فصل ۔ ۳۵
کفر
(۱)کفر شرک سے بہت پہلے ہے
قرآن مجید:
والذین کفروا اولیائھم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الی الظلمات۔ (بقرہ ۲۵۷)
ترجمہ۔۔۔اورجن لوگوں نے کفر اختیار کیا ان کے سر پرست سر کشی شیطان ہیں جو ان کو (ایمان کی)روشنی سے نکال کر کفر کی تاریکوں ڈال دیتے ہیں۔
والذین کفروا۔۔۔۔ ۔۔ سریع الحساب۔۔۔ او کظلمت۔۔۔۔۔۔ من نور۔ (نور ۳۹۔ ۴۰)
ترجمہ۔ اور جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ان کی کارستانیاں ایسی ہیں جیسے چیٹل میدان کا چمکتا ہو بالو اس کو دور سے تو پانی خیال کرتا ہے یہاں تک کہ جب اس کے پاس آیا تو کچھ بھی نہ پایا ۔ اور (پیاس سے تڑپ کر مر گیا) خدا کو اپنے پاس موجود پایا، اس نے اس کا حساب پورا پورا چکا دیا۔ او رخدا تو بہت جلد حساب کرنے والا ہے۔ یا ۔ کافروں (کے اعمال ) کی مثال اس بڑے گہرے دریا جیسی ہے ‘ جیسے ایک لہر کے اوپر دوسری لہر۔ اس کو اس (تہ تہہ ) ڈھانکے ہوئے ہو۔ (غرض) تاریکیاں ہیں کہ ایک کے اوپر ایک (امنڈی) چلی آتی ہیں ۔ اس طرح کہ اگر کوئی شخص اپنا ہاتھ نکلالے تو( شدت تاریکی سے)اے دیکھ نہ سکے۔ او رجسے خود خدا ہی نے ہدایت کی روشنی نہ دی ہو تو (سمجھ لو کہ ) اس کے لئے کہیں کوئی روشنی نہیں ہے۔
ان تکفروا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ولا یرضی لعبادہ الکفر۔۔۔۔۔۔۔۔ (زمر ۷)
ترجمہ۔ اگر تم نے اس کی ناشکری کی تو (یاد رکھو کہ) خدا تم سے بالکل بے پروا ہے‘ وہ اپنے بندوں سے کفر اور ناشکری کو پسند نہیں فرماتا،
وقال موسیٰ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لغنی حمید۔ (ابراہیم ۸)
ترجمہ۔ اور موسی علیہ السلامنے اپنی قوم سے)کہ دیا تھا کہ اگر تم اور (تمہارے ساتھ) جتنے لوگ روئے زمین پر ہیں سب کے سب مل کر خد اکی نافرمانی کر یں تو (خدا کو ذرابھی پرواہ نہیں کیونکہ وہ تو) بالکل بے نیاز اور سزا دار حمد ہے۔
ومن یکفر باللہ ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ضلا لا مبنیا (نساء ۱۳۶)
ترجمہ۔ اور جو شخص خدا ‘ اس کے فرشتوں کی کتابوں ‘ اس کے رسولوں اور روز آخرت کا منکر ہو ا تو وہ راہ راست سے بھٹک کے بہت دور جا پڑا۔
حدیث شریف:
۱۷۶۹۱۔ ہر وہ چیز جسے انکار اور علم کے باوجود نافرمانی اپنی طر ف کھینچ لے جائے ،کفر ہے۔
(امام محمد باقر علیہ السلام) مجار الانوار جلد ۲ ۳۸۷ ء)
۱۷۶۹۲۔ کفر کا مطلب ہے‘ ہر وہ معصیت جس کی وجہ سی خد اکی نافرمانی کی جائے‘چاہے وہ کسی بھی چھوٹے یا بڑے امر میں انکار اور علم کے باوجود نافرمانی ہو، یا اسے سبک سمجھا جائے، یا بے وقعت جانا جائے۔ اس کا انجام دینے والا کافر ہے۔۔۔۔
اگر وہ شخص اپنی خواہشات کی وجہ سے اسے انکار اور سبک سمجھنے کی بناء پر نافرمانی پر اتر آئے تو وہ کافر کہلائے گا۔ لیکن اگر اپنی نفسانی خواہشات کی بناء پر تاویل ، تقلید یا تسلیم و رضا کی بناپر اپنے اسلاف و آباد اجداد کے نقش قدم پرچل کسی چیز کو اپنا دین بنا لے تو وہ شرک ہے۔
(امام جعفر صادق علیہ السلام) وسائل الشیعہ جلد اول ۲۴ ء ۔ ۲۵ ء )
۱۷۶۹۳۔ نجدا کفر شرک سے زیادہ قدیمی ‘ زیادہ خبیث اور زیادہ سخت ہے۔ (پھرآپ نے اس موقع پر ابلیس کے کفر کا ذکرفرمایا جب خدا نے اسے سجدہ کرنے کا حکم دیا لیکن اس نے انکار کر دیا پھر فرمایا) کفر، شرک سے زیادہ سخت ہے کیونکہ جو شخص خد اکی مرضی پر اپنی مرضی کو ترجیح دیتا ہے ‘ اطاعت کا منکر ہو جاتا ہے گناہاں کبیرہ پر ڈٹا رہتا ہے وہ کافر ہے۔ اور جو شخص مئو منین کے معروف دین کے علاوہ از خود نیا دین قائم کرتا ہے، وہ شرک ہے۔
(امام محمد باقر علیہ السلام) کافی جلد ۲ ۳۸۴ ء)
۱۷۶۹۴۔ ابن صدقہ کہتے ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے کسی شخص نے سوال کیا کہ کفر پہلے ہے یا شرک ؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا:"کفر " شرک سے مقد م ہے، اس لئے کہ ابلیس نے سب سے پہلے کفر کیا۔ اس وقت اس کا کفر ، شرک نہیں تھا کیونکہ اس نے اس وقت غیر اللہ کی عبادت کی طرف دعوت نہیں دی تھی، بلکہ اس نے اس کے بعد غیر اللہ کی عبادت کی دعوت دی ا ور شرک ہو گیا،
(مجار الانوار جلد ۷۲ ۹۶ ء)
۱۷۶۹۵۔ موسیٰ بن بکر کہتے ہیں کہ میں نے حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے پوچھا کہ کفر و شرک میں سے کونسی چیز پہلے اور مقدم ہے؟ امام علیہ السلام نے فرمایا: "تم مجھ سے یہ کیوں پوچھتے ہو؟ کیا اس لئے کہ لوگوں سے اس بارے میں خصومت کرو؟"میں نے عرض کیا:" مجھے ہشام بن سالم نے حکم دیا ہے کہ اس بارے میں آپ سے دریافت کروں!" امام علیہ السلام نے فرمایا: "(کفر شر ک پر) مقدم ہے اور وہ انکار کا نام ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے کہ ابلیس کے بارے میں فرمایاہے "الا ابلیس ابی وا ستکبر وکان من للکافرین" مگر شیطان نے انکار کر کیا ‘ غرورمیں آگیا اورکافر ہو گیا (بقرہ ۳۴)۔"
کافی جلد ۲ ۳۸۵ ء۔ مجار الانوار جلد ۷۲ ۹۷ ء․ اس کتاب میں "ہشام بن سالم" کی جگہ پر"ہشام بن حکم"کا نام ہے۔
۱۷۶۹۶۔ ہشیم تمیمی کہتے ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے (مجھ سے) فرمایا: "ہشیم تمیمی! کچھ لوگ ظاہری طورپر تو ایمان لے آئے لیکن باطنی طور پر کافر رہے پس ان کے ایمان نے انہیں کوئی فائدہ نہ پہنچایا۔ لیکن ان کے بعد کچھ اور لوگ آئے جو باطنی طور پر مومن تھے لیکن ظاہر میں کفر کا اظہار کرتے تھے۔ انہیں بھی کوئی فائدہ حاصل نہ ہوا ۔ لہذا ایمان وہی کا رآمد ہے جوظاہر میں باطن کے او ر باطن میں ظاہر کے ہم آہنگ ہو۔
(مجار الانوار جلد ۷۲ ۹۷ ء)
۱۷۶۹۷۔ حضرت امیر المومنین علیہ السلام جنگ کے موقع پر اپنے ساتھیوں سے فرماتے تھے:۔۔اس ذات کی قسم جس نے دانے کو شگافتہ کیا اور جاندار چیزوں کو پیدا کیا‘ یہ لوگ اسلام نہیں لائے تھے بلکہ انہوں نے اطاعت کر لی تھی‘ او ردلوں میں کفر کو چھپائے رکھا تھا۔ اب جبکہ انہیں یارو مددگار مل گئے تو اسے ظاہر کر دیا"
البلاغہ مکتوب ۱۶
(۲)کفر کا موجب بننے والی چیزیں
۱۷۶۹۸۔ خداوند عزّو جّل اپنے بندوں پر کچھ فریضے عائد کئے ہیں ۔ پس جو شخص ان فریضوں میں سے کسی ایک کو ترک کر کے اس پر عمل پیرانہ ہو او ر اس کا انکار کر دے تو وہ کافر ہے۔
(امام جعفر صادق علیہ السلام) کافی جلد ۲ ۳۸۳ ء)
۱۷۶۹۹۔ جو شخص اللہ اور اس کے رسول کے بارے میں شک کرے وہ کافر ہے۔
(امام جعفر صادق علیہ السلام) کافی جلد ۲ ۳۸۶ ء)
۱۷۷۰۰۔ منصور بن حازم کہتے ہیں کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا کہ جو شخص حضرت رسول خدا کے بارے میں شک کرے (اس کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟) "آپ نے فرمایا:"وہ کافر ہے! " میں نے پھر سوال کیا: "جو شخص اس کافر کے کفر میں شک کرے کیا وہ بھی کافر ہے" اس پر آپ خاموش ہو گئے۔ میں نے یہ سوال تین مرتبہ دہرایاتو آپ کے چہرے پر غضب کے آثار نمایاں دیکھے۔
کافی جلد ۲ ۳۸۷ ء
۱۷۷۰۱۔ محمد بن مسلم کہتے ہیں کہ میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کے بائیں طرف اور زرارہ آپ کے دائیں طرف بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں ابو بصر آن پہنچے۔ انہوں نے آتے ہی امامعلیہ السلام سے پوچھا: "یا ابا عبدعلیہ السلاماللہ ! آپ اس شخص کے بارے میں کیا فرماتے ہیں جو خدا کے بارے میں شک کرے؟ "امام علیہ السلام نے فرمایا: "ابو محمد ! وہ شخص کافر ہے ! "انہوں نے پھر پوچھا: جو شخص رسول خد ا کے بارے میں شک کرے اس کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟"فرمایا : " وہ بھی کافر ہے! پھر آپ زرارہ کی جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا: کافر اس وقت ہو گا جب وہ ان کا انکار کرے گا"
