پہلا حصہ
عقل
چھٹی فصل عقل کی آفتیں


٦/١
خواہشاتِ نفسانی
قرآن
(کیا آپ نے اس شخص کو بھی دیکھا ہے جس نے اپنی خواہش ہی کو خدا بنا لیا ہے اور خدا نے اسی حالت کو دیکھ کر اسے گمراہی میں چھوڑ دیاہے اور اس کے کان اور دل پر مہر لگا دی ہے اور اسکی آنکھ پر پردے ڈال دئےے ہیں اور خدا کے بعدکون ہدایت کر سکتا ہے کیا تم اتنا بھی غور نہیں کرتے ہو)

حدیث
٦٤١۔ امام علی (ع): عقل کی آفت بو الہوسی ہے ۔
٦٤٢۔ ہوا و ہوس عقل کی آفت ہے ۔
٦٤٣۔ امام علی (ع): معمولی سی خواہش نفس عقل کو تباہ کردیتی ہے۔
٦٤٤۔ امام علی (ع): خواہش نفس کی پیروی عقل کو برباد کر دیتی ہے۔
٦٤٥۔ امام علی (ع): خواہش نفس کا غلبہ دین اور عقل کو تباہ کر دیتاہے ۔
٦٤٦۔ امام علی (ع): ہوا و ہوس، عقل کی دشمن ہے ۔
٦٤٧۔ امام علی (ع): ہوا و ہوس کے مانند کوئی چیز عقل کی دشمن نہیں۔
٦٤٨۔ امام علی (ع): عقل خواہشات نفسانی کے ساتھ جمع نہیں ہو سکتی۔
٦٤٩۔ امام علی (ع): عقل کا تحفظ خواہشات کی مخالفت اور دنیا سے دوری کے سبب ہے ۔
٦٥٠۔ امام علی (ع): جو شخص اپنی شہوت پر غالب آجاتا ہے اسکی عقل آشکار ہو جاتی ہے ۔
٦٥١۔ امام علی (ع): جس شخص کی خواہشات نفسانی عقل پر غالب آجاتی ہے ذلیل ہو جاتا ہے ۔
٦٥٢۔ امام علی (ع): جو شخص اپنی خواہشات نفسانی کو عقل پرمسلط کر لیتا ہے اسکی رسوائیاں آشکار ہوجاتی ہیں۔
٦٥٣۔ امام علی (ع): شہوت کا ہمنشیں، بیمار نفس اور معیوب عقل کا مالک ہوتا ہے ۔
٦٥٤۔ امام علی (ع): کتنی ہی عقلیں ہیں جو خواہشاتِ نفسانی، کی غلام ہیں۔
٦٥٥۔ امام علی (ع): اپنی جلد بازی کو سنجیدگی سے، اپنی سطوت کو مہربانی سے اور اپنی برائیوںکو اپنی نیکیوںسے جوڑ دو، اور اپنی عقل کو خواہشات پر مسلط کردوتاکہ عقل کے مالک ہو جاؤ ۔
٦٥٦۔ امام علی (ع): عقل لشکر خدا کی امیر ہے، ہوا و ہوس لشکر شیطان کی سر براہ ہے، نفس دونوں کی طرف کھنچتا ہے لہذ اجو بھی غالب آ جاتا ہے اسی کا ہو جاتا ہے۔
٦٥٧۔ امام علی (ع): عقل اور شہوت ایک دوسرے کی ضد ہیں ، عقل کی حمایت کرنے والا علم ہے شہوت کو آراستہ کرنے والی ہوا و ہوس ہے نفس ان دونوں کے درمیان کشمکش کے عالم میں ہوتاہے لہذا جو بھی غالب ہو گاا سی کی طرف مائل ہو جائیگا۔
٦٥٨۔ امام علی (ع): ہر وہ عقل جوشہوت کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے اس کے لئے حکمت سے بہرہ مند ہونا حرام ہے ۔
٦٥٩۔ امام علی (ع): جو خواہشات نفس سے دوری اختیار کرتا ہے اسکی عقل صحیح ہو جاتی ہے ۔
٦٦٠۔ امام علی (ع): جب آپ کو خبر ملی کہ آپ کے قاضی شریح بن حارث نے اسی دینار کا ایک مکان خریدا ہے اور اس کے لئے بیعنامہ بھی لکھا ہے اور اس پر گواہی بھی لے لی ہے تو اپنے ایک خط میں سرزنش و ملامت کرنے کے بعد تحریر فرمایا: میری ان باتوں کی گواہی وہ عقل دیگی جو خواہشات کی قید سے آزاد اور دنیا کی وابستگی سے محفوظ ہے ۔
٦٦١۔ امام علی (ع): جو شخص کسی چیز کاعاشق ہو جاتا ہے وہ اسے اندھا بنا دیتی ہے اور اس کے دل کو بیمار کر دیتی ہے : وہ دیکھتا بھی ہے توغیرسالم آنکھوںسے اور سنتا بھی ہے تو نہ سننے والے کانوںسے ، خواہشات نے ان کی عقلوں کو پارہ پارہ کر دیا ہے اور دنیا نے ان کے دلوںکو مردہ بنا دیا ہے ۔
٦٦٢۔ امام علی (ع): عقل چھپانے والا پردہ ہے اور فضیلت ظاہری جمال ، لہذا اپنے اخلاق کے نقائص کو اپنی فضیلت کے ذریعہ چھپاؤ، اور اپنی خواہشات کو عقل کے ذریعہ موت کے گھاٹ اتار دو تاکہ تمہاری دوستی سالم اور محبت آشکار ہو جائے۔
٦٦٣۔ امام علی (ع): خواہشات نفس اور شہوت سے عقل برباد ہو جاتی ہے۔
٦٦٤۔ امام علی (ع): عقل اور شہوت دونوں ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتی ہیں۔
٦٦٥۔ امام علی (ع): شہوت کے ساتھ عقل نہیں ہو سکتی۔
٦٦٩۔ امام علی (ع): جو اپنی شہوت کامالک نہیں ہے وہ اپنی عقل کابھی مالک نہیںہے۔
٦٦٧۔ امام علی (ع): خواہشات کی مخالفت کے مانند کوئی عقلمندی نہیں۔
٦٦٨۔ امام علی (ع): خواہشات نفسانی بیدار ہے اور عقل سوئی ہوئی ہے ۔

