خواہشیں ! احادیث اہلبیت کی روشنی میں
 

دوسرا رخ
عمل اور بصیرت کے درمیان دوطرفہ رابطہ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ کس طرح بصیرت سے عمل اور عمل سے بصیرت میں اضافہ ہوتا ہے اسی کے ساتھ ساتھ اس رابطہ کا دوسرا رخ بھی ہے جس کے مطابق برے اعمال اورکردارکی خرابی بصیرت میں کمی ،اندھے اور بہرے پن کا سبب ہوتے ہیں اس کے برعکس یہ چیزیں بے عملی اور گناہ وفساد کا باعث ہوتی ہیں ۔
گذشتہ صفحات میں ہم نے روایات کی روشنی میں عمل اور بصیرت کے درمیان مثبت رابطہ کی وضاحت کی تھی اسی طرح اس رابطہ کے دوسرے رخ کو بھی احادیث کی روشنی میں ہی پیش کررہے ہیں ۔

بے عملی سے خاتمۂ بصیرت
اسلامی روایات سے یہ صاف واضح ہوجاتا ہے کہ برے اعمال سے بصیرت ختم ہوتی رہتی ہے قرآن کریم نے بھی متعدد مقامات پراس حقیقت کا اظہار واعلان کیا ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے :
(أفرأیت من اتّخذ الٰھہ،ھواہ وأضلّہ اﷲ علیٰ علمٍ وختم علیٰ سمعہ وقلبہ وجعل علیٰ بصرہ غشاوةً فمن یھدیہ من بعد اﷲ)(١)
''کیا آپ نے اس شخص کو بھی دیکھا جس نے اپنی خواہش ہی کو خدا بنالیا اور خدا نے اسی حالت کو دیکھ کراسے گمراہی میں چھوڑ دیا اور اسکے کان اوردل پرمہرلگا دی ہے اور اسکی آنکھ پر پردے پڑے ہوئے ہیں اور خدا کے بعد کون ہدایت کر سکتا ہے ''
جن لوگوں نے خدا کو چھوڑکر کسی دوسرے معبود کی عبادت کرکے شرک اختیار کیا اﷲ ان سے بصیرت سلب کرلیتا ہے اور ان کے کانوں اور دلوں پر مہر لگادیتا ہے آنکھوں پر پردے ڈال دیتا ہے اور طے ہے کہ جب اﷲ کسی بندہ سے بصیرت سلب کرلے تو پھر اسے کون ہدایت دے سکتا ہے؟ اسی کو قرآن مجیدان الفاظ میں بیان کرتا ہے :
(کذلک یُضلّ اﷲ الکافرین)(٢)
''اﷲاسی طرح کافروں کو گمراہی میں چھوڑدیتا ہے ''یہ جملہ دراصل گذشتہ تفصیل کا اجمالی بیان ہے
(کذلک یُضل اﷲ من ھومسرف مرتاب)(٣)
'' اسی طرح خدا زیادتی کرنے والے اور شکی مزاج انسانوں کو انکی گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے''
اس لئے کہ اسراف گمراہی کی طرف لے جاتا ہے
اسی طرح ارشاد ہوتا ہے :
(وما یُضلّ بہ الا الفاسقین )(٤)
''اور گمراہی صرف انکا حصہ ہے جو فاسق ہیں ''
..............
(١) سورئہ جاثیہ آیت٢٣۔
(٢)سورئہ غافرآیت٧٤۔
(٣)سورئہ غافرآیت ٣٤۔
(٤)سورئہ بقرہ آیت٢٦ ۔
یا :( ویُضلّ اﷲ الظالمین )(١)
''اﷲ ظالمین کو گمراہی میں چھوڑدیتا ہے ''
اس کا مطلب یہ ہے کہ فسق اورظلم ،گمراہی کی طرف لے جاتے ہیں ۔
خداوند عالم کا ارشاد ہے :
(کَلا بل ران علیٰ قلوبھم ماکانوا یکسبون)(٢)
''نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کے اعمال کا زنگ لگ گیا ہے ''
انسان جب گنا ہوں اور معصیتوںکا مرتکب ہوتا ہے تو اس کے یہی اعمال ایک ٹیلہ کی شکل میں جمع ہو کر اس کے قلب کے سامنے رکاوٹ بن جاتے ہیں اور پھر خدا اور حق اسے نظر نہیں آتے ۔ خدا وند عالم کا ارشاد ہے :
(انَّ اللّٰہَ لَا یَھْدِ ی القَوْم َ الظَّالِمِیْنَ)(٣)
''اﷲ ظالموں کی ہدایت نہیں کرتا ''
(ان اﷲ لا یھدی القوم الکافرین)(٤)
''اﷲکافروں کی ہدایت نہیں کرتا ''
(انَّ اللّٰہَ لَا یَھْدِ ی القَوْمَ الْفاسقین)(٥)
''یقینا اﷲ بدکار لوگوں کی ہدایت نہیں کرتا ''
..............
