متون احادیث کی تفتیش
مختلف احادیث کے متون ملاحظہ کرنے کے بعد قابل اعتراض چند باتیں ظاہر ہوتی ہیں :
١۔ڈرانا اور دھمکانا
بعض روایتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ خواستگاری تہدید کے ساتھ تھی ۔
ابن سعد نقل کرتے ہیں کہ حضرت علی ـ نے عمر کے جواب میں فرمایا وہ ایک چھوٹی لڑکی ہے ،
لیکن عمر نے جواب دیا کہ خدا کی قسم آپ کو حق نہیں کہ مجھے اس کام سے روکیں ، میں اس کو جانتا ہوں کیوں نہیں تم اس کومیرے نکاح میں لاتے ؟ (١)
ابن مغازلی عمر سے نقل کرتے ہیں کہ عمر نے کہا: قسم خدا کی مجھے اس شادی کے اصرار پر
کسی نے مجبور نہیں کیا مگر اس بنا پر کہ میں نے رسول ۖ سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا…۔(٢)
اس حدیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ امام نے بہت زیادہ اصرار کرنے پرا س کام کو مجبوراً انجام دیا ۔
٢۔ متن حدیث میں اضطراب و تزلزل
عقد ام کلثوم کے بارے میں جتنی روایتیں نقل کی گئی ہیں وہ اپنے متن اورمضمون کے لحاظ سے مضطرب و متزلزل نظر آتی ہیں ، اور یہ اضطراب و تزلزل ایسا ہے جو ان کو حجت اورمعتبر ہونے سے ساقط کررہا ہے ، مثلاً بعض روایتوں میں اس طرح وارد ہوا ہے: حضرت علی ـ خود اس عقد نکاح کے متولی تھے اور بعض میں آیا ہے کہ اس عقد کی ذمہ داری عباس کی حوالے تھی، اسی طرح بعض روایتوں میں آیا ہے کہ یہ عقد ڈرا اور دھمکا کے کیا گیا ، بعض میں ہے کہ امیر المومنین اس پر راضی تھے ، اسی طرح بعض روایتوں میں ہے کہ عمر ان سے بچہ دار بھی ہوئے، ان میں سے ایک بچہ کا نام زید تھا، بعض کہتے ہیں کہ عمر مباشرت کرنے سے پہلے ہی مر گئے تھے ، اسی طرح کچھ روایتوں میں ہے کہ زید بن عمر نے اپنے بعد اپنی نسل بھی چھوڑی ، بعض روایتوں میں آیا ے کہ زید بن عمر نے کوئی نسل نہیں چھوڑی ، بعض کہتے ہیں کہ زید اور ان کی ماں ماردئے گئے تھے ، بعض میں ہے کہ زید کے مرنے کے بعد ان کی ماں زندہ تھیں ، اسی طرح کچھ روایتوں میں ہے کہ عمر نے اس شادی میں چالیس ہزار درہم مہررکھا تھا ، کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ چار ہزار درہم تھا …… ۔!!
اس کثرت سے روایتوں میں اختلاف کا پایا جانا ان کے ضعیف ہونے پر دلالت کرتا ہے۔
..............
(١)طبقات ابن سعد ج ٨، ص ٤٦٤ ۔
(٢)مناقب امام علی ص ١١٠۔
٣۔حضرت ام کلثوم اور عمر کے سن میں تناسب نہیں تھا
فقہاء حضرات بحث نکاح میں زوجین کا آپس میں کفو ہونا شرط جانتے ہیں چنانچہ اس چیز کو مد نظررکھتے ہوئے عمر اور ام کلثوم کے سن میں زمین وآسمان کا فرق نظر آتا ہے ، کیونکہ ٩ ھ میں
جناب ام کلثوم پیدا ہوئیں، اس طرح ان کی عمر ١٧ ہجری میں آٹھ یا نو برس ہوتی ہے جبکہ حضرت عمر
اس وقت ستاون سال کے ہو رہے تھے، چنانچہ ابن سعد کہتے ہیں : علی ـ نے عمر سے کہا میری لڑکی ابھی صغیرہ ہے ، (بعض روایتوں میں صبیہ کی لفظ آئی ہے ، جس کے معنی وہ بچی جو بہت چھوٹی ہو) (١)کیا حضرت علی ـ کو ام کلثوم کیلئے کوئی رشتہ دستیاب نہیں ہورہا تھا کہ ستاون سال کے بڈھے سے کردیا ؟!
