دوسرا حصہ
جہل
تیسری فصل جاہلوں کے اقسام
٨٧١۔ امام علی (ع): لوگ چار طرح کے ہوتے ہیں: وہ شخص جو جانتا ہے اور یہ بھی جانتا ہے کہ میں جانتا ہوں۔ ایسا شخص حقیقتاً عالم ہے لہذا اس سے سوال کرو؛ وہ شخص جو نہیں جانتا لیکن یہ جانتا ہے کہ میں نہیں جانتا ہوں راہ ہدایت کا طالب ہے لہذا اسکی ہدایت کرو، وہ شخص جو نہیں جانتا اور یہ بھی نہیں جانتا کہ نہیں جانتا ہوں ، ایسا شخص جاہل ہے اسے چھوڑ دو، اور وہ شخص جو جانتا ہے لیکن یہ نہیں جانتا کہ میں جانتا ہوں یہ سویا ہوا اہے لہذا سے بیدار کرو۔
٨٧٢۔ امام صادق(ع): لوگ چار طرح کے ہوتے ہیں: وہ شخص جو جانتا ہے اور یہ بھی جاتاہیکہ میں جانتا ہوں پس یہ شخص عالم ہے لہذا اس سے علم حاصل کرو؛ وہ شخص جو جانتا ہے اور یہ نہیں جانتا کہ میں جانتاہوں یہ سویا ہوا ہے اسے بیدار کرو، وہ شخص جو نہیں جانتا اور یہ جانتاہے کہ نہیں جانتا ہوں ایسا شخص جاہل ہے اسے تعلیم دو، اور وہ شخص جو نہیںجانتا اور یہ بھی نہیں جانتا کہ نہیں جانتا ہوں یہ احمق ہے اس سے اجتناب کرو۔

اقسام جہل کی وضاحت
جیسا کہ ان روایات میں اشارہ کیا گیا ہے کہ حقائق کی معرفت کے اعتبار سے انسان کی چار حالتیں ہیں اور ان حالات میں سے ہر حالت کے لئے فرد اور معاشرہ کے لحاظ سے خاص احکام و تکالیف ہیں، وہ حالات حسب ذیل ہیں۔

١۔ علم
پہلی حالت، علم و آگاہی ہے ؛ جو شخص جانتا ہے اور یہ بھی جانتا ہے کہ میں جانتا ہوں اسے عالم کہا جاتا ہے ، ایسا شخص دوسروں کے لئے معلم بننے کا حق رکھتا ہے اور اسلام کی رو سے ایسے شخص کا فریضہ لوگوں کو تعلیم دینا اور لوگوںکافریضہ علم حاصل کرنا ہے ، جیسا کہ ارشاد خدا ہے:
( فسئلوا اھل الذکر ان کنتم لا تعلمون)
اہل ذکر سے پوچھو اگر تم نہیں جانتے!

٢۔ غفلت
دوسری حالت، غفلت ہے ؛ غافل وہ شخص ہے جو جانتا ہے اور یہ نہیں جانتا کہ میں جانتا ہوں ، یہاں پر بیدار لوگوں پر لازم ہیکہ اسے خواب غفلت سے بیدار کریں (فذاک نائم فأنبھوہ) وہ سویا ہوا ہے اسے بیدار کرو (و ذکر فان الذکریٰ تنفع المؤمنین)اور یاد دہانی کرتے رہو کہ یاد دہانی صاحبان ایمان کے حق میں مفید ہوتی ہے ۔

٣۔ جہل بسیط
تیسری حالت، جہل بسیط ہے ؛ جاہل وہ ہے جوکچھ نہیں جانتا؛ اور چاہے وہ جانتا ہو کہ میں نہیں جانتا ہوں یا نہ جانتا ہو کہ نہیں جانتا ہوں ، ہر حالت میں عالم پر لازم ہے کہ اسے تعلیم دے اور اس پر ضروری ہے کہ سیکھے تاکہ آیت( فسئلوا اھل الذکر ان کنتم لا تعلمون ) کا مصداق قرار پائے۔

٤۔ جہل مرکب
چوتھی حالت، جہل مرکب ہے ؛ یہ جہل دو جہل سے مرکب ہے ، وہ دو جہل عدم علم اور توہم علم ہےں۔ جاہل مرکب وہ ہے جو نہیںجانتا اور خیال کرتا ہے کہ میں جانتا ہوں ،بظاہر اس فصل کی روایات میں وارد اس جملہ( لا یعلم ولا یعلم انہ لا یعلم) یعنی نہیںجانتا اور یہ بھی نہیں جانتاکہ نہیںجانتا ہوں؛ اور اسی طرح(لا یدری ولا یدری انہ لا یدری)یعنی نہیں جانتا اور یہ بھی نہیں جانتاکہ نہیں جانتا ؛ یہی معنی مراد ہےں لہذا علی علیہ السلام نے ایسے جاہل کے مقابل میں لوگوں کا وظیفہ یہ قرار دیا ہے کہ اسے چھوڑ دیا جائے :- (فذاک جاہل فارفضوہ؛ پس یہ جاہل ہے اسے چھوڑ دو) اور امام صادق(ع) نے لوگوں کو ایسے شخص سے اجتناب کا حکم دیا ہے: (فذاک احمق فاجتنبوہ؛ وہ جاہل ہے اس سے اجتناب کرو)

لا علاج بیماری
اس سلسلہ کی احادیث کے اندر جاہلوں کے اقسام کے حوالہ سے جو ہدایت پیش کی گئی ہے اس کے متعلق اساسی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ معاشرہ کے آگاہ افراد پر غافل اور جاہل بسیط کو آگاہ کرنا کیوں لازم ہے؛ لیکن جاہل مرکب کے متعلق نہ فقط یہ کہ کوئی فریضہ نہیں ہے بلکہ فریضہ یہ ہے کہ اس سے اجتناب کیا جائے اور چھوڑ دیا جائے؟
جواب یہ ہے کہ جہل مرکب، خطرناک ترین اقسام جہل ہے اور در حقیقت لا علاج بیماری ہے جو شخص نہیںجانتا اور یہ خیال کرتا ہے کہ جانتا ہے وہ اپنے خیال اور احساس آگاہی کی ایسی خطرناک بیماری میں مبتلا ہے کہ جو ناقابل علاج ہے۔
اس سلسلہ میں امام صادق - فرماتے ہیں:
''من اعجب بنفسہ ھلک، ومن اعجب برأیہ ھلک، وان عیسیٰ بن مریم (ع) قال: داویت المرضی فشفیتھم باذن اﷲ، وابرأت الاکمہ والابرص باذن اﷲ، وعالجت الموتیٰ فاحییتھم باذن اﷲ، وعالجت الاحمق فلم اقدر علیٰ اصلاحہ۔ فقیل یا روح اﷲ، وما الاحمق؟ قال: المعجب برأیہ ونفسہ، الذی یریٰ الفضل کلہ لہ لا علیہ، ویوجب الحق کلہ لنفسہ ولا یوجب علیھا حقا، فذاک الاحمق الذی لا حیلۃ فی مداواتہ''
جو شخص اپنے متعلق خوش فہمی میں مبتلا ہوتا ہے تباہ ہو جاتا ہے ، اور جو اپنی رائے و نظر سے خوش ہوتا ہے ہلاک ہو جاتا ہے ، بیشک عیسیؑ بن مریم فرماتے ہیں( بیماروںکا خدا کے اذن سے علاج کیا شفایاب ہوگئے، نابینا اور کوڑھیوںکو خدا کے اذن سے شفا بخشی ؛ اور مردوں کو باذن الہی زندہ کیا؛ اور احمق کا علاج کیالیکن اسکی اصلاح نہ کرسکا!
پوچھا گیا: اے روح اللہ! احمق کون ہے ؟ فرمایا:( وہ شخص جو خود کواور اپنی رائے ہی کو صحیح سمجھتا ہے)تمام فضیلتوں کو اپنا ہی حق سمجھتاہے ، اپنے کسی عیب کو تسلیم نہیں کرتا اپنے حقوق کوواجب جانتا ہے اور اپنے اوپرکسی کاحق واجب نہیں سمجھتا یہ شخص ایسا احمق و نادان ہے کہ جس کا کوئی علاج نہیںہے۔
اس وضاحت کے لحاظ سے حقیقی احمق و نادان وہ شخص نہیںہے جو دماغی مشکلات میں مبتلا ہو اور جسمی بیماریوںکی وجہ سے مسائل کے سمجھنے پر قادر نہ ہو۔ اس طرح کے مریض اگر طبیعی طور پر قابل علاج نہ ہوں تو معجزہ کے ذریعہ ان کا علاج ممکن ہے ۔ حقیقی احمق وہ ہے کہ جس کا دماغ سالم ہو؛ لیکن خود بینی اور احساس دانائی کی بیماری نے اسکی عقل و فکر کو فاسد کر دیا ہے جس کے نتیجہ میں عقل عملی کی دعوت کو قبول نہیں کرتا لہذا اسکی عقل کی فنا و موت کازمانہ آپہنچتا ہے ۔ ایسے مردہ کا علاج ممکن نہیں ۔ ایسے مردہ کو حضرت عیسیؑ بھی زندہ نہیںکر سکتے۔
حضرت عیسیٰ باذن خدا ہر قسم کی جسمی بیماریوں کا طبی آلات کے بغیر علاج کرتے تھے؛ یہاں تک کہ مردوںکو بھی زندہ کرتے تھے؛ لیکن مردہ فکرو عقل کے زندہ کرنے پر قادر نہ تھے، کسی بنی کو اس پر قدرت نہ تھی جیسا کہ قرآن کریم خاتم الانبیاء محمد مصطفی ؐ سے فرماتا ہے:
(انک لا تسمع الموتیٰ ولا تسمع الصم الدعائ)
یقینا آپ اپنی آواز نہ مردوں کو سنا سکتے ہیں اور نہ ہی بہروںکو۔
اس قسم کے انسان فقط دنیا کے ظواہر پر نظر رکھتے ہیں اور حقیقت سے غافل ہوتے ہیں:
(یعلمون ظاھرا من الحیاۃ الدنیا و ھم عن الآخرۃ ھم غافلون)
یہ لوگ صرف زندگانی دنیا کے ظاہر کو جانتے ہیں اور آخرت کی طرف سے بالکل غافل ہیں۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مردہ کو تعلیم دینا بے سود ہے اور جس کی عقل و فکر مردہ ہو چکی ہو وہ خطرناک ترین چوپائے میں تبدیل ہو جاتاہے جیسا کہ قرآن کا ارشادہے:
( ان شر الدواب عند اﷲ الصم البکم الذین لایعقلون)
اللہ کے نزدیک بدترین زمین پر چلنے والے وہ بہرے اور گونگے ہیںجو عقل سے کام نہیں لیتے ہیں۔
اسی بنا پر، ایسے شخص سے قریب ہونا ہی خطرناک ہے : کیوں کہ عقلی و فکری بیماری متعدی ہوتی ہے ممکن ہے کہ دوسروںمیںسرایت کر جائے لہذا لوگوںکا ریضہ یہ ہے کہ ایسی بیماریوں سے اجتناب کریں اور اس سے دور رہیں؛ جیسا کہ خدا فرماتا ہے :
(فاعرض عن من تولیٰ عن ذکرنا و لو یرد الا الحیاۃ الدنیا)
لہذا جو شخص بھی ہمارے ذکر سے منہ پھیرے اور زندگانی دنیا کے علاوہ کچھ نہ چاہے آپ بھی اس سے کنارہ کش ہو جائیں۔

