انیسویں حدیث :
اہل بیت کا دشمن بروز قیامت یہودی محشور ہوگا
اخرج الطبرانی فی الاوسط ،عن جابر بن عبدا ﷲ رضی اﷲ عنہ؛ قال: خطبنا رسول ۖ فسمعتہ وہو یقول :(( ایہا الناس من ابغضنا اہل البیت حشرہ اﷲ تعالی یوم القیامة یہودیاً ))
طبرانی'' المعجم الاوسط ''میں جابر بن عبد اﷲ(١) سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اسلام نے ( ایک دن ) خطبہ دیا جس میں آپ کومیںنے یہ فرماتے ہوئے سنا: اے لوگو! جس نے اہل بیت سے بغض رکھا خدا روز قیامت اسے یہودی محشور کرے گا ۔(٢)
بیسویں حدیث:
جو بنی ہاشم کو دوست نہ رکھے وہ مؤمن نہیں
اخرج الطبرانی فی الاوسط ،عن عبداﷲ بن جعفر؛ قال:سمعت رسول اﷲ ۖ یقول:((یا بنی ہاشم ، انی قد سألت اﷲ لکم ان یجعلکم نجداء رحماء ، وسألتہ ان یہدی ضالکم ، و یؤمن خائفکم ، ویشبع جائعکم ، والذی نفسی بیدہ لا یؤمن احد حتی یحبکم بحبی ، اترجون ان تدخلوا الجنة بشفاعتی ولا یرجوہا بنو عبد المطلب))
طبرانی المعجم الاوسط میں عبد اﷲ بن جعفر (٣)سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اسلام سے میں نے سنا کہ آپ نے فرمایا : اے بنی ہاشم!میں نے خدا سے تمھارے لئے (چند چیزوں کو چاہا ہے): یہ کہ وہ تمھیں شجاع قرار دے ، اورباہمی رحم وکرم کا خوگر بنائے، یہ کہ جو تم میں بھٹک جائے اس کی راہنمائی فرمائے ،اور جو تم میں خائف اور کمزور ہوں ان کو امن و امان میں رکھے ، جو بھوکے ہوں انھیں شکم سیر کرے، اس ذات کی قسم جسکے قبضہ ٔ قدرت میں میری جان ہے ،کوئی بھی شخص سچا مسلمان اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ میرے واسطے سے تم سے محبت نہ کرے ،اے لوگو! کیا تم یہ سوچ سکتے ہو کہ تم میری شفاعت کے ذریعہ تم جنت میں داخل ہو جاؤ، اور بنی عبد المطلب یہ امیدہ نہ رکھیں!(یہ ہرگز نہیں ہو سکتا بلکہ وہ میری شفاعت کے تمھاری بنسبت زیادہ حقدار ہیں ) (٤).
..............
اسناد و مدار ک کی تحقیق :
(١)ابو عبد اﷲ جابر بن عبد اﷲ بن عمر انصاری سلمی ؛ آپ کا شما ر رسول کے جلیل القدر صحابیوں ، اور موثق راویوں میں ہوتا ہے ، آپ ہجرت سے بیس سال قبل پیدا ہوئے ، آپ عقبہ ٔ ثانیہ میں اپنے باپ کے ساتھ رسول کی خدمت میں مشرف ہوئے،حالانکہ اس وقت آپ بہت چھوٹے تھے ، امام بخاری نقل کرتے ہیں: جنگ بدر میں جناب جابر کے ذمہ پانی کا اٹھانا، اور اس کا بند و بست کرنا تھا ، اس کی بعد آپ نے ١٨ جنگوں میں رسول کے ساتھ شرکت کی ، اور کلبی کے نقل کے مطابق آپ نے جنگ صفین میں حضرت علی کی طرف سے شرکت کی ،بہرحال آپ کا شمار بہت اچھے حفاظ احادیث میں سے ہوتا ہے،چنانچہ آپ کی طرف ایک صحیفہ بھی منسوب ہے جس کے سلسلہ ٔرواة میں پہلا فرد سلیمان بن قیس یشکری ہے ، آپ آخری عمر میںنابینا ہوگئے تھے ، اور آپ نے ٧٤ ھ میں ٩٤ سال کی عمر میں مدینہ میں وفات پائی ، آپ کے حالات زندگی کے مطالعہ کیلئے مندرجہ کتابیں دیکھئے:
