اس حصہ کی فصلیں:
پہلی فصل : مفہوم جہل
دوسری فصل : جہل سے پرہیز
تیسری فصل : جاہلوں کے اقسام
چوتھی فصل : جہل کے علامات
پانچویں فصل : جاہل کے احکام
چھٹی فصل : پہلی جاہلیت
ساتویں فصل : دوسری جاہلیت
آٹھویں فصل : جاہلیت کا خاتمہ
٨٠٨۔ امام حسن ؑ:نے اپنے والد کے جواب میں جب جہل کی تعریف کے متعلق پوچھا ۔تو فرمایا: فرصت سے فائدہ اٹھانے کی قدرت نہ ہونے کے باوجود اس پر جلدی سے ٹوٹ پڑنا اور جواب دینے سے عاجز رہنا ہے۔
٨٠٩۔ امام علی (ع): محال امور میں تمہاری رغبت کا ہونا نادانی ہے ۔
٨١٠۔ امام علی (ع): دنیا کی فریبکاریوںکو دیکھتے ہوئے اس کی طرف رخ کرنا جہالت ہے ۔
٨١١۔ امام علی (ع): بغیر کوشش و عمل کے رتبہ و مقام کا طلب کرنا نادانی ہے ۔
٨١٢۔ عیسیٰؑ: نے اپنے حواریوں سے فرمایا: دیکھو تمہارے اندر جہالت کی دو نشانیاں ہیں: بلا سبب ہنسنا اور شب زندہ داری کے بغیر صبح کو سونا۔
٨١٣۔ امام علی (ع): شب زندہ داری کے بغیر سونا جہالت کی نشانی ہے۔
٨١٤۔ امام صادق(ع): بلا سبب ہنسنا نادانی کی نشانیوں میں سے ہے ۔
٨١٥۔ امام صادق(ع): جہالت تین چیزوں میں ہے: دوست بدلنا،بغیر وضاحت کے علیحدگی، اس چیز کی جستجو کرنا جس میں کوئی فائدہ نہیںہے۔
٨١٦۔ امام صادق(ع): مصباح الشریعہ میں آ پ سے منسوب کلام میں ہے ۔ جہالت ایسی صورت ہے جو اولاد آدم میں قرار دی گئی ہے، اسکی طرف رخ کرنا تاریکی اور گریز کرنا روشنی ہے، بندہ اس کے ساتھ ساتھ اس طرح پھرتا ہے جیسے سورج کے ساتھ ساتھ سایہ ، کیا ایسے انسان کو نہیں دیکھتے جو اپنی خصوصیات سے ناواقف ہے لیکن اپنی تعریف کرتاہے حالانکہ اسی عیب کو جب دوسروں میں ملاحظہ کرتا ہے تو اس سے نفرت کرتا ہے ۔ اور کبھی اسے دیکھتے ہو ۔
جو اپنی کچھ ذاتی خصوصیات سے آشنا ہوتاہے اور ان سے نفرت کرتا ہے حالانکہ جب اپنے غیر میںمشاہدہ کرتاہے تو تعریف کرتا ہے پس ایسا انسان عصمت و رسوائی کے درمیان سرگرداں ہے ، اگر عصمت کی طرف رخ کیا تو واقع تک پہنچ جائیگا اور اگر رسوائی کی طرف رخ کیا تو واقع سے دور ہو جائیگا۔
جہالت کی کنجی خوشنودی اور اس پر اعتقاد ہے ، علم کی کنجی توفیق کی موافقت کے ساتھ تبادلہ ہے ، اور جاہل کی پست ترین صفت یہ ہے کہ بغیر لیاقت کے علم کا دعویٰ کرتا ہے اور اس سے بھی بدتر اس کا اپنی جہالت سے ناواقف ہونا ہے اور اسکی بالا ترین صفت جہالت سے انکار ہے جہالت اوردنیاو حرص کے علاوہ کوئی چیز ایسی نہیں کہ جس کا اثبات درحقیقت اسکی نفی ہو۔ یہ سب گویا ایک ہیں اور ان میںکا ایک سب کے برابرہے۔
