٦/١
مفہوم جاہلیت
قرآن
( اور پہلی جاہلیت جیسا بناؤ سنگار نہ کرو)
( اور ہم نے انہیں ایسی کتابیں نہیں عطا کی ہیں جنہیں یہ پڑھتے ہوں اور نہ ان کی طرف آپ سے پہلے کوئی ڈرانے والا بھیجا ہو)
( اور آپ طور کے کسی جانب اس وقت نہیں تھے جب ہم نے موسیٰ کو آواز دی لیکن یہ آپ کے پروردگار کی رحمت ہے کہ آپ اس قوم کو ڈرائیںجسکی طرف آپ سے پہلے کوئی پیغمبر نہیں آیا ہے کہ شاید وہ اس طرح عبرت و نصیحت حاصل کر لیں)
حدیث
١١٣١۔رسول خدا(ص): اعمال میں ضعف اور لوگوں کی جہالت کی بنا پر جاہلیت کہا گیا ہے ...بیشک اہل جاہلیت غیر خدا کی عبادت کرتے تھے ، ان کے لئے آخرت میں ایک مدت ہوتی تھی جہاں تک وہ پہنچتے تھے اور اسکی ایک انتہا ہوتی تھی جہاں تک وہ جاتے تھے اور ان کے عقاب روز قیامت تک ٹال دیا گیا تھا، خدا نے ان کواپنی قدرت و بزرگی اور عزت کی بنا پر مہلت دے دی تھی لہذا قدرتمند ، کمزوروں پر مستلط ہوئے اور بڑے ، چھوٹوں کو اس دوران کھا گئے ۔
١١٣٢۔ جعفر بن ابی طالب نے ۔ اپنی قوم کی حبشہ کے بادشاہ نجاشی سے اسطرح تعریف کی: اے بادشاہ! ہم لوگ جاہل تھے ، بتوںکی پرستش کرتے تھے مردار کھاتے تھے، برائیوںکا ارتکاب کرتے تھے ، قطع رحم کرتے تھے۔ اور پڑوسیوںکےساتھ بدسلوکی کرتے تھے، ہم میں سے قدرتمند کمزور کو کھاجاتا تھا، ہماری یہی کیفیت تھی کہ اللہ نے ہماری طرف ہمیں میں سے رسول بھیجا کہ ہم جسکے نسب، صداقت، امانت اور پاکدامنی سے واقف ہیں، اس نے ہمیں اللہ کیطرف دعوت دی تاکہ ہم اسکی وحدانیت کے قائل ہو جائیںاور اسکی عبادت کریں، اورجن چیزوںجیسے پتھر اور بت وغیرہ کی ہم اور ہمارے آباء و اجداد پرستش کیا کرتے تھے، انہیں چھوڑ دیں اور ہمیں سچ بولنے، ادائے امانت، صلہ رحم، پڑوسی کےساتھ نیکی، محرمات اور خونریزی سے پرہیز کرنے کا حکم دیا، ہمیں برائیوں، باطل کلام ،یتیم کا مال کھانے اور پاکدامن پر بہتان لگانے سے منع فرمایا۔ہمیں حکم دیا کہ ہم صرف اللہ کی عبادت کریں اور اسکے ساتھ کسی کو شریک قرار نہ دیں، ہمیں نماز و زکات اور روزہ کا حکم دیا...پس ہم نے اسکی تصدیق کی اور اس پر ایمان لے آئے، وہ جو کچھ لیکر آئے تھے ہم نے اسکی اتباع کی، ہم نے صرف خدا کی عبادت کی اور اسکے ساتھ کسی کو شریک قرار نہ دیا اور ہم پر جو حرام کیا تھا ہم نے اسے حرام جانا اور جو حلال کیاتھا ہم نے اسے حلال جانا، لہذا ہماری قوم نے ہم پر ستم کیا، ہمیں عذاب دیا اور ہمیں ہمارے دین سے پلٹانے کےلئے شکنجے دئے، تاکہ ہم خدا کی عبادت سے بت پرستی کی طرف پلٹ آئیں اور جن بری چیزوںکو حلال جانتے تھے انہیں دوبارہ حلال سمجھیں۔
١١٣٣۔ امام علی (ع): اما بعد! اللہ نے حضرت محمد مصطفیٰ(ص) کو اس دور میں بھیجا ہے جب عرب میں نہ کوئی کتاب پڑھنا جانتا تھا اور نہ نبوت اور وحی کا ادعاء کرنے والا تھا۔
١١٣٤۔ امام علی (ع): خدا نے انہیں اس وقت بھیجا جب انبیاء کا سلسلہ موقوف تھا اوربد عملی کا دور دورہ تھا اور امتیں غفلت میں ڈوبی ہوئی تھیں۔
١١٣٥۔ امام علی (ع): میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اﷲکے بندہ اور رسول ہیں۔ انہیںاس وقت بھیجا جب ہدایت کے نشانات مٹ چکے تھے، دین کے راستے بے نشان ہوچکے تھے، انہوںنے جنکا واشگاف اندازسے اظہار کیا، لوگوںکو نصیحت کی ۔
١١٣٦۔ امام علی (ع): خدا نے انہیں اس وقت مبعوث کیاجب نہ کوئی نشان ہدایت تھا نہ کوئی منارئہ دین روشن تھا اور نہ کوئی راستہ واضح تھا۔
١١٣٧۔ امام علی (ع): اسکے بعد مالک نے آنحضرؐت کو حق کےساتھ مبعوث کیا جب دنیا فنا کی منزل سے قریب تر ہوگئی اور آخرت سر پر منڈلانے لگی دنیا کا اجالا اندھیروں میں تبدیل ہونے لگا اور وہ اپنے چاہنے والوںکےلئے ایک مصیبت بن گئی، اسکا فرش کھردرا ہوگیا اور وہ فنا کے ہاتھوں میں اپنی مہاردینے کےلئے تیار ہوگئی، اسطرح کہ اسکی مدت خاتمہ کے قریب پہنچ گئی اسکی فنا کے آثار قریب آگئے ،اسکے اہل ختم ہونے لگے اسکے حلقہ ٹوٹنے لگے، اس کے اسباب منتشر ہونے لگے، اسکے نشانات مٹنے لگے ، اسکے عیب کھلنے لگے ، اور اسکے دامن سمٹنے لگے۔
١١٣٨۔ امام علی (ع): اللہ نے انہیں اس وقت بھیجا جب لوگ گمراہی میں متحیر تھے اور فتنوں میں ہاتھ پاؤں مار رہے تھے ، خواہشات نے انہیں بہکا دیا تھا اور غرور نے ان کے قدموںمیں لغزش پیدا کر دی تھی جاہلیت نے انہیں سبک سر بنا دیاتھا، اور وہ غیر یقینی حالات اور جہالت کی بلاؤں میں حیران و سرگرداں تھے ، آ پ نے نصیحت کا حق ادا کر دیا ، سید ھے راستہ پر چلے اور لوگوںکو حکمت اور موعظہ حسنہ کی طرف دعوت دی۔
١١٣٩۔ امام علی (ع): اے لوگو! اللہ نے تمہاری طرف رسول بھیجا اور ان پرحق کےساتھ کتاب نازل کی، حالانکہ اس وقت تم کتاب اور جو کچھ اس نے نازل کیا ہے اور رسول اور اسکے بھیجنے والے سے بیگانہ تھے اس وقت جبکہ ابنیاء کا سلسلہ موقوف تھااور امتیں خواب غفلت میں پڑی ہوئی تھیں، جہالت کا دور دورہ تھا، فتنے چھائے ہوئے تھے، محکم عہد و پیمان توڑے جارہے تھے، لوگ حقیقت سے اندھے تھے، جور و ستم کے سبب منحرف تھے، دینداری زیر پردہ تھی، جنگ کے شعلے بھڑک رہے تھے باغات دنیا کے گلستان پژمردہ ہوگئے تھے، انکے درختوں کی شاخیں خشک ہو چکی تھیں، باغ زندگی کے پتوں پر خزاں تھی، ثمرات حیات سے مایوسی پیدا ہو چکی تھی، پانی بھی تہ نشیںہو چکا تھا، ہدایت کے پرچم بھی سرنگوںہوچکے تھے اور ہلاکت کے نشانات بھی نمایاں تھے۔
یہ دنیا اپنے اہل کو ترش روئی سے دیکھ رہی تھی اور ان کی طرف پیٹھ کئے ہوئے تھی اور منہ بگاڑ کر پیش آرہی تھی اس کا ثمرہ فتنہ تھا اور اسکی غذا مردار ، اس کا اندرونی لباس خوف تھا اور بیرونی لباس تلوار، تم لوگ ٹکڑے ٹکڑے ہو چکے تھے ، اہل دنیا کی آنکھیں اندھی ہو چکی تھیں، ان کی تمام زندگی تاریک ہو چکی تھی، اپنے عزیز و رشتہ دار سے قطع تعلق کر چکے تھے، ایک دوسرے کا خون بہاتے تھے، اپنی نو زاد بچیوں کو زندہ در گور کر دیتے تھے، خوشحال زندگی اور عیش و آرام ان کے درمیان سے رخت سفر باندھ چکا تھا نہ خدا سے ثواب کی امید رکھتے تھے اور نہ ہی اس کے قہر و غضب سے ڈرتے تھے، ان کے زندہ اندھے اور ناپاک تھے، اور مردے آگ کے اندر لڑھک رہے تھے، پھر اس کے بعد رسول خدا اولین کی کتابوں سے ایک نسخہ لیکر آئے اور جو کچھ اس کے پاس حق و حقیقت تھی اسکی تصدیق کی اور حلال و حرام کو اچھی طرح سے جداکیا۔
١١٤٠۔ امام علی (ع): میں گو اہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندہ اور رسول ہیں، انہیں خدا نے مشہور دین کےساتھ بھیجا...یہ بعثت اسوقت ہوئی ہے جب لوگ ایسے فتنوں میں مبتلا تھے جن سے ریسمانِ دین ٹوٹ چکی تھی، یقین کے ستون ہل گئے تھے، اصول میں شدید اختلاف تھا، اور امور میں سخت انتشار، مشکلات سے نکلنے کے راستے تنگ و تاریک ہو گئے تھے، ہدایت گمنام تھی اور گمراہی برسرعام، رحمن کی معصیت ہو رہی تھی اور شیطان کی نصرت، ایمان یکسر نظر انداز ہو گیا تھا، اسکے ستون گرگئے تھے اور آثارناقابل شناخت ہوگئے تھے، راستے مٹ گئے تھے اور شاہراہیں بے نشان ہوگئی تھیں، لو گ شیطان کی اطاعت میں اسی کے راستے پر چل رہے تھے اور اسی کے چشموںپر وارد ہو رہے تھے۔انہیں کی وجہ سے شیطان کے پرچم لہرا رہے تھے اور اسکے علم سر بلند تھے، یہ لوگ ایسے فتنوں میں مبتلا تھے جنہوںنے انہیں پیروں تلے روند دیا تھا اور سموں سے کچل دیا تھا، اورخود اپنے پنجوں کے بل کھڑے ہو گئے تھے، یہ لوگ فتنوں میں حیران و سرگرداں اور جاہل و فریب خوردہ تھے، پروردگار نے انہیں اس گھر( مکہ) میں بھیجا جو بہترین مکان تھا لیکن بدترین ہمسایہ، جنکی نیندیں بیداری تھیں اور جن کا سرمہ آنسو۔ وہ سرزمین جہاں عالم کو لگام لگی ہوئی تھی اور جاہل محترم تھا۔
١١٤١۔ امام علی (ع): میں گواہی دیتا ہوں کہ سوائے اللہ کے کوئی خدا نہیں اور حضرت محمد(ص) اسکے بندہ اور رسول ہیں، اس کے منتخب و مصطفیٰ ہیں، انکے فضل کا کوئی مقابلہ نہیںکر سکتا ہے، اور نہ انکے فقدان کی تلافی، انکی وجہ سے تمام شہر ضلالت کی تاریکی، جہالت کے غلبہ اور بدسرشتی و بد اخلاقی کی شدت کے بعد جب لوگ حرام کو حلال اور صاحبان حکمت کو ذلیل سمجھ رہے تھے، رسولوں سے خالی دور میں زندگی گذار رہے تھے اور کفر کی حالت میں مر رہے تھے، منور اور روشن ہو گئے۔