الاستیعاب ج ١،ص ٢٢٠، ٢١٩۔ طبقات ابن سعد ج٥، ص ٤٦٧۔ تہذیب التہذیب ج٤ ،ص ٢١٤۔اسد الغابة ج١ ص ٣٥٨، ٣٥٦۔
(٢)مذکورہ حدیث درج ذیل کتابوں میں نقل کی گئی ہے :
ہیثمی ؛ مجمع الزوائد ج ٩، ص١٧٢۔
ہیثمی نے اس حدیث کو اس کتاب میں طبرانی سے نقل کیا ہے)
ابن حجر عسقلانی ؛ لسان المیزان ،ج ٣،ص ١٠۔
(٣)عبد اﷲ بن جعفر بن ابی طالب ہاشمی قرشی ؛ آپ رسول اسلام کے خاص صحابی ، تھے ماں کانام اسماء بنت عمیس تھا ، ہجرت کے پہلے سال آپ کی ولادت حبشہ کی سر زمین پر ہوئی ،آپ ہی مسلمان کے پہلے وہ فرز ند تھے جس کی پیدائش حبشہ میں ہوئی ، اس کے بعد آپ اپنے باپ کی ساتھ مدینہ آئے ، اور حدیث رسول کو حفظ کرنے کے بعد نقل کرنے لگے ، اور بعد میں بصرہ ، کوفہ اور شام میں سکونت اختیار کی ، اور اپنے نہایت جود وسخاوت کی بناپر سخی و کریم جیسے القا ب سے مشہور ہوئے ، آپ نے جنگ صفین میں حضرت علی ـ کی طرف سے ایک ممتاز لشکری کی حیثیت سے جنگ میں شرکت کی ، اور ٩٠ سال کی عمر میں ٩٠ ھ میں شہر مدینہ میں وفات پائی .
(٤)مذکورہ حدیث درج ذیل کتابوں میں نقل کی گئی ہے :
ہیثمی؛مجمع الزوائد ج ٩، ص١٧٠۔
ہیثمی نے اس حدیث کو اس کتاب میں طبرانی سے نقل کیا ہے.
کنز العمال ج٦،ص ٢٠٣۔حاکم؛ مستدرک الصحیحین ج٣،ص ١٤٨۔
(حاکم کہتے ہیں: یہ حدیث شرط مسلم کے اعتبار سے صحیح ہے .
الصواعق المحرقة ص ١٤٠۔
اکیسویںحدیث:
اہل بیت امت مسلمہ کے لئے امان ہیں
اخرج ابن ابی شیبة ،و مُسدَّد فی مسندیہما ،والحکیم الترمذی ،فی نوادر الاصول ،و ابو یعلی و الطبرانی ،عن سلمة بن اکوع ؛ قال: قال رسول اﷲ ۖ:((النجوم امان لاہل السماء و اہل بیتی امان لامتی ))
ترجمہ:۔ابن ابی شیبہ(١) اور مسدد (٢)نے اپنی اپنی '' مسندوں'' میں اور حکیم ترمذی (٣)نے اپنی کتاب'' نوادر الاصول ''میں نیز ابو یعلی و طبرانی نے سلمہ بن اکوع (٤)سے نقل کیا ہے کہ رسول اسلام نے فرمایا : جیسے اہل آسمان کیلئے ستارے باعث امان ہیں اسی طرح میری امت کیلئے میرے اہل بیت امن و نجات کے مرکز ہیں ۔ (٥)
بائیسویں حدیث :
دو چیزوں سے تمسک رکھنے والا کبھی گمراہ نہ ہوگا
اخرج البزار ، عن ابی ہریرة ؛ قال: قال رسول اﷲ ۖ :((انی خلفت فیکم اثنین لن تضلوا بعد ہما کتاب اﷲ و نسبتی و لن یفترقا حتی یردا علیَّ الحوض))
بزار (٦)نے ابو ہریرہ (٧)سے نقل کیا ہے کہ رسول خداۖ نے فرمایا : میں تمھارے درمیان دو چیزیں چھوڑ رہا ہوں ان کے ہو تے ہوئے تم ہرگز گمراہ نہیں ہوگے ،اور وہ کتاب خدا اور میرا نسب ہے(یعنی میری نسل اور عترت) جو کبھی بھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوںگے ،یہاں تک کہ وہ باہم حوض کوثر پر میرے پاس وارد ہوںگے ۔(٨)
..............