کافی جلد ۲ ۳۹۹ ء
۱۷۷۰۲۔ ہر وہ چیز جسے اقرار و تسلیم اپنی طرف کھینچ کر لے جائے وہ "ایمان " ہے اور ہر وہ چیز جسے انکار اور نافرمانی اپنی طر ف کھینچ کر لے جائے وہ "کفر " ہے۔
(امام محمد باقر علیہ السلام) کافی جلد ۲ ۳۸۷ ء)
"اگر خدا کے بندے کسی بات سے جاہل ہوں ‘ اسی حد پر رکے رہیں اور انکار نہ کریں تو کافر نہیں ہوں گے"۔
(امام جعفر صادق علیہ السلام) کافی جلد۲ ۳۸۸ ء)
۱۷۷۰۳۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب ستارے کو دیکھ کر فرمایاتھا کہ یہ میرا رب ہے؟ کے بارے میں فرمایا: حضرت ابراہیم علیہ السلام رب کے متلاشی تھے او ریہ چیز کفر کی حد تک نہیں جاتی۔ یہ صرف ایک فکر کی حد تک تھی۔
(حضرت امام محمد باقر یا حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام) مجار الانوار جلد ۱۱ ۸۷ ء)
(قول موئف : ملاخطہ ہو : باب "مرتد"" کفر کے موجبات"
نیز: باب"شبہہ" "شبہ کے وقت رک جاؤ)
(۳)کافر
قرآن مجید:
۔۔۔ والکفرون ھم الظٰلمون۔ (بقرہ / ۲۵۴)
ترجمہ۔۔ اور کفر کرنے والے ہی تو ظالم ہوتے ہیں۔
۔۔۔ واللہ لا یھدی القوم الکٰفرین۔ (بقرہ/ ۲۶۴)
ترجمہ۔۔ اور خدا کافر لوگوں کی ہدایت نہیں فرماتا۔
۔۔۔ ویجحد بٰایٰتنا الاا لکٰفرون۔ (عنکبوت/ ۴۷)
ترجمہ۔۔ اور ہماری آیتوں کا تو بس کافر ہی انکار کرتے ہیں۔
۔۔۔ ویجحد بٰایٰتناالاالظمون۔ (عنکبوت/۴۹)
ترجمہ۔۔ اور سرکشوں کے علاوہ ہماری آیتوں سے کوئی انکار نہیں کرتا۔
۔۔۔ انہ لا یفلح الکفرون۔ (مومنون/۱۱۷)
ترجمہ۔۔ یقینا کفار ہر گز فلاح پانے والے نہیں۔
۔۔۔ وان جھنم لمحیطتہ بالکٰفرین۔ (عنکبوت/ ۵۴)
ترجمہ۔۔ اور یقینی بات ہے کہ دوزخ کا فروں کو گھیر ے ہوئے ہے۔
۔۔۔ والذین کفروا یتمتعون ویاکلون کما تاکل الانعام والنار مثوی لھم۔ (محمد/۱۲)
ترجمہ۔۔ اور جو کافر ہیں وہ دنیا میں چین کرتے ہیں او راس طرح (بے فکری سے) کھاتے (پیتے) ہیں جیسے چار پائے کھاتے (پیتے) ہیں۔ (آخر) ان کا ٹھکانہ جہنم ہے۔
حدیث شریف:
۱۷۷۰۴۔ محمد بن مسلم کہتے ہیں : "میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے سورہ قلم /۱۳
عتل بعد ذلک زینم " یعنی اور اس کے علاوہ بدذات (حرام زادہ ) بھی ہے‘ کے متعلق سوال کیاکہ اس سے کیا مراد ہے؟ آپ نے فرمایا"عتل سے مراد بہت بڑے کفر کا حامل ہے اور" زینم" سے مراد کفر کا دلدار ہ و فریضتہ ہے۔"
(مجار الانوار جلد ۷۲ ۹۷ ء)
۱۷۷۰۵۔ دنیا مومن کے لئے قید خانہ اور کافر کے لئے بہشت ہے۔
(حضرت رسول اکرم) اے مسلم، ترمذی، ابن ماجہ اور احمد بن حنبل نے بھی روایت کیا ہے۔ المعجم
۱۷۷۰۶۔ کافر کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ دنیا اس کے لئے بہشت ہوتی ہے، اس کی ساری کوششیں دنیا کے لئے ہوتی ہیں، موت اس کے لئے بد بختی ہوتی ہے او رجہنم اس کی منزل مقصود ہوتی ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم)
۱۷۷۰۷۔ کافر دغا باز ،حیلہ گر ، جفا کار اور بددیانت ہوتا ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غرر الحکم)
۱۷۷۰۸۔ کافردغاباز پست فطرت ، بددیانت اپنی جہالت کا فریب خوردہ اور نقصان اٹھانے والا ہو تاہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غرر الحکم)
۱۷۷۰۹۔ کافر کی تمام کوششیں دنیا کے واسطے، اس کی تمام دوڑ دھوپ چند روزہ دینوی امور کے لئے ہو اور اس کی منزل مقصود خواہشات نفسانی کی تکمیل ہوتی ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غرر الحکم
۱۷۷۱۰۔ کافر جاہل اور (فاسق و )فاجر ہوتا ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام ) غرر الحکم
۱۷۷۱۱۔ کوئی کافر اس وقت تک کافر نہیں ہوتا جب تک وہ جاہل نہ ہو، (گویا جہالت ،کفر کا پیش خیمہ ہوتی ہے۔ مترجم)
(حضرت علی علیہ السلام) غرر الحکم
(قول موئف : ملا خطہ ہو باب "امثال" کافر کی مثال"
نیز : باب "موت" "کافر کی موت"
نیز: باب "دنیا" "دنیا مومن کے لئے قید خانہ ہے:"
(۴)کفر کا کمتر درجہ
۱۷۷۱۲۔ کفر کا کمتر درجہ یہ ہے کہ انسان اپنے (مومن )بھائی سے کوئی بات سنے اور اسے اس مقصد کے لئے یاد رکھے کسی موقع پر اسے اس بات کی وجہ سے رسوا کرے گا۔ ایسے لوگوں کے لئے (دین اسلام میں) کوئی حصہ نہیں ہے۔
(حضرت رسول اکرم) مجار الانوار جلد ۷۸ ۲۷۶ ء )
۱۷۷۱۳۔ بندہ اس وقت کفر کے زیادہ نزدیک ہوتا ہے جب وہ کسی شخص سے دین کے نام پر دوستی کرے او راس کی خطاؤں و نفزشوں کو اس لئے جمع کرتا رہے کہ کسی دن اس کے منہ پر مارے گا۔
(امام محمد باقر علیہ السلام) مجار الانوار جلد۷۵ ۲۱۵ ء )
۱۷۷۱۴۔ سب سے ادنیٰ بات جس سے انسان کافر ہو جاتا ہے یہ ہے کہ کسی چیز کو بزعم خود دین سمجھ کر اپنا لے خدا کی نہی کو سمجھ لے‘ اپنا نصیب العین قرار دے کر اپنے آپ کو بری اوزمہ سمجھتا رہے اور اسکا گمان یہ ہو کہ خد اکے امر کو امر سمجھ کر اس کی عبادت کر رہا ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) مستدرک الوسائل جلد اول ۶ ء)
۱۷۷۱۵۔ سب سے ادنیٰ بات بندہ جس سے کافر ہو جاتا ہے‘ یہ ہے کہ جس چیز سے خد انے نہی کی ہے وہ سمجھتا ہے کہ خدا نے اس کا حکم دیا ہے دین سمجھ کر اپنا نصب العین قرار دے دیتا ہے اس پر کار بند رہتا ہے اور ا س کا گمان یہ ہوتا ہے کہ جو عبادت کر رہا ہے، خدانے اس کا حکم دیا ہے ‘ حالانکہ وہ (خداوند رحمن کی نہیں بلکہ) مردود شیطان کی عبادت کر رہا ہوتا ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام)کافی جلد ۲ ۴۱۵ ء )
۱۷۷۱۶۔ حبیب حکیم کہتے ہیں :"میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا : (کفرو) الحاد کا کمترین درجہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: "وہ تکبر ہے"
(معانی الاخبار ۲۷۵ ء)
۱۷۷۱۷۔ یزید صائغ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا: "ایک شخص کی حالت یہ ہے کہ بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے‘ وعدہ کرتا ہے تووعدہ خلافی سے کام لیتا ہے اور اگر امانت اس کے سپرد کی جاتی ہے تو خیانت کرتا ہے ‘ (اس کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟) "آپ نے فرمایا : " کفر کے ادنیٰ مرتبہ میں شمار ہوتا ہے لیکن کافر نہیں ہوتا ۔"
(مجار الانوار جلد ۷۲ ۱۰۶ ء۔ کافی جلد ۲ ۲۹۰ ء)
قول موئف : ملاخطہ ہو باب: "ایمان" "وہ ادنیٰ چیز جس سے انسان دائرہ ایمان سے خارج ہو جاتا ہے‘
نیز : باب "شرک " "ادنیٰ شرک"
نیز: عنوان" بذعت"
(۵)کفر کے ارکان و ستون
۱۷۷۱۸۔ کفر کے چار ستوں نوپر قائم ہے: حد سے بڑھی ہوئی کاوش ، جھگڑا لوپن ،کجروی او راختلاف۔ شخص حوالے جا تعمق و کاوش کرتا ہے وہ حق کی طرف رجوع نہیں کرپاتا ، جو جہالت کی وجہ سے آئے دن جھگڑا کرتا ہے وہ حق سے ہمیشہ نابینا رہتا ہے،حق سے منہ موڑ لیتا ہے وہ اچھائی کو برائی اور برائی کو اچھائی سمجھنے لگتا ہے، گمراہی کے نشے میں مدہوش پڑارہتا ہے۔ اور جو حق کی خلاف ورزی کرتا ہے اس کے راستے بہت دشوار اور اس کے لیے معاملات سخت پیچیدہ ہو جاتے ہیں جن میں بچ کر نکلنے کی راہ اس کے لئے تنگ ہو جاتی ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام)شرح ابن ابی الحدید جلد ۱۸ ۱۴۲ ء۔ نہج البلاغہ حکمت ۳۱)
۱۷۷۱۹۔ کفر چار ستونوں پر قائم ہے: فق و فجور‘سرکشی اور شکوک و شبہات ۔۔۔
