اسلامی روایات میںاستغنا کا مفہوم
رسول اکرم ۖنے فرمایا:
(لیس الغنیٰ عن کثرة العرَض،ولکن الغنیٰ غنیٰ النفس)(١)
''مال ومتاع کی کثرت کانام استغنانہیں بلکہ استغناکا مطلب نفس کا مستغنی ہونا ہے''
..............
(١)تحف العقول ص٤٦۔
آپ ہی کا ارشاد گرامی ہے:
(الغنیٰ فی القلب،والفقر فی القلب )(١)
''استغنا بھی دل میں ہوتا ہے اور فقر بھی دل ہی میں ہوتا ہے''
امیر المومنین حضرت علی نے فرمایا ہے:
(الغنی من استغنیٰ بالقناعة)(٢)
''غنی وہ ہے جو قناعت کے باعث مستغنی ہو''
آپ ہی کا ارشاد گرامی ہے:
(لاکنز اغنیٰ من القناعة)(٣)
''غنی(ہونے)کے لئے قناعت سے بڑھکر کوئی خزانہ نہیں ہے''
نیز آپ نے فرمایا ہے:
(طلبت الغنیٰ فماوجدت الّاالقناعة،علیکم بالقناعة تستغنوا)(٤)
''میں نے استغنا کو تلاش کیا تو مجھے قناعت کے علاوہ کچھ نظر نہ آیا۔ تم بھی قناعت اختیار کروتو مستغنی ہوجائوگے''
امام محمد باقر کا ارشاد ہے:
(لا فقرکفقرالقلب،ولا غنیٰ کغنیٰ القلب)(٥)
..............
(١) بحارالانوار ج٧٢ص٦٨۔
(٢)غررالحکم ج١ص٦٢۔
(٣)نہج البلاغہ حکمت ٣٧١۔
(٤)سفینةالبحارج٢ص٨٧ ،الحیات جلد ٣ ص ٣٤٢۔
(٥)تحف العقول ص٢٠٨۔
''دل کی فقیری جیسا کوئی فقر نہیں ہے اور دل ہی کے استغناجیسی کوئی مالداری بھی نہیں ہے''
امام ہادی کا ارشاد ہے:
(الغنیٰ قلّة تمّنِیکَ،والرضا بمایکفیک)(١)
''استغناکا مطلب یہ ہے کہ تمہاری خواہشات کم ہوں اور جتنا تمہارے لئے کافی ہے اسی پر راضی رہو''( خواہشات کا کم ہونا اور' بقدر کافی 'پر راضی ہوجانااستغناہے۔)
اس طرح اسلام نے استغنا کا تعلق سونے چاندی ،زمین جائداد سے ختم کر دیا اور اسے نفس کے متعلق قرار دیا ہے بلکہ اسلامی رو ایات تو اس سے بڑھ کریہاں تک بیان کرتی ہیں کہ جو افراد مال ودولت کے لحاظ سے ثروتمند ہوتے ہیں اکثر وہ افراد دل کے چھوٹے اور فقیر ہوتے ہیں۔
عموماًجب انسان دنیاوی لحاظ سے مالدار ہوتا ہے تو دل کا چھوٹا اور فقیر ہوتا ہے ایسا نہیں ہے کہ ثروتمند ہونے اور نفس وقلب کے اعتبار سے چھوٹے اور فقیر ہونے میں کوئی معکوس رابطہ ہو۔نہیں ہرگز نہیں ان دونوں باتوں میں کوئی معکوس رابطہ نہیں ہے۔در حقیقت ایسی صورت حال ان عوارض کے باعث پیدا ہوتی ہے کہ جو عموماًمعاشرہ میں رائج ثروتمند ی کے ساتھ پائے جاتے ہیں۔
امیر المومنین حضرت علی سے روایت ہے:
(۔۔۔وغنِیّھا(الدنیا)فقیر)(٢)
'' ۔۔۔اور دنیا کا غنی فقیر ہوتا ہے''
حضرت امام زین العابدین نے فرمایا :
..............