اسناد و مدار ک کی تحقیق :
(١)ابو بکر عبد ﷲبن محمد بن ابی شیبہ ابراہیم بن عثمان کوفی ؛ موصوف ١٥٩ ھ میں پیدا ہوئے، اور ٢٥٣ ھ میں وفات پائی ، آپ مقام رصافہ میں استاذ تھے ، اور آپ کااپنے زمانہ کے مشہور محدثین میں شمار ہوتا تھا ، آپ کے حالات زندگی درج ذیل کتابوں میںملاحظہ کریں :
طبقات ابن سعد ج ٦،ص ٢٧٧ ۔ فہرست ندیم ص٢٢٩۔ تاریخ بغداد ج ١٠ ص ١٧ ، ٦٦۔ تذکرة الحفاظ ج ٢،ص ٤٣٣، ٤٣٢۔ شذارات الذہب ج٢،ص ٨٥۔
(٢) ابو الحسن مسدد بن مُسَرْ ہد اسدی بصری ؛ یہ وہ فرد ہیں جن سے ابوذرعہ ، بخاری ، ابودائود ، قاضی اسمعیل ، اور ابو حنیفہ وغیرہ نے حدیثیں نقل کی ہیں ، آپ پہلے وہ فرد ہیں جنھوں نے بصرہ میں مسند کی تالیف پر کام شروع کیا ، چنانچہ آپ کو اپنے زمانہ کا امام المصنفین اور حجت کہا جاتا ہے ، آپ کی امام احمد بن حنبل سے خط و کتابت جاری رہتی تھی ، آپ کی موت ٢٢٨ ھ میں واقع ہوئی ، بقیہ حالات زندگی درج ذیل کتابوں میں ملاحظہ کریں:
طبقات حنابلہ ج١، ص ٤٥٣ ، ٣٤١ ۔ الاعلام ج ٨، ص ١٠٨۔ ابن سعد ج ٦،ص ٢٧٧ ۔
(٣) ابو عبد اﷲ محمد بن علی بن حسن بن شیر ملقب بہ حکیم ترمذی ؛ آپ کا خراسان کے بزرگ اساتذہ میں شمار ہوتا تھا ، آپ اپنے باپ اور قتیبہ بن سعید و دیگر لوگوںسے حدیث نقل کرتے تھے، آپ کی اہم ترین تالیف نوادر الاصول فی معرفةاخبار الرسول ، ختم الولایہ ، علل الشریعہ والفروق ہیں ،آپ کی موت ٢٨٥ ھ میں ہوئی ، بقیہ حالات زندگی درج ذیل کتابو میںملاحظہ کریں:
طبقات الشا فعیہ حنابلہ ج٢، ص٢٠۔ الاعلام ج ٧، ص١٥٦۔ معجم المؤلفین ج١٠، ص ٣١٥۔
(٤)سلمہ بن عمرو بن اکوع ؛ آپ عرب کے مشہور شجاع لوگوں میں سے تھے ، آپ کی پیدائش ہجرت کے چھ سال قبل ہوئی ، اور بیعت الشجرہ میں رسول کے ہاتھوں پر جان نثاری کی غرض سے بیعت کی ، اور رسول کے ساتھ سات جنگوں میں شریک ہوئے ، اور ٧٤ ہجری میں وفات پائی ، آپ کے بقیہ حالات زندگی درج ذیل کتابوں میں ملاحظہ کریں:
الاصابة ج ٣، ص ١١٨۔ طبقات ابن سعد ج ٤،ص ٣٨ ۔
(٥)مذکورہ حدیث حسب ذیل کتابوں میں بھی نقل کی گئی ہے :
مستدرک الصحیحین ج ٣، ص ٤٥٧۔
جو حدیث اس کتاب میں نقل ہوئی ہے اس کے الفاظ میں تھوڑا سا فرق پایا جاتا ہے .