(حضرت علی علیہ السلام) مجار الانوار جلد ۷۲ ۹۰ ء ۱۲۲ ء ۱۱۷ ء )
کتاب میں ہے: کفر کی بنیاد چار ستونوں پر قائم ہے، فسق ، غلو۔۔۔۔کافی جلد۲ ۳۹۱ ء
۱۷۷۲۰۔ کفر کی بنیاد چار ستونو ں پر قائم ہے: جفا کاری ‘ اندھا پن‘ غفلت اور شک۔ پس جو جفا کرتا ہے وہ حق کو حقیر سمجھتا ہے باطل کو ظاہر کرتا ہے ، علماء کو غضبناک کرتا اور عظیم گناہوں پر مصرا ہتا ہے۔
جو شخص اندھا پن اختیار کر لیتا ہے وہ ذکر (خدا) کو بھول جاتا ہے‘ امیدوں و آرزووں کے دھوکے میں پڑ جاتا ہے‘ حسرت و ندامت و پشیمانی کے گھیرے میں آجاتا ہے اور اس کے لئے خداوند عالم کی طرف سے ایسی باتیں ظاہر ہونے لگتی ہیں جن کا اسے گمان بھی نہیں ہوتا۔
جو شخص خدائی امر میں سر کشی پر اتر آتا ہے تو وہ اس میں شک کرنے لگتا ہے، اور جو اس میں شک کرنے لگتا ہے ‘ خدا کے آگے خم ٹھونک کر آجاتا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ خدا اسے اپنی قدرت و طاقت کے ذریعے ذلیل و حقیر فرما دیتا ہے۔ اور اپنے جلال و جرت کے ذریعے اسے پست کر دیتا ہے۔ جیسا کہ اس نے خدائی امور میں کوتاہی ہوتی ہے۔ پس وہ اپنے کریم رب کے کرم کی وجہ سے د ھوکہ کھا جاتا ہے۔۔۔
(حضرت رسول اکرم ) کنز العمال حدیث ۴۴۲۱۶)
۱۷۷۲۱۔ نافرمانی کے تین اصول ہیں: حرص ، تکبر اور حسد۔ چناچہ حرص کا کارنامہ یہ ہوتا ہے کہ آدم علیہ السلام درخت کے قریب جانے سے روکے جانے کے باوجود انہوں نے اس سے کھا لیا تھا، یہ حرص ہی کا شافسانہ تھاکہ آدم علیہ السلام کو اس بات پر آمادہ کیا،تکبر کا کارنامہ یہ ہوتا ہے کہ ابلیس کو سجدہ کا حکم دیا گیا لیکن تکبر نے اسے سجدہ کرنے سے روک دیا۔ تکبر کا شافسانہ تھا کہ اس نے سجدہ سے انکارکیا۔ حسد کا کارنامہ یہ ہوتا ہے کہ آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں میں سے ایک نے دوسرے کو قتل کردیا۔ یہ حسد کا تھا جس نے اسے اپنے بھائی کے قتل پر آمادہ کیا۔
(امام جعفر صادق علیہ السلام) مجار الانوار جلد ۷۲ ۱۰۴ ء ۱۲۱ ء)
۱۷۷۲۲۔ کفر کے ستون چار ہیں: رغبت ،خوف ،ناراضی اور غلیظ و غضب۔
(حضرت رسول اکرم) مجار الانوار جلد ۷۲ ۱۰۴ ء باب ۹۹
نیز :باب "نفاق" "نفاق کے ستون"۔)
نیز : باب "حسد "حسد اور کفر")
(۶)قرآن مجید میں کفر کی اقسام
۱۷۷۲۳۔ ابن عمرو صبری کہتے ہیں کہ میں نے حضرت مام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ مجھے قرآن مجید کی رو سے کفر کے اقسام سے آگاہ فرمائیں، تو آپ نے فرمایا: "کتاب خد امیں کفر کی پانچ قسمیں بتائی گئی ہیں ، جن میں سے ایک "کفر جحود" ہے او ر"حجود " کی دو صورتیں ہیں‘ ایک تو وہ کہ جن چیزوں کے بجا لانے کا اللہ نے حکم دیا ہے انہیں شرک کیا جائے اور ایک برائت اختیار کر کے کفر کیا جائے۔
دوسری قسم "نعمتوں کا کفر (کفران) نعمت)
پھر"کفر حجود" یہ ہے کہ خدا کی ربوبیت کا انکار کیا جائے، جیسا کہ کوئی کہتا ہے کہ نہ کوئی رب (خدا )ہے او رنہ کوئی جنت و دوزخ ہے۔ یہ قول زندیقوں کی دو قسموں کا ہے جنہیں "دہریہ" کہا جاتا ہے، جو اس بات کے قائل ہیں کہ "وما یھلکنا الا الدھر"یعنی ہم کو تو بس زمانہ ہی مارتا (اور جلاتا)ہے ۔ (جائیہ /۲۳) ان لوگوں نے اپنے لئے ایک نیا دین گھڑلیا ہے۔ جس کو نہ تو کوئی پہلے سے کوئی مثال ملتی ہے اور نہ ہی کسی تحقیق پر مبنی ہے اسی لئے خداوند عالم فرماتا ہے " ان ھم الایظنون" (یہ صرف اٹکل پچو سے کام لیتے ہیں او راسے ہی صحیح سمجھتے ہیں۔)
ایسے ہی لوگوں کے بارے میں خد افرماتا ہے: "ان الذین کفروا سواء علیہم ء انذرتھم ام لم تنذرھم لا ےؤمنون"ان کے لیے برابر ہے (اے رسول خدا ) خواہ تم انہیں ڈراؤ یا نہ ڈراؤ ۔ وہ ایمان نہیں لائیں گے۔ (بقرہ /۶) یعنی وہ خدا کی توحید پر ایمان نہیں لائیں گے۔
کفر کی ایک قسم "معرفت کے باوجود انکار " ہے۔ اور وہ یہ ہوتا ہے کہ انسان سمجھتا ہے کہ کاایک بات حق ہے او راسے اس کے برحق ہونے کا یقین بھی ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود اس کا انکار کر دیتا ہے جیس کہ خدا وند عالم فرماتا ہے :"وجد ا بھا وا ستیقنتھا انفسھم ظلما و علوا" اور باوجود یکہ ان کے دل کو ان (معجزات کی) باتوں کا یقین تھا پھر بھی ان لوگوں نے سرکشی اور تکبر سے ان کو نہ مانا۔ (غسل/ ۱۴) یہ بھی فرماتا ہے : "وکانو من قبل یستفتحون علی الذین کفروافلما جاء ھم ماعر فو اکفرو بہ فلعنتہ اللہ علی الکفرین" اور اس سے پہلے وہ کافروں پر منتحیاب ہونے کی دعا ئیں مانگتے تھے، پس جب ان کے پاس وہ چیز آگئی جسے وہ پہچانتے تھے تو لگے انکار کرنے، پس کافروں پر خدا کی لعنت ہے(بقرہ/۸۹) تو یہ ہے "کفر حجود" کے دونوں اقسام کی تفسیر۔
کفر کی تیسری قسم" کفر نعم" (کفرا ن نعمت) ہے۔ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ حضرت سلیمان علیہ السلام کی زبانی قرآن مجید میں فرماتا ہے: "ھذا من فضل ربی یسلونیء اشکرام اکفرومن شکر فا نما یشکر لنفسہ ومن کفر فان ربی غنی کریم" یہ تو محض میرے پروردگار کا فضل و کرم ہے کہ وہ میرا امتحان لے کہ میں اس کا شکر کرتا ہوں یا نا شکری! اور جوکوئی شکر کرتا ہے تو وہ اپنی ہی بھلائی کے لئے شکر کرتا ہے ، وہ جو ناشکری کرتا ہے تو (اسے معلوم ہونا چاہئے کہ) میرا پروردگار یقینا بے پروا اور سخی ہے (غل/ ۴۰) ایک او رمقام پر فرماتا ہے : "لئن شکر تم لا زیدنکم ولئن کفر تم ان عذابی لشدید۔" اگر تم میرا شکر کرو گے تو میں یقینا تم پر (نعمتوں کا) اضافہ کروں گا، اور اگر تم نے ناشکری کی تو یاد رکھو کہ میرا عذاب یقینا سخت ہے۔ (ابراہیم/۷) نیز فرماتا ہے"فاذ کرونی اذ کر کم واشکر والی ولا تکفرون" پس تم مجھے یاد رکھو تو میں بھی تمہیں یاد رکھوں گا، میرا شکر ادا کرتے رہو اور ناشکری نہ کرو(بقرہ/ ۱۵۲) یہ ہے کفر ان نعمت یا نعمتوں کی نا شکری۔
کفر کی چوتھی صورت یہ ہے کہ خد اکا حکم کردہ چیزوں کو ترک کر دیا جائے جیسا کہ خد اوند عالم فرماتا ہے:" واذ اخذ میثاقکم۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فما جزاء من یفصل ذٰلک منکم۔۔۔۔"اور وہ وقت یاد کرو جب ہم نے تم سے عہد لیا تھا کہ آپس میں خونریریاں نہ کرنا نہ اپنے لوگوں کو شہر بدر کرنا ، تو تم نے ( میثاق کا) اقرار کیا تھا اور تم اس بات کی گواہی بھی دیتے ہو۔ پھر تم وہی لوگ تو ہو جو آپس میں ایک دوسرے کو قتل کرتے ہو۔ او راپنوں میں سے ایک گروہ کے ناحق و زبردستی حمایتی بن کر دوسرے کو شہر بدر کرتے ہو۔
پھر اگر وہی لوگ قیدی بن کر تمہارے پاس(مدد مانگنے) آئیں تو ان کو تاوان دے کر چھڑا لیتے ہو۔ حالانکہ ان کا نکالنا ہی تم پر حرام کیا گیاتھا۔ تم کتاب خد اکی بعض باتوں پر ایمان رکھتے ہو او ربعض سے انکار کرتے ہو؟۔۔۔۔(بقرہ/ ۸۵) ا س آیت کی رو سے اللہ تعالیٰ نے انہیں امر کردہ چیزوں کے ترک کرنے کی وجہ سے کافر قرار دیا ہے۔ ان کو ایمان کی طرف تو منسوب کیا لیکن ان سے اس قسم کے ایمان کو قبول نہیں فرمایانہ ہی اس قسم کا ایمان انہیں کوئی فائد ہ دیتا ہے ، اس لئے تو فرمایا ہے :"فما جز ا من یفصل ۔۔۔۔عما تعملون"پس تم میں سے جو لوگ ایسا کریں گے ان کی سزا اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ زندگی بھر کی رسوائی ہو‘ پھر (آخر کار ) قیامت کے دن بڑے سخت عذاب کی طرف لوٹا دےئے جائیں، اور جو کچھ تم لوگ کرتے ہو خدا اس سے غافل نہیں ہے۔ (بقرہ/ ۸۵)
کفر کی پانچویں قسم "کفر برائت" ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زبانی یبان فرمایا ہے : "کفرنا بکم … باللہ وحدہ "…ہمارے درمیان کھلم کھلا عداوت اور دشمنی پیدا ہو گئی ہے جب تک تم یکتا خدا پر ایمان نہ لاؤ… (متحنہ/ ۴) یہاں پر"کفر نا" سے مراد "بہترانا" ہے یعنی ہم تم سے الگ اور جدا ہیں۔
