزہ کلام
قرآن مجید
…وقولوا للناس حسنا… (بقرہ/۸۳)
ترجمہ۔…اور لوگوں کے ساتھ اچھی طرح باتیں کرو…
وقل لعبادی یقولوا التی ھی احسن، ان الشیطٰن ینزغ بینھم… (بنی اسرائیل/۵۳)
ترجمہ۔ اور اے پیغمبر! میرے بندوں سے کہہ دو کہ وہ بات کریں تو اچھے طریقے سے کیونکہ شیطان ان میں فساد ڈلواتا ہے…
یٰا یھاالذین امنوا اتقوا وقولوا قولا سدیدا۔ (احزاب/۷۰)
ترجمہ۔ ایمان والو! خدا سے ڈرتے رہا کرو اور درست بات کیا کرو۔
واذاسمعوا اللغو…………………………لا نبتغی الجھٰلین (قصص/۵۵)
ترجمہ۔ اور وہ جب کسی سے بری بات سنتے ہیں تو منہ پھیر لیتے ہیں اور (صاف) کہہ دیتے ہیں کہ ہمارے واسطے ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے واسطے تمہارے اعمال ہیں، تمہیں دور سے سلام ہے، ہم جاہلوں کے خواہاں نہیں ہیں۔
حدیث شریف
۱۷۹۴۳۔ ایک شخص نے حضرت رسول خدا کی سواری کی لگام پکڑ کر سوال کیا: "یارسول اللہ! کونسا عمل سب سے بہتر ہے؟" آپ نے فرمایا: "کھانا کھلانا اور پاکیزہ بات کرنا۔"
بحارالانوار جلد ۷۱ ص ۳۱۲
۱۷۹۴۴۔ تین چیزیں نیکی کا دروازہ ہیں۔ ۱۔ دل کا سخی ہونا ۲۔ پاکیزہ کلام اور ۳۔ دکھوں پر صبر۔
(حضرت علی علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۱ ص ۳۱۱
۱۷۹۴۵۔ جنت میں ایسے بالاخانے ہوں گے جن کے ظاہر سے باطن کو اور باطن سے ظاہر کو دیکھا جا سکے گا، اس میں میری امت کے وہ لوگ سکونت پذیر ہوں گے جن کی باتیں پاکیزہ ہوں گی، جو کھانے کھلاتے ہیں، سلام کو عام کرتے، روزے رکھتے اور رات کو جب سب لوگ سوئے ہوتے ہیں تو وہ نماز پڑھتے ہیں۔"
(حضرت رسول اکرم) معانی الاخبار ص ۲۳۸
۱۷۹۴۶۔ "قولو اللناس حسنا" (لوگوں سے اچھی اچھی باتیں کیا کرو) کے بارے میں ہے کہ اس سے مراد ہے: "لوگوں سے ایسی بات کرو جس کا جواب سننے کے لئے اس سے بہتر کے خواہاں ہوتے ہو۔"
(امام محمد باقرعلیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۱ ص ۳۰۹
۱۷۹۴۷۔ سلیمان بن مہران کہتے ہیں کہ میں امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں شرفیاب ہوا۔ اس وقت آپ کی خدمت میں چند شیعہ حضرات تشریف فرما تھے۔ میں نے آپعلیہ السلام کو فرماتے سنا: "اے گروہِ شیعیان! تم ہمارے لئے زینت بنو، ہمارے لئے باعث ننگ و عیب نہ بنو لوگوں سے اچھی اچھی باتیں کرو، اپنی زبانوں کی حفاظت کرو اور ان زبانوں کو فضول و بیہودہ باتوں سے بچا کر رکھو۔"
بحارالانوار جلد ۷۱ ص ۳۱۰
۱۷۹۴۸۔ خدا سے ڈرو اور لوگوں کو اپنے کندھوں پر سوار نہ ہونے دو کیونکہ خداوندِ عزوجل اپنی کتاب میں فرماتا ہے۔ "لوگوں سے اچھی باتیں کیا کرو۔"
(امام جعفر صادق علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۱ ص ۳۱۳
۱۷۹۴۹۔ خوبصورت اور پیاری گفتگو، مال و ثروت میں اضافہ کرتی ہے، رزق میں برکت کا موجب ہوتی ہے۔ اجل (موت) کی تاخیر کا سب ہوتی ہے، اپنوں میں محبوب بناتی ہے اور (انجام کار) بہشت میں لے جاتی ہے۔
(امام زین العابدین علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۱ ص ۳۱۰
۱۷۹۵۰۔ اس ذات کی قسم میری جان جس کے قبضہ میں ہے، لوگ جو کچھ بھی اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان سب میں نیک باتوں سے بڑھ کر کوئی چیز اللہ کو محبوب نہیں ہے۔
(حضرت رسول اکرم) بحارالانوار جلد ۷۱ ص ۳۱۱
۱۷۹۵۱۔ اچھی گفتگو کرو کہ اس سے تمہاری پہچان ہوتی ہے اور اچھے کام کرو کہ اس سے تم اہل خیر بن جاؤ گے۔
(حضرت علی علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۱ ص ۳۱۱
۱۷۹۵۲۔ اچھی بات کرو تاکہ اچھا جواب پاؤ۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۹۵۳۔ بری باتوں کا جواب بھی برا ملتا ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۹۵۴۔ جس کی گفتگو پیاری ہوتی فتح و کامرانی اس کے آگے آگے ہوتی ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۹۵۵۔ قول و فعل (دونوں) میں اپنے نفس کو کھلی چھٹی نہ دے دو۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۹۵۶۔ اپنی زبان کو اچھی گفتگو کا عادی بناؤ کہ اس طرح ملامتوں سے بچے رہو گے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۹۵۷۔ اپنی زبان کو نرم گفتگو اور سلام کرنے کا عادی بناؤ کہ اس سے تمہارے دوست بڑھیں گے اور دشمن گھٹیں گے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۹۵۸۔ جس کی زبان شیریں ہوتی ہے اس کے دوست زیادہ ہوتے ہیں۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
(۲۲)کلام کے بارے میں متفرق احادیث
۱۷۹۵۹۔ کلام کے لئے کئی آفتیں ہیں۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۹۶۰۔ کلام تین طرح کا ہوتا ہے۔ ۱۔ نفع اٹھانے والا۔ ۲۔ سالم و تندرست اور ۳۔ بیمار و لاغر۔ نفع اٹھانے والا کلام وہ ہے جو ذکر خدا میں ہوتا ہے، سالم و تندرست وہ ہے جس میں اللہ کی پسندیدہ گفتگو ہو اور لاغر و بیمار وہ کلام ہوتا ہے جو لوگوں کے بارے میں ہو۔
(حضرت رسول اکرم) بحارالانوار جلد ۷۱ ص ۲۸۹
