خواہشیں ! احادیث اہلبیت کی روشنی میں
 

حیات انسانی میں بے نیازی کے آثار
انسانی زندگی میں نفس کی بے نیازی کے بہت فائدے ہیں چونکہ پروردگار جس کے نفس کو بے نیازی عطا کرتا ہے وہ ہمیشہ اپنے خدا سے رابطہ کا احساس کرتا ہے اسے ہر وقت یہ احساس رہتا ہے کہ اللہ اس کے ساتھ ہے اور ہر وقت تائید و عنایت الٰہی اس کے شامل حال ہے لہٰذا وہ تائید و عنایت الٰہی کے باعث سکون و اطمینان کی زندگی بسرکرتا ہے اسے یہ یقین ہوتا ہے کہ میرا خدا مجھے کبھی تنہا نہیں چھوڑے گا اور نہ ہی کبھی مجھے میرے نفس کے حوالے کرے گا ۔
اس طرح اس کی زندگی میں مکمل اعتماد و اعتبار، اطمینان ،ثبات قدم اورسکون قلب تو نظر آتا ہے مگر کبھی بھی حرص و ہوس ،حسد ،لالچ اوراضطراب و پریشانی نظر نہیں آتی اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ تمام نفسانی بیماریاں نفس کی کمزوری اور فقر سے پیدا ہوتی ہیںجس کی طرف ابھی ہم نے حضرت امام مو سیٰ کاظم کی حدیث کے ذیل میں اشارہ کیا تھا ۔
امام جعفر صادق کا ارشاد ہے :
(أغنیٰ الغنیٰ من لم یکن للحرص أسیراً)(١)
''سب سے بڑا غنی وہ ہے جو حرص و ہوس کا اسیر نہ ہو ''
امیر المو منین حضر ت علی کا ارشاد ہے :
(أشرف الغنیٰ،ترک المنیٰ)(٢)
''شریف ترین بے نیازی ، خواہشات کا ترک کرناہے ''
آپ ہی کا ارشاد ہے :
..............
(١)اصول کافی ج٢ ص٣١٦۔
(٢)اصول کافی ج٨ ص ٢٣۔
(الغنیٰ الاکبر:الیأس عمّافی أیدی الناس)(١)
''سب سے بڑی بے نیازی یہ ہے کہ انسان اس کا امید وار نہ ہو جو لوگوں کے پاس ہے ''
اور جب مال نفس کو بے نیاز نہ بنا سکے تو پھر وہ اضطراب و بے چینی کا سبب بن جاتا ہے اور انسان کے حرص و طمع اور مشکلات میں اضافہ کرتا رہتا ہے ۔اس سلسلہ میں خداوند عالم کا ارشاد ہے :
(انّمایریداللّٰہ لیعذبھم بھافی الحیاة الدنیا وتزھق أنفسھم ....) (٢)
''پس اللہ کا ارادہ یہی ہے کہ انھیں(اموال واولاد) کے ذریعہ ان پر زندگانی دنیا میں عذاب کرے اور حالت کفر میں ہی ان کی جان نکلے ''
(انّما یرید اللّٰہ أن یعذبھم بھا فی الدنیا و تزھق أنفسھم ......) (٣)
''اور خداان کے(اموال واولاد) ذریعہ ان پر دنیا میں عذاب کرنا چاہتا ہے اور چاہتا ہے کہ کفر کی حالت میں ان کا دم نکلے ''

٢۔ضمنت السمٰوات:
''زمین و آسمان اسکے رزق کے ضامن ہیں''
یہ جملہ ان لوگوںکی دوسری جزا ہے جو اﷲکے احکام کو اپنے خواہشات پر مقدم رکھتے ہیں اور اپنے خواہشات کو حکم وارادئہ الٰہی کا تابع بنا لیتے ہیں۔ایسے لوگوں کو خدا جزا وانعام سے نواز تا ہے ان کی پہلی جزا تو یہ تھی کہ خدا ان کے نفس کو غنی بنادیتا ہے جس کے بارے میں ہم تفصیل سے گفتگو کرچکے ہیں اور ان کی دوسری جزا اور انعام یہ ہے کہ آسمان وزمین ان کے رزق کے ضامن ہوتے ہیں۔
..............
