١۔ کچھ اس رسالہ کے بارے میں
الحمد ﷲ وسلام علی عبادہ الذین اصطفی سیدنا رسول اﷲ(ص) وآلہ الامناء واللعنة الدائمة علی اعدائہم ومنکری فضائلہم من الآن الیٰ یوم لقاء اﷲ، وبعد: نَسُرُّ ان نقدم الیوم الی القراء الکرام اثرا نفیساً وکنزا ثمیناً فی فضائل اہل البیت ( وان کان فضائلہم لا تعد ولا تحصٰی کما شہدت بہ اعدائہم والفضل ما شہدت بہ الاعداء ).
اما بعد :
مفادحدیث ثقلین (١) کے مطابق نبی اکرم ۖ نے اسلامی امت کی راہنمائی کیلئے دو گرانقدر چیزیں چھوڑیں : قرآن اور اہل بیت ،اگر مسلمانوں نے ان دونوں سے تا قیامت تمسک بر
..............
(١)حدیث ثقلین وہ حدیث ہے جو علمائے اسلام کے نزدیک تواتر کی حد تک پہنچی ہوئی ہے ، یہاں تک اہل سنت کی مشہور و صحیح کتاب ''صحیح مسلم'' میں بھی زید بن ارقم سے نقل کی گئی ہے ،خود علامہ جلال الدین سیوطی نے اس کتاب میں اس کی جانب اشارہ کیا ہے ، جس کی تکمیل اسی کتاب کے حاشیہ میں کردی گئی ہے .
قرار رکھا تو ہدایت یافتہ، اور اگر ان میں سے کسی ایک کو بھی چھوڑدیا تو پھر گمراہی اور ضلالت کے علاوہ کچھ نصیب نہ ہو گا ،لہٰذاحدیث کی رو سے تمام مسلمانوں پر واجب ہے کہ ایسی راہ اختیار کریں جوقرآن و اہل بیت پر منتہی ہوتی ہو ، یہی وجہ ہے کہ اس حدیث کے مد نظرمسلمانوں کا ہر فرقہ اس بات کی کوشش کرتا ہے کہ وہ اس بات کو ظاہر کرے کہ ہم ہی نبی کی مذکورہ حدیث پر عمل پیرا ہیں ، اگر قرآن
کی بات آتی ہے تو اپنے کو اہل قرآن بتاتا ہے اور اہل بیت کی بات آتی ہے تو ہر ایک کواس بات کا یقین کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ ہم ہی اہل بیت کے صحیح چاہنے والے ہیں ، لیکن حقیقت کیا ہے ؟ ا س کو وہی سمجھ سکتا ہے جو بصیرت اور انصاف کے ساتھ تمام ان فرق و مذاہب کا تقابلی مطالعہ کرے جو اس بات کا دعوی کرتے ہیں ، اس وقت حقیقت اس کے سامنے عیاں ہو جائے گی ۔
چنانچہ مسلمانوں کے مختلف ِفرَق و مذاہب کے علماء نے اس بات کو ثابت کر نے کیلئے کہ ہمارا فرقہ ہی قرآن کے ساتھ اہل بیت کو مانتا ہے، اہل بیت کے بارے میں بہت کچھ لکھا ہے ،تاکہ ثابت کر سکیں کہ ہم اہل بیت سے دور نہیںہیں، ان میںامام احمد بن حنبل اورنسائی قابل ذکر ہیں جنھوں نے اہل بیت کے فضائل میں'' المناقب'' نامی کتابیں لکھیں ، اسی طرح شیخ ابی الحسن علی بن ابی الرحمن ، ابی علی محمد بن محمد بن عبیدا ﷲاور شیخ علی بن مؤدب بن شاکر کی کتابیں'' فضائل اہل بیت(ع)'' ہیں،اسی طرح ابی نعیم کی کتاب ''نزول القرآن فی مناقب اہل البیت (ع) '' یاجوینی حموی کی ''فرائد السمطین فی فضائل المرتضی والزہراء والسبطین '' نیز دار قطنی کی کتاب ''مسند زہرا ء ''یا ''مناقب خوارزمی''مناقب مغازلی ، جواہر