با طن بیں نگاہ
دنیا کے بارے میں سر سری اور سطحی نگاہ سے ہٹ کر ہم دنیا پر زیادہ گہرائی اور سنجیدگی کے سا تھ نظر کر سکتے ہیں ۔جسے ہم (الرؤ یة النافذة) کا نام دے سکتے ہیں اس رویت میں ہم دنیا کے ظاہر سے بڑ ھ کر اس کے با طن کا نظارہ کر سکتے ہیں ۔ جس سے ہمیں معلوم ہوگا کہ دنیا کا ظا ہراگر حبّ دنیا کی طرف لے جا تا ہے اور انسان کو فر یب دیتا ہے تو اس کے بر خلا ف دنیا کا باطن انسان کو زہداور دنیا سے کنارہ کشی کی دعوت دیتا ہے ۔باطن بیں نگاہ ظا ہر سے بڑھکر دنیا کی اندرو نی حقیقت کو عیاں کر کے یہ بتا تی ہے کہ متاع دنیا بہر حال فنا ہو جا نے والی ہے نیز یہ کہ انسان کا دنیا میں انجام کیا ہو گا ؟ یوں انسان خو د بخود زہدا ختیار کر لیتا ہے ۔
روایات میںکثرت سے یہ تا کید کی گئی ہے کہ دنیا کو اس (نظر) سے دیکھنا چا ہئے، انسان مو ت کی طرف متو جہ رہے اورہمیشہ مو ت کو یاد رکھے، طویل آرزووں اور مو ت کی طرف سے غا فل ہو نے سے منع کیا گیاہے ۔
مو ت در اصل اس با طنی دنیا کا چہرہ ہے جس سے انسان فرار کرکے موت کو بھلا نا چا ہتا ہے چنا نچہ روایت میں وارد ہو ا ہے کہ (موت سے بڑھ کر کو ئی یقین ، شک سے مشا بہ نہیں ہے ) اس لئے کہ موت یقینی ہے ،اسمیں شک و شبہ کی گنجائش نہیں اس کے با وجود انسان اس سے گر یزاں ہے
اور اسے بھلا ئے رکھنا چا ہتا ہے ۔
حا لا نکہ روایات میں اس کے با لکل بر عکس نظر آتا ہے امام محمد با قر کا ارشاد ہے:
(أکثروا ذکرالموت، فانہ لم یُکثرالانسان ذکرالموت الازھد فی الدنیا)(١)
'' مو ت کو کثرت سے یا د کرو کیو نکہ انسان جتنا کثرت سے موت کو یا د کر تا ہے اس کے زہد میں اتنا ہی اضا فہ ہو تا ہے''
امیر امو منین حضرت علی کا ار شاد گر امی ہے :
(من صوّرالموتَ بین عینیہ ھان أمرالدنیا علیہ)(٢)
''جس کی نگا ہوں کے سا منے مو ت ہو تی ہے دنیا کا مسئلہ اس کے لئے آسان ہو تا ہے''
آپ ہی کا ار شاد ہے :
(أحقّ الناس بالزھادة من عرف نقص الدنیا)(٣)
''جو دنیا کے نقائص سے آگاہ ہے وہ زہد کا زیادہ حقدار ہے ''
امام مو سیٰ کا ظم کا ارشاد ہے:
(ان العقلاء زھدوا فی الدنیا،ورغبوا فی الآخرة۔۔۔)(٤)
''بے شک صاحبان عقل دنیا میں زاہد اور آخرت کی جا نب راغب ہو تے ہیں انھیں معلوم ہے کہ دنیا طالب بھی ہے مطلوب بھی ،اسی طرح آخرت بھی طالب اور مطلوب ہو تی ہے ۔جو آخرت کا طلبگار ہو تا ہے اسے دنیا طلب کرتی ہے اور اپنا حصہ لے لیتی ہے ۔جو دنیا کا طلبگار ہو تا ہے آخرت اس
..............
(١) بحارالانوار ج٧٣ص٦٤۔
(٢)غرر الحکم ج٢ص٢٠١۔
(٣) غرر الحکم ج١ص١٩٩۔
(٤)بحارالانوار ج ٧٨ ص ٣٠١۔
کی طالب ہو تی ہے پھر جب مو ت آتی ہے تو اس کی دنیا و آخرت دونوں خراب ہو جا تی ہیں ''
روا یت میں ہے کہ امام مو سی ٰ کا ظم ایک جنا زہ کے سر ہا نے تشریف لا ئے تو فر ما یا:
(ان شیئاً ھذا أوّلہ لحقیق أن یُخاف آخرہ)(١)
''جس چیز کا آ غازیہ (مر دہ لاش )ہو اس کے انجام کا خوف حق بجا نب ہے ''
ان روا یات میں ذکر مو ت اور زہد کے در میان واضح تعلق نظر آ تا ہے بالفاظ دیگران روایات میںنظر یہ یاتھیوری اورپریکٹیکل کے در میان تعلق کو ظاہر کیا گیا ہے کیونکہ موت کا ذکر اور اسے یاد رکھنا ایک قسم کا نظر یہ اور تھیوری ہے اور زھد اس نظریہ کے مطابق راہ وردش یاپر یکٹیکل کی حیثیت رکھتا ہے امیر المو منین حضرت علی لوگوں کو دنیا کے بارے میں صحیح اور حقیقی نظریہ سے روشناس کراتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں :
(کونواعن الدنیا نُزّاھا،والیٰ الآخرة ولّاھا۔۔۔ولاتشیموا بٰارقھا،ولا تسمعواناطقھا،ولاتجیبواناعقھا،ولاتستضیئواباشراقھا،ولاتفتنواباعلاقھا،فن برقھاخالب،ونطقھاکاذب ،واموالھا محروبة،واعلاقھا مسلوبة)(٢)
''دنیا سے پاکیزگی اختیار کرو اور آخرت کے عاشق بن جائو۔۔۔ اس دنیا کے چمکنے والے بادل پر نظر نہ کرو اور اسکے ترجمان کی بات مت سنو ،اسکے منادی کی بات پر لبیک مت کہو اور اسکی چمک د مک سے روشنی مت حاصل کرو اور اسکی قیمتی چیزوں پر جان مت دو اس لئے کہ اسکی بجلی فقط چمک دمک ہے اور اسکی باتیں سراسر غلط ہیں اسکے اموال لٹنے والے ہیں اور اسکا سامان چھننے والا ہے ''
آپ ہی کاارشاد گرامی ہے:
..............