(١)سورئہ ابراہیم آیت٢٧۔
(٢)سورئہ مطففین آیت١٤۔
(٣)سورئہ قصص آیت٠ ٥۔
(٤)سورئہ مائدہ آیت ٦٧۔
(٥)سورئہ منافقون آیت٦۔
(انَّ اللّٰہَ لَا یَھْدِ ی من ھوَ مُسْرِف کَذَّا ب)(١)
''بیشک اﷲ کسی زیادتی کرنے والے اور جھوٹے کی ہدایت نہیں کرتا ''
(انَّ اللّٰہَ لَایَھْدِی من ھُوکاذب کفار)(٢)
''اﷲ کسی بھی جھوٹے اور نا شکری کرنے والے کی ہدایت نہیں کرتا ''
پیغمبر اکرم ۖکا ارشاد ہے :
(لولا تکثیر فی کلامکم ،وتمزیج فی قلوبکم، لرأیتم ما أریٰ و سمعتم ما اسمع)(٣)
''اگر تمہارے کلام میں کثرت نہ ہو تی اور قلوب آلودہ نہ ہوتے تو تم بھی وہی دیکھتے جو میں دیکھتا ہوں اور وہی سنتے جومیں سنتاہوں ''
امیر المو منین حضرت علی کا ارشاد ہے :
(کیف یستطیع الھدیٰ من یغلبہ الھویٰ)(٤)
''جس پرہویٰ وہوس غالب ہو وہ کیسے ہدایت پاسکتا ہے ؟''
آپ کا ہی ارشاد ہے :
(انکم ان أمّرْتُم علیکم الھویٰ أصمّکم وأعماکم وأرداکم)(٥)
''اگر تم نے اپنے اوپر ہویٰ وہوس کوغالب کرلیاتو وہ تمہیں بہرا،اندھا اور پست بنادیں گی ''
اس سے معلوم ہوا کہ مسلسل باطل اور فضول باتیں کرنااور دلوں میں حق و باطل کا گڈمڈہونایہ
..............
(١)سورئہ غافرآیت٢٨۔
(٢)سورئہ زمرآیت٣۔
(٣)المیزان ج٥ص٢٩٢۔
(٤)غرر الحکم ج٢ ص ٩٤۔
(٥)غررالحکم ج١ص٢٦٤۔
آنکھوں کو اندھا اور کانوں کو بہرابنا دیتا ہے ۔
امام محمد باقر نے فرمایا :
(مامن عبد الا وفی قلبہ نکتة بیضائ،فاذا أذنب خرج فیتلک النکتة،نکتة سودائ،فاذا تاب ذھب ذٰلک السواد،وان تمادیٰ فی الذنوب زادذلک السواد حتیٰ یغطّی البیاض،فاذا غطّیٰ البیاض لم یرجع صاحبہ الیٰ خیرأبداً،وھو قول اﷲ عزّوجل:(بل ران علیٰ قلوبھم ماکانوا یکسبون)(١)
''ہر انسان کے دل میں ایک سفیدی ہوتی ہے انسان جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس سفیدی میںایک سیاہ نقطہ نمودار ہوجاتا ہے اگر گناہگار تو بہ کرلیتا ہے تو وہ سیاہی زائل ہوجاتی ہے لیکن اگر گناہوں کا سلسلہ جاری رہے تو سیاہی میں اضافہ ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ یہ سیاہی دل کی سفیدی کو ڈھانپ لیتی ہے اور جب سفیدی پوشیدہ ہوجاتی ہے تو ایسا انسان کبھی خیر کی جانب نہیں پلٹ سکتا ۔ یہی خدا وند عالم کے قول(بل ران علیٰ قلوبھم ماکانوا یکسبون)'نہیں نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کے اعمال کا زنگ لگ گیا ہے'کے معنی ہیں''
یہی سیاہی جب قلب پر چھاجاتی ہے تو اسکے لئے حجاب بن جاتی ہے جس کے نتیجہ میں انسان سے بصیرت سلب ہوجاتی ہے بہ الفاظ دیگر انسان جب گناہوں کا مرتکب ہوتا ہے تو بصیرت ختم ہوجاتی ہے ۔
امام محمد باقر کا ارشاد ہے :
(ماشیء أفسد للقلب من الخطیئة،ان القلب لیواقع الخطیئة فماتزال بہ حتیٰ تغلب علیہ فیصیر أسفلہ أعلاہ،وأعلاہ أسفلہ ،قال رسول اﷲ(ص))(٢)
..............