العقدین سمہودی ، تذکرة الخواص علامہ سبط ابن جوزی ،الفصول ا لمہمہ؛ابن صباغ مالکی، ذخائر العقبی، محب الدین طبری ،نور الابصار ،شبلنجی ،ینابیع المودة،حافظ سلیمان ابن قندوزی،کوکب دری ، ملا صالح کشفی اورامام جلال الدین سیوطی … وغیرہ خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں جنھوں نے اہل بیت کے فضائل سے متعدد صفحات کو مزین فرما کر محبت اہل بیت کا ثبوت پیش کرنے کی کوشش کی ، ان کے علاوہ بہت سے علمائے اہل سنت ایسے ہیں جنھوں نے خصوصیت سے اس موضوع پر کتاب نہیں لکھی ہے لیکن اپنی کتابوں کے اندر دوسرے مباحث کے ساتھ فضائل اہل بیت کو نقل کیا ہے ،مثلاً صواعق محرقہ؛ ابن حجر ہیثمی ، مجمع الزوائد ، ہیثمی ،اور طبرانی کی تینوں کتابیں'' المعاجم'' اسی طرح مناوی کی کتاب'' کنوز الدقائق'' اور دیگر کتابیں……ان سب کتابوں میں اہل بیت کے فضائل نقل کئے گئے ہیں۔
قارئین کرام! زیر نظر کتاب'' احیاء ا لمیت بفضائل اہل بیت'' بھی اسی کوشش کا ایک سلسلہ ہے، کہنے کا مطلب یہ ہے کہ امام اہل سنت علامہ جلال الدین سیوطی نے اس کتاب کو لکھ کر پہل نہیں کی ہے بلکہ ان سے پہلے بھی علمائے اہل سنت اس موضوع سے متعلق متعددکتابیں لکھتے آئے ہیں ، جن سے آج بھی اسلامی کتب خانے پر ہیں ، البتہ اس کتاب کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں علامہ موصوف نے اپنے ذوق کے مطابق اہل بیت کے فضائل سے متعلق ٦٠ احادیث جمع کی ہیں،اور اس کتاب میں ان مدارک اور مآخذ پر اعتماد کیا ہے جو اہل سنت کے یہاں معتبر اور اصح مدرک مانے جاتے ہیں منجملہ:
صحاح ستہ اور سنن سعید بن منصور ،اسی طرح ابن منذر ، ابن ابی حاتم ، ابن مردویہ اور محمد بن جریر طبری کی کتب تفاسیراو ر طبرانی کی معجم کبیر و معجم اوسط ونیز عبد ابن حمید ، ابن ابی شیبہ اور مسدد وغیرہ کی کتابیں یا ابن عدی کی اکلیل اور ابن حبان کی صحیح و بیہقی کی شعب الایمان ، حکیم ترمذی کی نوادر الاصول ،خلاصہ یہ کہ تاریخ ابن عساکر، تاریخ بخاری ، تاریخ بغداد خطیب ،افراد دیلمی ، حلیة الاولیاء ابو نعیم اور تاریخ حاکم ، ان سب کتابوں میں اہل بیت کے فضائل نقل ہوئے ہیں،بہر کیف اگرچہ علامہ کی یہ کتاب حجم کے لحاظ سے ایک کتابچہ ہے لیکن مدرک اور منابع کے لحاظ سے بہت اہمیت رکھتی ہے،البتہ اس کی بیسویں حدیث میں عمر ابن خطاب کے ساتھ بنت علی ـ کی تزویج کاجو بیان آیا ہے وہ جز ء حدیث نہ ہو نے کی وجہ سے قابل قبول نہیں ہے ، کیونکہ اسے علمائے اہل تشیع اور محققین اہل سنت نے رد کیا ہے، بہر حال علامہ جلال الدین سیوطی کا یہ رسالہ کئی مرتبہ چھپ چکا ہے ، لاہورپاکستان میں ١٨٩٣ ء میں چند رسا لوں کی ضمن میں چھپا(١)
..............