(١)بحارالانوار ج٧٨ ص٣٢٠ ۔
(٢)نہج البلاغہ خطبہ ١٩١ ۔
(وأخرجوا من الدنیا قلوبکم من قبل ان تخرج منھا ابدانکم)(١)
''دنیا سے اپنے دلوں کو نکال لو قبل اس کے کہ تمہارے بدن دنیا سے نکالے جائیں ''
دنیا سے دل نکال لینے کا مطلب ،دنیا سے قطع تعلق کرنا ہے جسے ہم (ارادی اور اختیاری موت)کا نام دے سکتے ہیں اس کے بالمقابل( قہری اور غیر اختیاری موت )ہے جسمیں ہمارے بدن دنیا سے نکالے جائیں گے ۔امام نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم قہری موت سے پہلے ارادی موت اختیارکرلیں اور دنیا سے قطع تعلق کا ہی دوسرا نام ''زہد''ہے ۔۔۔دنیا کے باطن کو دیکھنے والی نظر اور زہد سے اسکے رابطہ کو سمجھنے کے لئے خود زہد کے بارے میںجاننااور گفتگوکرنا ضروری ہے ۔
زہد
زہد،حب دنیا کے مقابل حالت ہے ۔طور وطریقہ اور سلوک کی یہ دونوں حالتیں دو الگ الگ نظریوں سے پیداہوتی ہیں ۔
حب دنیا کی کیفیت اس وقت نمودار ہوتی ہے کہ جب انسان دنیا کے فقط ظاہرپر نظر رکھتا ہے اس کے بر خلاف اگر انسان کی نظر دنیا کے باطن کو بھی دیکھ رہی ہے تو اس سے زہد کی کیفیت جنم لیتی ہے ۔
چونکہ حب دنیا کا مطلب دنیا سے تعلق رکھنا ہے اور زہد اس کے مقابل کیفیت کا نام ہے تو زہد کا مطلب ہوگا دنیا سے آزاد البتہ اس کے معنی کی وضاحت ضروری ہے ۔حب دنیا کے مفہوم کو سمیٹ کر دو لفظوں میںیوں بیان کیا جاسکتا ہے :
١۔فرحت ومسرت
٢۔حزن وملال
حب دنیا کا نتیجہ یہ ہے کہ انسان کولذائذ دنیا میں جب کچھ بھی نصیب ہو تا ہے تووہ خوش
..............
(١)نہج البلاغہ خطبہ ١٩٤۔
ہوجاتا ہے اور جب وہ کسی نعمت سے محروم رہتا ہے یااس سے کوئی نعمت چھن جاتی ہے تووہ محزون ہوجاتاہے چونکہ زہد حب دنیا کے مقابل کیفیت کا نام ہے لہٰذا زہد کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ انسان دنیا سے اتنا آزاداور بے پرواہ ہوکہ دنیا میں سب کچھ مل جانے پربھی خوشی محسوس نہ کرے اور کچھ بھی نہ ملنے پر مغموم و محزون نہ ہو ۔
خدا وند عالم فر ماتا ہے :
(۔۔۔لکیلا تحزنوا علیٰ مافاتکم ولامااصابکم۔۔۔)(١)
''۔۔۔تاکہ تم نہ اس پر رنجیدہ ہو جو چیز ہاتھ سے نکل گئی ہے اور نہ اس مصیبت پر جو نازل ہوگئی ہے ۔۔۔''
دوسری جگہ ارشاد فرماتا ہے :
(۔۔۔لکیلا تاسوا علیٰ مافاتکم ولا تفرحوا بماآتاکم۔۔۔)(٢)
''تاکہ جو تمہارے ہاتھ سے نکل جائے اسکا افسوس نہ کرو اور جو مل جائے اس پر غروراور فخر نہ کرو ۔۔۔''
امیر المو منین حضرت علی سے مروی ہے :
(الزہدکلہ فی کلمتین من القرآن)
''پورا زہد قرآن کے دو لفظوں میں سمٹا ہوا ہے جیسا کہ خدا کا ارشاد ہے :
(لکیلا تأسواعلیٰ مافاتکم)(٣)
''تاکہ جو تمہارے ہاتھ سے نکل گیا ہے اسکا افسوس نہ کرو''
..............