١١٤٢۔ امام علی (ع):(خدا وند متعال) نے آنحضرؐت کو مبعوث کیا اور اے گروہ عرب ! تم بدترین حالت میں تھے، تم میں سے بعض کتوں کو اپنی غذا بناتے تھے، اپنی اولاد کو قتل کرتے تھے ،دوستوں کو غارت کرتے تھے اور جب پلٹے تھے تو دوسرے انہیں غارت کر چکے ہوتے تھے، تم لوگ حنظل و اندرائن کے دانے ، خون اور مردار کھاتے تھے، تمہاری بود و باش نا ہموار پتھروں اور گمراہ کرنے والے بتوں کے درمیان تھی، تم بد ذائقہ کھانا کھاتے اور بد مزہ پانی پیتے تھے آپس میں ایک دوسرے کا خون بہاتے اور ایک دوسرے کو اسیر کرتے تھے۔
١١٤٣۔ امام علی (ع): یہ آپکے اس خط کا ایک حصہ ہے جو آپ نے محمد بن ابی بکر کے قتل کے بعد اپنے بعض اصحاب کو لکھا تھا۔ یقینا اللہ نے آنحضرؐت کو عالمین کےلئے عذاب الہی سے ڈرانے والا، تنزیل کا امانتدار اور اس امت کا گواہ بنا کر اسوقت بھیجا ہے، جب تم گروہ عرب ،بدترین دین کے مالک اور بدترین علاقہ کے رہنے والے تھے، نا ہموار پتھروں، زہریلے سانپوں اور خار مغیلاںکے درمیان بود و باش رکھتے تھے بد مزہ پانی پیتے اور بدذائقہ کھانا کھاتے تھے، آپس میں ایک دوسرے کا خون بہاتے تھے، ایک دوسرے کو قتل کرتے تھے اور اپنے قرابتداروں سے بے تعلقی رکھتے تھے اور تم آپس میں ایک دوسرے کا مال ناجائز طریقہ سے کھاتے تھے، تمہارے راستے پر خطر تھے، بت تمہارے درمیان نصب تھے( اور گناہ تمہیں گھیرے ہوئے تھے) اور ان میں سے اکثر کا خدا پر ایمان شرک سے مخلوط تھا۔
١١٤٤۔ امام علی (ع): نے ۔گذشتہ امتوں سے عبرت و نصیحت اور مغرور و گنہگار سے بچنے کے متعلق فرمایا: اب تم اولاد اسماعیل اور اولاد اسحاق و اسرائیل(یعقوب) سے عبرت حاصل کرو کہ سب کے حالات کسقدر ملتے ہوئے اور کیفیات کسقدر یکساںہیں، دیکھو انکے انتشار و افتراق کے دور میں انکا کیا عالم تھا کہ قیصر و کسریٰ انکے ارباب بن گئے تھے، اور انہیں اطراف عالم کے سبزہ زاروں، عراق کے دریاؤں اور دنیا کی شادابیوں سے نکال کر خار دار جھاڑیوں اور آندھیوں کی بے روک گذر گاہوں اورمعیشت کی دشوار گذار منزلوں تک پہنچ کر اس عالم میں چھوڑ دیاتھا کہ وہ فقیر و نادار، اونٹوں کی پشت پر چلنے والے اور بالوں کے خیموں میں قیام کرنے والے ہو گئے تھے، گھر بار کے اعتبار سے تمام قوموں سے زیادہ ذلیل اور جگہ کے اعتبار سے سب سے زیادہ خشک سالیوں کا شکار تھے، نہ ان کی آواز تھی جنکی پناہ لیکر اپنا تحفظ کر سکیں اور نہ کوئی الفت کا سایہ تھا جس کی طاقت پر بھروسہ کر سکیں ، حالات مضطرب، طاقتیں منتشر، کثرت میں انتشار، بلائیں سخت، جہالت کا دور دورہ، زندہ در گور بیٹیاں، پتھر پر ستش کے قابل، رشتہ داریاں ٹوٹی ہوئی اور چاروں طرف سے حملوں کی یلغار۔
اس کے بعد دیکھو کہ پروردگار نے ان پر کس قدر احسانات کئے جب ان کی طرف ایک رسول بھیج دیا ، جس نے اپنے نظام سے ان کی اطاعت کو پابند بنا یا اور اپنی دعوت پر ان کی الفتوں کو متحد کیا اور اس کے نتیجہ میں نعمتوں نے ان پر کرامت کے بال و پر پھلا دئےے اور راحتوں کے دریا بہا دئےے، شریعت نے انہیں اپنی برکتوں کے بیش قیمت فوائد میں لپیٹ لیا، وہ نعمتوں میں غرق ہو گئے اور زندگی کی شادابیوں میںمزے اڑانے لگے، ایک مضبوط حاکم کے زیر سایہ حالات ساز گار ہوگئے اور حالات نے غلبہ و بزرگی کے پہلو میں جگہ دلوا دی اور ایک مستحکم ملک کی بلندیوں پر دنیا و دین کی سعادتیں انکی طرف جھک پڑیں، و ہ عالمین کے حکام ہو گئے اور اطراف زمین کے بادشاہ شمار ہونے لگے جو کل انکے امور کے مالک تھے آج وہ انکے امور کے مالک ہو گئے اور اپنے احکام ان پر نافذ کرنے لگے جو کل اپنے احکام ان پر نافذ کر رہے تھے کہ اب نہ انکا دم خم نکالا جا سکتا تھا اور نہ انکا زور ہی توڑا جا سکتا تھا دیکھو تم نے اپنے ہاتھوں کو اطاعت کے بندھنوں سے چھڑا لیا ہے اور اللہ کی طرف سے اپنے گرد کھنچے ہوئے حصار میں جاہلیت کے احکام کی بنا پر رخنہ پیدا کر دیا ہے ۔
١١٤٥۔ : فاطمۃ ؑ: نے۔ وفات پیغمبر کے بعد مسلمانوں کو مخاطب کرکے۔ فرمایا: تم لوگ آگ کے گڑھے کے دہانے پر تھے، پینے والوںکے لئے پانی ملا دودھ کا گھونٹ ، حریص کی فرصت اور اس شخص کے مانند تھے جو گھر میں داخل ہو اور صرف آگ لینے تک ٹھہرے، اور دوسروں کے پیروں تلے کچلے جا رہے تھے ، گدلا پانی پیتے تھے اور گوسفند کی کھال تمہاری غذائیں تھیں، ذلیل و پست تھے، اورخوف لا حق رہتا تھا کہ کہیں لوگ اطراف سے تمہیں اچک نہ لے جائیں ۔ پس اللہ نے تمہیں میرے باپ محمد(ص)کے ذریعہ نجات بخشی۔
١١٤٦۔ اما م ہادی ؑ: نے۔ اپنے خطبہ میں فرمایا: حمد اس اللہ کے لئے ہے جو ہر موجود سے آگاہ ہے قبل اس کے کہ اسکی مخلوق میں سے کسی کا اسکی گردن پر قرض ہو... اور بیشک محمد(ص) اس کے بندہ اس کے برگزیدہ رسول اور پسندیدہ دوست ہیں اور ہدایت کے ساتھ مبعوث کئے گئے ہیں۔ اور انہیں رسولوں سے خالی عہد، امتوں کے اختلاف ، راستوں کے انقطاع، حکمت کی بوسیدگی اور نشانات ہدایت و شواہد کے محو ہونے کے زمانہ میں بھیجا ہے ۔ انہوںنے رسالت پروردگار کو پہنچایا۔ اور اس کے حکم کو واضح کیا۔ اور ان پر جوفریضہ تھا اس کو انجام دیا اور جب وفات پائی تو محمود و پسندیدہ تھے۔
جاہلیت کے متعلق کچھ باتیں
قرآن نے ظہور اسلام سے پہلے والے زمانہ کو جاہلیت سے تعبیر کیا ہے ، اس کا سبب یہ ہے کہ اس وقت علم کے بجائے جہالت، حق کے بجائے ہر چیز میں خلاف حق اور احمقانہ رائے کا دور دورہ تھا قرآن نے ان کی خصوصایت کو اس طرح بیان کیا ہے:
(یظنون باﷲ غیر الحق ظن الجاھلیۃ)
وہ لوگ خدا کے متعلق خلاف حق جاہلیت جیسے خیالات رکھتے تھے۔
اور فرمایا(افحکم الجاہلیۃ یبغون)
کیایہ لوگ جاہلیت کا حکم چاہتے ہیں فرمایا:( اذ جعل الذین کفروا فی قلوبھم الحمیۃ حمیۃ الجالیۃ)
یہ اس وقت کی بات ہے جب کفار نے اپنے دلوں میں زمانہ جاہلیت جیسی ضد قرار دے لی تھی۔
نیز فرماتا ہے: (ولا تبر جن تبرج الجاہلیۃ الاولیٰ)
اور پہلی جاہلیت جیسا بناؤ سنگار نہ کرو۔
اس وقت عرب معاشرہ کے جنوب میں حبشہ کہ جہاں کے باشندوں کا مذہب نصرانی تھا، اور مغرب میں حکومتِ روم تھی کہ جسکا مذہب نصرانی تھاشمال میں ایران جسکا مذہب مجوسی تھا اور دوسرے اطراف میں ہندوستان اور مصر ایسے بت پرست ممالک واقع تھے۔
خود عرب کے درمیان یہودیوں کے چند گروہ آباد تھے، خود عرب بت پرست تھے، اکثرلوگ قبیلوں میں زندگی بسر کرتے تھے یہ تمام چیزیں اس چیز کی باعث ہوئیں کہ ایک بے بنیادبادیہ نشیں معاشرہ وجود میں آجائے کہ جو یہود و نصاریٰ اور مجوس کے آداب و رسوم سے مخلوط ہو، لوگ جہالت و نادانی اور مکمل بے خبری میں زندگی بسر کر رہے تھے۔خدا انکے بارے میں اس طرح فرمایا:
(ان تطع اکثر من فی الارض یضلوک عن سبیل اﷲ ان یتبعون الا الظن و ان ھم الا یخرصون)
اور اگر آپ روئے زمین کی اکثریت کا اتباع کر لیں گے تو یہ آپ کو راہ خدا سے بہکا دیں گے اور یہ صرف گمان کا اتباع کرتے ہیں اور صرف اندازوں سے کام لیتے ہیں۔
یہ صحرا نورد قبائل بہت پست زندگی گذارتے تھے؛ مسلسل جنگ و غارت گری ، لوٹ مار ایک دوسرے کی ناموس پر تجاوز کرتے تھے، ان میں کسی طرح کا امن و امان ، امانتداری اور صلح و آشتی نہ تھی، اسی کی چودھراہٹ و حکمرانی ہوتی جو ان میں نہایت سرکش و قدرتمند ہوتا تھا۔
ان کے درمیان مردوںکی فضیلت خونریزی، جاہلیت کی ضد، کبر و غرور، ظالموں کا اتباع، مظلوموں کا حق پامال کرنا، آپس میں ایک دوسرے پر زیادتی، نفسہ نفسی، جوا کھیلنا شرابخوری، زنا کاری، مردار و خون اور کھجوروںکا بیج کھانا، تھی۔
لیکن ان کی عورتیں انسانی حقوق سے محروم تھیں، وہ خود مختار اور صاحب ارادہ نہیں ہوتی تھیں انہیں اپنے کسی کام میںکوئی اختیار نہیںہوتا تھا، یہاں تک کہ وراثت کی بھی مالک نہیںہوتی تھیں اور مرد بغیر کسی قید و بند کے ان سے شادیا ںکرتے تھے جیسا کہ بعض یہودی اور بت پرستوںکی عاد ت تھی۔ در عین حال عورتیں بھی خود کو آراستہ اور بناؤ سنگار کرکے جس کوچاہتی تھیں اپنے پاس بلا لیتی تھیں، زنا و بے حیائی ان میں عام تھی یہاں تک کہ شادی شدہ عورتیں بھی زنا کا ارتکاب کرتی تھیں اور بسا اوقات عریاں حج کے لئے آتی تھیں۔
