خواہشیں ! احادیث اہلبیت کی روشنی میں
 

چند واقعات
ہر انسان کو برائیوں اور گناہوں سے بچانے میں خوف الٰہی کیا کردار ادا کرتاہے؟ اسکی مزید وضاحت کے لئے ہم چند واقعات پیش کر رہے ہیں جن میں سے بعض واقعات روایات میں بھی موجود ہیں۔
١۔ابن جوزی کا بیان ہے کہ مجھ سے عثمان بن عا مرتیمی نے بیان کیا ہے کہ ان سے ابو عمر یحیی بن عاص تیمی نے بیان کیا تھا کہ :''حی''نامی ایک جگہ کا ایک آدمی حج کے لئے گھر سے نکلا ایک رات پانی کے ایک چشمہ پر اس نے ایک عورت کو دیکھا جسکے بال اسکے کاندھوںپربکھرے ہوئے تھے وہ کہتے ہیں کہ میں نے اس کی طرف سے اپنا منھ پھیر لیا تو اس نے کہا کہ تم نے میری طرف سے منھ کیوں پھرلیا؟میں نے جواب دیا کہ مجھے خداوند عالم سے ڈرلگتا ہے ۔چنانچہ اس نے اپنا آنچل سر پر ڈال کر کہا:تم بہت جلدی خوف زدہ ہوگئے جبکہ تم سے زیادہ تو اسے ڈرنا چاہئیے جو تم سے گناہ کا خواہشمند ہے ۔
پھر جب وہ وہاں سے واپس پلٹی تو میں اسکے پیچھے پیچھے ہولیا اور وہ عرب دیہاتیوںکے کسی خیمے میں چلی گئی چنانچہ جب صبح ہوئی تو میں اپنی قوم کے ایک بزرگ کے پاس گیا اور ان سے پورا ماجرا بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس جوان لڑکی کا حسن وجمال اور چال ڈھال ایسی تھی:تو وہیں ایک بوڑھا آدمی بیٹھا تھا وہ فوراًبول پڑا خدا کی قسم وہ میری بیٹی ہے۔میں نے کہا کیا آپ اس سے میری شادی کرسکتے ہیں؟اس نے جواب دیا اگرتم اسکے کفوہوئے توضرور کردونگا۔میںنے کہا: خداکا ایک مرد ہوں اس نے کہا نجیب کفوہے چنانچہ وہاں سے چلنے سے پہلے ہی میں نے اس سے شادی کرلی اور ان سے یہ کہدیا کہ جب میں حج سے واپس پلٹوں گا تو اسے میرے ساتھ رخصت کردینا چنانچہ جب میں حج سے واپس پلٹاتو اسے بھی اپنے ساتھ کوفہ لے آیا اور اب وہ میرے ساتھ رہتی ہے اور اس سے میرے چند بیٹے اور بیٹیاں ہیں۔(١)
٢۔مکہ میں ایک حسین وجمیل عورت اپنے شوہر کے ساتھ رہتی تھی اس نے ایک دن آئینہ میں اپنی صورت دیکھ کر اپنے حسن وجمال کی تعریف کرتے ہوئے اپنے شوہر سے کہا ،ذرا بتائے آپ کی نظر میں کیا کوئی ایسا ہے جو اس حسن وجمال کو دیکھ کر نہ بہکنے پائے؟
شوہر نے کہا ہاں کیوں نہیں، پوچھا کون ہے؟جواب دیا عبید بن عمیر، عورت نے کہا: اگر تم مجھے اجازت دوتو میں آج اسے بہکاکردکھائووں گی؟ کہا :جائو تمہیں اجازت ہے۔چنانچہ وہ گھر سے نکلی اور مسئلہ پوچھنے کے بہانے اسکے پاس پہونچی اس نے اسے مسجد الحرام کے اندر تنہائی میں ملنے کا موقع دے دیا ،تو اس نے اسکے سامنے چاند کی طرح چمکتے ہوئے اپنے چہرہ سے نقاب الٹ دی، تو اس
..............
