چوتھی فصل
عقل کے رشد کے اسباب
٤/١
عقل کی تقویت کے عوامل
الف۔ وحی
( اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے برہان آچکاہے اور ہم نے تم پر روشن نور بھی نازل کر دیا ہے )
(اللہ صاحبان ایمان کا ولی ہے وہ تاریکیوں سے نکا لکر روشنی میں لے آتا ہے اور کفار کے ولی طاغوت ہیں جو انہیں روشنی سے نکال کر اندھروں میں لے جاتے ہیں۔ یہی تو جہنمی ہیں اور وہاں ہمیشہ رہنے والے ہیں)
(بیشک ہم نے تمہاری طرف وہ کتاب نازل کی ہے جس میں خود تمہارا بھی ذکر ہے تو کیا تم اتنی بھی عقل نہیں رکھتے ہو)
ملاحظہ کریں:بقرہ :٢٤٢، نور: ٦١، یوسف:٢، زخرف:٣
حدیث
٢٠١۔ امام علی (ع): پروردگار نے ان کے درمیان رسول بھیجے ، انبیاء کا تسلسل قائم کیا تاکہ وہ ان سے فطرت کے عہد و پیمان پورے کرائیںاور انہیں بھولی ہوئی نعمت پروردگار کو یاد دلائیں، تبلیغ کے ذریعہ ان پر اتمام حجت کریں اور ان کی عقل کے دفینوں کو باہر لائیں۔
٢٠٢۔ امام علی (ع)نے رسولخدا ؐ کی بعثت کی توصیف میں فرمایا: خدا نے انہیں حق کے ساتھ مبعوث کیا تاکہ خدا کی طرف راہنمائی اور ہدایت کریں، خدا نے انکے ذریعہ ہمیں گمراہی سے ہدایت دی اور جہالت سے باہر نکالا ہے۔
٢٠٣۔ امام علی (ع): خدا وند متعال نے اسلام کو بنایا اور اسکے راستوں کو اس پر چلنے والوں کےلئے آسان کیا ، اسکے ارکان کو دشمنوںکے مقابل میں پائدار کیا، اسلام کو اسکے اطاعت گذاروں کےلئے باعث عزت اور اس میں داخل ہونے والوں کےلئے سبب صلح و آشتی ...ذہین و ہوشیار انسان کےلئے فہم اور عقلمند کے لئے یقین قرار دیاہے۔
٢٠٤۔ امام علی (ع): یہاں تک کہ خدا وند سبحان نے اپنے وعدے کو پورا کرنے اور اپنی نبوت کو مکمل کرنے کے لئے حضرت محمد کو بھیج دیا جنکے بارے میں انبیاء سے عہد لیا جا چکا تھا اورجنکی علامتیں مشہور اور ولادت مسعود تھی، اس وقت اہل زمین متفرق مذاہب، منتشر خواہشات اور مختلف راستوں پر گامزن تھے، کوئی خدا کو مخلوقات کے شبیہ بنا رہا تھا، کوئی اس کے ناموں کو بگاڑ رہا تھا، کوئی دوسرے خدا کا اشارہ دے رہا تھا، مالک نے آپ کے ذریعہ سب کو گمراہی سے ہدایت دی اور جہالت سے باہر نکال لیا۔
ب۔ علم
قرآن
اور یہ مثالیں ہم تمام عالم انسانیت کےلئے بیان کر رہے ہیں اور انہیں کوئی نہیں سمجھ سکتا مگر صاحبان علم ہے ۔
حدیث
٢٠٥۔ رسول خدا(ص): علم جہالت کی نسبت دلوںکی زندگی، تاریکی سے چھٹکارا پانے کے لئے آنکھوںکی روشنی، اور کمزوری سے نجات پانے کے لئے بدن کی طاقت ہے ۔
٢٠٦۔ امام علی (ع): تم عقل کے ذریعہ تولے جاؤگے لہذا علم کے ذریعہ اسے بڑھاؤ۔
٢٠٧۔ امام علی (ع): عقل کے رشد کے لئے بہترین چیز تعلیم ہے ۔
٢٠٨۔ امام علی (ع): عقل ایسی فطرت ہے جو علم اور تجربہ سے بڑھتی ہے ۔
٢٠٩۔ امام علی (ع): علم، عقلمند کی عقل میں اضافہ کرتاہے ۔
٢١٠۔ امام صادق(ع): حکمت کے متعلق زیادہ غور وخوض عقل کو نتیجہ خیز بناتاہے ۔
٢١١۔ امام صادق(ع): علم کی موشگافیاں کرنے سے عقل کے دریچے کھلتے ہیں۔
٢١٢۔ امام رضا(ع): جو شخص سوچتا ہے سمجھ لیتا ہے جوسمجھ لیتا ہے عقلمند ہو جاتا ہے ۔
ج۔ ادب
٢١٣۔ رسول خدا(ص): حسن ادب عقل کی زینت ہے ۔
٢١٤۔ امام علی (ع): ہر چیز عقل کی محتاج ہے لیکن عقل ادب کی محتاج ہے۔
٢١٥۔ امام علی (ع): صاحبان عقل کو ادب کی اس طرح ضرورت ہے کہ جس طرح زراعت کوبارش کی ضرورت ہے ۔
٢١٦۔ امام علی (ع): عقل کا بہترین ہمنشیں ادب ہے ۔
٢١٧۔ امام علی (ع): ادب عقل کی صورت ہے ۔
٢١٨۔ امام علی (ع): عقل کی بھلائی ادب ہے ۔
٢١٩۔ امام علی (ع): ادب عقل کے لئے نتیجہ خیز اور دل کی ذکاوت ہے ۔
٢٢٠۔ امام علی (ع): جس کے پاس ادب نہیںہے وہ عقلمند نہیں۔
٢٢١۔ امام علی (ع): جس طرح آگ کو لکڑی کے ذریعہ شعلہ ور کرتے ہو اسی طرح عقل کو ادب کے ذریعہ رشد عطا کرو۔
٢٢٢۔ امام زین العاب دین (ع): علماء کا ادب عقل کی فراوانی کا سبب ہے ۔
د۔ تجربہ
٢٢٣۔ امام علی (ع): عقل ایسی فطرت ہے جو علم اور تجربات سے بڑھتی ہے ۔
٢٢٤۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصارمیں ہے ،عقل ایسی فطرت ہے جو تجربات سے پروان چڑھتی ہے ۔
٢٢٥۔ امام علی (ع): فطرت کا بہترین مددگار ادب اور عقل کا بہترین معاون تجربہ ہے ۔
٢٢٦۔ امام علی (ع): تجربات ختم نہیں ہوتے عاقل انہیں کے ذریعہ ترقی کرتا ہے۔
٢٢٧۔ امام حسین (ع): طویل تجربہ عقل کی افزائش کا سبب ہے ۔
ھ۔ زمین میں سیر
قرآن
( کیا ان لوگوں نے زمین میں سیر نہیں کی ہے کہ انکے پاس ایسے دل ہوتے جو سمجھ سکتے اور ایسے کان ہوتے جو سن سکتے اس لئے کہ در حقیقت آنکھیں اندھی نہیں ہوتی ہیں بلکہ وہ دل اندھے ہوتے ہیں جو سینوں میں ہوتے ہیں)