چوتھی فصل جہل کے علامات

٤/١
آثار جہل
الف : کفر
قرآن مجید
(جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جو کچھ خدا نے نازل کیا ہے اس کا اتباع کرو تو کہتے ہیں کہ ہم اس کا اتباع کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے ۔ک یا یہ ایسا ہی کریںگے چاہے ان کے باپ دادا بے عقل ہی رہے ہوں اور ہدایت یافتہ نہ ہوں)
(جو لوگ کافر ہو گئے ہیں ان کے پکارنے والے کی مثال اس شخص کی سی ہے جو جانوروں کو آواز دے اور جانور پکار اور آواز کے علاوہ کچھ نہ سنیں اور نہ سمجھیںیہ کفار بہرے، گونگے اور اندھے ہیں۔ انہیں عقل سے سروکار نہیں ہے)
(اور جب تم نماز کے لئے اذان دیتے ہو تو یہ اس کو مذاق اور کھیل بنا لیتے ہیں اس لئے کہ یہ بالکل بے عقل قوم ہیں)

حدیث
٨٧٣۔ رسول خدا(ص): تمام خوبیاں عقل کے سبب حاصل ہوتی ہیں اور جسکے پاس عقل نہیںہے اسکے پاس دین نہیں۔
٨٧٤۔ رسول خدا(ص): انسان کی اصل اسکی عقل ہے اور جس کے پاس عقل نہیںہے اس کے پاس دین نہیں۔
٨٧٥۔ رسول خدا(ص): انسان کا دین اسکی عقل ہے اور جس کے پاس عقل نہیںہے اس کے پاس دین نہیں۔
٨٧٦۔ امام علی (ع): کوئی شخص کافر نہیں ہو ا مگر یہ کہ جاہل تھا۔
٨٧٧۔ امام علی (ع): کافر ایسا پست حیلہ باز، خیانتکار ، اور مغرور ہے جو اپنی جہالت کے سبب نقصان میں ہے۔
٨٧٨۔ امام علی (ع): کافر، بدکارجاہل ہے ۔
٨٧٩۔ امام علی (ع): جاہل جب بخل سے کام لیتا ہے تو مالدار ہوجاتا ہے اور جب مالدار ہو جاتا ہے توبے دین ہو جاتا ہے۔
٨٨٠۔ امام علی (ع): علی بن اسباط: کسی معصوم ؑ سے نقل کرتے ہیں: خدا کی جانب سے حضرت عیسیؑ کو کی جانے والی نصیحتوں میں ملتا ہے: اے عیسی! میرے ساتھ کسی چیز کو شریک مت قرار دو....ہر جگہ حق کے ساتھ رہو، خواہ ٹکڑے ٹکڑے کرکے آگ میں جلا دئے جاؤ۔ پھر بھی میری معرفت کے بعد کفر اختیار نہ کرنا تاکہ جاہلوں میں سے نہ ہوجاؤ۔

ب: برائیاں
٨٨١۔ رسول خدا(ص): جہل تمام برائیوں کا سرغنہ ہے ۔
٨٨٢۔ امام علی (ع): جہالت تمام برائیوں کی جڑہے ۔
٨٨٣۔ امام علی (ع): جہالت ہر کام کی تباہی ہے ۔
٨٨٤۔ امام علی (ع): جہالت کے سبب تمام برائیاں پیدا ہوتی ہیں۔
٨٨٥۔ امام علی (ع): جہالت برائی کا سرچشمہ ہے ۔

ج: علم اور عالم سے دشمنی
٨٨٦۔ امام علی (ع): لوگ نامعلوم چیزوںکے دشمن ہوتے ہیں۔
٨٨٧۔ امام علی (ع): جو کسی چیز سے ناواقف ہوتا ہے اس کا دشمن ہوتا ہے ۔
٨٨٨۔امام علی (ع): جو شخص کسی چیز سے بے خبر ہوتا ہے اس میں عیب نکالتا ہے ۔
٨٨٩۔ امام علی (ع): جو شخص کسی چیز کی معرفت سے قاصر ہوتا ہے اس میں نقص نکالتا ہے ۔
٨٩٠۔ امام علی (ع): کسی نے بھی جاہلوں کی طرح علماء کی مخالفت نہیںکی۔
٨٩١۔ امام علی (ع): جن چیزوںکو نہیں جانتے ان کے دشمن نہ بنو اس لئے کہ بیشتر علم انہیں چیزوں میں ہے جنہیں تم نہیںجانتے۔

د: روح کی موت
٨٩٢۔ امام علی (ع): جہل، زندوںکو مردہ اور بدبختوں کو دوام بخشتا ہے ۔
٨٩٣۔ امام علی (ع): جہالت موت ہے اور سستی فنا ہے ۔
٨٩٤۔ امام علی (ع): جاہل مردہ ہوتا ہے چاہے زندہ ہی کیوں نہ ہو۔
٨٩٥۔ امام علی (ع): عالم مردوں کے درمیان زندہ اور جاہل زندوں کے درمیان مردہ ہے ۔
٨٩٦۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصارمیں ہے ۔ فضائل سے ناواقفیت موت کے برابر ہے۔
٨٩٧۔ امام علی (ع): جس شخص میں نیک صفات میں سے کوئی صفت مستحکم ہو جائے تو میں اس کو اس صفت کی وجہ سے تحمل کرونگا اور اس کے علاوہ دیگر صفات کے فقدان پر اسے معاف کر دونگا۔لیکن عقل اور دین کے فقدان پر اسے معاف نہیں کرونگا اس لئے کہ دین سے دوری امن و امان سے دوری ہے ، اور خوف کے عالم میں زندگی خوشگوار نہیں ہوتی، عقل کا فقدان ، حیات کا فقدان ہے جس کو صرف مردوںپر قیاس کیا جاتا ہے ۔

ھ: برے اخلاق
٨٩٨۔ صالح بن مسمار: کا بیان ہیکہ مجھے یہ خبر ملی کہ رسول خدا(ص) نے اس آیت(اے انسان تجھے رب کریم کے بارے میںکس شی نے دھوکا میں رکھا) کی تلاوت کی پھر فرمایا: اسکی جہالت نے۔
٨٩٩۔ امام علی (ع): حرص،برائی اور بخل جہل کانتیجہ ہےں۔
٩٠٠۔ امام علی (ع): نادانی کی بنیاد حماقت ہے ۔
٩٠١۔ امام علی (ع): اپنی دعا میں فرماتے ہیں: میں ناواقف ہوں اور میںنے اپنی ناواقفیت کی بنا پر تیری نافرمانی کی ہے ۔ اپنی نادانی کے سبب گناہوںکا ارتکاب کیا ہے ، میری لا علمی کی وجہ سے دنیا نے مجھے منحرف کیا ہے ، اپنی جہالت کی بدولت تیری یاد سے غافل ہوا اور اپنی بے خبری کے باعث دنیا کی طرف مائل ہوا۔
٩٠٢۔ اما م صادق(ع): نادانی تین چیزوں میں ہے: غرور، زیادہ جھگڑا اور خدا سے بے خبری۔یہی لوگ خسارہ میں ہیں۔
٩٠٣۔ امام علی (ع): جو شخص نیکی کرنے سے بخل کرتا ہے وہ عقلمند نہیں۔

و: اختلاف و جدائی
قرآن
(یہ کبھی تم سے اجتماعی طور پر جنگ نہ کریں گے مگر یہ کہ محفوظ بستیوں میں ہوں یا دیواروںکے پیچھے ہوں ان کی دھاک آپس میں بہت ہے اور تم یہ خیال کرتے ہو کہ یہ سب متحد ہیں ہرگز نہیں ان کے دلوں میں سخت تفرقہ ہے اور یہ اس لئے کہ اس قوم کے پاس عقل نہیں ہے)

حدیث
٩٠٤۔ امام علی (ع): اگر جاہل خاموش رہتے تو لوگوں میں اختلاف نہ ہوتا۔
٩٠٥۔امام علی (ع):نے اہل بصرہ کو مخاطب کرکے۔ فرمایا: اے وہ قوم! جس کے بدن حاضر ہیں اور عقلیں غائب۔ تمہاری خواہشات گوناگوں ہیں اور تمہارے حکام تمہاری بغاوت میں مبتلا ہیں۔ تمہارا امیر اللہ کی اطاعت کرتا ہے اور تم اسکی نافرمانی کرتے ہو؛ اور شام کا حاکم اللہ کی معصیت کرتا ہے اور اسکی قوم اسکی اطاعت کرتی ہے !
٩٠٦۔ امام علی (ع): اے وہ لوگ جنکے نفوس مختلف ہیں اور دل متفرق،بدن حاضرہیں اور عقلیں غائب، میں تمہیں مہربانی کے ساتھ حق کی دعوت دیتا ہوں اور تم اس طرح فرار کرتے ہو جیسے شیر کی ڈکار سے بکریاں!

ز: لغزش
٩٠٧۔ امام علی (ع): جو شخص اپنے قدم رکھنے کی جگہ کو نہیںدیکھتا وہ پھسلتا ہے ۔
٩٠٨۔ امام علی (ع): جہالت قدم کو متزلزل کر دیتی ہے اور پشیمانی کی باعث ہوتی ہے۔
٩٠٩۔ امام علی (ع): جہل ایسی سرکش سواری ہے کہ جو اس پر سوار ہوگا پھسل جائیگا اور جو اسکی ہمراہی کریگا بھٹک جائیگا۔
٩١٠۔ امام علی (ع): جاہل کی واقع تک رسائی ، عالم کی لغزش کے برابر ہے ۔
٩١١۔امام علی (ع): جاہل کی واقع تک رسائی ، عاقل کی لغزش کے مانند ہے ۔
٩١٢۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے۔جاہلوں کے صحیح ہونے کامعیار،علماء کے اشتباہ جیسا ہے ۔

ح: ذلت
٩١٣۔ امام علی :ؑ جو شخص عقل کو گنوا دیتا ہے ، ذلت اس کا پیچھا نہیں چھوڑتی۔
٩١٤۔ امام علی (ع): کتنے ہی معزز افراد کو جہالت نے ذلیل کر دیا ۔
٩١٥۔ امام علی (ع): جہالت کی ذلت، عظیم ترین ذلت ہے ۔
٩١٦۔ امام علی (ع): ذلت و پستی کے لئے نادانی ہی کافی ہے ۔
٩١٧۔ امام علی (ع): جاہل خود کو بلند کرتا ہے لیکن پست ہو جاتا ہے۔
٩١٨۔ امام علی (ع): دولتمند کی نادانی اس کو پست بنا دیتی ہے اور فقیرکی دانائی اس کو بلند کرتی ہے ۔
٩١٩۔ امام صادق(ع): نادانی ، ذلت ہے ۔

ط: افراط و تفریط
٩٢٠۔ امام علی (ع): جاہل ہمیشہ کوتاہی کرتا ہوا پایا جاتا ہے ۔
٩٢١۔ امام علی (ع): جاہل ہمیشہ افراط و تفریط کا شکا ررہتا ہے (یعنی حد سے آگے بڑھ جاتا ہے یا پیچھے رہ جاتا ہے)

ی: دنیا و آخرت کی برائی
٩٢٢۔ رسول خدا(ص): دنیا وآخرت کی برائی جہالت کے سبب ہے ۔
٩٢٣۔ امام علی (ع): نادانی ،آخرت کو تباہ کردیتی ہے ۔