مفہوم جہل کی تحقیق
اسلام نے معرفت شناسی کے جو مختلف ابواب پیش کئے ہیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ دین الہی ایک عظیم معاشرہ بنانے کے لئے ہر چیز سے قبل اور ہر چیز سے بیشتر، فکر و نظر اور آگاہی و معرفت کو اہمیت دی ہے ، اور جہالت کے گڑھے میں گرنے اور فکر کو نظر انداز کرنے سے تنبیہ کی ہے ۔
اسلام کی نگاہ میں جہل ایسی آفت ہے کہ جوانسان کی رونق اور خوبیوں کو پامال کر دیتا ہے اور تمام اجتماعی و فردی برائیوں کا سر چشمہ ہے ، جب تک یہ آفت جڑ سے نہیں اکھاڑی جائیگی اس وقت تک فضیلتیں ابھر کر سامنے نہیں آ سکتیں اور نہ ہی انسانی معاشرہ وجود پذیر ہو سکتا ہے۔
اسلام کی نظر میں جہل تمام برائیوں کا سر چشمہ ، عظیم ترین مصیبت، مہلک و بدترین بیماری اور خطرناک ترین دشمن ہے ۔ جاہل انسان روئے زمین پر چوپائے سے بدتر، بلکہ زندوں کے درمیان ایک لاش ہے ۔
وہ آیات و احادیث جو جہل اور جاہل کی مذمت اور اس کے علامات و احکام اور جہل سے دوری کے متعلق وارد ہوئی ہیں ان کو اچھی طرح سمجھنے کے لئے ضروری ہیکہ پہلے یہ جانیںکہ جہل کیا ہے ؛ آیا مطلق جہل اسلام کی نظر میں مذموم و خطرناک ہے یا کوئی خاص جہل ہے ؟
اور اگر یہ دوسری صورت درست ہے تو اسکی تعیین کرنا ضروری ہے کہ وہ خاص جہل کون سا ہے۔
کون سا جہل تمام برائیوں کا سرچشمہ ہے ؟
کون سا جہل عظیم ترین مصیبت ہے؟
کون سا جہل بدترین اور سب سے مہلک بیماری ہے ؟
کون سا جہل شدید ترین فقر ہے ؟
کون سا جہل خطرناک ترین دشمن ہے ؟
کون سا جاہل قرآن کی رو سے ، چوپائے سے بدتر۔ہے ، اور کس جہل کو امام علی (ع) نے ۔ زندوںکے درمیان لاش۔ سے تعبیر کیا ہے ۔
مفہوم جہل
مذموم جہل کے چار معنی ہیں:
اول: مطلق جہل
دوم: تمام مفید و کارساز علوم و معارف سے جہالت
سوم: انسان کے لئے ضروری و اہمترین معارف سے جہالت
چہارم : جہل، عقل کے مقابل میں ایک قوت ہے۔
معانی کی وضاحت
١۔ مطلق جہل
گر چہ بادی النظر میں یہ محسوس ہوتا کہ مطلق جہل مضر اور مذموم ہے لیکن غور و فکر کے بعد معلوم ہوتاہے کہ ہر چیز کا نہ جاننا مذموم اور جاننا پسند یدہ نہیں ہے بلکہ اس کے بر خلاف کچھ چیزوں کا جاننا مضر و مہلک اور کچھ چیزوں کا نہ جاننا مفید و کارساز ہے اسلام میں اسی دلیل کی بنا پربعض امور اوربعض پوشیدہ چیزوںکی تحقیق و جستجو کو ممنوع قرار دیا گیا ہے ۔
