احیاء ا لمیت بفضائل اہل البیت(ع)
 


ترجمۂ احیاء ا لمیت بفضائل اہل البیت (ع)
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
الحمد ﷲ وسلام علی عبادہ الذین اصطفی .
ہذہ ستون حدیثا اسمیتہا :'' اِحْیائَُ الْمَیْتْ بِفَضَائِلِ اَہْلِ الْبَیْتْ''.
تما م تعریفیں خدا وند متعال سے مخصوص ہیں ، اور سلام ہو اس کے برگزیدہ بندوں پر۔
یہ ساٹھ عدد حدیثیں ہیں جن کے مجموعہ کا نام میں نے''احیاء ا لمیت بفضائل اہل البیت(ع)''(فضائل ِاہل بیت سے احیاء میت)رکھا ہے ۔

پہلی حدیث(١) :
رسول کے قرابتداروں کی مودت ہی اجر رسالت ہے .
اخرج سعید بن منصور فی سننہ ، عن سعید بن جبیر، فی قولہ تعالی :
( قُلْ لَا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْراً اِلَّاالْمُوَدَّةَ فِیْ الْقُرْبٰی ) قال:قربی رسول اﷲ ۖ.
سعید بن منصور (٢)نے اپنی سنن میں سعید بن جبیر (٣)سے آیۂ مودت:
( قل لااسئلکم علیہ اجراًالاالمودة فی القربی)
(اے رسول !تم ان سے کہہ دو کہ میں اس (تبلیغ رسالت )کا اپنے قرابتداروں کی محبت کے سوا تم سے کوئی صلہ نہیں مانگتا)(٤)کی تفسیرمیں نقل کیا ہے کہ'' القربی'' سے مراد؛رسول اسلام ۖ کے قرابتدار ہیں ۔(٥)
..............

اسناد ومدارک کی تحقیق:
(١)محترم قارئین! جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ علمائے اہل سنت کی اصطلاح میں قول ، فعل اورتقریر رسول کو حدیث کہا جاتا ہے ، اسی طرح رسول کے خَلقی اور خُلقی اوصاف نیز صحابہ اور تابعین کے کلام کو بھی اہل سنت کے یہاں حدیث کہا گیا ہے .
ڈاکٹرنورالدین عتر؛ منہج النقد،ص ٢٧۔ دکتر صبحی الصالح؛علوم الحدیث ومصطلحہ،ص ٤٢٦۔
لیکن شیعہ علماء کی اصطلاح میں حدیث وہ کلام ہے جو معصوم کے فعل ، قول اور تقریرکی حکایت کرے .
سید حسن الصدر الکاظمی ؛نہایة الد رایة،ص٨٠۔شیخ عبد اﷲ مامقانی ؛مقباس الہدایہ فی علم الدرایة جلد١،ص٥٩۔
(٢)ابو عثمان سعید بن منصور بن شعبہ ٔ خراسانی یا طالقانی؛ آپ جوزجان میں متولد ہوئے، اور بلخ میں پرورش پائی،اور آپ نے دیگر ممالک کی طرف متعددسفر کیا ، آخر کار مکہ میں سکونت اختیار کی ،اور یہیں ٢٢٧ ھ میں وفات پائی ،امام مسلم نے ان سے روایت نقل کی ہے ، ان سے مروی احادیث کتب صحاح ستہ میں بھی دیکھی جا سکتی ہیں ، بقیہ حالات زندگی حسب ذیل کتابوں میں دیکھئے:
تذکرةالحفاظ ،جلد١، ص ٤١٧،٤١٦۔ تاریخ البخاری ،جلد ٢ ، ص ٤٧٢۔ الجرح والتعدیل جلد ١ ، ص٦٨۔ مختصر تاریخ دمشق ،جلد ٦، ص ١٧٥۔تہذیب التہذیب جلد ٣ ، ص ٨٩ ، ٩٠.
(٣)ابو محمد سعید بن جبیر بن ہشام اسدی والبی؛آپ ٤٦ ھ میں پیدا ہوئے ،اور ٩٥ھ میں ٤٩ سال کے سن میں حجاج بن یوسف ثقفی کے ہاتھوں قتل ہوئے،آپ کی شہادت کے بعد ابن جبیر نے عبد اﷲ بن عباس اور عبد اﷲ بن عمر کی شاگردی اختیار کی ، یہ جملہ تابعین میں بہت ہی بلند پایہ کے عالم دین شمار کئے جاتے ہیں ، اور انھیںتفسیر قرآن لکھنے والے گروہ میں قدیم ترین مفسر قرآن مانا جاتا ہے، بقیہ حالات زندگی حسب ذیل کتابوں میں دیکھئے:
تذکرةالحفاظ ،جلد١، ص ٧٧،٧٦۔ طبقات ابن سعد جلد ٦،ص٢٦٧،٢٥٦۔ الجرح والتعدیل جلد ١ ، ص٩۔تہذیب التہذیب جلد ٤ ، ص١٤،١١.