(١)قارئین کرام! جب یہ رسالہ ناچیز کے قلم سے ترجمہ ہوکرچھپنے کیلئے آمادہ تھا اس وقت ایک صاحب کے ذریعہ E
اسی طرح شہر فاس( مراقش) میں ١٣١٦ ھ میں چھپ چکا ہے، اور ایک مرتبہ جونپور ہندو ستان سے شائع ہوا، اسی طرح کتاب ''الاتحاف بحب الاشراف'' مؤلفہ عبد اﷲشبراوی، کے حاشیہ پر قاہرہ ١٣١٦ ہجری میں شائع ہوا ، پھر کتاب'' العقیلة الطاہرہ زینب بنت علی ''مؤلفہ احمد فہمی محمد، کے ساتھ ٢٣۔١٤ صفحات تک منظر عام پر آئی،لیکن افسوس کہ ان تمام ایڈیشنوںمیں اس کتاب کے بارے میں کوئی تحقیقی کام انجام نہیں دیا گیا تھا ، الحمد ﷲ شیخ محمد کاظم فتلاوی اورشیخ محمد سعید طریحی کی تحقیق و تصحیح کے بعد اب یہ کتاب اہل تحقیق کے لئے ایک دائرة المعارف کی حیثیت رکھتی ہے، آپ حضرات نے اس کے تمام اصلی اورمشابہ مدارک و منابع ذکر کرکے اس کتاب کی کمی کو دور کر دیا ہے ، نیز مناسب مقامات پر احادیث کے ناقلین کے مختصر حالات بھی قلمبند کردئے ہیں، بہر حال علامہ جلال الدین سیوطی کی یہ مختصر خدمت قابل قدر ہے ، اہل بیت کی شان والامیںآپ کے قلم سے اتنا ہی صفحہ قرطاس پر آجانا کافی اہمیت رکھتا ہے ۔
رسالہ کی تحقیق :
شیخ محمد طریحی نے کتاب احیا ء ا لمیت کے جن نسخوں کو مد نظر رکھتے ہوئے تحقیق کی ہے ان میں ایک نسخہ پیر محمد شاہ لائبریری گجرات ہندوستان میں موجود ہے ، اور دیگر نسخے جن کو مد نظر رکھتے ہوئے
تحقیق کی ہے وہ ظاہریہ لائبریری دمشق شام میں موجود ہیں ، ان میں سے پہلے نسخہ کااندراج نمبر
..............
علم حاصل ہوا کہ ا س کا اردو ترجمہ فخر المحققین جناب نجم الحسن کراروی کے ہاتھوں پچھتر سال پہلے شائع ہو چکا ہے ، چنانچہ اس اطلاع کے ملتے ہی بندے نے اس کی اشاعت کو ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا اور اس تک و دو میں لگ گیا کہ آیا موصوف کا ترجمہ کیسا ہے ؟ بڑی تلاش و جستجو کے بعد یہ ترجمہ دستیاب ہواتو اس کو ملاحظہ کرنے کے بعد ا س بات کا اندزہ ہوا کہ مولانا موصوف نے اس میں صرف متن احادیث کا ترجمہ کیا ہے لیکن بندے نے جس کا ترجمہ کیا ہے اس میں شیخ محمد کاظم فتلاوی اورشیخ محمد سعید طریحی جیسے بزرگ اساتذہ کی تحقیق و تصحیح بھی شامل ہے جو ہمارے ترجمہ کو علامہ نجم الحسن صاحب کے ترجمہ کے مقابلہ میں ممتاز کرتی ہے ، نیز اس کے مقدمہ میں عقد ام کلثوم کے افسانہ پر سیر حاصل تحقیقی و تنقیدی بحث بھی شامل کردی گئی ہے .