(١)سورئہ آل عمران آیت ١٥٣۔
(٢)سورئہ حدید آیت٢٣۔
(٣)سورئہ حدید آیت ٢٣۔
(فمن لم یأس علی الماضی ولم یفرح بالآ تی فھوالزاہد)(١)
جو انسان ماضی پرافسوس نہ کرے اور ہاتھ آجانے والی چیز پر خوش نہ ہووہ زاہد ہے ''
ایک دوسرے مقام پر آپ سے روایت ہے :
''الزھدکلمة بین کلمتین من القرآن قال اللّٰہ:(لکیلا تأسوا)فمن لم یأس علیٰ الماضی،ولم یفرح بالآ تی،فقد اخذ الزھد بطرفیہ ''(٢)
''زہد قرآن کے دو لفظوں کا مجمو عہ ہے خدا وند عالم فر ماتا ہے :
(لکیلا تأسوا ۔۔۔)''تاکہ جو تمہارے ہاتھ سے نکل گیا ہے اسکا افسوس نہ کرو''
لہٰذاجو انسان ماضی پر افسوس نہ کرے اور ہاتھ آجانے والی چیز پر خوش نہ ہو اس نے پورا زہد حاصل کرلیا ہے ''
امیرالمو منین حضرت علی کا ارشاد ہے :
(من اصبح علی الدنیا حزیناً،فقد أصبح لقضاء اللّٰہ ساخطاً،ومن لھج قلبہ بحب الدنیاالتاط قبلہ منھا بثلاث:ھمّ لایُغِبُّہ،وحرص لایترکہ،وأمل لایدرکہ)(٣)
''جو دنیا کے بارے میں محزون ہو گا وہ قضا و قدر الٰہی سے ناراض ہو گا جس کا دل محبت دنیا کا دلدادہ ہوجائے اسکے دل میں یہ تین چیزیں پیوست ہوجاتی ہیں وہ غم جو اس سے جدا نہیں ہوتا ہے ،وہ لالچ جو اسکا پیچھا نہیں چھوڑتی ہے وہ امید جسے وہ کبھی حاصل نہیں کرسکتا ہے ''
یہ بھی حزن و فر حت سے آزادی کا ایک رخ ہے کہ دنیا کے بارے میں حزن وملال ،قضا وقدر الٰہی سے ناراضگی کے باعث ہوتا ہے اس لئے کہ انسان دنیا میں جن چیزوں سے بھی محروم ہوتا
..............
(١)بحا ر الانوار ج ٧٨ ص ٧٠۔
(٢)بحارالانوار ج ٧٠ ص ٣٢۔
(٣)نہج البلاغہ حکمت ٢٢٨۔
ہے وہ در حقیقت قضا وقدر الٰہی کے تحت ہی ہوتا ہے نیز حب دنیا انسان میں تین صفتیں پیدا کرتی ہے ہم وغم ،حرص وطمع، آرزو۔ اس طرح وہ انسان کو ظلم وستم اور عذاب کے پنجوں میں جکڑدیتی ہے ۔
امیر المومنین حضرت علی سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا :
(ایھاالناس انماالدنیا ثلا ثة:زاہدوراغب وصابر،فأماالزاہدفلا یفرح بشیٔ من الدنیا أتاہ،ولایحزن علیٰ شیٔ منھا فاتہ وامّاالصابرفیتمنّاھا بقلبہ،فان ادرک منھاشیئاصرف عنھا نفسہ،لما یعلم من سوء عاقبتھا وامّا الراغب فلایبالی من حِلٍّ اصابھا أم من حرام '')(١)
''اے لوگو: دنیا کے افرادتین قسم کے ہیں :١۔زاہد ٢۔صابر ٣۔راغب
١۔زاہد وہ ہے جو کسی بھی چیز کے مل جانے سے خوش یا کسی بھی شے کے نہ ملنے سے محزون نہیں ہوتا ۔صابر وہ ہے جو دل ہی دل میں دنیا کی تمنا تو کرتا ہے لیکن اگر اسے دنیا مل جاتی ہے تو چونکہ اسکے برے انجام سے واقف ہے لہٰذا اپنامنھ اس سے پھیر لیتا ہے اور راغب وہ ہے کہ جسے یہ پروا نہیں ہے کہ اسے دنیا حلال راستہ سے مل رہی ہے یا حرام راستہ سے ''
زہدکے معنی ،لوگوں کی تین قسموںاور ان قسموں پر زاہد ین کی تقسیم کے سلسلہ میں یہ حدیث عالی ترین مطالب کی حامل ہے ۔اسکے مطابق لوگوں کی تین قسمیں ہیں :
زاہد ،صابر اور راغب۔
زاہد وہ ہے کہ جو دنیا اور اسکی فرحت وملال سے آزاد ہو۔
صابر وہ ہے کہ جو ان چیزوں سے آزاد تو نہیں ہے مگر حب دنیا ،دنیاوی فرحت ومسرت اور حزن وملال سے نجات پانے کے لئے کوشاںہے ۔
..............
