حج کی منتخب حدیثیں
خدا کا فخر
قال رسول اللہ (ص):
ان اللہ یباھی بالطائفین۔[67]
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ھیں :
”بلا شبہ خد اوند عالم طواف کرنے والوں پر فخر ومباھات کرتا ھے‘ ‘ ۔

طواف اور رھائی
عَنْ رَسُولُ اللّٰہِ (ص)قَالَ:
۔۔۔فَإِذَا طُفْتَ بِالْبَیْتِ اٴُسْبُوعاً کَانَ لَکَ بِذَلِکَ عِنْدَ اللّٰہِ عَھْدٌ وَذِکْرٌ یَسْتَحْیُيمِنْکَ رَبُّکَ اٴَنْ یُعَذِّبَکَ بَعْدَہُ۔۔۔ ۔[68]
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”پس جب تم نے اللہ کے گھر کا سات مرتبہ طواف کرلیا تو اس کے ذریعہ خدا وند عالم کے نزدیک تمھارا عھد اور ذکر ھے کہ خداوند عالم اس کے بعد تم پر عذاب کرنے سے شرم کرے گا“۔

زیادہ باتیں نہ کرو
قَال رَسُولُ اللّٰہ (ص):
إِنَّمَا الطَّوَافُ صَلٰوةٌ،فَإِذَا طُفْتُمْ فَاٴَقِلُّوا الْکَلاٰمَ۔[69]
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”اللہ کے گھر کا طواف نماز کے مانند ھے پس جب تم طواف کرتےهو تو باتیں کم کرو “۔

طواف کا فلسفہ
قَال رَسُول اللّٰہ (ص):
إِنَّمَاجَعَلَ الطَّوٰافُ بِالْبَیْتِ وَبَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ وَرَمْیُ الْجِمٰارِ لإِقٰامَةِ ذِکْرِ اللّٰہِ ۔[70]
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”اللہ کے گھر کا طواف،صفاو مروہ کے درمیان سعی اور رمی جمرات خدا کے ذکر کو قائم کرنے کے لئے مقرر کئے گئے ھیں ‘ ‘۔

عمل میں نیت کی تاثیر
عَنْ زیاد القندی،قال:قُلْتُ لاٴبي الحسن (ع):جُعِلْتُ فِداک إنّي اٴَکونُ في الْمَسْجِدِ الْحرامِ، وَاٴنْظُرُ اِلی النّاسِ یَطوفونَ بالبَیْتِ واٴنا قاعِدٌ فاغْتَمُّ لِذلکَ،فقال:
یَازِیَاُد لاٰ عَلَیْکَ فَإِنَّ الْمُوٴْمِنَ إِذَا خَرَجَ مِنْ بَیْتِہِ یَوٴُمُّ الْحَجَّ لاٰیَزَالُ فِي طَوَافٍ وَسعْيٍ حَتَّی یَرْجِعَ۔[71]
زیاد قندی (جو ایک مفلوج آدمی تھا)کھتا ھے کہ :
”میں نے امام موسیٰ کاظم (ع)سے عرض کیا آپ (ع) پر قربانهو جاوٴں میں کبھی مسجد الحرام میںهوتاهوں اوردیکھتاهوںکہ لوگ کعبہ کا طواف کررھے ھیں اور میں بیٹھاهوں (طواف نھیں کر سکتا )اس پر میں غم زدہهو جاتاهوں امام (ع)نے
فرمایا:اے زیاد!تم پر کوئی ذمہ داری نھیں ھے (غمگین نہهو) بلاشبہ مومن جس وقت سے حج کے ارادہ سے اپنے گھر سے نکلتا ھے اس وقت سے ھمیشہ طواف اور سعی کی حالت میں ھے یھاں تک کہ اپنے گھر واپس چلاجائے “۔

انسانی تھذیب کی رعایت
عَنْ سَمَاعَة بْنِ مِھْرَانَ عَنْ اٴَبِي عَبْدِ اللّٰہِ (ع):سَاٴلْتَہُ عَنْ رَجُلٍ لي عَلَیْہِ مالٌ فغابَ عَنّي زَماناً فَرَاٴَیْتُہُ یَطوفُ حَولَ الْکَعْبَةَ اٴفاٴتَقاضاہُ مالِي؟قَالَ:لاٰ،لاٰ تُسَلِّمْ عَلَیْہِ وَلاٰ تُرَوِّعْہُ حَتَّی یَخْرُجَ مَنْ الْحَرَمِ۔[72]
سماعة ابن مھران کھتے ھیں کہ:
”میں نے امام جعفرصادق(ع)سے پوچھا :ایک شخص میرا مقروض ھے اور میں نے ایک مدت سے اسے نھیں دیکھا پس اچانک میں اسے کعبہ کے اطراف میں دیکھتاہوں کیا میں اس سے اپنے مال کا تقاضہ کر سکتاهوں؟فرمایانھیں،حتی اسے سلام بھی نہ کرو اور اسے نہ ڈراوٴیھاں تک کہ وہ حرم سے خارجهو جائے “۔

نماز ،مقام ابراھیم (ع) کے نزدیک
عَن رَسُولِ اللّٰہِ قال:
۔۔۔فَإِذَا طُفْتَ بِالْبَیْتِ اٴُسْبُوعاً لِلزِّیَارَةِ وَ صَلِّیْتَ عِنْدَ الْمَقَامِ رَکْعَتَیْنِ ضَرَبَ مَلَکٌ کَرِیمٌ عَلَی کَتِفَیْکَ فَقَالَ اٴَمَّا مَا مَضَی فَقَدْ غُفِرَ لَکَ فَاسْتَاٴْنِفِ الْعَمَلَ فِیمَا بَیْنَکَ وَبَیْنَ عِشْرِینَ وَمِائَةِ یَوْمٍ۔[73]
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”پس جب تم خانہ کعبہ کے گرد زیارت کا طواف کر لیتےهو اور مقام ابراھیم (ع)کے نزدیک نماز طواف ادا کر لیتےهو تو ایک کریم وبزرگوار فرشتہ تمھارے شانوں پر ھاتھ رکھ کر کھتا ھے :جو کچھ گزر گیا اور تم نے جو گناہ پھلے انجام دیئے تھے خدا وند عالم نے وہ سب بخش دیئے پس اس وقت سے ایک سو بیس دن تک (تم پاک وپاکیزہ رہو گے اب )نئے سرے سے اپنے عمل کا آغاز کرو“۔

امام حسین(ع) مقام ابراھیم (ع)کے پاس
رُئِیَ الْحُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ یَطُوفُ بِالْبَیْتِ،ثُمَّ صٰارَ اِلَی الْمَقٰامِ فَصَلّٰی،ثُمَّ وَضَعَ خَدَّہُ عَلَی الْمَقٰامِ فَجَعَلَ یَبْکی وَیَقُولُ: عُبَیْدُکَ بِبٰابِکَ، سَائِلُکَ بِبٰابِکَ، مِسْکینُکَ بِبٰابِکَ، یُرَدِّدُ ذٰلِکَ مِرٰاراً۔[74]
”لوگوں نے امام حسین (ع)کو دیکھا کہ وہ اللہ کے گھر کا طواف کر رھے تھے اس کے بعدانھوں نے مقام ابراھیم کے پاس نماز ادا کی پھر اپنا چھرہ مقام ابراھیم پر رکھا اور روتےهوئے خداوند عالم کی بارگاہ میں عرض کی اے میرے پالنے والے ! تیرا حقیر بندہ تیرے دروازہ پر ھے ،تیرا فقیر تیرے دروازہ پر ھے،تیرا مسکین تیرے دروازہ پر ھے،اور آپ (ع) ان جملوں کو باربار دھرا رھے تھے“۔

ھمراھیوں کی مدد
عن اِبراھیم الخثعَمي قال:قُلْتُ لاٴبي عبد اللہ (ع):إِنَّاإِذَا قَدِمْنَا مَکَّةَ ذَھَبَ اٴَصْحَابُنَا یَطُوفُونَ وَیَتْرُکُونِّي اٴَحْفَظُ مَتَاعَھُمْ قَالَ اٴَنْتَ اٴَعْظَمُھُمْ اٴَجْراً۔[75]
اسماعیل خثعمی کھتے ھیںمیں نے امام جعفر صادق(ع) سے عرض کیا :
”ھم جب مکہ میں واردهوئے تو ھمارے ساتھی مجھے اپنے سامان کے پاس چھوڑ کر طواف کے لئے چلے گئے تاکہ میں ان کے سامان کی حفاظت کروں ،امام (ع)نے فرمایا: تمھارا ثواب ان سے زیادہ ھے“۔

آب زمزم ھر درد کی دوا
قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ (ص):
مَاءُ زَمْزَمَ دَوَاءٌ لِمَا شُرِبَ لَہُ۔[76]
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”زمزم کا پانی ھر اس درد کی دوا ھے جس کی نیت سے وہ پیا جائے “ ۔

زمین کا بھترین پانی
قَالَ اٴَمِیرُ الْمُوٴْمِنِینَ (ع):
مَاءُ زَمْزَمَ خَیْرُ مَاءٍ عَلَی وَجْہِ الْاٴَرْضِ۔[77]
حضرت علی (ع)نے فرمایا:
”آب زمزم روئے زمین پر بھترین پانی ھے “۔