ک: نادر اقوال
٩٢٤۔ رسول خدا(ص): جو شخص کہتا ہے ''میں عالم ہوں'' در حقیقت وہ جاہل ہے ۔
٩٢٥۔ رسول خدا(ص): جہالت، گمراہی ہے ۔
٩٢٦۔ امام علی (ع): حماقت، نادانی کا نتیجہ ہے۔
٩٢٧۔ امام علی (ع): جہل کا ہتھیار، بیوقوفی ہے ۔
٩٢٨۔ امام علی (ع): جو جہالت کی بنا پر جھگڑے کرتا رہتا ہے وہ حق کی طرف سے اندھا ہو جاتا ہے ۔
٩٢٩۔ امام علی (ع): جو شخص جاہل ہوتا ہے ، اسکی پروا نہیںکی جاتی۔
٩٣٠۔ امام علی (ع): نادانی فریب وضرر کوکھینچتی ہے ۔
٩٣١۔ امام علی (ع): جو شخص اپنی عقل کو ضائع کر دیتا ہے ، اسکی کم عقلی کا اندازہ ہو جاتا ہے ۔
٩٣٢۔ امام علی (ع): جو شخص کم عقل ہوجاتا ہے ، اسکی باتیں بری ہوتی ہیں۔
٩٣٣۔ امام علی (ع): جس شخص کی عقل کم ہوتی ہے ، مذاق زیادہ کرتا ہے ۔
٩٣٤۔ امام علی (ع): آزمائے بغیر ہر شخص پر اعتماد کرنا، کم عقلی کی نشانی ہے ۔
٩٣٥۔ امام علی (ع): جو شخص نادان و کم عقل سے دوستی کرتا ہے ، خود اسکی کم عقلی کی نشانی ہے ۔
٩٣٦۔ امام علی (ع): جو شخص نیکیوںکو برے اعمال کے ذریعہ طلب کرتا ہے وہ، اپنی عقل و شعور کو تباہ و برباد کر دیتا ہے ۔
٩٣٧۔ امام علی (ع): عقل ، ہدایت اور نجات دیتی ہے اور جہالت گمراہ و نابود کر دیتی ہے ۔
٩٣٨۔ اما م زین العاب دین (ع): میری نظر میں یقینا ایک محتاج کا دوسرے محتاج سے طلب کرنا، اسکی کوتاہ فکری اور عقلی گمراہی کی نشانی ہے ۔
٩٣٩۔ امام باقر(ع): جوانمردی یہ ہے کہ طمع نہ کرو کہ ذلیل ہو جاؤگے، دست نیاز نہ بڑھاؤ کہ سبک ہو جاؤگے، بخل نہ کرو کہ گالی کھاؤ گے اور جہالت نہ کروکہ دشمن سمجھے جاؤ گے۔
٩٤٠۔ محمد بن خالد: نے امام صادق(ع) کے چاہنے والوں میں سے کسی ایک سے نقل کیاہے کہ؛ امام صادق(ع) نے فرمایا: ایمان اور کفر کے درمیان صرف کم عقلی کا فاصلہ ہے ، پوچھا گیا: اے فرزند رسول یہ کیونکر ممکن ہے ؟ فرمایا: یقینا ایک بندہ اپنی حاجت کو لیکر دوسرے بندہ کے پاس جاتا ہے ، جبکہ اگر خالص نیت سے خدا کو پکارا ہوتا تو نہایت کم مدت میںاپنی مراد پاجاتا۔
٩٤١۔ امام صادق(ع): اے مفضل! جو عقل سے کام نہیںلیتا وہ کامیاب نہیںہوتااور جو علم نہیں رکھتا وہ عقل سے کام بھی نہیںلیتا۔
٩٤٢۔ امام جوادؑ: جو شخص وارد ہونے کی جگہوں سے ناواقف ہوتاہے نکلتے وقت یہ جگہیں اسکو تھکا دیتی ہےں۔

٤/٢
جاہلوں کے صفات
(اور اس وقت کوبھی یاد کرو جب موسیٰ نے قوم سے کہا خدا کا حکم ہے کہ ایک گائے ذبح کرو تو ان لوگوںنے کہا کہ آپ ہمارامذاق بنا رہے ہیں ،فرمایا پناہ بخدا کہ میںجاہلوںمیں سے ہو جاؤں)
(ارشاد ہوا کہ نوح یہ تمہارے اہل سے نہیںہیں یہ عمل غیر صالح ہے لہذا مجھ سے اس چیز کے بارے میں سوال نہ کرو جس کا تمہیں علم نہیں ہے ۔ میںتمہیں نصیحت کرتا ہوںکہ تمہارا شمار جاہلوںمیں نہ ہو جائے)
(یوسف نے کہا پروردگار یہ قید مجھے اس کام سے زیادہ محبوب ہے جس کی طرف یہ دعوت دے رہی ہیں اور اگر تو ان کے مکر کو میری طرف سے موڑ نہ دیگا تو میں ان کی طرف مائل ہو سکتا ہوں اور میرا شمار بھی جاہلوں میںہو سکتا ہے) ملاحظہ کریں: بقرہ:١٧٠و ١٧١، مائدہ:٥٨، حشر:١٤

حدیث
٩٤٣۔ رسول خدا(ص): اپنے رب کی اطاعت کر و تاکہ عقلمند کہے جاؤ اور اسکی نافرمانی نہ کرو کہ جاہل کہے جاؤ۔
٩٤٤۔ رسول خدا(ص): جاہل وہ ہے جو خدا کی نافرمانی کرتا ہے چاہے خوبصوت اوربا حیثیت ہی ہو۔
٩٤٥۔ رسول خدا(ص): نے اس شخص کے جواب میں جس نے جاہل کی نشانیوںکے بارے میں پوچھا تھا۔ فرمایا: اگر اس کی ہمنشینی اختیارکروگے تو تمہیں تھکاڈالیگا، اگر اس سے کنارہ کش رہوگے تو تمہیں گالی دیگا۔اگر کچھ تمہیں عطا کریگا تو تم پر احسان جتا ئیگا اور اگر تم اسے کچھ دوگے تو ناشکری کریگا، اگر رازداں بناؤگے تو خیانت کریگا، اگر وہ تمہیں رازداںبنائے گا تو تم پر الزام لگائےگا، اگر بے نیاز ہو جائیگا تو اترائیگااور نہایت بد اخلاقی و سخت کلامی سے پیش آئیگا، اگر فقیر ہو جائیگا تو بے جھجک خدا کی نعمتوںکا انکار کریگا، اگر خوش ہوگا تو اسراف اور سرکشی کریگا، اگر محزون ہوگا تو ناامید ہوجائیگا، اگرہنسیگا تو قہقہہ لگائیگا، اگر گریہ کریگا تو بیتاب ہو جائیگا اور خود کو ابرار میں شمار کریگا، حالانکہ نہ خدا سے محبت کرتاہے اور نہ ہی خدا سے ڈرتا ہے اور خدا سے نہ حیا کرتاہے اور نہ ہی اسے یاد کرتا ہے،اگر اسے راضی کروگے تو تمہاری تعریف کریگا اور تمہارے اندر جو خوبیاں نہیںپائی جاتی ہیں ان کی بھی تمہاری طرف نسبت دیگا اور اگر تم سے ناراض ہوگا تو تمہاری تعریف نہیں کریگا اور جو برائیاں تمہارے اندر نہیںہیں ان کی بھی تمہاری طرف نسبت دیگا،یہ جاہل کی روش ہے ۔
٩٤٦۔ رسول خدا(ص): دنیا اس شخص کی قیامگاہ ہے جسکے گھر نہیں، اس شخص کی ثروت ہے جسکے پاس ثروت نہیں، اس کےلئے ذخیرہ ہے جو عقلمند نہیں، دنیوی خواہشات کو وہ طلب کرتا ہے جو فہم و ادراک نہیں رکھتا، دنیا کےلئے وہ دشمنی کرتا ہے جو عالم نہیں ۔ دنیا کےلئے وہ حسد کرتا ہے جو شعورنہیںرکھتا۔ اور دنیا کےلئے وہ کوشش کرتاہے جو یقین نہیں رکھتا۔
٩٤٧۔ رسول خدا(ص): جاہل کی صفت یہ ہے کہ جو اس سے گھل مل جاتا ہے اس پر ظلم کرتا ہے ۔اپنے سے کم لوگوںپر تجاوز کرتا ہے، اپنے سے بلند لوگوںکا مقابلہ کرتا ہے ، اسکی گفتگو فکر و تدبر کے بغیر ہوتی ہے ، جب کلام کرتا ہے تو گناہ کامرتکب ہوتا ہے ، جب خاموش رہتا ہے تو غفلت کرتا ہے ، اگر کوئی فتنہ کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے تو اسکی طرف ٹوٹ پڑتا ہے اور اس کے سبب ہلاک ہو جاتاہے ، جب کوئی فضیلت دیکھتا ہے تو اس سے روگردانی اورسستی کرتا ہے ، گذشتہ گناہوں سے نہ خوفزدہ ہو تا ہے اور نہ ہی اپنی باقی عمر میں گناہوں سے پرہیز کرتا ہے ۔ نیک کاموں میں سستی اور اس سے کنارہ کشی اختیار کرتا ہے اور جو اچھائیاں ا س سے ترک یا ضائع ہو گئی ہیں ان پرافسوس نہیں کرتا____یہ دس خصلتیں جاہل کے خصوصیات میں سے ہیں جو عقل کی نعمت سے محروم ہے ۔
٩٤٨۔ رسول خدا(ص): جاہل میںچھہ خصلتیں پائی جاتی ہیں: کسی برائی کے بغیر ناراضگی ، بے فائدہ گفتگو، بے محل عطا و بخشش، راز کا فاش کرنا، ہر شخص پر اعتماد اور اپنے دوست و دشمن کونہ پہچاننا۔
٩٤٩۔ رسول خدا(ص): نادان اپنی بے حیائی کو آشکار کرتا ہے چاہے لوگوںکے درمیان دور اندیش اور اچھا سمجھا جاتا ہو۔
٩٥٠۔ اما م علی (ع): خدا کے مقابل میںسوائے بد بخت جاہل کے کوئی جرئت نہیںکرتا۔
٩٥١۔ امام علی (ع): جاہل وہ ہے جو خدا کی نافرمانی کے لئے اپنے خواہشات کی پیروی کرتا ہے۔
٩٥٢۔ امام علی (ع): جاہل نہ پشیمان ہوتا ہے اور نہ ہی برے کاموں سے دستبردار ہوتا ہے ۔
٩٥٣۔ امام علی (ع): جاہل وہ ہے جو اپنے خواہشات کے چنگل اور فریب میں آجاتا ہے ۔
٩٥٤۔ امام علی (ع):جاہل وہ ہے جس کو اسکی حاجتیں دھوکا دیتی ہےں۔
٩٥٥۔ امام علی (ع): جاہل وہی ہے جس کو اسکی حاجتیں غلام بنا لیتی ہیں۔
٩٥٦۔ امام علی (ع): جاہل، ناممکن اورباطل چیزوںکے سبب دھوکا کھاتا ہے ۔
٩٥٧۔ اما م علی (ع): عاقل اپنے عمل پر اعتماد کرتاہے اور جاہل اپنی آرزو پر۔
٩٥٨۔ امام علی (ع): جاہل اپنی امیدپر اعتماد کرتا ہے اور عمل میںکوتاہی کرتا ہے ۔
٩٥٩۔ امام علی (ع): جاہل اپنے ہی جیسوں کی طرف جھکتاہے ۔
٩٦٠۔ امام علی (ع): عاقل کمال کا طالب ہوتا ہے اور جاہل مال کا۔
٩٦١۔ امام علی (ع):جاہل ان چیزوں سے وحشت کرتا ہے جن سے حکیم مانوس ہوتا ہے ۔
٩٦٢۔۔ امام علی (ع): زبان ایسا پیمانہ ہے کہ جہل جس کو ہلکااور عقل جس کو سنگین بناتی ہے ۔
٩٦٣۔ امام علی (ع): جاہل وہ ہے جو اپنے خیر خواہ کو دھوکا دیتا ہے۔
٩٦٤۔ امام علی (ع): یقینا وہ جاہل ہے جو اپنے دشمنوں کو خیر خواہ سمجھتا ہے ۔
٩٦٥۔ امام علی (ع): جاہلوںکا اتباع جہالت کی نشانی ہے ۔
٩٦٦۔ امام علی (ع): جاہلوںکی اطاعت اور فضولیات کی کثرت، جہالت کی نشانیاں ہیں۔
٩٦٧۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے۔ جاہل پر برہان قائم کرنا آسان ہے ،لیکن جاہل سے اس کا اعتراف کرانا دشوارہے ۔
٩٦٨۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصارمیں ہے ۔ جاہل کو اپنے دل میں حماقت کادرد محسوس کرنے سے وہ چیز باز رکھتی ہے جو مست کو کانٹوں میں ہاتھ ڈالنے کے احساس سے باز رکھتی ہے ۔
٩٦٩۔ امام علی (ع): مردوں کے ساتھ نفرت، جاہلوںکی صفت ہے ۔
٩٧٠۔ امام علی (ع): جاہل اپنی کوتاہی کو نہیں جانتا اور اپنے خیر خواہ کی بات قبول نہیں کرتا۔
٩٧١۔ امام علی (ع): جاہل ، عالم کو نہیں پہچانتا، اس لئے کہ وہ اس سے قبل عالم نہیں تھا۔
٩٧٢۔ امام علی (ع): جاہل باز نہیں آتا اور نصیحتوں سے بہرہ مند نہیںہوتا۔
٩٧٣۔ امام علی (ع): جاہل کی فکر گمراہی ہے ۔
٩٧٤۔ امام علی (ع): عالم اپنے دل و دماغ سے دیکھتاہے اور جاہل اپنی آنکھ اور نظر سے۔
٩٧٥۔ امام علی (ع): جاہل کی ناراضگی اس کے قول سے ظاہر ہوتی ہے اور عاقل کی ناراضگی اس کے عمل سے۔
٩٧٦۔ امام علی (ع): جاہل کی فکر و رائے فنا ہو جاتی ہے۔
٩٧٧۔ امام علی (ع): جاہل کی کوئی گمشدہ نہیں ہے۔
٩٧٨۔ امام علی (ع): جو شخص تمہاری طرف رغبت رکھتا ہے اس سے کنارہ کشی کم عقلی ہے اور جو تم سے کنارہ کشی اختیار کرتا ہے اسکی طرف تمہا راراغب ہونا اپنے نفس کو ذلیل کرنا ہے ۔
٨٧٩۔ امام علی (ع): جاہلوںکی ہمنشینی بے عقلی کی نشانی ہے ۔
٩٨٠۔ امام علی (ع): آرزؤں کی کثرت عقل کی بربادی کی علامت ہے ۔
٩٨١۔ امام علی (ع): عاقل اپنے علم کے ذریعہ بے نیاز ہوتاہے اور جاہل اپنے مال کے ذریعہ ۔
٩٨٢۔ امام علی (ع): جاہل کا سرمایہ اس کا مال اور آرزو ہے ۔
٩٨٣۔ امام علی (ع): جاہل اپنی نادانی کے سبب گمراہ کرتا ہے اور اپنی خواہشات کی بنا پر خود فریب کھاتاہے لہذاا سکی بات بے اعتباراور عمل مذموم ہوتاہے ۔
٩٨٤۔ امام علی (ع): بیشک لالچ و طمع جاہلوںکے قلوب کو پریشان کرتی ہے ،امیدیںانہیں گروی بنا لیتی ہیں اور نیرنگیاں انہیں اسیرکر لیتی ہیں۔
٩٨٥۔ امام علی (ع): اے لوگو! یاد رکھو یقینا وہ عقلمند نہیں ہے جو اپنے متعلق نازیبا کلمات کے سبب بپھر جائے ، وہ حکیم و آگاہ نہیںہے جو جاہل کی تعریف سے خوش ہو، لوگ اپنی خوبیوں کے فرزند ہیں اور ہر انسان کی قدرو قیمت اسکی خوبیوں کے مطابق ہے پس علمی باتیں کرو تاکہ تمہاری قدر و منزلت آشکار ہو جائے۔
٩٨٦۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصارمیں ہے، جاہل دنیا کی مذمت کرتا ہے اور خرچ کرنے میں بخل کرتا ہے، سخاو ت کی تعریف کرتاہے اور بخشش سے بخل کرتا ہے، طولانی آرزؤں کے ساتھ توبہ کی تمنا کرتا ہے، موت کے خوف سے توبہ کرنے میں جلدی نہیںکرتا، اس کام کی جزا کی امید رکھتا ہے کہ جسے انجام نہیں دیاہے ، لوگوں سے فرار کرتا ہے تاکہ اسے ڈھونڈیں، خود کو پوشیدہ رکھتا ہے تاکہ مشہور ہو جائے، خود کی ملامت کرتا ہے تاکہ اسکی مدح کی جائے ، لوگوںکو اپنی مدح سرائی سے روکتا ہے جبکہ پسند کرتاہے کہ اسکی مدح و ثنا ہوتی رہے۔
٩٨٧۔ امام صادق(ع): جاہل کے صفات میں سے یہ ہے کہ جاہل(سوال) سننے سے پہلے جواب دیتاہے ، سمجھنے سے پہلے جھگڑنے لگتا ہے اور نامعلوم چیزوںکا فیصلہ کرتا ہے ۔
٩٨٨۔ امام صادق(ع): عاقل در گذر کرتا ہے اور جاہل دھوکا دیتا ہے ۔
٩٨٩۔ امام صادق(ع): مصباح الشریعہ میں آپ سے منسوب کلام میںہے ۔جاہل کی ادنیٰ صفت لیاقت کے بغیر علم کا دعویٰ کرنا ہے اور اس سے بڑھ کر اس کا اپنی جہالت سے ناواقف ہونا ہے اور اس سے بھی بڑھکر اس کا اس سے انکار کرنا ہے ۔
٩٩٠۔ امام کاظم (ع):جاہل کو جو عاقل پر تعجب ہوتا ہے وہ عاقل کے جاہل پر تعجب سے زیادہ ہوتا ہے ۔
٩٩١۔ امام ہادی(ع): جاہل اپنی زبان کا اسیر ہوتاہے ۔
٩٩٢۔ امام ہادی(ع): مسخرہ پن بیوقوفوںکا مذاق اور نادانوںکاشعارہے ۔
٩٩٣۔ عیسی(ع):میں تم سے صحیح کہتا ہوں: حکیم ، نادان سے عبرت حاصل کرتا ہے اور نادان اپنے خواہشات نفسانی سے ۔