(١)بحارالانوار ج٨٧ص٣٦٨۔
(٢)بحارالانوار ج٧٨ص١٤۔
(من اصاب الدنیا اکثر،کان فیھا أشَدّ فقراً)(١)
''جسے دنیازیادہ نصیب ہوجائے گی وہ دنیا میں زیادہ فقیر ہوگا''
جسے دنیازیادہ نصیب ہوجائے گی وہ دنیا میں زیادہ فقیر ہوگایہ لازم و ملزوم کیوں ہیں ؟ ثروتمندی اور استغنا دونوں لفظ غنی کے ہی معنی ہیں مگر ان کے درمیان معکوس رابطہ کیوں پایا جاتا ہے؟اس سوال کا جواب اوراس رابطہ کا سبب ہمیں امیر المومنین حضرت علی کی اس حدیث سے بخوبی معلوم ہو جائے گا آپ نے فرمایا :
(الغَنِیّ الشَّرِہُ فقیر)(٢)
''لالچی مالدار فقیر ہوتا ہے''
اس حدیث مبارک میں غنی سے مراد ثروتمند ہے اور فقیر سے مراد نفس و قلب کے اعتبار سے فقیر ہے اور اس حدیث میں جو لفظ''شرہ''حریص آیا ہے وہ اس معکوس رابطہ کو بیان کرتا ہے اس لئے کہ عام لوگوں کے لحاظ سے جس کے یہاں استغنا پایا جاتا ہے جو ثروتمند ہوتا ہے وہ عموماًحریص بھی ہوتا ہے اور عموماًجتنا مال ودولت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے آدمی کی حرص و ہوس میں بھی اضافہ ہوتا رہتا ہے اور یہ طے شدہ ہے کہ جب حرص و طمع میں اضافہ ہوگا تو انسان کی اذیت و پریشانی میں اضافہ ہوگا انھیں دونوں حقیقتوں کی جانب قرآن کریم نے اس آیت میںاشارہ کیا ہے ارشاد رب العزت ہے:
(انما یرید اللّٰہ لیعذّبھم بھا فی الحیاة الدنیا وتزھق انفسھم وھم کافرون )(٣)
''بس اﷲکا ارادہ یہ ہے کہ انہیں کے ذریعہ ان پر زندگانی دنیا میں عذاب کرے اور حالت
..............
(١)خصال صدوق ج ١ صفحہ ٦٤۔
(٢)بحارالانوار ج٧٨ص٢٢۔
(٣) سورئہ توبہ آیت ٥٥۔
کفرہی میں ان کی جان نکل جائے ''
دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے:
(انما یرید اللّٰہ أن یعذّبھم بھا فی الدنیا )(١)
''بس اللہ کا ارادہ یہ ہے کہ انہیں کے ذریعہ ان پر دنیا میں عذاب کرے۔
حرص وطمع اسی وقت پایا جاتا ہے جب انسان قلب کے لحاظ سے فقیر ہو ۔نفس جتنا خالی ہو اور فقیر ہوگا حرص وہوس کا اظہار اتنا ہی شدید ہوگا ۔حضرت دائو د کے دور میں لوگوں کی یہی حالت تھی چنانچہ خداوند عالم نے انھیں تو بہ کرنے اور بارگاہ الٰہی میںواپس آنے کا حکم دیا۔
حرص و ہوس کس منزل تک پہونچ سکتے ہیں سورئہ ص کی یہ آیت اسکی بخوبی نشاندہی کرتی ہے:
(انّ ھذا أخی لہ تسع وتسعون نعجة ولیَ نعجةً واحدة فقال:أکفلنیھا و عزّنی فی الخطاب)(٢)
''یہ ہمارا بھائی ہے اسکے پاس ننّانوے دنبیاں ہیں اور میرے پاس صرف ایک ہے یہ کہتا ہے وہ بھی میرے حوالے کردے اور اس بات میں سختی سے کام لیتا ہے ''
اقدار کے نظام میں انقلاب
اس طرح اسلام نے استغنا کے نئے معنی پیش کئے اور استغناکا تعلق زروجواہر اور مال و
دولت سے ختم کرکے اسے نفس اور قلب سے جوڑدیا ہے اس طرح قدروقیمت کا معیار مال وثروت کے بجائے نفس کو قرار دیا ۔
اسلام کی نگاہ میں انسان کی قدروقیمت اسکے مال ودولت اور منقولہ وغیر منقولہ جائیداد سے
..............
