پچاسویں حدیث:
چھ قسم کے لوگوں کو خدا برا جانتا ہے
اخرج الدیلمی ، عن ابی ہریرة ؛ قال: قال رسول اﷲ ۖ :(( ان اﷲ یبغض الآکل فوق شبعہ ،والغافل عن طاعة ربہ، والتارک لسنة نبیہ ، والمخفر ذمتہ ، والمبغض عترة نبیہ ، والموذی جیرانہ ))
دیلمی نے ابو ہریرہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اسلا م نے ان چھ قسم کے لوگوں کے بارے میں کہ جنھیں خدا بری نگاہ سے دیکھتا ہے ،ارشادفرمایا :
١۔ خدا اس شخص پر غضبناک ہوتا ہے جو شکم سیر ہونے کے باوجود کھانا کھائے ۔
٢۔اور جو اپنے پرور دگا ر کی اطاعت سے غافل رہے ۔
٣۔اور جو سنت رسول کو ترک کرے ۔
٤۔ اور جو عہد شکنی اور بیوفائی کرے ۔
٥۔ اورجوپنے نبی کی آل (عترت ) سے بغض رکھے۔
٦۔ اورجو اپنے پڑوسیوں کو ستائے ۔(١)
اکیاونویں حدیث :
نیک سادات تعظیم اور برے سادات در گزر کے مستحق ہیں
اخرج الدیلمی ، عن ابی سعید الخدری ؛ قال: قال رسول اﷲ ۖ :(( اہل بیتی والانصار کرشی و عیبتی ، و موضع سرتی و امانتی ، فاقبلوا من محسنہم ، وتجاوزوا عن مسیئہم ))
دیلمی نے ابو سعید خدری سے نقل کیا ہے کہ رسول اسلام نے فرمایا :میرے اہل بیت(سادات) اور انصار میرے قلب و جگر اور میرا ظرف ہیں ،لہٰذا ان میں سے جو نیک ہوں ان کا خیر مقدم(تعظیم) کرو اور ان میں سے جو برے (٢)ہو ان کو درگزر کرو۔ (٣)
..............
اسناد و مدار ک کی تحقیق :
(١)مذکورہ حدیث حسب ذیل کتاب میں بھی نقل کی گئی ہے :
متقی ہندی ؛ کنزالعمال ج٩،ص١٩١۔
(٢) محترم قارئین! حدیث کا یہ جملہ کہ'' ان کے بروں سے دور رہو'' یہ انصار سے مربوط ہے ، ا ہل بیت(ع) سے نہیں، کیونکہ اہل بیت رسول ۖکے درمیان برے افراد کا پایا جانا محال ہے ، یا پھر اہل بیت کے معنی میں وسعت دی جائے یعنی اہل بیت میں وہ تمام لوگ شریک ہوں جو رسول کے کسی نہ کسی طرح رشتہ دار ہوں ، اس صورت میں اس جملہ کا مفہوم صحیح ہوجائیگا ، لیکن یہ توجیہ اور تاویل صحیح نہیں ہے ، کیونکہ رسو ل کے اہل بیت میں شیعوں کے یہاں متفقہ طور پر اور اہل سنت کی اکثریت اس بات کی قائل ہے کہ اہل بیت میں صرف اور صرف فاطمہ الزہرا اور بقیہ ائمہ معصومین(ع) ہیں . مترجم .