(١)نوررالثقلین ج٥ص٥٣١۔
(٢)گذشتہ حوالہ۔
''خطا سے بڑھ کر قلب کو فاسد کرنے والی کوئی شئے نہیں ہے ،بیشک جب دل میں کوئی برائی پیدا ہو جاتی ہے اور وہ اسی میں باقی رہ کر اس پر غلبہ حاصل کر لیتی ہے تو اسکا نچلا حصہ اوپر اور اوپری حصہ نیچے ہو جاتا ہے''
رسول اکرم ۖنے فرمایا :(انّ المؤمن اذا أذنب کانت نکتة سوداء فی قلبہ،فاذا تاب ونزع واستغفرصقل قلبہ، وان ازداد زادت فذلک الرین الذی ذکرہ اﷲتعالیٰ فی کتابہ (کلّا بل ران علیٰ قلوبھم ماکانوایکسبون)(١)
''مومن جب گناہ کرتا ہے تو اس کے دل میں ایک سیاہ نقطہ بن جاتا ہے اگر تو بہ واستغفارکرلے تو اسکا قلب صیقل ہوجاتا ہے لیکن اگر گناہوں میں زیادتی ہوتی رہے تو یہی (رین) یعنی زنگ بن جاتا ہے جسے خدا نے آیت (کلاّبل ران علیٰ قلوبھم)میں فرمایا ہے ''
امیر المومنین حضرت علی کا ارشاد ہے:
(انْ أطعت ھواک اصمک وأعماک)(٢)
''اگر تم ہویٰ وہوس کی اطاعت کروگے تو وہ تمہیں بہرا اور اندھا بنادے گی''

فقدان بصیرت برے اعمال کا سبب
جس طرح برائیوں اور گناہوں سے گمراہی پیدا ہوتی ہے اسی کے برعکس ضلالت و گمراہی بھی گناہ اور بد عملی کاسبب ہوتی ہے اور اس طرح جہالت و ضلالت اور فقدان بصیرت کے باعث شقاوت و بدبختی ظلم واسراف جیسے برے اعمال وجود میں آتے ہیں ۔
خداوند عالم کا ارشاد ہے :
(قالوا ربّنا غلبت علیناشِقوتنا وکنّا قوما ضالّین)(٣)
..............
(١)نورالثقلین ج٥ص٥٣١۔
(٢)غررالحکم۔
(٣)سورئہ مومنون آیت ١٠٦۔
''وہ لوگ کہیں گے کہ پروردگار ہم پر بدبختی غالب آگئی تھی اور ہم لوگ گمراہ ہوگئے تھے''
امیر المومنین حضرت علی نے فرمایا :
(لاورع مع غیّ)(١)
''گمراہی کے بعد کوئی پارسائی نہیں رہتی ''
مولائے کائنات نے،معاویہ بن ابی سفیان کواپنے خط میں تحریر فرمایاہے:
(امریء لیس لہ بصر یھدیہ،ولا قائد یرشدہ،قد دعاہ الھویٰ فأجابہ،وقادہ الضلال فاتّبعہ، فھجرلاغطاً،وضلّ خابطاً)(٢)
''(مجھے تیرا جوخط ملا ہے )یہ ایک ایسے شخص کا خط ہے جس کے پاس نہ ہدایت دینے والی بصارت ہے اور نہ راستہ بتانے والی قیادت ۔اسے خواہشات نے پکارا تو اس نے لبیک کہدی اور گمراہی نے کھینچا تو اسکے پیچھے چل پڑا اور اسکے نتیجہ میں اول فول بکنے لگا اور راستہ بھول کر گمراہ ہوگیا''
آپ ہی کا ارشاد گرامی ہے :
(من زاغ ساء ت عندہ الحسنة،وحسنت عندہ السیئة،وسکرسکرالضلالة)(٣)
''جوکجی میں مبتلا ہوا،اسے نیکی برائی اور برائی نیکی نظر آنے لگتی ہے اور وہ گمراہی کے نشہ میں چور ہوجاتا ہے ''
لہٰذا معلوم ہوا کہ بصیرت اور عمل میں دوطرفہ مستحکم رابطہ ہے یہ رابطہ مثبت انداز میں بھی
..............