٤۔ یہ ام کلثوم حضرت ابوبکر کی بیٹی تھی
بعض تاریخ سے استفادہ ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکر کی ایک لڑکی کا نام ام کلثوم تھا عمر نے اس سے شادی کرنے کی درخواست کی تھی جسے قبول کرلیا گیا تھا ، چونکہ ام کلثوم حضرت علی ـ کی بچی کا نام بھی تھا لہٰذا نام کی مشابہ ہونے کی وجہ سے بعض نافہم لوگوں نے اسے ام کلثوم بنت علی کی طرف منسوب کردیا ، چنانچہ ابن قتیبہ معارف میں لکھتے ہیں : جب عمر ام کلثوم بنت ا بی بکر سے شادی کرنے کی
درخواست عائشہ کی پاس لے کر گئے تو عائشہ نے اسے قبول کرلیا،لیکن ام کلثوم عمر کو پسند نہیں کرتی تھیں۔(٢)
حضرت ابو بکر کی طرح حضرت عائشہ اورحضرت عمر کے درمیان وسیع تعلقات کا قائم ہونااس احتمال کے قوی ہونے پر مزید دلالت کرتا ہے۔
عمر ی موصلی اور عمر رضا کحالہ نے بھی اس واقعہ کو اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے ۔(٣)
..............
(١)طبقات ابن سعد ج ٦ ،ص ٣١٢ ۔
(٢)ابن قتیبہ ؛ المعارف ص ١٧٥۔
(٣)عمر موصلی؛الروضة الفیحاء فی تواریخ النساء ص ٣٠٣۔ عمر رضا کحا لہ؛ اعلام النساء ج ٤ ،ص ٢٥٠۔
٥۔ جرول کی بیٹی ام کلثوم
بعض مؤرخین نے زید بن عمر کی ماں ام کلثوم بنت جرول خزاعی جانا ہے ، لہٰذا اسم کے مشابہ ہونے کی وجہ سے ام کلثوم بنت علی لکھ دیا گیا ، چنانچہ طبری کہتے ہیں : زید اصغر اور عبیداﷲ(جو جنگ
صفین میں معاویہ کے ساتھ مارے گئے) کی ماں ام کلثوم بنت جرول خزاعی تھی ، جس کے درمیان اسلام نے عمر سے جدائی کروادی تھی۔ (١)
اکثر مؤرخین ام کلثوم بنت جرول اور عمر کے درمیان شادی زمانہ جاہلیت میں جانتے ہیں ۔(٢)
٦۔ام کلثوم بنت عقبہ ابن معیط
بعض تاریخ سے استفادہ ہوتا ہے کہ یہ ام کلثوم بنت عقبہ بن معیط تھی۔
٧۔ ام کلثوم بنت عاصم
بعض تاریخ سے استفادہ ہوتا ہے کہ یہ ام کلثوم بنت عاصم تھی ۔
٨۔ام کلثوم بنت راہب
امام ابن ماجہ اور ابن دائود کے قو ل کے مطابق عمر کی شادی انھیں سے ہوئی تھی۔
٩۔عقد ام کلثوم شرعی معیارسے منافات رکھتاہے
عقد ام کلثوم سے متعلق روایات کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ یا عمر شرعی مسائل سے بے خبر تھے یا پھر یہ واقعہ ہی جعلی اور گڑھا ہوا ہے ، جیسا کہ خطیب بغدادی نے نقل کیا ہے کہ قبل اس کے کہ عمرحضرت علی ـ سے ام کلثوم سے شادی کی درخواست کرتے حضرت نے ام کلثوم سے کہا : جاؤ اپنی زینت کرو اور خوب سج دھج کر آؤ ، جب وہ اپنا سنگار کرکے آئیں تو آپ نے ان کوعمر کے پاس بھیج دیا جب عمر نے ان کو دیکھا تو ان کی طرف لپکے اور اپنے ہاتھوں سے ان کی پنڈلیاں کھول دیں! اور کہنے
..............