ایک اور مقام پر قیامت کے دن ابلیس او راس کے انسانی دوستوں سے "تبرا" و "بیزاری" کر ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے: "انی کفرت بما اشر کتمون من قبل" میں اس سے پہلے ہی بیزار ہوں کہ تم نے مجھے خدا کا شریک بنایا (ابراہیم/ ۲۲) نیز اسی سلسلے میں فرماتا ہے: "وقال انما اتخذ تم من دون اللہ او ثانا۔۔۔۔ ویلعن بعضکم بعضا"اور ابراہیمعلیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا: تم لوگوں نے خدا کو چھوڑ کر بتوں کو صرف دینوی زندگی میں باہم محبت کرنے کی وجہ سے (خدا ) بنا رکھا ہے، پھر قیامت کے دن تم میں سے ایک دوسرے کا انکار کرے گا بزاری اختیار لگا اور ایک دوسرے پر لعنت لگا (عنکبوت/ ۲۵) ۔ یہاں "یکفر" کے معنی ہیں"یتبر" (بزاری اور تبرا کرفا)۔
اصول کافی جلد ۲ص ۳۸۹ تا ۳۹۱․
(قول موئف: ملا خطہ ہو: مجار الانوار جلد ۹۳ ص ۲۱ جلد ۷۲ ص ۱۰۰ مستدرک الوسائل جلد ۱ ص ۵۔
فصل ۔ ۳6
(۱)کفّارہ
۱۷۷۲۴۔ تین چیزیں (گناہوں کا) کفارہ ہوا کرتی ہیں… ۱۔ اسلام کا عام کرنا ۲۔ (لوگوں کو) کھانا کھلانا اور ۳۔ جب لوگ رات کو محورام ہوں تو نماز تہجد کا ادا کرنا۔
(حضرت رسول اکرم) مجار الانوار جلد ۷۷ ص ۵۲)
۱۷۷۲۵۔ صاحبان۔ اقتدار کے اقتدار کا کفارہ ، بھائیوں کے ساتھ نیک سلوک کرنا ہے۔
(حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام) مجار الانوار جلد ۷۸ ص ۲۰۶)
۱۷۷۲۶۔ مظلوم کی داد رسی اور ستمر رسیدہ سے ظلم کا دفعیہ بڑے گناہوں کا کفارہ ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) شرح ابن الحدید جلد ۱۸ ص ۱۳۵)
صفحہ نمبر ۳۵۱ اور ۳۵۲ ؟
۱۷۷۲۷۔ انسان کا اپنے اہل وعیال کی خدمت کو عیب نہ سمجھنا اس کے گناہان کبیرہ کا کفارہ ہوتا ہے اور رب العالمین کے غضب کو ٹھنڈا کر دیتا ہے۔
(حضرت رسول اکرم) بحارالانوار جلد ۱۰۴ ص ۱۳۲)
۱۷۷۲۸۔ کسی کی غیبت کا کفارہ یہ ہے کہ تم اس شخص کے لئے طلبِ مغفرت کرو جس کی تم نے غیبت کی ہے۔
(حضرت رسول اکرم) بحارالانوار جلد ۹۳ ص ۲۸۳
۱۷۷۲۹۔ حضرت رسول خدا صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ کسی کی غیبت کا کفارہ کیا ہوتا ہے؟ آپ نے فرمایا: "تم نے جس انداز میں اس کی غیبت کی ہے اسی انداز میں اس کے لئے طلب مغفرت کرو"
۱۷۷۳۰۔ جو کسی پر ظلم کرے اور اس کی تلافی کا موقع اس کے ہاتھ سے نکل جائے تو اسے چاہئے کہ اس کے لئے طلب مغفرت کرے یہی اس بات کا کفارہ ہے۔
(حضرت رسول اکرم) بحارالانوار جلد ۹۳ ص ۲۸۳
۱۷۷۳۱۔ موت مومنین کے لئے ان کے گناہوں کا کفارہ ہوتی ہے۔
(حضرت رسول اکرم) مجار جلد ۸۲ جلد ۱۷۸، جلد ۶ ص ۱۵۱
۱۷۷۳۲۔ ناگوار حالات میں بھی مکمل طور پر وضو کرنا گناہوں کے کفارہ میں شمار ہوتا ہے۔
(حضرت رسول اکرم) مجارالانوار جلد ۸۳ ص ۳۷۰
۱۷۷۳۳۔ موٴذن کی اذان (کے جملوں) کا جواب دینا گناہوں کا کفارہ ہے۔
(حضرت رسول اکرم) بحارالانوار جلد ۸۴ ص ۲۸۳
۱۷۷۳۴۔ جو شخص (نماز) مغرب کے لئے وضو کرتا ہے تو اس کی یہ وضو اس کے لئے اس رات کے گناہوں کا کفارہ ہوتی ہے، سوائے گناہان کبیرہ کے۔
(امام موسیٰ کاظلم علیہ السلام) مجار الانوار جلد ۸۰ ص ۲۳۱
۱۷۷۳۵۔ ایک رات کا بخار (گناہوں کا) کفارہ ہوتا ہے۔
(حضرت رسول اکرم) مجار جلد ۸۱ ص ۱۸۶
۱۷۷۳۶۔ صاحبانِ اقتدار کے کاموں کا کفارہ بھائیوں کی حاجت روائی ہوتا ہے۔
(امام جعفر صادق علیہ السلام) وسائل الشیعہ جلد ۱۵ ص ۵۸۴ من لا یحضرہ الفقیہ جلد ۳ ص ۲۳۷
۱۷۷۳۷۔ ہنسنے کا کفارہ یہ ہے کہ یوں دعا مانگی جائے "اللھم لا تمقتنی" خدایا! مجھ سے ناراض نہ ہونا۔
(امام جعفر صادق علیہ السلام) وسائل الشیعہ جلد ۱۵ ص ۵۸۴
۱۷۷۳۸۔ بدشگونی کا کفارہ یہ ہے کہ خدا پر توکل (کرکے کام کو انجام دے دیا) جائے۔
(حضرت رسول اکرم) وسائل الشیعہ جلد ۱۵ ص ۵۸۴
۱۷۷۳۹۔ ابو برزہ اسلمی کہتے ہیں کہ جناب رسول خدا صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم جب کسی مجلس (یا محفل) سے اٹھنے کا ارادہ کرتے تو آخر میں یہی کہتے "سبحانک اللھم…" خدایا تو پاک و منزہ ہے اور میں تیری حمد کرتا ہوں۔ میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تجھ سے ہی مغفرت طلب کرتا ہوں، اور تیری طرف ہی رجوع کرتا ہوں۔
اس پر کسی شخص نے عرض کیا: "آپ نے ایسی بات کہی ہے جو پہلے کبھی نہیں کہی تھی!" آپ نے فرمایا: "یہ بات مجلس (یا محفل) کا کفارہ ہوتی ہے۔"
سنن الجاداود جلد ۴ ص ۲۶۵
۱۷۷۴۰۔ مجالسِ کا کفارہ یہ ہے کہ اٹھتے وقت کہو، "سبحان ربک العزة عما یصغون وسلام علی المرسلین و الحمدللہ رب العالمین"
(امام جعفر صادقعلیہ السلام) وسائل الشیعہ جلد ۱۵ ص ۵۸۵۔ من لا یحضرہ الفقیہ جلد ۳ ص ۲۳۸
۱۷۷۴۱۔ گناہ کا کفارہ اس پر ندامت و پشیمانی ہے،
(حضرت رسول اکرم) اسے احمد ابن حنبل نے بھی روایت کیا ہے، المعجم
۱۷۷۴۲۔ جو شخص علم کی تلاش میں نکلتا ہے یہ اس کے گزشتہ گناہوں کا کفارہ ہوتا ہے۔
(حضرت رسول اکرم) اسے ترمذی اور دارمی نے بھی روایت کیا ہے۔ المعجم
(قولِ موٴلف: ملاحظہ ہو: باب "مجلس"، "اٹھتے وقت خدا کی یاد"
۱۷۷۴۳۔ مسلمان کو جو بیماری یا تکلیف ہوتی ہے تو یہ اس کے گناہوں کا کفارہ ہوتا ہے۔
(حضرت رسول اکرم) اسے احمد بن حنبل نے بھی روایت کیا ہے۔ المعجم
۱۷۷۴۴۔ ناگوار حالات میں بھی مکمل طور پر وضو کی بجاآوری،خطاؤں کا کفارہ ہوتی ہے۔
(حضرت رسول اکرم) اسے ابن ماجہ نے بھی روایت کیا ہے، المعجم
(۲)ایسا گناہ جس کا کوئی کفارہ نہیں
قرآن مجید
ومن عاد فینتھم اللہ منہ واللہ عزیز ذوانتقام۔ (مائدہ/۹۰)
ترجمہ۔ اور جو پھر ایسی حرکت کرے گا تو خدا اس کی سزا دے گا، اور خدا زبردست بدلہ لینے والا ہے۔
حدیث شریف
۱۷۷۴۵۔ حلبی نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے ایسے شخص کے بارے میں سوال کیا جو احرام کی حالت میں شکار کرتا ہے۔ امامعلیہ السلام نے فرمایا: "اس پر کفارہ ہے" راوی کہتا ہے کہ میں نے پھر سوال کیا کہ اگر وہ دوبارہ ایسا کرے؟ تو امامعلیہ السلام نے فرمایا: "اس پر کفارہ نہیں ہے بلکہ اس کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جن کے بارے میں خداوند عالم فرماتا ہے: "ومن عاد فینتقم اللہ منہ…" یعنی جو پھر ایسی حرکت کرے گا تو خدا اسے سزا دے گا…
وسائل الشیعہ جلد ۹ ص ۲۴۵
۱۷۷۴۶۔ جب کوئی شخص احرام کی حالت میں غلطی سے شکار کرے تو اس پر اس کا کفارہ ہے۔ اگر دوسری مرتبہ بھی غلطی سے شکار کرے پھر بھی اس پر کفارہ ہو گا۔ اسی طرح جتنی مرتبہ غلطی سے شکار کرتا رہے گا اس پر کفارہ ہوتا رہے گا لیکن اگر جان بوکھ کر پہلی مرتبہ شکار کرے گا تو اس پر کفارہ ہو گا۔ جب دوسری بار جان بوجھ کر شکار کرے گا تو اس کا شمار ان لوگوں میں ہو گا جنہیں خدا سزا دے گا اور یہ سزا آخرت میں ہو گی۔ لہٰذا اس کفارہ اسی لئے نہیں ہے۔
(امام جعفر صادق علیہ السلام) وسائل الشیعہ جلد ۹ ص ۲۴۴
(قولِ موٴلف: ملاحظہ ہو: وسائل الشیعہ جلد ۹ ص ۲۴۴ باب ۴۸
نیز: باب "گناہ"، "جو گناہ ناقابل بخشش ہیں")
فصل ۳۷
مکافات
(۱)احسان کا بدلہ احسان
قرآن مجید
واذا حیتیم تجیة فحیوا باحسن منہا اور دوھا۔ (نسأ/۸۶)
ترجمہ۔ اور جب تمہیں کسی طرح کوئی شخص سلام کرے تو تم بھی اس کے جواب میں اس سے بہتر طریقہ سے سلام کرو یا وہی الفاظ جواب میں کہہ دو۔
ھل جزاء الاحسان الا الاحسان۔ (الرحمن/۶۰)
ترجمہ۔ بھلا نیکی کا بدلہ نیکی کے سوا اور بھی کچھ ہے!