(١) سورئہ توبہ آیت ٨٥۔
(٢)سورئہ ص آیت٢٣۔
نہیں طے کی جاسکتی جیسا کہ جاہل افراد آج بھی یہی سوچتے ہیں بلکہ اسلام کی نگاہ میں انسانی قدروقیمت کی بنیاد اﷲپرایمان ،تقویٰ ،علم اور دیگر اخلاقی اقدار ہیں ۔اسلام لفظ ثروتمندی اور فقر کے اصل معنی کا منکر نہیں ہے بلکہ اسلام نے اس معنی کے مفہوم میں اضافہ کیا ہے کہ قدروقیمت کے تعیّن کے وقت بے نیازی اور فقر کے معاشی رخ کو ملحوظ نہ رکھاجائے قدروقیمت کا معیار فقروغنی ہی ہیں مگر اس مفہوم میں کہ جو اسلام نے پیش کیا ہے ۔
امیر المومنین کا ارشاد ہے :
(لیس الخیرأن یکثرمالک،ولکن الخیرأن یکثرعلمک،وأن یعظم حلمک،وأن تباھی الناس بعبادة ربک،فان أحسنت حمدت اﷲ،وأن أسأت استغفرت اﷲ)(١)
''بھلائی یہ نہیں ہے کہ تمہارا مال زیادہ ہو بلکہ حقیقی نیکی یہ ہے کہ تمہارا علم زیادہ ہو۔حلم عظیم ہو اور عبادت پروردگار کو فخر ومباہات کا معیار قرار دو چنانچہ اگر تم نے اچھی طرح عبادت انجام دی ہوتو حمد خدا کرو اور اگر عبادت میں کمی کی ہوتو بارگاہ الٰہی میں استغفار کرو ''
چنانچہ جب قدروقیمت کا نظام بدل جائے گا تو خود بخود لوگوں کی سماجی اور سیاسی حیثیت میں بھی فرق آجائے گا اس لئے کہ کسی بھی تہذیب میں اگر اقدار ایک جانب اپنے نظام سے جڑے ہوتے ہیں تو دوسری جانب انکا تعلق سماجی ،سیاسی معاشی اور علمی حیثیت و منزلت سے بھی ہوتا ہے ۔
اگر آج ہمیں جاہلیت زدہ مغربی تہذیب میں یہ نظر آتا ہے کہ اس تہذیب میں سرمایہ داری کا دخل کتنا ہے ،سیاست ،معاشیات اور پروپیگنڈہ پر سرمایہ کا کتنا تسلط اور غلبہ ہے ،صدراور حکومت کے انتخابات میں سرمایہ داری کا کتنا اہم کردار ہے میڈیا یہاں تک کہ سیاسی روابط سبھی کچھ سرمایہ داری
..............
(١)نہج البلاغہ حکمت ٩٤۔
کے تابع ہیں! ہماری نگاہ میں اسکا سبب یہ ہے کہ اس تہذیب کی بنیاد مادیت پر ہے نہ کہ اخلاقی اور روحانی اقدار پر۔ اسکے برخلاف اسلام کی نگاہ میں ان چیزوں کی بنیاد اخلاقی و روحانی اقدار ، بندہ کا اللہ سے رابطہ ،عدالت وتقوی اور علم پر استوار ہے ۔ارشاد پروردگار ہے:
(انّما یخشیٰ اﷲَ من عبادہ العلمائُ)(١)
''اﷲ سے ڈرنے والے اسکے بندوں میں صرف صاحبان معرفت ہیں ''
دوسرے مقام پر ارشاد ہوتا ہے :
(اِنّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقیٰکُمْ)(٢)
''بیشک تم میں سے خدا کے نزدیک زیادہ محترم وہی ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے ''
اسلام ،قائدا و رہبرمسلمین کے لئے تقویٰ اور عدالت کو ضروری قرار دیتا ہے اسی طرح قاضی،پیش نماز اورامین (جس کے پاس لوگ امانتیں رکھواتے ہیں) بہ الفاظ دیگر ان تمام افراد کے لئے تقوی و عدالت کو لازمی شرط قرار دیتا ہے جو سماج اور معاشرہ میں کسی بھی عنوان سے مقام ومنزلت کے مالک ہوں۔اسی لئے جب نظام اقدار میں تبدیلی آئے گی توخود بخودمعاشرہ کی سماجی،سیاسی،معاشی،علمی،دینی حیثیتوں میں تبدیلی ناگزیر ہے ۔
اس طرح تین مرحلوں میں یہ عمل انجام پاتا ہے :
١۔نظام اقدار میں تبدیلی
٢۔اقدار میں تبدیلی
٣۔سماجی اور سیاسی حیثیت میں تبدیلی
..............