٦/٢
گناہ
٦٦٩۔ رسول خدا(ص): جو شخص گناہ کا مرتکب ہوتا ہے ، عقل اسے چھوڑ کر چلی جاتی ہے پھر اسکی طرف کبھی نہیں پلٹتی۔

٦/٣
دل پر مہرلگنا
قرآن
( جو لوگ آیات الہی میں بحث کرتے ہیں بغیر اس کے کہ ان کے پاس خدا کی طرف سے کوئی دلیل آئے وہ اللہ اور صاحبان ایمان کے نزدیک سخت نفرت کے حقدار ہیں اور اسی طرح ہر مغروروسرکش انسان کے دل پر مہر لگا دیتا ہے )
( اسکے بعد ہم نے مختلف رسول انکی قوم کی طرف بھیجے اور وہ انکے پاس کھلی ہوئی نشانیاں لیکر آئے لیکن وہ لوگ پہلے کے انکار کرنے کی بنا پر انکی تصدیق نہ کر سکے اور ہم اسی طرح ظالموں کے دل پر مہر لگا دیتے ہیں)
( بیشک اسی طرح خدا ن لوگوں کے دلوںپر مہر لگا دیتا ہے جو علم رکھنے والے نہیں ہیں)
(یہ وہ بستیاں ہیں جنکی خبریں ہم آپ سے بیان کر رہے ہیں کہ ہمارے پیغمبر انکے پاس معجزات لیکر آئے، مگر پہلے سے تکذیب کرنے کی بنا پر یہ ایمان نہ لا سکے ہم اسی طرح کا فروںکے دلوں پر مہر لگا دیا کرتے ہیں)

حدیث
٦٧٠۔ رسول خدا(ص): مہر ستون عرش پر آویزاں ہے ، لہذا جب ہتک حرمت کی جاتی ہے ، گناہوں کا ارتکاب ہوتا ہے اور خدا کے متعلق لا پروائی رواج پاتی ہے تو خدا مہر کو ابھارتا ہے اور اس کے دل پر مہر لگا دیتا ہے پھر اس کے بعد وہ کوئی چیزنہیں سمجھتا ہے ۔
٦٧١۔ رسول خدا(ص): طمع کو اپنا شعار قرار دینے سے پرہیز کرو چونکہ طمع دل کو شدید حرص سے مخلوط اور حب دنیا کی مہر دلوں پر لگادیتی ہے ۔
٦٧٢۔ امام حسین (ع): جب عمر ابن سعد نے اپنے سپاہیوں کو امام حسین (ع) سے جنگ کےلئے آمادہ کیا اور حضرت کو ہر جانب سے حلقہ کی صورت میں گھیر لیا!توامام حسین (ع) خیمہ سے بر آمد ہوئے اور لوگوں کے سامنے آئے، انہیں خاموش ہونے کو کہا لیکن وہ چپ نہ ہوئے تو فرمایا:وائے ہوتم پر! اگر تم خاموش ہو کر میری باتوں کو سنو تو تمہارا کیا نقصان ہے! میں تمہیں راہ ہدایت کی دعوت دیتا ہوں......تم سب میری نافرمانی کر رہے ہو اور میری بات نہیں سنتے؛ یقینا تمہارے پیٹ حرام سے پر ہیں اور تمہارے دلوں پر مہر لگا دی گئی ہے ۔
٦٧٣۔ امام باقر(ع): نے خدا کے قول( ان کے پاس ایسے دل ہیںکہ جنکے ذریعہ نہیں سمجھتے) کی تفسیر کے متعلق فرمایا: خدا نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے لہذا کچھ نہیں سمجھتے۔

٦/٤
آرزو
٦٧٤۔ امام علی (ع): یاد رکھو! کہ آرزو عقل کو فراموشی سے دو چار اور یاد خدا سے غافل بنا دیتی ہے ۔
٦٧٥۔امام علی (ع): بیشک آرزو عقل کو برباد اور وعدوں کی تکذیب کرتی ہے ، نیز غفلت پر ابھارتی اور حسرت کا باعث ہوتی ہے ۔
٦٧٦۔ امام علی (ع): جس کی آرزو طولانی ہے وہ عقلمند نہیں۔

٦/٥
تکبر
٦٧٧۔ امام علی (ع): عقل کی بدترین آفت تکبر ہے ۔
٦٧٨۔ امام باقر(ع): تکبر کسی شخص کے دل میں پیدا نہیں ہو سکتا مگر یہ کہ تکبر کے تناسب سے اسکی عقل گھٹ جاتی ہے چاہے کم ہو یا زیادہ۔

٦/٦
فریب
٦٧٩۔ امام علی (ع):کسی کے فریب میں آنا ہے عقل کی بربادی
٦٨٠۔ امام علی (ع): عقلمند فریب میں نہیں آتا۔
٦٨١۔ امام علی (ع): اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو کہ جس طرح وہ صاحب عقل ڈرتاہے جس کے دل کو فکر آخرت نے مشغول کر لیاہو.....اور فریب کے بھندوں میں نہ پھنسا ہو۔

٦/٧
غیظ و غضب
٦٨٢۔ امام علی (ع): غیظ و غضب عقل کو تباہ اور حقیقت سے دور کرتا ہے ۔
٦٨٣۔ امام علی (ع): وہ شخص جوغضب و شہوت سے مغلوب ہے اسے عاقل تصور کرنا مناسب نہیں ہے۔
٦٨٤۔ امام علی (ع): تعصب نفس، غیظ و غضب کی شدت، ہاتھ سے حملہ اور زبان کی تیزی پر قابو رکھو۔ ان تمام کا تحفظ تیزی میںتاخیر اور حملہ سے پرہیز کے ذریعہ کرو تاکہ تمہارا غضب کم ہو جائے اور تمہاری عقل تمہاری طرف پلٹ آئے۔
٦٨٥۔ امام علی (ع): غیظ و غضب اور شہوت کے سبب بیمار ہونے والی عقل حکمت سے فیضیاب نہیں ہوتی۔
٦٨٦۔ امام علی (ع): جو شخص اپنے غیظ و غضب پر قابو نہیںرکھتا وہ اپنی عقل کا مالک نہیں ہے۔

٦/٨
حرص و طمع
٦٨٧۔ امام علی (ع): عقلوں کی تباہی کی بیشتر منزلیں حرص و طمع کی چمک دمک کے ماتحت ہیں۔
٦٨٨۔ امام کاظم (ع): نے ہشام بن حکم ۔ سے فرمایا: اے ہشام! حرص و طمع سے پرہیز کرو، جو کچھ لوگوںکے پاس ہے اس سے نا امید رہو، اور ان کی طرف سے لالچ کو ختم کر دو کیونکہ لالچ ذلت کی کنجی ، عقل کی تباہی، دلیری کا زوال، آبرو کی آلودگی اور علم کی پامالی ہے......