حدیث شریف
۱۷۷۴۷۔ حقوق کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: "حق سبحانہ و تعالیٰ نے ان حقوقِ انسانی کو بھی، جنہیں ایک کے لئے دوسرے پر قرار دیا ہے، اپنے ہی حقوق میں سے قرار دیا ہے اور انہیں اس طرح ٹھہرایا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے مقابلہ میں برابر اتریں۔ ان میں سے بعض حقوق دوسروں کا باعث ہوتے ہیں اور اس وقت تک واجب نہیں ہوتے جب تک ان کے مقابلہ میں حقوق ثابت نہ ہو جائیں۔
(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ خطبہ ۲۱۶
۱۷۷۴۸۔ کسی کا حق ادا کر دینا غلامی کا طوق گلے سے اتار پھینکنا ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۷۴۹۔ کسی کے ساتھ بھلائی اس کے گلے میں طوق ہوتا ہے جو شکریہ یا حق ادا کئے بغیر نہیں اتر سکتا۔
(امام موسیٰ کاظم علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۵ ص ۴۳
۱۷۷۵۰۔ جس شخص کے ساتھ کوئی بھلائی کی جائے اگر اس کے بس میں ہو تو اسے چاہئے کہ ویسی ہی بھلائی کرے اور اگر بس میں نہیں ہے تو اس کی ستائش ضرور کرے، کیونکہ اس طرح اس نیکی کا شکریہ ادا کر دے گا۔ لیکن اگر اسے چھپا دے گا تو وہ اس کی ناشکری کرے گااور منکر سمجھا جائے گا۔
(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۱۶۵۶۷
۱۷۷۵۱۔ جو شخص تمہارے ساتھ نیکی کرے تم بھی اس کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرو۔ اگر اس جیسا سلوک نہیں کر سکتے تو اس کے لئے خدا کی ذات سے اس قدر دعا مانگو کہ تمہیں یقین ہو جائے کہ اس کا بدلہ چکا دیا گیا ہے۔
(حضرت رسول اکرم) بحارالانوار جلد ۷۵ ص ۴۳
۱۷۷۵۲۔ جو شخص تمہارے ساتھ احسان کرے تم بھی اس احسان کا بدلہ چکانے کے لئے اپنا ہاتھ لمبا کرو۔ اگر ایسا نہیں کر سکتے تو کم از کم اس کا شکریہ ضرور ادا کرو۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۷۵۳۔ جس شخص نے تمہاری نیکی کے بدلہ میں تمہارا شکریہ ادا کیا تو سمجھ لو کہ اس نے تمہیں اس سے زیادہ دے دیا جو اس نے تم سے لیا تھا۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۷۵۴۔ اللہ تعالیٰ کے اس قول "ھل جزاء الاحسان الا الاحسن" (بھلا نیکی کا بدلہ نیکی کے سوا اور بھی کچھ ہے رحمن/۶۰)، کے بارے میں فرمایا کہ یہ حکم مومن و کافر، نیک و بد، غرض ہر ایک کے لئے یکساں ہے۔ لہٰذا جس کے ساتھ کوئی نیکی کی جائے اس کا فرض ہے کہ وہ اسے اس کا بدلہ دے۔ بدلہ یہ نہیں ہے کہ جو نیکی تمہارے ساتھ کی گئی ہے تم بھی اسی طرح کی نیکی اس کے ساتھ کرو، بلکہ اس سے بڑھ کر کرو۔ اگر تم بھی اسی ہی کی طرح نیکی کرو گے، تو پھر فضلیت پہل کرنے والے کے حصے میں چلی جائے گی۔
(امام موسیٰ کاظم علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۸ ص ۳۱۱
(امام جعفر صادقعلیہ السلام)بحارالانوار جلد ۷۵ ص ۴۳ ۔ مجمع البیان
۱۷۷۵۵۔ جب تم پر سلام کیا جائے تو اس سے اچھے طریقے سے جواب دو، اور جب تم پر کوئی احسان کرے تو اس سے بڑھ کر احسان کا بدلہ دو، اگرچہ اس صورت میں بھی فضلیت پہل کرنے والے کے لئے ہو گی۔
(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ حکمت ۶۲
۱۷۷۵۶۔ جو کوئی ویسی ہی نیکی کرے گا جس طرح اس کے ساتھ نیکی کی گئی ہے تو وہ اس نیکی کا بدلہ دیدے گا، اور جو اس سے دوگنی نیکی کرے گا وہ اس کی سپاس گزاری کرے گا…
(امام محمد باقر علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۵ ص ۴۲
(قولِ موٴلف: ملاحظہ ہو: باب "شکر" ، "جو مخلوق کا شکریہ ادا نہیں کرتا خالق کا شکر بھی ادا نہیں کرتا")
(۲)برائی کا بدلہ برائی کے ساتھ
قرآن مجید
فمن اعتدٰی علیکم فاعتدوا علیہ بمثل ما اعتدیٰ علیکم… (بقرہ/۱۹۴)
ترجمہ۔ پس جو شخص تم پر زیادتی کرے تو جیسی زیادتی اس نے تم پر کی ہو ویسی ہی زیادتی تم بھی اس پر کرو…
وان عاقبتم فعاتبوا…………………خیرللصابرین۔ (نحل/۱۲۶)
ترجمہ۔ اور اگر (مخالفین کے ساتھ) سختی کرو بھی تو ویسی ہی سختی کرو جیسی سختی ان لوگوں نے تم پر کی تھی، اور اگر تم صبر کرو تو یہ بات صبر کرنے والوں کے واسطے بہتر ہے۔
ذلک و من عاقب…………………………ان اللہ لغفو غفور (حج/۶۰)
ترجمہ۔ یہی (ٹھیک) ہے۔ اور جو شخص اپنے دشمن کو اتنا ہی ستائے جتنا یہ اس کے ہاتھوں ستایا گیا تھا، اس کے بعد پھر دوبارہ دشمن کی طرف سے اس پر زیادتی کی جائے تو خدا اس مظلوم کی ضرور مدد کرے گا۔ خدا بڑا معاف کرنے والا بخشنے والا ہے۔
الاالذین امنوا…………………………من بعد ماظلموا… (شعراء/۲۲۷)
ترجمہ۔ مگر ہاں جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اچھے کام کئے، کثرت سے خدا کا ذکر کیا کرتے ہیں اور جب ان پر ظلم کیا جا چکا اس کے بعد انہوں نے بدلہ لیا…
والذیناذا اصابھم……ینتصرون۔ و جزاء سیئة… لا یحب الظلمین۔ و لمن انتصر…من سبیل۔ انما السبیل………لمن عزم الامور۔ (شوریٰ/۳۹ تا ۴۳)
ترجمہ۔ اور وہ ایسے ہیں کہ جب ان پر کسی قسم کی زیادتی ہوتی ہے تو وہ بس واجبی سا بدلہ لیتے ہیں ارو برائی کا بدلہ تو ویسی ہی برائی ہے۔ اس پر بھی جو شخص معاف کر دے اور معاملہ کی اصلاح کرے تو اس کا ثواب خدا کے ذمہ ہے۔ بے شک وہ ظلم کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا پھر جس پر ظلم ہوا ہو اگر وہ اس کے بعد انتقام لے تو ایسے لوگوں پر کوئی الزام نہیں۔ الزام تو بس انہی لوگوں پر ہو گا جو لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور روئے زمین میں ناحق زیادتیاں کرتے پھرتے ہیں، انہی لوگوں کے لئے دردناک عذاب ہے۔ نیز جو صبر کرے اور قصور معاف کر دے تو بے شک یہ بڑے حوصلے کا کام ہے۔
حدیث شریف
۱۷۷۵۷۔ جو بغاوت کا راستہ اختیار کرے گا، اسے اسی ذریعہ سے بدلہ دیا جائے گا۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
(قولِ موٴلف: ملاحظہ ہو عنوان "عقوبت (سزا)" اور عنوان "قصاص"
نیز: باب "کرم" (شرافت) ، "جسے شرافت سیدھا نہ کر سکے"
نیز: باب "جیسی کرنی ویسی بھرنی")ے
(۳)بے وقوفی کے بدلہ میں بے وقوفی نہ کرو
۱۷۷۵۸۔ جو شخص بے وقوف کو بے وقوفی کا بدلہ دے گا اسے ہر بات پر راضی ہونا پڑے گا جو بے وقوف سرانجام دے گا۔
(امام جعفر صادق علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۵ ص ۲۹۹
۱۷۷۵۹۔ بدترین بدلہ برائی کے ساتھ سزا دینا ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۸ ص ۵۳
۱۷۷۶۰۔ جو تمہارا احترام کرے تم اس کا احترام کرو، اور جو تمہاری توہین کرے تم اس کی بجائے خود اپنا احترام کرو۔
(حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۸ ص ۲۷۸
قولِ موٴلف: ملاحظہ ہو: باب "بے وقوفی"، "بے وقوف کا مقابلہ" اور باب "بے وقوف کے مقابلہ میں بردباری اختیار کرو"
نیز: باب "درگزر" ، "عفو و درگزر کرنے کے ذریعہ اصلاح کرنا"
(۴)انتقام اور سرداری برابر نہیں
۱۷۷۶۱۔ انتقام سرداری کے برابر نہیں ہوتا۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۷۶۲۔ انتقام میں جلدی کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۷۶۳۔ جو اچھی طرح معاف کرنا نہیں جانتا، وہ بری طرح انتقام لینا ضرور جانتا ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۷۶۴۔ برے طریقہ سے سزا دینا کمینہ پن کی دلیل ہوتی ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۷۶۵۔ صاحبانِ اقتدار کا بدترین کارنامہ انتقام لینا ہوتا ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۷۶۶۔ غصہ کے وقت بردباری سے کام لینا، انتقام کی طاقت سے کہیں بہتر ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۷۶۷۔ جو کسی قصوروار سے انتقام لیتا ہے وہ دنیا میں اپنی فضلیت ضائع کر دیتا ہے اور آخرت کے ثواب سے بھی محروم رہتا ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۷۶۸۔ اپنے کسی (مومن) بھائی کی سزا کے درپے نہ ہو، خواہ وہ تمہارے منہ میں مٹی بھی ڈال دے۔
(حضرت علی علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۷ ص ۲۰۹
۱۷۷۶۹۔ تورات میں ہے: "جب تم پر کسی قسم کا ظلم کیا جائے تو میری طرف سے اس کا بدلہ لینے کو پسند کر لو، کیونکہ تمہارے لئے میری طرف سے بدلہ لیا جانا، تمہاری اپنی طرف سے بدلہ لئے جانے سے کہیں بہتر ہے۔"
(حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام) کافی جلد ۲ ص ۳۰۴
(۵)نیکی کا برائی سے بدلہ
۱۷۷۷۰۔ نیکی کا بدلہ برائی سے دینا کمینوں کی عادت ہے۔