(١)سورئہ فاطر آیت ٢٨۔
(٢)سورئہ حجرات آیت ١٣۔
اب جبکہ استغنا سے متعلق اسلامی نظریہ واضح ہو گیا اور لوگوں کی زندگی میں اس کے کردار کی اہمیت کا بھی اندازہ ہوگیا تو اب ہم نفس کے استغنا اور بے نیازی کے بارے میں کچھ بیان کرسکتے ہیں جس کے بارے میں حدیث شریف کے الفاظ یہ ہیں ''جعلت غناہ فی نفسہ ''
نفس کی بے نیازی
سوال یہ کہ نفس کی بے نیازی ہے کیا ؟اور ہم اپنے اندر یہ بے نیازی کیسے پیدا کرسکتے ہیں ؟
در اصل نفس کی بے نیازی اس میں مضمر ہے کہ انسان مادیات اور دنیا پر اعتماد نہ کرے بلکہ اللہ پر بھروسہ رکھے اس لئے کہ دنیا فانی ہے اور ذات الٰہی دائمی ، ما دیات محدود ہیں اور خدا کی سلطنت لا محدود ۔
لہٰذا جب انسان اللہ پر توکل اور بھروسہ کے سہارے مستغنی اور بے نیاز ہوگا تو کبھی بھی کمزوری اور نا توانی محسوس نہیں کرے گا ۔حالات کتنے ہی منقلب کیوں نہ ہو جا ئیں ،آسانیاں سختیوں میں تبدیل کیوں نہ ہو جا ئیں اللہ پر توکل کرنے والے کے پائے ثبات متزلزل نہ ہوں گے کیونکہ ایسی بے نیازی نفس سے تعلق رکھتی ہے اور کسی بھی عالم میں نفس سے جدا نہیں ہو سکتی ہے ۔
مو لائے کائنات متقین کے صفات کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں :
(فی الزلازل وقور،وفی المکارہ صبور)(١)
''(متقین)مصائب وآلام میں با وقار اور دشواریوں میں صابر ہوتے ہیں''
اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی بے نیازی نفس کی گہرائیوں میں پوشیدہ ہے اور کو ئی بھی پریشانی یا سختی اس بے نیازی کو ان سے جدا نہیں کر سکتی اور یہ بے نیازی اللہ پر ایمان ،اعتماد ،توکل اور اس کی رضا پر راضی رہنے سے حاصل ہو تی ہے ۔در اصل بے نیازی یہی ہے اوراس سے بڑھکر کو ئی بے نیازی
۔..............
(١)نہج البلاغہ خطبہ ١٩٣۔
نہیں ہو سکتی ہے اور حالات کی تبدیلی اس پر اثر انداز نہیں ہو تی ہے ۔
پیغمبر اکرم ۖ کاارشاد گرامی ہے :
(یا أباذراستغنِ بغنیٰ اﷲ تعالیٰ،یغنک اﷲ)(١)
''ا ے ابوذراللہ کی بے نیازی کے ذریعہ مستغنی بنو اللہ (واقعاً)بے نیاز بنا دے گا ''
مولائے کائنات کا ارشاد ہے :
(الغنیٰ باللّٰہ أعظم الغنیٰ،والغنیٰ بغیراﷲ أعظم الفقروالشقائ)(٢)
''اللہ کے ذریعہ استغناسب سے بڑا استغنا ہے اور اللہ کے بغیر استغنا سب سے بڑا فقر اور شقاوت ہے ''
اس معیار کے بموجب اللہ پر جتنا زیادہ توکل اور بھروسہ ہوگا انسان اتنا ہی زیادہ مستغنی ہوگا
پیغمبر اسلام ۖ کا ارشاد گرا می ہے:
(مَن أحبّ أن یکون أغنیٰ الناس فلیکن بما فی ید اللّٰہ أوثق منہ مما فی یدہ )(٣)
''جو سب سے بڑا مستغنی ہو نا چا ہتا ہے اسے چاہئیے کہ جو کچھ اس کے پاس ہے ا س سے زیادہ اس پر بھروسہ کرے جو خدا کے پاس ہے ''
یہ بھی ملحوظ رہے کہ اللہ پر توکل کا مطلب مادی اسباب کو نظر انداز کرنا نہیں ہے مادی اسباب کو نظر انداز کرنا سنت الٰہی سے انحراف ہے اور اسلام اس بات کی اجازت نہیں دیتا ہے ۔بلکہ توکل کا مطلب ہے غیر کے بجائے صرف اور صرف ذات پروردگار پر اعتماد و اعتبار کرنا ۔اگر یہ اعتماد ہے تو اپنے مقصود تک پہونچنے کے لئے کسی بھی طرح کے اسباب ووسائل اختیار کرنا توکل کے خلاف نہ ہوگا۔
..............