۱۷۹۶۱۔ بدترین بات وہ ہے جو ایک دوسرے کی نقیض ہو۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۹۶۲۔ الفاظ معانی کے قالب ہوتے ہیں۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۹۶۳۔ ہر بات کے لئے ایک موقع محل ہوتا ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۹۶۴۔ جب بات کرنے کا موقع نہ ہو تو خاموش رہو۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۹۶۵۔ صاحبان (عقل و) فہم کے لئے باتوں کو الٹ پھیر کیا جا سکتا ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۹۶۶۔ زبانِ مقال (بولتی زبان) سے زبانِ حال، موجودہ کیفیت کی زبان، زیادہ سچی ہوتی ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۹۶۷۔ جسے صرف اپنی باتیں ہی اچھی لگتی ہوں، سمجھو کہ اس کی عقل ڈوب چکی ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
فصل۔ ۴۱
(۱)کمال
۱۷۹۶۸۔ عقلمند کمال کا اور جاہل مال کا طلبگار ہوتا ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۹۶۹۔ انسان و عقل اور صورت (دو چیزوں) کا مجموعہ ہے۔ جس کے پاس صورت تو ہو لیکن عقل نہ ہو وہ کامل نہیں ہوتا۔ ایسا ہوتا ہے جیسے میں روح نہیں ہے (فقط ایک ڈھانچہ ہے) لہٰذا جسے عقل کی ضرورت ہے اسے چاہئے کہ اصول و فضول کو اچھی طرح پہچانے اس لئے کہ بہت سے لوگ (اس بارے میں غلطی کر جاتے ہیں) فضول کو حاصل کرتے ہیں اور اصول کو چھوڑ دیتے ہیں حالانکہ جو اصول کو اپناتا ہے، فضول سے خودبخود اس کی جان چھوٹ جاتی ہے…
دینی امور کے اصول ان چن چیزوں پر مشتمل ہیں: نمازوں کی پابندی، گناہانِ کبیرہ سے اجتناب اور ان کو ایسا پلے باندھا جائے کہ پلک جھپکنے کے لئے بھی ان سے خود کو بے نیاز نہ سمجھا جائے کیونکہ ان کے بغیر ہلاکت و تباہی ہے، اگر ان سے آگے بڑھ کر فقہ و عبادت کو اپنا لیا جائے تو پھر اس کے کیا ہی کہنے…۔
(حضرت علی علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۸ ص ۷
(قولِ موٴلف: ملاحظہ ہو باب "فضلیت"، "فضائل اور فرائض کا باہمی ٹکراؤ"
(۲)کامل ترین شخص
۱۷۹۷۰۔ حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام کی طرف منسوب اشعار کا ترجمہ: کامل ترین شخص وہ ہے جو اپنے نقص کو اچھی طرح جانتا ہے اور اپنی خواہشات و حرص کا قلع قمع کرتا ہے۔
عافیت سے بڑھ کر کسی چیز کو گراں قیمت نہ سمجھو نہ ہی بیماری کو معمولی سمجھ کر سستا جانو۔
بحارالانوار جلد ۷۸ ص ۸۹
۱۷۹۷۱۔ اپنے آپ کو وہی شخص ناقص سمجھتا ہے جو درجہٴ کمال تک پہنچ چکا ہو۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۹۷۲۔ انسان کا اپنے نفس کو ناقص سمجھنے کا شعور اس کے کمال اور بہت بڑی فضلیت کا ثبوت ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۹۷۳۔ کمال دنیا میں مفقود ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
(۳)کامل عورتیں صرف چار ہیں
۱۷۹۷۴۔ ابو موسیٰ حضرت پیغمبر خدا سے روایت کرتے ہیں کہ آنحضور نے فرمایا: "مردوں میں تو بہت سے لوگ کامل ہیں لیکن عورتوں میں سے صرف چار میں کمال کی صفت پائی جاتی ہے۔ ۱۔ آسیہ بنت مزاحم زنِ فرعون ۲۔ مریم بنت عمران (مادر عیسیٰعلیہ السلام) ۳۔ خدیجہعلیہ السلام بنت خویلد (زوجہٴ رسولِ خدا) اور ۴۔ فاطمہ بنت محمد (زوجہٴ علی علیہ السلام)۔
مجمع البیان جلد ۱۰ ص ۳۲۰
۱۷۹۷۵۔ احمد، طرانی اور حاکم نے حضرت ابن عباس سے اس حدیث کو نقل کیا ہے اور صحیح قرار دیا ہے: حضرت رسولِ خدا فرماتے ہیں: "اہلِ جنت کی افضل ترین عورتیں (چار ہیں) ۱۔ خدیجہعلیہ السلام بنت خویلد ۲۔ فاطمہعلیہ السلام بنت محمد ۳۔ مریم بنت عمران اور ۴۔ آسیہ بنت مزاحم زنِ فرعون۔
(تفسیر در منثور جلد ۶ ص ۲۴۶
(۴)کمال کا موجب اشیاء
۱۷۹۷۶۔ انسان چھ باتوں کی وجہ سے کامل ہوتا ہے۔ اپنی دو چھوٹی چیزوں دو بڑی چیزوں اور دو کیفیتوں کی وجہ سے۔ دو چھوٹی چیزیں اس کا دل و زبان ہیں۔ اگر لڑتا ہے تو دل کے ساتھ اور اگر بولتا ہے تو زبان کے ساتھ، دو بڑی چیزیں اس کی عقل و ہمت ہیں، دو کیفیتیں اس کا مال و جمال ہیں۔
(حضرت علی علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۰ ص ۴ ، معانی الاخبار ص ۱۴۷
۱۷۹۷۷۔ حضرت جابر بن عبداللہ انصاری سے روایت ہے کہ: ایک دن (حضرت رسول خدا کے چچا) حضرت عباس (بن عبدالمطلبعلیہ السلام) آنحضرت کے پاس آئے، حضرت عباس کا قد لمبا اور جسم خوبصوتر تھا۔ انہیں دیکھ کر آنحضرت مسکرا کر فرمانے لگے: "چچا! آپ تو بڑے خوبصوتر ہیں!" یہ سن کر حضرت عباس نے پوچھا: "یارسول اللہ! انسان کی خوبصورتی کس چیز میں ہوتی ہے؟" آپ نے فرمایا "حق اور سچ بولنے کے ساتھ" انہو ں نے پھر پوچھا: "پھر اس کا کمال کس چیز میں ہوتا ہے؟ " فرمایا: "خدا کے تقویٰ اور اچھے اخلاق میں"۔
بحارالانوار جلد ۷۰ ص ۲۹۰
۱۷۹۷۸۔ صحیح معنی میں، مکمل طور پر کمال نام ہے، دین میں غور و فکر (علمِ فقہ کے حصول) مصیبتوں پر صبر اور معیشت کو صحیح انداز میں سنبھالنے کا۔
(امام محمد باقر علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۸ ص ۱۷۲
