اکتیسویں حدیث:
حضرت فاطمہ زہرا ء کے دونو ں بیٹے رسولۖ کے فرزند ہیں
اخرج الحاکم ،عن جابر ؛ قال:قال سول اﷲ ۖ :(( کل بنی ام ینتمون الی عصبة ینتمون الیہم الاولدی فاطمة فاناولیہماوعصبتہما))
حاکم جابر سے نقل کرتے ہیں کہ رسول نے فرمایا: ہر ماں کے بچے اپنے آبائی خاندان کی طرف منسوب ہوتے ہے ،لیکن میری بیٹی فاطمہ کے دو نوں بچے میری طرف منسوب ہیں، میں ان کا ولی اور رشتہ دار ہوں ۔(١)
بتیسویں حدیث:
رسول خدا کے سببی اور نسبی رشتے بروز قیامت منقطع نہ ہوں گے
اخرج الطبرانی فی الاوسط ، عن جابر ؛ انہ سمع عمر بن الخطاب یقول الناس حین تزوج بنت علی :الا تہنئونی ، سمعت رسول اﷲ (ص) یقول :((ینقطع یوم القیامة کل سبب و نسب الا سببی و نسبی ))
طبرانی نے'' المعجم الاوسط ''میں جابر سے نقل کیا ہے کہ میں نے عمر کو لوگوں سے یہ کہتے ہوئے اس وقت سنا کہ جب ان کی بنت علی سے شادی برقرار ہوئی :تم مجھے مبارک باد کیوں نہیںپیش کرتے کیونکہ میں نے رسول کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: روز قیامت تمام سببی اور نسبی رشتے منقطع ہو جائیں گے سوائے میرے سببی اور نسبی رشتوں کے ۔ (٢)
..............
اسناد و مدار ک کی تحقیق :
(١) مذکورہ حدیث حسب ذیل کتابوں میں بھی پائی جاتی ہے :
مستدرک الصحیحین ج ٣،ص ١٦٤۔ کنز العمال ج ٦،ص ٢١٦۔ منتخب کنز العمال ج ٥،ص ٢١٦۔
(٢) مذکورہ حدیث حسب ذیل کتابوں میں بھی پائی جاتی ہے :
المعجم الکبیر ج ١ ،ص ١٢٤۔ حلیة الاولیاء ج٧،ص ٣١٤۔
تینتیسویں حدیث :
رسول اسلامۖ کا سلسلۂ نسب و سبب کبھی نہ ٹوٹے گا
اخرج الطبرانی ،عن ابن عباس ؛ قال: قال رسول اﷲ ۖ :((کل سبب و نسب منقطع یوم القیامة الا سببی و نسبی ))
طبرانی نے ابن عباس سے نقل کیا ہے رسول نے ارشاد فرمایا :
میرے سببی اور نسبی رشتوں کے علاوہ روز قیامت تمام سببی اور نسبی رشتے منقطع ہو جائیں گے۔(١)
چونتیسویں حدیث :
رسول خدا کا سببی اور دامادی رشتہ کبھی نہ ٹوٹے گا
اخرج ابن عساکر، فی تاریخہ ، عن ابن عمر ؛ قال: قال رسول اﷲ ۖ :(( کل نسب و صہر منقطع یوم القیامة الا نسبی وصہری))
ابن عساکر(٢)نے اپنی تاریخ میں ابن عمر (عبداﷲ)سے نقل کیا ہے رسول نے ارشاد فرمایا :
میرے نسبی اور دامادی رشتوں کے علاوہ روز قیامت تمام نسبی اور دامادی رشتے منقطع ہو جائیں گے۔ (٣)
پینتیوسویں حدیث:
اہل بیت سے مخالفت کرنے والے شیطانی گروہ سے تعلق رکھتے ہیں
اخرج الحاکم ،عن ابن عباس ؛ قال: قال رسول اﷲ ۖ :((النجوم امان لاہل الارض من الغرق ، و اہل بیتی امان لامتی من الاختلاف ، فاذا خالفہا قبیلة اختلفوا فصاروا حزب ابلیس ))
حاکم ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اسلام نے فرمایا :جس طرح ستارے اہل زمین کو (پانی میں)غرق ہو نے سے محفوظ رکھتے ہیں اسی طرح میرے اہل بیت میری امت کو اختلاف و تفرقہ سے بچانے والے ہیں ، لہٰذا اگر کسی گروہ اور قبیلہ نے ان کی مخالفت کی تو وہ شیطانی گروہ میں شامل ہوجائے گا ۔ (٤)
..............