حجر اسماعیل
عَنْ اٴبِي عَبْدِ اللّٰہِ (ع)قَالَ:
الْحِجْرُ بَیْتُ إِسْمَاعِیلَ وَفِیہِ قَبْرُ ھَاجَرَ وَقَبْرُ إِسْمَاعِیلَ۔[78]
امام جعفر صادق نے فرمایا:
”حجر ،جناب اسماعیل (ع) کاگھر ھے اور اس میں آپ (ع) کی اور آپ کی والدہ جناب ھاجرہ (ع)کی قبر ھے “۔
عن اٴبي عبد اللہ (ع)قال:
إن إسماعیل(ع) تُوُفّي وَھُوَ اِبنُ مائَةَ وَثَلاثِینَ سَنَة وَدُفِنَ بِالحِجْر مَعَ اٴُمِّہ۔[79]
امام جعفر صادق نے فرمایا:
”جناب اسماعیل (ع)نے ایک سو تیس سال کے بعد وفات پائی اور اپنی والدہ کے ھمراہ حجر میں دفن کئے گئے “۔

حطیم
معاویہ ابن عمار کھتے ھیں:میں نے حطیم کے بارے میں امام جعفرصادق ںسے دریافت کیا :
فَقَالَ ھُوَ مَا بَیْنَ الْحَجَرِ الْاٴَسْوَدِ وَبَیْنَ الْبَابِ“۔
”آپ (ع) نے فرمایا :یہ حجر اسود اوردر کعبہ کے درمیان ھے“ میں نے سوال کیا کہ اسے حطیم کیوں کھتے ھیں ؟
فَقَالَ لِاٴَ نَّ النَّاسَ یَحْطِمُ بَعْضُھُمْ بِعْضاً ھُنَاکَ۔[80]
”فرمایا :اس لئے کہ لوگ اس جگہ ایک دوسرے کو (کثرت جمعیت کی وجہ سے ) دباتے ھیں “۔

ملتزم
قٰال رَسُول اللّٰہ (ص):
بَیْنَ الرُّکْنِ وَالْمَقٰامِ مُلْتَزَمٌ مٰایَدْعُوا بِہِ صٰاحِبُ عٰاھَةٍ اِلاّٰ بَرِیٴَ۔(۲)
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”رکن حجر اسود اور مقام ابراھیم (ع) کے درمیان ملتزم ھے کوئی بھی بیماری اور مشکل میں مبتلا شخص وھاں دعا نھیں کرتا مگر یہ کہ اس کی حاجت پوریهوتی ھے “۔

مستجار
قَالَ الصَّادِقُ(ع):
بَنیٰ إِبْراہِیمُ الْبَیْتَ۔۔۔وَجَعَلَ لَہُ بَابَیْنِ بَابٌ إِلَی الْمَشْرِقِ وَ بَابٌ إِلَی الْمَغْرِبِ،وَالْبَابُ الَّذِي إِلَی الْمَغْرِبِ یُسَمَّی الْمُسْتَجَارَ۔[81]
امام جعفر صادق(ع) فرماتے ھیں :
”جنا ب ابراھیم خلیل ںنے کعبہ کی تعمیر فرمائی اور اس کے لئے دو دروازے بنائے،ایک در مشرق کی طرف ،اور ایک در مغرب کی طرف،جودر مغرب کی طرف ھے اسے مستجار کھتے ھیں‘ ‘۔

رکن یمانی
رَاٴَیْنٰاکَ تُکْثِرُ اِسْتِلاٰمَ الرُّکْنِ الْمَیٰانیِّ فَقَالَ: مٰا اَتَیْتُ عَلَیْہِ قَطُّ اِلاّٰ وَجَبْرَئیلُ قٰائِمٌ عِنْدَہُ یَسْتَغْفِرُ لِمَنْ اسْتَلَمَہُ۔[82]
عطا کھتے ھیں :
” لوگوں نے حضرت رسول خد ا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کھا ھم بھت دیکھتے ھیں کہ آپ(ص)رکن یمانی کا بوسہ لے رھے ھیں فرمایا:میں ھر گز رکن یمانی کے پاس نھیں آیا مگر یہ کہ میں نے دیکھاکہ جبرئیل (ع)وھاں کھڑے ھیں اور جولوگ اسے چوم رھے ھیں ان کے لئے مغفرت کی دعا کر رھے ھیں “۔

سعی کی جگہ
عَنْ اٴَبِي بَصِیرٍ قَالَ:
سَمِعْتُ اٴَبَا عَبْدِ اللّٰہِ (ع)یَقُولُ:
مَا مِنْ بُقْعَةٍ اٴَحَبَّ إِلَی اللّٰہِ مِنَ الْمَسْعَیٰ لِاٴَنَّہُ یُذِلُّ فِیھَا کُلَّ جَبَّارٍ۔[83]
امام جعفر صادق (ع)نے فرمایا:”کوئی بھی جگہ خدا وند عالم کے نزدیک سعی کی جگہ سے محبوب اور پسندیدہ نھیں ھے کیونکہ وھاں ھر جبار وستم گر ذلیل خوارهوتا ھے “۔

مقبول شفاعت
قَالَ عَلِيُّبْنُ الْحُسَیْنِ (ع):
السَّاعِي بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ تَشْفَعُ لَہُ
الْمَلاٰئِکَةُ فَتُشَفَّعُ فِیہِ بِالإِیجَابِ۔[84]
امام زین العابدین (ع)فرماتے ھیں :
”فرشتہ صفاو مروہ کے درمیان سعی کرنے والے کی(خدا سے) شفاعت طلب کرتے ھیں اور ان کی دعا قبولهوتی ھے ‘ ‘ ۔

ھرولہ
عَنْ اٴَبِي عَبْدِ اللّٰہِ(ع) قَالَ:
صَارَ السَّعْیُ بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ لِاٴَنَّ إِبْرَاہِیمَ عَرَضَ لَہُ إِبْلِیسُ فَاٴَمَرَہُ جَبْرَئِیلُ(ع)، فَشَدَّ عَلَیْہِ فَھَرَبَ مِنْہُ،فَجَرَتْ بِہِ السُّنَّةُ - یعنی بالْھَرْوَلَة -[85]
امام جعفر صادق (ع)نے فرمایا:
”صفاو مروہ کے درمیان سعی میں (ھرولہ)اس لئے ھے کہ ابلیس نے خود کو وھاں جناب ابراھیم (ع) پر ظاھر کیا اس وقت جبرئیل (ع)نے جناب ابراھیم (ع) کو شیطان پر حملہ کا حکم دیا آپ (ع) نے اس پر حملہ کیا تو وہ بھاگااس وجہ سے ھرولہ سنت بن گیا “۔

صفا ومروہ کے درمیان بیٹھنا
عَنْ اٴَبِي عَبْدِ اللّٰہِ (ع):
لاٰ یَجْلِسُ بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ إِلاَّ مَنْ جَھَدَ۔[86]
امام جعفرصادق(ع) نے فرمایا:
”صفاو مروہ کے درمیان نہ بیٹھے مگر وہ شخص جو تھک جائے ‘ ‘ ۔

اھل عرفات پر فخر
قال رسول اللہ (ص):
”إنّ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ یُباھي مَلائِکَتَہُ عَشِیَّةَ عَرَفَة بِاَھْلِ عَرَفَةَ فَیَقُولُ:
اُنْظُرُوا اِلی عِبادي اٴتَوْني شُعْثاً غُبْراً“۔[87]
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”بلا شبہ خدا وند عالم روز عرفہ کے عصر کے وقت اھل عرفات کے سلسلہ میں فرشوں سے فخر ومباھات کرتا ھے اور فرماتا ھے :میرے بندوں کو دیکھو جو پریشاں حال اور غبار آلود میرے پاس آئے ھیں“۔

مشعر الحرام
قال رسول اللہ(ص): - وَھُوَ بِمنیٰ -:
”لَوْ یَعْلَمُ اَہْلُ الجَمْعَ بِمَنْ حَلُّوا اٴَوْبِمَنْ نَزَلُوا لاَ سْتَبْشَرُوا بالفَضْلِ مِنْ رَبِّھِمْ بَعْدَ المَغْفِرَةِ“۔[88]
رسول خدا (ص)جب منیٰ میںتشریف فرماتھے آپ(ص) نے فرمایا: ”اگر اھل مشعر جان لیتے کہ کس کی بارگاہ میں آئے ھیں اور کس لئے آئے ھیں تو مغفرت اور بخشش کے بعد خدا کے فضل کی بنا پر وہ ایک دوسرے کو بشارت دیتے “۔

منیٰ
قال الصادق(ع):
”إِذَا اٴَخَذَ النَّاسُ مَوَاطِنَھُمْ بِمِنًی،نَادَی مُنَادٍمِنْ قِبَلِ اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ:إِنْ اٴَرَدْتُمْ اٴَنْ اٴَرْضَی فَقَدْ رَضِیتُ“۔ [89]
امام جعفر صادق(ع) فرماتے ھیں :
”جب لوگ منیٰ میں اپنی جگہ ٹھھر جاتے ھیں تو منادی
خداوند عالم کی جانب سے ندا دیتا ھے اگر تم یہ چاھتے تھے کہ میں تم سے راضیهو جاوٴں تو میں تم سے راضیهو گیا “۔

شیطا ن کو کنکریاں مارنا
قالَ الصَّادِقُ(ع):
”إنَّ عِلَّةَ رَمْيِ الْجَمَراٰتِ اٴَنَّ إِبْراہِیم(ع) تَراء یٰ لَہُ إِبْلِیسُ عِنْدھٰا فَاٴمَرہُ جَبْرائیلُ بِرَمْیِہ بِسَبعِ حَصَیاتٍ وَاٴَنْ یُکَبِّر مَعَ کُلِّ حَصَاةٍ فَفَعَلَ وَجَرَتْ بِذلِکَ السُّنَةِ“۔[90]
امام جعفر صادق(ع) فرماتے ھیں :
”ان جمرات کوکنکریاں مارنے کی وجہ یہ ھے کہ ابلیس وھاں پر حضرت ابراھیم (ع) کے سامنے ظاھرهوا اس وقت جبرئیل (ع) نے جناب ابراھیم (ع) کو حکم دیا کے سات کنکریوں سے شیطا ن کو ماریں اور ھر کنکری پر تکبیر بھی کھیں جناب ابراھیم (ع) نے ایسا ھی کیا اور اس کے بعد سے یہ سنت بن گئی“۔