۱۷۹۷۹۔ تین چیزوں میں کمال پایا جاتا ہے۔ ۱۔ مصیبتوں پر صبر ۲۔ ہر موقع پر پرہیزگاری اور ۳۔ حاجت مندوں کی ضرورت کو پورا کرنا۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۹۸۰۔ عقل کے ذریعہ نفس کو کامل کیا جاتا ہے اور نفس کے ساتھ جہاد کے ذریعہ نفس کی اصلاح کی جاتی ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۹۸۱۔ انسان کا کمال اس کی عقل میں ہے اور اس کی قیمت اس کے فضل میں ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۹۸۲۔ انسان کا کمال اس کی عقل میں ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
(۵)کامل شخص کی صفات
۱۷۹۸۳۔ جب کسی انسان کی اچھائیاں اس کی برائیوں سے زیادہ ہوں تو ایسا شخص کامل ہوتا ہے۔ اسی میں ارتقاء پایا جاتا ہے…اور اگر اس کی اچھائیاں اور برائیاں برابر ہوں تو ایسا شخص ایک حد تک رکا ہوا ہوتا ہے اور جس کی برائیاں اس کی اچھائیوں سے زیادہ ہوں تو ایسا شخص ہلاک ہونے والا ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۹۸۴۔ کامل انسان وہ ہے جس کی سنجیدگی اس کی بے معنی باتوں پر غالب ہو۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۹۸۵۔ کامل انسان وہ ہے جو اپنی عقل کے ذریعہ اپنی خواہشات پر غلبہ کئے رکھے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۹۸۶۔ تین صفات ایسی ہیں جو کسی کو (رب کی طرف سے) عطا ہو جائیں تو وہ کامل کہلائے گا: ۱۔ عقل ۲۔ جمال اور ۳۔ فصاحت۔
(حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۸ ص ۲۳۴۔ تحف العقول ص ۲۳۶
۱۷۹۸۷۔ جو عالم نہیں اسے سعادت مند (نیک بخت) شمار نہیں کرنا چاہئے۔
جو کسی سے دوستی اور محبت نہیں رکھتا اسے سراہا نہیں جانا چاہئے۔
جو صبر کا مظاہرہ نہی ں کرتا اسے کامل شمار نہیں کرنا چاہئے…
(امام جعفر صادق علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۸ ص ۲۴۶
۱۷۹۸۸۔ تین کام کرو کہ ان سے تمہاری شرافت و علوِ مرتبت کامل سمجھی جائے گی: ۱۔ حیا کی چادر اوڑھ لو ۲۔ وفا کی زرہ پہن لو اور ۳۔ عورتوں سے کم باتیں کرو۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
(قولِ موٴلف: ملاحظہ ہو باب "بھائی"، " کامل بھائی")
فصل ۔ ۴۲
دانائی
(۱)سمجھدار انسان
۱۷۹۸۹۔ سمجھدار انسان وہ ہوتا ہے جو اپنے نفس کو پہچانتا اور اپنے اعمال کو خلوص کے ساتھ بجا لاتا ہے،
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۹۹۰۔ سمجھدار انسان کی اصل و بنیاد اس کی عقل ہوتی ہے، مروت و مردانگی اس کی ثانوی عادت ہوتی ہے اور دین اس کا خاندان ہوتا ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۹۹۱۔ باشعور انسان وہ ہوتا ہے جس کا آج کا دن اس کے گزشتہ کل سے بہتر ہوتا ہے اور مذموم باتوں سے اپنے آپ کو بچائے رکھتا ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۹۹۲۔ زیرک انسان وہ ہے جو اپنی خواہشات اور شہوات کا قلع قمع کرکے اپنے فضائل کو زندہ رکھتا ہے اور رذیل کاموں کو موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۹۹۳۔ دانا انسان وہ ہے جو دوسروں سے بے خبر ہو کر اپنے نفس سے خوبیوں کا تقاضا کرتا رہتا ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۹۹۴۔ سمجھدار انسان وہ ہے جو اپنی خواہشات کی باگ ڈور اپنے قابو میں رکھتا ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۹۹۵۔ باشعور شخص وہ ہ جو حیا کی چادر اوڑھے اور بردباری کی زرہ زیب تن کئے رہتا ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۹۹۶۔ عقلمند انسان وہ ہے جو اپنے نفس پر قابو رکھتا ہے، موت کے بعد کے زمانہ کے لئے اعمال بجا لاتا ہے، جبکہ عاجز انسان وہ ہوتا ہے جو اپنی خواہشات کا تابع ہوتا ہے اور خدا سے انہونی باتوں کی آرزوئیں لگائے رکھتا ہے۔
(حضرت رسول اکرم) بحارالانوار جلد ۷۹ ص
۱۷۹۹۷۔ باشعور انسان کادوست حق اور اس کا دشمن، باطل ہوتا ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۹۹۸۔ دانا انسان وہ ہوتا ہے جو اپنی خواہشات کو روکے رکھتا اور اپنی جنسی شہوات پر قابو رکھتا ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۹۹۹۔ سمجھدار انسان وہ ہوتا ہے جو برائی کرتا ہے تو استغفار کرتا ہے اور جب گناہ کرتا ہے تو پشیمان ہوتا ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۸۰۰۰۔ اچھے طریقہ سے نماز ادا کیا کرو، اپنی آخرت کے لئے اعمال بجا لایا کرو اور اپنے لئے اچھے اعمال کو ترجیح دو کیونکہ بعض اوقات ایک آدمی دینوی امور میں سمجھداری سے کام لیتا ہے تو اس کے لئے کہا جاتا ہے کہ یہ شخص کس قدر سمجھدار ہے، حالانکہ صحیح معنوں میں وہ شخص سمجھدار ہوتا ہے جو آخرت کے امور میں سوچ سمجھ سے کام لے۔
(حضرت رسول اکرم) بحارالانوار جلد ۷۷ ص ۷۹
۱۸۰۰۱۔ صحیح معنوں میں دانائی، خوفِ خدا، حرام سے اجتناب اور آخرت کی اصلاح کا نام ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۸۰۰۲۔ مومنین میں بڑھ کر شریف وہ ہوتا ہے، جس میں سوجھ بوجھ اور دانائی سب سے زیادہ پائی جاتی ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
(۲)زیرکی