(١)تاریخ طبری ج ٣، ص ٢٦٩، کامل ابن اثیر ج ٣، ص ٢٨۔
(٢)الاعصابہ ج ٤، ص ٤٩١۔ صفوة الصفوة ص ١١٦۔ تاریخ المدینہ المنورة ج٢، ص ٦٥٩۔
لگے : اپنے بابا سے کہو میں راضی ہوں ، جب ام کلثوم حضرت علی ـ کے پاس آئیں توآپ نے کہا: عمر
نے کیا کہا؟ کہنے لگیں : جب عمر نے مجھے دیکھا تو اپنی طرف بلایا، اور جب میں ان کے نزدیک گئی تو میرے بوسے لینے لگے اور جب کھڑی ہوگئی تو میری پنڈلیا ں پکڑ لیں !
لا حول ولا قوة الا باﷲ ،اگر اس روایت کی تنقید کرنا مقصود نہ ہوتی تو ہم ہرگز ایسی رکیک اور توہین آمیز روایت نقل نہ کرتے، یہ واقعہ حضرت امیر المومنین ـ کی غیرت سے بالکل سازگاری نہیں رکھتا ، حضرت علی شادی سے پہلے کیسے اپنی لڑکی کا ہاتھ ایسے شخص کے حوالے کردیں گے جو شرعی حدود کی رعایت کرناجانتا ہی نہ ہو،اسی وجہ سے سبط ابن جوزی اس واقعہ کو اپنے جد صاحب''المنتظم'' سے نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں : یہ واقعہ بہت قبیح ہے ،اگرچہ میرے جد اس واقعہ کو نقل کرتے ہیں کہ حضرت علی ـ نے شادی سے پہلے ام کلثوم کو عمر کے پاس بھیجا تاکہ وہ اس کو دیکھ لیں لیکن عمر نے اس کو دیکھا تو اسکی شلوار کو اٹھاکر اس کی پنڈلیاں ہاتھوں سے مس کرنے لگے ، لیکن میرا کہنا یہ ہے کہ اگر ام کلثوم کے علاوہ کوئی کنیز بھی ہوتی تب بھی خدا کی قسم یہ عمل قبیح اور خلاف شرع تھا ،کیونکہ تمام مسلمین کا اس پر اجماع ہے کہ غیر محرم عورت کامس کرنا ہرگز جائز نہیں ہے ، اور وہ بھی عمر ایسا کام کریں !!(١)
بعض روایتوں میں آیا ہے کہ جب ام کلثوم نے یہ کام کرتے دیکھا تو بہت ناراض ہوئیں اور کہنے لگیں :اگر تو خلیفہ نہ ہوتا تو میں تیری ناک توڑ دیتی، اس وقت خلیفہ کے گھر سے باہر نکلیں اور اپنے باپ کے پاس آگئیں ، اور سارا ماجرہ بیان کیا اور کہنے لگیں: اے بابا جان آپ نے کس پست اور بد تمیز بڈھے کے پاس بھیج دیا تھا؟(٢)
١٠۔ یہ ام کلثوم بنت فاطمہ زہرا نہیں
اہل سنت والجماعت اس بات پر شدت سے اصرار کرتے ہیں کہ یہ ام کلثوم حضرت فاطمہ زہرا
..............
(١)سبط ابن جوزی ؛ تذکرة الخواص ، ص ٢٨٨ ۔
(٢)اسد الغابة ج ٥، ص ٦١٤ ۔ الاصابة ج ٤، ص ٤٩٢ ۔ ذ ہبی؛تاریخ الاسلام ج ٤ ،ص ١٣٨ ۔
کی بیٹی تھیں انھیں سے عمر نے شادی کی درخواست کی تھی تاکہ عمر کا رسول خدا ۖسے سببی رشتہ ہوجائے ، لیکن تاریخ سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت علی ـکی ایک دوسری لڑکی ام کلثوم نام کی تھی ، جو شہزادی فاطمہ کے بطن سے نہیں تھی ، اسی طرح بعض مؤرخین کا کہنا ہے کہ حضرت علی ـکی اور دو
لڑکیاں زینب صغری اور ام کلثوم صغری نام کی تھیں اور وہ دونوں ام ولد تھیں ۔(١)
ابن قتیبہ نے بھی ام کلثوم کو صرف امام علی ـ کی لڑکی جانا ہے جو حضرت فاطمہ کے بطن سے نہیں تھی ، کہتے ہیں : اس کی ماں ام ولد اور کنیز تھی ۔ (٢)
نیزعلامہ طریحی کہتے ہیں : ام کلثوم زینب صغری حضرت علی کی لڑکی تھی( فاطمہ کی نہیں ) جو اپنے بھائی امام حسین ـ کے ساتھ کربلا میں تھیں، اصحاب کے درمیان مشہور ہے کہ عمر نے ان سے جبراً شادی کی تھی، جیسا کہ سید مرتضی اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ یہ حضرت فاطمہ کی بیٹی نہیں تھیں بلکہ حضرت امیر المومنین ـ کی تھیں ان ہی سے جبراً شادی کرنے کیلئے عمر نے بات کی،اور یہی قول صحیح ہے۔(٣)
..............