٥٢٩٦ ہے، اور جن رسالوں کے ساتھ یہ شائع ہوا ہے ا ن کے صفحہ ١١٨ سے ١٢١ تک یہ مرقوم ہے ، اس کو ابراہیم بن سلمان بن محمد بن عبد العزیز الحنفی نے لکھا ہے ، اس کی تاریخ اختتام ٤شعبان المعظم١٠٧٦ھ ہے ۔
دوسرا نسخہ ،اوردیگر رسائل جو(١٤٧١)صفحات پر مشتمل ہیں ان کے ساتھ ٨٤ سے ٩١ صفحہ تک مشتمل ہے ، اور ان کا ناسخ : عثمان بن محمود بن حامد ہیں، جس کی سال اشاعت : ١١٨١ ھ ہے ۔
شیخ فتلاو ی نے بھی انھیں دو نسخوں کو مد نظر رکھتے ہوئے تحقیق فرمائی ہے جو ظاہریہ لائبریری میں موجود ہیں ۔ (١)
..............
(١)حق کے متلاشی حضرا ت کیلئے احیاء ا لمیت کا قدیم نسخہ جو ہندوستان اور دمشق شام سے چھپا ہے اس کی زیراکس کاپی اسی کتاب میں منسلک کردی گئی ہے . مترجم .
رسالہ کی وجہ تسمیہ :
علامہ موصوف سے قبل کسی بھی شخص نے اہل بیت کے فضائل سے متعلق اس نام کا انتخاب نہیں کیا ہے ، لیکن اس کے بعد علامہ صدیق حسن بن حسن بخاری کنوجی (یو،پی)ہندی ( ١٢٤٨ ہجری۔١٣٠٧ ھ۔ ١٨٣٢ ء ١٨٨٩ ء ) نے : ''احیاء ا لمیت بذکر مناقب اہل البیت '' نامی کتاب لکھی جو ابھی تک نہیں چھپی ہے، بہرحال علمائے لغت نے لفظ میت (با تشدید وجزم ) کے معنی میں اختلا ف کیا ہے ،چنانچہ استاد صبحی البصام نے اس بارے میں چند اقوال ذکر کے نتیجہ اخذ کیا ہے کہ لفظ میت تشدید کے ساتھ ہو یا جزم کے ساتھ دونوں کے معنی ایک ہیں یعنی وہ شحص جو مر چکا ہو ، اسی قول کی تائید و تصدیق فراء ، خلیل اور ابوعمرو جیسے نحویوں کے قول سے بھی ہوتی ہے،لہٰذا اس نظریہ کے برخلاف صاحب'' القاموس'' اور صاحب'' تاج العروس'' کا قول صحیح نہیں ہے۔
٢۔ عقد ام کلثوم کا افسانہ
اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں کہ جس قوم کی تاریخ صدیوں بعد لکھی جائے گی اس میں غلط واقعات، فرسودہ عقائد اور مہمل باتیں زر خرید راویوں کے حافظے سے صفحۂ قرطاس پر منتقل ہوتے ہوتے حقیقت کا روپ دھار لیتے ہیں، کیونکہ ان حالات میں اکثر اصل واقعات نسخ ہو جاتے ہیں ، بلکہ اہل قلم کے کردار اور قلم کی رفتار پر وقتی مصلحتوں کی حکو مت ہوتی ہے، جس کی بنا پر ایسے ایسے افراد بھی غلط فہمی کا شکار ہوجاتے ہیں ،جن کے بارے میں ہم سوچ بھی نہیں سکتے مثلاً آپ علامہ جلال الدین سیوطی کو ہی لے لیجئے ، آپ کا علمائے اہل سنت کے محققین میں شمار ہوتا ہے، آپ نے نت نئے موضوعات پر قلم اٹھایا ہے ، لیکن جب بیسویں حدیث کہ جس میں حضرت عمر کی بنت علی ـ سے شادی کاتذکرہ ہواہے، نقل کیا ،تو بغیر کسی تنقید و تبصرہ کئے گزر گئے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ اس واقعہ کو قبول کرتے تھے ، جبکہ آپ نے اس رسالہ کو