اس موضوع کی مزید وضاحت، اس فصل کے باب''احکام جاہل'' اور کتاب ''علم و حکمت قرآ ن و حدیث کو روشنی میں'' کے باب احکام تعلم کے(شق ج۔ جن چیزوں کا سیکھنا حرام ہے) اسی طرح اس کتاب کے ''آداب سوال'' کے ''باب چہارم'' میں مذکورہ احادیث میںکی گئی ہے ۔
٢۔ مفید معارف سے جہالت
بلا شک و شبہ اسلام تمام مفید علوم و معارف کو احترام کی نظر سے دیکھتا ہے اور ان کے سیکھنے کی دعوت بھی دیتاہے ، بلکہ اگر معاشرہ کو ان کی حاجت و ضرورت ہو اور ایسے افراد موجود نہ ہوں جو اس ضرورت کے لئے کافی ہوں تو ان علوم و فنون کو واجب قرار دیاہے۔ لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہےں کہ ان تمام علوم کے متعلق جہل تمام لوگوں کے لئے مذموم یا خطرناک ہو۔
بعبارت دیگر ، ادبیات، صرف و نحو، منطق و کلام ، فلسفہ،ریاضیات، فیزکس، کیمیا اور دیگر علوم و فنون جو انسان کی خدمت کے لئے ہیں وہ اسلام کی نظر میں قابل احترم اور اہمیت کے حامل ہیں لیکن ان تمام علوم کا نہ جاننا تمام برائیوںکا سر چشمہ ، عظیم ترین مصیبت، بدترین بیماری، خطرناک ترین دشمن ، شدید ترین فقر نہیں ہے ، اور ان علوم میں سے جو بعض یا تمام کو نہیں جانتا ہے اسے روئے زمین پر چو پائے سے بدتر یا زندوںمیں مردہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔
٣۔ انسان کی ضروری معارف سے جہالت
وہ معارف و علوم جو انسان کو اسکی ابتداء و انتہاء سے آشنا اور اسکی غرض خلقت کی حکمت کو کشف کرتے ہیں وہ اسکی زندگی کے اہمترین و ضروری معارف میں سے ہیں۔
انسان کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ وہ کس طرح وجود میں آیا؟ اور اسکی غرض خلقت کیاہے؟ کون سا عمل انجام دے کہ اپنی غرض خلقت کے فلسفہ تک پہنچ جائے؟ کون سے خطرات اسے ڈراتے ہیں؟
وہ معارف جو ان تمام مسائل کا جواب دیتے ہیںوہ میراث انبیاء ہیں ۔ یہ معارف تمام خیر و برکت کا سرچشمہ، عقل عملی اور جوہر علم کے روشن و بارونق ہونے کے لئے زمین ہموار کرتے ہیں۔ اور ان معارف سے لاعلمی انسانی معاشرہ کو دشوار ترین مشکلات اور دردناک مصائب میں مبتلا کرتی ہے۔
البتہ تنہا ان معارف کا جاننا ہی کافی نہیں ہے ؛ بلکہ یہ معارف اس وقت کا ر آمد و کارساز ہیںجب عقل کے ذریعہ جہل چوتھے مفہوم کے لحاظ سے مہار کیا جائے ۔
٤۔ عقل کے مقابل میں ایک قوت
اسلامی نصوص میں جہل کا چوتھا مفہوم گذشتہ مفاہیم کے بر خلاف ایک امر وجودی ہے نہ کہ عدمی ، اور عقل کے مقابل مخفی و پوشدہ شعور ہے اور عقل کے مانند مخلوق خدا ہے جس کے کچھ آثار و مقتضیات ہیں کہ جنہیں'' عقل کے سپاہی'' کے مقابل میں''جہل کے سپاہی'' سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس جہل کو قوت سے اس لئے تعبیر کیا ہے تاکہ یہ پوری طور پر عقل کے مقابل قرار پا سکے اس قوت کے لئے دوسرے بھی نام ہیںکہ جن کا بیان خلقت عقل کی بحث میں ہو چکا ہے ۔