(١)تاریخ موالید الائمة ص ١٦۔ نور الابصار ص ١٠٣۔ نہایة الارب ج ٢، ص ٢٢٣۔
(٢)ابن قتیبة ؛ المعارف ص ١٨٥۔
(٣)اعیان الشیعة ج ١٣ ، ص ص١٢ ۔
نتیجہ:
اگر ہم نفسیاتی اور عقلی طور پر اس واقعہ کے منفی ہونے پر نظر ڈالیں توحسب ذیل باتوں سے اس کی تائید ہوتی ہے:
١) ام کلثوم اسی فاطمہ بنت رسولۖ کے بطن سے تھیں جن سے عقد کرنے کی خواہش پر عمر کو دربار رسالت سے جواب مل چکا تھا ، لہٰذا جس فعل کو رسولۖ نے فاطمہ کیلئے مناسب نہ سمجھا علی اس کی بیٹی کیلئے کس طرح اسے مناسب سمجھیں گے؟
٢) ام کلثوم اسی ماں کی بیٹی تھیں جو جیتے جی عمر سے ناراض رہیں اور مرتے دم بھی وصیت کر گئیں
کہ وہ ان کے جنازے میں شریک نہ ہوں ، کیا حضرت علی ـ اس بات سے غافل تھے کہ اگر ام کلثوم کی شادی عمر سے کردی تو فاطمہ کی روح کے لئے تازیانہ ثابت نہ ہوگی؟
٣) جیسا کہ ہم نے گزشتہ بحث میں عرض کیا کہ ام کلثوم اور عمر کے سن میں زمین وآسمان کا فرق
تھا،و نیز روایت کے مطابق ام کلثوم کی شادی چچا زاد بھائی سے پہلے ہی طے ہوچکی تھی،توپھر ان دونوں باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے حضرت علی ـ عمر سے شادی کر نے کے لئے کیسے راضی ہوگئے؟
٤ ) اگر ہم حضرت علی ـ اور حضرت عمر کے درمیان تعلقات پر غور کریں تو اس بات کا فیصلہ کرنا آسان ہوجاتا ہے، کیونکہ رسولۖ کی وفات کے بعد سے ہی حضرت علی اور عمر کے درمیان تنازع شروع ہوگیا تھا یہاں تک کہ آپ کے گلے میں رسی کا پھندہ ڈالنے والے عمر تھے ، خلافت کا رخ عمر کی وجہ سے اپنے محور سے منحرف ہوا ،فاطمہ کا پہلو عمر نے شکستہ کیا ،شکم مادر میں محسن کی شہادت عمر کی وجہ سے ہوئی،ان تمام باتوں کے ہوتے ہوئے کیا حضرت علی ـ کے بارے میں کوئی انسان سوچ بھی سکتا ہے کہ آپ راضی و خو شی سے اپنی بیٹی عمر سے بیاہ دیں گے ؟!
٥) بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ حضرت علی ـ نے عمر سے خوف زدہ ہوکر ام کلثوم کی عمر سے شادی کردی تھی ، یہ بات وہی حضرات کہہ سکتے ہیں جو تاریخ اسلام کا مطالعہ نہیں رکھتے ، جس کی تیغ کا لوہا بدر و احد ، خبیرو خندق کے بڑے بڑے شہسوار اور سورما مان چکے ہوں وہ ان للو پنجو سے ڈر کر اپنا سارا عز ووقار خاک میں ملاکر بیٹی سے شادی کردے گا ! حیرتم برین عقل و دانش !