لیکن ان کی اولاد باپ سے منسوب ہوتی تھی، لیکن بچپن میں وراثت سے محروم ہوتی تھی، صرف بڑی اولاد کو میراث کے تصرف کا حق ہوتا تھا، منجملہ ان کی میراث متوفیٰ کی بیوہ ہوتی تھی، بطور کلی لڑکیاں چاہے چھو ٹی ہوں یا بڑی اور چھوٹے لڑکے میراث کا حق نہیں رکھتے تھے، مگر جب کوئی شخص مرتا اور کوئی کمسن بچہ چھوڑ کر جاتا تو سر غنہ قسم کے افراد زبردستی اس کے اموال کے سر پرست بن کر اس کے اموال کو کھاجاتے تھے، اور اگر یہ یتیم بچی ہوتی تو اس کے ساتھ شادی کرتے اور اس کے اموال کوچٹ کر جانے کے بعد اس کو طلاق دیکرنکال دیتے تھے اس صورت میں اس بچی کے پاس نہ مال ہوتا تھا کہ جس سے زندگی گذار سکے اور نہ ہی کوئی اس سے شادی کے لئے تیار ہوتا تھا کہ اس کے اخراجات کا ذمہ دار بنے۔
ان کے درمیان یتیموں کامال غصب کرنا عظیم ترین حادثہ تھا، تا ہم وہ ہمیشہ جنگ و جدال اور غارت گری میں مبتلا رہا کرتے تھے جس کے نتیجہ میں قتل و خونریزی زیادہ ہوتی تھی لہذا بے سر پرست یتیموںکے حادثات اور رونما ہوتے تھے۔
ان کی اولاد کی عظیم بدبختی و شقاوت کا سبب یہ تھا کہ وہ بنجر اور نا ہموار زمینوں میں آباد تھے جو بہت جلد قحط کا شکار ہو جایا کرتی تھیں، لہذا فقر و ناداری کے خوف سے وہ اپنے بیٹوں کو قتل اور بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے، ان کے لئے سب سے زیادہ ناگوار اور دردناک خبر ان کے یہاں بیٹی کی ولادت ہوتی تھی۔
اگرچہ جزیرہ نما عرب کے اطراف میں کچھ بادشاہ حکومت کرتے تھے اور یہ عرب والے انہیں بادشاہوں میں سے اپنے سے قریب اور طاقتور بادشاہ کی زیر حمایت زندگی گذارتے تھے ۔ جیسے ایران شمال کی سمت میں ، روم مغرب کی سمت میںاور حبشہ مشرق کے اطراف میں آباد تھے مگر یہ کہ مرکزی شہر جیسے مکہ ، یثرت اور طائف وغیرہ ایسی کیفیت میں تھے کہ جو جمہوریت کے مثل تھے لیکن جمہوری نہیں تھے اور قبائل صحراؤں میں اور کبھی کبھار شہروں میں زندگی گذارتے تھے اور رؤساء اور بزرگان قبیلہ کے ذریعہ ان کی کفالت ہوتی تھی اور کبھی یہ کیفیت بادشاہی حکومت میں تبدیل ہو جاتی تھی۔
یہ عجیب ہرج و مرج ان میں سے ہر گروہ میں ایک خاص صورت میں نمایاںتھا، اورجزیرہ نما عرب کی سرزمین کے ہر گوشے کا ہر گروہ عجیب و غریب آداب و رسوم اور باطل عقائد کا پابند تھا، اس سے قطع نظر وہ سب کے سب تعلیم و تعلم کے فقدان کی بلاء میں مبتلا تھے حتیٰ کہ شہر بھی چہ برسد عشائر و قبائل ۔
جو میں نے ان کے تمام حالات و کردار اور عادات و رسومات بیان کئے ہیں یہ ایسے امور ہیں جنہیں قرآن کی آیات اور ان ارشادات سے بخوبی سمجھا جا سکتا ہے جن میں ان کا ذکر موجود ہے ۔
لہذاجوآیات پہلے مکہ میں پھر اسلام کے ظہور کے بعد مدینہ میں نازل ہوئی ہیں کہ جن میں ان کے خصوصیات کا تجزیہ کیا گیا ہے، اسی طرح جن آیات میں ان کی شدید و معمولی سر زنش کی گئی ہے ان سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ یہ ان مطالب کی سب سے بڑی سند ہے جو ہم نے بیان کئے ہیں نہایت مختصرجملہ جو ان تمام امور کو بخوبی ثابت کرتا ہے وہ یہ ہے کہ قرآن نے اس زمانہ کو دور جاہلیت سے تعبیر کیا ہے ، فقط یہی مختصر سی تعبیر ان تمام معانی کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے، یہ تھی اس زمانہ میں عرب کی حالت۔
٦/٢
دین جاہلیت
الف : غیر اللہ کی عبادت
قرآن
(اور ان لوگوں نے خدا کو چھوڑ کر ایسے خدا بنالئے ہیں جو کسی بھی شی کے خالق نہیںہیں بلکہ خود ہی مخلوق ہیں اور خود اپنے بھی کسی نقصان یا نفع کے مالک نہیںہیں اور نہ انکے اختیار میں موت و حیات یا حشر و نشر ہی ہے)
ب: خدا کے لئے بیٹا قرار دینا
(اور ان لوگوں کو ڈراؤ جو یہ کہتے ہیں کہ اللہ نے کسی کو اپنا فرزند بنا یا :اس سلسلہ میں نہ انہیں کوئی علم ہے اور نہ انکے باپ دادا کو یہ بہت بڑی بات ہے جو انکے منہ سے نکل رہی ہے کہ یہ جھوٹ کے علاوہ کوئی بات ہی نہیں کرتے)
(اور یہ اللہ کےلئے بیٹیاں قرار دیتے ہیں جبکہ وہ پاک ہے اور یہ جو کچھ چاہتے ہیں وہ سب انہیں کےلئے ہیں)
(کیا یہ تمہارے رب نے تم لوگوں کےلئے لڑکوں کو پسند کیا ہے اور اپنے لئے ملائکہ میں سے لڑکیاں بنائی ہیں یہ تم بہت بڑی بات کہہ رہے ہو)
(یا خدا کے لئے لڑکیاں اور تمہارے لئے لڑکے ہیں)
(کیا تم لوگوں نے لات و عزی کو دیکھا ہے اور منات جو ان کا تیسرا ہے اسے بھی دیکھا ہے، تو کیاتمہارے لئے لڑکے ہیں اور اس کے لئے لڑکیاں ہیں یہ انتہائی ناانصافی کی تقسیم ہے)
حدیث
١١٤٧۔ رسول خدا(ص): خدا نے فرمایا: فرزند آدم نے میری تکذیب کی، جبکہ اسکو یہ حق نہیں تھا اور مجھ کو گالی دی حالانکہ اس کےلئے یہ مناسب نہیں تھا، لیکن میری تکذیب اس لئے کی تھی کہ اسکا گمان تھا کہ وہ جسطرح دنیا میں ہے میں اسے اسی طرح نہیں پلٹا سکتا ہوں؛ اور اسکا مجھے گالی دینا اس لئے تھا کہ اس نے میرے لئے بیٹا قرار دیا۔ میں اس چیز سے منزہ ہوں کہ میرے لئے زوجہ اور بیٹا ہو۔
١١٤٨۔ مجاہد: کہ کفار قریش کہتے تھے: ملائکہ اللہ کی بیٹیاں ہیں اور ان کی مائیں بڑی پریوںکی بیٹیاں ہیں۔
١١٤٩۔ ابن عباس:نے اس آیت (اور یہ اللہ کےلئے بیٹیاں قرار دیتے ہیں) کی تفسیر میںفرمایا:وہ لوگ اللہ کےلئے بیٹیاں قرار دیتے تھے ، اور تم اس بات کو پسند کرتاتے ہو کہ میرے(خدا) یہاں لڑکیاں ہوں لیکن اپنے لئے پسند نہیں کرتے ، اسی لئے دور جاہلیت میں جب کسی کے یہاں بیٹی پیدا ہوتی تھی تو اسے ذلت و حقارت کے ساتھ باقی رکھتے تھے یا زندہ در گور کر دیتے تھے۔
ج: جنات کو خداکا شریک قرار دینا
( اور انہوں نے جنات کو خداکا شریک بنایا حالانکہ خدا نے انہیںپیدا کیا ہے پھر اس کےلئے بغیر جانے بوجھے بیٹے اور بیٹیاں بھی تیار کر دی ہیں، جبکہ وہ بے نیاز اور انکے بیان کر دہ اوصاف سے کہیں زیادہ بلند و بالا ہے )
(اور جس دن خدا سب کو جمع کریگا اور پھر ملائکہ سے کہے گا کہ کیا یہ لوگ تمہاری ہی عبادت کرتے تھے تو وہ عرض کریں گے کہ تو پاک و بے نیاز اور ہمارا ولی ہے یہ ہمارے کچھ نہیں ہیں اور یہ جنات کی عبادت کرتے تھے اور ان کی اکثریت انہیں پر ایمان رکھتی تھی)
د: خدا اور جنات کا رشتہ
(اور انہوںنے خدا و جنات کے درمیان بھی رشتہ قرار دے دیا حالانکہ جنات کو معلوم ہے کہ انہیں بھی خدا کی بارگاہ میں حاضر کیا جائےگا)
ھ: بعض چوپایوں کو حرام قرار دینا
(آپ کہہ دیجئے کہ خدا نے تمہارے لئے رزق نازل کیاتو تم نے اس میں بھی حلال و حرام بنانا شروع کر دیا تو کیا خدا نے تمہیں اسکی اجازت دی ہے یا تم خدا پر افتراء کر رہے ہو)
(لہذا اب تم اللہ کے دئےے ہوئے رزق حلال و پاکیزہ کو کھاؤ اور اسکی عبادت کرنے والے ہو تو اسکی نعمتوں کا شکریہ بھی ادا کرتے رہو اس نے تمہارے لئے صرف مردار، خون ، سور کا گوشت اور جو غیر خدا کے نام پر ذبح کیا جائے اسے حرام کر دیا ہے اور اس میں بھی اگر کوئی شخص مضطر و مجبور ہو جائے اور نہ بغاوت کرے ، نہ حد سے تجاوز کرے تو خدا بہت بڑا بخشنے والا مہربان ہے اور خبردار جو تمہاری زبانیں غلط بیانی سے کام لیتی ہیں اسکی بنا پر یہ نہ کہو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے کہ اس طرح خدا پر جھوٹا بہتان باندھنے والے ہو جاؤ گے اور جو اللہ پر جھوٹا بہتان باندھتے ہیں ان کے لئے فلاح اور کامیابی نہیں ہے )
( اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ جانور اور یہ کھیتی اچھوتی ہے اسے ان کے خیالات کے مطابق وہی کھا سکتے ہیں جنکے بارے میں وہ چاہیں گے اور کچھ چوپائے ہیں جنکی پیٹھ حرام ہے اور کچھ چوپائے ہیںجنکو ؟ذبح کرتے وقت نام خدا بھی نہیںلیا گیا اور سب کی نسبت خدا کی طرف دے رکھی ہے ، عنقریب ان تمام بہتانوں کا بدلہ انہیں دیا جائیگا اور کہتے ہیں کہ ان چوپایوں کے پیٹ میںجو بچے ہیں وہ صرف ہمارے مردوں کے لئے ہیں اور عورتوں پر حرام ہیں ہاں، اگر مردار ہوں تو سب شریک ہوں گے، عنقریب خدا ان بیانات کا بدلہ دیگا کہ وہ صاحب حکمت بھی ہے اور سب کا جاننے والا بھی ہے )