قربانی
عن اٴبی جعفر (ع)قال: قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ (ص):
إِنَّمَا جَعَلَ اللّٰہُ ھَذَا الْاٴَضْحَی لِتَشْبَعَ مَسَاکِینُھُمْ مِنَ اللَّحْمِ فَاٴَطْعِمُوھُمْ“۔[91]
امام محمد باقر (ع)فرماتے ھیں :
”کہ رسو ل خدا (ص)نے فرمایا :خدا وند عالم نے اس قربانی کو واجب قرار دیا ھے تاکہ بے نوا اور مسکین لوگ گوشت سے استفادہ کریں اور سیرهوں پس انھیں کھلاوٴ “۔

مغفرت طلب کرنا
قال الصادق(ع):
”اِسْتَغْفَرَ رَسُولُ اللّٰہِ لِلْمُحَلِّقِینَ ثَلاٰثَ مَرَّاتٍ“۔[92]
امام جعفر صادق(ع) فرماتے ھیں :
”کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منیٰ میں سر مڈانے والوں کے لئے تین مرتبہ استغفار کیا (اور خدا سے ان کے لئے بخشش طلب کی)ھے“۔

حج کے اسرار
عالم جلیل سید عبد اللہ مرحوم محدث جزائری کے پوتوں سے نقل کرتےهوئے کتاب شرح نخبہ میں تحریر کرتے ھیں :
متعدد ما خذ میں جن پر میری تائید ھے بعض بزرگوں کی تحریر میں یہ حدیث مرسل اس طرح نقلهوئی ھے کہ شبلی حج انجام دینے کے بعد امام زین العابدین ںکی زیارت کو آئے تو حضرت (ع) نے ان سے فرمایا:
حَجَجْتَ یَا شَبْلِیُّ؟
قَالَ:نَعَمْ یَا ابْنَ رَسُولِ اللّٰہِ فَقَالَ(ع):اٴَنَزَلْتَ الْمِیقَاتَ وَ تَجَرَّدْتَ عَنْ مَخِیطِ الثِّیَابِ وَاغْتَسَلْتَ؟ قَالَ:نَعَمْ،
قَالَ:فَحِینَ نَزَلْتَ الْمِیقَاتَ نَوَیْتَ اٴَنَّکَ خَلَعْتَ ثَوْبَ الْمَعْصِیَةِ وَلَبِسْتَ ثَوْبَ الطَّاعَةِ؟ قَالَ:لاٰ،
قَالَ:فَحِینَ تَجَرَّدْتَ عَنْ مَخِیطِ ثِیَابِکَ نَوَیْتَ اٴَنَّکَ تَجَرَّدْتَ مِنَ الرِّیَاءِ وَالنِّفَاقِ وَالدُّخُولِ فِي الشُّبُھَاتِ؟قَالَ:لاٰ،
قَالَ:فَحِینَ اغْتَسَلْتَ نَوَیْتَ اٴَنَّکَ اغْتَسَلْتَ مِنَ الْخَطَایَا وَالذُّنُوبِ؟قَالَ:لاٰ،
قَالَ:فَمَا نَزَلْتَ الْمِیقَاتَ وَلاٰ تَجَرَّدْتَ عَنْ مَخِیطِ الثِّیَابِ وَلاٰ اغْتَسَلْتَ،
اے شبلی! کیا تم نے حج کر لیا؟عرض کیا ھاں اے فرزند رسول خدا! فرمایا:کیا تم میقات میں ٹھھرے اور اپنے سلےهوئے لباس کو جسم سے اتار کر غسل کیا؟ شبلی نے جواب دیا، ھاں۔امام نے پوچھا جب تم میقات میںداخلهوئے تو کیا یہ نیت کی کہ میں نے گناہ اور نافرمانی کا لباس اتار دیا ھے اور خدا کی اطاعت و فرمانبرداری کا لباس پہن لیا ھے ؟
شبلی: نھیں۔امام نے پوچھا:جب تم نے اپنا سلاهوا لباس اتارا تو کیا یہ نیت کی تھی کہ خود کو ریا ،دوروئی اور شبھات وغیرہ سے دور کر رھےهو ؟شبلی نھیں:
امام (ع): غسل کرتے وقت کیا تم نے یہ نیت کی تھی کہ خود کو خطاوٴں اور گناہوں سے پاک کر رھےهو؟شبلی نھیں :
امام (ع):(پس در حقیقت تم ) نہ میقات میں واردهوئے اور نہ تم نے سلاهوا لباس اتارا اور نہ غسل کیا ھے “۔
ثُمَّ قَالَ:تَنَظَّفْتَ وَاٴَحْرَمْتَ وَعَقَدْتَ بِالْحَجِّ، قَالَ:نعم۔قَالَ: فَحِینَ تَنَظَّفْتَ وَاٴَحْرَمْتَ وَ عَقَدْتَ الْحَجَّ نَوَیْتَ اٴَنَّکَ تَنَظَّفْتَ بِنُورَةِ التَّوْبَةِ الْخَالِصَةِ لِلَّہٰ تَعَالیَ؟قَالَ لاٰ،قَالَ:فَحِینَ اٴَحْرَمْتَ نَوَیْتَ اٴَنَّکَ حَرَّمْتَ عَلَی نَفْسِکَ کُلَّ مُحَرَّمٍ حَرَّمَہُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ؟قَالَ:لاٰ،
قَالَ:فَحِینَ عَقَدْتَ الْحَجَّ نَوَیْتَ اٴَنَّکَ قَدْ حَلَلْتَ کُلَّ عَقْدٍ لِغَیْرِ اللّٰہِ؟قَالَ:لاٰ،
قَالَ لَہُ(ع):مَا تَنَظَّفْتَ وَلاٰاٴَحْرَمْتَ وَلاٰ عَقَدْتَ الْحَجَّ ،
”اس کے بعد امام(ع) اس سے پوچھتے ھیں، کیا تم نے خودکو پاک صاف کیا اور احرام پہنا اور حج کا عھد وپیمان کیا (یعنی حج کی نیت کی)شبلی: ھاں
امام (ع): کیا تم یہ نیت کی تھی کہ خود کو خالص توبہ کے نور ہ سے پاکیزہ کر رھےهو؟شبلی :نھیں
امام (ع):احرام باندھتے وقت کیا تم نے یہ نیت کی تھی کہ جو کچھ خدا نے تمھیں کرنے سے روکا ھے اسے اپنے آپ پر حرام سمجھو؟شبلی:نھیں۔ امام: حج کا عھد کرتے وقت کیا تم نے یہ نیت کی تھی کہ تم نے ھر غیر الٰھی عھد وپیمان سے خودکو رھا کر لیا ھے؟ شبلی: نھیں۔
امام(ع) :پھرتم نے احرام نھیں باندھا پاکیزہ نھیںهوئے اور حج کی نیت نھیںکی “۔
قَالَ لَہُ: اٴَدَخَلْتَ الْمِیقَاتَ وَصَلَّیْتَ رَکْعَتَيِ الْإِحْرَامِ وَلَبَّیْتَ؟ قَالَ:نَعَمْ،
قَالَ:فَحِینَ دَخَلْتَ الْمِیقَاتَ نَوَیْتَ اٴَنَّکَ بِنِیَّةِ الزِّیَارَةِ؟قَالَ:لاٰ۔
قَالَ:فَحِینَ صَلَّیْتَ الرَّکْعَتَیْنِ نَوَیْتَ اٴَنَّکَ تَقَرَّبْتَ إِلَی اللّٰہِ بِخَیْرِ الْاٴَعْمَالِ مِنَ الصَّلاٰةِ وَاٴَکْبَرِ حَسَنَاتِ الْعِبَادِ؟ قَالَ:لا،
قَالَ:فَحِینَ لَبَّیْتَ نَوَیْتَ اٴَنَّکَ نَطَقْتَ لِلّٰہِ سُبْحَانَہُ بِکُلِّ طَاعَةٍ وَصُمْتَ عَنْ کُلِّ مَعْصِیَةٍ؟ قَالَ:لاٰ ،
قَالَ لَہُ(ع): مَا دَخَلْتَ الْمِیقَاتَ وَلاٰ صَلَّیْتَ وَلاٰ لَبَّیْتَ،
”اس کے بعد امام (ع)نے پوچھا :کیا تم میقات میں داخلهوئے اور دو رکعت نماز احرام ادا کی اور لبیک کھی ؟شبلی:ھاں۔
امام (ع):میقات میں داخلهوتے وقت کیا تم نے زیارت کی نیت کی؟ شبلی: نھیں۔
امام (ع):کیا دو رکعت نماز پڑھتے وقت تم نے یہ نیت کی تھی کہ تم بھترین اعمال اور بندوں کے بھترین حسنات یعنی نماز کے ذریعہ خدا سے قریبهو رھےهو؟شبلی: نھیں۔
امام (ع):پس لبیک کھتے وقت کیا تم نے یہ نیت کی تھی کہ خدا کی خالص فرمانبر داری کی بات کر رھےهواور ھر معصیت سے خاموشی اختیار کر رھےهو؟شبلی: نھیں ۔
امام (ع)نے فرمایا:پھر نہ تم میقات میں داخلهوئے نہ نماز پڑھی اور نہ لبیک کھی “۔
ثُمَّ قَالَ لَہُ:اٴَدَخَلْتَ الْحَرَمَ وَرَاٴَیْتَ الْکَعْبَةَ وَصَلَّیُتَ؟ قَالَ:نَعَمْ،
قَالَ :فَحِینَ دَخَلْتَ الْحَرَمَ نَوَیْتَ اٴَنَّکَ حَرَّمْتَ عَلَی نَفْسِکَ کُلَّ غَیْبَةٍ تَسْتَغِیبُھَا الْمُسْلِمِینَ مِنْ اٴَہْلِ مِلَّةِ الْإِسْلاٰمِ؟قَالَ:لاٰ۔
قَالَ فَحِینَ وَصَلْتَ مَکَّةَ نَوَیْتَ بِقَلْبِکَ اٴَنَّکَ قَصَدْتَ اللّٰہَ؟ قَالَ:لاٰ۔
قَالَ(ع):فَمَا دَخَلْتَ الْحَرَمَ وَلاٰ رَاٴَیْتَ الْکَعْبَةَوَلاٰ صَلَّیْتَ،
”امام (ع) نے پھر پوچھا :کیا تم حرم میں داخلهوئے، کعبہ کو دیکھا اور نماز ادا کی ؟شبلی :ھاں۔
امام(ع) :حرم میں داخلهوتے وقت کیا تم نے یہ نیت کی تھی کہ اسلامی معاشرہ کے مسلمانوں کی غیبت کو اپنے اوپر حرام کرتےهو ؟ شبلی: نھیں۔
امام (ع):مکہ پہنچتے وقت کیا تم نے یہ نیت کی کہ صرف خدا کو چاھتےهو ؟شبلی:نھیں۔
امام (ع):پھر نہ تم حرم میں واردهوئے اور نہ کعبہ کا دیدار کیا اور نہ نماز ادا کی “۔
ثُمَّ قَالَ:طُفْتَ بِالْبَیْتِ وَمَسَسْتَ الْاٴَرْکَانَ وَسَعَیْتَ؟قَالَ:نَعَمْ۔
قَالَ(ع):فَحِینَ سَعَیْتَ نَوَیْتَ اٴَنَّکَ ھَرَبْتَ إِلَی اللّٰہِ وَعَرَفَ مِنْکَ ذٰلِکَ عَلاَّمُ الْغُیُوبِ؟قَالَ:لاٰ ۔
قَالَ فَمَا طُفْتَ بِالْبَیْتِ وَلاٰ مَسِسْتَ الْاٴَرْکَانَ وَلاٰ سَعَیْتَ۔
”پھر امام نے پوچھا :کیا تم نے خانہ خدا کا طواف کیا ارکان کو مس کیا اور سعی انجام دی ؟شبلی :ھاں۔