(١)بحارالانوار ج١ص١٢١۔
راغب وہ ہے کہ جو دنیا کا اسیر اور اسکی فرحت ومسرت اور حزن و ملال کے آگے سرتسلیم خم کئے ہوئے ہے۔
ان میں پہلا اور تیسراگروہ ایک دوسرے کے بالکل مقابل ہے کہ ایک مکمل طریقہ سے آزاد اور دوسراہر اعتبار سے مطیع و اسیرجبکہ تیسرا گروہ درمیانی ہے ۔
امیر المومنین حضرت علی لوگوں کو اس بات کی دعوت دیتے ہیں کہ وہ اپنی فرحت و ملال کا رخ دنیا سے آخرت کی جانب موڑدیں یہی بہترین چیز ہے کیونکہ اگر ہماری کیفیت یہ ہوکہ ہم اطاعت خدا کرکے خوشی محسوس کریں اور اطاعت سے محرومی پر محزون ہوں تو یہ بہترین بات ہے اس لئے کہ اس خوشی اورغم کا تعلق آخرت سے ہے ۔
مولائے کائنات حضرت علی، ا بن عباس کے نام اپنے ایک مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں:
''اما بعد !انسان کبھی کبھی ایسی چیز کو پاکر بھی خوش ہوجاتا ہے جو ہاتھ سے جانے والی نہیںتھی اور ایسی چیز کو کھوکر رنجیدہ ہوجاتا ہے جو ملنے والی نہیں تھی لہٰذا خبر دار تمہارے لئے دنیا کی سب سے بڑی نعمت، کسی لذت کا حصول یا جذبۂ انتقام ہی نہ بن جائے بلکہ بہترین نعمت باطل کو مٹانے اور حق کو زندہ کرنے کو سمجھو اور تمہیں ان اعمال سے خوشی ہو جنہیں پہلے بھیج دیا ہے اور تمہارا افسوس ان امور پر ہو جنہیں چھوڑکر چلے گئے ہو اور تمام تر فکر موت کے مرحلہ کے بارے میں ہونی چاہئیے''(١)
زہد،تمام نیکیوں کا سرچشمہ
جس طرح حیات انسانی میں حب دنیا تمام برائیوں کی جڑہے اسی طرح تمام نیکیوں اور اچھائیوں کا سرچشمہ ''زہد''ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ حب دنیا انسان کو دنیا اور اسکی خواہشات کا اسیر بنادیتی ہے اور دنیا خود تمام برائیوں اور پستیوں کی بنیاد ہے لہٰذا حب دنیابھی انسان کو برائیوںاور
..............
(١)نہج البلاغہ مکتوب ٦٦۔
پستیوں کی طرف لے جاتی ہے جبکہ زہد کا مطلب ہے دنیااور خواہشات دنیا سے آزاد ہونا اور جب انسان برائیوں کی طرف لے جانے والی دنیا سے آزاد ہوگا تو اسکی زندگی خود بخود نیکیوں اور اچھائیوں کا سرچشمہ بن جائے گی ۔
روایات معصومین میں اس چیز کی طرف متعدد مقامات پر مختلف اندازسے اشارہ کیا گیا ہے بطور نمونہ ہم یہاں چند احادیث پیش کر رہے ہیں۔
امام صادق کا ارشاد ہے:
(جُعل الخیرکلہ فی بیت وجُعل مفتاحہ الزھد فی الدنیا)(١)
''تمام نیکیاں ایک گھر میں قرار دی گئی ہیں اور اسکی کنجی دنیا کے سلسلہ میں زہد اختیار کرنا ہے ''
امیر المومنین حضرت علی کا ارشاد ہے :
(الزھد أصل الدین)(٢)
''دین کی اصل، زہد ہے ''
آپ ہی کا ارشاد ہے :
(الزھد اساس الدین)(٣)
''دین کی اساس اور بنیاد، زہد ہے ''
امام جعفر صادق کا ارشاد ہے :
(الزھد مفتاح باب الآخرة،والبرا ئة من النار،وھو ترکک کل شیٔ
..............
(١)بحارالانوار ج٧٣ص٤٩۔
(٢)غررالحکم ج١ص٢٩۔
(٣)غررالحکم ج١ص٣٠۔
یشغلک عن اللّٰہ من غیرتأسف علیٰ فوتھا ولا أعجاب فی ترکھا،ولاانتظارفرج منھا،ولاطلب محمدة علیھا،ولاعوض منھابل تریٰ فواتھاراحة،وکونھاآفة،وتکون أبداً ھارباً من الآفة،معتصماً بالراحة)(١)
''زہد،باب آخرت کی کنجی اورجہنم سے نجات کا پروانہ ہے ۔زہد کا مطلب یہ ہے کہ تم ہراس چیز کو ترک کردو جو تمہیں یاد خدا سے غافل کردے اور تمہیں اسکے چھوٹ جانے کا نہ کوئی افسوس ہو اور نہ اسے ترک کرنے میں کوئی زحمت ہو ۔اس کے ذریعہ تمہاری کشادگی کی توقع نہ ہو،نہ ہی اس پر تعریف کی امید رکھو، نہ اسکا بدلہ چاہو بلکہ اسکے فوت ہوجانے میں ہی راحت اور اسکی موجود گی کو آفت سمجھوایسی صورت میں تم ہمیشہ آفت سے دوراورراحت وآرام کے حصارمیںرہو گے''
حضرت علی نے فرمایا ہے :
(الزھد مفتاح الصلاح )(٢)
''زہد صلاح کی کنجی ہے ''
زہد کے آثار
حیات انسانی میں زہد کے بہت عظیم آثار و نتائج پائے جاتے ہیں جنہیں زاہد کے نفس اور اسکے طرز زندگی میں بخوبی محسوس کیا جاسکتا ہے ۔
١۔آرزووں میں کمی
حب دنیا کا نتیجہ آرزووں کی کثرت ہے اور زہد کا نتیجہ آرزووں میں کمی۔ جب انسان کا تعلق دنیا سے کم ہو اوروہ خواہشات دنیا سے آزاد ہوتو طبیعی طور پر اسکی آرزوئیں بھی مختصر ہوںگی وہ دنیا میں
..............