(١)نہج البلاغہ حکمت ٣٤٢۔
(٢)سورئہ توبہ آیت ٥٥۔
(٣)سورئہ توبہ آیت ٨٥۔
واضح سی بات ہے کہ اس جملہ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان رزق حاصل کرنے کی کوشش ہی نہ کرے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ اﷲاس کی سعی کو کامیاب بنادیتا ہے اور اسے توفیق عطا کرتا ہے۔

توفیق
اﷲنے توفیق کی بنا پر زمین وآسمان کو ضامن بنایا ہے کیونکہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسانی کوشش رائیگاںچلی جاتی ہے اور اس سے کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوتا بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان برسوں ہاتھ پیر مارتا ہے جد وجہد کرتا ہے لیکن اپنے مقصود تک نہیں پہونچ پاتا اسکے برخلاف کبھی تھوڑی سی جدو جہد ہی نیک اور با برکت ثمرات کا سبب بن جاتی ہے یہ صرف حسن توفیق اور بے توفیقی کی بات ہے۔اور یہ طے ہے کہ خدا ہی توفیق دینے والا ہے۔
مومن اپنے خواہشات پراحکام خدا کو ترجیح دیتا ہے توخداوند عالم بطورجزازمین و آسمان کو اسکے رزق کا ضامن بنادیتا ہے ۔تو یہ بھی توفیق کی بنیاد پر ہے ۔یہاں توفیق کا مطلب یہ ہے کہ خداوندعالم اسکی سعی وکوشش کو مفید وکارآمد جگہ پر لگادیتا ہے جس سے یہ سعی وکوشش نتیجہ خیزبن جاتی ہے بالکل اسی طرح جیسے زرخیززمین پر بارش ہوتی ہے البتہ کبھی بارش ہوتی ہے مگر زمین سے دانہ نہیں اگتاہے اور بارش کا پانی ضائع ہوجاتا ہے لیکن اگر زرخیز زمین پر تھوڑی سی بارش مناسب موقع پر ہوجائے تو خیر کثیر کا باعث بن جاتی ہے اور سبزہ لہلہانے لگتا ہے۔
توفیق ایک الگ چیز ہے اسکا انسان کی کوشش اور جد وجہد سے کوئی تعلق نہیں ہے انسان جدوجہد کرسکتا ہے مگر توفیق اسکے اختیار میں نہیں ہے۔یہ درست ہے کہ تھوڑے اسباب توفیق انسان کے ہاتھ میں ہیں لیکن جو اسباب توفیق اسکے اختیار میں نہیں ہیں انکی تعداد کئی گنا زیادہ ہے جو سب کے سب خداکے ہاتھ میں ہیں ۔خدا جب کسی بندہ کو توفیق سے نوازتا ہے تو اسکی زندگی اور جدوجہد بابرکت بن جاتی ہے جیسا کہ قرآن مجید نے جناب عیسیٰ کی ز بانی نقل کیا ہے:
(وجعلنی مبارکاً أینماکنت )(١)
''اور مجھے مبارک قرار دیا ہے چاہے میں جہاں رہوں ''
جب تک اﷲ کسی بندہ کو توفیق کرامت نہ فرمائے یا اسکے لئے بھلائی کا ارادہ نہ کرے تو بندہ
اپنی جدوجہد اور عقل کے ذریعہ تھوڑے سے اسباب خیر ہی حاصل کرسکتا ہے۔
(لاینفع اجتھاد بغیرتوفیق) (٢)
''کوئی بھی کوشش توفیق کے بغیر مفید نہیں ہوتی ''
اورجب پروردگار عالم کسی بندہ کی بھلائی چاہتا ہے تو اس کو توفیق مرحمت کرتا ہے اور اسکی سعی و کوشش کو فلاح و کامیابی کے راستہ پر لگادیتا ہے جس سے اسکی سعی وکوشش نتیجہ بخش ہوجاتی ہے۔
حضرت علی کا ارشاد گرامی ہے:
(خیرالاجتھاد ما قارنہ التوفیق)(٣)
''بہترین کوشش وہ ہے جو توفیق کے ساتھ ہو''
دوسری حدیث میں وارد ہو ا ہے:
(التوفیق أشرف الحظّین)(٤)
''توفیق دواشر ف واعلی حصو ںمیں سے ایک ہے''
اس سے مراد یہ ہے کہ انسان کے پاس کچھ ایسے اسباب خیروسعادت ہوتے ہیں جنہیں وہ اپنی عقل اور جدوجہد کے سہارے حاصل کرتا ہے یا وہ وسائل و ذرائع ہوتے ہیں جواﷲ نے اسے عطا
..............