( آپ کہہ دیجئے کہ تم لوگ زمین میں سیر کرو اور دیکھو کہ خدا نے کس طرح خلقت کا آغاز کیا ہے اس کے بعد وہی آخرت میں ایجاد کریگا، بیشک وہی ہر شی پر قدرت رکھنے والا ہے )
( اور ہم نے اس بستی میں سے صاحبان عقل و ہوش کے لئے کھلی ہوئی نشانی باقی رکھی ہے )
(پس آج ہم تیرے بد ن کو بچا لیتے ہیں تاکہ تو اپنے بعد والوںکے لئے نشانی بن جائے ، اگر چہ بہت سے لوگ ہماری نشانیوں سے غافل ہی رہتے ہیں)
حدیث
٢٢٨۔ ابن دینار : خدا نے حضرت موسیؑ کو وحی کی کہ لوہے کی نعلین پہن کر اور عصا لیکر زمین میں گردش کرو اور (گذشتگان کی) عبرت و آثارڈھونڈھو ، یہاں تک کہ نعلین گھس جائے اور عصا ٹوٹ جائے۔
٢٢٩۔ داؤد(ع): علماء سے کہہ دیجئے کہ آہنی عصا لیکر اور آہنی نعلین پہن کر علم کی تلاش میں نکلیں، یہاں تک کہ عصا ٹوٹ جائے اور نعلین پھٹ جائے ۔
و۔مشورہ
٢٣٠۔ امام علی (ع): جو صاحبان عقل سے مشورہ لیتاہے وہ عقل کی روشنی سے مالا مال ہو جاتا ہے۔
ز۔ تقویٰ
٢٣١۔ سید ابن طاؤس : مجھے ایک کتاب دستیاب ہوئی...... جس پر( سنن ادریس)مرقوم تھا ، اس میں لکھا تھا یاد رکھو اور یقین کرو کہ تقوائے الٰہی بہترین حکمت اور عظیم ترین نعمت ہے اور ایسا وسیلہ ہے جو خیر کی طرف دعوت دیتا ہے اور نیکی ،فہم اور عقل کے دروازوں کو کھول دیتا ہے۔
ح۔ جہاد بالنفس
٢٣٢۔ امام علی (ع): اپنی شہوت کا مقابلہ کرو، اپنے غصہ پر قابو رکھو اور اپنی بری عادتوں کی مخالفت کرو تاکہ تمہاری روح پاک اور تمہاری عقل کامل ہو جائے اور اپنے پروردگار کا ثواب اچھی طرح حاصل کر سکو۔
٢٢٣۔ امام صادق(ع): امیر المومنینؑ: نے اپنے کسی صحابی کے پاس خط لکھ کر اس طرح نصیحت کی ، تمہیں اور خود اپنے نفس کو اس خدا سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں کہ جس کی نافرمانی مناسب نہیں ، اس کے سوا کوئی امید نہیں اور اس کے علاوہ کوئی بے نیازی نہیں، جو خوف خدا رکھتا ہے جلیل و عزیز، قوی اور سیر و سیراب ہوجاتا ہے خوف خدا اسکی عقل کو اہل دنیا سے باز رکھتا ہے ، اس کا بدن اہل دنیا کے ساتھ ہوتاہے لیکن اس کا دل اور عقل آخرت کا نظارہ کرتی ہے آنکھیں جن چیزوں کو حب دنیا سے لبریز دیکھتی ہیں نور دل کے ذریعہ انہیں بجھا دیتاہے ، حرام دنیا سے چشم پوشی اور شبہات سے پرہیز کرتا ہے خدا کی قسم حلال و مباح سے بھی اجتناب کرتا ہے صر ف ان ٹکڑوں پر گذاراکرتا ہے کہ جن سے اپنی حیات باقی رکھ سکے اور کھردرے و سخت لباس کے ذریعہ اپنی شرمگاہوں کو چھپاتا ہے۔ اپنی حاجتوں میں کسی پر اعتماد اور کسی سے امید نہیں رکھتا تاکہ اعتماد و امید صرف خالق کائنات سے ہو۔ کوشش و جانفشانی کرتا ہے کہ اپنے بدن کو اس قدر زحمت میں ڈالے کہ ان کی پسلیاں دکھائی پڑنے لگیں اور آنکھیں گہرائی میں چلی جائیں پھر خدا اس کے عوض بدن میں طاقت اور عقل کو قوت عطا کرتا ہے اور آخرت کے لئے جو ذخیرہ کرتا ہے وہ اس سے کہیں زیادہ ہے ۔
ط۔ ذکر خدا
٢٣٤۔ امام علی (ع): ذکر خدا عقل کا نور، روح کی زندگی اور سینوںکی جلاء ہے ۔
٢٣٥۔ امام علی (ع): جو شخص زیادہ ذکر خدا کرتا ہے اسکی عقل منور ہو جاتی ہے ۔
٢٣٦۔ امام علی (ع): جو شخص خدائے سبحان کو یاد کرتا ہے خداا سکے دل کو زندہ رکھتا ہے اور اسکی عقل و خرد کو منور کر دیتا ہے۔
٢٣٧۔ امام علی (ع): ذکر خدا عقل کو انس اور دل کو روشنی عطا کرتا ہے اوررحمت خدا کو کھینچتا ہے۔
٢٣٨۔ امام علی (ع): یاد خدا عقل کو ہدایت اور روح کو بصیرت عطا کرتا ہے۔
ی۔ دنیا سے بے رغبتی
٢٣٩۔ امام علی (ع): جو شخص خود کو دنیا کی بخشش و عطا سے بے نیاز رکھتا ہے اس نے عقل کو کامل کر لیاہے۔
ک: حق کا اتباع
٢٤٠۔ رسول خدا(ص): ناصح کا اتباع عقل و خرد کی افزائش اور کمال کا سرچشمہ ہے ۔
٢٤١۔ اعلام الدین : جب معاویہ کے سامنے عقل کا تذکرہ آیا تو امام حسین (ع) نے فرمایا: عقل اتباع حق کے بغیر کامل نہیںہو سکتی، معاویہ نے کہا: آپ حضرات کے سینوںمیں صرف ایک چیز ہے ۔
٢٤٢۔ امام کاظم (ع): جناب لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا: حق کے سامنے جھک جاؤ تاکہ لوگوں میں سب سے بڑے عقلمند قرار پاؤ۔
ل۔ حکماء کی ہمنشینی
٢٤٣۔ امام علی (ع): حکماء کی ہمنشینی اختیار کرو تاکہ تماری عقل کامل ہو، نفس کو شرف ملے اور جہالت کا خاتمہ ہو جائے۔
٢٤٤۔ امام علی (ع): حکماء کی ہمنشینی دلوںکی حیات اور روح کی شفاء ہے ۔
م۔ جاہلوں پر رحم
٢٤٥۔ امام علی (ع): محکم ترین عقل کی نشانیوںمیں سے جاہلوں پر رحم کرنا ہے ۔
ن۔ خدا سے مدد چاہنا
