پچیسویںحدیث :
حدیث سفینہ
اخرج البزار ، عن بن عباس؛قال:قال رسول اﷲ ۖ :((مثل اہل بیتی مثل سفینة نوح ،من رکب فیہا نجا ، ومن تخلف عنہا غرق))۔
بزار ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ رسول خدا ۖ نے فرمایا : میرے اہل بیت کے مثال سفینۂ نوح جیسی ہے، ا س پرجو سوار ہوا تھااس نے نجات حاصل کی، اور جس نے روگردانی کی وہ غرق ہوا تھا۔(اسی طرح جو اہل بیت (ع) کا دامن تھامے گا وہ نجات حاصل کرے گا اور جو روگردانی کرے گا وہ جہنم میں جائے گا ) (١)
چھبیسویں حدیث:
حدیث سفینہ اور حدیث باب حطہ
اخرج الطبرانی ، عن ابی ذر ؛ سمعت رسول اﷲ ۖ:((مثل اہل بیتی فیکم مثل سفینة نوح فی قوم نوح ،من رکبہا نجا ، ومن تخلف عنہا ہلک ، ومثل باب حطة فی بنی اسرائیل ))۔
طبرانی نے ابوذر (٢)سے نقل کرتے ہیں کہ میں نے رسول خدا ۖ کو یہ فرماتے ہوئے سنا : تمھارے درمیان میرے اہل بیت کے مثال بالکل ویسی ہے جیسی قوم نوح میں کشتی نوح کی تھی، جو ا س پر سوار ہوا اس نے نجات حاصل کی، اور جس نے روگردانی کی وہ ہلاک ہوا ،اور میرے اہل بیت کی مثال تم میں باب حطہ (٣) جیسی ہے بنی اسرائیل میں ۔(٤)
..............
اسناد و مدار ک کی تحقیق :
(١) مذکورہ حدیث درج ذیل کتابوں میں بھی موجود ہے :
زوائد مسند بزار ص ٢٧٧۔ مجمع الزوائد ج٩،ص ٨٦٨۔ حلیة الاولیاء ج٤، ص ٣٠٦۔ کنزالعمال ج٦، ص١٦ ٢۔
(٢) ابوذر جندب بن جنادہ غفاری ؛ آ پ کا شمار سابق اسلام لانے میں ہوتا ہے ،اور آپ ان پانچ افراد میں سے ایک ہیں جنھوں نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا ، آپ نے بیعت کرنے کے فوراًبعد مسلمان ہونے کا اظہار کردیا تھا ، اور پھر اپنے قبیلہ کی طرف تبلیغ کرنے آئے، اور کچھ مدت کے بعد مدینہ چلے آئے ، آپ علم ، تقوی ، زہد ، جہاد ، اور صدق و اخلاص میں بے مثال تھے ، چنانچہ علامہ ذہبی کہتے ہیں: آپ کیلئے بہت فضائل اور مناقب ہیں منجملہ ان کے رسول کا یہ قول مشہور ہے :
''ما اظلت الخضراء ولا اقلت الغبراء اصدق لہجة من ابی ذر''
اس نیلے آسمان نے سایہ نہیں کیا، اور اس زمین نے کسی کو اپنی پشت پر نہیں اٹھایا کہ جو ابوذر سے زیادہ سچا ہو .
آپ رسول کی وفات کی بعد شام چلے گئے ، اور حضرت عمر کی وفات تک یہیں رہے ، اور حضرت عثمان کے زمانے میں دمشق میں سکونت اختیار کی، آپ فقیروں کی طرفداری میں بولتے اور ان کی حق تلفی کے بارے میںان کی مدد کرنے پر لوگوں کوابھارتے اور اکسایا کرتے تھے ، اسی وجہ سے معاویہ نے ان کی عثمان کے پاس شکایت کی ، جس کی بناپر آپ کو عمر کے آخری ایام میں دمشق سے جلا وطن کرکے ربذہ بھیج د یا گیا !! پھرآپ کی یہیں وفات ہوگئی،علامہ مدائنی کے قول کے مطابق ابن مسعود نے آپ پر نماز میت ادا کی .
دیکھئے : الاعلام ج ٢،ص ١٣٦۔
(٣) حطہ کے لغوی معنی جھڑنے اور نیچے گرنے کے ہیں ، باب حطہ ایک دروازہ تھا جس کے لئے خداوند متعال نے بنی اسرائیل سے کہا تھا کہ اس کے اندر سجدہ کرتے ہوئے داخل ہونا ہے تاکہ ان کے سارے گناہ ان سے جھڑ جائیں اور وہ بخش دئے جائیں ، اس سلسلے میں سورہ بقرہ کی آیت نمبر ٥٨ اور سورہ اعراف کی آیت نمبر ١٦١ دیکھئے .