کنزالعمال ج ٦، ص٦١٢۔ ج٧، ص ٢١٧۔ مجمع الزوائد ج ٩،ص ١٧٤۔ ( نقل از طبرانی )
محب الدین طبری ؛ ذخائر العقبی ص ١٧۔
محب الدین طبری نے اس حدیث کوحضرت علی ـ سے نقل کیا ہے کہ رسول خدا نے فرمایا:
''النجوم امان لاہل السماء فاذا ذہبت النجوم ذہب اہل السماء و اہل بیتی امان لاہل الارض فاذا ذہب اہل بیتی ذہب اہل الارض''۔
ستارے آسمان والوں کیلئے امان ہوتے ہیں لہٰذا جب بھی ستارے آ سمان سے ختم ہوجائیںتو آسمان والے بھی ختم اور نابود ہوجائینگے، اسی طرح میرے اہل بیت اہل زمین کیلئے امان ہیں لہٰذا اگر اہل بیت روئے زمین سے چلے جائیں تو اہل زمین کا بھی خاتمہ ہوجائیگا .
اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد طبری کہتے ہیں: یہ حدیث میں نے احمد بن حنبل کی کتاب المناقب سے نقل کی ہے .
(٦) ابو بکر احمد بن عمرو بن عبد الخالق بزار بصری مؤلف ِ'' المسند'' ؛ آپ نے بصرہ سے بغداد کی طرف ہجرت کی ، اور وہاں پر محدث جیسے عہدے پر فائز ہوگئے ، دوبار اصفہان سفر کیا ، اور سہلہ میں ٢٩١ ھ میں وفات پائی ، آپ کے بقیہ حالات زندگی درج ذیل کتابوں میں ملاحظہ کریں:
تذکرة الحفاظ ج٢ ، ص ٦٥٤، ٦٥٣۔ ذکر اخبار اصفہان ج ١، ص ١٠٤ ۔ لسان المیزان ج١، ص ٢٣٧۔ تاریخ بغداد ج٤، ص ٣٣٤۔
(٧)ابو ہریرہ عبد الرحمن بن صخر ( یا عمیر بن عامر ) دوسی ؛ دور جاہلیت میںموصوف کا نا م عبد الشمس تھا ، اور آپ فتح خیبر کے موقع پر مدینہ آئے، اور ٧ ھ میں اسلام قبول کیا ، انھوں نے اگر چہ رسول کی ساتھ بہت کم زما نہ گزارا ہے مگر آپ نے دیگر تمام صحابہ سے زیادہ حدیثیں نقل کی ہیں !ابن حجر کہتے ہیں: اہل حدیث کے عقیدہ کے لحاظ سے ابوہریرہ سب سے زیادہ حدیث نقل کرنے والے فرد ہیں ، بہر حال آپ کی وفات ٥٨ ھ میں ہوئی ، بقیہ حالات زندگی درج ذیل کتابوں میں ملاحظہ کریں:
الاصابة ج ٢، ص ٢٠٧ ، ١٩٩۔ تذکرة الحفاظ ج١، ص ٣٧، ٣٢ ۔
حضرت ابو ہریرہ کے مزید حالات معلوم کرنے کیلئے کتاب ابو ہریرہ مؤلفہ عبد الحسین شرف الدین دیکھئے .مترجم .
(٨) مذکورہ حدیث درج ذیل کتابوں میں بھی موجود ہے :
زوائد مسند بزار ص ٢٧٧۔ مجمع الزوائد ج٩،ص ١٦٣۔
تیئیسویں حدیث:
اہل بیت اور کتاب خدا سے تمسک رکھنے والا گمراہ نہ ہوگا
اخرج البزار ، عن علی رضی اﷲ عنہ ؛ قال: قال رسول اﷲ ۖ :((انی مقبوض، وانی قد ترکت فیکم الثقلین ،کتاب اﷲ و اہل بیتی ، وانکم لن تضلوا بعدہما))
بزار نے علی سے نقل کیا ہے کہ رسول اسلام ۖ نے ارشاد فرمایا : اے لوگو! اس حال میں کہ میری عنقریب روح قبض ہونے والی ہے تمھارے درمیان دو گرانقدر(١) چیزیں چھوڑ رہا ہوں : کتاب خدا اور میرے اہل بیت ، ان کے ہوتے ہو ئے تم ہرگز ہرگز گمراہ نہیں ہوگے۔(٢)
چوبیسویں حدیث:
اہل بیت کی مثال سفینۂ نوح جیسی ہے
اخرج البزار ، عن عبد اﷲ بن الزبیر ؛ان النبی ۖ قال :((مثل اہل بیتی مثل سفینة نوح من رکب فیہا نجا ، ومن تخلف عنہا غرق ))
بزارعبد اﷲ بن زبیر(٣) سے نقل کرتے ہیں کہ رسول خدا ۖ نے فرمایا : میرے اہل بیت کے مثال سفینہ ٔ نوح جیسی ہے، جو ا س پر سوار ہوا تھا اس نے نجات حاصل کی اور جس نے روگردانی کی وہ غرق ہوا تھا ۔(اسی طرح جو اہل بیت (ع) کا دامن تھامے گا وہ نجات حاصل کرے گا اور جو روگردانی کرے گا وہ جہنم میں جائے گا ) (٤)
..............