٤/٣
جہالت کے لئے اتنا ہی کافی ہے
الف: خودرائی
٩٩٤۔ رسول خدا(ص): انسا ن کی دانائی کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ خدا کی بندگی کرے اور نادانی کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ اپنی رائے کا شیفتہ ہو۔
٩٩٥۔ امام علی (ع): تمہارے علم کے لئے بس یہی کافی ہے کہ تم خدا سے ڈرو، اور تمہاری نادانی کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ تم اپنے علم سے خوش رہو۔

ب: خود کو اچھا سمجھنا
٩٩٦۔ رسول خدا(ص): انسان کے علم و آگاہی کے لئے بس یہی کافی ہے کہ خدا سے ڈرے اور اسکی نادانی کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ(ہر حالت میں) خود کو اچھا سمجھتا ہے ۔
٩٩٧۔ امام علی (ع):انسان کی جہالت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ اپنے نفس سے راضی ہو۔

ج: اپنے عیوب سے بے خبری
٩٩٨۔ امام علی (ع): انسان کی جہالت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ اپنے عیوب سے بے خبر ہو اور لوگوں پر ان چیزوں کی وجہ سے طنز کرے کہ جن میں خود بھی ملوث ہو۔
٩٩٩۔ امام علی (ع):انسان کی جہالت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ اپنے عیوب سے بے خبر ہو۔

د: اپنی قدر و منزلت سے ناواقفیت
١٠٠٠۔ رسول خدا(ص): عالم وہ ہے جو اپنی قدر کو جانتا ہو اورانسان کی جہالت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اپنی قدر کو نہ پہچانے۔
١٠٠١۔ امام علی (ع): عالم وہ ہے جو اپنی قدر کو جانتا ہواور جاہل وہ ہے جو خود سے بے خبر ہو۔
١٠٠٢۔ امام علی (ع): عاقل وہ ہے جو اپنے مقام کو پہچانتا ہو اور جاہل وہ ہے جو اپنی حدود کو نہ جانتا ہو،
١٠٠٣۔ امام علی (ع): انسان کی نادانی کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اپنی حدود سے ناواقف ہو۔
١٠٠٤۔ امام علی (ع):نے (گورنر کے کاتب کے خصوصیات کے سلسلہ میں ) فرمایا: یہ لوگ معاملات میں اپنے صحیح مقام سے ناواقف نہ ہوں کہ اپنی قدر و منزلت کا نہ پہچاننے والا دوسرے کے مقام و مرتبہ سے یقینا زیادہ ناواقف ہوگا۔
١٠٠٥۔ امام علی (ع): جو شخص اپنی قدرو منزلت نہیں پہچانتا ، اپنی حدود سے گذر جاتا ہے ....

ھ: علم و عمل میں منافات
١٠٠٦۔ امام علی (ع): عالم کی جہالت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ اس کا علم اس کے عمل سے منافات رکھتا ہو۔

و:خود را فضیحت دیگراں را نصیحت
١٠٠٧۔ امام علی (ع): انسان کی جہالت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ دوسروں کے جس فعل کو ناپسند کرتا ہے اسی کو خود انجام دیتا ہے ۔
١٠٠٨۔ لقمان : تمہاری جہالت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ دوسرں کو جن چیزوں سے روکتے ہو ان ہی کاخودارتکاب کرتے ہو۔ تمہاری عقلمندی کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ لوگ تمہارے شر سے محفوظ رہیں۔

ز: گناہوںکا ارتکاب
١٠٠٩۔ امام علی (ع): انسان کی نادانی کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ جس سے منع کرتا ہے اسی کو انجام دیتا ہے ۔
١٠١٠۔ امام کاظم (ع): اے ہشام!...تمہاری جہالت کےلئے اتنا ہی کافی ہے جس سے منع کرتے ہو اسی کو انجام دیتے ہو۔

ح: ہر معلوم چیز کا اظہار
١٠١١۔ رسول خدا(ص): تمہارے جھوٹ کے لئے اتنا ہی کافی ہے جو کچھ سنو زبان پر جاری کرو اور جہالت کی نشانیوںمیں سے ایک یہ ہے کہ جو کچھ جانتے ہو اس کا اظہارکرو۔
١٠١٢۔ امام علی (ع): تمہاری نادانی کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ جو کچھ جانتے ہو اس کا اظہار کرو۔

ط: ہر سنی چیز کا انکار
١٠١٣۔ امام علی (ع):لوگ جو بھی تم سے بیان کرتے ہیں اسکا انکار نہ کرو کہ تمہاری نادانی کے لئے اتنا ہی کافی ہے۔

ی: خدا کو دھوکا دینا
١٠١٤۔ رسول خدا(ص): جہالت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ خدا کو دھوکا دیں۔

ک: بے سبب ہنسنا
١٠١٥۔ امام علی (ع): انسان کی جہالت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ بے سبب ہنسے۔