امام (ع):سعی کرتے وقت کیا تمھاری یہ نیت تھی کہ شیطان اور اپنے نفس سے بھاگ کر خدا کی پناہ حاصل کرتےهواور وہ غیب سے سب سے زیادہ آگاہ ھے وہ اس بات کو جانتا ھے ؟ شبلی:نھیں۔
امام (ع):پھر نہ تم نے خانہ خدا کاطواف کیا نہ ارکان مس کئے اور نہ سعی کی،
ثُمَّ قَالَ لَہُ:صَافَحْتَ الْحَجَرَوَ وَقَفْتَ بِمَقَامِ إِبْرَاہِیمَ(ع) وَصَلَّیْتَ بِہَ رَکْعَتَیْنِ؟قَالَ:نَعَمْ فَصَاحَ (ع)صَیْحَةً کَادَ یُفَارِقُ الدُّنْیَا ثُمَّ قَالَ:آہِ آہِ۔
ثُمَّ قَالَ(ع):مَنْ صَافَحَ الْحَجَرَ الْاٴَسْوَدَ فَقَدْ صَافَحَ اللّٰہَ تَعَالَی،فَانْظُرْ یَامِسْکِینُ لاٰ تُضَیِّعْ اٴَجْرَ مَا عَظُمَ حُرْمَتُہُ،وَتَنْقُضِ الْمُصَافَحَةَ بِالْمُخَالَفَةِ،وَقَبْضِ الْحَرَامٍ نَظِیرَ اٴَہْلِ الْآثَامِ۔
ثُمَّ قَالَ(ع):نَوَیْتَ حِینَ وَقَفْتَ عِنْدَ مَقَامِ إِبْرَاہِیمَ(ع)اٴَنَّکَ وَقَفْتَ عَلَی کُلِّ طَاعَةٍ وَتَخَلَّفْتَ عَنْ کُلِّ مَعْصِیَةٍ؟قَالَ:لاٰ۔
قَالَ:فَحِینَ صَلَّیْتَ فِیہِ رَکْعَتَیْنِ نَوَیْتَ اٴَنَّکَ صَلَّیْتَ بِصَلاٰةِ إِبْرَاہِیمَ(ع)،وَاٴَرْغَمْتَ بِصَلاٰتِکَ اٴَنْفَ الشَّیْطَانِ؟قَالَ:لاٰ۔
قَالَ لَہُ:فَمَا صَافَحْتَ الْحَجَرَ الْاٴَسْوَدَ وَلاٰ وَقَفْتَ عِنْدَ الْمَقَامِ وَلاٰ صَلَّیْتَ فِیہِ رَکْعَتَیْنِ۔
”امام(ع) نے دریافت فرمایا:کیا تم نے حج اسود سے مصافحہ کیا، مقام ابراھیم (ع) کے نزدیک کھڑےهوئے اوردو رکعت نماز ادا کی ؟شبلی: ھاں،
پس امام (ع):نے فریا د بلند کی ایسا لگتا تھا کہ آپ (ع) دنیا سے ھی کو چ کرجانے والے ھیں اس کے بعد فرمایا :آہ ،آہ۔۔۔۔
پھر فرمایا :جو حجر اسود کو لمس کرے اس نے خدا سے مصافحہ کیا پس اے مسکین !دیکھ اس عظیم حرمت وعزت کو ضائع نہ کر اور مصافحہ کو مخالفت اور گناہکاروں کے مانند حرام کاری کے ذریعہ نہ توڑ اس کے بعد پوچھا : جب تم مقام ابراھیم (ع)کے نزدیک گئے تو کیا تمھاری نیت یہ تھی کہ خدا کے تمام احکام وفرامین کی پابندی اور ھر معصیت ونافرمانی کی مخالفت کرو گے؟شبلی :نھیں
امام (ع):جب تم نے طواف کی دور کعت نماز ادا کی تو کیا یہ نیت تھی کہ تم نے جناب ابراھیم کے ھمراہ نماز پڑھی ھے اور شیطان کی ناک کو خاک پر رگڑدیاھے ؟شبلی:نھیں۔
امام(ع):پھر درحقیقت نہ تم نے حجر اسود کا مصافحہ کیا نہ مقام ابراھیم کے پاس کھڑےهوئے اور نہ وھاں دو رکعت نماز اداکی ۔
ثُمَّ قَالَ(ع):لَہُ اٴَشْرَفْتَ عَلَی بِئْرِ زَمْزَمَ وَ شَرِبْتَ مِنْ مَائِھَا؟ قَالَ:نَعَمْ۔
قَالَ نَوَیْتَ اٴَنَّکَ اٴَشْرَفْتَ عَلَی الطَّاعَةِ، وَغَضَضْتَ طَرْفَکَ عَنِ الْمَعْصِیَةِقَالَ:لاٰ۔
قَالَ(ع):فَمَا اٴَشْرَفْتَ عَلَیْھَا وَلاٰ شَرِبْتَ مِنْ مَائِھَا۔
پھرامام(ع) نے پوچھا :کیا تم چاہ زمزم پر گئے اور اس کا پانی پیا؟ شبلی: ھاں
امام (ع)نے فرمایا :کیا تم نے یہ نیت کی تھی کہ تم نے خدا کی فرماں برداری حاصل کر لی اور اس کے گناہوں اور معصیت سے آنکھیں بند کر لی ھیں؟شبلی:
نھیں
امام (ع)نے فرمایا :پھر درحقیقت نہ تم چاہ زمزم پر گئے اور نہ اس کا پانی پیا ھے “۔
ثُمَّ قَالَ لَہُ(ع):اٴَسَعَیْتَ بَیْنَ الصَّفَاوَالْمَرْوَةِ وَمَشَیْتَ وَتَرَدَّدْتَ بَیْنَھُمَا؟قَالَ:نَعَمْ۔
قَالَ لَہُ:نَوَیْتَ اٴَنَّکَ بَیْنَ الرَّجَاءِ وَالْخَوْفِ؟ قَالَ:لاٰ۔
قَالَ:فَمَاسَعَیْتَ وَلاٰمَشَیْتَ وَلاٰتَرَدَّدْتَ بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ۔ ثُمَّ قَالَ:اٴَخْرَجْتَ إِلٰی مِنیٰ؟ قَالَ: نَعَمْ،قَالَ: نَوَیْتَ اٴَنَّکَ آمَنْتَ النَّاسَ مِنْ لِسَانِکَ وَقَلْبِکَ وَیَدِکَ؟قَالَ:لاٰ،قَالَ:فَمَا خَرَجْتَ إِلٰی مِنًی۔
ثُمَّ قَالَ:لَہُ اٴَوَقَفْتَ الْوَقْفَةَ بِعَرَفَةَ،وَطَلَعْتَ جَبَلَ الرَّحْمَةِ، وَعَرَفْتَ وَادِيَ نَمِرَةَ،وَدَعَوْتَ اللّٰہَ سُبْحَانَہُ عِنْدَالْمِیْلِ وَالْجَمَرَاتِ؟قَالَ:نَعَمْ،قَالَ:ھَلْ عَرَفْتَ بِمَوْقِفِکَ بِعَرَفَةَمَعْرِفَةَ اللّٰہِ سُبْحَانَہُ اٴَمْرَ الْمَعَارِف وَالْعُلُومِ وَعَرَفْتَ قَبْضَ اللّٰہِ عَلٰی صَحِیفَتِکَ وَ اطِّلاٰعَہُ عَلَی سَرِیرَ تِکَ وَقَلْبِکَ؟قَالَ:لاٰ،قَالَ نَوَیْتَ بِطُلُوعِکَ جَبَلَ الرَّحْمَةِ اٴَنَّ اللّٰہَ یَرْحَمُ کُلَّ مُوٴْمِنٍ وَ مُوٴْمِنَةٍ وَیَتَوَلَّی کُلَّ مُسْلِمٍ وَمُسْلِمَةٍ؟ قَالَ: لاٰ، قَالَ: فَنَوَیْتَ عِنْدَ نَمِرَةَ اٴَنَّکَ لاٰ تَاٴْمُرُ حَتَّی تَاٴْتَمِرَ،وَلاٰ تَزْجُرُ حَتَّی تَنْزَجِرَ؟ قَالَ: لاٰ، قَالَ:فَعِنْدَمَا وَقَفْتَ عِنْدَ الْعَلَمِ وَالنَّمِرَاتِ، نَوَیْتَ اٴَنَّھَا شَاھِدَةٌ لَکَ عَلَی الطَّاعَاتِ حَافِظَةٌ لَکَ مَعَ الْحَفَظَةِبِاٴَمْرِ رَبِّ السَّمَاوَاتِ؟قَالَ:لاٰ،قَالَ:فَمَا وَقَفْتَ بِعَرَفَةَ،وَلاٰ طَلَعْتَ جَبَلَ الرَّحْمَةِ،وَلاٰ عَرَفْتَ نَمِرَةَ، وَلاٰدَعَوْتَ، وَلاٰ وَقَفْتَ عِنْدَ النَّمِرَاتِ۔
”پھرامام (ع) نے کیا تم نے دریافت کیا، صفاو مروہ کے درمیان سعی انجام دی اور پید ل ان دو پھاڑوں کے درمیان راہ طے کی ھے ؟ شبلی :ھاں
امام (ع): کیا تم نے یہ نیت کی تھی کہ خوف ورجاء کے درمیان راہ طے کر رھےهو؟شبلی:نھیں
امام (ع):پس تم نے صفاو مروہ کے درمیان سعی نھیں کی پھر فرمایا کیا تم منیٰ کی طرف گئے ؟شبلی:ھاں
امام (ع):کیا تمھاری یہ نیت تھی کہ لوگوں کو اپنی زبان اپنے دل اور اپنے ھاتھوں سے امان میں رکھو؟شبلی :نھیں
امام (ع):پھر تم منیٰ نھیں گئےهو۔ اس کے بعد پوچھا :کیا تم نے عرفات میں وقوف کیا اور جبل رحمت کے اوپر گئے اور وادی نمرہ کو پہچانااور جمرات کے کنارے خدا سے دعاکی ؟شبلی:ھاں
امام (ع)نے فرمایا:آیا عرفات میں وقوف کے وقت تمھیں معارف و علوم کے ذریعہ اللہ کی معرفتهوئی اور کیا تم نے جانا کہ اللہ تمھارے نامہٴ عمل کولے گا اور وہ تمھاری فکر و خیال سے آگاھی رکھتا ھے ؟شبلی:نھیں
امام :کیا جبل رحمت کے اوپر جاتے وقت تمھاری یہ نیت تھی کہ خداوند عالم ھر با ایمان مرد وزن پر رحمت نازل کرتا ھے اور ھر مسلمان مردوزن کی سرپرستی کرتا ھے ؟شبلی:نھیں
امام :آیا وادی نمرہ میں تم نے یہ خیال کیا کہ کوئی حکم نہ دو جب تک خود فرمانبردار نہهوجاوٴاور نھی نہ کرو جب تک خود کو نہ روکو؟ شبلی:نھیں
جب تم نشان اور نمرہ کے نزدیک ٹھھرے تو کیا تمھاری یہ نیت تھی کہ وہ تمھاری عبادات اور طاعت پر گوا ہهوں اور خداوندعالم کے نگھبانوں کے ھمراہ اس کے حکم سے تیری حفاظت کریں؟ شبلی:نھیں
حضرت نے فرمایا:پھر نہ تم عرفات میں ٹھھرے نہ جبل رحمت کے اوپر گئے نہ نمرہ کو پہچانا نہ دعا کی اور نہ نمرہ کے نزدیک وقوف کیاھے۔