۱۸۰۰۳۔ جہالت و کند دہنی کو فطانت و زیرکی کے ذریعہ دور بھگاؤ۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۸۰۰۴۔ انسان (کی قدر و قیمت) اس کی ذہانت و فطانت سے ہوتی ہے کہ شکل و صورت سے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۸۰۰۵۔ سوجھ بوجھ، ذہانت اور زیرکی سے ہوتی ہے،
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۸۰۰۶۔ یقین کی چار شاخیں ہیں: روشن نگاہی، حقیقت رسی، عبرت اندوزی اور اگلوں کے طور و طریقے۔ چنانچہ جو دانش و آگاہی حاصل کرے گا اس کے سامنے علم و عمل کی راہیں واضح ہو جائیں گے، جس کے لئے علم و عمل واضح ہو جائے گا وہ عبرت سے آشنا ہو گا، اور جو عبرت سے آشنا ہو گا وہ ایسا ہے جیسے پہلے لوگوں میں موجود رہا ہو۔
(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ حکمت ۱و
(۳)داناؤں کی خصوصیات
۱۸۰۰۸۔ دانا لوگ وہ ہوتے ہیں جو دنیا کو ناپسند کرتے ہیں، دینوی رونقوں سے آنکھیں بند رکھتے ہیں، اپنے دلو ں کو دنیا سے موڑے ہوئے ہوتے ہیں اور بقا کے گھر (آخرت) کے لئے والہ (؟) ہوتے ہیں،
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۸۰۰۹۔ دنیا دانا لوگوں کے لئے طلاق شدہ (بیوی کی حیثیت) سے ہوتی ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۸۰۱۰۔ جب کاہل و ناکارہ افراد عمل میں کوتاہی کرتے ہیں تو اللہ کی طرف سے یہ عقلمندوں کے لئے ادائے فرض کا بہترین موقع ہوتا ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) بحار الانوار جلد ۷۱ ص ۱۸۹ ۔ نہج االبلاغہ حکمت ۳۳۱
۱۸۰۱۱۔ بہت سے روزہ دار ایسے ہیں جنہیں روزوں کا شمرہ بھوک پیاس کے علاوہ کچھ نہیں ملتا، بہت سے عابد شب ِ زندہ دار ایسے ہیں جنہیں روزوں کا ثمرہ بھوک پیاس کے علاوہ کچھ نہیں ملتا، بہت سے عابدِ شب زندہ دار ایسے ہیں جنہیں عبادت کے نتیجہ میں جاگنے اور زحمت اٹھانے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا جبکہ زیرک و دانا لوگوں کا سونا اور روزہ نہ رکھنا بھی قابلِ ستائش ہوتا ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ حکمت ۱۴۵
۱۸۰۱۲۔ یقیناً اطاعت کے لئے واضح نشان، روشن راہیں، سیدھی شاہراہیں اور ایک منزل مقصود موجود ہے۔ عقلمند و دانا ان کی طرف بڑھتے ہیں اور سفلے و کمینے ان سے کترا جاتے ہیں…
(حضرت علی علیہ السلام) مکتوب ۳۰
(قولِ موٴلف: ملاحظہ ہو باب "غنیمت جاننا" "عقل مندوں کی غنیمت")
(۴)بہت عقلمند
۱۸۰۱۳۔ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ "کونسا مومن بہت عقل مند ہوتا ہے؟" آپ نے فرمایا: ‘"جو موت کو زیادہ یاد کرتا ہے اور اس کے لئے سب سے زیادہ تیاریوں میں مصروف ہوتا ہے؟" آپ نے فرمایا: "جو موت کو زیادہ یاد کرتا اور اس کے لئے سب سے زیادہ تیاریوں میں مصروف رہتا ہو۔"
(حضرت رسول اکرم) بحار جلد ۸۷۱ ص ۲۶۷، جلد ۶ ص ۲۶، جلد ۸۲ ص ۱۶۷، ۱۶۸
۱۸۰۱۴۔ حضرت ابن عمر کہتے ہیں کہ میں حضرت رسول خدا کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اس وقت حاضر ہونے والا میں دسواں شخص تھا، اتنے میں ایک انصاری نے کھڑے ہو کر عرض کیا: "یا نبی اللہ! سب سے زیادہ عقلمند و دوراندیش انسان کون ہوتا ہے؟" آپ نے فرمایا: "جو موت کو زیادہ یاد کرتا ہے اور ہر وقت اس کی تیاری میں مصروف رہتا ہے۔ ایسی خصوصیات کے حامل افراد جب دنیا سے رخصت ہوتے ہیں تو دنیوی شرافت و اخروی عزت کے ساتھ رخصت ہوتے ہیں۔"
الترغیب و الترہیب جلد ۴ ص ۲۳۸۔ اسے ابن ابی الدنیا اور طبرانی نے بھی روایت کا ہے۔
۱۸۰۱۵۔ حضرت امام علی علیہ السلام سے پوچھا گیا: "کونسا شخص زیادہ زیرک ہوتا ہے؟" آپ نے فرمایا: "جس کے لئے ہدایت و گمراہی واضح ہو جائے اور وہ ہدایت کی طرف راغب ہو جائے۔"
بحارالانوار جلد ۷۷ ص ۳۷۸۔
۱۸۰۱۶۔ عقلمندترین انسان وہ ہے جو دنیا کو چھوڑ دے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۸۰۱۷۔ بڑا عقلمند وہ ہوتا ہے جو دنیاداروں سے مایوس ہو کر خاموشی و پرہیزگاری اختیار کئے رکھے اور حرص و طمع سے دور رہے…
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۸۰۱۸۔ افضل ترین شخص وہ ہے جو نرم روی پر عمل پیرا ہوتا ہے، عقلمند ترین شخص وہ ہے جو حق پر زیادہ صبر کرتا ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
(۵)داناترین
۱۸۰۱۹۔ سب سے زیادہ عقلمند وہ ہوتا ہے جو دنیا سے منہ موڑ لے، اس سے اپنی آرزوؤں کو منقطع کر لے اور دنیوی طمع و لالچ سے بے نیاز ہو کر زندہ رہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۸۰۲۰۔ سب سے زیادہ سمجھدار و دانا انسان متقی و پرہیزگار ہے اور سب سے بڑا احمق فاسق و فاجر ہے۔
(حضرت رسول اکرم) بحار جلد ۷۷ ص ۱۱۵
۱۸۰۲۱۔ سب سے بڑا عقلمند متقی انسان ہوتا ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۸۰۲۲۔ سب سے بڑا دانا انسان وہ ہوتا ہے جو اپنے نفس کا محاسبہ کرے، موت کے بعد درپیش آنے والے دور کے لئے اعمال بجا لائے، جبکہ سب سے بڑا احمق وہ ہوتا ہے جو نفسانی خواہشات کی اتباع کرے اور خدا سے بے فائدہ مند آرزوؤں کی توقع رکھے۔
(حضرت رسول اکرم) بحارالانوار جلد ۹۲ ص ۲۵۰
(۶)دانائی کے لئے اتنا ہی کافی ہے!