(١)مکارم الاخلاق ص ٥٣٣۔
(٢)غرر الحکم ج١ ص٩١۔٩٢۔
(٣)تحف العقول ص٢٦۔
بے نیازی(استغنا)کے ذرائع
جن چیزوں کے ذریعہ انسان بے نیازی حاصل کرسکتا ہے ان کی تعداد بہت زیادہ ہے ہم یہاں پر ان میں سے صرف اہم ترین عوامل کا تذکرہ کریں گے ۔
١۔یقین:
ذات پروردگار پر یقین بے نیازی کا اعلیٰ ترین درجہ ہے اس لئے کہ اگر انسان کو یہ یقین ہو کہ خدا اپنے بندوں پر مہربان رہتا ہے لطف و کرم کرتا ہے ان کی دعائیں قبول کرتا ہے اوریہ بھی یقین ہوکہ وہی رازق ہے رئووف ورحیم ہے ۔اسکی رحمت وعنایت کا سلسلہ کبھی ختم ہونے والانہیں ہے اسکے خزانہ میں کوئی کمی واقع ہونے والی نہیں ہے اور کثرت عطا سے اسکے جود وکرم میں کمی کے بجائے اضافہ ہی ہوتا ہے تو انسان کبھی بھی فقرواحتیاج کا احساس نہیں کرسکتا۔
فقرواحتیاج کا احساس اسی وقت ہوتا ہے کہ جب انسان کے پاس ایسا یقین مفقود ہو اور ایمان، یقین کی منزل تک نہ پہونچاہو۔یقین ہی ایمان کا سب سے بلند درجہ ہے بندوں کو ملنے والا سب سے بہترین رزق یقین ہے ۔
مولائے کائنات کا ارشاد گرامی ہے :
(مفتاح الغنیٰ الیقین)(١)
''یقین بے نیازی کی کنجی ہے ''
امام محمد باقر کا ارشاد ہے :
(کفیٰ بالیقین غنیً،وبالعبادة شغلاً)(٢)
''بے نیازی کے لئے یقین کافی ہے اورعبادت بہترین مشغلہ ہے ''
..............
(١)بحارالانوار ج٧٨ ص٩۔
(٢)اصول کافی ج٢ص٨٥۔
٢۔تقویٰ:
بے نیازی کے اسباب وعوامل میں تقویٰ بھی اہم ترین عامل ہے ۔انسان جب احکام خداکا پابند ہوگا اور حدود الٰہیہ کا خیال رکھے گا تواللہ اس کے دل کو بے نیاز بنادے گا اور اس کے فقرواحتیاج کوختم کردے گا ۔
پیغمبر اکرم ْۖکا ارشاد گرامی ہے :
(کفیٰ بالتقیٰ غنیٰ )(١)
''مستغنی ہونے کے لئے تقویٰ کافی ہے ''
امام محمد باقر نے فرمایا:
(یاجابر ان أھل التقویٰ ھم الأغنیائ،أغناھم القلیل من الدنیا،فمؤنتھم یسیرة،ان نسیت الخیرذکّروک،وان عملت بہ أعانوک،أخّرواشھوا تھم و لذّا تھم خلفھم،وقدّموا طاعة ربّھم أمامھم)(٢)
''اے جابر صاحبان تقویٰ ہی مالدار ہیں ان میں بھی سب سے بڑا غنی وہ ہے دنیاجس کا میں تھوڑاحصہ ہو ان کے اسباب معیشت بہت مختصر ہوتے ہیں اگر تم عمل خیر کوبھول جائوتو یہ تمہیں یاد آوری کریں گے اگر تم عمل خیر کروگے تو تمہارے معاون ومددگار ہوںگے وہ اپنے خواہشات کو موخر اور لذتوں کو پس پشت رکھتے ہیں ان کے پیش نظر صرف اطاعت پروردگار ہوتی ہے اور وہ اسی کو مقدم رکھتے ہیں ''
ایک اور حدیث میں امام جعفر صادق سے مروی ہے :
(من أخرجہ اﷲ تعالیٰ من ذل المعاصی الیٰ عزّ التقویٰ،أغناہ اﷲبلا مال،
..............