(١)سورئہ مریم آیت ٣١۔
(٢)غررالحکم ج٢ ص٣٤٥۔
(٣)غررالحکم ج٢ص٣٥١۔
(٤)غررالحکم ج١ص٨٢۔
کئے ہیں یہ بھی نتیجہ تک پہونچنے میں شریک ہیں مگر ان کا حصہ اور ان کی منزلت کم ہے۔دوسرا جز اور حصہ خیروبرکت کے وہ غیبی اسباب ہیں جنہیں اﷲ اپنے بندہ کے شامل حال کرتا ہے یا جب بندہ کو اس کی سعی وکوشش سے اسباب خیر میسر نہیں ہوتے تواللہ اسے خیر و سعادت کی راہ پر لگادیتا ہے یہ دوسرا حصہ ہے جو حدیث کے مطابق زیادہ مخفی ہوتا ہے۔
بلا شبہ توفیق جوایک غیبی سبب ہے اور انسان کو خیروبرکت کی راہ دکھاتا ہے ۔انسان کے پاس
موجود دیگر عقلی اور فطری امکانات اور قوتوںسے جدا ایک چیز ہے اگر چہ یہ قوتیں اورصلاحتیں بھی عطائے پروردگار ہیں لیکن تنہا یہ صلاحتیں انسان کو خیروسعادت کی منزل تک پہونچانے کے لائق نہیں ہیں یعنی صرف انھیں کے سہارے انسان شر سے محفوظ نہیںرہ سکتا ہے بلکہ پروردگار جب کسی بندہ کے لئے خیرکا ارادہ کرتا ہے تو اسکی سعی وکوشش اور صلاحیتوں کو خیر کے صحیح راستوں پر بروئے کار لانے میں اسکی مدد کرتا ہے۔مندرجہ ذیل حدیث اس حقیقت کی صاف وضاحت کرتی ہے۔
روایت میں ہے کہ ایک شخص نے امام جعفر صادق سے سوال کیا:
(یا بن رسول اﷲ! ألست أنا مستطیعاً لماکُلِّفْتُ؟فقال لہ(ع):(ما الاستطاعة عندک؟) قال:القوةعلیٰ العمل،قال لہ(ع):(قد اُعطیت القوة،ان اُعطیت(المعونة)،قال لہ الرجل:فما المعونة ؟ قال(ع):(التوفیق)،قال(الرجل):فلم اِعطائُ التوفیق؟ قال(الامام)(ع): ھل تستطیع بتلک القوةدفع الضررعن نفسک،وأخذالنفع الیھابغیرالعون من اﷲ تبارک وتعالیٰ؟)قال:لا، قال(ع):(فَلمَ تنتحل مالا تقدرعلیہ؟)ثم قال:(أین أنت من قول العبد الصالح:(وما توفیقی الا باﷲ)(١)
..............