۱۸۰۲۳۔ انسان کی دانائی کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اپنے عیوب کو جان لے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۸۰۲۴۔ انسان کی دانائی کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اپنی خواہشات پر غالب رہے اور عقل پر قابو رکھے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۸۰۲۵۔ کسی شخص کی عقلمندی کے لئے یہی کافی ہے کہ اپنے عیوب سے واقفیت حاصل کرے اور اپنے دوسرے کاموں میں میانہ روی سے کام لے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۸۰۲۶۔ کسی شخص کی عقلمندی کے لئے یہی کافی ہے کہ اپنے کاروبار میں میانہ روی اختیار کرے اور دیگر امور کو خوبصورت انداز میں انجام دے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
فصل ۴۳
لوم (کمینہ پن)
۱۸۰۲۷۔ کمینگی برائیوں کی جڑ ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۸۰۲۸۔ کمینہ پن تمام قابلِ مذمت چیزوں کا مجموعہ ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۸۰۲۹۔ کمینگی تمام فضلیتوں کی ضد اور تمام رذالتوں کا مجموعہ ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۸۰۳۰۔ کمینہ پن ایک برائی ہے، لہٰذا اسے اپنا اوڑھنا بچھونا نہ بناؤ۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۸۰۳۱۔ مال کی محبت و ستائش و تعریف کی لذت کو ترجیح دینا کمینہ پن ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۸۰۳۲۔ بداخلاقی کمینہ پن کا ایک جزو ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۸۰۳۳۔ عہد و پیمان شکنی کمینہ پن کی علامت ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۸۰۳۴۔ بری ہمسائیگی کا اظہار یعنی ہمسایوں سے برا سلوک، کمینہ پن کی علامت ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۸۰۳۵۔ نیک لوگوں کی غیبت بدترین کمینگی ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۸۰۳۶۔ جس کے پاس دو چیزیں اکٹھی ہو جائیں اسے کمینگی کے دو ستونوں کا سہارا مل جاتا ہے ایک تو دنیا کی حرص اور ایک بخل۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۸۰۳۷۔ حضرت امام حسین علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ کمینہ پن کیا ہے؟ آپعلیہ السلام نے فرمایا: "سخاوت کم اور گفتگو کا فحش ہونا"
تحف العقول ص ۱۶۲
۱۸۰۳۸۔ کمینہ پن کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: انسان خود کو بچا لے اور اپنی بیوی (ناموس) کو دوسروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دے۔
(امام حسن علیہ السلام) تحف العقول ص ۱۶۳
(قول موٴلفی: ملاحظہ ہو: باب ۳ حدیث ۱۸۰۵۳
(۲)کمینے شخص کی خصوصیات
۱۸۰۳۹۔ کمینہ شخص جب اپنی اوقات سے بڑھ جائے تو اس کے حالات بدل جاتے ہیں۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۸۰۴۰۔ کمینہ شخص ننگ و عار کی زرہ پہن کر شریف لوگوں کو ستاتا ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۸۰۴۱۔ کمینے سے نہ تو خیر کی امید رکھی جا سکتی ہے، نہ اس کے شر سے بچا جا سکتا ہے، نہ ہی اس کی چالوں و فریب کاریوں سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۸۰۴۲۔ کمینہ شخص بے حیا ہوتا ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۸۰۴۳۔ کمینے کو جب اقتدار مل جاتا ہے تو برائیاں کرتا ہے اور جب وعدہ کرتاہے تو اس کے برخلاف کرتا ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۸۰۴۴۔ کمینہ آدمی جب کسی کو کچھ دیتا ہے تو دل میں اس کو چھپا لیتا ہے تاکہ موقع ملنے پر اسے منہ پر مارا جائے اور جب کسی سے لیتا ہے تو موقع پر اس کا انکار کر دیتا ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۸۰۴۵۔ کمینے کے ساتھ بھلائی بہت بڑی رذالت ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۸۰۴۶۔ کمینے کی سب سے بڑی بھلائی یہ ہے کہ کسی کو ایذا نہ پہنچائے اور شریف کی سب سے بڑی برائی یہ ہے کہ کسی کو کچھ نہ دے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۸۰۴۷۔ کمینے پر کبھی اعتماد نہ کرو، کیونکہ جو اس پر اعتماد کرتا ہے اسے وہ وقت آنے پر چھوڑ دیتا ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۸۰۴۸۔ کمینے کا مرتبہ جوں جوں بلند ہوتا جائے گا لوگ اس کے پاس سے گھٹتے چلے جائیں گے جبکہ شریف اس کے برعکس ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۸۰۴۹۔ جو برے کام انجام دیتا ہے، بداخلاقی کا مظاہرہ اور بدترین بخل سے کام لے، سمجھ لو کہ یہ کمینہ شخص ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۸۰۵۰۔ ایک مرتبہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ اور ایک دوسرے شخص کے درمیان جھگڑا ہو گیا، اس شخص نے حضرت سلمان سے کہا: "تو کونذ ہے، کیا ہے؟" انہوں نے جواب میں فرمایا: "میری اور تمہاری ابتدا ایک غلیظ نطفے سے ہوئی ہے اور انتہا ایک بدبودار مردار پر ہو گی۔ جب قیامت کا دن ہو گا اور میزانِ اعمال نصب کی جائے گی تو جس کے اعمال کا پلڑا بھاری ہو گا وہ صاحبِ عزت و شریف ہو گا اور جس کے اعمال کا پلڑا ہلکا ہو گا وہ بے عزت و کمینہ ہو گا۔"