ثُمَّ قَالَ:مَرَرْتَ بَیْنَ الْعَلَمَیْنِ،وَصَلَّیْتَ قَبْلَ مُرُورِکَ رَکْعَتَیْنِ،وَمَشَیْتَ بِمُزْدَلِفَةَ، وَل َقَطْتَ فِیھَا الْحَصَی،وَمَرَرْتَ بِالْمَشْعَرِ الْحَرَامِ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَحِینَ صَلَّیْتَ رِکْعَتَیْنِ،نَوَیْتَ اٴَنَّھَا صَلاٰةُ شُکْرٍ فِي لَیْلَةِ عَشْرٍ،تَنْفِی کُلَّ عُسْرٍ، وَتُیَسِّرُ کُلَّ یُسْرٍ؟ قَالَ: لاٰ،قَالَ:فَعِنْدَ مَامَشَیْتَ بَیْنَ الْعَلَمَیْنِ،وَلَمْ تَعْدِلْ عَنْھُمَا یَمِیناً وَشِمَالاً،نَوَیْتَ اٴَنْ لاٰ تَعْدِلَ عَنْ دِینِ الْحَقِّ یَمِیناً وَشِمَالاً،لاٰ بِقَلْبِکَ،وَلاٰ بِلِسَانِکَ،وَلاٰبِجَوَارِحِکَ، قَالَ:لاٰ، قَالَ:فَعِنْدَ مَا مَشَیْتَ بِمُزْدَلِفَةَ وَلَقَطْتَ مِنْھَا الْحَصَی،نَوَیْتَ اٴَنَّکَ رَفَعْتَ عَنْکَ کُلَّ مَعْصِیَةٍ،وَ جَھْلٍ،وَثَبَّتَّ کُلَّ عِلْمٍ وَعَمَلٍ؟قَالَ:لاٰ،قَالَ:فَعِنْدَ مَا مَرَرْتَ بِالْمَشْعَرِ الْحَرَامِ،نَوَیْتَ اٴَنَّکَ اٴَشْعَرْتَ قَلْبَکَ إِشْعَارَ اٴَہْلِ التَّقْویٰ وَالْخَوْفَ لِلّٰہِ عَزَّوَجَلَّ؟ قَالَ:لاٰ،قَالَ:فَمَا مَرَرْتَ بِالْعَلَمَیْنِ،وَلاٰ صَلَّیْتَ رِکْعَتَیْنِ،وَلاٰ مَشَیْتَ بِالْمُزْدَلِفَةِ،وَلاٰ رَفَعْتَ مِنْھَا الْحَصَی،وَلاٰ مَرَرْتَ بِالْمَشْعَرِ الْحَرَامِ۔
پھرامام نے پوچھا کہ کیا تم دونشانوں کے درمیان سے گذرے اور وھاں سے گذرنے سے پھلے دورکعت نماز اداکی اور پیدل مذدلفہ گئے اور وھاں کنکریاں چنیں اور مشعر الحرام سے گذرے؟شبلی:ھاں
امام نے فرمایا:جب دورکعت نماز اداکی تو کیا یہ نیت کی تھی کہ یہ نماز شب دھم کی نماز شکر ھے جو ھر سختی کو دور اور کاموں کو آسان کرتی ھے ؟ شبلی:نھیں
امام :جب تم دو نشانوں کے درمیان سے گذرے اور دائیں اور بائیں منحرف نھیںهوئے تو کیا یہ نیت کی تھی کہ دین حق سے دائیں اور بائیں نہ دل سے نہ زبان سے اور نہ اپنے اعضاء بدن سے منحرف نھیںهوئےهو؟شبلی:نھیں
امام :جب تم مذدلفہ گئے اور وھاں سنگریزے جمع کئے تو کیا یہ نیت کی تھی کہ ھر گناہ اور جھالت کو خود سے دور کیاھے اور ھر علم و نیک عمل کو اپنے آپ میں پائےدار کیا ھے؟شبلی:نھیں
امام :جب تم مشعر الحرام سے گذرے تو کیا یہ نیت کی تھی کہ اپنے دل کو اھل خدا کے تصور اور خدا کے خوف سے آراستہ کرو؟شبلی:نھیں
امام :پھر نہ تم دو پھاڑوں کے درمیان سے گذرےهو، نہ دورکعت نماز ادا کی ھے ،نہ مذدلفہ گئےهو ،نہ سنگریزے چنے ھیںاور نہ مشعر الحرام سے گذرےهو“۔
ثُمَّ قَالَ لَہُ:وَصَلَّتَ مِنٰی،وَرَمَیْتَ الْجَمْرَةَ، وَحَلَقْتَ رَاٴْسَکَ، وَذَبَحْتَ ھَدْیَکَ،وَصَلَّیْتَ فِي مَسْجِدِ الْخَیْفِ،وَرَجَعْتَ إِلَی مَکَّةَ،وَطُفْتَ طَوَافَ الْإِفَاضَةِ؟قَالَ:نَعَمْ،قَالَ:فَنَوَیْتَ عِنْدَ مَا وصَلْتَ مِنًی وَرَمَیْتَ الْجِمَارَ،اٴَنَّکَ بَلَغْتَ إلَی مَطْلَبِکَ،وَقَدْ قَضَی رَبُّکَ لَکَ کُلَّ حَاجَتِکَ؟قَالَ:لاٰ، قَالَ:فَعِنْدَ مَا رَمَیْتَ الْجِمَارَنَوَیْتَ اٴَنَّکَ رَمَیْتَ عَدُوَّکَ إِبْلِیسَ وَغَضِبْتَہُ بِتَمَامِ حَجِّکَ النَّفِیسِ؟قَالَ:لاٰ،قَالَ:فَعِنْدَ مَا حَلَقْتَ رَاٴْسَکَ نَوَیْتَ اٴَنَّکَ تَطَھَّرْتَ مِنَ الْاٴَدْنَاسِ، وَمِنْ تَبِعَةِ بَنْی آدمَ،وَخَرَجْتَ مِنَ الذَّنُوبِ کَمَا وَلَدَتْکَ اٴُمُّکَ؟ قَالَ: لاٰ،قَالَ:فَعِنْدَ مَا صَلِّیْتَ فِي مَسْجِدِ الْخَیْفِ نَوَیْتَ اٴَنَّکَ لاٰ تَخَافُ إِلاَّ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ وَذَنْبَکَ،وَلاٰ تَرْجُو إِلاَّ رَحْمَةَ اللّٰہِ تَعَالیَ؟ قَالَ:لاٰ،قَالَ:فَعِنْدَ مَا ذَبَحْتَ ھَدْیَکَ نَوَیْتَ اٴَنَّکَ ذَبَحْتَ حَنْجَرَةَ الطَّمَع بِمَا تَمَسَّکْتَ بِہِ مِنْ حَقِِیقَةِالْوَرَعِ،وَاٴَنَّکَ اتَّبَعْتَ سُنَّةَ إِبرَاہِیمَ بِذَبْحِ وَلَدِہِ،وَثَمَرَةِ فُوٴَادِہِ وَرَیْحَانِ قَلْبِہِ،وَحاَجَّہُ سُنَّتُہُ لِمَنْ بَعْدَہُ، وَقَرَّبَہُ إِلَی اللّٰہِ تَعَالیٰ؟لِمَنْ خَلْفَہُ قَالَ:لاٰ، قَالَ: فَعِنْدَمَا رَجَعْتَ إِلَی مَکَّةَ وَطُفْتَ طَوَافَ الْإِ فَاضَةِ نَوَیْتَ اٴَنَّکَ اٴَفِضْتَ مِنْ رَحْمَةِ۱للّٰہِ تَعَالَی،وَرَجَعْتَ إِلَی طَاعَتِہِ وَتَمَسَّکْتَ بِوُدِّہِ وَاٴَدَّیْتَ فَرَائِضہ،وَتَقَرَّبَتَ إِلَی اللّٰہِ تَعَالیٰ؟قَالَ:لاٰ،قَالَ: لَہُ زَیْنُ العابدین(ع) فَمَا وَصَلْتَ مِنًی وَلاٰرَمْیَتَ الْجِمَارَ،وَلاٰحَلَقْتَ رَاٴْسَکَ، وَلاٰ اٴَدَّیْتَ نُسُکَکَ،وَلاٰ صَلَّیْتَ فِي مَسْجِدِ الْخَیْفِ، وَلاٰ طُفْتَ طَوَافَ الْإِ فَاضَةِ،وَلاٰ تَقَرَّبْتَ۔اْرجِعْ فَإِنَّکَ لَمْ تَحُجَّ۔
”پھر امام (ع)نے پوچھا کیا تم منیٰ پہنچے اور جمرہ کو کنکریاں ماری ،سر کے بال اتارے،اور اپنی قربانی انجام دی؟ نیز مسجد خیف میں نماز ادا کی ، اور مکہ واپس آکر ”طواف افاضہ انجام دیا “؟شبلی:ھاں
امام (ع)نے فرمایا:جب تم منیٰ پہنچے اور رمی جمرات انجام دی تو کیا یہ محسوس کیا کہ تمھاری تمنا پوریهو گئی اور خدا وند عالم نے تمھاری تمام حاجتیں پوری کردیں ؟شبلی:نھیں
امام (ع):جب جمرات کو کنکریاں ماریں تو کیا یہ نیت تھی کہ اپنے دشمن ابلیس کو کنکری ماررھےهواور اپنے قیمتی حج کو مکمل کرنے کے ساتھ تم نے اسے غضب ناک کر دیا ھے؟شبلی:نھیں
امام(ع):جب تم نے اپنے سر کے بال اتارے توکیایہ نیت کی تھی کہ بنی آدم کے گناہوں اور آلودگیوں سے پاکهو گئے اور اپنے گناہوں سے یوںباھر آگئے جیسے تمھیں تمھاری ماں نے ابھی پیدا کیا ھے؟ شبلی:نھیں
امام (ع):جب تم نے مسجد خیف میں نماز ادا کی تو کیا تمھاری یہ نیت تھی کہ خدا ئے متعال اور گناہوں کے علاوہ کسی چیز سے نھیں ڈرتے اور خدا کی رحمت کے علاوہ کسی اور سے امیدوار نھیںهو؟شبلی:نھیں
امام(ع):جب تم نے اپنی قربانی کو ذبح کیا تو کیا یہ نیت تھی کہ حقیقی تقویٰ وپرھیز گاری کے ذریعہ تم نے اپنی لالچ کا گلا کاٹ دیا ھے اور جناب ابراھیم (ع)کہ جنھوں نے اپنے میوہٴ دل اور لخت جگر بیٹے کو قربان گاہ میں لا کر خدا سے قرب حاصل کرنے کا ایک وسیلہ اپنے بعد کی نسلوں کے لئے سنت کے طور پر قائم کیا تھا،ان کی پیروی کر رھےهو؟ شبلی: نھیں
امام(ع) :جب تم مکہ واپسهوئے اور ”طواف افاضہ“ انجام دیاتو کیا یہ نیت کی تھی کہ خدا کی رحمت سے کوچ کر کے اس کی اطاعت کی طرف پلٹ رھےهو،اس کی محبت حاصل کر لی ھے الٰھی واجبات ادا کئے ھیں اور خدا سے نزدیکهو گئےهو؟ شبلی: نھیں
امام :پھر نہ تم منیٰ پہنچے ،نہ شیطانوں کوسنگریزے مارے ھیں،نہ اپنے سر کے بال اتارے ھیں،نہ اپنے حج کے اعمال انجام دیئے ھیں،نہ مسجد خیف میںنماز ادا کی ھے،نہ طواف بجا لائےهواور نہ خدا کے قرب میں پہنچےهوواپس جاوٴ کہ تم نے حج انجام نھیں دیا ھے ۔
فَطَفِقَ الشِّبْلِیُّ یَبْکِی عَلَی مَافَرَّطَہُ فِي حَجِّہِ،وَمٰا زَالَ یَتَعَلَّمُ حَتَّی حَجَّ مِنْ قَابِلٍ بِمَعْرِفَةٍ وَیَقینٍ۔[93]
”جنا ب شبلی اس با ت پر بُری طرح رونے لگے کہ جیسا حج کرناچاہئے تھا انجام نھیں دیا اور مناسک حج آگاھی کے ساتھ ادا نھیں کئے آپ اپنی حالت پر شدت سے غم زدہ تھے اور اس کے بعد سے حج کے اسرار ومعارف یاد کرنے میں مشغولهو ئے تاکہ اگلے سال پوری شناخت اور یقین کے ساتھ حج بجالائےں“ ۔