٦/٩
خود پسندی
٦٨٩۔ امام علی (ع): انسان کا خودپسندی میں مبتلا ہو جانا خود اپنی عقل سے حسد کرنا ہے ۔
٦٩٠۔ امام علی (ع): انسان کی خود بینی ، عقل کی کمزوری کی دلیل ہے ۔
٦٩١۔ امام علی (ع): انسان کی خودبینی کم عقلی کی دلیل او ر ضعف عقل کی نشانی ہے ۔
٦٩٢۔ امام علی (ع): خود بینی عقل کو تباہ کر دیتی ہے ۔
٦٩٣۔ امام علی (ع): عقل کی آفت خود بینی ہے ۔
٦٩٤۔ امام علی (ع): خود بینی صواب و درستی کی ضد اور عقلوں کی آفت ہے ۔
٦٩٥۔ امام علی (ع):خود پسندعقل نہیں رکھتا۔
٦٩٦۔ امام علی (ع): انسان کا خود پسند ہونا اسکی سبک عقلی کی دلیل ہے ۔
٦٩٧۔ امام علی (ع): جو شخص اپنے کام سے خوش ہوتا ہے اسکی عقل بیمارہے ۔
٦٩٨۔ امام علی (ع):جس شخص کو اپنی ہی بات بھلی لگتی ہے اس کا عقل سے واسطہ نہیں ہوتا۔
٦٩٩۔ امام علی (ع): خود پسند ہونا، عقل کی تباہی کی نشانی ہے ۔

٦/١٠
عقل سے بے نیاز ہونا
٧٠٠۔ امام علی (ع): نے اپنے بیٹے امام حسین کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا: جواپنی عقل سے بے نیازہوا وہ گمراہ ہو گیا۔
٧٠١۔ امام علی (ع): اپنی عقل کو متہم قرار دو ، چونکہ اس پر اعتماد خطاء کا سرچشمہ ہے ۔

٦/١١
حب دنیا
٧٠٢۔ امام علی (ع): عقل کی تباہی کا سبب حب دنیا ہے ۔
٧٠٣۔ امام علی (ع): حب دنیا، عقل کو تباہ اور دل کو حکمت سننے سے تھکادیتی ہے اور درد ناک عذاب کا باعث ہوتی ہے ۔
٧٠٤۔ امام علی (ع): دنیا کی زیبائی ، کمزور عقلوںکو تباہ کر دیتی ہے ۔
٧٠٥۔ امام علی (ع): دنیا عقلوںکی بربادی کی منزل ہے ۔
٧٠٦۔ امام علی (ع): دنیا سے گریز کرو اور اپنے دلوںکو اس سے بازرکھو، اس لئے کہ دنیا مومن کے لئے قید خانہ ہے اس میں اس کا حصہ کم ہے مومن کی عقل اس کے سبب علیل اور اس میں اس کی نگاہ کمزور ہے ۔
٧٠٧۔ امام علی (ع):نے اہل دنیا کی توصیف میںفرمایا: یہ سب چوپائے ہیں جن میں سے بعض بندھے ہوئے ہیں اور بعض آوارہ ۔ جنہوںنے اپنی عقلیں گم کر دی ہیں اور نا معلوم راستہ پر چل پڑے ہیں۔
٧٠٨۔ امام علی (ع): نے اپنے اصحاب کو مخاطب کرکے فرمایا: حیف ہے تمہارے حال پر، میں تمہیں ملامت کرتے کرتے تھک گیا، کیا تم لوگ واقعا آخرت کے عوض زندگانی دنیا پر راضی ہو گئے اور تم نے ذلت کو عزت کا بدل سمجھ لیا ہے ؟ جب میں تمہیں دشمن سے جہاد کی دعوت دیتا ہوں تو تم آنکھیں پھیر نے لگتے ہو، جیسے موت کی بیہوشی طاری ہو اور غفلت کے نشہ میں مبتلا ہو، تم پر جیسے میری گفتگو کے دروازے بند ہو گئے ہیں کہ تم گمراہ ہوتے جا رہے ہو اور تمہارے دلوں پر دیوانگی کا اثر ہو گیا ہے کہ تمہاری سمجھ ہی میں کچھ نہیں آرہا ہے ۔
٧٠٩۔ عبد اللہ بن سلام: خدا وند توریت میں فرماتا ہے: بیشک قلوب حب دنیا سے وابستہ ہیں اور عقلوں پر میرے لئے پردہ پڑا ہوا ہے ۔
٧١٠۔ الاختصاص: خدا نے جناب داؤد سے فرمایا: اے داؤد! شہوات دنیا سے وابستہ دلوں سے بچو کہ ان کی عقلوں پر میرے لئے پردہ پڑا ہوا ہے ۔

٦/١٢
مے کشی
٧١١۔ امام علی (ع): خدا نے شراب خوری کے ترک کو عقل کی حفاظت کے لئے واجب کیا ہے ۔
٧١٢۔ امام علی (ع): خدا نے شراب کو حرام کیا ہے ، اس لئے کہ اس میں تباہی ہے، اور شراب خوروںکی عقلوںکو تبدیل کر دیتی ہے ، نیز انکار خداا ور اللہ اور اس کے رسولوںپربہتان، دوسری تباہیوں اور قتل کا موجب ہے ۔

٦/١٣
پانچ چیزوں کی مستی
٧١٣۔ امام علی (ع): مناسب ہیکہ عقلمند خود کو مال کی مستی ، قدرت کی مستی ، علم کی مستی ، مدح و تعریف کی مستی اور جوانی کی مستی سے محفوظ رکھے؛ کیوں کہ یہ سب ناپاک بدبودار ہوائیںہیں کہ عقل کو سلب کرتی اور وقار کو سبک بناتی ہیں۔