۱۷۷۷۱۔ بدترین انسان ہے، وہ جو اچھائی کا بدلہ برائی سے دے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۷۷۲۔ جو شخص اچھائی کا بدلہ برائی سے دیتا ہے اس کی مردانگی و مروت ختم ہو جاتی ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
(قولِ موٴلف: ملاحظہ ہو: باب "شکر" (۲) "مومن کفارہ ادا کرتا ہے" اور باب "خدا لعنت کرے نیکی کی راہیں بند کرنے والوں پر")
(۶)برائی کا نیکی سے بدلہ
۱۷۷۷۳۔ دعائے مکارم الاخلاق سے اقتباس: "خدایا محمد آل محمد پر رحمت نازل فرما، مجھے توفیق عطا فرما کہ اس شخص کا خیرخواہی کے ساتھ سامنا کروں جو مجھ سے دھوکا کرتا ہے، اس کو نیکی کی جزا دوں جو مجھ سے قطع تعلق کرتا ہے، اس کو بخشش دوں جو مجھے محروم کرتا ہے، اس کے ساتھ صلہ رحمی کروں، جو مجھ سے قطع رحمی کرتا ہے اور اس کا ذکر اچھے الفاظ سے کروں جو میری غیبت کرتا ہے۔"
(امام زین العابدین علیہ السلام) صحیفہ کاملہ دعا ۲۰
۱۷۷۷۴۔ برائی کا بدلہ نیکی سے دینا، کمالِ ایمان کی نشانی ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۷۷۵۔ اس شخص کا شمار شرفاء میں نہیں ہوتا جو برائی کا بدلہ اچھائی سے نہیں دیتا،
حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
(قولِ موٴلف: ملاحظہ ہو: باب "احسان" (نیکی) ، "برائی کرنے والے کے ساتھ نیکی کرنا"
باب "رحم" (رشتہ دار) "قطعی رحمی کرنے والے کے ساتھ بھی صلہ رحمی کرو‘ذ
باب "خیر" (اچھائی) "دنیا و آخرت کے اچھے اخلاق"
باب "انصاف" ، "جو تم سے انصاف نہ کرے تم اس سے ضرور انصاف کرو‘ذ
نیز: باب "ھدیہ"، "اس کو بھی ہدیہ دو جو تمہیں ہدیہ نہیں دیتا"
(۷)جیسی کرنی ویسی بھرنی
۱۷۷۷۶۔ جو دوسروں کی پردہ داری کرے گا، اس کے اپنے گھر کے عیب ظاہر ہو جائیں گے، جو بغاوت کی تلوار کھینچے گا وہ اسی کے ساتھ مارا جائے گا جو اپنے بھائی کے لئے کنواں کھودے گا خود اسی میں گرے گا، جو احمقوں میں داخل ہو گا وہ بے عزت ہو گا، جو علماء کے ساتھ میل جول رکھے گا باوقار ہو گا اور جو برائی کے مقامات میں جائے گا تہمتوں کا شکار ہو گا۔
(امام جعفر صادق علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۸ ص ۲۰۴
۱۷۷۷۷۔ جو اپنے بھائی کے لئے کنواں کھودے گا خود ہی اس میں گرے گا، جو دوسروں کی پردہ داری کرے گا اس کے اپنے عیب ظاہر ہوں گے۔
(حضرت علی علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۷ ص ۲۳۶
۱۷۷۷۸۔ اپنے والدین کے ساتھ نیکی کرو گے تو تمہاری اولاد تمہارے ساتھ نیکی کرے گی، دوسرے لوگوں کی عورتوں کی عزت بچاؤ گے تو تمہاری عورتوں کی عزت محفوظ ہو گی۔
(امام جعفر صادق علیہ السلام) بحار جلد ۷۸ ص ۲۴۲ ۔ جلد ۷۹ ص ۱۸
۱۷۷۷۹۔ جو دوسروں کی عیب جوئی کرے گا، اس کی اپنی عیب جوئی ہو گی، جو دوسروں کو گالیاں دے گا اسی انداز میں اسے جواب ملے گا جو تقویٰ کا درخت کاشت کرے گا وہ نیک آرزوؤں کا پھل چنے گا۔
(حضرت علی علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۸ ص ۷۹
۱۷۷۸۰۔ انجیل مقدس میں ہے: "خود خطاکار ہو کر دوسروں کی خطاؤں پر سزا نہ دو ورنہ تمہیں عذاب کے ساتھ سزا دی جائے گی، ظلم پر مبنی فیصلے نہ کرو ورنہ تمہارے لئے عذاب پر مبنی فیصلے کئے جائیں گے، جس ترازو کے ساتھ تولو گے اسی ترازو کے ساتھ تمہارے لئے تولا جائے گا اور جس قسم کا فیصلہ تم کرو گے اسی قسم کا فیصلہ تمہارے لئے کیا جائے گا۔
بحارالانوار جلد ۷۷ ص ۴۳
۱۷۷۸۱۔ جیسا کرو گے ویسا بھرو گے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
فصل ۳۸
(۱)تکلیف
۱۷۷۸۲۔ تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ جو فرائض تم پر عائد کئے گئے ہیں وہ کم ہیں جبکہ ان کا ثواب زیادہ ہے۔ خدا نے ظلم و سرکشی سے جو روکا ہے اس پر سزا کا خوف نہ بھی ہو جب بھی اس سے بچنے کا ثواب ایسا ہے کہ اس کی طلب سے بے نیاز ہونے میں کوئی عذر نہیں کیا جا سکتا۔
(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ مکتوب ۵۱
۱۷۷۸۳۔ خداوندِ عالم نے تو بندوں کو خودمختار بنا کر مامور کیا ہے اور عذاب سے ڈرتے ہوئے نہی کی ہے۔ اس نے سہل و آسان تکلیف دی ہے اور دشواریوں سے بچا کر رکھا ہے، تھوڑے کئے پر زیادہ اجر دیتا ہے، اس کی نافرمانی اس لئے نہیں ہوتی کہ وہ دب گیا، نہ ہی اس کی اطاعت اس لئے کی جاتی ہے کہ اس نے مجبور کر رکھا ہے۔ اس نے پیغمبروں کو بطور تفریح نہیں بھیجا، بندوں کے لئے کتابیں بے فائدہ نہیں اتاریں، نہ آسمان و زمین اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے ان سب کو بیکار پیدا کیا، "یہ تو ان لوگوں کا خیال ہے جنہوں نے کفر اختیار کیا۔ پس افسوس ہے ان پر جنہوں نے کفر اختیار کیا آتشِ جہنم کے عذاب سے" (ص/۲۷)
(حضرت علی علیہ السلام ) نہج البلاغہ حکمت ۷۸
۱۷۷۸۴۔ یاد رکھو! وہ تم سے کسی ایسی چیز پر رضامند نہ ہو گا جس پر تمہارے اگلوں سے ناراض ہو چکا ہو، نہ کسی ایسی چیز پر غضبناک ہو گا جس پر پہلے لوگوں سے خوش رہ چکا ہو۔ تمہیں تو بس یہی چاہئے کہ تم واضح نشانوں پر چلتے رہو، اور تم سے پہلے لوگوں نے جو کہا ہے اسے دہراتے رہو/
(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ خطبہ ۱۸۳
(قولِ موٴلف: ملاحظہ ہو: بحارالانوار جلد ۵ ص ۳۱۸ باب ۱۶ "عمومی تکلیف")
تکلف کے فلسفہ" کے بارے میں علامہ طباطبائی کا نظریہ
تکلیف کے فلسفہ کے بارے میں علامہ سید محمد حسین طباطبائی قدس سرہ، ارشاد فرماتے ہیں:
"نبوت کی بحث کے سلسلہ مں گزر چکا ہے کہ اس کائنات میں موجود ہر ایک نوع کے لئے کمال کا ایک ہدف مقرر ہے جس کی طرف وہ اپنی تخلیق کے روزِ اول ہی سے رواں دواں ہوتی ہے، اپنی حرکتِ وجودی کے ساتھ اس کی تلاش شروع کر دیتی ہے۔ اسی لئے اس کی تمام حرکتیں اس طرح منظم ہیں جو اس کمال کے ساتھ مناسبت رکھتی ہیں۔ جب تک وہ اپنی منزل ِ مقوصد تک نہ پہنچ جائے چین حاصل نہیں کر پاتی۔ یہ اور بات ہے کہ اس دوران کوئی مانع پیش آ جائے جو اسے اس حرکت سے روک دے اور اسے اپنے ہدف تک پہنچنے سے پہلے ہی اس کا خاتمہ کر دے جیسے ایک درخت پر مصائب و آفات حملہ آور ہو کر اسے نشو و نما سے روک دیتی ہیں۔
ساتھ ہی یہ بھی بتایا جا چکا ہے کہ منزلِ مقصود تک نہ پہنچنے کا تعلق بعض مخصوص افراد کے ساتھ ہوتا ہے نہ کہ تمام نوع کے ساتھ جو بطورِ نوع کے اس سے محفوظ ہے۔
ان موجودات میں سے ایک موجود، انسان بھی ہے جس کی اپنی غایتِ وجودی ہے۔ وہ اس تک اس وقت تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ اجتماعی و معاشرتی زندگی کے ساتھ وابستہ نہ ہو۔ اس بات کی دلیل یہ ہے کہ انسان کی ساخت و پرداخت ہی کچھ اس طرح کی گئی ہے کہ وہ اپنے ہم نوع دوسرے افراد سے کبھی بے نیاز نہیں ہو سکتا جیسے اس کا نر یا مادہ ہوتا ہے، اس کے اندر جذبات و احساسات و مہر و محبت کا پایا جانا، مختلف قسم کی ضروریات و احتیاجات کا حامل ہونا وغیرہ۔
یہی معاشرتی و تمدنی زندگی لوگوں کو احکام و قوانین کی پابندی پر مجبور کرتی ہے۔ جن کے احترام و عمل درآمد سے وہ اپنی زندگی کے مختلف امور کو منظم کرتے، اپنے باہمی اختلافات کو …جو ناقابل اجتناب ہوتے ہیں…دور کرتے ہیں اور ہر شخص جس مقام کے لائق ہے اسی کا حامل ہوتا ہے۔ اسی ذریعہ ہی سے اپنے کمال وجودی و سعادت کو حاصل کرتا ہے۔ یہ احکام اور قابل عمل قوانین درحقیقت انسان کی اپنی ضروریات ہی کی بدولت معرضِ وجود میں آتے ہیں کیونکہ اس کی جسمانی و روحانی ساخت پرداخت ہی اس قسم کی ہے کہ ان احکام و قوانین کا اجرا اس کے لئے ضروری ہو جاتا ہے۔
اسی طرح اس کی ان وجودی تخلیقی خصوصیات کا تعلق ان اسباب و علل کے ساتھ ہے جو کائنات کے عمومی نظام میں کارفرما ہیں۔ خدا کے دین کے فطری ہونے کا یہی مطلب ہے کیونکہ خدا کا دین بھی تو ان احکام و قوانین کے مجموعہ سے عبارت ہے جن کی طرف انسان کا وجود خود انسان کو راہنمائی کرتا ہے۔
باالفاظ دیگر خدا کے دین کے فطری ہونے کا مطلب یہ ہے کہ یہ دین ایسے امور کا مجموعہ ہے کہ عالمِ کون و مکان کا وجود خود ان امور کے وجود کا متقاضی ہوتا ہے، یعنی اگر یہ امور عمل میں آ جائیں تو انسانی معاشرہ و انسانی افراد کی اصلاح ہو جائے اور فرد و معاشرہ اپنے کمال کی آخری حد تک پہنچ جائیں جبکہ اس کے برعکس اگر یہ امور ناقابل اعتنا سمجھ کر نظرانداز کر دیئے جائیں تو عالم بشریت تباہی کے کنارے پر پہنچ جائے اور کائنات کے عمومی نظام سے ٹکرا جائے جس سے عالمِ بشریت تباہ و برباد ہو جائے۔