٤/٤
جاہل ترین انسان
١٠١٦۔ رسول خدا(ص): عقل کے اعتبار سے ناقص ترین انسان وہ ہے جو بادشاہ سے زیادہ خائف ہوتا ہے اور اسکی زیادہ پیروی کرتاہے ۔
١٠١٧۔ رسول خدا(ص): عقل کے لحاظ سے ناقص ترین انسان وہ ہے جو شیطان کی سب سے زیادہ اطاعت کرے اور سب سے زیادہ اس کے حکم کی تعمیل کرے۔
١٠١٨۔ امام صادق: عقل کے اعتبار سے ناقص ترین انسان وہ ہے جو اپنے سے چھوٹے پر ـ ظلم کرتا ہے اور معذرت کرنے والے سے درگزر نہیں کرتا۔
١٠١٩۔ امام علی (ع): بیشک جاہل ترین انسان وہ شخص ہے جو اپنی قدر ومنزلت نہ جانتا ہو اور انسان کی جہالت کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اپنی قدر ومنزلت نہ پہچانے۔
١٠٢٠۔ امام علی (ع): سب سے بڑی نادانی یہ ہے کہ انسان خود سے بے خبر ہو۔
١٠٢١۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے ۔ سب سے بڑا جاہل وہ شخص ہے جو ایک پتھر سے دو بار پھسلے۔
١٠٢٢۔ امام علی (ع): سب سے بڑا جاہل گناہوں کی تکرار کرنے والا ہے ۔
١٠٢٣۔ امام علی (ع): جاہل ترین انسان وہ ہے جو چاپلوس اور تعریف کرنے والے کی بات کے فریب میں آجائے، جو قبیح کو اس کے لئے حسن اور خیر خواہ کو دشمن بنا کر پیش کرتاہے ۔
١٠٢٤۔ امام علی (ع): جہالت کی انتہاء یہ ہے کہ انسان اپنی نادانی پر فخر کرے۔
١٠٢٥۔ امام علی (ع): عظیم ترین جہالت ، قدرتمند سے نفرت ، فاجر سے دوستی اور دغاباز پر اعتماد ہے۔
١٠٢٦۔ امام علی (ع): سب سے بڑی جہالت لوگوںکے ساتھ نفرت و دشمنی کرنا ہے ۔
١٠٢٧۔ امام علی (ع): اس سے بڑی جہالت اور کیا ہوگی کہ ان چیزوںکے سبب خود کوبڑا سمجھنا جو تمہارے لئے باقی رہنے والی نہیں ہیںاور نہ تم ان کے لئے باقی رہوگے۔
١٠٢٨۔ امام علی (ع): جو شخص علم کے بلند درجہ تک پہنچنے کا مدعی ہے گویا اس نے اپنی نادانی کی انتہاء کو آشکار کر دیا ہے۔
١٠٢٩۔ امام علی (ع): جو نادان کو دوست بناتا ہے وہ اپنی کثرت نادانی پر دلیل قائم کرتاہے ۔
١٠٣٠۔ رسول خدا(ص): جو خدا کی نعمتوںکو صرف کھانے ،پینے کی چیزوں میں دیکھتا ہے ، اس کا علم کم اورجہالت زیادہ ہے۔
١٠٣١۔ امام علی (ع): کثرت خطا، کثرت نادانی کا پتہ دیتی ہے۔
١٠٣٢۔ امام علی (ع): نادانی کی انتہاء ظلم و ستم ہے۔
١٠٣٣۔ امام علی (ع): حماقت کا سرمایہ خشونت ہے ۔

پانچویں فصل نادانوں کے فرائض

٥/١
جاہل پر واجب چیزیں
الف: سیکھنا
١٠٣٤۔ رسول خدا(ص): جو تعلم کی ایک ساعت کی رسوائی برداشت نہیںکرتا، وہ ہمیشہ نادانی کی ذلت میں رہیگا۔
١٠٤٥۔ رسول خدا(ص): عالم کے لئے سزاوار نہیںکہ وہ اپنے علم پر سکوت اختیار کرے اور اسی طرح جاہل کے لئے مناسب نہیں کہ وہ اپنی جہالت پر خاموش رہے ۔ چنانچہ خدا کا ارشاد ہے(اہل ذکر سے پوچھو اگر تم نہیں جانتے)
١٠٣٦۔ امام علی (ع): ایک شخص نے کہا: اے اللہ کے رسول! کون سی چیز مجھ سے جہالت کی حجت کو دور کرتی ہے ؟ فرمایا: علم ، پھر اس نے کہا: کون سی چیز مجھ سے علم کی حجت کو دور کر سکتی ہے ؟ فرمایا: عمل
١٠٣٧۔ امام علی (ع): اے لوگو! جان لو جو زبان پر قابو نہیںرکھتا، پشیمان ہوتاہے ،جو نہیں سیکھتاوہ جاہل رہتاہے اورجو بردبار ہونے کی کوشش نہیں کرتا وہ بردبارنہیںہو سکتا۔
١٠٣٨۔ امام علی (ع): جو نہیںسیکھتاعالم نہیںہو سکتا
١٠٣٩۔ امام علی (ع): جاہل اگر نہیں جانتا تو اسے سیکھنے سے حیا نہیں کرنی چاہئے۔
١٠٤٠۔ امام علی (ع): جو شخص نہیں جانتا اسے سیکھنے سے گریز نہیںکرنا چاہئے۔
١٠٤١۔ امام علی (ع): جہالت کی بیماری عالم کے سامنے پیش کی جاتی ہے ۔
١٠٤٢۔امام علی (ع): اگر پانچ خصلتیں نہ ہوتیں تو تمام لوگ صالح ہوجاتے: جہالت پر قناعت، حرص دنیا، فراوانی کے باوجود بخل، عمل میں ریاکاری اور خود رائی۔
١٠٤٣۔ ابن جریج: کا بیان ہے کہ جنگ جمل میں محمد بن حنفیہ اپنے باپ (علی ) کا پرچم اٹھائے ہوئے تھے۔ باپ نے محمد بن حنفیہ میں کچھ سستی دیکھی تو پرچم لے لیا۔ محمد کا بیان ہے : میں والد کی خدمت میں پہنچا اور تقاضا کیا کہ مجھے علم دو بارہ عطا کر دیں انہونے کافی دیر تک دینے سے انکار کیا، پھر دے دیااور فرمایا:۔
لو اور اچھی طرح اٹھاؤ ، اور اپنے ساتھیوں کے بیچ میں آجاؤ اور پرچم کے اوپری حصہ کو جھکنے نہ دو اور اس کو اس طرح بلند کرو کہ تمہارے تمام ساتھی دیکھ سکیں ، محمد کا کہنا ہے کہ جو کچھ مجھ سے کہا تھا میں نے اس پر عمل کیا، تو عمار یاسر نے کہا: اے ابو القاسم! آج کتنے سلیقہ سے پرچم اٹھائے ہوئے ہوامیرالمومنین نے فرمایا:تمہارا مقصد کیا ہے؟ عمار نے کہا: علم سیکھنے کے بغیر حاصل نہیں ہوتا۔
١٠٤٤۔ اما م زین العاب دین (ع): خدا نے حضرت دانیال پر وحی کی :میرے بندہ دانیال!....بیشک میرے بندوں میںسب سے زیادہ محبوب وہ متقی ہے جو بے پناہ ثواب کا طالب ہوتاہے جو ہمیشہ علماء کے ساتھ رہتا ہے اور حکماء کی پیروی کرتا ہے اور ان کی باتیں قبول کرتاہے ، بیشک میںنے اکثر لوگوں کوجہل سے پیدا کیا ہے ۔
١٠٤٥۔ امام باقر(ع):خطبہ ابو ذر میںہے: اے نادان علم حاصل کر، یقینا وہ دل جس میں علم نہیںہوتاا س کھنڈر کے مانند ہے جس کا کوئی آباد کرنے والا نہیں۔
١٠٤٦۔ منیۃ المرید:میں ہے کہ خدا انجیل کے ستر ہویں سورہ میں فرماتا ہے: حیف ہے اس شخص پر کہ جو علم کو سنتا ہے لیکن اس کا طالب نہیں ہوتا، وہ جاہلوں کے ساتھ کس طرح آگ کی طرف لایاجائیگا؟ علم کی جستجو میں رہو اور اسے سیکھو! اس لئے کہ اگر علم تمہیں سعادتمند نہ بنا سکا تو بدبخت بھی نہیں بنائےگا اگر تمہیں بلند نہ کر سکا تو پست بھی نہیں کریگا، اگر تمہیں غنی نہ بنا سکا تو فقیر بھی نہیں بنائیگا اور اگر فائدہ نہ پہنچا سکا تو ضرر بھی نہیں پہنچائیگا۔

ب :توبہ
١٠٤٧۔ امام علی (ع): جو گناہوں سے باز نہیں رہتا وہ جاہل ہے ۔
١٠٤٨۔ امام زین العاب دین (ع): اپنی دعاء میں فرماتے ہیں : خدایا! محمد و آل محمد پر درود بھیج، ہمیں ایسے لوگوں میں قرار دے جو شہوات کے بجائے تیری یاد میں مشغول ہیں ، اور جنہوںنے واضح و روشن معرفت کی بنا پر غرور و تکبر کے اسباب کی مخالفت کی ہے ، اورآتش شہوت کے پردوں کو آب توبہ کے چھڑکنے سے چاک کر دیا ہے اور جہالت کے ظروف کو زندگی کے آب خالص سے دھوڈالا ہے۔

ج: تقویٰ
١٠٤٩۔ امام باقر ؑ: خدا تقویٰ کے سبب ان چیزوںکو محفوظ رکھتاہے جو بندہ کی عقل سے پوشیدہ ہوتی ہیں اور تقویٰ کے ذریعہ اسکی نابینائی اور نادانی کو دور کرتا ہے ۔

د: شبہ کے وقت احتیاط
١٠٥٠۔ رسول خدا(ص): اے علی : مومن کے صفات میں سے یہ ہے کہ...وہ محرمات سے دوری اور شبہات کے وقت احتیاط کرے۔
١٠٥١۔ امام علی (ع): دور اندیشی کی بنیاد شبہ کے وقت احتیاط ہے ۔
١٠٥٢۔ امام علی (ع):(آپ سے منسوب کلمات قصارمیں ہے) سب سے بہتر عبادت خود کو معصیت سے باز رکھنا اور شبہ کے وقت احتیاط ہے ۔
١٠٥٣۔ امام علی (ع): شبہات میں احتیاط جیسی کوئی پر ہیزگاری نہیں ہے ۔
١٠٥٤۔ امام علی (ع): سب سے بڑاحق یہ ہے کہ انسان علم ہونے کے باوجود احتیاط کرے۔
١٠٥٥۔ امام علی (ع): نے انتقال کے وقت اپنے بیٹے امام حسن (ع) کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا: بیٹا! میں تمہیں وقت پر نماز ادا کرنے، زکات کو اسکے مستحق تک اسکی جگہ پر پہنچانے اور شبہات کے وقت خاموشی کی وصیت کرتا ہوں۔
١٠٥٦۔ امام علی (ع): اگر بندے لا علمی کے وقت احتیاط کرتے تو کافر ہوتے اور نہ گمراہ۔
١٠٥٧۔ امام صادق(ع): اگر بندے نادانی کے وقت احتیاط کرتے تومنکر ہوتے اور نہ کفراختیار کرتے۔
١٠٥٨۔ امام زین العاب دین (ع):اگر کوئی امر تمہارے لئے واضح ہو جائے تو اس کو قبول کر لو ورنہ خاموش رہو تاکہ محفوظ رہو، اور اس کے علم کو خدا کی طرف پلٹا دو اس لئے کہ تمہارے لئے آسمان و زمین کے فاصلہ سے زیادہ گنجائش ہے۔
١٠٥٩۔ اما م باقر(ع): شبہ کے وقت احتیاط کرنا ہلاکت میں پڑنے سے بہتر ہے اور اس حدیث کا چھوڑ دینا جسے خود تم نے روایت نہیں کیا ہے ، اس حدیث کی روایت کرنے سے بہتر ہے کہ جس پر تمہیں مکمل طور پر دسترسی نہیںہے ۔
١٠٦٠۔ امام باقر(ع): یقینا خدا ئے عز وجل نے کچھ امور کو حلال ، کچھ کو حرام اور کچھ کو واجب قرار دیا ہے اور مثالیں بیان کی ہیں اور کچھ سنتوںکوجاری کیاہے.....اگر خدا کی جانب سے کوئی دلیل ہو، اور اپنے کام پر یقین ہو اور تمہاراموقف آشکار ہو تو (لے لو)ورنہ شبہ ناک امور کے پیچھے مت جاؤ۔
١٠٦١۔ زرارہ بن اعین : میں نے امام باقر(ع) سے دریافت کیا: بندوںپر خدا کا کیا حق ہے ؟ فرمایا: زبان پر وہی چیز یں جاری کریں جنہیں جانتے ہوں اور جنہیں نہیں جانتے ان میں احتیاط کریں ۔
١٠٦٢۔ ہشام بن سالم : میں نے امام صادق(ع) سے دریافت کیا: بندوںپر خدا کا کیا حق ہے ؟ فرمایا جو کچھ جانتے ہوں انہیں زبان پر جاری کریں اور جو نہیںجانتے ان سے باز رہیں۔ اگر انہوںنے ایسا کیا تو گویا حق خدا کو ادا کیا۔
١٠٦٣۔ امام صادق(ع): خاموشی اور فراوان خزانہ ،بردبار کی زینت اور جاہل کی پردہ پوشی ہے ۔