اہل بیت(ع) کے فضائل و مناقب میں لکھا ہے،لیکن اس بات سے غافل رہے ہیں کہ اس روایت سے خاندان رسالتمآب کی توہین ہوتی ہے ، چنانچہ اہل تشیع اور محققین اہل سنت نے اسے رد فرمایا ہے، جیسے امام بیہقی ، دار قطنی اور ابن حجرمکی اپنی کتابوںمیں کہتے ہیں : یہ واقعہ غلط ہے ، کیونکہ حضرت علی نے اپنی صاحبزادیوں کو اپنے بھتیجوں سے منسوب کر رکھا تھا ، چنانچہ جب حضرت عمر ام کلثوم سے رشتہ لے کر گئے تو آپ نے کہا: ا ن کا رشتہ میں اپنے بھیتجوں سے طے کر چکا ہوں،یا امام ابن ماجہ اور ابن دائود کہتے ہیں: ام کلثوم دو تھیں ، ام کلثوم بنت راہب اور ام کلثوم بنت علی ان کی شادی محمد ابن جعفر طیار سے ہوئی ، اور ام کلثوم بنت راہب کے بارے میں تاریخ سے ثابت ہوا ہے کہ یہ عمر کی زوجیت میں تھیں ۔
بہر کیف قارئین کی معلومات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم اس مسئلہ پر اختصار کے طور پر یہاں روشنی ڈالتے ہیں تاکہ یہ بات یقینی طور پر ثابت ہوجائے کہ علامہ جلال الدین سیوطی کی ذکر کردہ روایت کذب پر محمول ہے ،اورعلامہ اس سلسلے میں ایک بے سروپا افواہ کے شکار ہوئے ہیں :
جناب ام کلثوم بنت علی ابن ابی طالب ـ کی عمر ابن خطاب سے شادی کا ہونا یا پھر خلیفہ کی منگنی ہونا، اس سلسلہ میں متعدد اقوال پائے جاتے ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے :
١۔ بعض علماء کا نظریہ یہ ہے کہ ام کلثوم حضرت علی ـ کی صاحبزادی نہیں تھیں بلکہ یہ ام کلثوم وہ ہیں جن کی حضرت نے پرورش کی تھی ۔
٢۔ بعض علماء کا کہنا ہے کہ یہ شادی انجام کونہیں پہونچی تھی بلکہ عمر نے صرف شادی کرنے کی خواہش کی تھی جسے حضرت علی نے قبول نہیں کیا ۔
٣۔ بعض لوگوں کا عقیدہ یہ ہے کہ عقد نکاح باقاعدہ ہوگیا تھا لیکن رخصتی نہیں ہوئی تھی جس کی بنا پر عمر نا مراد ہی دنیا سے رخصت ہوئے ۔
٤۔ بعض کہتے ہیں کہ حضرت علی ـ نے راضی و خوشی کے ساتھ ام کلثوم کی شادی خلیفہ سے کردی تھی اوررخصتی بھی ہوگئی تھی ۔
٥ ۔ بعض کہتے ہیں کہ حضرت ـ نے خلیفہ کے جبر و اکرا ہ کی بناپر ام کلثوم کی شادی عمرکے ساتھ کر دی تھی ۔
اس کے علاوہ بھی بہت سے اقوال ہیں جو آیندہ مباحث کے ضمن میں آئیں گے۔
بعض اہل سنت بحث امامت میں اس واقعہ سے استدلال پیش کرتے ہیں کہ جناب ام کلثوم کی خلیفہ سے شادی ہونا اس با ت کو ظاہر کرتی ہے کہ امام علی ـ اور خلیفہ کے درمیا ن روابط بالکل ٹھیک ٹھاک تھے اور آپس میں کوئی رنجش نہیں تھی،بلکہ حضرت علی ـ حضر ت عمر کی خلافت کی تائید کرتے تھے، یہی وجہ ہے کہ آپ نے عمر سے اپنی لڑکی بیاہ دی ، چنانچہ باقلانی نے اس واقعہ سے اسی بات کا استدلال کیا ہے !