(١)ذم الہوی لا بن جوزی ص٢٦٤۔٢٦٥۔
نے کہا: اے کنیز خدا ،عورت بولی: میں آپ کے اوپر فریفتہ ہوگئی ہوں لہٰذااس معاملہ میں آ پ کی رائے کیا ہے؟اس نے کہا میں تم سے چند سوال کرنا چاہتا ہوں اگر تم نے میری تصدیق کردی تو میں تمھیں اپنی رائے بتادوں گا، وہ بولی جو کچھ تم پوچھوگے میں سچ سچ جواب دوںگی۔ کہا:ذرا یہ بتائو اگر ملک الموت تمہاری روح قبض کرنے کے لئے آئیں تو اس وقت تمہیں اچھا لگے گا کہ میں تمہاری یہ تمنا پوری کردوں؟وہ بولی بخدا ہرگز نہیں۔کہا :تم نے سچ کہا ہے۔پوچھا اگر تمہیں تمہاری قبر میں اتار دیا جائے اور سوال کرنے کے لئے بٹھایا جائے تو اس وقت تمہیں اچھا معلوم ہوگا کہ میں تمہاری یہ تمنا پوری کردوں؟وہ بولی بخدا نہیں،کہا تم نے سچ جواب دیا۔پھر پوچھا یہ بتائوکہ جب روز قیامت تمام لوگوں کے ہاتھ میں نامۂ اعمال دئے جا رہے ہوں گے اور تم کو یہ معلوم نہ رہے کہ تمہارا نامہ عمل دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا یا بائیں ہاتھ میں(یعنی نامۂ عمل خراب ہے یا اچھا)اس وقت کیا تم یہ پسند کروگی کہ میں تمہاری یہ حاجت پوری کردوں؟بولی بخدا نہیں۔پھر سوال کیا بتائو جب سب کو میزان کے اوپر کھڑاکیا جارہا ہوگا اور تمھیں یہ معلوم نہ ہو کہ تمہارا نامۂ عمل وزنی ہے یا ہلکا تو کیا تمہیں اس وقت خوشی ہوگی کہ میں تمہاری یہ تمنا پوری کردوں؟بولی بخدا نہیں۔کہا تم نے صحیح جواب دیا۔پھر پوچھا اگر تمھیں سوال اور جواب کے لئے خدا کے سامنے کھڑا کیا جائے اورمیں تمہاری یہ تمنا پوری کردوں توکیا اس وقت تم کو اچھا لگے گا؟بولی بخدا نہیں۔کہا تم نے سچ کہا ہے، تواس نے کہا: اے کنیز خدا ،ذرا خدا سے ڈرو اس نے تم کویہ نعمت دے کر تمہارے اوپر احسان کیا ہے یہ سن کر وہ اپنے گھر واپس آگئی شوہر نے پوچھا کہو کیا کرکے آئی ہو؟وہ بولی تم فضول ہو اور ہم سب کے سب فضول ہیں اور اسکے بعد وہ مستقل نماز ، روزہ اور عبادت میں مشغول ہوگئی وہ کہتا ہے کہ اسکا شوہر یہ کہتا رہتا تھا کہ بتائو عبید بن عمیر سے میری کیا دشمنی تھی ؟ جس نے میری بیوی کو برباد کردیا وہ کل تک تو ایک بیوی کی طرح تھی اوراب اس نے اسے راہبہ بناڈالا۔(١)
٣۔ابو سعد بن ابی امامہ نے روایت کی ہے ایک مرد ایک عورت سے محبت کرتا تھا ،اور وہ بھی اسے چاہنے لگی ایک دن یہ دونوں کسی جگہ ایک دوسرے سے ملے تو عورت نے اسے اپنی طرف دعوت دی ، اس نے جواب دیا :میری موت میرے قبضہ میں نہیں ہے اور تمہاری موت بھی تمہارے بس سے باہر ہے ایسا نہ ہو کہ ابھی موت آجائے اور ہم دونوں گناہکار اور مجرم کی صورت میں خداوند عالم کے دربار میں پہونچ جائیں، بولی: تم سچ کہہ رہے ہو، چنانچہ اسی وقت دونوں نے توبہ کرلی اور اسکے بعد دونوں راہ راست پرآگئے۔(٢)
٤۔خارجہ بن زید کا بیان ہے کہ بنی سلیمہ کے ایک شخص نے مجھ سے اپنایہ ماجرا بیان کیا ہے کہ میں ایک عورت کا عاشق ہوگیاتھااور جب بھی وہ مسجد سے نکل کر جاتی تھی میں بھی اسکے پیچھے چل دیتا تھا اور اسے بھی میری اس حرکت کا علم ہوگیا۔چنانچہ اس نے ایک رات مجھ سے کہا تمھیں مجھ سے کچھ کا م ہے؟ میں نے کہا ہاں۔بولی: کیا کام ہے؟میں نے جواب دیا تمہاری محبت ۔اس نے کہا کہ اسے گھاٹے والے دن (روز قیامت) پر چھوڑدو، اسکابیان ہے کہ :خداکی قسم اس نے مجھے رلادیا جسکے بعد میں نے پھر یہ حرکت نہ کی۔(٣)
٥۔بنی عبد القیس کے ایک بزرگ کی روایت ہے ،وہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے قبیلہ والوں سے سنا ہے کہ ایک شخص نے ایک عورت کو اپنی طرف دعوت دی تو وہ بولی تم نے حدیث سنی ہے اور قرآن پڑھا ہے تم پڑھے لکھے ہو،پھر مرد نے عورت سے کہا کہ :محل کے دروازے بند کردو، تو اس نے دروازے بند کردئے مگر جب وہ مرد اسکے نزدیک ہوا تو وہ عورت بولی کہ ابھی ایک دروازہ کھلارہ گیا
..............