(١)بحار الانوارج٥ ص٤٢۔''وماتوفیقی الاباﷲعلیہ توکّلت والیہ اُنیب''''میری توفیق صرف اللہ سے وابستہ ہے اسی پر میرا اعتماد ہے اور اسکی طرف میں توجہ کر رہاہوں''سورئہ ہو دآیت٨٨۔
''فرزند رسول اﷲ !جب مجھے مکلف بنایاگیا ہے تو کیا میں مستطیع نہیں ہوں؟امام نے فرمایا:استطاعت سے تمہاری مراد کیاہے؟اس نے جواب دیا کہ عمل بجالانے کی قوت وطاقت''امام نے فرمایا:یہ درست ہے کہ تمہیں قوت دی گئی ہے مگر کیا تمہیں''معونہ''بھی نصیب ہوا ہے؟اس شخص نے سوال کیا:یہ معونہ کیاہے؟امام نے فرمایا:توفیق! اس شخص نے(تعجب سے)پوچھا:توفیق عطا کرنے کی کیا ضرورت ہے؟امام نے فرمایا کہ:کیا تم اللہ کی مددکے بغیر صرف اپنی قوت کے ذریعہ اپنے کو نقصانات سے محفوظ ر کھ سکتے ہو اور فائدے حاصل کرسکتے ہو؟اس نے جواب دیا ہرگز نہیں:پھر امام نے دریافت فرمایا:پھرتم عبدصالح کے اس جملہ کا کیا مطلب سمجھتے ہوکہ' 'میری توفیق صرف اللہ سے وابستہ ہے ''
اس روایت کے مطابق انسانی زندگی میں تین طرح کی قوتیں اور عوامل کار فرما ہیں:
١۔وہ طبیعی اور سماجی قوانین جو انسان کو خیریا شرکی جانب لے جاتے ہیں۔
٢۔وہ قوتیں اور صلاحتیں جو پروردگار عالم نے انسانی وجود میں رکھی ہیں اور جنہیں انسان طبیعت یا سماج میں خیروشر تک رسائی حاصل کرنے کے لئے استعمال کرتا ہے۔
٣۔توفیق و امداد الٰہی جس کے ذریعہ پروردگار اپنے بندوں کو اسباب خیر تک پہونچاتا ہے اور ان مخفی اسباب کے لئے بندوں کی مدد کرتا ہے جو عام لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل تھے یا جن تک رسائی ممکن نہ تھی اس آخری سبب کے بغیر خیر تک پہونچنا ممکن نہیں ہے۔
کراجکی نے اپنی کتاب'' کنز ''میں روایت کی ہے کہ امام جعفر صاد ق نے فرمایا:
(ماکلّ من نویٰ شیئاً قدرعلیہ،وما کل من قدر علیٰ شیٔ وُفّق لہ۔۔۔)(١)
''ایسا نہیں ہے کہ ہر انسان ہر اس چیز پر قدرت بھی رکھتا ہو جس کی اس نے نیت کی ہے اور نہ ہی ایسا ہے کہ جو مقدور ہو اسکی توفیق بھی حاصل ہواور نہ ہی ایسا ہے کہ جسکی توفیق حاصل ہو وہ شئے خود
..............
