خواہشیں ! احادیث اہلبیت کی روشنی میں
 

دنیا ایک پل
دین اسلام مسلمان کو دنیا کے بارے میں ایک ایسے نظریہ کا حامل بنانا چاہتا ہے کہ اگر اسکے دل میں یہ عقیدہ و نظریہ راسخ ہوجائے توپھر دنیا کو ایک ایسے پل کے مانند سمجھے گا جس کے اوپر سے گذر کر اسے جانا ہے اور اس مسلمان کی نگاہ میں یہ دنیا دار القرار نہیں ہوگی ۔جب ایسا عقیدہ ہوگا تو خود بخود مسلمان دنیا پرفریفتہ نہ ہوگا اور اسکی عملی زندگی میں بھی اس کے نتائج نمایاں نظر آئیںگے۔
حضرت عیسیٰ کا ارشاد ہے :
(انما الدنیا قنطرة)(١)
''دنیا ایک پل ہے ''
امیر المومنین حضرت علی کا ارشاد گرامی ہے :
(أیھاالناس انماالدنیادارمجازوالآخرة دار قرار،فخذوامن ممرّکم لمقرّکم،ولاتھتکواأستارکم عند من یعلم أسرارکم)(٢)
''اے لوگو !یہ دنیا گذر گاہ ہے اور آخرت دار قرارہے لہٰذا اپنے راستہ سے اپنے ٹھکانے کے لئے تو شہ اکٹھا کرلواور جو تمہارے اسرار کو جانتا ہے اس کے سامنے اپنے پردوں کو چاک نہ کرو ''
آپ ہی کا ارشاد گرامی ہے :
(الدنیا دارممرّولادار مقرّ،والناس فیھارجلان:رجل باع نفسہ فأوبقھا، ورجل ابتاع نفسہ فأعتقھا)(٣)
''دنیا گذرگاہ ہے دارالقرار نہیں اس میں دو طرح کے لوگ رہتے ہیں کچھ وہ ہیں جنھوں نے دنیا کے ہاتھوں اپنا نفس بیچ دیا تو وہ دنیا کے غلام ہوگئے کچھ وہ ہیں جنہوں نے اپنے نفس کوخرید لیااور دنیا کو آزاد کردیا''
..............
(١)بحارالانوار ج١٤ص٣١٩۔
(٢)نہج البلاغہ خطبہ٢٠٣۔
(٣)شرح نہج البلاغہ ج١٨ص٣٢٩۔
اسباب ونتائج کا رابطہ
اسلامی فکر کا امتیاز یہ ہے کہ وہ انسانی مسائل سے متعلق اسباب و نتائج کو ایک دوسرے سے لاتعلق قرار نہیں دیتی بلکہ انھیں آپس میں ملاکر دیکھنے اور پھراس سے نتیجہ اخذ کرنے کی قائل ہے جب ہم انسانی اسباب و نتائج کے بارے میں غورکرتے ہیں تو ان مسائل میں اکثر دو طرفہ رابطہ نظر آتا ہے یعنی دونوں ایک دوسرے پراثر انداز ہوتے ہیں ۔انسانی مسائل میںایسے دوطرفہ رابطوں کی مثالیں بکثرت موجود ہیں مثلاًآپ زہد اور بصیرت کو ہی دیکھئے کہ زہد سے بصیرت اور بصیرت سے زہد میں اضافہ ہوتا ہے ۔
یہاں پر ہم ان دونوں سے متعلق چند روایات پیش کر رہے ہیں ۔

زہد وبصیرت
(أفمن شرح اﷲصدرہ للاسلام فھوعلیٰ نورٍمِن ربَّہِ)کی تفسیر کے ذیل میں پیغمبر اکرم ۖسے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا :
(ان النوراذاوقع فی القلب انفسح لہ وانشرح)،قالوا یارسول اﷲ:فھل لذٰلک علامةیعرف بھا؟قال:(التجافی من دارالغرور،والانابة الیٰ دارالخلود، والاستعداد للموت قبل نزول الموت)
''قلب پر جب نور کی تابش ہوتی ہے تو قلب کشادہ ہوجاتا ہے اور اس میں وسعت پیدا ہوجاتی ہے عرض کیا گیا یا رسول اﷲ اسکی پہچان کیا ہے ؟