جیسا کہ علامات عقل کے باب اول میں ذکر ہو چکا ہے کہ تمام اعتقادی و اخلاقی اورعملی حسن وجمال جیسے خیر، علم ، معرفت ، حکمت ، ایمان ، عدل ، انصاف، الفت، رحمت، مودت، مہربانی ، برکت، قناعت، سخاوت، امانت، شہامت ، حیا، نظافت ،امید، وفا، صداقت، بردباری، صبر، تواضع ،بے نیازی، نشاط وغیرہ کو عقل کے سپاہیوں میںشمار کیاہے ۔
اور ان کے مقابل میں تمام اعتقادی و اخلاقی اورعملی برائیوں جیسے : شر، جہل، حماقت، کفر، ستم ،جدائی، قساوت، قطع رحم ، عداوت، بغض، غضب، بے برکتی، حرص ، بخل ، خیانت، بزدلی ، بے حیائی، آلودگی ، ہتک ، کثافت، نا امیدی ، کذب، سفاہت،بیتابی، تکبر، فقر اور سستی وغیرہ کو جہل کے سپاہیوں میں شمار کیا ہے ۔
انسان ان دونوں قوتوں کے سلسلہ میں صاحب اختیار ہے کہ ان میں سے جس کو چاہے انتخاب کرے اور پروان چڑھائے۔ وہ قادر ہیکہ اپنی قوت عقل کا اتباع کرے اور اس کو زندہ کرکے جہل و شہوت اور نفس امارہ کو فنا کر دے۔ اور عقل کے سپاہی اور اس کے مقتضیات کی تربیت کرکے انسان کے بلند مقصد تک پہنچ جائے اور خدا کا نمائندہ بن جائے ۔ یا قوت جہل کا اتباع اور اس کے سپاہی اور مقتضیات کی تربیت کرکے پست ترین حالت اور قعر مذلت میں گر جائے۔
اس وضاحت کی روشنی میں دو مہم اور قابل غور نکات روشن ہو جاتے ہیں ،وہ یہ ہیں:-
١۔خطرناک ترین جہل
پہلا نکتہ یہ ہے کہ گر چہ اسلام تیسرے معنی کے اعتبار سے مذموم جہل کی شدت سے مخالفت کرتا ہے ؛ لیکن اس مکتب کی نظر میں خطرناک ترین جہل، چوتھے معنی کے اعتبار سے ہے ؛ یعنی ایسی راہ کا انتخاب کہ جس کی طرف قوت جہل انسان کو دعوت دیتی ہے؛ کیوں کہ اگر انسان اس راہ پرگامزن ہو جسے عقل نے معین کیا ہے تو بلا شبہ علم و حکمت اور دیگر عقل کے سپاہی انسان کواس کے مبدأ و مقصد تک پہنچاتے اور تمام مفید و سازگار معارف کی طرف ہدایت کرتے ہیں اور وہ اپنی استعداد اور کوشش کے مطابق اپنی خلقت کے فلسفہ تک پہنچتا ہے۔
لیکن اگر انسان ایسی راہ کا انتخاب کرے جو جہل کا تقاضا تھاتو جہل کے سپاہی مفید معارف اور ایسے بلند حقائق جوانسان کو انسانیت کے بلند مقصد سے آشنا کرتے ہیں کی راہ شناخت کو مسدود کر دیتے ہیں۔ لہذا اس حالت میں اگر کوئی اعلم دوراں بھی ہو جائے تو بھی اس کا علم اسکی ہدایت کے لئے کافی نہ ہوگا اور جہل کی بیماری اسے موت کے گھاٹ اتار دیگی(اور خدا نے اسی حالت کو دیکھ کر اسے گمراہی میں چھوڑ دیا ہے)