٢٤٦۔ امام زین العاب دین (ع):خدایا! مجھے کامل عقل ، عزم مصمم، ممتاز تدبیر، تربیت یافتہ دل، بے شمار علم اور بہترین ادب عنایت فرما، ان تمام چیزوںکو میرے لئے مفید قرار دے اے ارحم الراحمین تیر رحمت کا واسطہ انہیں میرے لئے ضرر رساں قرار نہ دے۔
٢٤٧۔ ان مناجات میں مرقوم ہے جو جبریل امین رسول خدا کے پاس لائے تھے، بار الٰہا! میرے گناہوںکو توبہ کے ذریعہ مٹا دے میری توبہ کی قبولیت کے ذریعہ میرے عیوب کو دھو دے اور انہیں میرے دل کے زنگ کے لئے صیقل اور عقل کی تیز بینی کا سبب قرار دے۔
٢٤٨۔ امام مہدیؑ: نے اس دعا میں فرمایا جو محمد بن علی علوی مصری کو تعلیم دی ہے ، خدایا! میں تیری بارگاہ میںسوال کرتا ہوں.... کہ محمد و آل محمد پر درود بھیج، میرے دل کی رہنمائی کر اور میری عقل کو میرے لئے سازگار بنا۔
٤/٢
مقویات دماغ
الف: تیل
٢٤٩۔۔ امام علی (ع): تیل جلد کو ملائم اور دماغ کو پڑھاتاہے ۔
٢٥٠۔ امام صادق(ع): بنفشہ کا تیل دماغ کو تقویت عطا کرتا ہے ۔
ب: کدو
٢٥١۔ رسول خدا(ص):نے علی (ع) کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا: اے علی (ع)! تم کدو ضرور کھایا کرو کیوں کہ یہ دماغ اور عقل کوبڑھاتاہے۔
٢٥٢۔ انس: رسول خدا(ص) کدو زیادہ کھاتے تھے، میںنے کہا: اے رسول خدا! آپ کدو پسند کرتے ہیں! فرمایا: کدو دماغ کو بڑھاتا اور عقل کو قوی کرتا ہے ۔
٢٥٣۔ رسول خدا(ص): کدو(کھانا) تمہارے لئے ضروری ہے اس لئے کہ عقل کو زیادہ اور دماغ کو بڑھاتا ہے ۔
٢٥٤۔ رسول خدا(ص): میٹھا کدوکھایا کرو،خدا کے علم میں اس سے زیادہ سبک کوئی درخت ہوتا تو اسے برادرم یونس کے لئے اگاتا، تم میں سے جو بھی شوربا بنائے اسے چاہئے کہ اس میںکدو زیادہ ڈالے اس لئے کہ وہ دماغ اور عقل کو بڑھاتا ہے ۔
ج:بہی
٢٥٥۔ امام رضا(ع): بہی (کھانا) تمہارے لئے ضروری ہے کہ اس سے عقل بڑھتی ہے۔
د:کرفس(خراسانی اجوائن)
٢٥٦۔ رسول خدا(ص): کرفس (کھانا) تمہارے لئے ضروری ہے کیوں کہ اگر کوئی چیز عقل کو بڑھاتی ہے تو وہ یہی ہے ۔
ھ: گوشت
٢٥٧۔ امام صادق ؑ: گوشت، گوشت بڑھاتا ہے اور عقل میں اضافہ کرتا ہے جو شخص چند دنوں گوشت نہیں کھاتا اس عقل خراب ہو جاتی ہے ۔
٢٥٨۔ امام صادق(ع): جو شخص چالیس دن گوشت نہیںکھاتا بد اخلاق ہو جاتا ہے اور اسکی عقل خراب ہو جاتی ہے اور جو بد اخلا ق ہو جائے اس کے کان میں آوازسے اذان دی جائے۔
و: دودھ
٢٥٩۔ رسول خدا(ص): تمہارے لئے دودھ پینا ضروری ہے کیوں کہ دودھ حرارت قلب کو اس طرح دور کرتا ہے کہ جس طرح انگلی پیشانی سے پسینہ کو صاف کرتی ہے ، اور کمر کو مضبوط، عقل کو زیادہ اور ذہن کو تیز کرتا ہے ، آنکھوںکو جلاء بخشتا ہے اور نسیان کو دور کرتا ہے ۔
٢٦٠۔ رسول خدا(ص):اپنی حاملہ عورتوں کو دودھ پلاؤ کیوں کہ شکم مادر میں جب بچہ کی غذا ددھ ہوگی تو اس کا دل قوی اور دماغ اضافہ ہوگا۔
ز: سرکہ
٢٦١۔ امام صادق(ع): سرکہ عقل کو قوی بناتا ہے ۔
٢٦٢۔ محمد بن علی ہمدانی : خراسان میں ایک شخص امام رضا(ع) کی خدمت میں تھا آپ ؑ کے سامنے دسترخوان بچھایا گیا کہ جس پر سرکہ اور نمک تھا، امام ؑ نے کھانے کا آغا ز سرکہ سے کیا، اس شخص نے کہا : میں آپ پر فدا ہو جاؤں! ہمیں آپ نے نمک سے آغاز کرنے کا حکم دیا ہے ؟ فرمایاؑ: یہ بھی ایسا ہی ہے ، سرکہ ذہن کو قوی بناتاہے اور عقل کو بڑھاتاہے ۔
ح: سداب( کالا دانہ)
٢٦٣۔ امام رضا(ع): سداب عقل کو بڑھاتاہے ۔
ط: شہد
٢٦٤۔ امام کاظمؑ: شہد ہرمرض کےلئے شفاء ہے جو ناشتہ میں ایک انگلی شہد کندر کےساتھ کھائے اسکا بلغم زائل ہو جائیگا، صفراء کو زائل کرتا ہے اور سودا میں تلخی نہیں پیدا ہونے دیتا،ذہن کو صاف و شفاف اور حافظہ کو قوی بناتا ہے ۔
ی: انار کو اس کے باریک چھلکوں کے ساتھ کھانا
٢٦٥۔ امام صادق(ع): انار کو اس کے باریک جھلکوںکے ساتھ کھاؤ کہ معدہ کو صاف اور ذہن کو بڑھاتا ہے ۔
ک: پانی
٢٦٦۔ ابو طیفور متطبِّب: کا بیان ہیکہ میں امام کاظم (ع) کی خدمت میں حاضر ہوا اورانہیں پانی پینے سے منع کیا، امام ؑ نے فرمایا: پانی سے کیا نقصان ہے بلکہ کھانے کو معدہ میں گھماتا ہے ، غصہ کو ختم کرتا ہے ، دماغ کو بڑھاتا ہے اورتلخی کو دور کرتاہے ۔
ل: حجامت(فصد کھلوانا)
٢٦٧۔ رسول خدا(ص): حجامت (فصد کھلوانا)عقل کو بڑھاتی اور حافظہ کو قوی کرتی ہے ۔
٢٦٨۔ رسول خدا(ص): ناشتہ کے وقت حجامت زیادہ مفید ہے کہ اس سے عقل بڑھتی ہے،حافظہ قوی اور حافظ کے حافظہ میں اضافہ ہوتاہے ۔
م: خرفہ
٢٦٩۔ رسول خدا(ص): تمہارے لئے خرفہ کھانا ضروری ہے کیوں کہ اس سے زیر کی بڑھتی ہے بیشک اگر کوئی چیز عقل کو بڑھاتی ہے تو وہ یہی ہے ۔
ن: لیمو