ھ: جہالت کا اعتراف
١٠٦٤۔ امام علی (ع): عقلمندی کی انتہاء ، اپنی جہالت کا اعتراف ہے۔
١٠٦٥۔ امام علی (ع): یہ دنیا اسی حالت میںبر قراررہ سکتی ہے جس میں مالک نے قرار دیا ہے یعنی نعمت ، آزمائش ، آخرت کی جزا یاوہ بات جو تم نہیںجانتے ہو، اب اگر اس میں سے کوئی بات سمجھ میں نہ آئے تو اسے اپنی جہالت سمجھوکہ تم ابتدا میں جب پیدا ہوئے ہو تو جاہل ہی پیدا ہوئے ہوبعد میں تمہیںعلم دیا گیاہے اور اسی بنا پر مجہولات کی تعداد زیادہ ہے جس میںتمہاری رائے متحیر رہ جاتی ہے اور نگاہ بہک جاتی ہے ، اور بعد میں صحیح حقیقت نظر آتی ہے ۔
١٠٦٦۔ امام علی (ع): اور یہ یاد رکھو کہ راسخون فی العلم وہی افراد ہیں جنہیں غیب الہی کے سامنے پڑتے ہوئے پردوں کے اندر درانہ داخل ہونے سے اس امر نے بے نیاز بنا دیاہے کہ وہ اس پوشیدہ غیب کا اجمالی اقرار رکھتے ہیں اور پروردگار نے ان کے اسی جذبہ کی تعریف کی ہے کہ جس چیز کو ان کا علم احاطہ نہیںکر سکتا اس کے بارے میں اپنی عاجزی کا اقرار کر لیتے ہیں اور اسی صفت کو اس نے رسوخ سے تعبیر کیا ہے کہ جس بات کی تحقیق ان کے ذمہ نہیںہے اسکی گہرائیوں میں جانے کا خیال نہیں رکھتے ہیں۔
١٠٦٧۔ امام باقر(ع): جو جانتے ہو بیان کرو اور جو نہیں جانتے کہو(اللہ بہتر جانتا ہے)

و: جہالت پر معذرت
١٠٦٨۔ امام زین العاب دین (ع): خدایا! میں اپنی نادانی کے سبب تجھ سے معذرت چاہتا ہوں اور اپنے برے اعمال کے لئے تجھ سے بخشش طلب کرتا ہوں۔

ز: جہالت سے خدا کی پناہ چاہنا
١٠٦٩۔ ام سلمہ: رسول خدا(ص) جب بھی گھر سے بر آمد ہوتے تھے تو فرماتے تھے: خدا کے نام سے، پروردگارا میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس سے کہ پھسلوں یا گمراہ ہو جاؤں، ستم کروںیا مجھ پرستم کیا جائے، جاہل رہوں یا مجھ پر کوئی چیز مخفی رہے۔
١٠٧٠۔ امام علی (ع):نے جنگ صفین میں یوم الھریر کی دعا میں فرمایا: خدایا! بیشک میں...جہالت ،بیہودگی اور قول و فعل کی برائیوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔
١٠٧١۔ امام علی (ع): پروردگارا!...میں تیری پناہ چاہتاہوں اپنی قوت سے، اور تیری پناہ میں آنا چاہتا ہوں اپنی جرأت سے ، اپنی جہالت کے سبب تیری پناہ کاطلبگار ہوں اور اپنے گناہوںکے باعث تیرے اسباب کی رسیوں کو پکڑنا چاہتا ہوں ۔
١٠٧٢۔ امام علی (ع): پروردگارا! تیری پناہ چاہتا ہوں کہ علم کے عوض جہالت خریدوں جیسا کہ دوسروںنے کیاہے ، یا یہ کہ بردباری کے بدلہ حماقت خریدوں۔
١٠٧٣۔ امام صادق(ع): صبح و شام کی دعا میں فرماتے ہیں؛ خدایا! ہم تیری مدد سے شام کرتے ہیں اور صبح بھی ، تیری بدولت زندہ رہتے ہیں اور مرتے بھی ہیں، اور تیری طرف پلٹے ہیں، اور میں تیری پناہ چاہتا ہوںکہ میںکسی کو رسوا کروں یا رسوا کیا جاؤں، گمراہ کروں یا گمراہ ہو جاؤں، ظلم کروںیا مجھ پرظلم کیا جائے، میں جاہل رہوں یا مجھ پر مخفی رہے۔
١٠٧٤۔ عبد الرحمن بن سیابہ: کابیان ہے کہ امام صادق(ع) نے یہ دعا مجھے دی: حمد اس خدا کے لئے جو صاحب حمد اور اس کا اہل ہے ، اسکی نہایت اور اس کا محل ہے ،...میںپناہ چاہتا ہوں کہ علم کے بدلہ جہالت ، بردباری کے عوض بدسلوکی، عدل کے بدلہ ستم ، نیکی کے بدلہ قطع تعلقی اور صبر کے عوض بیتابی کو خریدوں۔

ح: جہالت سے توبہ
١٠٧٥۔ رسول خدا(ص):۔آپ ؐ اس طرح دعا فرماتے تھے۔بار الہا: میری خطا و جہالت، اور اپنے کام میں حد سے تجاوز کرنے اور جسکوتو مجھ سے بہتر جانتا ہے اس سے مجھکو معاف کر دے۔ پروردگارا! میرے مذاق او رسنجیدگی ، میری خطا اور دانستہ طور پر ہو جانے والے کاموں اور بقیہ میرے گناہوں سے مجھکو بخش دے۔

٥/٢
جاہل کے لئے حرام چیزیں
الف: علم کے بغیر لب کشائی
قرآن
(اور اپنے منہ سے وہ بات نکال رہے تھے جس کا تمہیں بھی علم نہیں تھا)

حدیث
١٠٧٦۔رسول خدا(ص): جو شخص علم کے بغیر لوگوںکو فتوے دیتا ہے وہ اصلاح سے زیادہ دین کو برباد کرتا ہے ۔
١٠٧٧۔ رسول خدا(ص): جو شخص علم کے بغیر لوگوںکو فتویٰ دیتاہے وہ ناسخ و منسوخ اورمحکم و متشابہ میں فرق نہیں کر پاتا، لہذا وہ ہلاک ہے اور دوسروں کو ہلاک کردیتا ہے ۔
١٠٧٨۔ رسول خدا(ص): جو بغیر علم کے فتوے دیتاہے اس پر آسمان و زمین کے ملائکہ لعنت بھیجتے ہیں۔
١٠٧٩۔ رسول خدا(ص): وہ شخص جس کو بغیر تحقیق کے فتویٰ دیا جاتا ہے اس کا گناہ فتویٰ دینے والے کے سر ہے ۔
١٠٨٠۔ امام علی (ع): جس کے بارے میں آگاہی نہیںرکھتے ہو، اطلاع نہ دو۔
١٠٨١۔ امام علی (ع): جو نہیںجانتے اس کو زبان پر جاری نہ کرو چوں کہ بیشترحق ان چیزوں میں ہے جن کا تم انکار کرتے ہو۔
١٠٨٢۔ امام زین العاب دین (ع): خدایا! میں تیری پناہ چاہتا ہوں...کہ ظالم کی مدد کروں...یا بغیر علم کے علمی گفتگو کروں۔
١٠٨٣۔ امام باقر(ع): جو علم اور الہی ہدایت کے بغیر فتویٰ دیتا ہے اس پر رحمت اور عذاب کے فرشتے لعنت کرتے ہیں اور اس کے فتوے پر عمل کرنے والے کا عقاب اسی کو ملیگا۔

ب: نامعلوم چیز کا انکار
قرآن
(در حقیقت ان لوگوںنے اس چیز کی تکذیب کی ہے جس کا مکمل علم بھی نہیں ہے)

حدیث
١٠٨٤۔ امام علی (ع): نے- اپنے بیٹے امام حسن ؑ: کو وصیت کرتے ہوئے - فرمایا: بیشک نادان وہ ہے جو نامعلوم چیزوں میں خود کو عالم شمار کرتا ہے اور اپنی ہی فکر و رائے پر اکتفا کرتا ہے ، ہمیشہ علماء سے دوری اختیار کرتا ہے اور انہیں برا بھلا کہتا ہے جو اسکی مخالفت کرتاہے اس کو خطا کا ر سمجھتا ہے اور جو شخص کچھ بھی نہیں جانتااسے گمراہ کرتا ہے ، پس جب اس کے سامنے کوئی امرآتا ہے جسے وہ نہیںجانتاتو اس سے انکار کر دیتا ہے اور اسے جھوٹ تصور کرتا ہے اور اپنی جہالت کی بدولت کہتا ہے : میں اس کو نہیں جانتا ہوںاور نہ اس سے پہلے کبھی اس کو دیکھا ہے اور گمان نہیں کرتا کہ بعد میںیہ وجود پذیربھی ہوگا۔ یہ ساری باتیں اس کا اپنی رائے پر اعتماد اور جہالت و کم علمی کے سبب ہیں۔ اور ہر وہ چیز جس کا وہ قائل ہے اور یا عدم علم کی بنیاد پر جس چیز کا غلط معتقد ہے اس سے دستبردار نہیںہوتا، اپنی نادانی سے استفادہ کرتا ہے اور حقیقت کا انکار کرتا ہے ، نیز اپنی جہالت و نادانی میں حیران و سرگرداں ہوتاہے اور تحصیل علم سے باز رہتاہے ۔
١٠٨٥۔ امام علی (ع): جو کسی چیز سے ناواقف ہوتاہے اس کا دشمن ہو جاتا ہے ۔
١٠٨٦۔ اما م علی (ع): میں نے چار چیزیں کہیں کہ جنکی خدا نے اپنی کتاب میں تصدیق کی ، میں نے کہا: انسان اپنی زبان کے نیچے چھپا ہوتا ہے جب کلام کرتا ہے تو ظاہر ہو جاتا ہے ، پس خدا نے یہ آیت:(اور آپ ان کی گفتگو کے انداز سے انہیں بہر حال پہچان لیں گے)نازل کی، میں نے کہا: جو کسی چیز سے جاہل ہوتاہے اسکاد شمن ہوجاتاہے ، خدا نے فرمایا:( در حقیقت ان لوگوں نے اس چیز کی تکذیب کی ہے جس کا مکمل علم بھی نہیںہے اور اسکی تاویل بھی ان کے پاس نہیں آئی ہے) میں نے کہا: ہر شخص کی قدر و قیمت اسکی دانائی کے مطابق ہے ، خدا نے قصہ طالوت میں فرمایا:( انہیں اللہ نے تمہارے لئے منتخب کیاہے اور علم و جسم میں وسعت عطا فرمائی ہے)میں نے کہا: قتل، قتل کو کم کرتاہے ، خدا نے فرمایا:(صاحبان عقل تمہارے لئے قصاص میں زندگی ہے )
١٠٨٧۔ امام علی (ع): جو کچھ میں نے زبان رسول سے سنا ہے اگر تمہارے سامنے بیان کردوں تو تم میرے پاس سے اٹھکر چلے جاؤ گے اور کہوگے ، یقینا علی سب سے بڑا جھوٹا اور سب سے بڑا فاسق ہے ، خدا فرماتا ہے :(بلکہ در حقیقت ان لوگوں نے اس چیز کی تکذیب کی جس کا مکمل علم بھی نہیں ہے)
١٠٨٨۔ اما م صادق(ع): خدا نے اپنی کتاب میں دو آیتیں اپنے بندوں سے مخصوص کی ہیں : وہ لوگ جب تک نہیںجانتے لب کشائی نہیںکرتے اور جب تک علم نہیں رکھتے تردید نہیںکرتے ، خدا ارشاد فرماتا ہے :(کیا ان سے کتاب کا عہد نہیںلیا گیا کہ خبردار خدا کے بارے میں حق کے علاوہ کچھ نہ کہیں)نیز فرماتا ہے (یقینا ان لوگوں نے اس چیز کو جھٹلایا جس کا مکمل علم بھی نہیں رکھتے اور اسکی تاویل بھی ان کے پاس نہیں آئی ہے)