مذکورہ احکام و قوانین دو طرح کے ہوتے ہیں: ایک وہ جن کا تعلق اجتماعی و معاشرتی امور سے ہوتا ہے، جن کے ذریعہ معاشرہ کی اصلاح ہوتی اور اسے منظم کیا جاتا ہے۔ دوسرے وہ جن کا تعلق عبادات سے ہوتا ہے جن کے ذریعہ فرزند آدم اپنی معرفت کے درجہٴ کمال تک پہنچتا ہے، وہ صالح معاشرے کا صالح فرد بن کر ابھرتا ہے۔ احکام و قوانین عبادات کے لئے ضروری ہے کہ وہ نبوت اور آسمانی وحی کے ذریعہ بنی نوع انسان کو ملیں اور انسان بھی صرف انہی قوانین کی پابندی کرے نہ کہ کسی قسم کے دوسرے قوانین کی۔
اس بیان کی روشنی میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ "خدائی تکالیف" ایسے امور ہوتے ہیں جو بنی نوع انسان کے ساتھ لازم و ملزوم کا درجہ رکھتے ہیں یعنی جب تک انسان اس دنیا میں زندہ و موجود ہے اس وقت تک انہیں اپنائے بغیر چارہ نہیں۔ خواہ انسان فی نفسہ ناقص اور اپنے کمالِ وجودی کی حد تک ابھی نہ پہنچا ہو، یا اپنے علم و عمل کے اعتبار سے حدِ کمال تک رسائی حاصل کر چکا ہو۔
خلاصہٴ کلام بشر جب تک بشر ہے اور اس عالم فانی کے اندر موجود ہے اسے دین کی ہر حالت میں ضرورت ہے خواہ ابھی تک انسانی تمدن سے آشنا نہ ہو یا تمدن اور پیشرفت کے آخری درجہ تک پہنچ چکا ہو…اگر وہ تمدن سے ناآشنا اور پسماندگی کی اتھاہ گہرائیوں میں پڑا ہوا ہے تو ایسی صورت میں اسے دین کی احتیاج و ضرورت اظہر من الشمس ہے لیکن اگر علم و عمل کے لحاظ سے کمال کے آخری درجہ تک پہنچ چکا ہے تو بھی وہ دین سے ہرگز بے نیاز نہیں ہوتا، اس لئے کہ کمال کے معنی یہ ہیں کہ انسان علم و عمل کے لحاظ سے ایسے کئی قسم کے فاضل ملکہ کا حامل ہو چکا ہو کہ ان کی وجہ سے اس سے ایسے افعال سرزد ہوتے ہیں جو معاشرتی و اجتماعی حالات کے تقاضوں کے عین مطابق ہوتے ہیں اور عبادت پر مبنی ایسے افعال بھی اس سے ظاہر ہوتے ہیں جو اس کی معرفت کے غماز ہوتے ہیں اور جو عنایتِ خداوندی کے عین مطابق ہوتے ہیں اور اس سعادت و خوش بختی کے لئے ہدایت کا موجب ہوتے ہیں۔
یہ بات بھی اپنی جگہ پر اچھی طرح واضح ہے کہ اگر ہم یہ قرار دیں کہ خدائی قوانین صرف ان لوگوں اور ان معاشروں کے ساتھ مخصوص ہیں جو نامکمل و پسماندہ ہیں۔ انسان کامل کے لئے ان قوانین کی پابندی ضروری نہیں ہے تو گویا ہم خود ہی اس بات کو جائز قرار دے رہے ہوں گے کہ ترقی ترقی یافتہ و متمدن افراد احکام و قوانین کی خلاف ورزی کریں، ناجائز و ناروا قسم کے افعال بجا لائیں جن سے عام معاشرتی نظام درہم برہم ہو جائے، حالانکہ یہ عنایتِ الٰہی کے تقاضوں کے بالکل برعکس ہے۔
اسی طرح ہم خود ہی اس بات کو جائز قرار دے رہے ہوں گے کہ متمدن افراد، بلکہ فاضلہٴ روزگار اور ان کے احکام کی مخالفت کریں، حالانکہ تمام افعال ملکہٴ فاضلہ کے حصول کا مقدم ہیں، جب ملکہٴ فافضلہ پیدا ہو جاتا ہے تو تمام افعال و آثار کے لئے مجالِ انکار نہیں ہوتی۔ یعنی اس بات کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ جب کسی کے اندر "معرفتِ الہٰی" کا ملکہ پیدا ہو جائے اور وہ خدا کی عبادت نہ کرے، یا کسی میں سخاوت کا ملکہ پیدا ہو جائے اور وہ عطا و بخشش نہ کرے۔
اس مقام پر پہنچ کر ان لوگوں کے افکار کو غلط قرار دیا جائے گا جو یہ موہوم نظریہ رکھتے ہیں کہ: تکلیفِ عملی کا اصل مقصد انسان کی تکمیل اور اسے درجہ کمال تک پہنچانا ہے، اور جب انسان، کامل بن گیا تو پھر اسے تکلیف کی ضرورت نہیں رہتی یعنی ایسے شخص کے لئے تکلیف کا باقی رہنا بے معنی سی بات ہو گی۔
ا نظریہ کے باطل ہونے کی وجہ یہ ہے کہ انسان خواہ کمال کے آخری درجہ تک ہی کیوں نہ پہنچ جائے لیکن اگر تکالیف الٰہی سے منہ پھیر لے گا، معاشرتی احکام کی خلاف ورزی کرے گا تو وہ پورے معاشرے کی خرابی کا سبب بن جائے گا، انسانوں کے لئے عنایتِ خداوندی کے بطلان کا موجب بن جائے گا اور اگر عبادتی احکام پر عمل کرنے سے روگردانی کرے گا تو اپنے انسانی ملکہٴ فاضلہ کے خلاف قدم اٹھائے گا جو محال ہے کیونکہ انسان کا طرزِ عمل اس کے ملکہ کے آثار کاآئینہ دار ہوتا ہے۔ لہٰذا اگر بالفرض اسے جائز بھی قرار دیدیں پھر بھی اس بات کا موجب ضرور ہو گا کہ اس کے ملکہ کا خاتمہ ہو جائے۔ اور ملکہ کا خاتمہ اس بات کا موجب ہو گا کہ نوعِ بشر کے لئے عنایتِ پروردگار کا خاتمہ ہو گیا ہے، جو محال ہے۔
البتہ افعال کے صادر ہونے کے لحاظ سے کامل و غیرکامل انسانوں میں فرق ضرور ہے اس لئے کہ انسانِ کامل و ملکہٴ فاضلہ کا حامل انسان خلاف ورزی سے محفوظ ہوتا ہے، اس کے اندر موجود راسخ ملکہ اسے اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ کوئی ناشائستہ کام انجام دے اور اس کی خلاف ورزی کرے جبکہ ناقص و غیرکامل انسان کے اندر اس طرح کے مانع موجود نہیں ہوتے لہٰذا وہ کامل انسان کی مانند خلاف ورزیوں سے محفوظ نہیں ہوتا۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ملکہٴ فاضلہ کے حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
تفسیرالمیزان جلد ۱۲ ص ۱۹۹ ۔ ص ۲۰۰
(۹)خداوندِ عالم طاقت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتا
قرآن مجید
لا یکلف اللہ نفسا الا و سعھا ماکسبت و علیھا ما اکتسبت (بقرہ/۲۸۶)
ترجمہ۔ خدا کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔ اس نے اچھا کام کیا تو اپنے نفع کے لئے اور برا کام کیا تو اس کا وبال اسی پر پڑے گا۔
(قولِ موٴلف: ملاحظہ ہو: سورہ انعام ۱۵۲۔ اعراف/۴۲۔ مومنون/۶۲۔ طلاق/۷۔ بقرہ/۲۲۳۔)
حدیث شریف
۱۷۷۸۵۔ میری امت سے غلطی، بھول اور زبردستی سے انجام دلائے جانے والے کاموں (کی سزا) کو اٹھا لیا گیا ہے۔
(حضرت رسول اکرم صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم) کنزالعمال حدیث ۱۰۳۰۷۔ ۱۰۳۰۶۔ ۱۰۳۲۱
۱۷۷۸۶۔ تین قسم کے لوگوں سے قلم اٹھا لیا گیا ہے (ان کا گناہ نہیں لکھا جاتا):
۱۔ ایسا مجنون جس کی عقل پر جنون غالب آ جائے، جب تک کہ وہ ٹھیک نہ ہو جائے۔
۲۔ سویا ہوا شخص جب تک کہ وہ نیند سے بیدار نہ ہو جائے۔
۳۔ نابالغ بچہ جب تک احتلام کے ذریعہ بالغ نہ ہو جائے۔
(حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۱۰۳۰۹۔ ۱۰۳۲۲۔ ۱۰۳۲۳
صفحہ نمبر 370 نہیں ہے
فصل ۳۹
(۱)تکلف
قرآن مجید
قل ما اسئلکم علیہ من اجر وما انا من المتکلفین۔ (ص / ۸۶)
ترجمہ۔ (اے پیغمبر) کہہ دو کہ میں تم سے نہ تو اس (تبلیغِ رسالت) کی مزدوری مانگتا ہوں اور نہ میں تکلف سے کام لینے والا ہوں۔
حدیث شریف
۱۷۷۹۳۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تین باتوں سے دور رکھا ہے، ۱۔ اپنی طرف سے باتیں بنا کر خدا کی طرف منسوب کرنے سے ۲۔ اپنی خواہشاتِ نفسانی کے مطابق بات کرنے سے اور ۳۔ تکلف برتنے سے۔
(حضرت امام محمد باقر علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۲ ص ۱۷۸
۱۷۷۹۴۔ ہم انبیاء و اولیاء کے گروہ تکلف سے دور ہوتے ہیں۔
(حضرت رسول اکرم) بحارالانوار جلد ۷۳ ص ۳۹۴
۱۷۷۹۵۔ تکلف برتنے والا خواہ ٹھیک کر رہا ہو، پھر بھی خطاکار ہے اور بے تکلف خواہ غلطی کر رہا ہو پھر بھی بے خطا ہے…
(امام جعفر صادق علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۷۳ ص ۳۹۴
۱۷۷۹۶۔ ایک موقع پر مسلمانوں نے حضرت رسول خدا کی خدمت میں عرض کیا: "یارسول اللہ! آپ جن لوگوں پر غلبہ اور قابو پاتے ہیں انہیں اسلام لانے پر مجبور کریں تو ا سے ایک تو ہماری تعداد میں کثرت ہو گی اور دوسرے ہمیں دشمن پر غلبہ حاصل ہو جائے گا۔"
آنحضرت نے فرمایا: "ایسا کام کرکے میں ایسی بدعت کے ساتھ اللہ کے حضور پیش نہیں ہونا چاہتا جسے مجھ سے پہلے کسی نے انجام دیا، نہ ہی میں تکلف سے کام لینے والا ہوں"
(حضرت علی علیہ السلام) التوحید ص ۳۴۲
۱۷۷۹۷۔ تیرے بدترین دوست وہ ہیں جن کے لئے تجھے تکلف سے کام لینا پڑے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۷۹۸۔ بدترین بھائی وہ ہے جس کے لئے تجھے زحمت اٹھانا پڑے۔
(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ حکمت ۴۷۹
۱۷۷۹۹۔ تکلفات کو برطرف کرنے سے زندگی خوشگوار ہوتی ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۸۰۰۔ تکلف و بناوٹ، منافقین کا شیوہ ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۸۰۱۔ تکلف کی برطرفی الفت (و محبت) کی شرط ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۸۰۲۔ بہت بڑا تکلف یہ ہے کہ تم ایسی مشقت کو اپنے ذمہ لے لو جو تمہارے شایان شان نہیں،
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۸۰۳۔ حضرت امام حسن علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ "تکلف" کیا ہوتا ہے؟ آپعلیہ السلام نے فرمایا: "ایسی چیز کے بارے میں بات کرنا جو تمہارے شایانِ شان نہیں!"