البتہ مسئلہ خلافت پر صبر کرتے ہوئے تلوار کا نہ اٹھاناایک دیگر مسئلہ ہے ، کیونکہ نبی اکرمۖ کی وصیت تھی کہ علی اس سلسلہ میں تم صبر کرنا ،اگر علی اس موقع پر صبر نہ کرتے اور تلوار اٹھا لیتے تو بہت سے وہ لوگ جو تازے تازے مسلمان ہوئے تھے اسلام سے پلٹ جاتے ،اور مسلمان اپنی خانہ جنگی کے شکار ہو جاتے ، جس کے نتیجہ میں خارجی طاقتیں اسلام پر غالب ہوجاتیں اور اسلام کا شیرازہ بکھر جاتا، لیکن جہاں تک ام کلثوم کی شادی کا مسئلہ ہے تو اس میں آپ کیوں کسی سے خوف کھاتے ؟یہ کوئی دین اسلام کی نابودی کا مسئلہ تو تھا نہیں کہ اگر آپ ام کلثوم کی شادی عمر سے نہ کرتے تو عمر جنگ پرآجاتے جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کے درمیان تمام نہ ہونے والی جنگ شروع ہو جاتی !اور جب اس جنگ کے کوئی اسباب دریافت کرتا تو یہ کہا جاتا کہ یہ جنگ عمر کی شادی نہ ہونے کی وجہ سے ہوئی !!اور پھر کیا حضرت عمر بھی اس بات کو سوچ رہے ہوں گے کہ اگر شادی نہ ہوئی تو جنگ کریں گے، ہم اس بات کو بعید از عقل سمجھتے ہیں کہ حضرت عمر ایک بچی سے شادی کرنے کیلئے اتنا ہلڑ ہنگامہ پسند کرتے !!لہٰذا جو لوگ حضرت عمر سے محبت کا دعوی کرتے ہیں ان سے گزارش ہے کہ اس قضیہ کو طول دے کر برائے خدا ان کی مزید توہین نہ کریں،علامہ سبط ابن جوزی بڑے سمجھدار نکلے کہ انھوں نے اپنے دادا کی بات کو رد کرتے ہوئے فوراً لکھ دیا کہ اس واقعہ سے حضرت عمر کی فضیلت نہیں بلکہ ان کی منقصت ہوتی ہے ۔
٦) کچھ روایتوں میں آیا ہے کہ اس شادی میں حضرت عمر نے چالیس ہزار درہم مہر رکھا تھا، یہ پہلو بھی حضرت عمر کی تنقیص پر دلالت کرتا ہے،کیونکہ اہل سنت کا ہر فرد اس بات کو جانتا ہے کہ حضرت عمرنے فقیرانہ زندگی میں خلافت کی چکی چلائی ہے ، آپ کی تنخواہ ایک معمولی انسان کے برابر تھی ، چنانچہ تاریخ ابن خلدون میں آیا ہے:حضرت عمر کے کپڑوں میں ہمیشہ پیوند لگے ہوئے ہوتے تھے، آپ کی قمیص میں ستر پیوند تھے ، اسی طرح ایک مرتبہ آپ نماز عید پڑھانے نکلے تو جوتوں میں کئی پیوند لگے ہوئے تھے، ایک مرتبہ گھر سے باہر نہیں نکلے معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ ان کے پاس کپڑے نہیں تھے ، اور آپکے تہہ بند میں ١٢ پیوند لگے ہوئے تھے۔
ان تمام باتوں پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ روایت من گھڑت اور جعلی ہے، اس کا حقیقت سے کوئی سرو کا رنہیں ہے ، ممکن ہے یہ روایت دشمنان اسلام کی جانب سے اسلامی راہنمائوں کی توہین کی خاطر سوچے سمجھے پروپیگنڈے کی ایک کڑی ہو۔
٧) حضرت عمر کی جس فضیلت کو بیان کرنے کے لئے یہ روایت گڑھی گئی ہے و ہ تو موصوف کو پہلے ہی سے حاصل تھی ، کیونکہ اگر اس شادی کو تسلیم کرلیا جائے تو حد اکثر، عمر کا رشتہ رسول سے سببی قرار پا ئیگا ،حالانکہ آپ کی بیٹی حفصہ، زوجہ ٔ رسول پہلے ہی ہو چکی تھیں،لہٰذا سببی رشتہ تو پہلے ہی سے تھا پھر عمر کیوں کہہ رہے تھے کہ یہ شادی میں رسول سے سببی رشتہ برقرار ہونے کی بنا پر کرنا چاہتا ہوں ؟
|