آپ نے فرمایا :
''دار الغرور(دنیا)سے دوری ،دارالخلود(آخرت)کی طرف رجوع اور موت آنے سے پہلے اسکے لئے آمادہ ہوجانا ہے ''(١)
امیر المومنین حضرت علی کا ارشاد ہے :
(أحقّ الناس بالزھادة،من عرف نقص الدنیا)(٢)
''جو دنیا کے نقائص سے آگاہ ہے اسے زیادہ زاہد ہونا چاہئے''
آپ ہی کا ارشاد گرامی ہے :
(من صوّرالموت بین عینیہ،ھان أمرالدنیا علیہ)(٣)
''جس کی دونوں آنکھوں کے سامنے موت کھڑی رہتی ہے اس کے لئے دنیا کے امور آسان ہوجاتے ہیں ''
نیز آپ نے فرمایا :(زھدالمرء فیمایفنیٰ،علی قدر یقینہ فیما یبقیٰ)(٤)
''فانی اشیائ(دنیا)کے بارے میں انسان اتناہی زاہد ہوتا ہے جتنا اسے باقی اشیاء (آخرت )کے بارے میں یقین ہوتا ہے ''

زہدو بصیرت کا رابطہ
پیغمبر اکرم ۖنے حضرت ابوذر (رح)سے فرمایا :
(یاأباذر:مازھد عبد فی الدنیا،الاأنبت اﷲ الحکمة فی قلبہ،وأنطق بھالسانہ ،ویبصّرہ عیوب الدنیا وداء ھا ودواء ھا،وأخرجہ منھاسالماًالی دارالسلام)(٥)
۔۔۔..............
(١)بحارالانوار ج٧٣ص١٢٢۔
(٢)غررالحکم۔
ً (٣)غررالحکم ۔
(٤)بحارالانوار ج٧٠ص٣١٩۔
(٥)بحارالانوار ج٧٧ص٨۔
''اے ابوذر جو شخص بھی زہداختیار کرتاہے اﷲ اس کے قلب میں حکمت کا پودا اگا دیتا ہے اور اسے اسکی زبان پر جاری کر دیتا ہے اسے دنیا کے عیوب ،اوردرد کے ساتھ انکاعلاج بھی دکھا دیتا ہے اور اسے دنیا سے سلامتی کے ساتھ دارالسلام لے جاتا ہے ''
پیغمبر اکرم ۖسے مروی ہے :
(من یرغب فی الدنیا فطال فیھاأملہ،أعمیٰ اﷲ قلبہ علیٰ قدررغبتہ فیھا، ومن زھد فیھا فقصُرأملہ أعطاہ اﷲعلماًبغیرتعلّم،وھدیً بغیرھدایة،وأذھب عنہ العماء وجعلہ بصیراً)(١)
جو دنیا سے رغبت رکھتا ہے اسکی آرزوئیں طویل ہوجاتی ہیں اوروہ جتنا راغب ہوتا ہے اسی مقدار میں خدا اسکے قلب کوا ندھا کر دیتا ہے اور جو زہد اختیار کر تا ہے اسکی آرزوئیں قلیل ہوتی ہیں اﷲ اسے تعلیم کے بغیرعلم اور رہنما ئی کے بغیرہدایت عطا کرتا ہے اور اس کے اند ھے پن کو ختم کر کے اسے بصیر بنا دیتا ہے ''
ایک دن پیغمبر اسلام ۖلوگوں کے درمیان آئے اور فرمایا:
(ھل منکم من یریدأن یؤتیہ اﷲ علماًبغیرتعلّم،وھدیاًبغیرھدایة؟ھل منکم من یریدأن یذھب عنہ العمیٰ و یجعلہ بصیراً؟ألاانہ من زھد فی الدنیا،وقصرأملہ فیھا،أعطاہ اﷲعلماًبغیرتعلّم،وھدیاً بغیرھدایة)(٢)
''کیا تم میں سے کوئی اس بات کا خواہاں ہے کہ اﷲ اسے تعلیم کے بغیر علم اور رہنمائی کے بغیرہدایت دیدے۔ تم میں سے کوئی اس بات کا خواہاں ہے کہ اﷲ اس کے اندھے پن کو دور کر کے اسے بصیر بنادے ؟آگاہ ہو جائو جو شخص بھی دنیا میں زہدا ختیار کر ے گااور اپنی آرزوئیں قلیل رکھے گا
..............