(١) بحا ر الا نو ا ر ج ٠ ٧ ص٣١٥۔
(٢)غررالحکم ص٩٩،٣٧۔٨۔
زندگی بسر کرے گا متاع زندگانی اوردنیاوی لذتوںسے استفادہ کرے گا لیکن ہمیشہ موت کو بھی یاد رکھے گا اور اسی طرح یہ بات بھی اسکے پیش نظر رہے گی کہ ان چیز وں کا سلسلہ کسی بھی وقت اچانک ختم ہوجائے گا۔
پیغمبر اکرم ۖکا ارشاد ہے :
(من یرغب فی الدنیا فطال فیھا أملہ،أعمیٰ اﷲ قلبہ علیٰ قدررغبتہ فیھا، ومن زھد فیھا فقصرفیھاأملہ،أعطاہ اﷲعلماًبغیرتعلّم،وھدیً بغیرھدایة،وأذھب عنہ العمائ،وجعلہ بصیرا)(١)
''جو شخص دنیا کی طرف راغب ہوتاہے اسکی آرزوئیں طولانی ہوتی ہیں اور دنیا کی طرف اسکی رغبت کے مطابق اﷲ اسکے قلب کو اندھا کردیتاہے اور جو دنیا میں زاہد ہوتاہے اسکی آرزوئیں مختصر ہوتی ہیں اور اﷲ اسے تعلیم کے بغیر علم اوراسباب ہدایت کے بغیر ہدایت عطا کرتاہے۔اوراس سے اندھے پن کو دور کرکے اسکو بصیر بنا دیتاہے ''
اس روایت سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ زہد ،سے آرزوئیںکم ہوجاتی ہیں اور اس کمی سے بصیرت اورہدایت ملتی ہے اسکے برعکس دنیا کی جانب رغبت سے آرزووں میں کثرت پیدا ہوتی ہے اور یہ کثرت اندھے پن کا سبب ہے تو آخر آرزووں کی قلت اور بصیرت کے درمیان کیا تعلق ہے ؟
اسکا راز یہ ہے کہ طویل آرزوئیںانسان کو دنیا میںاس طرح جکڑدیتی ہیں کہ انسان اس سے بیحدمحبت کرنے لگتا ہے اوردنیاکی محبت ا انسان اور خدا کے درمیان حجاب بن جاتی ہے اور جب آرزوئیں مختصر ہوتی ہیں تو یہ حجاب اٹھ جاتا ہے۔اور ظاہر ہے کہ جب قلب کے حجابات دور ہوجائیں گے تواس میں بصیرت پیدا ہوجائے گی ۔
پیغمبر اکرم ۖکا ارشاد گرامی ہے :
..............
(١)بحارالانوار ج٧٧ص٢٦٣۔
(الزھد فی الدنیا قصرالأمل،وشکرکل نعمة،والورع عن کل ماحرّم اﷲ)(١)
''دنیا میں زہد کا مطلب یہ ہے کہ آرزوئیں قلیل ہوں،ہر نعمت کا شکر ادا کیا جائے اور محرمات الٰہی سے پرہیز کیا جائے''
امیر المومنین حضرت علی کا ارشاد ہے :
(الزھد تقصیرالآمال،واخلاص الاعمال)(٢)
''آرزووںمیںکمی اور اعمال میں خلوص کا نام زہد ہے ''
آپ ہی کا ارشاد گرامی ہے :
(أیھاالناس،الزھادة قصرالأمل،والشکرعندالنعم،والتورع عندالمحارم،فانْ عزب ذلک عنکم،فلایغلب الحرام صبرکم،ولاتنسواعندالنعم شکرکم،فقدأعذراﷲالیکم بحججٍ مسفرةظاہرة،وکتبٍ بارزةالعذرواضحة)(٣)
''اے لوگوں:زہد امیدوں کے کم کرنے ،نعمتوں کا شکریہ ادا کرنے اور محرمات سے پرہیز کرنے کا نام ہے ۔اب اگر یہ کام تمہارے لئے مشکل ہوجائے تو کم ازکم اتنا کرناکہ حرام تمہاری قوت برداشت پر غالب نہ آنے پائے اور نعمتوں کے موقع پر شکر کو فراموش نہ کردینا کہ پروردگار نے نہایت درجہ واضح اور روشن دلیلوں اور حجت تمام کرنے والی کتابوں کے ذریعہ تمہارے ہر عذر کا خاتمہ کردیا ہے ''
٢۔دنیاوی تاثرات سے نجات اورآزادی
دنیاوی نعمتیں ملنے سے نہ انسان خوشی محسوس کرے گا اور نہ ان سے محرومی پر محزون ہوگا ۔
امیرالمومنین حضرت علی کا ارشاد ہے :
..............
