اقوالِ امام علی (علیہ السلام )از نہج البلاغہ | |||||
اقوال ۶۱ تا ۹۰
61 عورت ایک ایسا بچھو ہے جس کے لپٹنے میں بھی مزہ آتا ہے .
62 جب تم پرسلام کیا جائے تو اس سے اچھے طریقہ سے جواب دو .اور جب تم پر کوئی احسان کرے تو اس سے بڑھ چڑھ کر بدلہ دو ,اگرچہ اس صورت میں بھی فضیلت پہل کرنے والے ہی کی ہوگی . 63 سفارش کرنے والا امیدوار کے لیے بمنزلہ پرد بال ہوتا ہے . 64 دنیا والے ایسے سواروں کے مانند ہیں جو سو رہے ہیں اور سفر جاری ہے . 65 دوستوں کو کھو دینا غریب الوطنی ہے . 66 مطلب کا ہاتھ سے چلا جانا اہل کے آگے ہاتھ پھیلانے سے آسان ہے . 67 نااہل کے سامنے حاجت پیش کرنے سے جو شرمندگی حاصل ہوتی ہے وہ محرومی کے اندوہ سے کہیں زیادہ روحانی اذیت کا باعث ہوتی ہے .اس لیے کے مقصد سے محرومی کو برداشت کیا جاسکتا ہے .مگر ایک دنی و فر و مایہ کی زیر باری ناقابل برداشت ہوتی ہے .چنانچہ ہر باحمیت انسان نا اہل کے ممنون احسان ہونے سے اپنی حرمان نصیبی کو ترجیح دے گا ,اور کسی پست و دنی کے آگے دست سوال دراز کرنا گوارا نہ کرے گا . 67 تھوڑا دینے سے شرماؤ نہیں کیونکہ خالی ہاتھ پھیرنا تو اس سے بھی گری ہوئی بات ہے . 68عفت فقر کا زیور ہے اور شکر دولت مندی کی زینت ہے . 69 اگر حسب منشا تمہارا کام نہ بن سکے تو پھر جس حالت میں ہو مگن رہو . 70 جاہل کو نہ پاؤ گے مگر یا حد سے آگے بڑھا ہو ,اور یا اس سے بہت پیچھے . 71 جب عقل بڑھتی ہے ,تو باتیں کم ہو جاتی ہیں .
بسیار گوئی پریشان خیالی کا اور پریشان خیالی عقل کی خامی کا نتیجہ ہوتی ہے .اور جب انسان کی عقل کامل اور فہم پختہ ہوتا ہے تو اس کے ذہن اور خیالا ت میں توازن پید ا ہوجاتا ہے .اور عقل دوسرے قوائے بدنیہ کی طرح زبان پر بھی تسلط و اقتدار حاصل کر لیتی ہے جس کے نتیجہ میں زبان عقل کے تقاضوں سے ہٹ کر اور بے سوچے سمجھے کھلنا گوارا نہیں کرتی اور ظاہر ہے کہ سوچ بچار کے بعد جو کلام ہوگا ,وہ مختصر اور زوائد سے پاک ہوگا .
73 جو لوگوں کا پیشوا بنتا ہے تو اسے دوسروں کو تعلیم دینے سے پہلے اپنے کو تعلیم دینا چاہیے اور زبان سے درس اخلا ق دینے سے پہلے اپنی سیرت و کردار سے تعلیم دینا چاہیے .اورجو اپنے نفس کی تعلیم و تادیب کرلے ,وہ دوسروں کی تعلیم و تادیب کرنے والے سے زیادہ احترام کا مستحق ہے . 74 انسان کی ہر سانس ایک قدم ہے جو اسے موت کی طرف بڑھائے لیے جارہا ہے.
یعنی جس طرح ایک قدم مٹ کر دوسرے قدم کے لیے جگہ خالی کرتا ہے اور یہ قدم فرسائی منزل کے قرب کا باعث ہوتی ہے , یونہی زندگی کی ہر سانس پہلی سانس کے لیے پیغام فنا بن کر کاروان زندگی کو موت کی طرف بڑھائے لیے جاتی ہے .گویا جس سانس کی آمد کو پیغام حیات سمجھا جاتا ہے ,وہی سانس زندگی کے ایک لمحے کے فنا ہو نے کی علامت اورمنزل موت سے قرب کا باعث ہوتی ہے کیونکہ ایک سانس کی حیات دوسری سانس کے لیے موت ہے اور انہی فنا بردوش سانسوں کے مجموعے کا نا م زندگی ہے #
76 جب کسی کام میں اچھے برے کی پہچان نہ رہے توآغاز کو دیکھ کر انجام کو پہچان لینا چاہیے .