(١)بحارالانوارج٧٧ص٢٦٣۔
(٢)درالمنثورج١ص٦٧۔
اﷲاسے تعلیم کے بغیرعلم اور رہنمائی کے بغیرہدایت عطاکر ے گا ''
پیغمبر اکرم ۖنے فرمایا :
(یاأباذراذارأیت أخاک قدزھد فی الدنیا فاستمع منہ،فانہ یُلقّیٰ الحکمة)(١)
''اے ابوذراگر تم اپنے کسی بھائی کو دیکھو کہ وہ دنیا میں زاہد ہے تو اسکی باتوںکو(دھیان سے ) سنو کیونکہ اسے حکمت عطا کی گئی ہے ''
ان روایات سے معلوم ہو تا ہے کہ زہد وبصیرت میں دو طرفہ رابطہ ہے ،یعنی زہد کا نتیجہ بصیرت اور بصیرت کا نتیجہ زہد ہے ۔اسی طرح زہد اور قلتِ آرزو کے مابین بھی دو طرفہ رابطہ ہے زہد سے آرزووں میں کمی اور اس کمی سے زہد پیدا ہوتا ہے زہد اورقلت آرزو کے درمیان رابطہ کے بارے میں امیر المومنین حضرت علی کا ارشاد ہے :(الزھدیخلق الابدان،ویحدّدالآمال،ویقرّب المنیة،ویباعدالاُمنیة،من ظفر بہ نصب،ومن فاتہ تعب)(٢)
'' زہد،بدن کو مناسب اور معتدل ،آرزووں کو محدود،موت کو نگاہوں سے نزدیک اور تمنائوں کو انسان سے دور کردیتا ہے جو اسکو پانے میں کامیاب ہوگیا وہ خوش نصیب ہے اور جو اسے کھو بیٹھا وہ در دسر میں مبتلاہوگیا''
آرزووں کی کمی اورزہد کے رابطہ کے بارے میں امام محمد باقر کا ارشاد ہے:
(استجلب حلاوة الزھادة بقصرالامل)(٣)
''آرزو کی قلت سے زہد کی حلاوت حاصل کرو''
ان متضاد صفات کے درمیان دو طرفہ رابطہ کا بیان اسلامی فکر کے امتیازات میں سے ہے
..............
(١)بحارالانوار ج٧٧ص٨٠ ۔
(٢)بحارالانوارج ٧٠ص٣١٧۔
(٣)بحارالانوار ج٧٨ص١٦٤۔
زہد وبصیرت یا زہد وقلتِ آرزو کے درمیان دو طرفہ رابطہ کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ ان دونوں چیزوں کے اندر ایک دوسرے کے ذریعہ اضافہ ہوتا رہتا ہے اور اس سے انسان ترقی کرتا رہتا ہے۔ اس طرح کہ بصیرت سے زہد کی کیفیت پیدا ہو تی ہے اور جب انسان زاہد ہو جاتا ہے تو بصیرت کے اعلیٰ مراتب حاصل ہو جاتے ہیں نیزبصیرت کے ان اعلیٰ مراتب سے زہد میں اضافہ ہوتا ہے اور اس زہد سے پھر بصیرت کے مزید اعلیٰ مراتب وجود پاتے ہیں۔اسطرح انسان ان دونوں صفات وکمالات کے ذریعہ بلندیوں تک پہنچ جاتا ہے۔

مذموم دنیا اور ممدوح دنیا

١۔مذموم دنیا
اس سے قبل ہم نے ذکر کیا تھا کہ دنیا کے دو چہرے ہیں:
(١)ظاہری
(٢)باطنی
دنیا کا ظاہر ی چہرہ فریب کا سر چشمہ ہے ۔یہ چہرہ انسانی نفس میں حب دنیا کا جذبہ پیدا کرتا ہے جبکہ باطنی چہرہ ذریعۂ عبرت ہے یہ انسان کے نفس میں زہدکا باعث ہوتا ہے روایات کے مطابق دنیا کا ظاہری چہرہ مذموم ہے اور باطنی چہرہ ممدوح ہے ۔