اسناد و مدار ک کی تحقیق :
(١) مذکورہ حدیث درج ذیل کتابوں میں بھی نقل کی گئی ہے :
طبرانی؛ المعجم الکبیر ج١، ص ١٢٩۔ مناوی ؛ فیض القدیر ج٥،ص ٣٥،۔ تاریخ بغداد ج١،ص ٢٧١ ، رافعی؛ التدوین ج٢،ص ٩٨۔ ہیثمی؛ مجمع الزوائد ج٩ ،ص ١٧٣۔
ہیثمی کہتے ہیں : اس حدیث کے راوی موثق ہیں .
محب الدین طبری ؛ ذخائر العقبی ص ٦۔
ہیثمی اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں : جب بنت عبد المطلب جناب صفیہ کے بیٹے کا انتقال ہوا تو صفیہ اس پر رو رہی تھی ، اس وقت رسول نے صفیہ سے فرمایا :
''یا عمة ! من توفی لہ ولد فی الاسلام کان لہ بیت فی الجنة یسکنہ''
اے پھو پھی جان! آ پ رورہی ہیں جبکہ جس شخص کا ایک مسلمان بیٹا فوت ہوجائے تو گویا اس نے جنت میں ایک گھر بنایا ، جس میں وہ سکونت اختیار کریگا ، جب صفیہ رسول کے پاس سے رخصت ہوکر چلنے لگیں تو ایک شخص نے صفیہ سے کہا : اے صفیہ! محمد کی رشتہ داری تجھے کچھ فائدہ نہیں دے گی ، صفیہ یہ سنکر دوبارہ بلند آواز سے رونے لگیں ، جس کو رسول نے بھی سنا ، رسول یہ سنکر غمگین ہوئے، کیونکہ آپ صفیہ کا بہت احترام کرتے تھے ، اس لئے آپ نے صفیہ سے کہا:
''یا عمة ! تبکین وقد قلت لک ما قلت ''
اے پھو پھی جان! آپ کو جو بات کہنی تھی وہ کہہ چکا ہوں، اس کے باوجود آپ رورہی ہیں ؟
صفیہ نے کہا: میں اپنے بیٹے پر نہیں رو رہی ہوں بلکہ میرا رونا اس لئے ہے ،پھرآپ نے وہ سب بتا دیا جو اس مرد نے کہا تھا ، اس وقت رسول بہت ناراض ہوئے ، اور بلال سے اس طرح فرمایا :'' یا بلال ھجر بالصلاة '' اے بلال نماز کا اعلان کردو ، چنانچہ بلال نے اعلان کیا ، جب لوگ جمع ہوئے تو آپ نے فرمایا :
''ما بال اقوام یزعمون ان قرابتی لا تنفع ، ان کل سبب و نسب ینقطع یوم القیامة الا نسبی وان رحمی موصولة فی الدنیا والآخرة ''
ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ گمان کرتے ہیں کہ میری رشتہ داری کوئی فائدہ نہیں دے گی ؟ یقیناً ہر رشتہ روز قیامت منقطع ہوجائیگا سوائے میرے رشتہ کے ،چاہے وہ سببی ہو یا نسبی ، پس میرا رشتہ دنیا وآخرت دونوں جگہ باقی رہے گا .
(٢)ابو القاسم علی بن حسن بن ہبة اﷲ بن عبد اﷲ بن حسین دمشقی محدث شام ؛
موصوف پایہ کے مؤرخ اور حافظ تھے ، آپ کی مشہور کتاب تاریخ مدینة دمشق ہے . آپ ٤٩٩ ھ میں پیدا ہوئے ، اور ٥٧١ ھ میں وفات پائی .