٥/٣
ممدوح جہالت
١٠٨٩۔ امام علی (ع): کتنے جاہلوں کی نجات ان کی جہالت میں ہے ۔
١٠٩٠۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصارمیں ہے۔ دو گروہوںپر ہر چیز آسان ہے ؛ وہ عالم جو کام کے انجام سے واقف ہو، اور وہ جاہل جو اپنی حیثیت سے بے خبر ہو۔
١٠٩١۔ اما م علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے، اگر عقل کے نو حصے ہوتے تو جہالت کے ایک حصہ کی طرف محتاج ہوتی تاکہ عقلمند اپنے امور پر اسے مقدم کرے ،کیوں کہ عاقل ہمیشہ سہل انگار،نگراں اور خوفزدہ ہوتا ہے ۔
١٠٩٢۔ امام علی (ع): بسا اوقات نادانی ، بردباری سے زیادہ مفید ہوتی ہے ۔
١٠٩٣۔ ابراہیم بن محمد بن عرفہ: احمد بن یحیٰ ثعلب نے مجھے یہ اشعار سنائے اور بتایا کہ یہ اشعار علی (ع) بن ابی طالب کے ہےں:
اگر مجھے بردباری کی ضرورت ہے تو بیشک بعض اوقات مجھے جہالت کی زیادہ ضرورت ہے ۔ میں نادانی کو ندیم و ہمنشیں کے عنوان سے پسند نہیںکرتا لیکن ضرورت کے وقت پسند کرتاہوں میرے پاس بردباری کا مرکب ہے کہ جس کی لجام بھی بردباری ہی ہے ، اور میرے پاس جہالت کا مرکب ہے کہ جس کی زین نادانی ہے ۔
١٠٩٤۔ امام حسین ؑ: اگر لوگ غور و فکر کرتے اور موت کو اسکی صورت میں تصور کرتے تو دنیا ویرانہ ہوجاتی۔
١٠٩٥۔ امام عسکری ؑ: اگر تمام اہل دنیا عقلمند ہوتے تو دنیا ویران ہو جاتی۔
١٠٩٦۔ اما م صادق(ع)ـ: نے ۔ مفضل بن عمر۔ سے فرمایا: اے مفضل ! ان چیزوںکے بارے میں غور وفکر کرو کہ جن میں انسان کو اپنی مدت حیات کے متعلق آگاہی نہیں ہے ؛ اس لئے کہ انسان اگر اپنی عمر کی مقدار سے باخبر ہو جائے اور (بالفرض) اسکی زندگی کم ہو تو موت کے خوف سے کہ جس کا وقت معلوم ہے اسکی زندگی تلخ ہو جائیگی؛ بلکہ اس شخص کے مانند ہوگا کہ جس کا مال تباہ ہو گیا یابرباد ہونے کے قریب ہے ؛ گویا یہ شخص فقر اور مال و ثروت کی بربادی اور خوف فقر کے اندیشہ سے نہایت خوفزدہ رہتا ہے ۔
جبکہ یہ تلخی جو انسان کی فنائے عمرکے تصور سے پیدا ہوتی ہے انسان کے فنائے مال سے کہیں زیادہ تلخ ہے ؛ چونکہ جب کسی شخص کی ثروت کم ہو جاتی ہے تو وہ اسکی جگہ پر ثروت کے آنے کی امید رکھتا ہے ، جس کے سبب اس کو سکون حاصل ہوتا ہے ؛ لیکن جو عمرکی فنا کا یقین رکھتا ہے اس کے لئے صرف مایوسی ہوتی ہے ۔ اور اگر اسکی عمر طولانی ہوتی ہے اور وہ اس سے آگاہ ہو جاتاہے تو بقا کا اعتماد پیدا کرکے لذات اور معصیتوں میں غرق ہو جاتا ہے اور اس خیال سے عمل کرتاہے کہ اپنی لذتوںکو حاصل کرے اور آخیر عمر میں توبہ کرلیگا؛ یہ ایسی روش ہے کہ خدا پنے بندوں سے نہ پسند کرتا ہے اورنہ قبول۔
اگر تم کہو! کیا ایسا نہیں ہے کہ انسان ایک عرصے تک گناہ کرتاہے پھر توبہ کرتا ہے اور اسکی توبہ قبول ہوتی ہے۔؟!
ہم جواب دیں گے : ایسا اس لئے ہے کہ شہوت انسان پر غالب آجاتی ہے تونہ وہ کوئی منصوبہ بناتا ہے اور نہ ہی اس کے مطابق کوئی کام انجام دیتاہے ، لہذا خدا اس سے درگذر کریگا اور مغفرت کے ذریعہ اس پر فضل و احسان کریگا۔
لیکن وہ شخص جس نے اپنی زندگی کی بنا اس بات پر رکھی ہے کہ گناہ کرے گااور آخر عمر میں توبہ کرلیگا؛ یہ اس ذات کو دھوکا دینا چاہتاہے کہ جو دھوکا نہیںکھاتا اور کوشش کرتا ہے کہ جلد لذت اندوزہو اور اپنے نفس سے وعدہ کرتا رہتا ہے۔
کہ بعد میں توبہ کر لیگا۔ حالانکہ اپنے وعدہ کو پورا نہیںکرتا؛ اس لئے کہ آسائش اور لذات سے چھٹکاراپانا اور توبہ کرنا، خصوصاً جب بوڑھا اور ناتواںہو جائے، نہایت دشوار کام ہے ، انسان توبہ کرنے میں ٹال مٹول کرکے امان نہیں پا سکتاچونکہ اسکی موت آپہنچتی ہے اور وہ توبہ کے بغیر دنیا سے چلا جاتا ہے ، اسکی مثال اس شخص کی سی ہے کہ جس کی گردن پر قرض ہو کہ جس کی میعاد آئندہ آئیگی اور وہ قرض کی ادائیگی کی قدرت ہونے کے باوجود ٹال مٹول کرتا رہتاہے یہاں تک کہ اسکی ادائیگی کا وقت آجاتاہے لیکن اب اس کے پاس مال نہ ہونے کی وجہ سے اسکی گردن پر قرض باقی رہ جاتاہے۔
لہذاا نسان کے لئے بہتر ہے کہ اپنی عمر کی مقدار سے واقف نہ ہو اور اپنی ساری زندگی موت سے خوفزدہ رہے تاکہ گناہوں سے پرہیز کرے اور نیک عمل بجالاتا رہے۔
اگر تم کہو: ایسے بھی لوگ ہیںجو اپنی زندگی کی مقدار سے با خبر نہیں ہیں اور ہر لمحہ موت کے انتظار میں ہیں لیکن ہمہ وقت بدکرداری اور محرمات کا ارتکاب کرتے ہیں۔
ہم جواب دیں گے: بیشک اس سلسلہ میں بہترین تدبیر وہ ہے جو اب جاری ہوئی ہے ؛ اگر انسان الہی تدبیر کے باوجود بدکرداری اور گناہوں سے دستبردار نہ ہو تو یہ اسکی عیش و نشاط اور سنگدلی کا نتیجہ ہے نہ کہ تدبیر میں کوتاہی کا، جیسے ڈاکٹر کبھی کوئی مفید دوا بیمار کے لئے تجویز کرتا ہے ؛ لیکن اگر مریض ڈاکٹر کے حکم کی مخالفت کرے اور اسکی پابندیوں پر عمل نہ کرے تو وہ ڈاکٹر کی تجویز سے بہرہ مند نہیں ہوتاا ور اس نقصان کا تعلق ڈاکٹر سے نہیںہے چونکہ اس نے بیماری کی شناخت کر لی ہے لیکن مریض نے اسکی بات قبول نہیںکی۔
اگر انسان ہر لمحہ موت کے انتظار میں ہونے کے باوجود گناہوںسے دستبردار نہیں ہوتا تو اگر طولانی زندگی کا اطمینان ہو تو کہ بڑے گناہوں کا اور زیادہ ارتکاب کریگا، بہر حال موت کے انتظار میں رہنا، اس کے لئے دنیا میں اطمینان بقا سے بہترہے ، اور اس سے قطع نظر اگر موت کا انتظار ایک گروہ کے لئے مفید نہ ہو اور وہ لہو و لعب میں مصروف ہو اور اس سے نصیحت حاصل نہ کرے تو دوسرا گروہ نصیحت حاصل کریگا اور گناہوں سے گریز کریگااور نیک عمل بجالائیگا۔ اور اپنے اموال و گر انبہا اجناس کو فقراء و مساکین کوصدقہ دینے میںدریغ نہیں کریگا ۔ لہذا یہ انصاف نہیں ہے کہ یہ گروہ اس فضیلت سے بہرہ مند نہ ہوتو دوسرا گروہ بھی بہرہ مندنہ ہو۔

٥/٤
جاہل سے مناسب برتاؤ
الف: گفتگو کے وقت سلام کرنا
قرآن
(اور اللہ کے بندے وہی ہیں جو زمین پر آہستہ چلتے ہیں اور جب جاہل ان سے خطاب کرتے ہیں تو سلامتی کا پیغام دے دیتے ہیں)
(اور جب لغویات سنتے ہیں تو کنارہ کشی اختیاکرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے لئے ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے لئے تمہارے اعمال ہیں ، تم پر ہمارا سلام کہ ہم جاہلوںکی صحبت پسند نہیںکرتے )