(١)بحارالانوارج٧٧ص١٦٦۔
(٢)غررالحکم ج١ص٩٣۔
(٣)نہج البلاغہ خطبہ ٨١۔
(فمن لم یأس علیٰ الماضی،ولم یفرح بالآ تی فقد أخذ الزھد بطرفیہ)(١)
''جو شخص ماضی پر افسوس نہ کرے اور ہاتھ آنے والی چیزوں سے مغرور نہ ہوجائے اس نے سارا زہدسمیٹ لیا ہے ''
امیر المومنین کے ہر کلام کی مانند حیات انسانی میں زہد کے نتائج کے بارے میں شاہکار کلام پایا جاتا ہے ہم یہاں اس کلام کو نہج البلاغہ سے نقل کر رہے ہیں ۔''اپنے کانوں کو موت کی آواز سنادو قبل اسکے کہ تمہیں بلالیاجائے دنیا میں زاہدوں کی شان یہی ہوتی ہے کہ وہ خوش بھی ہوتے ہیں تو ان کا دل روتا رہتاہے اور وہ ہنستے بھی ہیںتوان کا رنج و اندوہ شدیدہوتاہے۔وہ خود اپنے نفس سے بیزاررہتے ہیںچاہے لوگ ان کے رزق سے غبطہ ہی کیوں نہ کریں ۔افسوس تمہارے دلوں سے موت کی یاد نکل گئی ہے اور جھوٹی امیدوں نے ان پر قبضہ کرلیا ہے۔اب دنیا کا اختیار تمہارے اوپر آخرت سے زیادہ ہے اور وہ عاقبت سے زیادہ تمہیں کھینچ رہی ہے ۔تم دین خدا کے اعتبار سے بھائی بھائی تھے۔ لیکن تمہیں باطن کی خباثت اور ضمیر کی خرابی نے الگ الگ کردیا ہے کہ اب نہ کسی کا بوجھ بٹاتے ہو۔نہ نصیحت کرتے ہو۔نہ ایک دوسرے پر خرچ کرتے ہواور نہ ایک دوسرے سے واقعاًمحبت کرتے ہو۔آخر تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ معمولی سی دنیا کو پاکر خوش ہوجاتے ہو اور مکمل آخرت سے محروم ہوکر رنجیدہ نہیں ہوتے ہو۔تھوڑی سی دنیا ہاتھ سے نکل جائے تو پریشان ہوجاتے ہو اور اسکا اثر تمہارے چہروں سے ظاہر ہوجاتاہے اور اس کی علیٰحدگی پر صبر نہیں کرپاتے ہو جیسے وہی تمہاری منزل ہے اور جیسے اس کا سرمایہ واقعی باقی رہنے والا ہے۔تمہاری حالت یہ ہے کہ کوئی شخص بھی دوسرے کے عیب کے اظہارسے باز نہیں آتا ہے مگر صرف اس خوف سے کہ وہ بھی اسی طرح پیش آئے گا ۔تم سب نے آخرت کو نظر انداز کرنے اور دنیا کی محبت پر اتحاد کرلیاہے اور ہر ایک کا دین زبان کی چٹنی بن کر رہ گیا
..............
(١)بحارالانوار ج٧٠ص٣٢٠،نہج البلاغہ حکمت ٤٣٩۔
ہے ۔ایسا لگتا ہے کہ جیسے سب نے اپنا عمل مکمل کرلیا ہے اور اپنے مالک کو واقعا خوش کرلیا ہے۔''(١)
٣۔دنیاپرعدم اعتماد
انسانی نفس کے اوپر زہد کے آثار میں سے ایک اثریہ بھی ہوتا ہے کہ زاہد کبھی بھی دنیا پر اعتماد نہیں کرتا ۔انسان جب دنیا سے محبت کرنے لگتا ہے اور اس کا نفس دنیا میں الجھ جاتا ہے تو وہ دنیا پر بھروسہ کرتا ہے اوردنیا کو ہی اپناٹھکانہ اوردائمی قیام گا ہ مان لیتا ہے لیکن جب انسان کے اندر زہد کی کیفیت پیدا ہوتی ہے اوروہ اپنے دل سے حب دنیا کونکال دیتا ہے تو پھراسے دنیا پر اعتبار بھی نہیں رہ جاتا اور وہ دنیا کو محض ایک گذرگاہ اور آخرت کے لئے ایک پُل تصور کرتاہے ۔
دنیا کے بارے میں لوگوں کے درمیان دو طرح کے تصورات پائے جاتے ہیں ۔کچھ افراد دنیا کو قیام گاہ مان کر اس سے دل لگالیتے ہیں اور کچھ لوگ دنیا کو گذر گاہ اور آخرت کے لئے ایک پل سمجھ کر اس سے دل نہیں لگاتے ۔دو نوںقسم کے افراد اسی دنیا میں رہتے ہیں اورخدا کی نعمتوں سے استفادہ کرتے ہیں مگر ان کے درمیان فر ق یہ ہے کہ پہلے گروہ کامنظور نظر خود دنیا ہوتی ہے اور وہ اسی کو سب کچھ مانتے ہیں یہاںتک کہ موت ان سے دنیا کو الگ کردیتی ہے۔ دوسرا گروہ وہ ہے کہ جو دنیا کو سب کچھ سمجھ کر اس سے دل نہیں لگاتا بلکہ اسے گذر گاہ اور پل کی حیثیت سے دیکھتا ہے لہٰذا جب موت آتی ہے تو دنیا کی مفارقت ان پر گراں نہیں گذرتی ہے۔
دنیا میں انسان کی حالت او راس میں اسکے قیام کی مدت کو روایات میں بہترین مثالوں کے ذریعہ بیان کیا گیا ہے ایک مثال کے بموجب دنیامیں انسان کا قیام ایسے ہی ہے کہ جیسے کوئی سوار راستہ میںسورج کی گرمی سے پریشان ہوکر کسی سایہ داردرخت کے نیچے بیٹھ جاتا ہے اور تھوڑی دیر آرام کے بعد پھر اپنے کام کے لئے چل پڑتا ہے ۔ کیا ایسی صورت میں دنیا کو اپنا ٹھکانہ، دائمی قیام گاہ سمجھنا اور
..............