(١)بحارالانوار ج٥ص٢٠٩۔٢١٠۔
حاصل بھی ہوجائے۔جب نیت ، قدرت اورتوفیق کے ساتھ وہ چیزبھی حاصل ہوجائے تو سعادت مکمل کہلاتی ہے''
توفیق ،معرفت پروردگار کا بہت وسیع باب ہے اگر چہ اﷲ کی معرفت کے تین راستے ہیں:
١۔فطرت
٢۔عقل (عقلی دلیلوںکے ذریعہ)
٣۔تعامل مع اللہ(اللہ کے ساتھ تجارت اور معاملہ)
''تعامل مع اﷲ'' معرفت کاایک وسیع در وازہ ہے لیکن اس دروازہ میں صرف صاحبان بصیرت داخل ہوسکتے ہیں اوراسکے ذریعہ انسان کو ایمان، اعتبارواطمینان اور توکل کاوہ درجہ حاصل ہوتا ہے جو فطرت اورعقل کے ذریعہ حاصل کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ خداوند عالم کے ساتھ معاملہ اور اس کی عطا کے ساتھ لین دین اور اللہ تعالیٰ کے قرب اور اس کی معیت کی وجہ سے ہی تائید خداوندی اوراس کی تو فیق ہر حال میں انسان کے شامل حال ہو تی ہے ۔
توفیق الٰہی یونہی کسی انسان کے شامل حال نہیں ہوجاتی بلکہ توفیق نازل ہونے کے اپنے اسباب و قوانین اور اصول ہیں۔ جسے پروردگار نے توفیق جیسی نعمت عطا کی ہے یقینا وہ اس لائق تھا کہ ایسی رحمت الٰہی اس کو نصیب ہو اور جو توفیق سے محروم ہے یقینا اس نے اس عظیم نعمت کے نزول و حصول کے مواقع ضرورگنوائے ہیں ورنہ رحمت الٰہی میں بخل و کنجو سی کا دخل نہیں ہے اور نہ ہی اسکا خزانہ ٔ رحمت ختم ہونے والا ہے ۔یہ عظیم نعمت اسی کے حصہ میں آتی ہے جس کے شامل حال خدا کی توفیق ہوتی ہے اور اس نعمت سے محروم صرف وہی ہوتا ہے کہ جسے توفیق نصیب نہ ہو۔ توفیق جیسی نعمت پانے والے افراد بھی برابر نہیں ہوتے بلکہ استحقاق، صلاحیت ،لیاقت اور ظرف کے اعتبار سے ان کی توفیق کے مراتب ودرجات بھی الگ الگ ہوتے ہیں ۔
اسکی بارگاہ سے رحمت،توفیق کی شکل میں بے حساب نازل ہوتی رہتی ہے البتہ اس سے صرف وہی لوگ محروم رہتے ہیں جن کا نفس بد اعمالیوں کے باعث گھاٹے میں ہے اور جنھوںنے اپنے آپ کو اوراپنے باطن اور ظرف کواسکے حصول کے قابل نہیں بنا یاہے جبکہ ان کے برخلاف صاحبان ایمان اپنی استعداد اورظرف کے مطابق اس نعمت سے بہرہ مند ہوتے رہتے ہیں۔(١)
رزق اگر چہ عالم ظاہر و شہودکا معاملہ ہے لیکن آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ مسئلہ رزق سے غیبی اسباب کا کتنا گہرا تعلق ہے ۔

عالم غیب اور عالم شہود(ظاہر)کے درمیان رابطہ
مسئلہ''غیب''اور''غیب وشہود کا تعلق''جیسے مسائل اسلامی نظریات کے بنیادی مسائل میں شمار ہوتے ہیںاور اس سلسلہ میں لوگوں کے درمیان شدید اختلاف پایا جاتا ہے۔کچھ ایسے افراد بھی ہیں جو سرے سے غیب کے منکر ہیں کچھ شہود کے مقابل غیب کا اقرار تو کرتے ہیں لیکن ان دونوں کے درمیان رابطہ کے منکر ہیں۔
اسلام''غیب''کو صرف تسلیم ہی نہیں کرتا بلکہ''غیب''پر ایمان کی دعوت دیتا ہے اور ''ایمان بالغیب''کو اسلام کی سب سے پہلی شرط قرار دیتا ہے۔
(الم ٭ذٰلک الکتاب لاریب فیہ ھدیً للمتقین٭الذین یؤمنون بالغیب ویقیمون الصلاة و مما رزقناھم ینفقون )(٢)
''یہ وہ کتاب ہے جس میں کسی طرح کے شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہے یہ صاحبان تقویٰ اور پرہیزگارلوگوں کیلئے مجسم ہدایت ہے جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں پابندی سے پورے اہتمام کے ساتھ
..............