مذکورہ واقعہ سے متعلق روایات
جن وجوہات جن کی بناپر یہ مسئلہ پیچید ہ سے پیچیدہ تر ہوتا گیا وہ یہ ہیں کہ شیعہ اور اہل سنت دونوں نے اس واقعہ کو اپنی حدیث کی کتابوں میں نقل کیا ہے ، البتہ اس واقعہ کو اہل سنت نے تفصیل اور بڑی شدو مدکے ساتھ نقل کیا ہے ،لیکن شیعوں نے اس کو یا تومجمل او رضعیف یا پھر اہل سنت سے حکایت یا الزام خصم کے طور پر نقل کیا ہے،جس سے بعض نا فہم اہل سنت کا دعوی ہرگز ثابت نہیں ہوتا ،بہر حال ہم یہاں ان روایات کو نقل کرکے جن میں اس مسئلہ کا بیان ہوا ہے تحقیق کرتے ہیں:
١ ۔ ابن سعد کہتے ہیں : عمر ابن خطاب نے ام کلثوم بنت علی ـ سے اس وقت شادی کی جبکہ ابھی وہ بالغ بھی نہیں ہوئی تھیں ،اور شادی کے بعد وہ عمر کے پاس ہی تھیں کہ عمر کا قتل ہوگیا ، اور آپ کے بطن سے دو بچے زید اور رقیہ نام کے پیدا ہوئے ۔ (١)
٢۔ حاکم نیشاپوری اپنی سند کے ساتھ علی ابن حسین سے نقل کرتے ہیں: عمر ابن خطاب ام کلثوم بنت علی سے شادی کرنے کی غرض سے حضرت علی ـ کے پاس آئے ، اور اپنی خواہش کو حضرت کے سامنے پیش کیا ،حضرت علی ـ نے کہا : میں نے اس کواپنے بھتیجے عبد اﷲ ابن جعفر سے منسوب کیا ہوا ہے ، عمر نے کہا :آپ کو اس کی شادی میرے ساتھ ہی کرنا ہوگی، چنانچہ حضرت علی ـ نے جناب ام کلثوم کی شادی عمر سے کردی ، اس کے بعد عمر مہاجرین کے پاس آئے اور کہنے لگے : تم لوگ مجھے مبارک باد کیوںنہیں پیش کرتے ؟ سب نے پوچھا :کس بات کی مبارک بادی ؟ کہنے لگے : اس لئے کہ میں نے علی و فاطمہ کی بیٹی ام کلثوم سے شادی کی ہے ،اور میں نے رسول ۖ سے سنا ہے کہ آپ
نے فرمایا: ہر سببی اور نسبی رشتہ روز قیامت منقطع ہوجائے گا سوائے میرے سببی اور نسبی رشتے کے ، اسی
..............
(١)طبقات ابن سعد ج٨ ، ص ٤٦٢.