(١)نہج البلاغہ خطبہ ١١٣
اس سے دل لگانا صحیح ہے ؟
پیغمبر اکرم ۖکا ارشاد ہے :
(مالی وللدنیا،انما مَثَلی کمثل راکبٍ مرّللقیلولة فی ظلّ شجرة فی یوم صائف ثم راح وترکھا)(١)
''دنیا سے میرا کیا تعلق ؟میری مثال تو اس سوار کی سی ہے جوتیز ہوائوں کے تھپیڑوں کے درمیان آرام کی خاطر کسی درخت کے نیچے لیٹ جاتا ہے اور پھر اس جگہ کو چھوڑکر چل دیتا ہے ''
امیر المومنین حضرت علی نے اپنے فرزند امام حسن کو یہ وصیت فرمائی ہے :
(۔۔۔یابنیّ انی قدأنباتک عن الدنیا وحالھا،وزوالھا،وانتقالھا،وأنبأتک عن الآخرةومااُعدّ لأھلھا فیھا،وضربتلک فیھماالأمثال،لتعتبربھا، وتحذو علیھا،انمامثل من خبرالدنیاکمثل قوم سفرنبا بھم منزل جذیب فأمّوا منزلاًخصیباً، وجناباً مریعاً،فاحتملواوعثاء الطریق،وفراق الصدیق،وخشونةالسفر۔۔۔ومَثَل من اغترّبھاکمثل قوم کانوابمنزل خصیب فنبابھم الیٰ منزل جذیب،فلیس شیء أکرہ الیھم ولاأفضع عندھم من مفارقة ماکانوا فیہ الیٰ مایھجمون علیہ ویصیرون الیہ۔۔۔)(٢)
''۔۔۔اے فرزند میں نے تمہیں دنیااوراسکی حالت اوراسکی بے ثباتی و ناپائیداری سے خبردار کردیا ہے ۔اور آخرت اور آخرت والوں کے لئے جو سروسامان عشرت مہیّاہے اس سے بھی آگاہ کردیا ہے اور ان دونوں کی مثالیںبھی تمہارے سامنے پیش کرتا ہوں تاکہ ان سے عبرت حاصل کرو
..............
(١)بحارالانوار ج٧٣ص١١٩۔
(٢)نہج البلاغہ مکتوب ٣١۔
اور ان کے تقاضے پر عمل کرو۔جن لوگوں نے دنیا کو خوب سمجھ لیا ہے ان کی مثال ان مسافروںکی سی ہے جن کا قحط زدہ منزل سے دل اچاٹ ہوا،اور انھوں نے راستے کی دشواریوں کو جھیلا، دوستوںکی جدائی برداشت کی،سفر کی صعوبتیںگواراکیں،اور کھانے کی بد مزگیوںپر صبر کیاتاکہ اپنی منزل کی پہنائی اور دائمی قرارگاہ تک پہنچ جائیں ۔اس مقصد کی دھن میں انھیں ان سب چیزوں سے کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوتی۔اور جتنا بھی خرچ ہوجائے اس میں نقصان معلوم نہیں ہوتا۔انھیں سب سے زیادہ وہی چیز مرغوب ہے جو انہیں منزل کے قریب اور مقصدسے نزدیک کردے اور اسکے برخلاف ان لوگوں کی مثال جنہوں نے دنیا سے فریب کھایاان لوگوں کی سی ہے جو ایک شاداب سبزہ زار میں ہوں اور وہاں سے دل برداشتہ ہوجائیں اور اس جگہ کا رخ کرلیں جو خشک سالیوں سے تباہ ہو۔ان کے نزدیک سخت ترین حادثہ یہ ہوگا کہ وہ موجودہ حالت کو چھوڑکرادھر جائیںکہ جہاں انھیں اچانک پہنچناہے اور بہر صورت وہاںجاناہے ۔۔۔ ''
حضرت عمر ، پیغمبر اکرم ۖکی خدمت میں حاضر ہوئے تو دیکھا آپ ایک بورئیے پر آرام فرمارہے ہیں اور آپ کے پہلو پر اسکا نشان بن گیاہے توعرض کی اے نبی خدا:
(یانبیّ اﷲ،لواتخذت فراشاً أوثر منہ؟فقال(ص):مالی وللدنیا،مامَثلی ومثَل الدنیا الاکراکب سارفی یوم صائف فاستظلّ تحت شجرة ساعة من نھار،ثم راح وترکھا)(١)
اگر آپ اس سے بہتربستر بچھالیتے تو کیا تھا ؟پیغمبر اکرم ۖ نے فرمایا :''دنیا سے میرا کیا تعلق؟میری اور دنیا کی مثال ایک سوار کی سی ہے جوتیز ہوائوں کے درمیان چلا جارہا ہو اور دن میں تھوڑی دیر آرام کرنے کے لئے کسی سایہ داردرخت کے نیچے رک جائے اور پھر اس جگہ کوچھوڑ کرآگے بڑھ جائے''
..............