(١)ذم الہوی لابن جوزی ص٢٦٥۔٢٦٦۔
(٢)ذم الہوی لا بن جوزی ص٢٦٨۔
(٣)ذم الہوی لا بن جوزی ص ٢ ٢٧۔
ہے جو مجھ سے بند نہیں ہوسکا۔اس نے کہا کون سا دروازہ ؟جو اب دیا:وہ دروازہ جو تمہارے اور تمہارے پروردگار کے درمیان کھلا ہے یہ سن کر اس نے اسے ہاتھ بھی نہیں لگایا۔(١)
٦۔ابن جوزی کا بیان ہے کہ ہمیں یہ اطلاع ملی کے بصرہ کی زاہدہ وعابدہ خاتون ایک مہلّبی مرد(٢)کے چنگل میں پھنس گئی ہے،کیونکہ وہ بہت خوبصورت تھی اور جو کوئی اسے شادی کا پیغام دیتا تھاتو وہ منع کردیتی تھی چنانچہ مہلّبی کو یہ خبر ملی کے وہی عورت حج کرنے جاری ہے ،تو اس نے تین سو اونٹ خریدے اور یہ اعلان کردیا کہ جو حج کرنے کا ارادہ رکھتا ہے وہ مجھ سے اونٹ کرائے پرلے سکتا ہے۔چنانچہ اس عورت نے بھی اس سے کرایہ پرایک اونٹ لے لیا۔ایک دن راستہ میں وہ رات کے وقت اسکے پاس آیا اور کہا یاتم مجھ سے شادی کرو، ورنہ !عورت نے جواب دیا :تم پروائے ہو ذرا خدا کا خوف کرو، تو اس نے کہا:ذرا کان کھول کر سنو، خدا کی قسم میں کوئی اونٹوں کاساربان ( اونٹ والا)نہیں ہوں بلکہ میں تو اس کام کے لئے صرف اور صرف تمہاری وجہ سے نکلا ہوں، لہٰذا جب عورت نے اپنی آبرو خطرے میں دیکھی تو کہا کہ اچھا جائو یہ دیکھو کہ کوئی جاگ تو نہیں رہا ہے؟ اس نے کہا کوئی نہیں جاگ رہا ہے وہ پھر بولی ایک بار اور دیکھ آئو چنانچہ وہ گیا اور جب واپس پلٹ کرآیا تو کہا: ہاں سب کے سب سوچکے ہیں تو عورت نے کہا: تجھ پروائے ہو،کیا رب العالمین کوبھی نیند آگئی ہے؟(٣)

حیاء
عقل کے لشکرکی ایک اور صفت ''حیائ''بھی ہے یہ بھی انسان کو تباہی اور بربادی سے بچانے میں اہم کردار کرتی ہے۔چنانچہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اگرکسی شخص کو خداوند عالم یا اسکے بندوں کی حیاء نہ ہوتووہ گناہوں میں مبتلا ہوجاتاہے اور اسے اسکی عقل بھی نہیں روک پاتی ہے ۔ایسے حالات میں
..............