٦/١٤
زیادہ لہوو لعب
٧١٤۔ امام علی (ع): جو زیادہ لہو و لعب میں مبتلا ہوتا ہے اسکی عقل کم ہو جاتی ہے ۔
٧١٥۔ امام علی (ع): جو شخص کھیل کا عاشق اور عیش و نشاط کا شیدائی ہوتا ہے ، عقلمند نہیں ہے ۔
٧١٦۔ امام علی (ع): عقل کھیل کو د سے نتیجہ خیز نہیں ہوتی ہے۔
٧١٧۔ امام علی (ع): جس شخص پر ہنسی مذاق کا غلبہ ہوتا ہے اسکی عقل تباہ ہو جاتی ہے ۔
٧١٨۔ امام علی (ع): جو شخص زیادہ ہنسی مذاق میں مبتلا رہتا ہے اسکی بیہودگی بڑھ جاتی ہے ۔

٦/١٥
بیکاری
٧١٩۔ امام صادق(ع): ترک تجارت عقل کو کم کر دیتا ہے ۔
٧٢٠۔ امام صادق(ع): ترک تجارت عقل کو زائل کر دیتا ہے ۔
٧٢١۔ فضیل اعور : کا بیان ہے کہ ، میں نے دیکھا کہ معاذ بن کثیر نے امام صادق(ع) سے عرض کیا: میں مالدار ہو چکا ہوں لہذا تجارت کو چھوڑنا چاہتا ہوں! امام نے فرمایا: اگر تم نے ایسا کیا تو تمہاری عقل کم ہو جائیگی۔( یا اس کے مانند امام نے کوئی جملہ کہا ہے)
٧٢٢۔ کپڑے فروش معاذ: کا بیان ہے کہ امام صادق(ع) نے مجھ سے فرمایا: اے معاذ! کیا تجارت کرنے کی توانائی نہیں رکھتے یا اس سے بے رغبت ہو گئے ہو؟! میں نے عرض کیا نہ ناتواں ہو ا ہوں اور نہ ہی اس سے اکتایا ہوںفرمایا: پھرکیا وجہ ہے ؟ میں نے عرض کیا: آپ کے حکم کا منتظر تھا، جب ولید قتل ہوا اس وقت میرے پاس کافی مال تھا اور کسی کی کوئی چیز میرے پاس نہیں تھی ، اور گمان کرتا ہوں کہ تا زندگی کھاؤ نگا اور ختم نہیںہوگا، پس فرمایاتجارت نہ چھوڑوکیونکہ بیکاری عقل کو زائل کر دیتی ہے ، اپنے اہل و عیال کے لئے کوشش کرو؛ ایسا نہ کرو کہ وہ تمہاری بد گوئی کریں۔
٧٢٣۔ اسباط بن سالم(ہندوستانی کپڑے بیچنے والے) کا بیان ہے کہ ایک روز امام صادق ؑ نے کھدر کے کپڑے فروخت کرنے والے معاذ کے متعلق سوال کیا اور میں بھی وہاں موجود تھا، کہا گیا: کہ معاذ نے تجارت چھوڑ دی ہے ، امام نے فرمایا! شیطان کا عمل ہے؛ شیطان کا عمل ہے ؛ یقینا جو شخص تجارت کو چھوڑ دیتا ہے اسکی دو تہائی عقل زائل ہو جاتی ہے ۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ جب شام سے قافلہ پہنچا تو رسول خدا(ص) نے ان سے خریداری کی اور ان سے تجارت کی اور فائدہ حاصل کیا اور اپنے قرض کو ادا فرمایا۔

٦/١٦
زیادہ طلبی
٧٢٤۔ امام علی (ع):ضرورت سے زیادہ طلب کرنے کے سبب عقلیں ضائع ہو جاتی ہیں۔

٦/١٧
نادان کی ہمنشینی
٧٢٥۔ امام علی (ع): جو شخص نادان کی ہمنشینی اختیار کرتا ہے اسکی عقل کم ہو جاتی ہے ۔
٧٢٦۔ امام علی (ع): عقل کی نابودی کا سبب نادانوں کی ہمنشینی ہے ۔

٦/١٨
حد سے تجاوز کرنا
٧٢٧۔ امام علی (ع): جو اپنی حد اور حیثیت سے تجاوز کرتاہے عقلمند نہیں ہے ۔
٧٢٨۔ امام علی (ع): جو شخص اپنی بساط سے زیادہ قدم اٹھاتاہے عقلمند نہیںہے ۔

٦/١٩
بیوقوفوں سے مجادلہ
٧٢٩۔ امام علی (ع): جو شخص بیوقوفوں سے مجادلہ کرتا ہے عقلمند نہیں ہے ۔

٦/٢٠
عاقل کی بات پر کان نہ دھرنا
٧٣٠۔ امام علی (ع): جو شخص صاحبان عقل کی باتیں نہیں سنتا اسکی عقل مردہ ہو جاتی ہے ۔
٧٣١۔ امام کاظم (ع): نے ۔ہشام بن حکم ۔ سے فرمایا: اے ہشام! جو شخص تین چیزوں کو تین چیزوں پر مسلط کریگا، گویا اس نے اپنی عقل کی پامالی میںمدد کی ہے: جس نے طولانی آرزو کے سبب اپنے چراغ فکر کو بجھا دیا، جس نے حکمت کی خوبیوں کو فضول کلامی کے باعث محو کر دےا، اور جس نے اپنی شہوات نفسانی کے ذریعہ عبرت آموزی کے نور کو خاموش کر دےا ، تو گویا اس نے اپنی عقل کی تباہی میں اپنی ہوا و ہوس کی مدد کی اور جس نے اپنی عقل تباہی کی اسکی دنیاو دین دونوں برباد ہو جائیں گے ۔

٦/٢١
جنگلی جانور اور گائے کا گوشت
٧٣٢۔ امام رضا(ع): جنگلی جانوراور گائے کا گوشت زیادہ کھانے کے سبب عقل میں تبدیلی ، فہم میں حیرانی ، کند ذہنی اور بیشتر فراموشی پیدا ہو تی ہے ۔

ساتویں فصل عاقل کے فرائض

٧/١
عاقل کے واجبات
قرآن
(اے صاحبان عقل اللہ سے ڈرتے رہو شاید کہ تم اس طرح کامیاب ہو جاؤ)
( اے ایمان والو! اور عقل والو اللہ سے ڈرو کہ اس نے تمہاری طرف اپنے ذکر کو نازل کیا ہے )