علامہ سید شرف الدین باب حطہ سے اہل بیت کی وجہ تسمیہ کے بارے میں لکھتے ہیں:
خدا وند متعال نے اپنے حکم کے سامنے اس دروازے کو تواضع اور انکساری کا ایک مظہر قرار دیا تھا ، یعنی اس دروازے کو خدا نے تواضع اور انکساری کا مظہر قرار دیا تھا ،اور خدا کا یہی امر سبب قرار پایا کہ بنی اسرائیل کے گناہوں کی مغفرت کا موجب ہوا ، اسی طرح اہل بیت کے سامنے اسلامی امت کا سر تسلیم جھکانا، اور انکی صدق دل سے اطاعت کرنا : گویا اہل بیت کے سامنے اس فعل کا انجام دینا خدا کی تواضع و انکساری کا ایک مظہر ہے، اور ان کے سامنے سر جھکاناگویا حکم خدا کے سامنے سر جھکانا ہے،اور خدا کی نظروں میں یہی چیز تمام مسلمین کیلئے مغفرت کاسبب ہے . مزید اطلاع کیلئے کتاب '' المراجعات'' دیکھئے .مترجم .
(٤)اس حدیث کو طبرانی نے دو طرح نقل کیا ہے اگرچہ یہ دونوں حدیثیں ایک ہی جیسی ہیں لیکن ایک میں کچھ لفظ زیادہ آئے ہیں جو اس طرح ہے :
((مثل اہل بیتی مثل سفینة نوح من رکبہا نجا ، ومن تخلف عنہا غرق ومن قاتلنا فی آخر الزمان فکانما قاتل مع الدجال ))
میرے اہل بیت کے مثال سفینہ ٔ نوح جیسی ہے ، جو ا س پر سوار ہوا تھا اس نے نجات حاصل کی تھی، اور جس نے روگردانی کی تھی وہ غرق ہوگیا تھا ،(اسی طرح ہم سے جو متمسک رہے گا وہ نجات پائے گا اور جو روگردانی کرے گا وہ ہلاک ہو جائے گا) اورجس نے بھی ہم سے آخری زمانے میں جنگ کی گویا اس نے دجال کی طرف سے جنگ کی.
المعجم الکبیر ج ١، ص ١٢٥۔ مجمع الزوائد ج٩،ص ٢٦ ۔ کنز العمال ج ٦،ص ٢١٦۔
حلیة الاولیاء ج٤، ص ٣٠٦۔ مرقاة المصابیح ج ٥،ص ٦١٠۔ تاریخ بغداد ج ١٢،ص ١٩۔ کنوزالحقائق ص١٣٢۔ ذخائر العقبی ص ٢٠۔ الصواعق المحرقة ص ٧٥۔ ینابیع المودة ص ٢٨۔ نزل الابرار ص ٣٣۔ میزان الاعتدال ج١،ص ٢٢٤۔ ا لخصائص الکبری ج ٢،ص ٢٦٦ ۔المعجم الصغیر ص٧٨ ۔ زوائد مسند بزار ص ٢٧٧۔
ستائیسویں حدیث :
حدیث سفینہ اور حدیث باب حطہ بنی اسرائیل میں
اخرج الطبرانی فی الاوسط ،عن ابی سعید الخدری ؛ قال: سمعت رسول اﷲ ۖ یقول : ((انما مثل اہل بیتی کمثل سفینة نوح من رکبہا نجا ، ومن تخلف عنہا غرق ، و انما مثل اہل بیتی فیکم مثل باب حطة فی بنی اسرائیل من دخلہ غُفِر لہ ))
طبرانی ،''المعجم الاوسط ''میںابی سعید خدری سے نقل کرتے ہیں کہ میں نے رسول خدا ۖسے سنا کہ آ پ نے فرمایا: میرے اہل بیت کے مثال سفینہ ٔ نوح جیسی ہے ، جو اس پر سوار ہوا اس نے نجات حاصل کی، اور جس نے روگردانی کی وہ غرق ہوا ،اور میرے اہل بیت کی مثال تم میں ویسی ہے جیسے باب حطہ ہے بنی اسرائیل میں جو اس میں داخل ہو گیا تھا وہ بخش دیا گیا تھا ۔ (١)( اسی طرح میرے اہل بیت کے قلعہ محبت میں داخل ہوگا وہ بخش دیا جائے گا)
اٹھائیسویں حدیث :
محمد و آل محمد کی محبت اسلام کی بنیاد ہے
اخرج البخاری فی تاریخہ ، عن الحسن بن علی؛ قال: قال سول اﷲ ۖ:((لکل شیء اساس و اساس الاسلام حب اصحاب رسول اﷲ وحب اہل بیتہ ))
ابن نجار(٢) اپنی تاریخ میں نقل کرتے ہیں کہ امام حسن مجتبی نے فرمایا : جس طرح ہر چیز کی ایک بنیاد اور اساس ہوتی ہے ،اسی طرح اسلام کی بنیاد رسول کے اصحاب کی دوستی اور آ پ ۖکے اہل بیت کی محبت ہے۔ (٣)
..............