(١)ذم الہوی لا بن جوزی ص٢٧٤۔
(٢،٣) مہلّب :ایک ثروت مند قبیلہ کا نام ،ذم الہویٰ لا بن جوزی ص٢٧٧۔
صرف حیاء ہی اسکو گناہ سے بچاتی ہے۔
حیاء (چاہے جس مقدار میں ہو اس) کے اندر عصمت کے مختلف درجات پائے جاتے ہیں جیسے اعزاء و اقرباء سے شرم وحیاء میں جو عصمت پائی جاتی ہے وہی غیروں سے حیاء کے وقت ایک درجہ اور بڑھ جاتی ہے اسی طرح انسان جس کا احترام کرتا ہے اور اسکی تعظیم کا قائل ہے اسکے سامنے حیاء کی وجہ سے اسکے اندر اس سے اعلیٰ درجہ کی عصمت پیدا ہوجاتی ہے۔
آخر کار پروردگار عالم سے حیاء کرنے کی وجہ سے انسان عصمت کے سب سے بلند درجہ کا مالک ہوجاتا ہے ۔لہٰذا اگر انسان اپنے نفس کے اندر خداوند عالم کی حیاء پیدا کرلے اور اس کو اچھی طرح اپنے وجود میںراسخ کرلے اور خدااور اسکے فرشتوں کو ہمیشہ اپنے اوپر حاضر وناظر سمجھے تواس احساس کے اندر اتنی اعلیٰ درجہ کی عصمت پائی جاتی ہے جو اس کو ہر طرح کی نافرمانی، گناہ اور لغزشوںسے بچاسکتی ہے۔

اﷲ تعالیٰ سے حیائ
یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی انسان کے دل میں خداوند عالم کا خیال موجود ہواور وہ اسے حاضر وناظر بھی سمجھ رہا ہو اور اسے یہ بھی یاد ہو کہ خداوند عالم کے علاوہ اسکے معین کردہ فرشتے بھی اس سے اتنا نزدیک ہیں کہ خداوند عالم نے ان سے اسکا جو عمل پوشیدہ رکھتا ہے اسکے علاوہ اسکا کوئی عمل ان سے پوشیدہ نہیں ہے اورپھر بھی وہ گناہ کا مرتکب ہوجائے چنانچہ پیغمبر اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے جناب ابوذر کو جو وصیت فرمائی تھی اس میں یہ بھی ہے کہ اے ابوذر خدا وند عالم سے شرم وحیاء کرو اس ذات کی قسم جس کے قبضہ ٔ قدرت میں میری جان ہے میرا حال تو یہ ہے کہ جب میں بیت الخلاء کے لئے جاتا ہو ں تو اپنے دونوں فرشتوں سے شرم وحیاء کی بناپر اپنے چہرے پر کپڑاڈال لیتا ہوں۔
حیاء کا وہ ارفع و اعلیٰ درجہ جو خداوند عالم نے اپنے رسول کو عنایت فرمایا ہے وہ دنیا میں بہت کم افراد کو نصیب ہوا ہے۔ مختصر یہ کہ جب انسان کے نفس کے اندر اور اسکے شعور و ادراک میں اچھی طرح حیائے الٰہی جلوہ فگن ہوجاتی ہے تو پھر اسے گناہوں، برائیوں نیزہوس کے مہلک خطرات کے سامنے سپر انداختہ نہیں ہونے دیتی ہے ۔
جب اپنے جیسے دوسرے انسانوں سے شرم وحیاء کی بناء پرانسان نہ جانے کتنے ایسے کام نہیں کرتا ہے جنہیں ان کی عدم موجودگی یا تنہائی میں انجام دے لیتا ہے تواگر اسکے اندرخداوند عالم سے حیاء کا مادہ پیدا ہوجائے تو پھر خداوند عالم کی ناپسندیدہ چیزوں سے وہ بدرجۂ اولیٰ پرہیز کریگا اور اسکے لئے ملاء عام (علی الاعلان)اور گوشہ تنہائی میں کوئی فرق نہ رہ جائے گا۔ اس لئے کہ خداوند عالم ہرجگہ حاضر وناظر ہے ۔اور یہ تو ممکن ہے کہ کوئی شخص ،بندوں سے کوئی بات پوشیدہ رکھ لے لیکن خداوندعالم سے اسکی کوئی بات ہرگز پوشیدہ نہیں رہ سکتی ہے۔

رسول اکرم ۖ:
(یاأباذراستح من اﷲ،فأنی والذی نفسی بیدہ لأظل حین أذھب الیٰ الغائط متقنّعاًبثوبی استحی من المَلکین الذین معی) (١)
''اے ابوذر،خداوند عالم سے حیاء کرو،کیونکہ اس ذات کی قسم جسکے قبضہ میں میری جان ہے میں جب بھی بیت الخلاء کے لئے جاتاہوں تو اپنے ہمراہ دونوں فرشتوںسے شرم وحیاء کی وجہ سے اپنے چہرہ کو ڈھانپ لیتاہوں''

رسول اکرم ۖ:
(استحِ من اﷲاستحیاء ک من صالح جیرانک،فان فیھازیادةالیقین) (٢)
''خداوند عالم سے اس طرح شرم وحیاء کرو جس طرح تم اپنے نیک اور صالح پڑوسی سے ..............