(١)غررالحکم ج٢ص٣٤٥۔
(٢)نہج البلاغہ مکتوب ٧۔
(٣)نہج البلاغہ حکمت ٣١۔
ہے اور منفی صورت میں بھی ۔جسے اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے ۔
١۔بصیرت ،عمل صالح کی طرف لے جاتی ہے ۔
٢۔عمل صالح، بصیرت و ہدایت کا سبب ہوتا ہے ۔
٣۔ضلالت اور فقدانِ بصیرت، ظلم وجور جیسے دیگر برے اعمال اور گناہوںکا سبب ہوتی ہے ۔
٤۔برے اعمال اورظلم وجور سے بصیرت ختم ہوجاتی ہے ۔

خلاصۂ کلام
حدیث شریف کے فقرہ ''کففت علیہ ضیعتہ''کے بارے میں جو گفتگو ہوئی ا س سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ انسان جب خواہشات نفس کی مخالفت کرکے اپنے خواہشات کو ارادئہ الٰہی کا تابع بنادیتا ہے اور مالک کی مرضی کا خواہاں ہوتا ہے تو خدا اسے نور ہدایت اور بصیرت عنایت فرمادیتا ہے اور تاریک راستوںمیں اسکا ہاتھ تھام لیتا ہے ۔
خداوند عالم کا ارشاد ہے :
(یاأیّھا الذین آمنوا اتقوا اﷲ وآمنوا برسولہ یُؤتکم کِفلین من رحمتہ ویجعلْ لکم نوراً تمشون بہ)(١)
''اے ایمان والو! اﷲسے ڈرو اور رسول پر واقعی ایمان لے آئو تا کہ خدا تمہیں اپنی رحمت کے دوبڑے حصے عطا کردے اور تمہارے لئے ایسا نور قرار دیدے جس کی روشنی میں چل سکو ''
دوسرے مقام پر ارشاد ہوتا ہے :
(یاأیّھا الذین آمنوا انْ تتّقوا اﷲ یجعلْ لکم فرقاناً)(٢)
..............
(١)سورئہ حدید آیت٢٨۔
(٢)سورئہ انفال آیت٢٩۔
''ایمان والو! اگر تم تقوائے الٰہی اختیار کروگے تو وہ تمہیں حق وباطل میں فرق کرنے کی صلاحیت عطا کردے گا ''
(واتّقوا اﷲ و یعلمکم اﷲ )(١)
'' اوراللہ سے ڈرو تاکہ اللہ تمہیں علم عطاکرے''
حضرت علی سے مروی ہے :
(ہُدی من أشعر قلبہ التقویٰ)(٢)
''وہ ہدایت یافتہ ہے جس نے تقویٰ کو اپنے دل کا شعار بنالیا ''
(ھُدی من تجلبب جلباب الدّین)(٣)
''وہ ہدایت یافتہ ہے جس نے دین کا لباس اوڑھ لیا''
(من غرس أشجارالتُقیٰ،جنیٰ ثمار الھدیٰ)(٤)
''جس نے تقویٰ کے درخت بوئے وہ ہدایت کے پھل کھائے گا''
والحمد للہ رب العالمین
محمد مہدی آصفی
١٠ ذی القعدہ ١٤١٢ قم

..............
(١)سورئہ بقرہ آیت ٢٨٢۔
(٢)غررالحکم ج٢ص٣١١۔
(٣)گذشتہ حوالہ۔
(٤)غررالحکم ج٢ ص٢٤٥۔