( اللہ نے بحیرہ ، سائبہ، وصیلہ اور حام کا کوئی قانون نہیں بنایا یہ جو لوگ کافر ہو گئے ہیں وہ اللہ پر جھوٹا بہتان باندھتے ہیں اور ان میں کے اکثر بے عقل ہیں)
١١٥٠۔ امام صادق(ع): جب اونٹنی بچہ دیتی ہے پھر اس کا بچہ بھی بچہ دے دے تو اس ناقہ کو بحیرہ کہتے ہیں۔
١١٥١۔ امام صادق(ع): نے خدا کے اس قول( اللہ نے بحیرہ ، سائبہ ، وصیلہ اور حام کا کوئی قانون نہیں بنایا)کے بارے میں فرمایا: دور جاہلیت کے لوگ اس اونٹنی کو جو جوڑواں بچہ دیتی تھی وصیلہ کہتے تھے لہذا اس کا ذبح کرنااور کھانا ناجائز سمجھتے تھے، اور اگر دس بچے پیدا ہو جاتے تھے تو اس اونٹنی کو سائبہ کہتے تھے اس پر سواری کرنا اور اس کے کھانے کو حلال نہیں سمجھتے تھے اور حام وہ نرجانور ہے (جس کے ذریعہ مادہ کو حاملہ کراتے تھے) وہ اسے بھی حلال نہیںسمجھتے تھے، پھر خدا نے آیت نازل کی کہ ان میں سے کسی کو حرام نہیںکیا ہے ۔
وضاحت
اسلام سے قبل عرب کی بدترین جاہلیت کی بدولت ان کے رؤسا اور بزرگان کے استفادہ کے لئے زمین ہموار تھی اور دور جاہلیت کے سرکش و ظالم افراد رسولوں سے خالی دور میں دینی اور اجتماعی آداب و رسومات کے نام پر لوگوں کے پاکیزہ احساسات سے غلط فائدہ اٹھاتے تھے اور اپنے منافع کے لئے کچھ بدعات و خرافت ایجاد کررکھی تھیں، ان میں کا ایک کہ جس کو تاریخ عمروبن لحی کے نام سے جانتی ہے اس نے اس وقت عرب کی اہمترین ثروت یعنی اونٹ کو اپنے اختیار میں لیا اور اس کے لئے کچھ احکام بنا کر مقدس رسم کی صورت میںپیش کیا۔
اس بدعت کے نتیجہ میں ان کی در آمد اونٹ کی چار قسموں ، بحیرہ ، سائبہ ، وصیلہ ، اورحام ، میں منحصرہو گئی تھی اور تفسیروں میں کم و بیش اختلاف کے ساتھ اس سلسلہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ اور تمام تفسیروں کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ لوگ ان چاروں اونٹوں کے لئے خود ساختہ احترام کے قائل تھے کہ دودھ، گوشت، اون، ا ن پر سواری کو اکثر کے لئے حرام اور بعض کے لئے منجملہ متولی اور بتوں کے خدمت گذاروںکے لئے حلال سمجھتے تھے۔
یہ بدعت ، عورتوںکے متعلق عرب کے حقارت آمیز نظریہ سے مل کر عورتوںکے لئے اس حکم کے مزید سخت ہونے کا باعث ہوئی؛ وہ یہ کہ عورتیں ان مذکورہ اونٹوں کا گوشت صرف مرنے کے بعد ہی کھا سکتی تھیں۔
اس کے علاوہ اس خیالی حرمت کے نتیجہ میں بتوںکے متولیوں اور خادموں کے لئے چراگاہوں ، پانی کے چشموں اور جزیرۃ العرب کے نایاب کنوؤں سے استفادہ کر ناجائز و مباح تھا۔ نیز اس چیز کابھی باعث ہوئی کہ وہ شکریہ کے طور پر یا اپنی حاجات کے پوری ہونے پر پتھر کے بتوں اور ان کے متولیوںکی خدمت میں نذرانہ پیش کریں۔
قرآن مجید مذکورہ چار آیات کے ذریعہ جاہلیت کے بدعات و خرافات سے برسرپیکار ہوا یعنی بت پرستوں ، اور ان کے خود ساختہ رسومات اور دعووں کو محض افتراء سے تعبیر کیا ہے ، متولیوں ،بت پرستوں، اور بت گروںکو بے نقاب کر دیا اور اعلان کیا کہ چوپایوں کا حرام یا حلا ل قرار دیناصرف خدائے سبحان کے اختیار میں ہے ، اور اس نے ان چار طرح کے حیوانات کو عرب کے عقیدئہ جاہلیت کے بر خلاف حرام نہیںجانا ہے ، فقط مردار اور وہ تمام چیزیں جو بتوں اور غیر خدا سے مربوط ہیں انہیں حرام قرار دیا ہے ۔
و:خدا اور اصنام کے درمیان کھیتی اور چوپایوں کی تقسیم
قرآن
(اور ان لوگوں نے خدا کی پیدا کی ہوئی کھیتی میں اور جانوروںمیں اسکا حصہ بھی لگایا ہے اور یہ اعلان کیاہے کہ یہ انکے خیال کے مطابق خدا کےلئے ہے اور یہ ہمارے شریکوںکےلئے ہے ، اسکے بعد جو شرکاء کا حصہ ہے وہ خدا تک نہیں جاسکتا اور جو خدا کا حصہ ہے وہ انکے شریکوں تک پہنچ سکتاہے کس قدر بدترین فیصلہ ہے جو یہ لوگ کر رہے ہیں)
(اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ جانور اور کھیتی اچھوتی ہے اسے انکے خیالات کے مطابق وہی کھا سکتے ہیںجنکے بارے میںوہ چاہیں گے اور کچھ چوپائے ہیں جنکی پیٹھ حرام ہے اور کچھ چوپائے ہیں جنکو ذبح کرتے وقت نام خدا بھی نہیںلیا گیا اور سب کی نسبت خدا کی طر ف دے رکھی ہے عنقریب ان تمام بہتانوں کا بدلہ انہیں دیا جائیگا)
( اور یہ ہمارے دئےے ہوئے رزق میں سے ان کا بھی حصہ قرار دیتے ہیں جنہیں جانتے بھی نہیں ہیں تو عنقریب تم سے تمہارے افتراء کے بارے میںبھی سوال کیا جائیگا)
وضاحت
عقیدئہ جاہلیت (کہ بتوں کو خدا کا شرکاء قرار دیتے تھے) نے عرب کو اس چیز پر ابھارا کہ وہ اپنے خداؤں اور بتوںکےلئے بتکدہ بنائیں اور ان کے خدمت گذاروں اور متولیوں کے لئے معاش فراہم کریں، انہیں اپنی زندگی ، رزق اور مملکت میں شریک بنائیں اور اپنی عمدہ روت(زراعت و چوپائے) ان کے درمیان تقسیم کریں اور خدا کے حصہ کے ساتھ ان کا بھی حصہ قرار دیں۔ خدا کے حصہ کو عمومی مصارف جیسے مہمانوںکو کھانا کھلانے اور فقراء و مساکین کی مدد کرنے میں خرچ کرتے اور بتوںکے حصہ کو ان کے خدمت گذاروں کو عنایت کرتے تھے۔جب کبھی زراعت پر کوئی آفت آتی یا کم پیدوار ہوتی یا ان کا حصہ خدا کے حصہ سے مخلوط ہو جاتا تو یہ حریص و لالچی خدمت گذار اپنے مفاد کی خاطر دھوکا دھڑی سے کام لیتے اور کہتے (خدا بے نیازہے) لہذا وہ اپنا پورا حصہ بغیر کسی کم و کاست کے لے لےتے تھے اور اپنے حصوں کی کمی کا جبران خدا کے حصہ سے کرتے تھے اور کبھی بھی خدا کے حصہ کا جبران بتوں کے حصہ سے نہیں کرتے تھے محصول میںیہ کمی وزیادتی کبھی کبھار ان کی پہلے کی فریبکاریوںکی بنا پر ہوتی تھی؛ اور وہ یہ کہ جب سینچائی کے وقت خد اکے حصہ کے کھیتوں سے پانی بتوں کے کھیتوں میں جانے لگتا تھا تو وہ اس کو روکتے نہیں تھے، لیکن اس کے بر خلاف خداکے کھیتوں میں بتوںکے کھیتوں سے پانی نہیں جانے دیتے تھے۔ اسی طرح یہ فرسودہ رسم چوپایوںمیں بھی تقسیم و شراکت کے اعتبار سے بر قرار تھی کہ جس کی طرف گذشتہ فصل میں اشارہ ہو چکاہے ۔ملاحظہ کریں:تفسیر مجمع المبیان : ٤/٥٧١، تفسیر قمی: ١/٢١٧، تفسیر طبری : ٥، جزء ٨/٤٠ تفسیر در منثور:٣،٣٦٢، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام:٦ /١٩٣
ز: عریاں طواف
١١٥٢۔ امام صادق(ع): زمانہ جاہلیت میں عرب کے گروہ تھے : حل اور حمس۔ حمس قریش تھے۔ اور حل تمام عرب تھے حل میں سے کوئی فرد ایسی نہیںتھی جو حمس کی پناہ میں نہ ہوتی اور جو حمس کی پناہ میں نہیں ہوتا تھا وہ عریاں طواف کرتاتھا۔
رسول خدا(ص) عیاض بن حمار مجاشعی کو پناہ دیتے تھے ، عیاض عظیم المرتبت انسان تھا اور جاہلیت میں اہل عکاظ کا قاضی تھا، وہ جب بھی مکہ وارد ہوتا ، اپنے گناہ آلود لباس کو اتار دیتا اور چونکہ پیغمبر کا لباس پاک و پاکیزہ ہوتا تھا لہذآنحضرت کا لباس پہن کرطواف کرتا تھا، اور طواف کے بعد آپکا لباس واپس دے دیتا تھا۔جب پیغمبرؐ مبعوث برسالت ہوئے تو عیاض آپ کے لئے ایک ہدیہ لیکر آیا، لیکن نبیؐ نے اسے قبول نہ کیا اور فرمایا: اے عیاض! اگر مسلمان ہو جاؤگے تو تمہارا ہدیہ قبول کرونگا؛ یقینا خدا مشرکوں کی داد و دہش کو میرے لئے پسند نہیںکرتا، پھر اس کے بعد عیاض نے اسلام قبول کیا اور اس کا اسلام قابل تحسین ہوا۔ اور رسول خدا کے لئے ہدیہ لیکر آیا اور آپ نے اس کو قبول فرمایا۔
١١٥٣۔ امام صادق(ع): عرب کے درمیان یہ رائج تھا کہ جو بھی مکہ میں وارد ہوتا اور اپنے لباس میں طواف کرتااس کے لئے جائز نہ تھاکہ وہ اپنے لباس کو باقی رکھتا اور اسے دو بارہ پہنتا بلکہ وہ اسے صدقہ دے دیا کرتاتھا۔
؛ لہذا جب وہ لوگ مکہ میں داخل ہوتے تھے تو عاریتاً کسی سے لباس لیکر طواف کرتے پھر واپس کر دیتے تھے، اگر عاریتاً لباس نہیںملتا تھا تو کرایہ پر لیتے اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہوتا اور ان کے پاس فقط ایک ہی لباس ہوتا تھا تو وہ برہنہ طواف کرتے تھے۔
لہذا عرب کی ایک حسین و جمیل عورت وارد مکہ ہوئی لیکن عاریت اور کرایہ پر کوئی لباس نہ مل سکا۔ لوگوں نے اس سے کہا: اگر تونے اپنے اس لباس میں طواف کیا تو اس کو تجھے صدقہ دینا ہوگا، عورت نے کہا: کیونکر صدقہ دوں گی جبکہ میرے پاس اس کے علاوہ دوسرا لبا س نہیںہے؟!