ختم قرآن
قَالَ عَلِیُّ بْنُ الْحُسَیْنِ(ع):
تَسْبِیحَةٌ بِمَکَّةَ اٴَفْضَلُ مِنْ خَرَاجِ الْعِرَاقَیْنِ یُنْفَقُ فِي سَبِیلِ اللّٰہِ، وَقَالَ:مَنْ خَتَمَ الْقُرْآنَ بِمَکَّةَ لَمْ یَمُتْ حَتَّی یَریٰ رَسُولَ اللّٰہِ وَیَریٰ مَنْزِلَہُ فِي الْجَنَّةِ۔[94]
امام زین العابدین (ع):نے فرمایا:
”مکہ میں سبحان اللہ کہنے کا ثواب عراق اور شام کے مالیات کو خدا کی راہ میں انفاق کرنے سے بھتر ھے، نیز فرمایا:جو شخص مکہ میں ایک قرآن ختم کرے وہ اپنی موت سے پھلے حضرت رسول خدا (ص)کی زیارت کر لیتا ھے اور جنت میں اپنی جگہ کا مشاھدہ کر لیتا ھے “َ

کعبہ سے وداع
عَنْ اٴَبِي عَبْدِ اللّٰہِ (ع)قَالَ:
إِذَا اٴَرَدْتَ اٴَنْ تَخْرُجَ مِنْ مَکَّةَ وَتَاٴْ تِيَ اٴَھْلَکَ فَوَدِّعِ الْبَیْتَ وَطُفْ بِالْبَیْتِ اٴُسْبُوعاً۔[95]
معاویہ ابن عمار کھتے ھیں-کہ امام جعفر صادق ں نے فرمایا:
”جب تم مکہ سے نکل کر اپنے گھر والوں کی طرف واپس آنا چاہوتو کعبہ سے وداع کرو اور سات مرتبہ اس کے گرد طواف کرو“۔

قبولیت کی نشانی
قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ (ص):
آیَةُ قَبُولِ الْحَجِّ تَرْکُ مَا کَانَ عَلَیْہِ الْعَبْدُ مُقِیماً مِنَ الذُّنُوبِ۔[96]
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”حج کے قبولیت کی نشانی یہ ھے کہ جو گناہ بندہ پھلے انجام دیتا تھا اسے ترک کردے “۔