اسناد و مدار ک کی تحقیق :
(١)عربی زبان کے مشہور لغوی جناب ابن منظور لفظ '' ثقل '' کے ذیل میں کہتے ہیں: عرب لوگ ہر اس چیز کونفیس کہتے ہیں جو ان کے نزدیک نفیس ، ارزشمند اور گران قیمت ہو کہ جس کی حفاظت میں نگہبانی کی ضرورت پڑے ، چنانچہ اس بات کی وجہ تسمیہ کہ رسول اسلام نے قرآن اور اہل بیت کو کیوں اس لفظ ( ثقلین)سے تعبیر کیا ؟ اس میں کیا وجہ تھی ؟تو کہتے ہیں چونکہ اہل بیت اور قرآن عظمت و فضیلت کے اعتبارسے بلند شان رکھتے تھے لہٰذا رسول نے ان دونوں چیزوں کو اس لفظ سے تعبیر کیا ،اور انھیں لفظ ثقل سے تشبیہ دی ،لیکن ثعلب لغوی کہتے ہیں: اہل بیت اور قرآن کی تشبیہ رسول نے اس لئے دی ہے کہ ان دو چیزوں کی پیروی بہت گران ، اور دشوار ہے ، (اور ثقل کے لغوی معنی بھی گران اور وزنی کے ہیں) .
دیکھئے : لسان المیزان ج١١، ص ٨٨۔
(٢)مذکورہ حدیث درج ذیل کتابوں میں بھی موجود ہے :
مسند بزار ص ٢٧٧۔ مجمع الزوائد ج٩،ص ١٦٣۔
(٣)مذکورہ حدیث درج ذیل کتابوں میں بھی موجود ہے :
زوائد مسند بزار ص ٢٧٧۔ مجمع الزوائد ج٩،ص ١٦٨۔ المعجم الکبیر ج١،ص ١٢٥۔ ذخائر العقبی ص ٢٠۔ منتخب کنزالعمال ج٥، ص ٩٢۔
(٤) ابو بکر عبد اﷲ بن زبیر بن عوام بن خویلد قرشی اسدی ؛ واحدی کے قول کے مطابق موصوف ٢ ھ میں پیدا ہوئے ، اور ٧٣ ھ میں وفات پائے ، موصوف فتح افریقہ میں عثمان کی جانب سے لشکر میں شریک تھے ، دوسری جانب حضرت علی ـ کے دور خلافت کے ابتداء میں حضرت علی ـ کے خلاف جنگ جمل بھڑکانے والوں میں سے تھے ، اور حضرت کی شہادت کے بعد انھوں نے معاویہ کی بیعت کرلی ، لیکن معاویہ اور یزید کے انتقال کے بعد انھوں نے چاہا اپنے لئے لوگوں سے بیعت اخذ کریں لیکن عبد الملک بن مروان نے حجاج بن ثقفی کی سپہ سالاری میں ایک لشکر ان کی سرکوبی کیلئے بھیجا، چنانچہ ان کے درمیان جنگ ہوئی اور عبد اﷲ بن زبیر ٧٣ ھ میں مارے گئے ، آپ کے حالا ت زندگی درج ذیل کتابوں میں ملاحظہ کریں:
الاصابة ج ٤،ص ٧١ ، ٦٧۔ الاعلام ج ٤،ص ٢١٨۔
|