(١)بحارالانوارج ٧٣ص١٢٣۔
امیر المومنین حضرت علی کا ارشاد ہے :
(ان الدنیالیست بدارقرارولامحلّ اقامة،انّما أنتم فیھاکرکب عرشوا وارتاحوا،ثم استقلّوا فغدوا وراحوا،دخلوھاخفافاً،وارتحلواعنھا ثقالاً،فلم یجدواعنھانزوعاً،ولاالی ما ترکوبھارجوعاً)(١)
''یہ دنیا دار القرار اور دائمی قیام گا ہ نہیں ہے تم یہاں سوار کی مانند ہو 'جنہوں نے کچھ دیرکیلئے خیمہ لگایا اور پھر چل پڑے پھر دوسری منزل پر تھوڑا آرام کیا اور صبح ہوتے ہی کوچ کر گئے ، ہلکے پھلکے (آسانی سے)اترے اور لاد پھاندکر مشکل سے روانہ ہوئے نہ انہیں اسکا کبھی اشتیاق ہوا اور جس کو ترک کرکے آگئے نہ اسکی طرف واپسی ممکن ہوئی ''
نبی اکرم ۖ کی خدمت میں عرض کیا گیا :انسان دنیا میں کیسے زندگی بسر کرے ؟آپ نے فرمایا جیسے قافلہ گذرتا ہے۔ دریافت کیا گیا اس دنیا میں قیام کتنا ہے ؟آپ نے فرمایا جتنی دیر قافلہ سے چھوٹ جانے والا رہتا ہے ۔دریافت کیا گیا! دنیا وآخرت میں فاصلہ کتنا ہے ؟آپ نے فرمایا پلک جھپکنے کا۔(٢)اور اس آیۂ کریمہ کی تلاوت فرمائی :
(کأنّھم یوم یرون ما یوعدون لم یلبثوا الاساعة من نھار)(٣)
''تو ایسا محسوس کرینگے جیسے دنیا میں ایک دن کی ایک گھڑی ہی ٹھہرے ہیں ''
امیر المومنین حضرت علی کا ارشاد ہے :
(الدنیاظلّ الغمام،وحلم المنام)(٤)
..............
(١)بحارالانوار ج٧٨ص١٨۔
(٢)بحارالانوار ج٧٣ص١٢٢۔
(٣)سورئہ احقاف آیت ٣٥۔
(٤)غررالحکم ج١ص١٠٢۔
''دنیا بادل کا سایہ اورسونے والے کا خواب ہے ''
امام محمد باقر نے فرمایا :
(انّ الدنیاعند العلماء مثل الظل)(١)
''اہل علم کے نزدیک دنیا سایہ کے مانند ہے ''
امیر المومنین حضرت علی کا ارشاد ہے :
(ألاوان الدنیادارلایسلم منھا الافیھا،ولاینجیٰ بشی ء کان لھا،اُبتلی الناس فیھا فتنة فماأخذوہ منھالھاأخرجوامنہ وحوسبواعلیہ،وماأخذوہُ منھا لغیرھا، قدموا علیہ وأقاموا فیہ،فانھاعند ذوی العقول کفیٔ الظلّ بینا تراہ سابغاً حتیٰ قلص،وزائداً حتیٰ نقص)(٢)
''یاد رکھو یہ دنیا ایسا گھر ہے جس سے سلامتی کا سامان اسی کے اندر سے کیا جاسکتا ہے اور کوئی ایسی شے وسیلہ نجات نہیں ہوسکتی ہے جو دنیا ہی کے لئے ہو۔لوگ اس دنیا کے ذریعہ آزمائے جاتے ہیں جو لوگ دنیا کا سامان دنیا ہی کے لئے حاصل کرتے ہیں وہ وہاں جاکر پالیتے ہیں اور اسی میں مقیم ہوجاتے ہیں ۔یہ دنیا در حقیقت صاحبان عقل کی نظر میں ایک سایہ جیسی ہے جو دیکھتے دیکھتے سمٹ جاتا ہے اور پھیلتے پھیلتے کم ہوجاتا ہے ''
..............
(١)بحارالانوار ج٧٣ص١٢٦۔
(٢)نہج البلاغہ خطبہ ٦٣۔
|