ایسا نہیں ہے کہ واقعاً دنیا کے دو چہرے ہیں یہ فرق در حقیقت دنیا کو دیکھنے کے انداز سے پیدا ہوتا ہے ورنہ دنیا اور اسکی حقیقت ایک ہی ہے ۔فریب خور د ہ نگاہ سے اگر دنیا کو دیکھا جائے تو یہ دنیا مذموم ہوجاتی ہے اور اگر دیدئہ عبرت سے دنیا پر نگاہ کی جائے تو یہی دنیاممدوح قرار پاتی ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ لذات وخواہشات سے لبریز دنیا کا ظاہری چہرہ ہی مذموم ہے ۔
یہاں پر دنیا کے مذموم رخ کے بارے میں چند روایات پیش کی جارہی ہیں ۔
امیر المومنین حضرت علی نے فرمایا:
(الدنیا سوق الخسران)(١)
''دنیا گھاٹے کا بازار ہے ''
آپ ہی کا ارشاد ہے :
(الدنیا مصرع العقول)(٢)
''دنیا عقلوں کا میدان جنگ ہے ''
آپ کا ہی ارشاد ہے :
(الدنیا ضحکة مستعبر)(٣)
''دنیا چشم گریاں رکھنے والے کے لئے ایک ہنسی ہے ''
آپ ہی کا ارشاد ہے :
(الدنیا مُطَلَّقةُ الاکیاس)(٤)
''دنیاذہین لوگوں کی طلاق شدہ بیوی ہے''
آپ ہی کا ارشاد ہے :
(الدنیا معدن الشرور،ومحل الغرور)(٥)
''دنیا شروفسا دکا معدن اور دھوکے کی جگہ ہے''
..............
(١)غررا لحکم ج ١ص٢٦۔
(٢)غررالحکم ج١ص٤٥۔
(٣)غررالحکم ج١ص٢٦۔
(٤)غررالحکم ج١ص٢٨۔
(٥)غررالحکم ج١ص٧٣۔
آپ ہی کا ارشاد ہے :
(الدنیالا تصفولشارب،ولا تفی لصاحب)(١)
''دنیا کسی پینے والے کے لئے صاف وشفاف اور کسی کے لئے باوفا ساتھی نہیں ہے ''
آپ ہی کا ارشاد ہے :
(الدنیا مزرعة الشر)(٢)
''دنیا شروفسا دکی کا شت کی جگہ ہے''
آپ ہی کا ارشاد ہے :
(الدنیا مُنیة الاشقیائ)(٣)
''دنیا اشقیا کی آرزوہے''
آپ ہی کا ارشاد ہے :
(الد نیا تُسْلِمْ)(٤)
''دنیا دوسرے کے حوالے کر دیتی ہے''
آپ ہی کا ارشاد ہے :
(الدنیا تُذِلّْ)(٥)
''دنیا ذلیل کرنے والی ہے''
..............
(١)غررالحکم ج١ص ٨٥۔
(٢)غررالحکم ج١ص٢٦۔
(٣)غررالحکم ج١ص٣٧۔
(٤)غررالحکم ج١ص١١۔
(٥)غررالحکم ج١ص١١۔
دنیا سے بچائو
امیر المو منین حضرت علی ہمیں دنیا سے اس انداز سے ڈراتے ہیں :
(أُحذّرکم الدنیافانّھالیست بدارغبطة،قدتزیّنت بغرورھا،وغرّت بزینتھالمن ان ینظرالیھا)(١)
''میں تمہیں دنیا سے ڈراتا ہوں کیونکہ یہ فخرومباہات کاگھر نہیں ہے ۔یہ اپنے فریب سے مزین ہے اور جو شخص اسکی طرف دیکھتا ہے اسے اپنی زینت سے دھوکے میں مبتلاکردیتی ہے ''
ایک اور مقام پر آپ کا ارشاد گرامی ہے :
(أُحذّرکم الدنیافانھا حُلوة خضرة،حُفّت بالشھوات)(٢)
''میں تمہیں اس دنیا سے بچنے کی تاکید کرتا ہوں کہ یہ دنیا سرسبز وشیریں اورشہوتوں سے گھری ہوئی ہے ''
آپ ہی کا ارشاد ہے :
(احذروا ھذہ الدنیا،الخدّاعة الغدّارة،التی قد تزیّنت بحلیّھا،وفتنت بغرورھا،فأصبحت کالعروسة المجلوة،والعیون الیھا ناظرة)(٣)
''اس دھو کے باز مکار دنیا سے بچو یہ دنیا زیورات سے آراستہ اور فتنہ ساما نیوں کی وجہ سے سجی سجائی دلہن کی مانندہے کہ آنکھیں اسی کی طرف لگی رہتی ہیں ''