لہذا اس نے برہنہ طواف کرنا شروع کر دیا اور لوگ تماشہ دیکھ رہے تھے جس کی وجہ سے اس نے ایک ہاتھ آگے اور دوسرا ہاتھ پیچھے رکھا اور اس طرح رجز خوانی کی :
'' آج شرمگاہ کا کچھ حصہ یا تما م حصہ ظاہر ہے ، اور جو ظاہرہے اس کو جائز نہیں جانتی''
پھر طواف کے بعد کچھ لوگوں نے اس کے پاس شادی کے لئے پیغا م بھیجا لیکن اس نے کہا میں شادی شدہ ہوں۔
ح: قیامت کا انکار
قرآن
( اور جن لوگوں نے کفر اختیار کیاتو کیا تمہارے سامنے ہماری آیات کی تلاوت نہیںہو رہی تھی لیکن تم نے اکڑ سے کام لیا اور بیشک تم ایک مجرم قوم تھے اور جب یہ کہا گیا کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور قیامت میں کوئی شک نہیںہے تو تم نے کہہ دیا کہ ہم تو قیامت نہیں جانتے ہیںہم اسے ایک خیالی بات سمجھتے ہیں اور ہم اس کا یقین کرنے والے نہیں ہیں اور ان کے لئے ان کے اعمال کی برائیاں ثابت ہو گئیں اور انہیں اس عذاب نے گھیر لیا جس کا وہ مزا ق اڑا یا کرتے تھے اور ان سے کہا گیا کہ ہم تمہیں آج اسی طرح نظر انداز کریں گے جس طرح تم نے آج کے دن کی ملاقات کو بھلا دیاتھاا ور تم سب کا انجام جہنم ہے اور تمہارا کوئی مدد گار نہیںہے یہ سب اس لئے ہے کہ تم نے آیات الہی کا مذاق بنا یا تھا اور تمہیں زندگانی دنیا نے دھوکا میں رکھا تھا توآج یہ لوگ عذاب سے باہر نہیں نکالے جائیں گے اور انہیں معافی مانگنے کا موقع بھی نہیںدیا جائیگا۔
جاہلیت کے عقائد پر ایک نظر
زمانہ جاہلیت یعنی وحی اور انبیاء سے خالی دور میں عرب وادی ضلالت و گمراہی میں زندگی بسر کر رہے تھے، حیران و سرگرداں اور مذہبی و فکر ی اختلاف کے شکار تھے، درج ذیل مطالب میں عرب کے فرق و مذاہب پر ایک طائرانہ نظر ڈالی گئی ہے ۔
١۔ خدا اور قیامت کے معتقد نہیں تھے اور ہستی کو اسی دنیا میں محدود و منحصر خیال کرتے تھے اور کہتے تھے
(و ما ھی الاحاتنا الدنیا نموت و نحیٰ و ما یھلکنا الا الدھر)
یہ صرف زندگانی دنیا ہے اسی میں مرتے ہیں اور جیتے ہیں اور زمانہ ہی ہم کو ہلاک کر دیتا ہے ۔
٢۔ قیامت پر اعتقاد نہیں رکھتے تھے، جیسا کہ آیت سے واضح ہے:
( و اذا قیل ان وعد اللہ حق و الساعۃ لا ریب فیھا قلتم ما ندری ما الساعۃ ان نظن الا ظناً وما نحن بمستیقنین)
اور جب یہ کہا گیا کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور قیامت میںکوئی شک نہیں ہے تو تم نے کہہ دیا کہ ہم تو قیامت نہیںجانتے ہیں اور ہم اس کا یقین کرنے والے نہیںہیں۔ نیز ارشاد ہے
(و ضرب لنا مثلا و نسی خلقہ قال من یحیی العظام و ھی رمیم قل یحییھا الذی انشأھا اول مرۃ)
اور وہ ہمارے لئے مثال بیان کرتاہے اور اپنی خلقت کو بھول گیا ہے کہتا ہے کہ ان بوسیدہ ہڈیوں کو کون زندہ کر سکتا ہے آپ کہہ دیجئے کہ جس نے پہلی مرتبہ پیدا کیاہے وہی زندہ بھی کریگا ۔
اس آیت سے استفادہ کیا جا سکتا ہے کہ یہ لوگ پہلی خلقت پر اعتقاد رکھتے تھے اور تعبیر حدیث کے مطابق وجود خداکے قائل تھے لیکن:(لا یرجون من اللہ ثواباً ولا یخافون اللہ منہ عقابا)
خدا کے ثواب کی امید نہیںرکھتے تھے اور نہ ہی اس کے عقاب سے ڈرتے تھے۔
٣۔ وہ کبھی ملائکہ و جنات میں سے اور کبھی اصنام و شیاطین میں سے خدا کا شریک قرار دیتے تھے۔ ان شرکاؤ کبھی اصل خلقت میں دخیل قرار دیتے اور کبھی تدبیر امور میں ؛ یا وہ لوگ خدا کو مادی موجودات سے تشبیہ دیتے اور یا انہیںمادی موجودات میں سے کسی ایک کی پروردگار عالم کے عنوان سے پرستش کرتے تھے؛ وہ مادی موجودات جیسے کواکب یا حیوانات اور یا اشجار ہیں، جزیرۃ العرب میں اس عقیدہ کے معتقد افراد( جو گذشتہ بالا عقیدہ کے معتقد افراد سے کچھ چیزوںمیں شبیہ ہیں) کی اکثریت تھی۔
(وما یؤمن باللہ الا وھم مشرکون)
ان میں سے اکثر خدا پر ایمان نہیں رکھتے تھے مگر یہ کہ مشرک تھے۔
٤۔ جزیرۃ العرب کے بعض مناطق میں اہل کتاب کے دو گروہ یہود و نصاریٰ آباد تھے جس کے ثبوت کے لئے منجملہ آیہ مباہلہ ہے جو نجران کے ان علماء اور نصاریٰ پر دلالت کرتی ہے جو مدینہ کے جنوب میں زندگی گذارتے تھے، نیز صدر اسلام کی عظیم جنگیں بھی اس چیز پر دلالت کرتی ہیں کہ جن میں یہودیوںکا اساسی کردار تھا، جیسے جنگ احزاب (خندق) اور اس کے بعد بنی قینقاع اور بنی قریظہ کے ساتھ کشمکش یہاں تک کہ جنگ خیبر دلالت کرتی ہے ۔
٥۔ کچھ مجوسی اور صائبہ بھی آباد تھے لیکن قابل اعتنا نہیں تھے۔
٦۔ کچھ لوگ دین حنیف ابراہیم کے معتقد تھے جو نہایت اقلیت میں تھے جنکے اسماء حسب ذیل ہیں:
١۔ ابو طالب (رسول اکرم (ص) کے چچا) ٢۔ ابو قیس صرمہ بن ابی انس
٣۔ ارباب بن رأاب ٤۔ اسعد ابوبکر حمیری
٥۔ امیہ بن ابی صلت ٦۔ بحیرائے راہب
٧۔ خالد بن سنان عبسی ٨۔ زہیر بن ابی سلمی
٩۔ زید بن عمرو بن نفیل عبد العزیٰ ١٠۔ سوید بن عامر مصطلقی
١١۔ سیف بن ذی یزن ١٢۔ عامر بن ضرب عدوانی
١٣۔ عبد الطا نجہ بن ثعلب بن وبرۃ بن قضاعہ ١٤۔ عبد اللہ قضاعی
١٥۔ عبد اللہ (رسول اکرم ؐکے والد محترم) ١٦۔ عبد المطلب (رسول اکرمؐ کے دادا)
١٧۔ عبید بن ابرص اسدی ١٨۔ علاف بن شہاب تمیمی
١٩۔ عمیر بن جندب جہنی ٢٠۔ کعب بن لو ئی بن غالب
٢١۔ ملتمس بن امیہ کنانی ٢٢۔ وکیع بن زہیر ایادی
٦/٣
دور جاہلیت کے اوصاف
قرآن
( یہ اس وقت کی بات ہے جب کفار نے اپنے دلوں میں زمانہ جاہلیت جیسی ضد قرار دے لی تھی )
(کیا تم نے اسکو دیکھا ہے جو قیامت کو جھٹلاتا ہے ، وہی ہے جو یتیم کو جھڑکتا ہے ، اور کسی کو مسکین کے کھلانے کےلئے تیار نہیں کرتا ہے)
حدیث
١١٥٤۔ رسول خدا(ص): جس شخص کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر تعصب ہوگا، خدا اس کو روز قیامت زمانہ جاہلیت کے عربوں کے ساتھ محشور کریگا۔
١١٥٥۔ رسول خدا(ص): جو شخص پرچم گمراہی کے نیچے جنگ کرے اور تعصب کی بنا پر غضبناک ہو یا تعصب کی دعوت دے یا کسی عصبیت کی مدد کرتے ہوئے قتل ہو جائے تو اس کا قتل جاہلیت پر ہوگا۔
١١٥٦۔ رسول خدا(ص): بیشک اللہ نے غرور جاہلیت اور انکے آباء و اجداد کے سبب تکبر کو دور کیا، تم سب کی نسبت آدم و حوا سے ایسی ہے جیسے ترازو کے دو پلڑے، بیشک تم میں سب سے زیادہ مکرم وہ شخص ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے ، لہذا جو تمہارے پاس شادی کا پیغام لیکر آئے اگر تم اسکی دینداری و امانتداری سے راضی ہو تو اس کے ساتھ شادی کر دو۔
١١٥٧۔ امام باقر(ع): رسول خدا(ص) فتح مکہ کے روز منبر پر گئے اور فرمایا: اے لوگو! اللہ نے غرور جاہلیت اور آباء و اجداد پر تمہارے فخر کو تم سے دور کیا۔ یاد رکھو! تم سب آدم کی اولاد ہو اور آدم مٹی سے خلق ہوئے ہیں، آگاہ ہو جاؤ! خدا کے بندوں میں سب سے بہتر وہ بندہ ہے جو خدا کا خوف رکھتا ہے بیشک عرب ہونا، عرب باپ کی بنا پر نہیں ہے بلکہ عرب ہونا، ایک تکلم کی زبان ہے ، لہذا جس کا عمل کم ہوگا اس کا حسب و نسب اس کا جبران نہیںکریگا۔
١١٥٨۔ امام علی (ع): تمہارا فرض ہے کہ تمہارے دلوں میں جو عصبیت اور جاہلیت کے کینوں کی آگ بھڑک رہی ہے اسے بجھا دو کہ یہ غرور ایک مسلمان کے اندر شیطانی وسوسوں ، نخوتوں، فتنہ انگیزیوں اور فسوں کاریوں کا نتیجہ ہے ۔
١١٥٩۔ امام علی (ع): حسد اور کینہ سے پرہیز کرو! اس لئے کہ یہ جاہلیت کی خصلتیں ہیں:(اور ہر شخص یہ دیکھے کہ اس نے کل کے لئے کیا بھیجا ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو کہ وہ یقینا تمہارے اعمال سے باخبر ہے ۔)
١١٦٠۔ امام علی (ع): خدا را خدا سے ڈرو! تکبر کے غرور اور جاہلیت کے تفاخر کے سلسلہ میں کہ یہ عداوتوں کے پیدا ہونے کی جگہ اور شیطان کی فسوں کاری کی منزل ہے ، اسی کے ذریعہ اس نے گذشتہ قوموں اور اگلی نسلوں کو دھوکا دیا ہے ، یہاں تک کہ وہ لوگ جہالت کے اندھیروں اور ضلالت کے گڑھوں میں گر پڑے، وہ اپنے ہنکانے والے کے مکمل تابع اور کھیچنے والے کے سراپا اطاعت تھے، یہی وہ امر ہے جس میں قلوب سب ایک جیسے ہیں اور نسلیں اسی راہ پر چلتی رہی ہیں اور یہی وہ تکبر ہے جس کی پردہ پوشی سے سینے تنگ ہیں۔
آگاہ ہو جاؤ! اپنے ان بزرگوں اور سرداروں کی اطاعت سے محتاط رہو جنہوںنے اپنے حسب پر غرور کیااور اپنے نسب کی بنیاد پر اونچے بن گئے، بد نما چیزوں کو اللہ کے سر ڈال دیا اور اس کے حسنات کا صریحی انکار کر دیا ہے ، انہوںنے اس کے فیصلہ سے مقابلہ کیاہے اور اسکی نعمتوں پر غلبہ حاصل کر نا چاہا ہے ، یہی وہ لوگ ہیں جو عصبیت کی بنیاد ، فتنوں کے ستون اور جاہلیت کے غرور کی تلوار ہیں۔
١١٦١۔ امام علی (ع): تمہارے چھوٹوں کو چاہئے کہ اپنے بڑوں کی پیروی اور بڑوں کا فرض ہے کہ اپنے چھوٹوں پر مہربانی کریں، اور خبردار تم لوگ جاہلیت کے ان ظالموں جیسے نہ ہو جانا جو نہ دین کا علم حاصل کرتے تھے اور نہ اللہ کے بارے میں عقل و فہم سے کام لیتے تھے، انکی مثال ان انڈوں کے چھلکوں جیسی ہے جو شتر مرغ کے انڈے دینے کی جگہ پر رکھے ہوںکہ انکا توڑنا تو جرم ہے لیکن پرورش کرنا بھی سوائے شر کے کوئی نتیجہ نہیں دے سکتاہے ۔