دیکھئے : الاعلام ج ٥،ص ٨٢۔
(٣)مذکورہ حدیث حسب ذیل کتابوں میں بھی پائی جاتی ہے :
معجم کبیر ج ١،ص ١٢٤۔ کنز العمال ج ٦،ص١٠٢۔ فتح البیان ج٧،ص ٣٤۔ فیض القدیر ٥،ص ٣٥۔ مستدرک الصحیحین ج٣،ص ١٥٨۔ الفصول المہمة ص ٢٨۔
(٤) مذکورہ حدیث حسب ذیل کتابوں میں بھی پائی جاتی ہے :
کنز العمال ج ٦،ص٢١٧۔ منتخب کنز العمال ج٥،ص ٩٤۔ جمع الجوامع ج ١،ص ٤٥١۔ الصواعق المحرقة ص ١٤٠۔ مستدرک الصحیحین ج٣،ص ١٤٩۔
چھتیسویں حدیث :
اولاد رسول ۖ عذاب میں مبتلا نہ ہوگی
اخرج الحاکم ،عن انس؛ قال:قال رسول اﷲ ۖ :(( وعدنی ربی فی اہل بیتی من اقر منہم بالتوحید ولی با لبلاغ انہ لا یعذبہم))
حاکم نے انس (١)سے نقل کیا ہے کہ رسول نے فرمایا : میر ے رب نے میرے اہل بیت کے بارے میں مجھ سے یہ وعدہ کیا ہے کہ جوبھی ان(میرے اہل بیت ) میں سے توحید کا اقرار اور میری رسالت کو تسلیم کرے گا اسے عذاب میں مبتلا نہیں کرے گا ۔ (٢)
سینتیسویں حدیث :
اہل بیت رسول میں سے کوئی جہنم میں نہ جائے گا
اخرج ابن جریر فی تفسیرہ ،عن ابن عباس؛فی قولہ تعالی :( وَلَسَوْفَ یُعْطِیْکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰی)، قال:(( من رضی محمد ان لا یدخل احد من اہل بیتہ النار)).
ابن جریر طبری(٣)نے اپنی تفسیر میں آیہ ٔ ( وَلَسَوْفَ یُعْطِیْکَ رَبُّکَ فَتَرْضٰی)]اور تمھارا پرورد گار عنقریب اس قدر عطا کرے گا کہ تم خوش ہوجاؤ [(٤) کی تفسیر کے ذیل میں ابن عباس سے اس طرح نقل کیا ہے : رسول اسلام کی رضایت کا مطلب یہ ہے کہ ان کے اہل بیت میں سے کوئی بھی جہنم میں نہیں جائے گا ۔(٥)
..............
اسناد و مدار ک کی تحقیق :
(١)ابو حمزہ انس بن مالک بن نصر انصاری ؛ موصوف ہجرت کے دس سال قبل پیدا ہوئے ، او ر ٩٣ ھ میں وفات پائی ، ایک مدت تک رسول کے خادم رہے ، لیکن آنحضرت کی وفات کے بعد آپ دمشق پھر بصرہ چلے گئے ،بقیہ حالات زندگی ذیل کی کتابوں میں دیکھئے :
اسد الغابة ج ١،ص ١٢٧۔ تذکرة الحفاظ ج ١،ص ٤٥، ٤٤۔
(٢)مذکورہ حدیث حسب ذیل کتابوں میں بھی پائی جاتی ہے :
کنز العمال ج ٦،ص٢١٧۔ منتخب کنز العمال ج٩،ص٩٢۔ الصواعق المحرقة ص ١٤٠۔ مستدرک الصحیحین ج٣،ص١٥٠۔
(٣)ابو جعفر محمد بن جریر بن یزید بن کثیر طبری ؛ ٢١٤ ھ میں شہر آمل ایران میں پیدا ہوئے ، ٢٨ شوال شام کو ٣١٠ ھ میں وفات پائی ، آپ مسلمانوں کے بہت بڑے عالم دین اور گرانبہا کتابوں کے مؤلف جانے جاتے ہیں ، ان کی مشہور کتابیں یہ ہیں :
''جامع البیان فی تفسیر القرآن''۔'' تاریخ الامم والملوک ( تاریخ طبری ) ''.
بقیہ حالات زندگی ذیل کی کتابوں میں دیکھئے :
الانساب ج ٩،ص ٤١۔ تذکرة الحفاظ ج٢،ص٧١٦، ٧١٠۔
(٤) سورة ضحی آیت نمبر پانچ (٥)
(٥) مذکورہ حدیث حسب ذیل کتابوںمیں بھی پائی جاتی ہے :
مناوی ؛ فیض القدیر ج٤،ص٧٧،۔تفسیر طبری ج ٣٠، ص ٢٣٢۔ فضائل الخمسة ج٢،ص ٦٥۔ محب الدین طبری ؛ ذخائر العقبی ص١٩۔ کنز العمال ج ٦،ص٢١٥۔ منتخب کنز العمال ج٩،ص٩٢۔ الصواعق المحرقة ص٩٥۔ الدر المنثور ج ٦،ص ٣٦١۔
|