حدیث
٧٣٣۔ رسول خدا(ص): چار چیزیں میری امت کے ہر عاقل و خرد مند پر واجب ہیں۔ دریافت کیا گیا، اے رسول خدا وہ چار چیزیں کیا ہیں: فرمایا: علم کا سننا، اس کا محفوظ رکھنا، نشر کرنا اور اس پر عمل کرنا۔
٧٣٤۔ رسول خدا(ص): عاقل وہ ہے جو خدا کی اطاعت کرتا ہے گرچہ بد صورت اور پست مقام رکھتا ہو۔
٧٣٥۔ رسول خدا(ص): جب عقل کے بارے میں پوچھا گیا۔ تو فرمایا: (عقل) طاعت خدا پر عمل ہے اور یقینا خدا کے احکام پر عمل کرنے والے ہی عقلمند ہوتے ہیں۔
٧٣٦۔ رسول خدا(ص): اپنے رب کی اطاعت کرو عقلمند کہے جاؤ گے اور معصیت نہ کرو کہ جاہل کہے جاؤ گے ۔
٧٣٧۔ امام علی (ع): عاقل وہ ہے جو اپنے پروردگار کی اطاعت کی خاطر اپنی خواہشات نفس کی مخالفت کرتا ہے ۔
٧٣٨۔ امام علی (ع): اگر خدائے سبحان نے اپنی طاعت کی ترغیب نہ بھی کی ہوتی تو بھی وہ مستحق تھا کہ اسکی رحمت کی امید سے اسکی طاعت کی جائے ۔
٧٣٩۔ امام علی (ع)؛ آپ سے منسوب کلمات قصارمیں ہے۔ عقلمند پر لازم ہے کہ حکمت کے ذریعہ عقل کو زندہ کرنے کےلئے زیادہ کوشاں رہے ان غذاؤں کی نسبت کہ جن سے اپنے جسم کو زندہ رکھتا ہے ۔
٧٤٠۔ امام علی (ع): اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو! اسطرح جسطرح وہ صاحب عقل ڈرتا ہے جسکے دل کو فکر آخرت نے مشغول کر لیا ہو اور اسکا بدن خوفِ خدا سے خستہ حال ہے اور شب داری نے اسکی بچی کھچی نیند کو بھی شب بیداری میں بدل دیا ہو اور امیدوںنے اسکے دل کی تپش کو پیاس میں گذار دیا ہو ۔اور زہد نے اسکے خواہشات کو پیروں تلے روند دیا ہو اور ذکر خدا اسکی زبان پر تیزی سے دوڑ رہا ہو اور اس نے قیامت کے امن و امان کےلئے یہی خوف کا راستہ اختیار کر لیاہو اور سیدھی راہ پر چلنے کےلئے ٹیڑھی راہوں سے کترا کر چلا ہو اور مطلوب راستے تک پہنچنے کےلئے درمیانی راستہ اختیار کیا ہو،۔ نہ خوش فریبیوں نے اس میں اضطراب پیدا کیا ہو اور نہ مشتبہ امور نے اسکی آنکھوںپر پردہ ڈالا ہو، بشارت کی مسرت اور نعمتوںکی راحت بہترین نیند اور پر امن ترین دن میں حاصل کر لی ہو۔
دنیا کی گذر گاہ سے قابل تعریف انداز سے گذر جائے اور آخرت کا زاد راہ نیک بختی کے ساتھ آگے بھیج دے وہاںکے خطرات کے پیش نظر عمل میں سبقت کی اور مہلت کے اوقات میں تیز رفتاری سے قدم بڑھایا، طلب آخرت میں رغبت کےساتھ آگے بڑھا اور برائیوں سے مسلسل فرار کرتا رہا۔ آج کے دن کل پر نگاہ رکھی، اور ہمیشہ اگلی منزلوںکو دیکھتا رہا۔
لہذا یقینا ثواب و عطا کےلئے جنت اور عذاب و وبال کےلئے جہنم سے بالا تر کیا ہے اور پھر خدا سے بہتر مدد کرنے والا اور انتقام لینے والا کون ہے اور قرآن کے علاوہ حجت اور سند کیا ہے ۔

٧/٢
عاقل کے لئے حرام اشیائ
قرآن
(کہدیجئے کہ آؤ ہم تمہیں بتائیں کہ تمہارے پروردگار نے کیا کیا حرام کیا ہے ، خبردار کسی کو اسکا شریک نہ بنانا اور ماں باپ کےساتھ اچھا برتاؤ کرنا اپنی اولاد کو غربت کی بنا پر قتل نہ کرنا کہ ہم تمہیں بھی رزق دے رہے ہیں اور انہیں بھی، اور بدکاریوں کے قریب نہ جانا وہ ظاہرہوں یا چھپی ہوئی اور کسی ایسے نفس کو جسے خدا نے حرام کر دیا ہے قتل نہ کرنا مگر یہ کہ تمہارا کوئی حق ہو، یہ وہ باتیں ہیں جنکی خدا نے تمہیں نصیحت کی ہے تاکہ تمہیں عقل آجائے)

حدیث
٧٤١۔ امام علی (ع): اگر خدا نے محرمات سے روکا نہ بھی ہوتا تو بھی وہ مستحق تھا کہ عقلمند ان سے اجتناب کرے۔
٧٤٢۔ امام علی (ع): اگر خدا نے اپنی نافرمانی پر عتاب کا وعدہ نہ بھی کیا ہوتا تو بھی وہ مستحق تھا کہ شکر نعمت کے عنوان سے اسکی نافرمانی نہ کی جائے ۔
٧٤٣۔ امام علی (ع): منعم کم از کم جس چیز کا استحقاق رکھتا ہے وہ یہ ہےکہ اسکی نعمتوں کے سبب اسکی نافرمانی نہ کی جائے۔
٧٤٤۔ امام علی (ع): گناہوں سے پرہیزعقلمندوںکی صفت اور بزرگواروںکی عادت ہے ۔
٧٤٥۔ امام علی (ع): عقلمند وہ ہے جو گناہوںسے دور اور لغزشوں سے پاک ہوتاہے ۔
٧٤٦۔ امام علی (ع): عقلمند کی کوشش گناہوں کے ترک اور عیوب کی اصلاح کے لئے ہوتی ہے ۔
٧٤٧۔ امام علی (ع): عقل برائیوں سے پاک کرتی ہے اور نیکیوں کا حکم دیتی ہے۔
٧٤٨۔ امام علی (ع): عاقل جھوٹ نہیں بولتا اور مومن زنا کا ارتکاب نہیں کرتا۔
٧٤٩۔ امام علی (ع): فطرت عقل برے کاموں سے روکتی ہے ۔
٧٥٠۔ امام علی (ع): عقلمندی کی نشانی اسراف سے اجتناب اور اچھی تدبیرہے ۔
٧٥١۔ امام علی (ع): دور اندیشی کے لئے اسکی عقل کی بدولت پستیوں سے ایک باز رکھنے والا ہوتا ہے ۔
٧٥٢۔ امام علی (ع): عقل کی اساس، پاکدامنی اور اس کا پھل گناہوں سے بیزاری ہے ۔
٧٥٣۔ امام علی (ع): دلوں کے لئے برے خیالات ہیں لیکن عقلیں دلوں کوان سے باز رکھتی ہیں۔
٧٥٤۔ امام علی (ع): نفوس آزاد ہیں لیکن عقلیں انہیں آلودگیوں سے باز رکھتی ہیں۔
٧٥٥۔ امام علی (ع): عقلمند جھوٹ نہیں بولتا چاہے اس کے فائدہ ہی میں ہو۔