اسناد و مدار ک کی تحقیق :
(١) مذکورہ حدیث درج ذیل کتابوں میں بھی موجود ہے:
مجمع الزوائد ج٩،ص ١٦٨ ۔ کنز العمال ج ٦،ص ٢١٦۔ المعجم الصغیر للطبرانی ص ١٧٠ ۔ المعجم الاوسط للطبرانی ۔ فیض القدیر ج٤، ص ٣٥٦۔ جواہر العقدین سمہودی ج٢، ص ٧٢۔(قلمی نسخہ ، ظاہریہ کتاب خانہ دمشق ).
(٢) ابو عبد اﷲ محمد بن محمود بن حسن بن ہبة اﷲ بن محاسن بغدادی ؛ آپ ٥٧٨ ھ میں پیدا ہوئے ، اور ٦٤٣ ھ میں وفات پائی .
دیکھئے : تذکرة الحفاظ ج ٤ ،ص ١٤٢٨۔
(٣) مذکورہ حدیث حسب ذیل میں کتابوں میں بھی پائی جاتی ہے :
تفسیر در منثور ج ٦،ص ٧ ۔ کنز العمال ج ٦،ص ٢١٨۔
انتیسویں حدیث:
رسول اسلام اولاد فاطمہ زہرا ء کے باپ اور عصبہ ہیں
اخرج الطبرانی ،عن عمر ؛ قال: قال سول اﷲ ۖ : ((کل بنی انثی فان عصبتہم لابیہم ما خلا ولد فاطمة، فانی عصبتہم فاناابوہم))١
طبرانی نے عمر ابن خطاب (١)سے نقل کیا ہے کہ رسول نے فرمایا : ہر عورت کے بچوں کی نسل ان کے باپ کی طرف منسوب ہوتی ہے ،لیکن فاطمہ کی اولاد میری طرف منسوب ہے،بیشک میں ان کا باپ ہوں ۔(٢)
تیسویں حدیث :
رسول خدا اولاد فاطمہ کے ولی اور عصبہ ہیں
اخرج الحاکم عن جابر ،عن فاطمة الزہرا(س)؛ قال: قال سول اﷲ ۖ:(( کل بنی ام ینتمون الی عصبة الاولد فاطمة فاناولیہم واناعصبتہم))
حاکم نے جابر سے ، انھوں نے حضرت فاطمہ زہرا سے نقل کیا ہے کہ رسول نے فرمایا : ہر ماں کی اولاد اپنے باب کے خاندان کی طرف منسوب ہوتی ہے ،لیکن فاطمہ کی اولاد میری طرف منسوب ہے، میں ان کا ولی اور منسوب الیہ ہوںہوں ۔(٣)
..............
اسناد و مدار ک کی تحقیق :
١ الْعَصَبَة (بالتحریک) یہ عاصب کی جمع ہے جیسے طالب کی جمع طلبة، باپ کی جانب سے رشتہ داروں کو عصبہ کہا جاتاہے .
(١) ابو حفص عمر بن الخطاب بن نفیل عدوی ؛ موصوف ہجرت کے چالیس سال قبل مکہ میں پیدا ہوئے ، اور آپ نے ہجرت کے پانچویں سال اسلام قبول کیا ، ا و ر ١١ ہجری میں خلیفۂ اول کی حیثیت سے مسند نشین ہوئے ، اور تیرہ سال حکومت کی جس میں بہت سے ممالک پر فتحیابی حاصل کی ، اور ٢٣ ھ میں ابو لولو فیروز پارسی شخص کے ہاتھوں زخمی ہوئے ، اور تین دن کے بعد زخموں کی تاب نہ لاکر دنیا سے چل بسے .
دیکھئے : صفوة ا لصفوة ج١، ص١٠١۔ تاریخ طبری ج٢،ص ١٨٧۔
(٢) مذکورہ حدیث حسب ذیل کتابوں میں بھی پائی جاتی ہے :
المعجم الکبیر جلد ١ ،ص ١٢٤۔ کنز العمال جلد ٦،ص ٢٢٢٠۔ الصواعق المحرقة ص١٨٥۔ ذخائر العقبی ص ١٢١۔
(٣) مذکورہ حدیث حسب ذیل کتابوں میں بھی پائی جاتی ہے :
المعجم الکبیر ج ١ ،ص ١٢٤۔ کنز العمال ج ٦،ص ٢٢٢٠۔ تاریخ بغداد ج١٢١،ص ٢٨٥۔ مقتل الخوارزمی ج٢ ،ص٨٨۔ مجمع الزوائد ج٩،ص١٧٢۔
|