(١)مؤلف کی کتاب ''المذہب التاریخی فی القرآن الکریم ، سے اقتباس ،معمولی تبدیلی کے ساتھ صفحہ ٤٠۔٤٩۔
(٢)سورئہ بقرہ آیت ١۔٣۔
نماز ادا کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے رزق دیا ہے اس میں سے ہماری راہ میں خرچ بھی کرتے ہیں ''
(الذین یخشون ربھم بالغیب وھم من الساعة مشفقون )(١)
''جو از غیب اپنے پروردگار سے ڈر نے والے ہیں اور قیامت کے خوف سے لرزاں ہیں''
(انما تنذر من اتبع الذکر وخشی الرحمٰن بالغیب )(٢)
''آپ صرف ان لوگوں کو ڈر ا سکتے ہیں جو نصیحت کا اتباع کریں اور بغیر دیکھے ازغیب خدا سے ڈر تے رہیں ''
اسلام عالم غیب اور عالم شہود کے درمیان ربط کا بھی قائل ہے اس کا یہ نظریہ ہے کہ ان دونوں وسیع افقوں کوجوڑنے والے بہت سے پل بھی پائے جاتے ہیں ان تمام باتوں سے بڑھکر اسلام کا عقیدہ ہے کہ دونوں عالم ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں یعنی عالم غیب ،عالم ظاہر و محسوس پر اثر انداز ہوتا ہے اور عالم محسوس و ظاہر غیب پر ،اگر انسان متقی وپرہیزگار ہے۔ایمان بالغیب کے باعث دل میں خشیت الٰہی پائی جاتی ہے اور وہ گناہوں سے کنارہ کش رہتا ہے تو یہ چیزیں براہ راست انسان کی مادی زندگی پر اثر انداز ہوتی ہیں۔معاش حیات کی سختیاں آسانیوں میں تبدیل ہوجاتی ہیں اور رزق کے دروازے اسکے لئے کھل جاتے ہیں۔ارشاد پروردگار ہے:
(ومن یتّق اللّٰہ یجعل لہ مخرجاً٭ویرزقہ من حیث لا یحتسب )(٣)
''اور جو بھی اﷲ سے ڈرتا ہے اﷲ اسکے لئے نجات کی راہ پیدا کردیتا ہے ،اور اسے ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے جسکا وہ گمان بھی نہیں کرتا ہے ''
..............
(١)سورئہ انبیاء آیت٤٩ ۔
(٢)سور ئہ یٰس آیت١١۔
(٣)سورئہ طلاق آیت ٢۔٣۔
(ومن یتّق اللّٰہ یجعل لہ من أمرہ یسرا)(١)
اور جو اﷲ سے ڈرتا ہے اﷲ اسکے امرمیں آسانی پیدا کردیتا ہے ''
یہ تو تھا عالم ظاہر و محسوس کا عالم غیب سے تعلق۔ اسکے برخلاف عالم غیب کا بھی عالم ظاہر سے
تعلق پایا جاتا ہے۔
پیغمبر اسلام ۖ سے مروی ہے:
(لولا الخبزماصلّینا)(٢)
''اگر روٹی کا مسئلہ نہ ہوتا تو ہم نماز نہ پڑھتے''
آپ ہی سے منقول ہے:(وبہ (الخبز)صمتم)(٣)
''تم لوگوں کے روزے اسی روٹی کیلئے ہیں''
آپ ہی کا ارشاد گرامی ہے:
(فلولاالخبزماصلّیناولاصمنا،ولا أدّینافرائض ربناعزّوجلّ)(٤)
''اگر روٹی (کی بات) نہ ہوتی تو نہ ہم نماز پڑھتے اور نہ روزہ رکھتے اور نہ ہی اپنے پروردگار کے احکام بجالاتے''

..............
(١)سورئہ طلاق آیت٤۔
(٢)اصول کافی ج٥ص٧٣۔
(٣)اصول کافی ج٦ ص٣٠٣۔
(٤)اصول کافی ج٥ص٧٣۔