حج کی نورانیت
عَنْ اٴَبِي عَبْدِ اللّٰہِ(ع)قَالَ:
الْحَاجُّ لاٰ یَزَالُ عَلَیْہِ نُورُ الْحَجِّ مَا لَمْ یُلِمَّ بِذَنْبٍ۔[97]
امام جعفرصادق (ع)فرمایا:
”حج کرنے والا جب تک اپنے آپ کو گناہ سے آلودہ نہ کرے ، حج کا نورھمیشہ اس کے ساتھ رھتاھے“۔

دوبارہ آنے کی نیت
قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ (ص):
مَنْ اٴَرَادَ الدُّنْیَا وَالْآخِرَةَ فَلْیَوٴُمَّ ھَذَا الْبَیْتَ،وَ مَنْ رَجَعَ مِنْ مَکَّةَ وَھُوَ یَنْوِي الْحَجَّ مِنْ قَابِلٍ زِیدَ فِي عُمُرِہِ۔[98]
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”جو شخص دنیا وآخرت چاھتا ھے وہ اس گھر کی طرف آنے کا قصد کرے اور جو شخص مکہ سے واپسهو اوریہ نیت رکھے کہ اگلے سال بھی حج سے مشرفهوگا تو اس کی عمر میںاضافہهوتا ھے ‘ ‘ ۔

حج کی تکمیل
قالَ الصادِقُ(ع):
”اِذاحَجَّ اَحَدُکُمْ فَلْیَخْتِمْ حَجَّہُ بِزِیارَتِنَا لِاٴَ نَّ ذٰلِکَ مِنْ تَمامِ الحَجِّ“۔[99]
امام جعفر صادق (ع) اسماعیل ابن مھران سے فرماتے ھیں :
”جب بھی تم میں سے کوئی شخص حج انجام دے اسے چاہئے کہ اپنے حج کو ھماری زیارت پر تمام کرے کیونکہ یہ حج کے کاملهونے کی شرطوں میں سے ھے “۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زیارت
قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ (ص):
مَنْ حَجَّ فَزٰارَ قَبْری بَعْدَ مَوْتی کَانَ کَمَنْ زٰارَنی في حَیٰاتِی۔[100]
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”جس نے حج کیا اور میری موت کے بعد میری زیارت کی وہ اس شخص کے مانند ھے جس نے میری زندگی میں میر ی زیارت کی ھے“۔

پیغمبر (ص)کے ساتھ حج
”عَنْ اٴَبِي عَبْدِ اللّٰہِ(ع) قَالَ:
إِنَّ زِیٰارَةَ قَبْرِ رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تَعْدِلُ حَجَّةً مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ مَبْرُورَةً۔ [101]
امام محمد باقر(ع) فرماتے ھیں :
”بلا شبہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قبر کی زیارت (کاثواب) آنحضرت(ص) کے ساتھ کئے جانے والے ایک مقبول حج کے برابر ھے “۔

عاشقانہ زیارت
قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ (ص):
مَنْ جٰاءَ نی زٰائِراً لایَعْمَلُہُ حٰاجَةً اِلاّٰ زِیٰارَتی، کَانَ حَقّاً عَلَیَّ اَنْ اَکُونَ لَہُ شَفیعاً یَوْمَ الْقِیٰامَةِ۔ [102]
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :
”جو شخص میری زیارت کو آئے اور میری زیارت کے علاوہ کوئی اور کا م نہ کرے تو مجھ پر یہ حق ھے کہ میں روز قیامت اس کی شفاعت کروں“ ۔

فرشتو(ع) کی ماموریت
قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ (ص):
خَلَقَ اللّٰہُ تَعَالیٰ لَیْ مَلَکَیْنِ یَرُدَّانِ السَّلاٰمَ عَلٰی مَنْ سَلَّمَ عَلَیَّ مِنْ شَرْقِ البِلاٰدِ وَغَرْبِھٰا،اِلاّٰ مَنْ سَلَّمَ :
عَلَیَّ فی دٰاری فَاِنّی اَرُدُّ عَلَیْہِ السَّلاٰمَ بِنَفْسی۔[103]
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”خدا وند عالم نے میرے لئے دو فرشتے خلق فرمائے ھیں کہ جو شخص بھی مشرق ومغرب میں مجھے سلام کرتا ھے اور مجھ پر درود بھیجتا ھے وہ اس کا جواب دیتے ھیں مگر جو شخص میرے گھر آتا ھے اور مجھے سلام کرتا ھے تو میں خودا س کے سلام کا جواب دیتاهو ں “۔

مسجد النبی میں نماز
قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ (ص):
صَلاٰةٌ فِي مَسْجِدِي ھَذَا تَعْدِلُ عِنْدَ اللّٰہِ عَشَرَةَ آلاٰ فِ صَلاٰةٍ فِيغَیْرِہِ مِنَ الْمَسَاجِدِإِلاَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ فَإِنَّ الصَّلاٰةَ فِیہِ تَعْدِلُ مِائَةَ اٴَلْفِ صَلاٰةٍ۔[104]
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”میری مسجد میں نماز دوسری مسجدوں میں پڑھی جانے والی دس ہزار نمازوں کے برابر ھے سوائے مسجد الحرام کے کہ
اس میں پڑھی جانے والے نماز کا ثواب ایک لاکھ نماز کے برابر ھے “۔

جنت کا باغ
قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ (ص):
مَا بَیْنَ قَبْرِي وَمِنْبَرِي رَوْضَةٌ مِنْ رِیَاضِ الْجَنَّةِ،وَمِنْبَرِي عَلَی تُرْعَةٍ مِنْ تُرَعِ الْجَنَّةِ ۔[105]
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”میری قبر اور میرے منبر کے درمیان جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ھے اور میرا منبر جنت کے دریچوں میں سے ایک دریچہ کے اوپر ھے “۔

حضرت فاطمہ (ع)پرسلام
یزید ابن عبد الملک نے اپنے باپ سے سنا کہ اس کے دادا کھتے تھے کہ میں حضرت فاطمہ زھرا (ع) کی خدمت میں حاضرهواآپ (ع)نے مجھے سلام کیا اور اس کے بعد دریافت کیاکہ تم کس لئے یھاں آئےهو؟میں نے عرض کی،برکت کی درخواست کرنے ۔
قَالَتْ:اٴَخْبَرَنِي اٴَبِي وَھُوَ ذَا ھُوَ اٴَنَّہُ مَنْ سَلَّمَ عَلَیْہِ وَعَلَيَّ ثَلاٰثَہَ اٴَیَّامٍ اٴَوْجَبَ اللّٰہُ لَہُ الْجَنَّةَ۔
حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا نے فرمایا:
”میرے بابا نے مجھے خبر دی ھے کہ :جوشخص ان(ص)پر اور مجھ پرتین روز سلام کرے خدا وند عالم اس پر جنت واجب کردیتا ھے “۔
قُلْتُ لَھَا:فِي حَیَاتِہِ وَحَیَاتِکِ قَالَتْ نَعَمْ وَ بَعْدَ مَوْتِنَا۔[106]
”میں نے حضرت (ع)سے پوچھا :ان کی اورآپ (ع) کی حیات میں ؟ فرمایا: ھاں اور ھماری موت کے بعد بھی “۔

ائمہ (ع)پر سلام
قََالَ اٴَبُو جَعْفَرٍ(ع)،وَنَظَرَ النَّاسَ فِي الطَّوَافِ قَالَ:
اٴُمِرُوا اٴَنْ یَطُوفُوا بِھَذَا ثُمَّ یَاٴْتُونَافَیُعَرِّفوُنَا مَوَدَّتَھُمْ ثُمَّ یَعْرِضُوا عَلَیْنَا نَصْرَھُمْ“۔[107]
امام محمد باقر (ع) نے،اس وقت جب کہ آپ لوگوں کوطواف کرتےهوئے دیکھ رھے تھے فرمایا:
”ان کو حکم دیا گیا ھے کہ یھاں (کعبہ کے گرد)طواف کریں اور اس کے بعد ھمارے پاس آئیں اور اپنی دوستی اور محبت و نصرت ومدد کا ھم سے اظھارکریں اوراسے ھمارے سامنے پیش کریں “۔

شھیدوں پر سلام
عَنْ اٴَبِي عَبْدِ اللّٰہِ (ع)قَالَ:
إِنَّ فَاطِمَةَ علیھا السلام کَانَتْ تَاٴْتِي قُبُورَ الشُّھَدَاءِ فِي کُلِّ غَدَاةِ سَبْتٍ فَتَاٴْتِي قَبْرَ حَمْزَةَ وَ تَتَرَحَّمُ عَلَیْہِ وَتَسْتَغْفِرُ لَہُ۔[108]
امام جعفرصادق (ع)نے فرمایا:
”حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا:ھر سنیچر کی صبح کوشھیدا کی قبروں پر آتیں پھر جناب حمزہ کی قبر پر آتی تھیں اور ان کے لئے رحمت وبخشش کی دعا کر تی تھیں “ ۔

ائمہ (ع)کی زیارت
قَال الرضا(ع):
إِنَّ لِکُلِّ اِمامٍ عَہْداً في عُنُقِ اَوْلِیائِہِ وَشِیعَتِہِ
وَاِنَّ مِنْ تَمامِ الوَفاءِ بالعَھْدِ وَحُسْنِ الاٴدءِ زِیارَةُ قُبُورِھِمْ فَمَنْ زارَھُم رَغْبَةً في زیارَتِھِمْ وَ تَصْدیقاً بِما رَغبوا فیہِ کانَ ا ٴَئِمَّتُھُم شُفَعائَھُمْ یَوْمَ الْقِیامَةِ۔[109]
امام علی رضا (ع) نے فرمایا:
”ھر امام (ع)کاعھدان کے دوستوں اور چاہنے والوں کی گردن پر ھے کہ اس عھد کی مکمل وفا ان کی قبروں کی زیارت ھے پس جو شخص عشق و محبت کے ساتھ اور اس کی تصدیق کے ساتھ جس کی طرف وہ رغبت کرتے ھیں ان کی قبروں کی زیارت کرے تو ان کے ائمہ (ع)بھی قیامت میں اپنے ان زائروں کی شفاعت کریں گے “۔