اس بنیاد پر اسلامی روایات میں جب جہل کے متعلق تحقیق کی جاتی ہے تو بحث کا اصلی محور جہل کا چوتھا معنی قرار پاتاہے، البتہ جہل کے بقیہ معنی و مفاہیم بھی ترتیب وار اہمیت کے حامل ہیں۔
٢۔ عقل و جہل کا تقابل
دوسرا مہم نکتہ یہ ہے کہ اسلامی نصوص میں عقل و جہل کے تقابل کا راز کیاہے۔ اور دوسرا سوال یہ ہے کہ معمولا جہل علم کے مقابل میں پیش کیا جاتا ہے لیکن اسلامی نصوص اور اس کے کے اتباع میں حدیث کی کتابوں میں معمول کے خلاف جہل کو کیو ںعقل کے مقابل قرار دیا گیا ہے؟
جب آپ حدیث کی کتابوں کی طرف رجوع کریں گے تو عنوان ''علم و جہل'' نہیں پا سکیں گے اور اس کے بر خلاف عنوان ''عقل و جہل'' ا کثر یا تفصیلی کتابوںمیں پائیں گے اس کا راز یہ ہے کہ اسلام، جہل کو چوتھے معنی کے لحاظ سے جو کہ امر وجودی ہے اور عقل کے مقابل ہے جہل کے دوسرے اور تیسرے معنی۔ امر عدمی اور علم کے مقابل ہے سے زیادہ خطرناک جانتا ہے ۔
بعبارت دیگر، اسلامی نصوص میں عقل و جہل کا تقابل اس چیز کی علامت ہے کہ اسلام عقل کے مقابل جہل کو علم کے مقابل جہل سے زیادہ خطرناک جانتا ہے اور جب تک اس جہل کی بیخ کنی نہ ہوگی صرف علم کے مقابل جہل کی بیخ کنی سے معاشرہ کے لئے اساسی فائدہ حاصل نہیں ہو سکتااور یہ نکتہ نہایت ظریف اور دقیق ہے لہذا اسے غنیمت سمجھو!
٢/١
جہل کی مذمت
قرآن
( بیشک ہم نے امانت کو آسمان ، زمین اور پہاڑ سب کے سامنے پیش کیا اور سب نے اس کے اٹھانے سے انکار کیا اور خوف ظاہر کیا بس انسان نے اس بوجھ کواٹھا لیا کہ انسان اپنے حق میں ظالم اور نادان ہے)
الف: عظیم ترین مصائب
حدیث
٨١٧۔ امام علی (ع): عظیم ترین مصائب نادانی ہے ۔
٨١٨۔ امام علی (ع): شدید ترین مصائب میں سے جہل کاغلبہ بھی ہے ۔
٨١٩۔ امام علی (ع): بدترین مصائب جہالت ہے۔
٨٢٠۔ امام صادق(ع): کوئی بھی مصیبت جہل سے بڑھکر نہیں۔
ب: بدترین بیماری
٨٢١۔ امام علی (ع): بدترین بیماری نادانی ہے۔
٨٢٢۔ امام علی (ع): جہالت، بدترین بیماری ہے ۔
٨٢٣۔امام علی (ع): جہالت سے بڑھ کر ناتواں کرنے والی کوئی بیماری نہیں ہے۔
٨٢٤۔امام علی (ع): جہالت بیماری اور سستی ہے۔
٨٢٥۔ امام علی (ع): انسان میں جہالت جذام سے زیادہ مضر ہے ۔
ج: شدید ترین فقر
٨٢٦۔ رسول خدا(ص): اے علی (ع):جہالت سے بدتر کوئی فقرنہیں۔