(١) بحارالانوار ج٧٧ص٨٣وکنز العمال ح٥٧٥١۔
(٢) بحارالانوار ج٧٨ص٢٠٠۔
شرماتے ہو کیونکہاس سے یقین میں اضافہ ہوتا ہے''
آپ ہی سے یہ بھی مروی ہے :
(لیستحِ أحدکم من ملکیہ الذین معہ،کمایستحی من رجلین صالحین من جیرانہ،وھمامعہ باللیل والنھار)(١)
''اپنے فرشتوں سے تم اسی طرح شرم وحیا کیا کرو جس طرح تم اپنے دو صالح اور نیک پڑوسیوں سے شرماتے ہو کیونکہ یہ فرشتے رات دن تمہارے ساتھ رہتے ہیں''
خداوند عالم سے ہر حال میں شرم وحیا کے بارے میں امام کاظم سے نقل ہوا ہے:
(استحیوا من اﷲ فی سرائرکم،کما تستحون من الناس فی علانیتکم) (٢)
''تنہائی میں خداوند عالم سے اسی طرح شرم وحیا کیاکرو جس طرح لوگوں کے سامنے تمھیں حیا آتی ہے''
مختصر یہ کہ اگر کسی کے اندر خداوند عالم سے حیاکا عرفان پیدا ہوجائے تو وہ عصمت کے بلند ترین درجہ پر فائز ہوسکتا ہے اور اسکے لئے ملا ء عام یاگوشۂ تنہائی میں کوئی فرق نہیں ہے اسکے لئے روایات میں مختلف تعبیرات ذکر ہوئی ہیں۔

حضرت علی :
(الحیاء یصدّ عن الفعل القبیح)(٣)
''حیا برائیوں سے روک دیتی ہے ''
آپ ہی نے یہ بھی فرمایا ہے:
..............
(١)میزان الحکمت ج٢ص٥٦٨۔
(٢)بحارالانوار ج٧٨ص٣٠٩۔
(٣)میزان الحکمت ج٢ص٥٦٤۔
(علیٰ قدرالحیاء تکون العفة)(١)
''حیا کی مقدار کے برابرہی عفت بھی ہوتی ہے''

رسول اکرم ۖ:
(استحیوا من اﷲحق الحیائ،فقیل یارسول اﷲ:ومن یستحی من اﷲحق الحیائ؟فقال:من استحییٰ من اﷲحق الحیاء فلیکتب أجلہ بین عینیہ،ولیزھد فی الدنیاوزینتھا،ویحفظ الرأس وماحویٰ والبطن وماوعیٰ)
''خداوند عالم سے ایسی حیا کروجو حیا کر نے کا حق ہے سوال کیا گیا خداوند عالم سے حیا کرنے کا جوحق ہے اسکا کیا طریقہ ہوگا؟آپ نے فرمایا کہ جو خداوند عالم سے واقعاً حیا کرنا چاہتا ہے وہ اپنی موت کو اپنی دونوں آنکھوں کے سامنے مجسم کرلے (اپنی پیشانی پر لکھ لے )اور دنیا اور اس کی زینتوںسے اجتناب کرے اور اپنے سر اور جو کچھ اس میں ہے اور اپنے پیٹ اور جو اسکے اندر بھرا ہے ان سے محفوظ رہے''(٢)

امام موسیٰ کاظم :
(رحم اﷲ من استحییٰ من اللہ حق الحیائ،فحفظ الرأس وماحویٰ،والبطن وماوعیٰ)(٣)
''اﷲ تعا لی اس بندے پر رحم کرے جسکو اس سے واقعا حیا آتی ہو اور اسی لئے وہ اپنے سر کے وسوسوں اور پیٹ کی شہوتوں سے اپنے کو محفوظ رکھے''
روایت میں سر اور معدہ کا تذکرہ اس لئے کیا گیا ہے کہ اکثر شہوتیں انہیں دونوں جگہوں سے
..............