١١٦٢۔ محمد قصری: بیان کرتے ہیں کہ میں نے امام صادق(ع) سے زکات کے بارے میں سوال کیا: تو فرمایاؑ: خدا نے جنکو زکات دینے کا حکم دیا ہے انہیں کے درمیان اسے تقسیم کرو لیکن قرضداروںکے حصہ سے ان قرضداروںکا قرض ادا نہیں کیا جاسکتا جو مہر کے مقروض ہیں اور نہ ہی ان افراد کا قرض ادا کیا جائیگا جو جاہلیت کی دعوت دیتے ہیں، میں نے عرض کیا!جاہلیت کی دعوت کیاہے؟فرمایا: وہ شخص جو یہ کہتا ہے : اے فلاں قبیلہ کی اولاد، پھران کے درمیان قتل و خونریزی برپا ہو جاتی ہے انہیںقرضداروںکے حصہ سے نہیں دیا جا سکتا؛ اسی طرح اس حصہ سے اس شخص کو بھی نہیں دیا جا سکتا جو لو گوں کے اموال میں لاپروائی برتتا ہے ۔
١١٦٣۔ جابر: مہاجرین و انصار کے دو غلاموں میں جھگڑا ہو گیا ، مہاجر کے غلام نے فریاد کی اے مہاجرین میری مدد کو آؤ! اور انصار کے غلام نے فریاد کی اے انصار مدد کو پہنچو! رسول خدا(ص) باہر تشریف لائے اور فرمایا: یہ اہل جاہلیت کا دعویٰ کیسا ہے؟ ان لوگوں نے کہا: اے رسول خدا(ص) یہ دعوائے جاہلیت نہیں صرف دو غلاموںنے آپس میں جھگڑا کیا ہے ایک نے دوسرے کو زمین پر پٹخ دیا ہے، رسولخدؐا نے فرمایا: کوئی مضائقہ نہیں، ہر شخص کو چاہئے کہ اپنے بھائی کی مدد کرے چاہے وہ ظالم ہو یا مظلوم، اگر ظالم ہے تو اسکو اسکے ظلم سے باز رکھے یہی اس کےلئے مدد ہے اور اگر مظلوم ہے تو اسکی مدد کرے۔
١١٦٤۔علی بن ابراہیم : رسولخدا ؐ کے اصحاب ، رسول خدا(ص) کے پاس آئے اور اپنے حاجات کے پورے ہونے کےلئے خدا سے دعا کرنے کی درخواست کی۔ انکا تقاضا ایسی چیزوں کے سلسلہ میں تھا جو ان کےلئے حلال و مباح نہ تھا، پس خدا نے آیت نازل کی:وہ لوگ گناہ، ظلم اور رسول کی نافرمانی کے ساتھ راز کی باتیں کرتے ہیں۔اور جب وہ لوگ رسولخدؐاکے پاس آئے:انعم صباحا وانعم مساء اً کہا جو کہ اہل جاہلیت کا سلام تھا، تو خدا نے آیت نازل فرمائی:اور جب تمہارے پاس آتے ہیں تو اسطرح سلام کرتے ہیں کہ جسطرح خدا نے انہیں نہیں سکھایا ہے پھر رسول خدا(ص) نے ارشاد فرمایا: خدا نے ہمارے لئے اسکے عوض میں اس سے بہتر قرار دیا ہے جو کہ اہل جنت کا سلام ہے اور وہ (سلام علیکم) ہے۔
٦/٤
جاہلیت کے جرائم
الف :بیٹیوں کو زندہ دفن کرنا
قرآن
(اور جب ان میں سے کسی کو بیٹی کی بشارت دی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ پڑ جاتا ہے اور وہ خون کے گھونٹ پینے لگتا ہے ، قوم سے منھ چھپاتا ہے کہ بہت بری خبر سنائی گئی ہے اب اس کو ذلت سمیت زندہ رکھے یا دفنا دے یقینا یہ لوگ بہت برا فیصلہ کر رہے ہیں)
(اور جب زندہ در گور بیٹیوں کے بارے میں سوال کیا جائیگا کہ انہیں کس گناہ میں مارا گیا ہے)
حدیث
١١٦٥۔ رسول خدا(ص) :خدا نے تمہارے لئے ماؤں کی نافرمانی ، بیٹیوں کو زندہ در گور کرنا اور حقوق و واجبات کی عدم ادائیگی کو حرام قرار دیا ہے ۔ وہ تم سے قیل و قال ، کثرت سوال اور مال کے ضائع کرنے کو ناپسند کرتا ہے ۔
١١٦٦۔امام صادق(ع): ایک شخص رسول خدا(ص) کی خدمت میں آیا اور کہا: میرے یہاں بیٹی پیدا ہوئی اور میں نے اسکی پرورش کی یہاں تک کہ وہ بالغ ہو گئی پھر اسے لباس پہنایا، آراستہ کیا اور کنویں میں لے جاکر ڈال دیا۔ اسکی جو آخری آواز میں نے سنی وہ یہ تھی کہ اے ابا جان! (اے اللہ کے رسول )اس عمل کا کفارہ کیا ہے ؟ رسول خدا(ص)نے فرمایا کیا تمہاری ماں زندہ ہے؟ کہا: نہیں، فرمایا:ؐ کیا تمہاری خالہ زندہ ہے؟ کہا: ہاں، فرمایا: اس کے ساتھ نیکی کرو کہ خالہ ماں کی جگہ پر ہوتی ہے تمہارے گناہوں کا کفارہ ہو جائیگا۔
ابو خدیجہ کہتا ہے : میں نے امام صادق(ع) سے پوچھا: یہ کس زمانہ میں پیش آیا تھا؟ فرمایا: جاہلیت میں ، وہ اپنی بیٹیوں کو اسیری کے خوف سے قتل کر دیتے تھے کہ کہیں اسیر ہوگئیں تو دوسری قوموں میں جاکر ان کے شکم سے بچے پیدا ہوں گے۔
ب: اولاد کشی
قرآن
(اور اسی طرح ان شریکوں نے بہت سے مشرکین کےلئے اولاد کے قتل کو بھی آراستہ کر دیا ہے تاکہ انکو تباہ و برباد اور ان پر دین کو مشتبہ کر دیں حالانکہ خدا اسکے خلاف چاہ لیتا تو یہ کچھ نہیں کر سکتے تھے لہذا آپ انکوانکی افتراء پردازی پر چھوڑ دیں اور پریشان نہ ہوں)
(یقینا وہ لوگ خسارہ میں ہیں جنہوںنے حماقت میں بغیر جانے بوجھے اپنی اولاد کو قتل کر دیا اور جو رزق خدا نے انہیں دیا تھا اسے اسی پر بہتان لگا کر اپنے اوپر حرام کر لیا یہ سب بہک گئے ہیں اور ہدایت یافتہ نہیںہیں)
(پیغمبر اگر ایمان لانے والی عورتیں آپ کے پاس اس امر پر بیعت کرنے کے لئے آئیں کہ کسی کو خدا کا شریک نہیں بنائیں گی اور چوری نہیں کریں گی ، زنا نہیں کریں گی، اولاد کو قتل نہیں کریں گی اور اپنے ہاتھ پاؤں کے سامنے سے کوئی بہتان (لڑکا) لیکر نہیں آئیں گی، اور کسی نیکی میں آپکی مخالفت نہیں کریں گی تو آپ ان سے بیعت لے لیںاور ان کے حق میں استغفار کریں کہ خدا بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے)
(اور خبردار اپنی اولاد کو فاقہ کے خوف سے قتل نہ کرنا ہم انہیں بھی رزق دیتے ہیں اور تمہیں بھی بیشک ان کا قتل کر دینا بہت بڑا گناہ ہے)
ج: بد کرداری
(اور یہ کوئی برا کام کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے آباء و اجداد کو اسی طریقہ پر پایا ہے اور اللہ نے یہی حکم دیا ہے ، آپ فرما دیجئے کہ خدا بری بات کا حکم نہیں دے سکتا کیا تم خدا کے خلاف وہ کہہ رہے ہو جو جانتے بھی نہیں ہو)
(کہدیجئے کہ ہمارے رب نے صرف بدکاریوں کو حرام کیا ہے چاہے وہ ظاہری ہو ں یا باطنی اور گناہ، ناحق ظلم اور بلا دلیل کسی چیز کو خدا کا شریک بنانے اور بلا جانے بوجھے کسی بات کو خدا کی طرف منسوب کرنے کو حرام قرار دیا ہے)
حدیث
١١٦٧۔ امام زین العاب دین (ع): جب ظاہری اور باطنی بدکرداریوں کے بارے میں آپ سے پوچھا گیا تو فرمایا: ظاہری بدکرداری ، باپ کی بیوی کے ساتھ نکاح ہے اور باطنی بدکرداری زنا ہے۔
١١٦٨۔ امام کاظم (ع): نے خدا کے اس قول:(کہدیجئے ہمارے رب نے ظاہری و باطنی بدکرداریوں، گناہ اور ناحق ظلم کو حرام قرار دیا ہے)کے بارے میں فرمایا: ظاہری بد کرداری یعنی کھلی زنا کاری اور پرچم کو نصب کرنا ہے جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں فاحشہ عورتیں بدکرداری و زناکاری کےلئے (اپنے گھروں پر) پرچم نصب کرتی تھیں، اور باطنی بدکرداری یعنی باپ کی بیوی سے نکاح کرنا ہے اس لئے کہ بعثت نبی ؐ سے قبل جب کوئی شخص مر جاتا اور اس کے کوئی بیوی ہوتی تھی تو اس کا بیٹا اگر وہ ماں نہیںہوتی تھی تو اس کے ساتھ نکاح کر لیتا تھا،پس خدا نے اس کو حرام قرار دیا ۔
د: لڑکیوں کو بد کاری پر مجبور کرنا
قرآن
(اور خبردار اپنی کنیزوںکو اگر وہ پاکدامنی کی خواہش مند ہیں تو زنا پر مجبور نہ کرنا کہ ان سے زندگانی دنیا کا فائدہ حاصل کرنا چاہو کہ جو بھی انہیں مجبور کریگا خدا مجبوری کے بعد ان عورتوں کے حق میں بہت زیادہ بخشنے والا اور مہربان ہے )
حدیث
١١٦٩۔ امام باقر(ع): عرب اور قریش کنیزوںکو خریدتے تھے اور ان کے لئے بہت زیادہ مالیت رکھتے تھے، اور کہتے تھے: جاؤ فاحشہ گیری کرو اور پیسے کماؤ؛ پس خدا نے انہیں اس کام سے منع فرمایا۔
ھ: شراب، جوا، بت اور پانسہ
قرآن
(ایمان والو! شراب، جوا، بت ،پانسہ یہ سب شیطانی اعمال ہیں لہذا ان سے بچو تاکہ کامیابی حاصل کر سکو)
حدیث
١١٧٠۔امام باقر(ع): جب خدا نے رسول خدا(ص) پر نازل کیا:(ایمان والو! شراب میسر،(جوا)، انصاب (بت) اور ازلام (پانسہ) یہ سب گندے شیطانی اعمال ہیں لہذا ان سے پرہیز کرو تاکہ کامیابی حاصل کر سکو)
تو پوچھا گیا: اے رسول خدا(ص)، میسر کیا ہے؟ فرمایا: ہر وہ چیز جس سے جوا کھیلا جائے حتی کہ نرو کے مہرے اور اخروٹ، پوچھا گیا: انصاب کیا ہے؟ فرمایا: وہ چیزیں جو اپنے معبود وں کےلئے ذبح کرتے ہیں، پھر پوچھا گیا: ازلام کیا ہے؟ فرمایا: وہ پانسہ ہے کہ جس کے ذریعہ تقسیم کرتے تھے۔
١١٧١۔ امام باقر(ع): نے خدا کے اس قول:(ایمان والو! شراب، جوا، بت اور پانسہ یہ سب گندے شیطانی اعمال ہیں لہذا ان سے پرہیز کرو تاکہ کامیابی حاصل کرسکو)کے بارے میں فرمایا:.......انصاب یہ ایسے بت تھے کہ جنکی مشرکین پرستش کرتے تھے اور ازلام ایسے پانسے ہیں کہ زمانہئ جاہلیت میں مشرکین عرب جنکے ذریعہ تقسیم کرتے تھے۔
و: خون مالی
١١٧٢۔اسماء بنت عمیس: (ولادت امام حسن (ع) کے متعلق بیان فرماتی ہیں) نبی اکرمؐ نے امام حسن (ع) کی ولادت کے ساتویں روز دو سیاہ مینڈھوں سے عقیقہ کیا اور ایک ران اور ایک دینار دایہ کو دیا پھر ان کے سر کو مونڈا ور ان کے بال کے برابر سکہ صدقہ دیا، پھر سرکوخَلوق(ایک قسم کی خوشبو جس کا جزء اعظم زعفران ہوتا ہے) سے دھویا اور فرمایا: اے اسمائ! خون مالی کرنا جاہلیت کا عمل ہے ۔
١١٧٣۔ عاصم کوزی : کابیان ہے کہ میں نے امام صادق(ع) سے سنا ہے کہ وہ اپنے والد سے نقل کرتے تھے کہ رسول خدا(ص) نے امام حسن (ع) ور امام حسین (ع) کاایک ایک مینڈھے سے عقیقہ کیا، دایہ کو ہدیہ دیا اور ان کی ولادت کے ساتویں روز ان کے سروں کو مونڈا اور ان کے بالوں کے برابر چاندی صدقہ کی۔
راوی کہتا ہے کہ میں نے امام صادق ؑ سے عرض کیا: کیاعقیقہ کے خون سے بچہ کے سر پر مالش کی جا سکتی ہے؟ فرمایا: یہ شرک ہے۔ میں نے کہا: سبحان اللہ! شرک ہے ؟ فرمایا: اگر شرک نہیں ہے تو یقینا زمانہ جاہلیت کا عمل ہے اسلام میں اس سے روکا گیا ہے۔
ز: بد شگونی