(امام جعفر صادق علیہ السلام) من لا یحضرہ الفقیہ جلد ۴ ص ۲۸۹
(قولِ موٴلف: ملاحظہ ہو باب (۴)
(۳)کمینہ ترین انسان
۱۸۰۵۱۔ غیبت کرنے والا کمینہ ترین آدمی ہوتا ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۸۰۵۲۔ کمینہ ترین صفت کینہ پروری ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غرر الحکم
۱۸۰۵۳۔بہت بڑی کمینگی یہ ہے کہ انسان خود کو توبچا لے لیکن اپنی بیوی(ناموس) کو دوسروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غرر الحکم
(۴)کمینہ پن
۱۸۰۵۴۔ کمینے جسمانی لحاظ سے صابر ہوتے ہیں او رشریف نفسانی لحاظ سے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غرر الحکم
۱۸۰۵۵۔ کمینے و سفلہ لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ معزز و شریف لوگوں کو ایذا پہنچائیں۔
(حضرت علی علیہ السلام) غرر الحکم
۱۸۰۵۶۔ کمینوں کے پاس اپنی آبرو لے کر جانا موت ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غرر الحکم
۱۸۰۵۷۔ کمینوں سے رزق و روزی طلب کرنے والا محرومی کا شکار ہوتا ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غرر الحکم
۱۸۰۵۸۔ جب کبھی کمینوں کے پاس جانا پڑ جائے تو اپنے لئے روزہ کا بہانہ بنالو۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۸۰۵۹۔ کمینے پن سے سنگدلی پیدا ہوتی ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غرر الحکم
صفحہ نمبر ۴۱۵ ؟
(حضرت رسول اکرم) فروع کافی جلد ۶ ص ۴۴۵ ۔ کنز العمال حدیث ۴۱۱۰۱ (قدرے اختلاف کے ساتھ)
۱۸۰۶۵۔ سوتی لباس پہنا کرو، کیونکہ یہ پیغمبر خدا صلے اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ہمار الباس ہے۔
(امام علی علیہ السلام) فروع کافی جلد ۶ ص ۴۴۶
۱۸۰۶۶۔ لباس سوتی پہنا کرو کیونکہ یہ رسول اللہ اور ہمارا لباس ہے۔ آنحضرت کسی خاص وجہ کے بغیر کبھی اونی اور ریشمی لباس نہیں پہنتے تھے۔
(حضرت علی علیہ السلام) فروع کافی جلد ۶ ص ۴۵۰
۱۸۰۶۷۔ سوت بھی انبیاء کا لباس ہے یہ گوشت کے بڑھنے میں مدد دیتا ہے۔
(امام جعفر صادق علیہ السلام) فروع کافی جلد۶ ص ۴۴۹
(۶)میانہ روی لباس
۱۸۰۶۸۔ متقین کے اوصاف میں فرمایا:۔۔۔ ان کی گفتگو جچی تلی اور پہناوا میانہ روی کا ہوتا ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ خطبہ ۱۹۳
۱۸۰۶۹۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے بھائی ہارون علیہ السلام کے ساتھ لے کر اس حالت میں فرعون کے پاس آئے کہ ان کے جسم پراونی کُرتے اور ہاتھوں میں لاٹھیاں تھیں۔ اس سے یہ قول و قرار کیا کہ اگر وہ اسلام قبول کر لے تو اس کا ملک بھی باقی رہے گا او رعزت بھی برقرار رہے گی۔
اس نے (اپنے حاشیہ نشینوں سے) کہا "تم کو ان پر تعجب نہیں ہوتا کہ دونوں مجھ سے یہ معاملہ ٹھہرا رہے ہیں کہ میری عزت بھی برقرار رہے گی او رملک بھی باقی رہے گا جبکہ یہ خود تنگدلی و ذلیل صورت میں ہیں جو تم دیکھ رہے ہو۔ (اگر ان میں اتنا ہی دم خم تھا تو پھر ) ان ک ہاتھوں میں سونے کے کنگن کیوں نہیں پڑے ہوئے، یہ اس لیے کہ وہ سونے کو اور اس کی جمع آوری کو بڑی چیز سمجھتا تھا۔ اور بالوں سے بنے ہوئے کپڑوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتا تھا۔
(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ خطبہ ۱۹۲
۱۸۰۷۰۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اوصاف میں فرمایا : اگر چاہو تو عیسیٰ بن مریم کا حال کہوں جو (سر کے نیچے ) پتھر کا تکیہ رکھتے تھے او رسخت و کھردار لباس پہنتے تھے۔۔۔
(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ خطبہ ۱۶۰۔
۱۸۰۷۱۔ پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اوصاف میں فرمایا : حضرت رسول اللہ صلے اللہ علیہ و آلہ زمین پر بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے، غلاموں کی طرح بیٹھتے تھے ، اپنے ہاتھ ہی سے اپنی جوتی گانٹھتے تھے اور اپنے ہاتھوں سے کپڑوں میں پیوند لگاتے تھے۔۔۔
(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ خطبہ ۱۶۰
۱۸۰۷۲۔ میں موٹا لباس پہنتا ہوں، زمین پر بیٹھتا ہوں۔( کھانے کے بعد) اپنی انگلیوں کو چاٹتا ہوں، زین کے بغیر گدھے پر سوار ہوتا ہوں اور اپنے پیچھے کسی کو بٹھا بھی لیتا ہوں۔ پس جو شخص میری سنت سے منہ موڑے گا وہ مجھ سے نہیں ہے۔
(حضرت رسول اکرم) مجار الانوار جلد۷۷ ص ۸۰
۱۸۰۷۳۔ اے ابوذر ! سخت و کھردار اور موٹا لباس پہنا کروتا کہ تمہارے اندر غرور راہ نہ پالے۔
(حضرت رسول اکرم) مجار الانوار جلد ۷۷ ص ۹۱