٨٢٧۔ امام علی (ع): کوئی بے نیازی عقل کے مانند نہیں اور کوئی فقر جہالت کے مثل نہیں۔
٨٢٨۔ امام علی (ع): جاہل کے لئے کوئی بے نیازی نہیں۔
د: خطرناک ترین دشمن
٨٢٩۔ رسول خدا(ص): ہر انسان کا دوست اسکی عقل ہے اور دشمن اسکی جہالت ہے ۔
٨٣٠۔ رسول خدا(ص): وہ شخص کہ جس کا فہم اس کے لئے نفع بخش نہیں ہے تو اسکی نادانی اس کے لئے مضر ہے۔
٨٣١۔ امام علی (ع): کوئی دشمن ، جہل سے زیادہ خطرناک نہیں۔
٨٣٢۔ امام علی (ع): جہل سب سے بڑا دشمن ہے ۔
٨٣٣۔ امام عسکری ؑ: نادانی ، دشمن ہے اور بردباری حکمرانی ہے ۔
ھ: رسوا ترین بے حیائی
٨٣٤۔ امام علی (ع): کوئی بے حیائی نادانی سے بدتر نہیں۔
٨٣٥۔ امام علی (ع): جہالت کی مذمت کے لئے یہی کافی ہے کہ جاہل خود اس سے بیزاری اختیار کرتا ہے ۔
٨٣٦۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے ۔ خوبصورت انسان کے لئے کتنا قبیح ہے کہ جاہل ہو وہ اس خوبصورت مکان کی طرح ہے کہ جس کے رہنے والے شریر لوگ ہوں یا ایسے باغ کی مانند ہے کہ جس کو الو ؤںنے آباد کیا ہو، اور یا(بھیڑ بکریوں) کے ریوڑ کے مثل ہے کہ جس کی نگہبانی بھیڑ یاکر رہا ہو۔
٢/٢
جاہل کی مذمت
قرآن
( اللہ کے نزدیک بدترین زمین پر چلنے والے وہ بہرے اور گونگے ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے ہیں)
حدیث
٨٣٧۔ رسول خدا(ص): اللہ تعالیٰ نے کسی بندہ کو رسوا و ذلیل نہیں کیا مگر یہ کہ اسے علم و ادب سے محروم رکھا ہو۔
٨٣٨۔ امام علی (ع): جب خدا کسی بندہ کو رسوا کرنا چاہتا ہے تو اسے علم وانش سے محروم کر دیتا ہے ۔
٨٣٩ ۔ رسول خدا(ص): وہ دل جس میں حکمت نہیں ویران گھر کی طرح ہے ؛ لہذا سیکھو اور سکھاؤ؛ علم و فقہ حاصل کرو اور جاہل مت مرو، یقینا خدا جاہل کے عذر کو قبول نہیں کریگا۔
٨٤٠۔ رسول خدا(ص): جاہل زاہد شیطان کا ٹھٹھا ہے ۔
٨٤١۔امام علی (ع): جسم کی بلندی و بزرگی سے کوئی فائدہ نہیں جبکہ دل نقصان میں ہو۔
٨٤٢۔ امام علی (ع): اللہ تعالیٰ کے نزدیک مبغوض ترین خلائق، جاہل ہے ؛ کیوں کہ خدا نے اس کو اس نعمت سے محروم رکھا ہے کہ جس کے ذریعہ اس نے اپنے تمام بندوں پر احسان کیا ہے ؛ اور وہ عقل ہے ۔
٨٤٣۔ امام علی (ع): جاہل کا عمل وبال ہے اور اس کا علم گمراہی ہے ۔
٨٤٤۔ امام علی (ع): بدبخت ترین انسان ، جاہل ہے ۔
٨٤٥۔ امام علی (ع): جاہل زندوں کے درمیان مردہ ہے ۔
٨٤٦۔ امام علی (ع): جاہل، چھوٹا ہے چاہے بوڑھا ہی ہو اور عالم بزرگ ہے چاہے چھوٹا ہی ہو۔