ایک بیج کو دیکھ کر کاشتکار یہ حکم لگا سکتا ہے کہ اس سے کو ن سا درخت پیدا ہوگا .اس کے پھل پھول اور پتے کیسے ہوں گے ,اس کا پھیلاؤ اور بڑھاؤ کتنا ہو گا .اسی طرح ایک طالب علم سعی و کوشش کو دیکھ کر اس کی کامیابی پر ,اور دوسرے کی آرام طلبی و غفلت کو دیکھ کر اس کی ناکامی پر حکم لگایا جاسکتا ہے ,کیونکہ ادائل اواخر کے اور مقدمات ,نتائج کے آئینہ دار ہوتے ہیں .لہٰذا کسی چیز کا انجام سجھائی نہ دیتا ہو تو اس کی ابتداء کو دیکھا جائے .اگر ابتداء بری ہوگی تو انتہا بھی بری ہو گی اور اگر ابتداء اچھی ہوگی تو انتہا بھی اچھی ہوگی .
اے دنیا ! اے دنیا دور ہو مجھ سے .کیامیرے سامنے اپنے کو لاتی ہے؟ یا میری دلدادہ و فریفتہ بن کر آئی ہے .تیرا وہ وقت نہ آئے (کہ تو مجھے فریب دے سکے)بھلا یہ کیونکر ہو سکتا ہے ,جاکسی اور کو جل دے مجھے تیری خواہش نہیں ہے .میں تو تین بار تجھے طلاق دے چکا ہوں کہ جس کے بعد رجوع کی گنجائش نہیں .تیری زندگی تھوڑی , تیری اہمیت بہت ہی کم اور تیری آرزو ذلیل و پست ہے افسوس زادِ راہ تھوڑا , راستہ طویل سفر دور دراز اور منزل سخت ہے . اس روایت کا تتمہ یہ ہے کہ جب معاویہ نے ضرار کی زبان سے یہ واقعہ سنا تو ا س کی آنکھیں اشکبار ہو گئیں اور کہنے لگا کہ خدا ابو الحسن پر رحم کرے وہ واقعا ًایسے ہی تھے ,پھر ضرار سے مخاطب ہو کر کہا کہ اے ضرار ان کی مفارقت میں تمہارے رنج و اندوہ کی کیا حالت ہے ضرا ر نے کہا کہ بس یہ سمجھ لو کہ میرا غم اتنا ہی ہے جتنا اس ماں کاہوتا ہے جس کی گود میں اس کا اکلوتا بچہ ذبح کر دیا جائے .خدا تم پر رحم کرے شاید تم نے حتمی و لازمی قضاء و قدر سمجھ لیا ہے (کہ جس کے انجام دینے پر ہم مجبور ہیں )اگر ایسا ہوتا تو پھر نہ ثواب کا کوئی سوال پیدا ہوتا نہ عذاب کا نہ وعدے کے کچھ معنی رہتے نہ وعید کے .خدا وند عالم نے تو بندوں کو خود مختار بناکر مامو ر کیا ہے اور (عذاب سے )ڈراتے ہوئے نہی کی ہے۔ اُس نے سہل و آسان تکلیف دی ہے اور دشواریوں سے بچائے رکھا ہے وہ تھوڑے کئے پر زیادہ اجر دیتا ہے .ا س کی نافرمانی اس لیے نہیں ہوتی کہ وہ دب گیا ہے اور نہ اس کی اطاعت اس لیے کی جاتی ہے کہ اس نے مجبور کر رکھا ہے اس نے پیغمبروں کو بطور تفریح نہیں بھیجا اور بندوں کے لیے کتابیں بے فائدہ نہیں اتاری ہیں اور نہ آسمان و زمین اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے ان سب کو بیکار پیدا کیا ہے .یہ تو ان لوگوں کا خیال ہے .جنہوں نے کفر اختیار کیا آتش جہنم کے عذاب سے اس روایت کا تتمہ یہ ہے پھر اس شخص نے کہا کہ وہ کون سی قضاء و قدر تھی جس کی وجہ سے ہمیں جانا پڑا آپ نے کہا کہ قضاکے معنی حکم باری کے ہیں جیسا کہ ارشاد ہے .وقضی ربّک الا تعبدوا الا ایاہ اور تمہارے پروردگار نے تو حکم دے دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی پرستش نہ کرنا .یہاں پر قضی بمعنی امر کے ہے .80 حکمت مومن ہی کی گمشدہ چیز ہے اسے حاصل کرو ,اگرچہ منافق سے لینا پڑے . 81 ہرشخص کی قیمت وہ ہنر ہے ,جو اس شخص میں ہے .
سید رضی فرماتے ہیں کہ یہ ایک ایسا انمول جملہ ہے کہ نہ کوئی حکیمانہ بات اس کے ہم وزن ہو سکتی ہے ,اور نہ کوئی جملہ اس کا ہم پایہ ہوسکتا ہے .
|