١١٧٤۔ ابو حسان : ایک شخص نے عائشہ سے کہا کہ ابو ہریرہ ، پیغمبر اکرم ؐسے روایت کرتا ہے کہ آنحضرت نے فرمایا: عورت، گھر اور چوپائے باعث بدشگونی ہیں ، عائشہ نہایت ناراض ہوئی گویا ان کا آدھا حصہ آسمان پر چلا گیا اور آدھا زمین پر باقی تھا، پھر کہا: بیشک دور جاہلیت کے افراد ان چیزوںکو بدشگونی سمجھتے تھے۔
١١٧٥۔ عائشہ: رسول خدا(ص) فرماتے تھے: جاہلیت کے افراد کہا کرتے تھے، تین چیزیں بدشگونی کا باعث ہےں، عورت، چوپایہ اور گھر، پھر یہ آیت پڑھی:(زمین میں کوئی بھی مصیبت وارد ہوتی ہے یا تمہارے نفس پر نازل ہوتی ہے تو نفس کے پیدا ہونے سے قبل وہ کتاب الٰہی میں مقدر ہو چکی ہے اور یہ خدا کےلئے بہت آسان ہے)
ح: جنات کی پناہ ڈھونڈنا
قرآن
(اور یہ کہ انسانوں میں سے کچھ لوگ جنات میں سے بعض کی پناہ ڈھونڈ رہے تھے تو انہوںنے گرفتاری میں اور اضافہ کر دیا)
حدیث
١١٧٦۔ زرارہ: میں نے امام صادق(ع) سے اس آیت:(اور یہ کہ انسانوں میں سے کچھ لوگ جنات میں سے بعض کی پناہ ڈھونڈ رہے تھے تو انہوںنے گرفتاری میں اور اضافہ کر دیا)کی تفسیر کے بارے میں دریافت کیا تو فرمایا: ایک شخص فال کھولنے اورتقدیر کا حال بتانے والے کے پاس گیا کہ شیطان جس سے کانا پھونسی کرتا تھا، اور اس سے کہا: اپنے شیطان سے کہو کہ فلاں نے تمہاری پناہ لی ہے ۔
ط:جنات کے لئے قربانی کرنا
١١٧٧۔ امام علی (ع): بیشک رسول خدا(ص) جنات کےلئے قربانی کرنے سے روکتے تھے ، پوچھا گیا : اے رسولخدؐا: جنات کےلئے قربانی کیاہے ؟ نبی ؐ نے فرمایا: جو لوگ اپنے گھروں میں رہنے والے جنات سے ڈرتے تھے ان کےلئے قربانی کرتے تھے۔
ی: گھونگا پہننا
١١٧٨۔ قاضی نعمان: رسول خدا(ص) نے تمائم اور تَوَل سے منع کیا؛ ''تمائم'' ڈورے میں پروئے ہوئے گھونگے یا نوشتے جسے لوگ اپنے گلے میں آویزاں کرتے ہیں، اور ''تَوَل'' وہ کام ہے جسے عورتیں اپنے شوہروںکی نظر میں محبوب ہونے کےلئے انجام دیتی ہیں؛ جو فال بینی اور قسمت بینی کے مانند ہے نیز پیغمبر نے سحر سے روکا ہے۔
ک: میت پر عورتوںکا بین کرنا
١١٧٩۔رسول خدا(ص): مردوں پر عورتوں کا جمع ہو کر وا ویلا کرنا جاہلیت کا عمل ہے ۔
١١٨٠۔ رسول خدا(ص): جاہلیت کے رسم و رواج میں سے میت پر بین کرنا، انسان کا اپنے بیٹے سے بیزار ہونا اور لوگوںپر فخر کرنا ہے۔
١١٨١۔انس: رسول خدا(ص) نے عورتوں سے بیعت لیتے وقت ان سے یہ بیعت لی کہ میت پر بین نہیں کرینگی عورتوںنے کہا: اے رسولخدا! دور جاہلیت میں کچھ عورتوں نے میت پر بین کرنے میں ہماری مدد کی تھی کیا ہم انکی مدد کر سکتے ہیں؟ رسول خدا(ص) نے فرمایا: اسلام میں یہ عمل شائستہ نہیں ہے۔
١١٨٢۔ رسول خدا(ص): نے اس آیت:(اور کسی نیکی میں ان کی مخالفت نہیں کریں گی)کی تفسیر میں فرمایا: جمع ہو کر رونے والی عورتیں مراد ہیں۔
ل: غیر خدا کی قسم کھانا
١١٨٣۔ زرارہ : کا بیان ہے کہ میںنے امام باؑقر سے اس آیت:(پس خدا کو اسطرح یاد رکھو جسطرح اپنے باپ دادا کو یاد کرتے ہو بلکہ اس سے بھی زیادہ)کی تفسیرکے بارے میں پوچھا تو فرمایا: اہل جاہلیت کا تکیہ کلام یہ تھا: نہیں، تمہارے باپ کی قسم، ہاں، تمہارے باپ کی قسم، پھر اسکے بعد انہیں یہ حکم دیا گیا کہ وہ کہیں: نہیں، خدا کی قسم، ہاں، خدا کی قسم۔
١١٨٤۔ امام صادق(ع): میںمناسب نہیں سمجھتا کہ غیر خدا کی قسم کھائی جائے، کسی کا یہ کہنا: نہیں، تمہارا برا چاہنے والا ایسا ہو جائے۔ اہل جاہلیت کاقول ہے، اگر کوئی شخص یہ یا ایسی ہی کوئی دوسری قسم کھائیگا تو وہ خدا کی قسم سے چشم پوشی کریگا۔ ٦/٥
اسلام کا جاہلیت کے رواج کو مٹا نا
١١٨٥۔ رسول خدا(ص): بیشک اللہ نے مجھے عالمین کےلئے رحمت بنا کر بھیجا ہے اور اس لئے بھی تاکہ گانے بجانے کے آلات، بانسری، رواج جاہلیت اور بتوںکو نابود کروں۔
١١٨٦۔ رسول خدا(ص): خدا کے نزدیک مبغوض ترین انسان تین قسم کے ہیں: جو حرم میں بے دینی اختیار کرے ،جو اسلام میں جاہلیت کے رسم و رواج کے پیچھے جائے اور وہ جو کسی کا ناحق خون بہانے کے در پے ہو۔
١١٨٧۔ رسول خدا(ص): نے روز عرفہ کے خطبہ میں فرمایا: یاد رکھو! میں نے جاہلیت کی ہر رسم کو ترک کیا اور اپنے پیروں تلے کچلا ہے ۔ جاہلیت کے خون کا بدلہ بھی ترک کیا جائےگا۔ اور یقینا پہلا خون جسے ترک کرونگا وہ ابن ربیعہ بن حارث کا ہے۔ قبیلہ بنی سعد میں دوران رضاعت کو گذار رہا تھا اور قبیلہ ہذ یل نے اسے قتل کر دیا، اور جاہلیت کا سود بھی لغو ہے ، پہلا سود جو میں لغو کرونگا وہ عباس بن عبد المطلب کا ہے؛ بیشک یہ تمام چیزیںلغو ہیں۔
١١٨٨۔ ابو عبیدہ: جاہلیت میں یَشْکرُ کے نمایاں کاموںمیں سے یہ ہے: فتح مکہ کے روز رسول خدا(ص) نے خطبہ دیا اور فرمایا: آگاہ ہو جاؤ: میںنے سوائے حاجیوں کو پانی پلانے اور کعبہ کی پردہ پوشی کے جاہلیت کی ہر بزرگی کو اپنے پیروں سے کچلا ہے ۔ اس وقت اسود بن ربیعہ بن ابو الاسود بن مالک بن ربیعہ بن جمیل بن ثعلبہ بن عمرو بن عثمان بن حبیب بن یشکر کھڑا ہوا اور کہا: اے رسول خدا! یقینا میرے والد زمانہ جاہلیت میں اپنے اموال کو سفر میں بیچارہ ہوجانے والے کو صدقہ دیتے تھے ، اگر یہ میرے لئے بزرگی ہے تو اسے چھوڑ دوںاور اگر بزرگی و شرافت نہیںہے تو میں سزا وار ہوں کہ اس کو انجام دیتا رہوں؟ رسول خدا(ص) نے فرمایا: یہ تمہارے لئے باعث افتخار ہے لہذا تم اس کو قبول کرو۔
١١٨٩۔ علی بن ابراہیم : رسول خدا(ص) نے دس ہجری میں،حجۃ الوداع انجام دیا؛ سر زمین منا میں حمد و ثنائے الٰہی کے بعد جو ارشاد فرمایا تھا اس کا ایک ٹکڑا یہ ہے :
فرمایا...یاد رکھو! جاہلیت کی تمام خاندانی سر بلندیاںیا بدعت اور تمام خون و مال میرے پیروںکے نیچے ہیں ، کوئی شخص آپس میں ایک دوسرے پر تقویٰ کے سوا کوئی فضیلت نہیں رکھتا، کیا میں نے پہنچادیا؟: انہوںنے کہا: ہاں! آپ ؐ نے فرمایا: خدایا: گواہ رہنا، پھر فرمایا: خبردار! تمام جاہلیت کے سود لغو ہیں؛ اور پہلا سود جو لغو ہوا وہ عباس بن عبد المطلب کا ہے ، آگاہ ہو کہ تمام جاہلیت کے خون کو لغو کر دیا گیا ہے پہلا خون جو لغو ہوا ہے وہ ربیعہ کا ہے کیا میںنے پہنچادیا؟ لوگوںنے کہا: ہاں، نبی نے فرمایا: خدایا! گواہ رہنا۔
١١٩٠۔ رسول خدا(ص): نے خطبہ حجۃ الوداع میں فرمایا: جاہلیت کا سودختم کر دیا گیا ہے اور پہلا سود جس سے میں آغاز کرتا ہوں وہ عباس بن عبد المطلب کا ہے ، جاہلیت کا خون بھی معاف کر دیاگیا ہے، اور بیشک پہلا خون جس سے ابتدا کرتا ہوںوہ عامر بن ربیعہ بن حارث بن عبد المطلب کا ہے، اور بیشک جاہلیت کے تمام افتخارات کو چھوڑ دیا گیا ہے سوائے کعبہ کی پردہ پوشی اورحاجیوں کو پانی پلانے کے، عمداً قتل کےلئے قصاص ہے اور قتلِ شبہ عمد جو کہ لاٹھی یا پتھر سے قتل ہو تو اس کےلئے سو اونٹ دیت ہے؛ جو اس میں اضافہ کریگا اسکا تعلق جاہلیت سے ہوگا۔
١١٩١۔ امام باقر(ع): فتح مکہ کے دن رسول خدا(ص) منبر پر تشریف لے گئے اور فرمایا: اے لوگو! خدا نے تمہاری جاہلیت کے غرور اور آباو اجداد کی جاہلیت کے تفاخر کو دور کیا۔ آگاہ ہو کہ تم سب کے سب آدم سے اور آدم مٹی سے پیدا ہوئے ہیں۔ دیکھو! سب سے بہتر خدا کا بندہ وہ شخص ہے جو خدا سے زیادہ ڈرے۔ بیشک عرب ہو نا اس باپ کے سبب نہیںہے جس نے تمہیں پیدا کیاہے؛ بلکہ یہ ایک زبان ہے جو بولی جاتی ہے ؛ جس کے عمل میں کو تاہی ہوگی اس کا حسب و نسب اس کا جبران نہیں کریگا۔ جان لو! تمام جاہلیت کے خون یا کینے قیامت تک میرے قدموں کے نیچے ہیں۔
١١٩٢۔ رسول خدا(ص): بیشک اللہ نے جو زمانہ جاہلیت میں با شرف تھے انہیں اسلام کے سبب پست کیا اور جو زمانہ جاہلیت میں پست تھے انہیں اسلام کے باعث شرف عطا کیا، جو دور جاہلیت میں رسوا تھے انہیں اسلام کے سبب عزت عطا کی۔ اور اسلام کے سبب زمانہ جاہلیت کی نخوتوں، قبیلوں کے فخر و مباہات اور اونچے حسب و نسب کو ختم کیا، چنانچہ اب تمام لوگ (کالے ، گورے، قرشی اور عربی و عجمی) آدم کی اولاد ہیں اور آدم کو خدا نے مٹی سے خلق کیا ہے ۔ اور روز قیامت خدا کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب وہ ہوگا جو ان میںسب سے زیادہ اطاعت گذار اور سب سے بڑا متقی ہے۔
١١٩٣۔ امام صادق(ع): رسول خدا(ص) رسم جاہلیت کے بر خلاف( مشعر الحرام سے منا کی طرف) نکلے دور جاہلیت میں لوگ مشعر سے گھوڑے اور اونٹوںکے ساتھ تیزی سے نکلتے تھے، لیکن رسول خدا(ص)نہایت سکون و وقار کے ساتھ مشعر سے منا کی طرف چلے۔ لہذا تم بھی ذکر خدا اور استغفار کرتے ہوئے چلو اور اپنی زبان پہ ذکر خدا جاری رکھو، اور جب وادی مُحَسِّریہ جمع اور منا کے درمیان عظیم وادی ہے اور منا سے نزدیک ہے میں پہنچوتو وہاں سے تیزی سے گذر جاؤ۔
١١٩٤۔ امام باقر(ع): رسول خدا(ص) نے علی (ع) سے فرمایا:اے علی (ع)! بنی مصطلق کے طائفہ بنی خزیمہ کے پاس جاؤ اور انہیں ولید بن خالد کے کرتوت سے راضی کرو۔ آگاہ ہو کہ رسول خدا(ص) نے اپنے پیروںکواٹھایا اور فرمایا: اے علی (ع) ، اہل جاہلیت کے فیصلہ کو اپنے پیروںکو نیچے قرار دو۔ پھر علی (ع) ان کے پاس گئے اور حکم خدا کے مطابق ان کے درمیان فیصلہ کیا۔ جب پیغمبرکے پاس پلٹ کر آئے تو رسول خدا(ص) نے فرمایا: اے علی : مجھے بتاؤ تم نے کیاکیا...