(١)تحف العقول ص٣٠۔
(٢) تحف العقول ص٢٠٨۔
وأعزّہ بلا عشیرة،وآنسہ بلا أنیس)(١)
''خداجسے گناہوں کی ذلت سے نکال کر تقویٰ کی عزت سے سرافراز کرتاہے اسے بغیر مال کے غنی ،بغیر خاندان و قبیلہ کے عزیز اور ساتھیوں کے بغیر تسکین قلب اور انسیت عطا کردیتا ہے''
اس حدیث شریف میں نفس کی بے نیازی کے بعینہ وہی معنی پائے جائے ہیں جو ہم نے بیان کئے ہیں کہ نفس مال وثروت کے بغیر بھی غنی ہوسکتا ہے بغیر خاندان کے صاحب عزت بن سکتا ہے ہم نوا اور مونس کے بغیر بھی اپنی وحشتناک تنہائی کا مداوا کرسکتا ہے ۔اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بے نیازی کا منبع و سرچشمہ تقویٰ الٰہی ہے اسی تقوے کے ذریعہ نفس انسانی اپنے اندر عزت وانس کا احساس کرتا ہے اس لئے کہ جب انسان متقی اور حدود و احکام الٰہیہ کا پابند ہوگا تواللہ بھی اسکے نفس کو غنی بنادے گا اور اس سے فقروذلت اور وحشت کو دور رکھے گا۔
جس حدیث قدسی کے بارے میں ہم گفتگو کر رہے ہیں اس کے الفاظ یہ ہیں:
(لایؤثرھوای علیٰ ھواہ الاجعلت غناہ فی نفسہ)
''کوئی بندہ میری مرضی کو اپنی خواہشات پر ترجیح نہیں دے گا مگر یہ کہ میں اسکے نفس میں استغنا پیدا کردوںگا''
اور مخالفت نفس کا ہی نام تقویٰ ہے جس کا دوسرا نام اطاعت پروردگار ہے ۔
٣۔شعور :
یقین و تقویٰ اگر بے نیازی اور استغنا کی کنجی ہیں تو فہم و شعور یقین و تقویٰ کی کنجی اور ان تک پہونچنے کا راستہ ہے انسان فقط جہالت کے باعث ہی تقویٰ اور یقین سے محروم ہو سکتا ہے یہاں فہم و شعور سے ہماری مراد تدبر و تعقل ہے اسلامی روایات میں یہ معنی کثرت سے پائے جاتے ہیں ۔
..............
(١)وسائل الشیعہ ج١١ص١٩١۔
(٢)عدّةالداعی،ابن فھد حلی۔
امیر المو منین حضرت علی کا ارشاد ہے :
(لاغنیٰ مثل العقل)(١)
''عقل کے مانند کو ئی بے نیازی نہیں ہے ''
آپ ہی کا ارشاد ہے :
(ان أغنیٰ الغنیٰ:العقل)(٢)
''سب سے بڑی بے نیازی عقل ہے ''
نیز آپ نے فرمایا ہے :
(غنیٰ العاقل بعلمہ،وغنی الجاہل بمالہ)(٣)
''عاقل اپنے علم اور جا ہل اپنے مال کے ذریعہ مستغنی ہوتا ہے''
مشہور و معروف حدیث کے مطابق امام مو سیٰ کاظم نے اپنے صحابی ہشام بن حکم سے فرمایا :
(یاہشام:من أراد الغنیٰ بلا مال،وراحة القلب من الحسد،والسلامة فی الدین،فلیتضرّع الیٰ اﷲ فی مسألتہ بأن یکمل عقلہ)(٤)
''اے ہشام جو انسان مال کے بغیر بے نیازی کا خواہاں ہو،اپنے قلب کو حسد سے محفوظ رکھنا چاہتا ہو ،دین کی سلامتی چاہتا ہو اس کو تضرع و زاری کے ساتھ بارگاہ خداوندی میں دعا کرنا چاہئے کہ خداوند عالم اس کی عقل کو سالم کردے ''
..............
(١)تحف العقول ص١٤٢۔
(٢)نہج البلاغہ حکمت ٣٨۔
(٣)غررالحکم ج٢ص٤٧۔
(٤)تحف العقول ص٢٨٦۔
|