تحف العقول ص ۶۳
۱۷۸۰۴۔ تکلف کو پسِ پشت ڈال دینا بہت بڑی تونگری ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۸۰۵۔ جس کسی نے تمہیں ایسی زحمت میں ڈالا جس کی تم استطاعت نہیں رکھتے تو گویا اس نے تمہیں اپنی نافرمانی میں شریک کر لیا۔
(حضرت علی علیہ السلام) غررالحکم
۱۷۸۰۶۔ جو اپنے علم کے بارے میں تکلف سے کام لیتا ہے، وہ اپنے اعمال کو برباد اور اپنی آرزوؤں کو خاک میں ملا دیتا ہے۔
(امام موسیٰ کاظم علیہ السلام) بحارالانوار جلد اول ص ۲۱۸
۱۷۸۰۷۔ دس قسم کے لوگ خود کو اور دوسروں کو بھی زحمت میں ڈالتے ہیں (جن میں سے ایک) وہ کم علم شخص ہے، وہ اس بات کے لئے تکلف برتتا ہے کہ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ تعلیم دے۔
(حضرت علی علیہ السلام) بحارالانوار جلد ۲ ص ۵۱
۱۷۸۰۸۔ تمہاری محبت، تکلف پر اور دشمنی ہلاکت پر مبنی نہیں ہونی چاہئے، اپنے دوست کے ساتھ دوستی بھی ایک خاص حد تک رکھو اور دشمن سے دشمنی بھی ایک محدود اندازے پر۔
(حضرت علی علیہ السلام) بحارالانوار جلد
۱۷۸۰۹۔ لوگوں کے جسموں میں نقص، عقلوں میں فتور آنے والا ہے…مگر وہ جسے اللہ بچائے رکھے…اس میں پوچھنے والا الجھانا چاہتا ہے اور جواب دینے والا (بے جانے بوجھے جواب دینے میں زحمت اٹھاتا اور تکلف سے کام لیتا ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ حکمت ۳۴۳
۱۷۸۱۰۔ دعائیہ کلمات: "خدایا! مجھ پر رحم فرما کہ میں ایسی باتوں میں تکلف سے کام لوں جو میرے شایانِ شان نہیں ہیں۔"
(حضرت رسول اکرم) اسے ترمذی نے بھی روایت کیا ہے۔ المعجم
(۲)تکلف سے کام لینے والے کی علامات
۱۷۸۱۱۔ تکلف سے کام لینے والے کی تین علامتی ہیں: ۱۔ اپنے مافوق سے تنازعہ کرکے اس کی نافرمانی کرتا ہے۔
۲۔ اپنے زیردست پر قابو پا کر ظلم کرتا ہے اور ۳۔ ظالموں کی پشت پناہی کرتا ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) کافی جلد اول ص ۳۷
۱۷۸۱۲۔ تکلف برتنے والے کی چار نشانیاں ہیں: بے فائدہ باتوں کے لئے جھگڑتا ہے، اپنے مافوق سے لڑتا رہتا ہے، ناقابلِ حصول کاموں کے لئے سر کھپاتا ہے اور اپنی توانائیاں ایسی چیزوں میں ضائع کر دیتا ہے جو اسے نہیں بچا سکتیں۔
(حضرت رسول اکرم) تحف العقول ص ۲۳
۱۷۸۱۳۔ تکلف کرنے والے کی تین علامتیں ہیں: جب سامنے ہو تو چاپلوسی کرتا ہے، جب سامنے نہ ہو تو غیبت کرتا ہے اور (دوسروں کی) مصیبت پر خوش ہوتا ہے۔
(حضرت رسول اکرم صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم) نورالثقلین جلد ۴ ص ۴۷۳
۱۷۸۱۴۔ حضرت لقمان نے اپنے فرزند سے فرمایا: "…تکلف برتنے والے کی تین نشانیاں ہیں: اپنے مافوق سے جھگڑتا ہے، جو باتیں نہیں جانتا بیان کرتا ہے اور ناقابلِ حصول چیزوں کے لئے سر کھپاتا ہے۔
(امام جعفر صادق علیہ السلام) نورالثقلین جلد ۴ ص ۴۷۳
۱۷۸۱۵۔ کچھ علماء ایسے بھی ہیں جو اپنے آپ کو "مفتی" ظاہر کرتے ہیں کہ ہم سے پوچھو! جبکہ ہو سکتا ہے کہ وہ ایک حرف بھی صحیح نہ کہتے ہوں، لہٰذا اللہ تعالیٰ ایسے تکلف برتنے والوں کو دوست نہیں رکھتا…
(امام جعفر صادق علیہ السلام) نورالثقلین جلد ۴ ص ۴۷۳
۱۷۸۱۶۔ قصاص یا تو امیر لے سکتا ہے، یا اس کے حکم پر چلنے والا، یا پھر تکلف برتنے والا۔
(حضرت رسول اکرم) اسے احمد بن حنبل نے بھی روایت کیا ہے۔ المعجم
۱۷۸۱۷۔ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے اپنے فرزند امام حسین علیہ السلام سے پوچھا: "تکلف کسے کہتے ہیں؟"
انہوں نے عرض کیا: "کسی ایسے شخص کے ساتھ تمسک کرنا جو کسی کو امن و امان نہیں دے سکتا، اور کسی ایسی چیز کے بارے میں غور و فکر کرنا جو بے مقصد ہوتی ہے!"
بحارالانوار جلد ۷۸ ص ۱۰۱
۱۷۸۱۸۔ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام سے قضأ و قدر کے متعلق پوچھا گیا تو آپعلیہ السلام نے فرمایا: "یہ ایک تاریک راستہ ہے اس میں قدم نہ اٹھاؤ۔ ایک گہرا سمندر ہے اس میں نہ اترو اور اللہ کا ایک راز اسے جاننے کی زحمت نہ اٹھاؤ۔"
نہج البلاغہ حکمت ۲۸۷
۱۷۸۱۹۔ جو چیز جانتے نہیں ہو اس کے متعلق بات نہ کرو اور جس چیز کا تم سے تعلق نہیں اس کے بارے میں زبان نہ ہلاؤ
(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ مکتوب ۳۱
۱۷۸۲۰۔ اس بات کو یاد رکھو کہ علم میں راسخ اور پختہ لوگ وہی ہیں جو غیب کے پردوں میں چھپی ہوئی تمام چیزوں کا اجمالی طور پر اقرار کرتے ہیں، (ان پر اعتقاد رکھتے ہیں)، اگرچہ ان کی تفسیر و تفصیل نہیں جانتے۔ یہی اقرار انہیں غیب پر پڑے ہوئے پردوں میں گھسنے سے بے نیاز بنائے ہوئے ہے اور اللہ نے اس بات پر ان کی مدح کی ہے کہ جو چیز احاطہٴ علم سے باہر ہوتی ہے اس کی رسائی سے اپنے عجز کا اعتراف کر لیتے ہیں، یعنی اللہ نے جس چیز کی حقیقت سے بحث کرنے کی تکلیف نہیں دی اس میں تعمق و کاوش کے درک ہی کا نام رسوخ رکھا ہے…
(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ خطبہ ۹۱
۱۷۸۲۱۔ اللہ نے چند فرائض تم پر عائد کئے ہیں انہیں ضائع نہ کرو…اور جن چند چیزوں کا اس نے حکم بیان نہیں کیا، انہیں بھولے سے نہیں چھوڑ دیا، لہٰذا خواہ مخواہ انہیں جاننے کی کوشش نہ کرو۔
(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ حکمت ۱۰۵
۱۷۸۲۲۔ آدمی کا اس کام کو نظرانداز کر دینا جو اسے سپرد کیا گیا ہے اور جو کام اس کے بجائے دوسروں سے متعلق ہے اس میں خواہ مخواہ گھسنا، ایک کھلی ہوئی کمزوری اور تباہ کن فکر ہے۔
(حضرت علی علیہ السلام) نہج البلاغہ مکتوب ۶۱
|