١١٩٥۔ امام باقر(ع): رسول خدا(ص) نے علی (ع) بن ابی طالب ؐ کو بلایا اور فرمایا: اے علی (ع)! اس قوم(بنی خزیمہ) کے پاس جاؤ اور ان کے حالات کا جائزہ لو، اور رسم جاہلیت کو اپنے پیروں کے نیچے قرار دو۔ لہذا علی (ع) نکلے اوران کی طرف روانہ ہوئے اور ان کے پاس رسول خدا(ص) کا بھیجا ہوا کچھ مال تھا، اس کے ذریعہ ان کے خون کی دیت اور تلف شدہ اموال یہاں تک کہ کتے کے پانی پینے کے کاسہ کا بھی خسارہ دیا۔
١١٩٦۔ امام زین العاب دین (ع) : بیشک اللہ نے اسلام کے سبب حقارت و پستی کو دور کیا اور اس کے ذریعہ کمی ونقص کوزائل کیا نیز اسکی بدولت کمینگی کو شرافت میں تبدیل کیا، لہذا مسلمان کے لئے کوئی پستی نہیںہے پستی اور حقارت صرف وہی ہے جو دوران جاہلیت تھی۔
١١٩٧۔ امام صادق(ع): اہل مصیبت کے سامنے کھانا اہل جاہلیت کی صفت ہے ۔ اسلامی سنت یہ ہے کہ اہل عزا و مصیبت کے لئے کھانا بھیجا جائے۔ جیسا کہ پیغمبر اسلام ؐ نے جب جعفر بن ابی طالب کی خبر موت سنی تو حکم دیا کہ ان کے گھر والوںکے لئے کھانا پہنچایا جائے۔
٦/٦
اچھی سنن کی تائید
١١٩٨۔ رسول خدا(ص): نے معاذ بن جبل کو یمن روانہ کرتے وقت انہیں وصیت کی کہ رسم جاہلیت کو پامال کر دینا سوائے ان رسم و رواج کے کہ جنکی اسلام نے حمایت کی ہے اور اسلام کے تمام چھوٹے بڑے امور کو ظاہر کرنا۔
١١٩٩۔رسول خدا(ص): نے معاذ بن جبل کو یمن روانہ کرتے وقت انہیں وصیت کی کہ: عاداتِ جاہلیت کا خاتمہ کرنا مگر یہ کہ جو نیک ہوں۔
١٢٠٠۔ رسول خدا(ص): بیشک عبد المطلب نے زمانہ جاہلیت میں پانچ سنتیں جاری کی تھیں، جنہیں خدا عز و جل نے اسلام میں جاری و ساری رکھا: باپ کی بیویوں کو اولاد پر حرام کیا تھا، خدا نے آیت نازل کی:(اپنے باپ کی بیویوں کے ساتھ نکاح نہ کرو)
جب کوئی خزانہ پاتے تھے تو اس میں سے خمس نکالتے اور صدقہ دیتے تھے خدا نے آیت نازل کی( آگاہ ہو جاؤ کہ جو چیز تمہیں غنیمت میں ملے اسکا خمس خدا و رسول کے لئے ہے اور.....تا آخر)جب زمزم کنویںکو کھودا تو اس کا نام ''سقایۃ الحاج'' رکھا ، خدا نے آیت نازل کی( کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد الحرام کی آبادی کو اس جیسا سمجھ لیا ہے جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے ....تا آخر) قتل پر سو اونٹوں کی دیت قرار دی تھی، خدا نے اسلام میں اسے بھی جاری رکھا، اور قریش طواف کے لئے خاص عدد کے قائل نہ تھے مگر عبد المطلب نے سات چکر قرار دئےے تھے، اور خدا نے اسلام میں اس کو جاری و ساری رکھا۔
١٢٠١۔ رسول خدا(ص): اسلام میں کوئی عہد و پیمان نہیںہے جو عہد و پیمان زمانہ جاہلیت میں تھا خدا نے اسی کو محکم کیا ہے ۔
١٢٠٢۔عمرو بن شعیب: اپنے باپ سے اور وہ اپنے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ پیغمبر اکرم ؐ، فتح مکہ کے سال کعبہ کے زینے پر بیٹھے ہوئے تھے، پس خدا کی حمد و ثنا کی اور فرمایا: جس کا بھی زمانہ جاہلیت میںکوئی عہد و پیمان تھا اسلام نے اس کو مزید محکم کیا ہے ۔
١٢٠٣۔ جوحصہ بھی زمانہ جاہلیت میں تقسیم ہوا وہ اسی تقسیم پر باقی ہے، اور جو حصہ بھی اسلام نے درک کیا ہے پس وہ اسلام کا حصہ ہوگا۔
١٢٠٤۔ رسول خدا(ص): ہر گھر اور زمین جو جاہلیت میں تقسیم ہوئی وہ اسی جاہلیت کی تقسیم پر ہے اور ہر وہ گھر اور زمین جسے اسلام نے درک کیا ہے لیکن تقسیم نہیں ہوئی تھی وہ اسلام کے حکم پر تقسیم ہوگی۔
١٢٠٥۔ رسول خدا(ص): ہر وہ میراث جو جاہلیت میں تقسیم ہوئی تھی وہ اسی تقسیم پر باقی ہے۔ اور ہر وہ میراث جسے اسلام نے درک کیا وہ اسلام کی رو سے تقسیم ہوگی۔
١٢٠٦۔ ابن عباس:جاہلیت کا جماعتی حلف لوگوں کے درمیان رکاوٹ تھا اور جو بھی قسم صبر کھاتا تھا- یعنی کسی کو اس لئے قید کرتا تاکہ وہ قسم کھائے- ان گناہوں کے سبب کہ جو اس نے انجام دیئے تھے تاکہ اسے خدائی عذاب دکھاکر محارم کو کچلنے سے باز رکھیں، لہذا قسم صبر سے اجتناب کرتے اور اس سے ڈرتے تھے پس جب خدا نے حضرت محمد(ص) کو مبعوث کیاتو اس قسم کو بر قرار رکھا۔
١٢٠٧۔ فُضیل بن عیاض : کا بیان ہے کہ میں نے امام صادق(ع) سے کہا: جاہلیت کے رسم و رواج میں سے کیا کوئی چیز محترم بھی ہے؟ فرمایا: اہل جاہلیت نے ہر وہ چیز جو دین ابراہیم سے تھی اسے تباہ و برباد کر دیا، سوائے ختنہ کرنے اور شادی و حج کے ۔ وہ لوگ ان تین کے پابند رہے اور انہیں ضائع نہیں کیا۔
١٢٠٨۔ عبد اللہ بن عمر:عمر نے رسول خدا سے عرض کیا: اے رسول خدا! زمانہ جاہلیت میں میں نے نذر کیا تھا کہ ایک شب مسجد الرام میں اعتکاف کرونگا، رسول خدا(ص) نے فرمایا: تم اپنی نذر کو پورا کرو۔
١٢٠٩۔ رسول خدا(ص): یاد رکھو! رجب اللہ کا اَصَمّ (بھاری)مہینہ ہے جو نہایت عظیم ہے ۔ رجب کے مہینہ کو ''اصم'' اس وجہ سے کہا گیا ہے کہ کوئی بھی مہینہ خدا کے نزدیک احترام و فضیلت میں اس کے برابر نہیںہے زمانہ جاہلیت کے افراد اس مہینے کو عظیم سمجھتے تھے اور اسلام کے بعد اسکی عظمت و فضیلت دو بالا ہو گئی۔
١٢١٠۔ مجاہد: سائب بن عبد اللہ نے کہا: فتح مکہ کے روز مجھے پیغمبر اسلام ؐ کی خدمت میں لایا گیا۔ عثمان بن عفان اور زبیر مجھ کو لے آئے تھے ، انہوںنے سائب کی تعریف کی تو پیغمبر ؐنے ان سے فرمایا: اسکے بارے میں مجھے اطلاع نہ دو، وہ دور جاہلیت میں میرا ہمنشین تھا۔ سائب نے کہا: ہاں ، اے رسولخدا! آپ بہت اچھے ہمنشیں تھے، تو رسول خدا(ص) نے فرمایا: اے سائب! زمانہ جاہلیت میں جو تمہارے عادات و اطوار تھے ان پر نظر کرو اور انہیں اسلام میں محفوظ رکھو، مہمانوں کو کھانا کھلاؤ، یتیموں کا احترام کرو اور پڑوسی کے ساتھ نیکی کرو۔
١٢١١۔ زرارہ: میں نے امام باقر(ع)کی خدمت میں عرض کیا: لوگ نقل کرتے ہیں کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا: زمانہ جاہلیت میںجو تم میں سے زیادہ شریف تھا وہ تم میں اسلام میں بھی زیادہ شریف ہے ؛ امام ؑ نے فرمایا: وہ سچ کہتے ہیں، لیکن نہ اس طرح کہ جیسا کہ وہ گمان کرتے ہیں؛ دور جاہلیت میںسب سے زیادہ باشرف وہ انسان ہے جو ان میں بیشتر سخی، سب سے زیادہ خوش اخلاق اور پڑوسیوںکے ساتھ سب سے زیادہ نیکی کرنے والا اور سب سے کم اذیت پہنچانے والا ہے ۔ انہوںنے جب اسلام قبول کیا تو ان کی خوبیاں دو بالا ہو گئیں۔
١٢١٢۔ علقمہ بن یزید بن سوید ازدی : کا بیان ہے کہ سوید بن حارث نے کہا: میں اپنے قبیلہ کی ساتویں فرد تھا کہ رسول خدا(ص) کی خدمت میں وارد ہوا، رسول خدا(ص): میرے طور طریقہ سے خوش ہوئے اور فرمایا: تم لوگ کیسے ہو؟ ہم نے کہا: ہم مومن ہیں، رسول خدؐا مسکرائے اور فرمایا: ہر قول کی ایک حقیقت ہوتی ہے اور تمہارے ایمان کی حقیقت کیا ہے ؟ سوید کہتاہے کہ ہم نے کہا: پندرہ خصلتیں ہیں، پانچ خصلتوں کا آپ کے نمائندوں نے حکم دیا کہ ہم ان پر ایمان لے آئے، اور پانچ خصلتوں کے متعلق حکم دیا کہ ہم ان پر عمل کریں اور پانچ خصلتیں زمانہ جاہلیت میں ہمارے اندر تھیں اب بھی ہم ان پر عمل پیرا ہیں مگر یہ کہ آپ ان میں جس کو ناپسند کریں۔
رسول خدا ؐ نے فرمایا: وہ پانچ خصلتیں کیا ہیں جن پر ایمان لانے کامیرے نمائندوں نے تمہیں حکم دیا ہے؟ ہم نے کہا: یہ کہ ہم خدا پر، اس کے فرشتوں پر، اسکی کتابوںپر، اس کے انبیاء اور مرنے کے بعد زندہ ہونے پر ایمان لے آئےں۔
فرمایاؐ: پانچ خصلتیں جن پر عمل کرنے کا میرے نمائندوں نے تمہیں حکم دیا ہے؟ ہم نے کہا: لا الٰہ الا اللہ و محمد رسول اللہ؛ ہم نمازقائم کریں ، زکات ادا کریں ، حج خانہ خدا بجالائیں، اور ماہ رمضان کا روزہ رکھیں ؛ اور فرمایا:ؐ وہ پانچ خصلتیں کہ زمانہ جاہلیت میں جن کے عادی ہو چکے تھے وہ کیا ہیں؟ ہم نے کہا: عیش و آرام پر شکر، مصیبت پر صبر، دشمن سے مقابلہ کے وقت صبر (ثابت قدمی)، راضی بقضائے الٰہی اور دشمنوں کی ملامت و سرزنش کے وقت صبر۔ تو رسول خدا(ص) نے فرمایا: قریب تھا کہ بردبار علماء اپنی صداقت کی بناپر انبیاء ہو جائیں۔
|