(٣)مذکورہ حدیث حسب ذیل کتابوں میں بھی نقل کی گئی ہے :
متقی ہندی ؛ کنزالعمال ج٩،ص١٩١۔الصواعق المحرقة ص ٢٢٥۔ الفصول المہمة ص ٢٧۔
باونویں حدیث :
فرزندان عبد المطلب پر کئے گئے احسان کا بدلہ رسول خدا ۖدیں گے
اخرج ابو نعیم فی الحلیة ،عن عثمان بن عفان ؛ قال: قال رسول اﷲ ۖ:((من اولی رجلاً من بنی عبد المطلب معروفاً فی الدنیا فلم یقدرالمطلبی علی مکافأتہ، فانا اُکافئہ ،عنہ یوم القیامة))
ابو نعیم(٢) نے اپنی کتاب حلیة الاولیاء میں عثمان بن عفان (٢)سے نقل کیا ہے کہ رسول اسلام نے فرمایا : جو عبد المطلب کی اولاد میں سے کسی ایک کے ساتھ اس دنیا میں کوئی نیکی کرے گااور وہ (مطلبی)اس دنیا میں اس کا بدلہ ادا نہ کرسکا تو میں روز قیامت اس کا بدلا ادا کروں گا ۔ (٣)
تریپنویں حدیث :
قیامت میں اولاد عبد المطلب پر نیکی کا بدلہ رسول ۖدیں گے
اخرج الخطیب ،عن عثمان بن عفان ؛ قال: قال رسول اﷲ ۖ :(( من صنع صنیعة الی احد من خلف عبد المطلب فی الدنیافعلیَّ مکافأتُہ اذا لقینی ))
خطیب بغدادی نے عثمان بن عفان سے نقل کیا ہے کہ رسول اسلام نے فرمایا :
جس نے عبد المطلب کی اولاد میں سے کسی ایک کے ساتھ اس دنیا میں کوئی نیکی کی ہے(اور وہ اس دنیا میں اس کا بدلہ ادا نہ کرسکا )توروز قیامت جب وہ مجھ سے ملاقات کر ے گا تو، اس کا بدلہ میرے اوپر واجب ہے۔ (٤)
..............
اسناد و مدار ک کی تحقیق :
(١) ابو نعیم احمد بن عبد اﷲ بن احمد بن اسحاق بن موسی بن مہران اصفہانی ؛ آپ کی پیدائش ٣٣٦ ھ میں ہوئی ، اور ٤٣٠ ھ میں وفات ہوئی ، آپ کے بقیہ حالات زندگی درج ذیل کتابوں ملاحظہ کریں :
تذکرة الحفاظ ج٣،ص١٠٩٨،١٠٩٢۔ البدایہ والنہایہ ج١٢،ص ٤٥،۔ طبقات سبکی ج٤،ص ١٨۔ میزان الاعتدال ج١، ص١١١۔ لسان المیزان ج١١،ص ٢٥١۔ وفیات الاعیان ج٣ ، ٥٢
(٢) عثمان بن عفان بن ابی العاص بن امیہ بن عبد شمس قرشی ؛ آپ ہجرت سے ٣٧ سال قبل شہر مکہ میں پیدا ہوئے ، اور بعثت کے کچھ سال کے بعد ہی اسلام قبول کیا ، اور ٣٢ ھ میں خلیفہ دوم حضرت عمر کے قتل کے بعد شوری کے ذریعہ جس کے افراد خلیفۂ دوم نے معین کئے تھے ، تخت خلافت پرجائے گزیں ہوئے ، آپ کی حکومت ان تمام فتوحات اور ثروت سے مالا مال اور سرشار تھی جو حضرت عمر کے زمانہ میں حاصل ہوئے تھے ،ان کے دور میں بہت سے شہر فتح ہو کر اسلامی مملکت کے جز بنے ، بہر حال عثمان کی سب سے بڑی خدمت یہ تھی کہ آپ نے قرآن جمع کیا ، آپ کی حکومت میں بنی امیہ نے اسلامی حکومت پر غلبہ حاصل کر لیا جس کی بنا پر نظام حکومت درہم برہم ہونا شروع ہوا ، اور ہر طرف فساد برپا ہونے لگا ، عام لوگ یہ دیکھ کر حضرت عثمان سے ناراض ہوگئے ، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آپ ٣٥ ھ میں قتل کردئے گئے ، اور آپ کے دور حکومت کا خاتمہ ہوا ، آپ کے بقیہ حالات زندگی درج ذیل کتابوں میںملاحظہ کریں :
تذکرة الحفاظ ج١،ص١٠،٨۔الاصابة ج٤،ص ٢٧١، ٢٦٩۔
(٣)مذکورہ حدیث حسب ذیل کتاب میں بھی نقل کی گئی ہے :
کنز العمال ج ٦، ص ٢٠٣۔ ذخائر العقبی ص ١٩۔الصواعق المحرقة ص ١١١۔ فیض القدیر ج٦، ص ١٧٢۔
(٤)مذکورہ حدیث حسب ذیل کتاب میں بھی نقل کی گئی ہے :
کنز العمال ج ٦، ص٢١٦۔الصواعق المحرقة ص١٨٥۔ینابیع المودة ص ٣٧٠.