٨٤٧۔ امام علی (ع): جاہل ایسی چٹان ہے کہ جس سے پانی کے چشمے نہیں پھوٹتے، ایسا درخت ہے کہ جس کی شاخ سر سبز نہیںہوتی اور ایسی زمین ہے کہ جس پر سبزہ نہیںاگتا۔
٨٤٨۔ امام علی (ع): جاہل کے لئے ہر حالت میں خسارہ ہے ۔
٨٤٩۔ امام علی (ع): ہر جاہل فتنہ میں مبتلا ہے ۔
٨٥٠۔ امام علی (ع): جاہل ، حیران و سرگرداں ہے ۔
٨٥١۔ امام علی (ع): جاہل کا تسلط اس کے عیوب کو آشکار کرتا ہے ۔
٨٥٢۔ امام علی (ع): جاہل کے ہاتھ میں نعمت، مزبلہ پر گلزار کے مانند ہے ۔
٨٥٣۔ امام علی (ع):جاہل کی نعمت جتنی حسین ہوتی جائیگی اتنی ہی قبیح ہوتی جائیگی۔
٨٥٤۔ امام علی (ع): جاہل کی حکومت اس مسافر کی سی ہے جو ایک جگہ نہیں ٹھہرتا ۔
٨٥٥۔ امام علی (ع): جو عقل سے محروم ہے ، اس سے امید نہ رکھو۔
٨٥٦۔ امام علی (ع): نیکوکار کی زبان ، جاہلوں کی حماقت سے باز رہتی ہے ۔
٨٥٧۔ امام علی (ع): تلوار کی تیزی کے علاوہ جاہل کو کوئی روک نہیں سکتا۔
٨٥٨۔ امام علی (ع): نے واقعہ جمل کے بعد اہل بصرہ کی مذمت میں فرمایا: تمہاری زمین پانی سے قریب اور آسمان سے دور ہے ، تمہاری عقلیں ہلکی اور تمہاری دانائی احمقانہ ہے ، تم ہر تیرانداز کا نشانہ ، ہر بھوکے کا لقمہ اور ہر شکاری کا شکار ہو۔
٨٥٩۔ امام علی (ع): نادان دوست کی ہمنشینی اختیار مت کرو اور اس سے پرہیز کرو کتنے نادانوں نے دوستی کے سبب بردبار انسانوں کو ہلاکت کے دہانے تک پہنچا دیاہے۔
٨٦٠۔ امام باقر(ع): بیشک وہ دل جس میں ذرا بھی علم نہ ہو، اس کھنڈر کے مانند ہے جس کا کوئی آباد کرنے والا نہ ہو۔
٨٦١۔ امام عسکری ؑ: جاہل کی تربیت اورعادی کو اسکی عادت سے روکنا معجزہ ہے ۔
٨٦٢۔ لقمان : صاحب علم و حکمت کا تمہیں مارنا اور اذیت پہنچانااس سے بہتر ہے کہ جاہل خوشبودار تیل سے تمہاری مالش کرے۔
٢/٣
نادر اقوال
٨٦٣۔ رسول خدا(ص): خدا نے جہل کے سبب کسی کو عزیز نہیں کیا اور بردباری کے سبب کسی کو رسوا نہیں کیا۔
٨٦٤۔ امام علی (ع): فضائل سے ناواقفیت ،بد ترین رذائل ہے۔
٨٦٥۔ امام علی (ع): نادانی و بخل ، برائی اور ضرر ہے ۔
٨٦٦۔ امام علی (ع): نادانی سے بدترکوئی موت نہیں۔
٨٦٧۔ امام علی (ع): جہل وبال ہے ۔
٨٦٨۔ امام علی (ع): جہل کے ساتھ کوئی مذہب ترقی نہیں کر سکتا۔
٨٦٩۔ امام علی (ع): بیشک تم لوگ نادانی کی بدولت نہ کسی مطلوب کو حاصل کر سکتے ہو اور نہ کسی نیکی تک پہنچ سکتے ہو اور نہ ہی کسی مقصد آخرت تک تمہاری رسائی ہو سکتی ہے۔
٨٧٠۔ امام علی (ع): یقینا جہل سے بے رغبتی اتنی ہی ہے کہ جتنی مقدار میں عقلمندی سے رغبت ہے ۔
|