(١)گذشتہ حوالہ۔
(٢)بحارالانوار ج٧٠ص٣٠٥۔
(٣)بحارالانوار ج٧٠ص٣٠٥۔
جنم لیتی ہیں مثلاًاگر آنکھیں شہوت کا ایک دروزہ اور کان دوسرا دروازہ ہے تومعدہ ( پیٹ ) شہوت کی پیدا ئش کاپہلامرکز اور شرم گاہ دوسرا مرکزہے ۔
لہٰذا جب انسان کے اندر شرم وحیاء پیدا ہوجاتی ہے تو پھر ذہن ودماغ کے برے خیالات (سر کے وسوسے )اور پیٹ کی شہوت کے سارے راستے خود بخود بندہوجاتے ہیں اور انسان ان کے شر سے محفوظ ہوجاتا ہے ۔
آپ ہی سے مروی ہے :
(مِن أفضل الورع أن لاتبدی فی خلواتک ما تستحی من اظہارہ فی علانیتک)(١)
''سب سے بڑا ورع اور پارسائی یہ ہے کہ جس کام کو تم کھلم کھلا کرنے سے شرماتے ہو اسے تنہائی میں بھی انجام نہ دو''

بارگاہ خدا میں قلت حیا کی شکایت
متعدد دعائوں میں یہ ملتا ہے کہ انسان خداوند عالم کی بارگاہ میں اس سے حیاکی قلت کی شکایت کرتا ہے جو ایک بہت ہی لطیف اور عجیب بات ہے کہ انسان خداوند عالم کی بارگاہ میں یہ شکایت کرے کہ اسکے اندر خود ذات پروردگار سے شرم وحیاء کی قلت پائی جاتی ہے جس میں خدا قاضی ہے کیونکہ اسکا فیصلہ اسی کے اوپر چھوڑدیاگیا ہے شکایت کرنے والا خود انسان (انا،میں )ہے اور جس کے خلاف شکایت کی گئی ہے وہ نفس ہے اور شکایت (مقدمہ) کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ نفس اس خدا کے سامنے بے حیائی پر اتر آیا ہے جو خود اس مقدمہ میں قاضی ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ گویا انسان خدا کی بارگاہ میں اپنے نفس کی یہ شکایت کررہا ہے کہ وہ خود خدا سے حیاء نہیں کرتا ہے بطورنمونہ دعائے ..............
(١)غررالحکم ج٢ص٢٥٣۔
ابوحمزہثمالی(رح) کے یہ جملات ملاحظہ فرمائیں:
(أنا یاربّ الذی لم أستحیک فی الخلائ،ولم اُراقبک فی الملأ،أناصاحب الدواھی العظمیٰ،أناالذی علیٰ سیدہ اجتریٰ۔۔۔اناالذی سترت علیّ فمااستحییت،وعملت بالمعاصی فتعدّیت،واسقطتنی من عینیک فما بالیت)(١)
''پروردگارا !میں وہی ہوں جس نے تنہائی میں تجھ سے حیا نہیں کی اور مجمع میں تیرا خیال نہیںکیا میرے مصائب عظیم ہیں میں نے اپنے مولا کی شان میں گستاخی کی ہے ۔۔۔میں وہی ہوں ۔۔۔ جس کی تونے پردہ پوشی کی تو میں نے حیا نہیں کی، گناہ کئے ہیں تو بڑھتا ہی چلا گیا اور تو نے نظروں سے گرا دیا تو کوئی پروا نہیں کی ''
امام زین العابدین کی مناجات شاکین(شکایت اور فریاد کرنے والوں کی مناجات ) میں بھی خداوند عالم کی بارگاہ میں اپنے نفس اور گناہوں سے پرہیز نہ کرنے کی شکایت ان الفاظ میں کی گئی ہے:
(الٰہی أشکوالیک نفساًبالسوء أمّارة،والیٰ الخطیئة مبادرة، وبمعا صیک مولعة،ولسختک متعرّضة)(٢)
''خدایا میں تجھ سے اس نفس کی شکایت کر رہا ہوں جو برائیوں کا حکم دیتا ہے اور خطائوں کی طرف تیزی سے دوڑ تا ہے اور تیری معصیتوں پر حریص ہے اور تیری ناراضگی کی منزل میں ہے ''۔
..............
(١)دعا ئے ابو حمزہ ثمالی۔
(٢)مفاتیح الجنان: مناجات الشاکین ۔