چونویں حدیث :
اہل بیت پر کئے گئے احسان کا بدلہ قیامت میں رسول خداۖ دیں گے
اخرج ابن عساکر ،عن علی ؛ قال: قال رسول اﷲ ۖ :(( من صنع الی احد من اہل بیتی یداً کافأتہ یوم القیامة ))
ابن عساکر نے علی سے نقل کیا ہے کہ رسولۖ نے فرمایا:جو میرے اہل بیت میں سے کسی ایک کے ساتھ کوئی نیکی کرے گا میں روز قیامت اس کا بدلہ ادا کروں گا ۔(١)
پچپنویں حدیث :
اہل بیت سے تمسک ذریعۂ نجات ہے
اخرج الباوردی عن ابی سعید ؛قال: قال رسول اﷲ ۖ :(( انی تارک فیکم ما ان تمسکتم بہ لن تضلوا ، کتاب اﷲ سبب طرفہ بید اﷲ، وطرفہ بایدیکم ، وعترتی اہل بیتی ، وانہما لن یفترقا حتی یردا علیّ الحوض ))
باوردی(٢) نے ابو سعید خدری سے نقل کیا ہے کہ رسول اسلام ۖ نے فرمایا: تمھارے درمیان دو ایسی چیزیں چھوڑ رہا ہوں کہ ان سے اگر تم نے تمسک کیا تو تم کبھی گمراہ نہ ہوگے :وہ کتاب خدا ہے کہ جس کا ایک سرا خدا کے ہاتھ میں ہے اور اس کا دوسرا سرا تمھارے ہاتھ میں ہے، اور دوسری میری عترت ہے جو میرے اہل بیت ہیں ،اوریہ دونوں چیزیں کبھی بھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوںگی،یہاں تک کہ یہ دونوں باہم حوض کوثر پر میرے پاس وارد ہو ں گی۔(٣)
..............
اسناد و مدار ک کی تحقیق :
(١ ) مذکورہ حدیث حسب ذیل کتابوں میں بھی نقل کی گئی ہے :
الصواعق المحرقة ص ١٨٥۔ فیض القدیر ج٦، ص ١٧٢۔ ذخائر العقبی ص ١٩۔متقی ہندی ؛ کنزالعمال ج٦،ص٢١٦۔
(٢) ابو محمد عبد اﷲ بن محمد بن عقیل باوردی ؛ آپ اصفہان کے رہنے والے تھے ، اور ابو بکر احمد بن سلمان نجار بغدادی سے حدیث
نقل کرتے تھے .
دیکھئے : سمعانی ؛ الانساب ج ٢،ص ٦٥۔
(٣)مذکورہ حدیث حسب ذیل کتابوں میں بھی نقل کی گئی ہے :
حلیة الاولیاء ج١،ص ٣٥٥۔ تاریخ بغداد ج ١٠ ص ١٧ ، ٦٦۔مجمع الزوائد ج ١٠، ص ٣٦٣۔ متقی ہندی ؛کنزالعمال ج٦،ص٢١٦۔ ج٧، ص ٢٢٥۔
متقی ہندی نے اس حدیث کو اس طرح نقل کیا ہے :
(( یا ایہا الناس ! انی تارک فیکم ما اخذتم بہ لن تضلوا بعدی ؛ امرین احدہما اکبر من الآخر ، کتاب اﷲ حبل ممدود ما بین السماء والارض ، وعترتی اہل بیتی ، وانہما لن یفترقا حتی یردا علیّ الحوض ))
رسول اسلام ۖ نے فرمایا: اے لوگو! تمھارے درمیان دو ایسی چیزیں چھوڑ رہا ہوں کہ ان سے اگر تم نے تمسک کیا تو تم گمراہ نہ ہوگے : ان میں سے ایک امر دوسرے سے اکبر ہے اوروہ کتاب خدا ہے کہ جو رسی کی مانند زمین و آسمان کے درمین کھینچی ہوئی ہے،(یعنی جس کا ایک سرا آسمان تک پہنچا ہوا ہے جو خدا کے ہاتھ میں ہے اور اس کا دوسرا سرا زمین تک پہونچا ہوا ہے جو تمھارے ہاتھ میں ہے) اور دوسرے میری عترت ہے جو میرے اہل بیت ہیں ،اوریہ دونوں چیزیں کبھی بھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوںگی،یہاں تک کہ یہ دونوں باہم حوض کوثر پر میرے پاس وارد ہوںگی .
|