حدیث
١٠٩٧۔ نعمان بن مقرِّن : رسول خدا کے سامنے ایک شخص نے ایک شخص کو گالیاں دیں، اور اس نے اس کے جواب میں کہا: تم پر سلام ہو! رسول خدا(ص) نے فرمایا: یاد رکھو! تم دونوں کے درمیان ایک فرشتہ ہے جو تم سے دفاع کرتا ہے ، جب وہ تم کو گالی دیتا ہے اور کہتا ہے : تم ایسے ہو، تووہ(فرشتہ) اس سے کہتا ہے : بلکہ تم اور تم اس کے زیادہ مستحق ہو اور جب اس کے جواب میںکہتا ہے؛ تم پر سلام ہو! تو وہ (فرشتہ )کہتاہے : نہیں ، بلکہ تم(درود و سلام) کے مستحق ہو۔
١٠٩٨۔ امام علی (ع): نے ۔ اپنے چاہنے والوں کی توصیف میں ۔ فرمایا: اگر تم انہیں دنوں میں دیکھو گے تو ایسی قوم پاؤ گے جو(زمین پر آہستہ چلتے ہیں) اور لوگوں سے اچھی باتیں کرتے ہیں:(اور جب جاہل ان سے مخاطب ہوتے ہیں تو سلامتی کا پیغام دیتے ہیں) اور(اور جب لغو کاموںکے قریب سے گذرتے ہیں تو بزرگانہ انداز سے گذر جاتے ہیں)
١٠٩٩۔ امام صادق(ع): نے۔ شیعوں کی توصیف میں۔ فرمایا: جب کوئی جاہل انہیں مخاطب کرتا ہے تو سلامتی کا پیغام دیتے ہیں اور جب کوئی حاجت مند ان کی پناہ میں آتا ہے تو اس پر رحم کرتے ہیں اور موت کے وقت غمگین نہیںہوتے۔
١١٠٠۔ اغانی: خلیفہ عباسی کا بیٹا ابراہیم، علی بن ابی طالب کا شدید دشمن تھا، ایک روز مامون سے کہا کہ میں نے خواب میں علی کو دیکھا ہے اور ان سے پوچھا: تم کون ہو؟ جواب دیا کہ علی ابن ابی طالب ہوں ، ابراہیم نے کہا: ہم دونوں کچھ دور گئے اور ایک پل نظر آیا انہوںنے چاہا کہ مجھ سے پہلے پل سے گذر جائیں۔ میںنے ان کو ؛پکڑا اور کہا: آپ امیر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیںجبکہ ہم اس کے زیادہ مستحق ہیں ، تو انہوںنے ایسا فصیح و بلیغ جواب نہ دیا جیسا کہ ان کی شہرت ہے، مامون نے کہا انہوںنے کیا جواب دیا؟ ابراہیم نے کہا: فقط سلاماً سلاماً کہا ہے۔مامون نے کہا: خدا کی قسم بلیغ ترین جواب تم کو دیا ہے ؛ ابراہیم نے کہا: کس طرح ؟ مامون نے کہا: تم کو یہ سمجھا دیا کہ تم جاہل ہو اور قابل گفتگو نہیںہو، خدا کا ارشاد ہے:(جب ان سے جاہل خطاب کرتے ہیں تو سلامتی کا پیغام دیتے ہیں) پس ابراہیم شرمندہ ہوا اور کہا: کاش کہ یہ واقعہ آپ کو نہ سنایا ہوتا۔

ب: جھگڑے کے وقت خاموشی
١١٠١۔ رسول خدا(ص): جناب موسیٰ ؑ نے جناب خضر سے ملاقات کی اور کہا: مجھکو نصیحت کیجئے! جناب خضر نے کہا: اے علم کے طلب کرنے والے.... اے موسیٰ ! اگر علم چاہتے ہو تو خود کو اس کےلئے وقف کر دو؛ اس لئے کہ علم اس شخص کےلئے ہے جو خود کو اس کےلئے وقف کر دیتا ہے...اور جاہلوں سے کنارہ کشی اختیار کرو اور احمقوںکے مقابل میں بردبار رہو، اس لئے کہ یہ بردباروںکےلئے فضیلت ہے اور علماء کیلئے زینت، اگر جاہل تم کو گالی دے تو تم نرمی کا برتاؤ کرتے ہوئے خاموش ہو جاؤ، اور دور اندیشی کےساتھ اس سے دوری اختیار کرو: چوں کہ تمہارے لئے جو نادانی و گالی باقی ہے وہی زیادہ ہے ۔
١١٠٢۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے ۔ جاہل کے ساتھ جھگڑانہ کرو۔
١١٠٣۔ امام علی (ع): بیوقوفوں سے جھگڑا نہ کرو، اور عورتوں پر فریفتہ نہ ہو اس لئے کہ یہ خصلتیں عاقلوںکوبدنام کرتی ہیں۔
١١٠٤۔ امام باقر(ع): مرد دو طرح کے ہوتے ہیں: مومن اور جاہل ، مومن کو اذیت نہ دو، اور جاہل کو جاہل نہ سمجھو ورنہ اس کے مانند ہو جاؤگے۔

ج: بردباری
١١٠٥۔ رسول خدا(ص): جس میں یہ تین چیزیں نہ ہونگی اسکاکوئی عمل صحیح نہیں ہوگا: پرہیزگاری جو اسے خدا کی نافرمانی سے باز رکھے ، اخلاق کہ جسکے سبب لوگوں کےساتھ مہربانی سے پیش آئے اور بردباری کہ جسکے ذریعہ جاہل کی جہالت کا جواب دے۔
١١٠٦۔ امام علی (ع): اپنے غیظ و غضب کو دور کروتاکہ رسوائی سے محفوظ رہو، اگر کوئی جاہل تمہارے ساتھ نادانی کرے تو ضروری ہے کہ تمہاری بردباری اس پر حاوی ہو۔
١١٠٧۔ امام علی (ع):نے ۔ اپنے بیٹے اما م حسن ؑکو وصیت میں۔ فرمایا: میں تم کو وصیت کرتا ہوںکہ دوسروں کے گناہوںکو بخش دینا، غصہ کو پی جانا، صلہ رحم کرنا اور جاہل کے ساتھ بردباری کا مظاہرہ کرنا۔
١١٠٨۔ امام علی (ع): جاہل کو برداشت کرنا صدقہ ہے ۔
١١٠٩۔ امام علی (ع): مومن بردبار ہوتا ہے اور نادانی نہیں کرتا اور جب اس کے ساتھ کوئی نادانی کرتا ہے تو وہ بردباری کا ثبوت پیش کرتاہے ۔
١١١٠۔ موسیٰ ؑ بن محمد محاربی : ایک شخص سے نقل کرتے ہیں: مامون نے امام رضا(ع) سے کہا: کیا آپ شعر نقل کرتے ہیں؟ فرمایا: مجھے بہت سارے اشعار یاد ہیں۔ اس نے کہا: بردباری کے متعلق کوئی بہترین شعر مجھے سنائےںامام (ع) نے فرمایا:
میں اپنے سے پست انسان کی جہالت کا شکار ہوں، میں نے اپنے نفس کو روک رکھا ہے کہ اس کا جواب جہالت سے دے، اگر عقلمندی میں اپنے مانند کسی کو پاؤں تو بردباری کاثبوت دوں؛ تاکہ میں اپنے مثل سے بلند ہو جاؤں؛ اور اگر علم و عقل میں ، میں اس سے کمتر ہوں تو اس کے لئے حق تقدم کا قائل ہوں۔
مامون نے کہا: کیا خوب شعر ہے؛ کس نے کہاہے؟! امام رضا(ع) نے فرمایا:ہمارے بعض جوانوں نے۔

د: تعلیم
١١١١۔ امام کاظم (ع): نے ۔ ہشام بن حکم ۔ سے فرمایا: اے ہشام! جو کچھ نہیں جانتے اسے سیکھو؛ اور جو سیکھ لیا ہے اسے جاہل کو سکھاؤ، عالم کو اس کے علم کے سبب عظیم سمجھو اور اس سے جھگڑا نہ کرو اور جاہل کو اسکی نادانی کے سبب چھوٹا سمجھو، اس کو جھڑکو نہیں بلکہ خود سے قریب کرو اور تعلیم دو۔
١١١٢۔ اما م صادق(ع): میںنے علی (ع) کی کتاب میں پڑھا ہے کہ خدا نے جاہلوں سے علم سیکھنے کا عہد و پیمان اس وقت تک نہیں لیا جب تک کہ علماء سے انہیں سکھانے کا عہد نہیں لے لیا، اس لئے کہ علم کا وجود جہالت سے پہلے ہے ۔

ھ: عدم اعتماد
١١١٣۔ امام علی (ع): اپنے عقلمند دشمن پر اپنے نادان دوست سے زیادہ اعتماد کرو۔
١١١٤۔ امام علی (ع):جو عاقل نہیں ہے اس کے عہد و پیمان پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔

و: نافرمانی
١١١٥۔امام علی (ع): جاہل کی نافرمانی کرو تاکہ محفوظ رہو۔

ز: اعراض
قرآن
(آپ عفو کا راستہ اختیار کریں نیکی کا حکم دیں اور جاہلوں سے کنارہ کشی کریں)

حدیث
١١١٦۔ رسول خدا(ص): سب سے بڑا حکیم وہ ہے جو جاہل انسانوںسے فرار کرتا ہے ۔
١١١٧۔ رسول خدا(ص):لوگ دو طرح کے ہوتے ہیں: مومن اور جاہل ، مومن کو اذیت نہ دو اور جاہل کی ہمنشینی اختیار نہ کرو۔
١١١٨۔ امام علی (ع): نے ۔ امام حسن ؑسے اپنی وصیت میں ۔ فرمایا: کفر ان نعمت پستی ہے اور جاہل کی ہمنشینی نحوست ہے ۔
١١١٩۔ امام علی (ع): ۔ آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے ۔ جاہل کی قربت اور اسکی ہمسائیگی تم کو اپنے شر سے محفوظ نہیںرکھتی، چوںکہ آگ سے جتنا زیادہ قریب ہوگے جلنے کا خطرہ اتنا ہی زیادہ ہوگا۔
١١٢٠۔ اما م علی (ع): جو عقل سے محروم ہے اسکی صحبت اختیار نہ کرو اورجو صاحب حسب و نسب نہیں ہے اس کو اپنا خاص نہ بناؤ کیوں کہ جو عقلمند نہیںہے وہ تم کو اپنے خیال میں فائدہ پہنچانے کے بجائے ضرر پہنچا ئیگا، اور جو صاحب حسب و نسب نہیںہے وہ اس کے ساتھ بھی برائی کرتا ہے جو اس کے ساتھ نیکی کرتا ہے ۔
١١٢١۔ امام علی (ع):جو عقل سے محروم ہے اس سے نیکی کی امید نہ رکھواور جو بے نسب ہے اس پر اعتماد نہ کرو اس لئے کہ جو عقلمند نہیں ہے وہ اپنے خیال میں خیر خواہی کرتا ہے حالانکہ اس سے نقصان پہنچتا ہے اور بے نسب اصلاح کرنے کے بجائے تباہ کرتا ہے ۔
١١٢٢۔ امام علی (ع): بدترین شخص کہ جس کی تم ہمنشینی اختیار کرتے ہو وہ جاہل ہے ۔
١١٢٣۔ امام علی (ع): بدترین دوست جاہل ہے ۔
١١٢٤۔ امام علی (ع): جاہل سے قطع تعلق ہونا عقلمند سے وابستہ ہونے کے برابر ہے ۔
١١٢٥۔ امام علی (ع): عاقل سے بچو جب تم اس کو غضبناک کردو، کریم سے بچو جب تم اسکی اہانت کرو، حقیر و پست سے بچو جب تم اس کا احترام کرو اور جاہل سے بچو جب تم اس کے ہمنشیں ہو جاؤ۔
١١٢٦۔ امام علی (ع): نادان کا دوست معرض ہلاکت میں ہوتا ہے ۔
١١٢٧۔ امام علی (ع): نادان کا دوست تباہی کے دہانے پر ہوتا ہے ۔
١١٢٨۔ امام عسکری:ؑ نادان کا دوست غمگین رہتا ہے ۔
١١٢٩۔ اما م کاظم (ع): عالم سے مزبلہ پر گفتگو ، جاہل سے گرانبہافرش پر گفتگو کرنے سے بہترہے ۔
١١٣٠۔ امام رضا(ع): نے ۔ محمد بن سنان کو ایک خط میں۔ تحریر فرمایا: خدا نے ہجرت کے بعد بادیہ نشینی کو حرام کر دیا تاکہ کوئی دین سے نہ پھرے ، انبیاء اور پیشواؤں کی نصرت کرنے سے گریز نہ کرے اس لئے کہ یہ (حرمت) تباہی و بربادی اور صاحبان حق کے حقوق کی پامالی کی وجہ سے ہے نہ اس جہت سے کہ بادیہ نشینی ناروا ہے ، لہذا اگر کوئی شخص دین سے مکمل طور پر آگاہ ہو تو اس کے لئے مناسب نہیں ہے کہ جاہلوںکے درمیان سکونت پذیر ہو اور اس چیز کا بھی خوف ہے کہ وہ کہیں علم کو چھوڑ کر جاہلوںکے جرگے میں پھنس جائے اور اس میں بہت آگے بڑھ جائے۔