٧/٣
عاقل کے لئے مناسب اشیائ
٧٥٦۔ رسول خدا(ص): عاقل اگر عاقل ہے تو اسے چاہئے کہ اپنے دن کے اوقات کو چار حصوں میں تقسیم کرے: ایک حصہ میں ، اپنے پروردگار سے مناجات کرے، ایک حصہ میں اپنے نفس کا محاسبہ کرے، ایک حصہ میںایسے صاحبان علم کے پاس جائے جو اسے دین سے آشنا اور نصیحت کریں اور ایک حصہ کو اپنے نفس اور دنیا کی حلال و حسین لذتوںکے لئے مخصوص کرے۔
٧٥٧۔ ابو ذر غفاری: میں نے پوچھا اے رسول خدا: صحف ابراہیم میں کیا تھا؟ فرمایا: اس میں امثال اور عبرتیں تھیں: اگر عقلمند کی عقل مغلوب نہیں ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ اپنی زبان کی حفاظت کرے ، اپنے زمانہ سے واقفیت رکھے اور اپنے کام کی طرف متوجہ رہے ، یقینا ہر وہ شخص جس کا کلام اس کے عمل کے مطابق ہوتاہے تو وہ کم سخن ہو جاتاہے مگر یہ کہ جو اس سے مربوط ہو۔
٧٥٨۔ رسول خدا(ص): مناسب ہے کہ عاقل تین چیزوںکے علاوہ گھر سے باہر قدم نہ نکالے: کسب معاش کےلئے، یا آخرت کے لئے یا غیر حرام سے لذت کے لئے۔
٧٥٩۔ رسول خدا(ص):نے علی (ع): کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا:اے علی ! مناسب نہیں ہے کہ عاقل تین چیزوںکے علاوہ گھر سے قدم نکالے : کسب معاش کے لئے ، قیامت کے لئے زادراہ مہیا کرنے کے لئے اورغیر حرام سے لذت اندوزی کے لئے ۔
٧٦٠۔ رسول خدا(ص): عاقل کے لئے ضروری ہے کہ اپنے زمانہ سے آگاہی رکھتا ہو۔
٧٦١۔ امام علی (ع): نے ۔ اپنے بیٹے اما م حسن ؑ۔ کو وصیت کرتے ہوئے ۔ فرمایا: بیٹا! عاقل کے لئے ضروری ہے کہ اپنے موقع کی نزاکت کو دیکھے۔ اپنی زبان کی حفاظت کرے اور اہل زمانہ کو پہچانے۔
٧٦٢۔ امام صادق(ع): فرماتے ہیں کہ حکمت آل داؤدمیں ہے عقلمند کےلئے لازم ہےکہ وہ اپنے زمانہ سے واقف ہو، اپنی حیثیت کی طرف متوجہ ہو اور اپنی زبان پر قابو رکھے۔
٧٦٣۔ رسول خدا(ص): خدا پر ایمان کے بعدعقل کا سرمایہ ، حیا اور حسن اخلاق ہے ۔
٧٦٤۔ رسول خدا(ص):خدا پر ایمان کے بعد عقل کا سرمایہ لوگوںسے اظہار محبت ہے ۔
٧٦٥۔ رسول خدا(ص): دین کے بعد عقل کاسرمایہ لوگوںکے ساتھ اظہار محبت اور ہر اچھے اور برے کے ساتھ نیکی کرنا ہے ۔
٧٦٦۔ رسول خدا(ص): عقل کی اساس مہربانی کرنا ہے ۔
٧٦٧۔ رسول خدا(ص): خدا پر ایمان کے بعد عقل کا سرمایہ لوگوںکے ساتھ مہربانی کرنا ہے مگر یہ کہ کوئی حق ضائع نہ ہو۔
٧٦٨۔ امام علی (ع): عقل کا سرمایہ کاموں میں اطمینان ہے اور حماقت کا سرمایہ عجلت پسندی ہے ۔
٧٦٩۔ اما م حسن ؑ: عقل کا سرمایہ لوگوںکے ساتھ حسن ِ معاشرت ہے ۔
٧٧٠۔ امام علی (ع): عقل کا سرمایہ خواہشات نفسانی سے جہاد ہے ۔
٧٧١۔ امام علی (ع): عقل کے ذریعہ خواہشات نفسانی کا مقابلہ کرو۔
٧٧٢۔ امام علی (ع): جس شخص کی عقل اسکی خواہشات پر غالب آگئی وہ کامیاب ہو گیا۔
٧٧٣۔ امام علی (ع): جس شخص کی عقل اسکی شہوت پراور بردباری اس کے غیظ و غضب پر غالب آجائے تو وہ حسن سیرت کا مستحق ہے ۔
٧٧٤۔ امام علی (ع): غیظ و غضب کا خاموشی کے سبب اور شہوت کا عقل کے ذریعہ علاج کرو۔
٧٧٥۔ امام علی (ع): خواہشات نفسانی کو اپنی عقل کے ذریعہ قتل کر دو تاکہ ہدایت یافتہ ہو جاؤ۔
٧٧٦۔ امام علی (ع): بردباری چھپانے والا پردہ ہے اورعقل شمشیر براں ہے ، لہذا اپنے اخلاق کی کمیوںکو بردباری سے چھپاؤ اور خواہشات کو عقل کے ذریعہ قتل کردو۔
٧٧٧۔ امام علی (ع): خبردار، خبردار، اے سننے والو!کوشش، کوشش، اے عقلمندو! آگاہ شخص کے مانند تمہیں کوئی خبر نہیںدے سکتا۔
٧٧٨۔ امام علی (ع): لہو و لعب میں مبتلا عاقل ہدایت تک نہیں پہنچتا لیکن کوشش اور جد و جہد کرنے والا پہنچتا ہے ۔
٧٧٩۔ امام علی (ع): ضروری ہے کہ عاقل قیامت کے لئے کوشش کرے اور زیادہ سے زیادہ توشہ فراہم کرے۔
٧٨٠۔ امام علی (ع): عاقل کے لئے سزاوار ہے کہ ہمیشہ رہنمائی کا خواہاں ہو اور خود رائی ترک کر دے۔
٧٨١۔ امام علی (ع): مناسب ہے کہ عاقل کسی بھی حالت میں اطاعت پروردگار اور جہاد بالنفس سے دستبردار نہ ہو۔
٧٨٢۔ امام علی (ع): عاقل کے لئے ضروری ہے کہ اپنے مال کے سبب تعریف حاصل کرے اور خود کو سوال سے محفوظ رکھے۔
٧٨٣۔ امام علی (ع): عاقل کے لئے سزاوار ہے کہ علماء اور ابرار کی ہمنشینی زیادہ سے زیادہ اختیار کرے ، اور اشرار و فجار کی ہمنشینی سے پرہیز کرے۔