٢٧٠۔ رسول خدا(ص): لیمو کھاؤ اس لئے کہ یہ دل کو روشنی عطا کرتا اور دماغ کوقوی کرتاہے ۔
س: باقلا
٢٧١۔امام صادق(ع): باقلا کھانے سے پنڈلیاں گودے دار ہوتی ہیں اور دماغ بڑھتا ہے ۔
پانچویں فصل
عقل کی نشانیاں
٥/١
عقل و جہل کے سپاہی
٢٧٢۔ سماعہ بن مہران: میںامام صادق(ع) کی خدمت میں حاضر تھا اور وہاںآپ کے کچھ چاہنے والے بھی موجود تھے عقل اور جہل کاتذکرہ آیا تو امام صادق(ع) نے فرمایا: عقل اور جہل اور ان دونوں کے سپاہیوںکو پہچا نو تاکہ ہدایت پا جاؤ۔
سماعہ کہتا ہے کہ ؛ میںنے عرض کیا، میری جان آپ پر فدا ہو جائے! ہم کچھ نہیں جانتے سوائے یہ کہ جو آپ نے سکھایا ہے ، امام صادق(ع) نے فرمایا: عقل خدا کی پہلی روحانی مخلوق ہے جسے عرش کے دائیں طرف کے اپنے نور سے خلق کیا، پھر اس سے کہا : پیچھے ہٹو وہ پیچھے ہٹ گئی ، پھر کہا:آگے آؤ، آگے آگئی، اس کے بعد اﷲ تعالیٰ نے فرمایا: میں نے تجھے عظیم مخلوق بنا کر پیدا کیا ہے اور تجھے اپنی تمام مخلوقات پر عزت عطا کی ہے ۔
فرمایا: پھر خدا نے جہل کو شور اور تاریک سمندر سے پیدا کیا، اس کے بعد اس سے کہا: پیچھے ہٹ جا وہ ہٹ گیا، پھر کیا: آگے آ، لیکن آگے نہیں آیا، پھر خدا نے اس سے کہا: تونے خود کوبڑا سمجھ لیا ہے پھر خدا نے اس پر لعنت کی ۔
اس کے بعد عقل کے لئے پچھتر سپاہی قرار دئیے، خدا نے عقل کوجو عزت و احترام عطا کیا ہے جب جہل نے اسے دیکھا تو اس کے دل میں کینہ پیدا ہوا اور کہا: اے پروردگار یہ بھی مخلوق میری ہی طرح ہے، تونے اسے پیدا کرکے عزت بخشی ،قوی بنایااور میں اس کے بر خلاف ہوں مجھ میں کوئی طاقت نہیں ہے ، مجھے بھی عقل کی طرح سپاہی عطا کر، خدا نے قبول فرمایا اور کہا: اگر تونے اس کے بعد نافرمانی کی تو میں تجھے اور تیرے سپاہیوںکو اپنی رحمت سے خارج کر دونگا، جہل راضی ہوا، خدا نے اسے پچھتر(٧٥) سپاہی عطا کئے ۔ وہ ٧٥ سپاہی جو خدا نے عقل کو عطا کئےے ہیں(درج ذیل ہیں) :
خیر جو کہ عقل کا وزیر ہے اور اسکی ضد شر ہے جو کہ جہل کا وزیر ہے ، ایمان کہ جس کی ضد کفر ہے ، تصدیق کہ جس کی ضد انکار ہے ، امید کہ جس کی ضد ناامیدی ہے ، عدل کہ جس کی ضد ستم ہے ،خوشنودی کہ جس کی ضد ناراضگی ہے ، شکر کہ جس کی ضد ناشکری ہے ، طمع کہ جس کی ضد مایوسی ہے ، توکل کہ جس کی ضد حرص ہے ، مہربانی کہ جس کی ضد سنگدلی ہے ، رحمت کہ جس کی ضد غضب ہے ،علم کہ جس کی ضد جہل ہے ، فہم کہ جس کی ضد حماقت ہے ، عفت کہ جس کی ضد بدکرداری ہے ، زہد کہ جس کی ضد رغبت ہے ، نرمی کہ جس کی ضد سختی و تندی ہے ، خوف و ہراس کہ جس کی ضد جرئت مندی اور بیباکی ہے ، تواضع کہ جس کی ضد تکبر ہے، آہستگی کہ جس کی ضد جلد بازی ہے ،بردباری کہ جس کی ضد بیتابی ہے، خاموشی کہ جس کی ضد بکواس ہے ،تابع کہ جس کی ضد سرکشی ہے ، تسلیم کہ جس کی ضد شک ہے ، صبر کہ جس کی ضدگھبراہٹ ہے، چشم پوشی کہ جس کی ضد انتقام ہے ، غنی کہ جس کی ضد فقر ہے ، یاد دہانی کہ جس کی ضد بے خبری ہے ، یاد رکھنا کہ جس کی ضد فراموشی ہے ، عطوفت کہ جس کی ضد جدائی ہے ، قناعت کہ جس کی ضد حرص و لالچ ہے ، ہمدردی کہ جس کی ضد دریغ ہے، دوستی کہ جس کی ضد عداوت ہے، وفا کہ جس کی ضد بے وفائی ہے ، طاعت کہ جس کی ضد معصیت ہے ، خضوع کہ جس کی ضد غرور ہے ، سلامتی کہ جس کی ضد گرفتاری ہے ، محبت کہ جس کی ضد بغض و کینہ ہے ، صداقت کہ جس کی ضد جھوٹ ہے ، حق کہ جس کی ضد باطل ہے امانت کہ جس کی ضد خیانت ہے ، اخلاص کہ جس کی ضد ملاوٹ ہے ، دلیری کہ جس کی ضد بزدلی ہے ، فہم کہ جس کی ضد کند ذہنی ہے ، معرفت کہ جس کی ضد انکار ہے ، رازداری کہ جس کی ضد فاش کرنا ہے ، یک رنگی کہ جس کی ضد دوروئی ہے ، پردہ پوشی کہ جس کی ضد افشاء ہے ، نمازگذاری کہ جس کی ضد ضائع کرنا ہے ، روزہ رکھنا کہ جس کی ضد کھانا ہے ، جہاد کہ جس کی ضد جنگ سے فرار ہے ، حج کہ جس کی ضد پیمان شکنی ہے ، بات کو ہضم کرنا کہ جس کی ضد چغلخوری ہے ۔
والدین کے ساتھ نیکی کہ جس کی ضد اذیت رسانی ہے، حقیقت کہ جس کی ضد ریاکاری ہے ، نیکی کہ جس کی ضد برائی ہے، پوشیدگی کہ جس کی ضد خودنمائی ہے ، تقیہ کہ جس کی ضد لاپروائی ہے، انصاف کہ جس کی ضد جانبداری ہے ، پائداری کہ جس کی ضد تجاوز ہے ، پاکیزگی کہ جس کی ضد آلودگی ہے ، حیاء کہ جس کی ضد بے حیائی ہے ، میانہ روی کہ جس کی ضد حد سے بڑھ جانا ہے ۔، آسودگی و راحت کہ جس کی ضد تھکن ہے ، آسانی کہ جس کی ضد سختی ہے ، برکت کہ جس کی ضد بے برکتی ہے ، عافیت کہ جس کی ضد بلاء ہے اعتدال کہ جس کی ضد افراط ہے ، حکمت کہ جس کی ضد ہوی و ہوس ہے، وقار کہ جس کی ضد خفت ہے ، سعادت کہ جس کی ضد بد بختی ہے۔