مسجد قبا میں نماز
قَالَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم :
الصَّلاٰةُ فی مَسْجِدِ قُبٰاءَ کَعُمْرَةٍ۔[110]
رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”مسجد قبامیں نماز پڑھنا ایک عمرہ انجام دینے کے مانند ھے “۔

دوسرے ممالک کے مسلمانوں سے سلو ک
زَیْدٌ الشَّحَّامُ عَنِ الصَّادِق(ع)،اٴَنَّہُ قَالَ:”یَا زَیْدُ خَالِقُوا النَّاسَ بِاٴَخْلاٰقِھِمْ صَلُّوافِي مَسَاجِدِ ھِمْ وَعُودُوا مَرْضَاھُمْ وَاشْھَدُوا جَنَائِزَ ھُمْ وَإِنْ اسْتَطَعْتُمْ اٴَنْ تَکُونُوا الْاٴَ ئِمَّةَ وَالمُوٴَذِّنِینَ فَافْعَلُوا فَإِنَّکُمْ إِذَا فَعَلْتُمْ ذٰلِکَ قَالُوا ھَوٴُلاٰءِ الْجَعْفَرِیَّةُ رَحِمَ اللّٰہُ جَعْفَراً مَا کَانَ اٴَحْسَنَ مَا یُوٴَدِّبُ اٴَصْحَابَہُ وَإِذَا تَرَکْتُمْ ذٰلِکَ قَالُوا ھَوٴُلاٰءِ الْجَعْفَرِیَّةُ فَعَلَ اللّٰہُ بِجَعْفَرٍ مَاکاَنَ اٴَسْوَاٴَ مَایُوٴَدِّبُ اٴَصْحَابَہُ۔[111]
”امام جعفر صادق (ع)نے زید شحّام سے فرمایا :اے زید!خود کو لوگوں کے اخلاق سے ھماہنگ کرو ،ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو،ان کی مسجد وں میں نماز اداکرو،ان کے پیماروں کی عیا دت کرو،ان کے جنازوں کی تشییع میں حاضرهو،اور اگربن سکو تو ان کے امام جماعت یا موذن بنو۔ کیونکہ اگر تم ایسا کرو گے تو وہ لوگ یہ کھیں گے کہ یہ لوگ جعفری(حضرت جعفر بن محمد علیھما السلام کی پیروی کرنے والے )ھیں خدا وند عالم جعفر (ره) پر رحمت نازل فرمائے اس نے ان لوگوں کی کیا اچھی تربیت کی ھے اور اگر ایسا نہ کروگے تو وہ لوگ کھیں گے کہ یہ جعفری ھیں ،خداوند عالم جعفر (ره)کے ساتھ ایسا ویسا کرے اس نے اپنے ماننے والوں کی کیا بُری تربیت کی ھے!!“۔

حاجیوں کا استقبال
عَنْ اٴبِي عَبْدِ اللّٰہِ (ع)قَالَ:
”کَانَ عَلِیُّ بْنُ الْحُسَیْنِ(ع) یَقُولُ:یَا مَعْشَرَ مَنْ لَمْ یَحُجَّ اسْتَبْشِرُوا بِالْحَاجِّ وَصَافِحُوھُمْ وَ عَظِّمُوھُمْ فَإِنَّ ذَلِکَ یَجِبُ عَلَیْکُمْ تُشَارِکُو ہُمْ فِي الْاٴَجْرِ“۔[112]
امام جعفر صادق (ع)نے فرمایا:
”حضرت علی بن الحسین علیھما السلام ھمیشہ فرماتے تھے اے لوگو!جو حج پر نھیں گئےهو حاجیوں کے استقبال کے لئے جاوٴ، ان سے مصافحہ کرو،اور ان کا حترام کرو کہ یہ تم پر واجب ھے اس طرح تم ان کے ثواب میں شریکهوگے “۔

حاجیوں کے اھل خانہ کی مدد کا ثواب
قَالَ عَلِیُّ بْنُ الْحُسَیْنِ(ع):مَنْ خَلَفَ حَاجّاً
فِی اٴَھْلِہِ وَمَالِہِ کاَنَ لَہُ کَاٴَجْرِہِ حَتَّی کَاٴَنَّہُ یَسْتَلِمُ الْاٴَحْجَارَ۔[113]
امام زین العابدین (ع) نے فرمایا:
”جو شخص حاجی کی عدم موجودگی میں اس کے اھل خانہ اور اس کے مال کی دیکھ بھال کرے تو اس کا ثواب اسی حاجی کے ثواب کے مانند ھے یھاں تک کہ گویا اس نے کعبہ کے پتھروں کو بوسہ دیا ھے “۔

مبارک هو
عَنْ یَحْیَی بْنَ یَسَارٍ قَالَ:حَجَجْنَا فَمَرَرْنَا بِاٴَبِی عَبْدِ اللّٰہِ(ع) فَقَالَ:
”حَاجُّ بَیْتِ اللّٰہِ وَزُوَّارُ قَبْرِ نَبِیِّةِ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وَشِیعَةُ آلِ مُحَمَّدٍ(ع) ھَنِیئاً لَکُمْ۔[114]
یحییٰ بن یسار کھتے ھیں :
”ھم نے حج انجام دینے کے بعد امام جعفر صادق (ع) سے ملاقات کی، حضرت نے فرمایا:اللہ کے گھر کے حاجی قبر پیغمبر (ص) کے زائر اور شیعہٴ آل محمد(ص)(هونا تمھیں )مبارک هو“۔
--------------------------------------------------------------------------------

[67] مستدرک الوسائل :۹/۳۷۶۔تاریخ بغداد:۵/۳۶۹۔
[68] من لایحضرہ الفقیہ:۲/۲۰۲/۲۱۳۸۔
[69] مسند ابن حنبل:۵/۲۵۶/۱۵۴۲۳۔
[70] سنن ابی داوٴد :۲/۱۷۹/۱۸۸۔
[71] کافی:۴,۴۲۸/۸۔
[72] کافی:۴/۲۴۱/۱۔
[73] تھذیب الاحکام :۵/۲۰/۵۷۔من لایحضرہ الفقیہ:۲/۲۰۲۔
[74] تاریخ دمشق:۴۱/۳۸۰۔
[75] کافی:۴/۵۴۵/۲۶۔
[76] محاسن :۲/۳۹۹/۲۳۹۵،کافی:۶/۳۸۷۔
[77] محاسن :۲۳۹۴۔
[78] کافی:۴/۲۱۰/۱۴۔
[79] الحج العمرة فی القرآن والحدیث:۱۰۷/۱۹۹۔
[80] علل الشرائع:۴۰۰۔
[81] مستدرک الوسائل :۹/۳۲۳۔تفسیر قمی:۱/۶۲۔
[82] اخبار مکہ ارزقی:۱/۳۳۸۔
[83] کافی:۴/۴۳۴/۳۔
[84] من لایحضرہ الفقیہ:۲/۲۰۸/۲۱۶۸۔
[85] علل الشریع:۴۳۲۔وسائل الشیعہ:۱۳/۴۵۰
[86] من لایحضرہ الفقیہ:۲/۴۱۷/۲۸۵۴۔
[87] مسنداحمد حنبل :۲/۶۹۲/۷۱۱۱۔
[88] معجم الکبیر طبرانی:۱۱/۴۵/۱۱۰۲۱۔
[89] کافی:۴/۲۶۲/۴۲۔
[90] علل الشرایع:۱/۴۳۷۔کنز الفوائد :۲/۸۲۔
[91] وسائل الشیعہ:۱۴/۱۶۶۔
[92] تھذیب الاحکام :۵/۲۴۳/۸۲۳۔
[93] مستدرک الوسائل :۱۰/۱۶۶۔
[94] تھذیب الاحکام:۵/۴۶۸/۱۶۴۰۔
[95] کافی:۴/۵۳۰/۱۔
[96] مستدرک الوسائل:۱۰/۱۶۵۔
[97] کافی:۴/۲۵۵/۱۱۔
[98] من لایحضرہ الفقیہ:۲/۱۴۱/۶۴۔
[99] علل الشرایع:۱/۴۵۹۔
[100] معجم الاوسط طبرانی:۳/۳۵۱/۳۳۷۶۔
[101] وسائل الشیعہ:۱۴/۳۳۵۔کامل الزیارات:۴۷۔
[102] معجم الکبیر طبرانی:۱۲/۲۲۵/۱۳۱۴۹۔
[103] کنز العمال:۱۲/۲۵۶/۳۴۹۲۹۔
[104] کافی:۴/۵۵۶/۱۱ -،ثواب الاعما-ل۱/۵۰۔
[105] کافی:۴/۵۵۴/۳۔
[106] تھذیب الاحکام:۶/۹/۱۸۔
[107] مستدر ک الوسائل :۱۰/۱۸۹۔
[108] تھذیب الاحکام:۱/۴۶۵/۱۶۸۔
[109] کافی:۴/۵۶۷۔
[110] سنن ترمذی:۲/۴۵ا/۳۲۴۔
[111] وافی:۲/۱۸۲ -، من لایحضرہ الفقیہ:۱/۳۸۳۔
[112] کافی:۴/۲۶۴/۴۸۔
[113] محاسن :۱/۱۴۷/۲۰۶، -وسائل الشیعہ :۱۱/۴۳۰۔
[114] کافی:۴/۵۴۹۔