٧٨٤۔ امام علی (ع): عاقل کے لئے ضروری ہے کہ جب تعلیم دے تو سختی سے پیش نہ آئے اور جب تحصیل کرے تو لاپروائی نہ کرے۔
٧٨٥۔ امام علی (ع): عاقل کے لئے ضروری ہے کہ جب جاہل کو خطاب کرے تو اس طرح کرے جیسے طبیب، مریض سے کرتاہے ۔
٧٨٦۔ امام علی (ع): عاقل کے لئے ضروری ہے کہ اپنے چہرے کو آئینہ میں دیکھے اگر حسین ہے تو اس کے ساتھ قبیح عمل کو مخلوط نہ کرے کہ حسن و قبیح یک جا ہو جائیں ، اور اگر قبیح ہو ، تو بھی قبیح عمل انجام نہ دے کہ دو قبیح یک جا ہو جائیں گے۔
٧٨٧۔ امام علی (ع): عاقل کے لئے ضروری ہے کہ جب کسی مصیبت میں گرفتار ہو جائے تو صبرکرے یہاں تک کہ اس کا وقت گذر جائے، چونکہ اس کا وقت گذرنے سے قبل اس کے دور کرنے کی کوشش مزید رنج کا باعث ہوگی ۔
٧٨٨۔ امام علی (ع): ضروری ہے کہ انسان کا علم اس کے نطق سے زیادہ ہو اور اسکی عقل اسکی زبان پر غالب ہو۔
٧٨٩۔ امام علی (ع): آ پ سے منسوب کلمات قصارمیںہے ، عاقل کے لئے ضروری ہے کہ ضرورت کے وقت نرمی سے پیش آئے اور ہر زہ سرائی سے پرہیز کرے۔
٧٩٠۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصارمیںہے ۔ عاقل کے لئے سزاوار ہے کہ غذا کی لذت کے وقت دوا کی تلخی کو یاد کرے۔
٧٩١۔امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصارمیں ہے ۔ عاقل کے لئے ضروری ہے کہ اپنی نیکی و خوبی کو جاہل، پست اور بیوقوفوں کے سپرد نہ کرے، اس لئے کہ جاہل خوبی کو نہیں پہچانتا اور نہ ہی اس کا شکر کرتا ہے ۔
٧٩٢۔امام صادق(ع): عاقل کے لئے ضروری ہیکہ سچا ہو تاکہ اس کے قول پر اعتماد کیا جائے اور شکر گذار ہو تاکہ شکر فراوانی (نعمت) کا موجب ہو۔
٧٩٣۔ امام علی (ع): عاقل کے لئے ہر کام میں نیکی ہے اور جاہل کے لئے ہر حالت میں خسارہ ہے ۔
٧٩٤۔ امام علی (ع): عاقل کے لئے ہر کام میں ریاضت ہے ۔
٧٩٥۔ امام علی (ع): عاقل کے لئے ہر کلمہ میں شرافت و فضیلت ہے ۔
٧٩٦۔ امام علی (ع): عاقل کے لئے ضروری ہے کہ دین ، رائے ، اخلاق اور ادب میں اپنی برائیوںکو شمار کرے اور انہیں اپنے سینہ یا ڈائری میں لکھے پھر ان کے ازالہ کی کوشش کرے۔
٧٩٧۔ امام صادق(ع): عاقل کے لئے علم و ادب کا سیکھنا ضروری ہے کیوں کہ اسی پر اس کا دار و مدار ہے۔
٧٩٨۔ امام صادق(ع): زیارت امام حسین (ع) میں ۔ فرماتے ہیں: بار الٰہا: بیشک میںگواہی دیتا ہوںکہ یہ قبر تیرے حبیب اور خلق میں تیرے برگزیدہ کے فرزند کی ہے ، وہ تیری کرامت کے سبب کامیاب ہیں ، تونے ان کواپنی کتاب کے ذریعہ مکرم کیا ہے ، تونے ان کو اپنی وحی کا امین شمار کیا ہے اور ان کو اس سے مخصوص کیا ہے ، تونے ان کو انبیاء کی میراث عطا کی ہے، اور ان کو اپنی مخلوق پر حجت قرار دیا ہے تو انہوںہے بھی اتمام حجت میں امت سے تمام عذر کو دور کر دیا اور تیری راہ میں اپنا خون بہایا تاکہ تیرے بندوں کو گمراہی و جہالت ، تاریکی اور شک و تردید سے نجات دیں اور تباہی و پستی سے ہدایات و روشنی کی طرف رہنمائی کریں۔
٧٩٩۔ امام صادق(ع): روز اربعین زیارت امام حسین (ع) میں۔ فرماتے ہیں: خدایا! میں گواہی دیتا ہوںکہ وہ تیرے دوست اور تیرے ولی کے فرزند اور تیرے برگزیدہ اور گزیدہ کے فرزند ہیں۔ تیری کرامت پر فائز ہیں، تونے انکو شہادت کے ذریعہ مکرم کیا ہے، اور انکو سعادت سے مخصوص کیا ہے ، انکو پاکیزگی ولادت کے ساتھ منتخب کیاہے، اور انکو سرداروں میں سے سردار بنا یا ہے، اور قائدوں میںسے قائد بنایا ہے ، اور اسلام سے دفاع کرنے والوں میں ایک بڑا دفاع کرنے والا بنایا ہے اور تونے انکو انبیاء کی میراث عطا کی ہے ، اور اپنے اوصیاء میں سے انکو اپنی مخلوق پر حجت قرار دیا ہے تو انہوںنے بھی اتمام حجت میں امت سے تمام عذر کو دور کر دیا اور امت کی نصیحت کو انجام دیا اور تیری راہ میں اپنا خون بہایا تاکہ تیرے بندوں کو جہالت اور گمراہی کی حیرانی سے نجات دیں۔
٨٠٠۔ امام کاظم (ع): عاقل کے لئے ضروری ہے کہ۔ جب کوئی کام انجام دے تو خدا سے شرم کرے اور جب نعمتوں سے سرشار ہو تو اپنے ساتھ اپنے علاوہ کسی اور کو شریک کرے۔
٨٠١۔امام رضا(ع): جو خدا کی معرفت رکھتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ خدا کو قضا و قدر میں متہم قرار نہ دے اور رزق دینے میں اس کو سست شمار نہ کرے۔