توبہ کہ جس کی ضد اصرار گناہ ہے ، استغفار کہ جس کی ضد بیہودگی ہے، محافظت کہ جس کی ضد حقیر و پست سمجھنا ہے، دعا کہ جس کی ضد دعا سے باز رہنا ہے ، نشاط و فرحت کہ جس کی ضد کاہلی ہے ، خوشی کہ جس کی ضد حزن ہے ، الفت کہ جس کی ضد فراق ہے سخاوت کہ جس کی ضد بخل ہے ۔
عقل کے یہ تمام سپاہی صرف بنی یا وصی نبی اور ا س مومن میں جمع ہو تے ہیں جس کے دل کا امتحان اللہ نے ایمان کے ذریعہ لیا ہے، لیکن ہمارے دیگر محبین عقل کے سپاہیوں میں سے بعض کے حامل ہو جائیں کہ جن کے سبب درجہ کمال تک پہنچ جائیں اور جہالت کے سپاہیوں سے پاک ہو جائیں تو اس صورت میں انبیاء و اوصیاء کے ساتھ بلند درجہ میں ہوں گے، اس مقام تک رسائی عقل اور اس کے سپاہیوں کی معرفت اور جہل اور اس کے سپاہیوں سے علٰحدگی کے سبب ہو سکتی ہے۔ خدا وند ہمیں اور آپکو اپنی اطاعت و خوشنودی کی توفیق عطا فرمائے۔
٥/٢
عقل کے آثار
الف۔ علم و حکمت
قرآن
(وہ جس کو بھی چاہتا ہے حکمت عطا کر دیتا ہے اور جسے حکمت عطا کر دی جائے اسے گویا خیر کثیر عطا کر دیا گیا اور اس بات کو صاحبان عقل کے سوا کوئی نہیں سمجھتا ہے )
(اس واقعہ میں نصیحت کا سامان موجود ہے اس انسان کے لئے جس کے پاس دل ہو یا جو حضور قلب کے ساتھ بات سنتا ہو)
ملاحظہ کریں:آل عمران: ٧،رعد:١٩، ابراہیم ٥٢، سورہ ص:٢٩اور ٤٣ زمر: ٩ اور ٢١، غافر:٥٤۔
حدیث
٢٧٣۔ سلیمان بن خالد: میں نے امام صادق(ع) سے اس قول خدا( جسے حکمت عطا کی گئی گویا اسے خیر کثیر عطا کیا گیا) کے بارے میں پوچھا تو فرمایا کہ حکمت سے معرفت اور دین میں تفقہ مراد ہے ، لہذاتم میں سے جو شخص فقیہ ہو گیا وہ حکیم ہو گیا۔
٢٧٤۔ امام کاظم (ع): نے ہشام بن حکم کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا۔ اے ہشام اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں فرماتا ہے (اس واقعہ میں نصیحت کا سامان موجود ہے اس انسان کے لئے جس کے پاس دل ہو) قلب سے عقل مراد ہے ، نیز فرماتا ہے (یقینا ہم نے لقمان کو حکمت عطا کی ) امام نے فرمایا : فہم و عقل مراد ہے....
اے ہشام! خدا نے اپنے انبیاء ومرسلین کوا پنے بندوں کی طرف نہیں بھیجا ہے مگر یہ کہ وہ خدا کے بارے میں غور و خوض کریں۔ اور انبیاء کی دعوت کو سب سے اچھی طرح اس شخص نے قبول کیا ہے جو سب سے بہتر معرفت رکھتا ہے اورامر خدا کے بارے میں سب سے زیادہ علم رکھنے والا وہ شخص ہے جس کی عقل سب سے بہتر ہے اور ان میں جس کی عقل زیادہ کامل ہے دنیا و آخرت میں اس کا درجہ زیادہ بلند ہے...اے ہشام ! تمہارا عمل اللہ کے نزدیک کیوں کر پاک ہو سکتا ہے جبکہ تمہارا دل امر پروردگار سے منحرف ہے اور اپنی خواہشات کی پیروی کرکے انہیں اپنی عقل پر غالب کر لیا ہے ؟!....اے ہشام ! حق کی بنیاد طاعت خدا پر ہے ، اور بغیر طاعت کے نجات نہیں مل سکتی ، طاعت علم سے حاصل ہوتی ہے اور علم سیکھنے سے حاصل ہوتا ہے اور سیکھنے کا تعلق عقل سے ہے ، البتہ علم ، خدا رسیدہ عالم کے بغیر حاصل نہیںہو سکتا اور علم کی معرفت کا دارومدار عقل پر ہے ....بیشک وہ شخص خدا کا خوف نہیں رکھتا جو خدا کے بارے میں آگاہی نہیں رکھتا ، اور جو خدا کے بارے میں آگاہی نہیں رکھتا اس کا دل مستحکم معرفت کا گروی نہیں ہو سکتا کہ جس کے ذریعہ وہ اپنے دل میں حقیقت معرفت کو درک اور محسوس کر سکے، اور ایسی معرفت کا حامل وہی ہو سکتا ہے کہ جس کا قول اس کے کردار کی تصدیق کرتا ہے اور اسکاباطن اس کے ظاہر سے ہم آہنگ ہوتاہے، کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے عقل کے ظاہر کو اس کے باطن کی علامت اور اس کا غماز قرار دیا ہے۔
٢٧٥۔ امام کا ظم ؑ: اے ہشام! بیشک عقل علم کے ساتھ ہے ، چنانچہ ارشا د ہے :'' اور مثالیں ہم تمام عالم انسانیت کے لئے بیان کر رہے ہیں لیکن انہیں صاحب علم کے علاوہ کوئی نہیں سمجھ سکتا ہے''
٢٧٦۔ امام علی (ع): عقل اور علم دونوں ایک دوسرے سے اس طرح ملے ہوئے ہیں کہ نہ کبھی جدا ہوں گے اور نہ ہی آپس میں ٹکرائیں گے ۔
٢٧٧۔ رسول خدا(ص): عقل جہالت سے باز رکھتی ہے اور نفس نہایت سر کش چوپایہ کی طرح ہے کہ اگر بے مہار چھوڑ دیا جائے تو سر گرداںرہتا ہے ، پس جہالت کی مہار عقل ہے ۔
٢٧٨۔ امام علی (ع): جس نے غورکیا وہ سمجھ گیا۔
٢٧٩۔ امام علی (ع): عقل علم کا ستون اور فہم کی طرف دعوت دینے والی ہے ۔
٢٨٠۔ امام علی (ع): عقلوں کے ذریعہ علوم کی بلندیوںتک رسائی ہوتی ہے ۔
٢٨١۔ امام علی (ع): علم کا مرکب عقل اور حلم کا مرکب علم ہے ۔
٢٨٢۔ امام علی (ع): علم، عقل کا عنوان ہے ۔