(٤) سورہ ٔ شوری آیت ٢٣ .
(٥)مذکورہ حدیث کو درج ذیل علمائے اہل سنت نے بھی نقل کیا ہے:
سیوطی ؛ تفسیردر منثور ج ٦ ، ص٧.حسکانی ؛ شواہد التنزیل جلد٢، ص ١٤٥. حاکم؛مستدرک الصحیحین جلد٣ ، ص ١٧٢. ابن حجر ؛ صواعق محرقة ص ١٣٦۔ طبری ؛ ذخائر العقبی ص٩۔
دوسری حدیث :
رسولۖ کے قرابتدار کون لو گ ہیں ؟
اخرج ابن المنذر،و ابن ابی حاتم،و ابن مَرْدَوَیْہ ، فی تفاسیرہم ، والطبرانی فی المعجم الکبیر ، عن ابن عباس ؛لما نزلت ہذہ الآیة :( قُلْ لَا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْراً اِلَّاالْمُوَدَّةَ فِیْ الْقُرْبٰی )قالوا : یا رسول اﷲ! من قرابتک ہولاء الذین وجبت علینا مودتُہم ؟ قال:(( علی وفاطمة وولداہما)) .
ترجمہ:۔ابن منذر (١)ابن ابی حاتم (٢)اور ابن مردویہ (٣)نے اپنی تفاسیر میں اور طبرانی (٤)نے اپنی کتاب'' المعجم الکبیر ''میں ابن عباس (٥)سے نقل کیا ہے کہ جب یہ آیت:
( قُلْ لَا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْراً اِلَّاالْمُوَدَّةَ فِیْ الْقُرْبٰی )
نازل ہوئی تولوگوں نے رسول ۖسے کہا : یا رسول اﷲ ! آپ کے وہ قرابتدار کون لوگ ہیں جن کی محبت ہمارے اوپر فرض کی گئی ہے؟
تورسول ۖنے ارشاد فرمایا: وہ علی، (٦)فاطمہ (٧) اور ان کے دونوں بیٹے ( امام حسن اور امام حسین ) ہیں۔ (٨)
..............

اسناد ومدارک کی تحقیق:
(١) ابو بکر محمد بن ابراہیم ابن منذر نیشاپوری ؛ آپ بہت بڑے حافظ ، فقیہ ، مجتہد اور مسجد الحرام کے پیش اما م تھے، آپ کی مشہور کتابیں : المبسوط فی الفقیہ ،الاشراف فی اختلاف العلماء اور کتاب الاجماع ہیں،آپ ٢٤٣ ھ میں متولد ہوئے اور ٣١٨ ھ میں اﷲ کو پیارے ہوگئے ،آپ کے بقیہ حالات زندگی حسب ذیل کتابوں میں دیکھئے:
تذکرة الحفاظ جلد ٢ ، ص ٧٨٣ ، ٧٨٢۔ کتاب طبقات الشافعیہ جلد ٢، ص ١٠٨ ، ١٠٢ ۔ کتاب الاعلام جلد ٦ ، ص ١٨٤۔شذرات الذہب جلد٢، ص ٢٨٠۔
(٢)ابو محمد عبد الرحمن بن ابی حاتم محمدبن ادریس بن منذر تمیمی حنظلی رازی؛
آپ ٢٤٠ھ میں شہر''رَےْ '' میں پیدا ہوئے اور ٣٢٧ ھ میں اسی شہر میںدنیا سے گزر گئے ، آپ کا اپنے زمانے کے مشہور محدثین میں شمار ہوتا تھا ،اور آ پ نے علم حدیث کو اپنے وا لد محترم اور فن جرح وتعدیل کے ماہر جناب ابو ذرعہ جیسے اساتذہ سے سیکھا ، اسی طرح آپ کا شمار علم قرائت کے مشہور علماء میں ہوتا تھا ، علم دین کی تلاش میں آپ نے مکہ ، دمشق ،مصر، اصفہان اور دیگر شہروں کی جانب متعدد سفر کئے ،بقیہ حالات زندگی حسب ذیل کتابوں میں دیکھئے:
تذکرة الحفاظ جلد٢ ، ص٨٣٢ ، ٨٢٩۔ کتاب طبقات الشافعیہ جلد ٢،ص ٣٢٨، ٣٢٤ ۔شذرات الذہب جلد٢، ص٣٠٩،٣٠٨۔ فوات الوفیات جلد١ ص ٥٤٣ ، ٥٤٢۔ طبقات الحنابلہ جلد ٢، ص ٥٥۔ لسان المیزان جلد ٣، ص ٤٣٢ ، ٤٣٣۔
المیزان جلد ٣، ص ٤٣٢۔ مرآة الجنان جلد ٣، ص ٢٨٩۔
(٣)ابو بکر بن ا حمد موسی بن مردویہ بن فورک اصفہانی؛ آپ ہی تفسیر ابن مردویہ،تاریخ ابن مردویہ ''و چند دیگر کتابوں کے مؤ لف ہیں،آپ کا شمار اپنے معاصر محدثین، مؤرخین ، مفسرین اور علم جغرافیہ کے جاننے والوں میںہوتا ہے ، آ پکی پیدائش ٣٢٤ ھ میں اور وفات ٤١٠ ھ میں ہوئی،بقیہ حالات زندگی حسب ذیل کتابوں میں دیکھئے:
تذکرة الحفاظ جلد ٢، ص ١٠٥١۔١٠٥٠۔ اخبار اصفہان جلد ١، ص ١٦٨۔ المنتظم جلد ٣، ص ٢٩٤۔
(٤)ابو القاسم سلیمان بن احمد بن ایوب بن مطیر لخمی شامی طبرانی ؛ آپ ٢٦٠ ھ میں شہر عکا میں متولد ہوئے ، اور سوسال کی عمر میں ٣٦٠ ھ میں شہر اصفہان میں انتقال کرگئے، آپ نے حدیث رسول کی تلاش میں حجاز ، یمن ، ایران اور الجزیرہ وغیرہ کے متعدد سفرکئے ، آپ کی اہم کتابیں یہ ہیں :المعجم الکبیر ، المعجم الاوسط اور المعجم الصغیر ، بقیہ حالات زندگی حسب ذیل کتابوں میں دیکھئے:
تذکرةالحفاظ جلد ٣، ص ٩١٨،٩١٢۔ ذکراخبار اصفہان جلد ١، ص ٣٢٥۔ میزان الاعتدال جلد ٢، ص ١٩٠ ۔ النجوم الزاہرة جلد٤، ص ٥٩۔الاعلام جلد ٣، ص ١٨١۔ لسان المیزان جلد ٢، ص٧٤۔
(٥)ابو العباس عبد اﷲ بن عباس بن عبد المطلب قرشی ہاشمی؛ آپ حبر امت، جلیل القدر صحابی تھے ،آپ ہجرت کے تین سال پہلے دنیا میں آئے ، رسول اسلام نے دعا فرمائی تھی کہ خدا ان کو دین اسلام کا فقیہ قرار دے ، اور علم تاویل عطا فرمائے ، صحاح ستہ کے مؤلفین نے سولہ سو ساٹھ ]١٦٦٠[ حدیثیں اپنی کتب صحاح میں ان سے نقل کی ہیں ، موصوف نے جنگ صفین اور جنگ جمل میں حضرت علی ـ کی طرف سے شرکت کی تھی ، اور واحدی کے قول کے مطابق آپ کی وفات ٧٢ سال کی عمر میں ٦٨ ھ میں شہر طائف میں ہوئی ، بقیہ حالات زندگی حسب ذیل کتابوں میں دیکھئے:
وفیات الاعیان جلد ٣، ص ٦٣ ، ٦٢۔ الاصابة جلد٤ ، ص ٩٤ ،٩٠ ۔ جوامع السیرة ص ٢٧٦۔ تذکرة الحفاظ جلد ١، ص ٤٢٥۔ العقد الثمین جلد ٥، ص١٩٠۔ نکت الہمیان ص ١٨٠ ۔ تاریخ دمشق جلد٦، ص ٢٦٠۔ الاعلام ج ٤، ص ٢٢٨۔ لسان المیزان جلد ٣ ص ٧٣۔
(٦)ابو الحسن علی بن ابی طالب بن عبد المطلب(ع)؛ آپ کی ولادت بعثت سے دس سال قبل مکہ میں ہوئی، اور آغوش رسالت میں پرورش پائی،کتاب'' الاصابہ'' میں ابن حجر کے قول کے مطابق آپ ہی پہلے وہ فرد ہیں جنھوں نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا ،(اظہار اسلام کیا )آپ نے سوائے جنگ تبوک کے اسلام کی تما م مشہور جنگوں میں شرکت فرمائی، کیونکہ اس جنگ میں آپ مدینہ میں رسول کے حکم کی اطاعت کرتے ہوئے قیام پذیر رہے ، آپ کے بیشمارفضائل ہیں ، چنانچہ امام احمد بن حنبل کہتے ہیں:
جتنے فضائل و مناقب علی ـکے لئے رسول ۖسے نقل ہوئے ہیں اس مقدار میں کسی بھی صحابی کیلئے نقل نہیں ہوئے ہیں،آپ کی شہادت ٢١ رمضان المبارک ٤٠ ھ میں ہوئی، بقیہ حالات زندگی حسب ذیل کتابوں میں دیکھئے:
الاصابة جلد ٤، ص ٢٧١، ٢٦٩۔ تذکرة الحفاظ جلد١ ، ص ١٢ ، ١٠۔ حلیة الاولیاء جلد ١، ص ٧٨، ٦١۔ الاستیعاب جلد ٢ص ٤٦١۔ اسد الغابة جلد ٤، ص ٢٩٢۔
(٧) آپ ہی سیدة نساء العالمین ، حسنین کی مادر گرامی ، جناب خدیجہ کی لخت جگراوررسول اسلام کی دختر نیک اختر ہیں،آپ خدا کے نبی کے نزدیک سب سے زیادہ عزیز تھیں ،آپ کی ذات سے رسول کی نسل چلی ، بعض اقوال کی بنا پر آپ کی ولادت با سعادت ؛ ٢٠ جمادی الثانیہ بروز جمعہ،بعثت سے دوسال قبل شہر مکہ میں ہوئی ، البتہ شیخ کلینی اور ابن شہر آشوب نے شہزادی کی تاریخ ولادت کو بعثت سے پانچ سال قبل حضرت امام جعفر صادق ـ سے نقل فرمائی ہے، اور یہی مشہور بھی ہے ، اور امام جعفر صادق ـ کے نقل کے مطابق آپ کے شہادت ٣ جمادی الثانیہ ١١ ھ میں ہوئی.دیکھئے:
کتاب اعیان الشیة جلد ٢، ص ٣٢٠،٢٧١.
(٨)اس حدیث کو اہل سنت کے مشہورو جلیل القدر علماء نے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے، چنانچہ حسب ذیل کتابیںدیکھئے:
سیوطی ؛ در منثور جلد٦، ص٧.
( سیوطی نے سعید بن جبیر سے اور انھوں نے ابن عباس سے اس حدیث کو نقل کیا ہے ).
طبرانی المعجم الکبیر ؛جلد ١ ،ص ١٢٥.(قلمی نسخہ، ظاہریہ لائبریری، دمشق سوریہ ) .
ابن حجرہیثمی ؛ مجمع الزوائد جلد ٩، ص ١١٨۔محب الدین طبری ؛ ذخائر العقبی ص ٢٥۔
محب الدین طبری کہتے ہیں : اس حدیث کو احمد بن حنبل نے اپنی اپنی کتاب'' المناقب'' میں نقل کیا ہے.
ابن صباغ مالکی ؛ الفصول المہمةص ٢٩.
ابن صباغ نے بغوی سے مرفوع سند کے ساتھ ابن عباس سے اس حدیث کونقل کیا ہے.
قرطبی ؛ا لجامع لاحکام القرآن جلد١٦، ص ٢٢،٢١.
قرطبی اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں: اس حدیث میں دو بیٹوں سے مراد رسول اسلام کے دونوں نواسے حسنین ہیں جو جوانان جنت کے سردار ہیں .
تفسیر کشاف جلد ٢، ص ٣٣٩۔ اسعاف الراغبین ص ٢٠٥۔ ارشاد العقل السلیم جلد١، ص ٦٦٥. حلیة الاولیاء جلد ٣ ، ص ٢٠١ ۔ مسند امام احمد بن حنبل جلد ١ ، ص ٢٢٩۔ شواہد التنزیل جلد ٢، ص ٣٠ و ص ١٥٠۔ تفسیر طبری جلد ٢٥ ، ص ١٧۔ تفسیر ابن کثیر جلد ٤ ، ١١٢۔ الصواعق المحرقة ص ١٠١۔ نزل الابرار ص ٣١۔ ینابیع المودة ص ٢٦٨. الغدیر جلد ٣، ص ١٢٧.