٧/٤
عاقل کے لئے نامناسب اشیائ
٨٠٢۔امام علی (ع): عاقل کے لئے سزاوار نہیں ہے کہ امید کی بنا پر خوشی کا اظہار کرے؛ کیوں کہ امید دھوکا ہے ۔
٨٠٣۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصارمیں ہے ۔ عاقل کے لئے مناسب نہیں ہے کہ دوسروں سے اپنی اطاعت کرائے جبکہ خوداسکا نفس اس کا مطیع نہ ہو۔
٨٠٤۔ امام علی (ع): عاقل کےلئے سزاوار نہیں ہے کہ جب راہ امن حاصل ہو جائے تو وہ خوف سے گوشہ نشینی اختیار کرے۔
٨٠٥۔ اما م علی (ع): تعجب ہے کہ عقلمند شہوت پر کس طرح نظر ڈالتا ہے کہ بعد میں اس کےلئے حسرت و ندامت کا باعث ہوتی ہے۔
٨٠٦۔ امام علی (ع): شریح بن حارث کے نام اپنے خط میں تحریر فرماتے ہیں۔ میںنے سنا ہے کہ تم نے اسّی دینار کا مکان خریدا ہے اور اس کے لئے بیعنامہ بھی لکھا ہے اور اس پر گواہی بھی لی ہے؟
اے شریح!عنقریب تیرے پاس وہ شخص آنے والا ہے جو نہ اس تحریر کو دیکھے گا اور نہ تجھ سے گواہوں کے بارے میں سوال کریگا بلکہ تجھے اس گھر سے نکال کر تنِ تنہا قبر کے حوالے کر دیگا۔اگر تم نے یہ مکان دوسرے کے مال سے خریدا ہے اور غیر حلال سے قیمت اداکی ہے تو تمہیں دنیا و آخرت دونوں میں خسارہ ہوا ہے ۔یاد رکھو! اگر تم اس مکان کو خریدتے وقت میرے پاس آتے اور مجھ سے دستاویز لکھواتے تو ایک درہم میں بھی خریدنے کے لئے تیار نہ ہوتے۔ اسی دینار تو بہت بڑی بات ہے ، میں اسکی دستاویز اس طرح لکھتا: یہ وہ مکان ہے جسے ایک بندہ ذلیل نے اس مرنے والے سے خرید ا ہے جسے کوچ کے لئے آمادہ کر دیا گیا ہے ، یہ مکان دنیائے پر فریب میں واقع ہے جہاں فنا ہونے والوں کی بستی ہے اور ہلاک ہونے والوں کا علاقہ ہے ۔ اس مکان کے حدود اربعہ یہ ہےں؛ ایک حد اسباب آفات کی طرف ہے اور دوسری اسباب مصائب سے ملتی ہے ۔ تیسری حد ہلاک کر دینے والی خواہشات کی طرف ہے اور چوتھی گمراہ کرنے والے شیطان کی طرف اور اسی طرف اس گھر کا دروازہ کھلتا ہے ۔ اس مکان کو امیدوں کے فریب خوردہ نے اجل کے راہ گیر سے خریدا ہے ، جس کے ذریعہ قناعت کی عزت سے نکل کر طلب و خواہش کی ذلت میں داخل ہو گیا ہے ۔ اب اگر اس خریدار کو اس سو دے میں کوئی خسارہ ہوا تو یہ اس ذات کی ذمہ داری ہے جو بادشاہوں کے جسموںکا تہہ و بالا کرنے والا ۔ جابروںکی جان نکال لینے والا۔ فرعونوں کی سلطنت کو تباہ کر دینے والا، کسریٰ، قیصر، تبع اور حِمیر اورزیادہ سے زیادہ مال جمع کرنے والوں ، مستحکم عمارتیں بنا کر انہیں سجانے والوں ، ان میں بہترین فرش بچھانے والوں اور اولاد کے خیال سے ذخیرہ کرنے والوں اور جاگیر بنانے والوںکو فنا کے گھاٹ اتار دینے والا ہے۔ کہ ان سب کو قیامت موقف حساب اور منز ل ثواب عذاب میں حاضر کر دے جب حق و باطل کا حتمی فیصلہ ہوگا'' اور اہل باطل یقینا خسارہ میںہوں گے'' میری ان باتوں کی گواہی اس عقل نے دی ہے جو خواہشات کی قید سے آزاد اور دنیا کی وابستگیوں سے محفوظ ہے''۔
٨٠٧۔ امام صادق(ع): تین چیزیں ایسی ہیں کہ عاقل کو انہیں ہر گز فراموش نہیں کرنا چاہئے:
دنیا کی بے ثباتی، حالات کی تبدیلی اور وہ آفات کہ جن سے اماں نہیں۔