٢٨٣۔ امام علی (ع): علم ، عقل پر دلالت کرتا ہے لہذا جس نے جان لیا عقلمند ہے ۔
٢٨٤۔ امام علی (ع): عقل کے ذریعہ حقیقت حکمت حاصل ہوتی ہے اور حکمت کے ذریعہ حقیقت عقل ۔
٢٨٥۔ امام علی (ع): حکمت عقلمندوں کا باغ اور فضلاء کی تفریحگاہ ہے ۔
٢٨٦۔ امام علی (ع): جس شخص کی عقل اس کے قابو میں ہے وہ حکیم ہے۔
٢٨٧۔ امام صادق ؑ: انسان کا پشت پناہ عقل ہے اور زیرکی، فہم، حفظ اور علم کا سرچشمہ عقل ہے ، عقل کے ذریعہ انسان کمال تک پہنچتا ہے ، عقل انسان کا رہنما ہے ، اسے بصیرت و بینائی عطا کرنے والی اور اس کے کاموں کی کنجی ہے ، اگر انسان کی عقل کی تائیدنور سے ہو تو وہ عالم ، حافظ،ذاکر، زیرک اور صاحب فہم ہے اس کے ذریعہ ''کس طرح ، کیوں اور کہاں'' کے جواب سے بھی واقف ہو جائیگا، نیز اپنے خیر خواہ اور دھوکا دینے والے کو پہچان لیگا۔ اگر وہ انہیں جان لیگا تو ان کے موقع و محل سے بھی واقف ہو جائیگا اور خدا کی وحدانیت کو خالص کر لیگااور اسکی طاعت کا اقرار کریگا، اگر ایسا ہو جائے تو چھوٹ جانے والی چیزوں کو پالیگااور آئندہ کے لئے محتاط رہیگا، اور وہ اپنے متعلق سمجھ لیگا کہ اس دنیا میں اسکی زندگی گذارنے کا مقصد کیا ہے اور کہاں سے آیا ہے اور کہاں پلٹ کر جائیگا، یہ تمام عقل کی تائید و حمایت سے ہےں۔
٢٨٨۔ امام صادق ؑ: نے عقل و جہل کے سپاہیوں کی توصیف کرتے ہوئے فرمایا: حکمت اور اسکی ضد خواہشات نفسانی ہے۔
ب۔ معرفت خدا
٢٨٩۔رسول خدا(ص): اللہ تعالیٰ نے عقل کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے ،جس شخص میں یہ حصے ہیںاسکی عقل کامل ہے اور جس میں یہ نہیں ہیںوہ عقل سے بے بہرہ ہے : خدا کی بہترین معرفت،اسکی بہترین طاعت اور امرپروردگارپر اچھی طرح صابررہنا۔
٢٩٠۔ تحف العقول۔ اہل نجران سے ایک نصرانی مدینہ آیا، وہ سخنور، با وقار اور با ھیبت تھا، پوچھا گیا: کہ اے رسول خدا ؐ! کس چیز نے اس نصرانی کو عقلمند بنایا ہے ؟!رسول خدا ؐنے قائل کو ڈانٹا اور فرمایا: خاموش ہو جاؤ! عقلمند وہ شخص ہے جو خدا کی وحدانیت کا قائل اور اس کا مطیع ہو۔
٢٩١۔امام علی -: مخلوقات کے ذریعہ خدا پر استدلال کیا جاتا ہے ، اور عقل کے وسیلہ سے خدا کی معرفت مستحکم ہوتی ہے اور فکر کے ذریعہ اسکی حجتیں ثابت ہوتی ہیں۔
٢٩٢۔ امام علی -: ساری تعریف اللہ کے لئے ہے...وہ خدا جو پوشیدہ امور سے نہاں ہے اور عقلوں میں آشکار ان چیزوں کے سبب ہے جنہیں اپنی مخلوق میں تدبیر کی نشانیاں قرار دیاہے وہ خدا کہ جس کے بارے میں جب انبیاء سے پوچھا گیا تو وہ اسکی توصیف نہ حد کے ذریعہ کر سکے اور نہ ہی جزء کے ذریعہ ، بلکہ اسکی توصیف اس کے افعال کے ذریعہ کی ، اور اسکی طرف اسکی آیات کے ذریعہ راہنمائی کی ۔ غور و خوض کرنے والوں کی عقلیں خدا کا انکار نہیں کر سکتی ہیں۔ کیوں کہ جو آسمان و زمین کا خالق اور ان کے درمیان تمام چیزوںکا صانع ہے ، اسکی قدرت کا انکار ممکن نہیں ہے ۔
٢٩٣۔ امام صادق -: ہر کام کا آغاز اور اسکی ابتدا اور استحکام و آباد کاری ، کہ جس سے ہر منفعت کا تعلق ہے ، عقل ہے ؛ کہ جس کو اللہ نے اپنی مخلوق کے لئے زینت اورنور قرار دیا ہے ، عقل کے ذریعہ بندوں نے اپنے خالق کو پہچانا اور خود کو مخلوق جانا، اور اس کو اپنا مدبر اور خود کو اسکی تدبیر کے ما تحت سمجھا اور اس کے باقی اور خود کے فانی ہونے کا علم ہوا جو کچھ اسکی مخلوق (آسمان و زمین ، سورج و چاند اور شب و روز) میں دیکھتے ہیںاپنی عقلوں کے ذریعہ اس پر دلیل قائم کرتے ہیں کہ ان چیزوںکااور خودہماراایک خالق وکار ساز ہے جو ہمیشہ سے تھا اور ہمیشہ رہیگا، اور عقل کے وسیلہ سے حسن کو قبیح سے جدا کرتے ہیں اور اس سے بھی واقف ہوتے ہیں کہ جہالت میںتاریکی ہے اور علم میںنور ہے یہ ہیں وہ چیزیں جن کی طرف عقل رہنمائی کرتی ہے ۔
پوچھا گیا: کیا بندے صرف عقل پر اکتفا کریں؟! فرمایا: عقلمند اپنی عقل کے ذریعہ (جسے اللہ نے اس کے لئے ستون ، زینت اور ہدایت قرار دیا ہے) جانتا ہے کہ خداہی حق ہے ، وہ اس کا پروردگار ہے ، اوریہ بھی جان لیتاہے کہ اس کے خالق کی کچھ پسند اور کچھ نا پسند ہے کچھ طاعت اور کچھ معصیت ہے ، فقط عقل ہی کے ذریعہ ان چیزوں کو نہیں حاصل کر سکتا، وہ جانتا ہے کہ ان چیزوں تک رسائی علم اور تحصیل علم کے بغیر ممکن نہیں ہے ، وہ اپنی عقل سے بہرہ مند نہ ہوتا اگر وہ اپنے علم کے ذریعہ ان چیزوں تک نہ پہنچتا، پس عاقل پر اس علم و ادب کا سیکھنا واجب ہے کہ جس کے بغیر اسکی کوئی حیثیت نہ ہو۔