لئے میں چاہتا تھا کہ میرے اور رسول کے درمیان نسبی اور سببی رشتہ برقرار ہوجائے(اور وہ اب ہوگیاہے) ۔ (١)
٣۔ بیہقی اپنی سند کے ساتھ علی ابن حسین سے نقل کرتے ہیں: حضرت عمرسے جب جناب ام کلثوم سے نکاح ہوگیا تو عمر مہاجرین کے پاس آ کر اپنے لئے تبریک کے طالب ہوئے اس لئے کہ انھوں نے سن رکھا تھا کہ رسول اکرم ۖ نے فرمایا ہے: ہر سببی اور نسبی رشتہ روز قیامت منقطع ہوجائے گا سوائے میرے سببی اور نسبی رشتے کے ، اسی لئے میں چاہتا تھا کہ میرے اور رسول ۖ کے درمیان نسبی اور سببی رشتہ برقرار ہوجائے(اور وہ اب ہوگیاہے) ۔ (٢)
اس واقعہ کو اہل سنت کے دیگر مؤرخین نے بھی اپنی کتابوںمیں لکھا ہے جیسے خطیب بغدادی ، ابن عبد البر ، ابن اثیر اور ابن حجر عسقلانی۔(٣)
تمام روایتوں کی جانچ پڑتال
١) امام بخاری او رمسلم نے اپنی مشہور اور مہم کتابوں میں ان روایتوں کے ذکر کرنے سے اجتناب کیا ہے ، چنانچہ بہت سی روایات ایسی ہیں جنھیں ان کتابوں میں نقل نہ ہونے کی وجہ سے ضعیف
قرار دیا گیاہے، لہٰذا اہل سنت کو ان روایات پر بھی غور کرنا ہوگا ۔
٢) جس طرح یہ حدیثیں صحاح ستہ میں نقل نہیں کی گئی ہیں ، اسی طرح یہ روایتیں اہل سنت کی دیگر مشہور کتابوں میں بھی نقل نہیں ہوئی ہیں جیسے مسند احمد بن حنبل ۔
ہر روایت کی جدا جدا سند کے لحا ظ سے چھان بین
حاکم نیشاپوری نے اس واقعہ کو صحیح جانا ہے ، لیکن ذہبی نے تلخیص المستدرک میں اس کی سند کو
..............
(١) مستدرک حاکم جلد ٣ ، ص ١٤٢ .
(٢)بیہقی ؛ سنن کبری جلد ٧، ص ٦٣۔
(٣)تاریخ بغداد ، جلد ٦، ص ١٨٢۔ الاستیعاب ج ٤،ص ١٩٥٤۔ اسد الغابة جلد٥،ص ٦١٤۔ الاصابة جلد ٤، ص٤٩٢۔
منقطع قرار دیا ہے ، اسی طرح بیہقی نے اس کو مرسل کہا ہے ،نیز بیہقی نے دوسری سندوں کے ساتھ بھی اس واقعہ کو نقل کیا ہے لیکن یہ سب سندیں ضعیف ہیں ۔
ابن سعد نے بھی''الطبقات الکبری '' میں اس کی سند کو مرسل نقل کیا ہے ، اور ابن حجر نے اصابہ
میں اپنی سند کے ساتھ نقل کیا ہے جس میں عبد الرحمن بن زید بن اسلم ہے ، لیکن اہل سنت کے اکثر علمائے رجال نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے ۔(١)
اسی طرح اس سند میں عبد اﷲ بن وہب ہے جس کی تضعیف کی گئی ہے ۔ (٢)
ابن حجر کہتے ہیں:یہ روایت دوسری سند کے ساتھ بھی نقل کی گئی ہے حس میں عطا خراسانی ہے لیکن اس کو امام بخاری اور ابن عدی نے ضعیف قرار دیا ہے۔ (٣)
خطیب بغدادی نے دوسری روایت جس سند کے ساتھ نقل کی ہے اس میں احمد بن حسین صوفی ، عقبہ بن عامر جہنی اور ابراہیم بن مہران مروزی نظر آتے ہیں ان میں سے پہلے راوی کیلئے صراحت کے ساتھ کہا گیا ہے کہ یہ ضعیف ہے ، اور دوسرا راوی معاویہ کے لشکریوں میں سے تھا، اور تیسرا مہمل ہے ، اس تفصیل کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان روایتوں میں سے کوئی بھی روایت معتبر سند نہیں رکھتی ۔
..............
(١) عقیلی ؛ الضعفاء ج ٢، ص ٣٣١ ۔ ابن عدی؛ الکامل فی الضعفاء ج ٧، ص ١٥٨١۔
(٢) ابن عدی؛ الکامل فی الضعفاء ج٥، ص٣٣٧۔
(٣)الکامل ج ٧ ، ص ٦٩ ۔
|