۱۸۰۷۴۔ حضرت علی علیہ السلام نے لوگوں کو خطبہ دیا ۔ اس وقت آپ کے جسم پر کھدر کا ایک بوسیدہ و پیوند دار جامہ تھا۔ آپعلیہ السلام سے اس کے بارے میں کہا گیا تو آپعلیہ السلام نے فرمایا: " اس سے دل متواضع ہوتا ہے اور مئومن اس کی تاشی کرتے ہیں"
(امام جعفر صادق علیہ السلام) مجار الانوارجلد ۷۹ ص ۳۱۲
ایک اور روایت کے مطابق حضرت علی علیہ السلام کے جسم پر ایک بوسیدہ اور پیونددار جامہ دیکھا گیا تو آپعلیہ السلام سے اس بارے میں پوچھا گیا۔ آپعلیہ السلام نے فرمایا: "اس سے دل متواضع، نفس، مطیع ہوتا ہے اور مومن اسی کی تاسی کرتے ہیں۔"
بحارالانوار جلد ۷۹ ص ۳۱۳
۱۸۰۷۵۔ عقبہ بن علقمہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت علی امیرالمومنین علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ آپ کے سامنے کھٹا دودھ رکھا ہوا تھا، جس کی ترش بو میں برداشت نہ کر سکا۔ ساتھ ہی روٹی کے کچھ سوکھے ٹکڑے بھی تھے۔ یہ دیکھ کر دریافت کیا: "امیرالمومنینعلیہ السلام! آپعلیہ السلام یہی غذا کھاتے ہیں؟" آپعلیہ السلام نے فرمایا: "اے ابوالجنود! میں نے تو حضرت رسول خدا کو اس سے بھی زیادہ خشک ٹکڑے کھاتے اور اس سے زیادہ کھردرا و سخت لباس پہنے دیکھا ہے۔ لہٰذا اگر میں آنحضرت کی سیرت کو اختیار نہیں کروں گا تو اندیشہ ہے کہ میں ان تک نہیں پہنچ سکوں گا۔"
بحارالانوار جلد ۷۹ ص ۳۱۴
۱۸۰۷۶۔ حضرت رسول خدا صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو طرح کے لباس پہننے سے روکا ہے:
ایک تو وہ جو خوبصورتی و زیبائی میں مشہور اور دوسرا وہ جو برائی اور خرابی ہیں مشہور ہو۔
کنزالعمال حدیث ۴۱۱۷۱
۱۸۰۷۷۔ آنحضرت ہی سے روایت ہے کہ آپ نے دو طرح کی شہرت کے حامل کپڑوں سے روکا ہے۔ ایک وہ جو نہایت ہی باریک ہوتا ہے اور دوسرے وہ جو نہایت ہی موٹا ، اسی طرح جو سختی و نرمی، نیز لمبائی و کوتاہی میں مشہور ہیں۔ لہٰذا بہتر ہے ان دو صفات کے درمیان کی صفت کا انتخاب کیا جائے۔
کنزالعمال حدیث ۴۱۱۷۱
۱۸۰۷۸۔ مال، اللہ کا ہے جسے اللہ نے انسان کے پاس امانت کے طور پر رکھا ہے، اور اسے صرف اس حد تک اجازت دی ہے کہ اس سے درمیانی کیفیت کا کھانا کھائے اور درمیانی صفت کا لباس پہنے…
(امام جعفر صادق علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۹ ص ۳۰۴
۱۸۰۷۹۔ ایسا لباس پہنو جس سے نہ تمہاری شہرت ہو اور نہ ہی شکایت ہو۔
(قولِ موٴلف: ملاحظہ ہو: باب "شہرت" ، "لباس اور عبادت کی شہرت")
(۳)بہترین لباس
۱۸۰۸۰۔ حماد بن عثمان کہتے ہیں کہ میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں شرفیاب ہوا۔ اس وقت ایک شخص نے آنجنابعلیہ السلام سے کہا: "خدا آپ کا بھلا کرے! آپعلیہ السلام تو فرماتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام موٹا اور کھردرا لباس زیب تن فرماتے تھے، جس کے ایک پیراہن کی قیمت صرف چار درہم ہوئی تھی، وغیرہ، لیکن آپ خود اس قدر عمدہ جامہ زیبِ بدن کئے ہوتے ہیں!"
آپعلیہ السلامنے فرمایا: "علی بن ابی طالب علیہ السلام ایسا لباس اس وقت زیب تن کرتے تھے جسے ناپسند نہیں سمجھا جاتا تھا۔ اگر وہی لباس آج پہن لیں تو انگشت نمائی ہو۔ لہٰذا ہر دور کا بہترین لباس وہی ہوتا ہے جو اس زمانہ والے استعمال کرتے ہیں، البتہ جب ہمارے قائم (قائم آل محمد عجل اللہ فرجی ظہور فرمائیں گے تو علیعلیہ السلام جیسا لباس پہنیں گے اور انہی کی سیرت پر چلیں گے۔"
فروع کافی جلد ۶ ص ۴۴۴
۱۸۰۸۱۔ برید بن معاویہ کہتے ہیں کہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے عبید بن زیاد سے فرمایا: "خدا کی نعمتوں کا اظہار خدا کو زیادہ پسند ہے اس بات سے کہ انہیں چھپایا جائے۔ لہٰذا تمہیں بھی اپنی قوم میں مروج بہترین لباس پہننا چاہئے" راوی کا بیان ہے کہ اس کے بعد عبید مرتے دم تک اپنی قوم میں مروج بہترین لباس پہنتے رہے۔
وسائل الشیعہ جلد ۳ ص ۳۴۲
۱۸۰۸۲۔ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے لباس کا تذکرہ کرنے کے بعد فرمایا: "لباس تو اسی قسم کا پہننا چاہئے، لیکن اس دور میں ہم نہیں پہن سکتے کیونکہ اگر ہم پہننے لگیں تو لوگ یا تو کہیں گے یہ دیوانہ یا کہیں گے کہ ریاکار ہے البتہ جب قائم آل محمد ظہور فرمائیں گے تو وہ ایسا لباس زیب تن کریں گے۔"
(امام جعفر صادق علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۸۹ ص ۳۱۴
۱۸۰۸۳۔ "میں طواف میں مصروف تھا کہ ایک شخص نے میرا کپڑا کھینچنا شروع کر دیا، جب میں نے مڑ کر دیکھا تو وہ "عباد بصری" تھا، اس نے کہا: "اے جعفر بن محمد! آپ حضرت علیعلیہ السلام کے مقام و مرتبہ پر ہوتے ہوئے ایسے کپڑے پہنتے ہیں؟" میں نے کہا: "افسوس ہے تجھ پر! یہ کرمان کے دیہات "کوہستان" کا تیارکردہ کپڑا ہے جسے میں نے ایک درہم سے کچھ زیادہ کے عوض خریدا۔ حضرت علی علیہ السلام ایک ایسے زمانہ میں تھے جس میں آپ جیسا بھی لباس پہنتے وہ ان کے مناسب حال ہوتا تھا اور اگر میں آج کے دور میں ان جیسا لباس پہننے لگوں تو لوگ کہیں گے "یہ عباد بصری کی طرح ریاکار ہے!"