٢٩٤۔ امام کاظم (ع): نے ہشام سے اپنی وصیت میں فرمایا: اے ہشام: بدن کا نور آنکھوں میں ہے ۔ اگرآنکھیںروشن ہیں تو بدن بھی نورانی ہوگا۔ اور روح کی روشنی عقل ہے لہذا اگر بندہ عقلمند ہو تو اپنے پروردگار سے آگاہ ہوگا اور جو اپنے پروردگار سے آگاہ ہوگا وہ اپنے دین میں صاحب بصیرت ہوگا۔ اور اگر بندہ اپنے پروردگار سے نا آشنا ہو تو اس کا دین پائیدار نہیں ہوگا۔ اور جس طرح زندہ روح کے بغیر جسم قائم نہیں رہ سکتا اسی طرح سچی نیت کے بغیر دین بھی قائم نہیں رہ سکتا اور عقل کے بغیر سچی نیت ثابت نہیںرہ سکتی۔
٢٩٥۔ امام رضا(ع): عقل کے ذریعہ خدا کی تصدیق کی جاتی ہے ۔
ج۔دین
٢٩٦۔ رسول خدا(ص): جس کے پاس عقل نہیں اس کے پاس دین نہیں ہے ۔
٢٩٧۔ امام علی (ع): جبریل ؑ حضرت آدم ؑ پر نازل ہوئے اور فرمایا: اے آدم! مجھے حکم دیا گیاکہ تمہیں تین چیزوں میں سے ایک کا اختیار دوں لہذا ، ایک لے لو اور دو چھوڑ دو، حضرت آدم نے کہا: اے جبریل ! وہ تین (چیزیں) کیا ہیں؟! کہا: عقل ، حیا اور دین ، پس حضرت آدم نے کہا: میں نے عقل کوانتخاب کیا، اس وقت جبریل نے حیا اور دین کی طرف رخ کرکے کہا: تم دونوں جاؤ اور عقل کا ساتھ چھوڑ دو، تو ان دونوں نے کہا: اے جبریل! ہم مامور ہیں کہ ہمیشہ عقل کے ساتھ رہیں ، جبریل نے کہا: تم خود جانو اور اوپر پرواز کر گئے۔
٢٩٨۔ امام علی (ع): مومن ایمان نہیں لاتا یہاں تک کہ عقلمند ہو جائے۔
٢٩٩۔ امام علی (ع): دین اور ادب عقل کا نتیجہ ہیں۔
٣٠٠۔ امام صادق(ع): جو شخص عقلمند ہے وہی دیندار ہے اور جو دیندار ہے وہ داخل بہشت ہوگا۔
٣٠١۔ ارشاد القلوب: توریت موسیؑ میں ہے ، کوئی عقل دینداری کے مانند نہیں۔
د۔ کمال دین
٣٠٢۔ رسول خدا(ص): انسان کا دین ہر گز کامل نہیں ہو سکتا جب تک کہ اسکی عقل کامل نہ ہو۔
٣٠٣۔ رسول خدا(ص): کسی شخص کا اسلام تمہیں خوش نہ کرے جب تک کہ تم اسکی عقلمندی نہ دیکھ لو۔
٣٠٤۔ رسول خدا(ص): کسی شخص کا اسلام تمہیں فریفتہ نہ کرے مگر یہ کہ تم اسکی عقل کی گہرائی کو جان لو۔
٣٠٥۔ امام علی (ع): جس میں یہ تین خصلتیں ، عقل ، حلم اور علم ، ہوں اس کا ایمان کامل ہے ۔
٣٠٦۔ امام علی (ع): دین، عقل کے مطابق ہوتا ہے اور قوت یقین ، دین کے مطابق ہے ۔
٣٠٧۔ امام کاظم (ع): جس طرح جسم، زندہ روح کے بغیر قائم نہیں رہتا اسی طرح دین بھی سچی نیت کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا اور سچی نیت کا دار و مدار عقل پر ہے ۔
ھ۔ مکارم اخلاق
٣٠٨۔ رسول خدا(ص): نے اس شخص کے جواب میں''کہ جس نے پوچھا عقل کیاہے؟ اور اسکی کیفیت کیا ہے؟ عقل سے کون سی چیزیں پیدا ہوتی ہیں اورکون سی چیزیں پیدا نہیںہوتیں اور اقسام عقل کیا ہیں؟'' فرمایا: عقل، جہالت کی نکیل ہے، روح شریر ترین چوپائے کے مانند ہے کہ اگر اسے مہار نہ کیا جائے تو سر گرداںرہتا ہے، پس عقل ، جہالت کی مہار ہے ، اللہ نے عقل کو خلق کیا اور اس سے کہا: آگے آؤ وہ آگے آگئی، پھر کہا: پیچھے ہٹو ، پیچھے ہٹ گئی ، تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا: میری عزت و جلال کی قسم ، میں نے تجھ سے زیادہ عظیم اور اطاعت گذار مخلوق نہیں پیدا کی، میں تیرے ہی سبب آغاز کرتا ہوں اور تیرے ہی ذریعہ پلٹاؤنگا، تیرے ہی سبب جزا و سزادوںگا ، پس حلم کا سر چشمہ عقل، علم کامنبع حلم، رشد کا مرکزعلم، پاکدامنی کا سرچشمہ رشد، تحفظ کا منبع پاکدامنی ، حیا کا سرچشمہ تحفظ، متانت کا مرکزحیا، نیکیوں پر دوام کامنبع متانت، برائیوں سے پرہیز کا سرچشمہ نیکیوں پر دوام اور ناصح کی اطاعت کا سرچشمہ برائیوں سے پرہیز ہے ۔
٣٠٩۔رسول خدا(ص): لوگوں کے ساتھ مہربانی نصف عقل ہے ۔
٣١٠۔ رسول خدا(ص): حسن ادب ، عقل کے صحیح ہونے کی دلیل ہے ۔
٣١١۔ امام علی (ع): بیوقوفوں کی ہمنشینی سے اخلاق تباہ ہو جاتے ہیں اور عاقلوںکی ہمنشینی سے اخلاق سنور جاتے ہیں۔
٣١٢۔ امام علی (ع): انسان میں ادب ایسا درخت ہے جس کی جڑ عقل ہے ۔
٣١٣۔ امام علی (ع): ادب، عقل کی دلیل اور علم، دل کی دلیل ہے ۔
٣١٤۔ امام علی (ع): بہترین عقل، ادب ہے ۔
٣١٥۔ امام علی (ع): عقلمندی کی حد عاقبت اندیشی اور قضائے الہی پر راضی رہناہے ۔
٣١٦۔ امام علی (ع): دور اندیش انسان اپنی عقل کی بنا پر ہر پستی سے باز رہتا ہے ۔
٣١٧۔ امام علی (ع): اچھی فکر والا ذلیل نہیں ہوگا۔
٣١٨۔ امام علی (ع): نفس کے کمال کا انحصار عقل پر ہے۔
٣١٩۔ امام علی (ع): پسندیدہ اخلاق، عقل کا ثمرہ ہے ۔
٣٢٠۔ امام علی (ع): عقل کے مانند کوئی چیز فضیلتوں کو نہیں سنوارتی۔
٣٢١۔ امام علی (ع): خوف خدا رکھنے والاعقلمند ہے ۔
٣٢٢۔ امام علی (ع): عقل درخت کے مانند ہے کہ جس کا میوہ سخاوت اور حیا ہے....