(امام جعفر صادق علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۹ ص ۳۱۵، ص ۳۰۸۔ وسائل الشیعہ جلد ۳ ص ۳۴۷
فروع کافی جلد ۶ ص ۴۴۳
۱۸۰۸۴۔ میرے کمزور (عقیدہ کے) دوست اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ میں بوریا پر بیٹھوں اور موٹا لباس پہنوں جبکہ یہ دور اس بات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
(امام رضا علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۹ ص ۳۴۹
۱۸۰۸۵۔ معمر بن خلاد کہتے ہیں: "میں نے حضرت ابوالحسن (امام رضا) علیہ السلام کو فرماتے سنا ہے: بخدا! اگر میں بھی اسی دور میں ہوتا تو میں بھی عمدہ غذا کی بجائے سادہ غذا کھاتا، نرم کپڑے کی بجائے کھردرا لباس پہنتا اور راحت کی بجائے سختی اٹھاتا۔"
بحارالانوار جلد ۷۹ ص ۳۱۴
۱۸۰۸۶۔ احمد بن محمد بن ابی نصر کہتے ہیں کہ حضرت امام رضا علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا: "اچھے اور عمدہ لباس کے بارے میں کیا کہتے ہو؟" میں نے کہا: "جہا ں تک مجھے معلوم ہے وہ یہ ہے کہ حضرت امام حسن علیہ السلام عمدہ لباس پہنتے تھے اور حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نیاکپڑا خرید کر اسے پانی میں بھگونے کا حکم دیتے تھے۔" اس پر امام رضا علیہ السلام نے فرمایا: "اچھا اور زیبا لباس پہنا کرو، کیونکہ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام موسم سرما میں پانچ سو درہم کا ملائم پشمی کرتا اور پچاس دینار ملائم پشمی چادر زیب تن فرمایا کرتے تھے۔ جب سردیوں کا موسم گزر جاتا تو اسے آپ فروخت کرکے اس کی قیمت غریبوں میں تقسیم کر دیتے تھے۔" اس کے بعد آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: "قل من حرم زینة اللہ التی اخرج لعبادہ و الطیٰبت من الرزق" یعنی اے رسول! (ان سے) پوچھو کہ جو زینت (کے ساز و سامان) اور کھانے کی پاک و پاکیزہ چیزیں خدا نے اپنے بندوں کے واسطے پیدا کی ہیں، کس نے حرام کر دیں؟ (اعراف/ ۳۲)
وسائل الشیعہ جلد ۳ ص ۳۴۱
۱۸۰۸۷۔ سفیان ثوری کہتے ہیں کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے کہا: "آپ خود ہی بیان فرماتے ہیں کہ حضرت علی بن ابی طالبعلیہ السلام موٹا اور کھردرا لباس پہنتے تھے، جبکہ آپ نے تو کوہستانی اور عمدہ لباس پہنا ہوا ہے!" اس پر انہوں نے فرمایا: "تم پر افسوس ہے۔ تمہیں نہیں معلوم کہ حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام تنگی کے زمانہ میں زندہ تھے۔ اب وہ دور نہیں رہا اور تنگی ختم ہو چکی ہے اس لئے زمانہ کے نیک لوگ ایسا لباس پہننے کی زیادہ اہلیت رکھتے ہیں۔"
بحارالانوار جلد ۷۹ ص ۳۰۹ ۔ ۳۱۵
(قولِ موٴلف: ملاحظہ ہو باب "جمال"، "خدا جمیل ہے اور جمال کو دوست رکھتا ہے")
نیز: باب "تواضع" ، "بلندی پر فائز ہونے کے باوجود تواضع")
(۴)خدا کی خوشنودی اور بندوں کی خوشنودی
۱۸۰۸۸۔ ابی عباد کہتے ہیں کہ حضرت امام رضا علیہ السلام گرمیوں میں چٹائی پر اور سردیوں میں غالیچہ پر بیٹھا کرتے تھے، لباس موٹا ہوتا تھا، لیکن جب باہر لوگوں میں تشریف لے جاتے تو زینت کرکے جاتے۔
بحارالانوار جلد ۸۳ ص ۲۲۲
۱۸۰۸۹۔ روایت میں ہے کہ حضرت امام رضا علیہ السلام نے اونی لباس کے اوپر ملائم پشمی لباس زیب تن فرمایا ہوا تھا۔ چنانچہ ایک جاہل صوفی
نے جب آپ کا ملائم پشمی لباس دیکھا تو کہنے لگا: "آپ خود کو یہ کیسے گمان کرتے ہیں کہ آپ زاہد ہیں جبکہ ہم آپ کو نعمتوں بھرے ملائم پشمی لباس میں دیکھ رہے ہیں؟"
یہ سن کر امام علیہ السلام نے اندرونی لباس ظاہر فرمایا۔ انہوں نے دیکھا تو وہ اونی لباس ہے اس پر آپ نے فرمایا: "یہ اندرونی لباس اللہ (کو خوش کرنے) کے لئے ہے اور یہ اوپر والا لباس لوگوں کو دکھانے کے لئے ہے۔"
بحارالانوار جلد ۸۳ ص ۲۲۲
۱۸۰۸۹۔
|