٣٢٣۔ امام علی (ع): عقل ایسا درخت ہے کہ جس کی جڑ تقویٰ ِ شاخیں حیا اور پھل ورع ہے تقویٰ تین خصلتوں ، فہم دین ، دنیا سے بے رغبتی اور خدا سے لو لگانے کی دعوت دیتا ہے ، اور حیا، تین خصلتوں ، یقین ، حسن خلق اور تواضع کی دعوت دیتی ہے اور ورع، تین خصلتوں ، صداقت ، نیکیوںکی طرف بڑھنے اور ترک شبہات کی دعوت دیتا ہے۔
٣٢٤۔ امام علی (ع): عقل کا نتیجہ عبرت و پشتپناہی اور جہل کانتیجہ غفلت و خود پسندی ہے۔
٣٢٥۔ امام علی (ع): انسان کی عقل کی شناخت اسکی پاکدامنی اور قناعت کی آراستگی سے ہوتی ہے ۔
٣٢٦۔ امام علی (ع): تمہارے لئے سخاوت ضروری ہے؛ اس لئے کہ یہ عقل کا ثمر ہے ۔
٣٢٧۔امام علی (ع): عقلمند کے لئے یہی کافی ہے کہ اپنے خواہشات کو کم رکھے۔
٣٢٨۔ امام علی (ع): عقلمندی کی علامت حسن سلوک ہے ۔
٣٢٩۔ امام علی (ع): عقلمندی کی علامت لوگوں سے نیک برتاؤ ہے۔
٣٣٠۔ امام علی (ع): کوئی عقلمندی تجاہل کے مثل نہیں۔
٣٣١۔ امام علی (ع): عقلمندی ہر جگہ انس و الفت کے ساتھ ہوتی ہے ۔
٣٣٢۔ امام علی (ع): بردباری عقلمندی کی دلیل اور فضیلت کی علامت ہے ۔
٣٣٣۔ امام علی (ع): عقلمند پہچانا نہیں جاتا مگر یہ کہ بردباری ، تقاضوں کی کمی اور نیکیوں کے ذریعہ۔
٣٣٤۔ امام علی (ع): ہر چیز کی زکات ہوتی ہے اور عقلمندی کی زکات جاہلوں کو برداشت کرنا ہے ۔
٣٣٥۔ امام علی (ع): انسان کی جوانمردی اسکی عقل کے مطابق ہوتی ہے ۔
٣٣٦۔ امام علی (ع):علم کے ذریعہ نفس کا جہادعقل کی نشانی ہے ۔
٣٣٧۔ امام علی (ع): عقلمندی، گناہوں سے دوری ،عاقبت اندیشی اور احتیاط ہے ۔
٣٣٨۔ امام علی (ع): عقل، ہوشیاری کا سبب ہے ۔
٣٣٩۔ امام علی (ع):...مومن کی عقلمندی کی نشانی خود کے ساتھ انصاف ، اپنی مخالفت کے وقت غیظ و غضب کا ترک کرنا اور جب حق اس کے لئے روشن ہو جائے تو اس کا قبول کرنا ہے ۔
٣٤٠۔ امام علی (ع): بردباری ایسا نور ہے کہ جس کی اساس عقلمندی ہے ۔
٣٤١۔ امام علی (ع): عقلمندی سے بردباری میں اضافہ ہوتا ہے ۔
٣٤٢۔ امام علی (ع): عقل کی فراوانی سے بردباری میں اضافہ ہوتا ہے۔
٣٤٣۔ امام علی (ع): عقلمندی یہ ہے کہ میانہ روی اختیار کرو اور اسراف نہ کرو ،وعدہ کرو تو اسکی خلاف ورزی نہ کرو اور جب غصہ آجائے تو بردباری کا مظاہرہ کرو۔
٣٤٤۔ امام علی (ع): سکون عقلمندی کی نشانی ہے۔
٣٤٥۔ امام علی (ع):عقلمندی کا نتیجہ حق کاپابند ہونا ہے ۔
٣٤٦۔ امام علی (ع): عقلمندی کا نتیجہ صداقت ہے ۔
٣٤٧۔ امام علی (ع): عقلمندی کا نتیجہ دنیا سے بیزاری اور خواہشات کی پامالی ہے ۔
٣٤٨۔ امام علی (ع): عقلمندی کا نتیجہ پائداری ہے۔
٣٤٩۔ امام علی (ع): جو عقلمند ہوگا فیاض ہوجائےگا۔
٣٥٠۔ امام علی (ع): عقلمندی کی جڑ پاکدامنی ہے اور اس کا نتیجہ گناہوں سے بچناہے ۔
٣٥١۔ امام علی (ع):جو عقلمند ہوگا سمجھے گااور جو عقلمند ہوگا پاکدامن ہو جائیگا۔
٣٥٢۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے ۔ کسی کی گفتگو سے خوش نہ ہو جب تک کہ اس کے کردار سے راضی نہ ہو جاؤ، اور اس کے کردار کو اس وقت تک پسند نہ کروجب تک کہ اسکی عقلمندی سے راضی نہ ہو جاؤ اور اسکی عقلمندی سے اس وقت تک راضی نہ ہو جب تک کہ اسکی حیا سے راضی نہ ہو جاؤ، کیوں کہ انسان بزرگی و پستی سے مرکب ہے لہذا جب اسکی حیا قوی ہوگی تو اسکی عظمت بھی مستحکم ہو جائیگی اور اگر حیا کم ہوگی تو اسکی پستی مستحکم ہو جائیگی۔
٣٥٣۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے ، عقل اور مکارم اخلاق کا معیار، آبرو مندی ، واجبات کی جزا، انجام مستحبات، عہد و پیمان کی پابندی اور وعدوں کی وفا ہے ۔
٣٥٤۔ اما م حسن (ع): جس شخص کے پاس عقل نہیں اس کے پاس ادب نہیں۔
٣٥٥۔ امام حسن (ع): جب آپ ؑ سے عقل کے متعلق پوچھا گیا، تو فرمایا غم و غصہ کو گھونٹ گھونٹ کر کے پینا ہے ، یہاں تک کہ موقع ہاتھ آجا ئے۔
٣٥٦۔ اما م حسین (ع): جب آپؑ سے عقل کے بارے میں پوچھا گیا، تو فرمایا: غم و غصہ کو گھونٹ گھونٹ کر کے پی جانا اور دشمنوں کے ساتھ مہربانی کرنا ہے ۔
٣٥٧۔ امام صادق(ع): لوگوں کے ساتھ نیک برتاؤسے پیش آنا ایک تہائی عقلمند ی ہے ۔
٣٥٨۔ امام صادق(ع): عقلمند ، عقلمند نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس میں یہ تین چیزیں کامل نہ ہوجائیں: خوشی و ناراضگی دونوں حالتوں میں حق اداکرنا، جو چیز اپنے لئے پسند کرتا ہے وہی لوگوں کے لئے بھی پسند کرنا اور دوسروں کی لغزش کے وقت بردباری کا مظاہرہ کرنا۔
٣٥٩۔ امام صادق(ع): بندوں کے درمیان پانچ سے کم خصلتیں تقسیم نہیںہوئی ہیں:یقین، قناعت، صبر، شکر اور عقل جو ان تمام کو کامل کرنے والی ہے ۔
و۔ نیک اعمال
قرآن
(کیا وہ شخص جو یہ جانتا ہے کہ جو کچھ آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل ہوا سب بر حق ہے وہ اس کے جیسا ہو سکتا ہے جو بالکل اندھا ہے( ہرگز نہیں) اس بات کو صرف صاحبان عقل ہی سمجھ سکتے ہیں)
( جو عہد خدا کو پورا کرتے ہیں اور عہد شکنی نہیں کرتے ہیں)
( اور جو ان تعلقات کو قائم رکھتے ہیں جنہیں خدا نے قائم رکھنے کا حکم دیا اور اپنے پروردگار سے ڈرتے رہتے ہیں اور بدترین حساب سے خوفزدہ رہتے ہیں)
حدیث
٣٦٠۔ رسول خدا(ص): طاعت پروردگار کے سلسلہ میں فرشتوں نے عقل کے ذریعہ جد و جہد اور کوشش کی ، اور مؤمنین نے اپنی عقل کے مطابق طاعت خدا میںسعی و کوشش کی ، پس وہ لوگ جو بیشتر عقل کے مالک ہیں وہ بیشتر خدا کی پیروی کرتے ہیں۔
٣٦١۔ رسول خدا(ص): جب آپ سے عقل کے متعلق سوال کیا گیا، تو فرمایا: حکم خدا کی تعمیل کرنا ہے ، اور بیشک حکم خدا کی تعمیل کرنے والے عقلاء ہی ہیں۔
٣٦٢۔ جابر بن عبد اللہ : نبی نے اس آیت (اور مثالیں ہم عالم انسانیت کے لئے بیان کر رہے ہیں لیکن انہیں صاحب علم کے علاوہ کوئی نہیں سمجھ سکتاہے)کی تلاوت کی اور فرمایا: عالم و ہ شخص ہے جو خدا کے بارے میں آگاہی رکھتا ہے اور اسکی پیروی کرتا اور اس کے غضب سے پرہیز کرتا ہے ۔
٣٦٣۔ سوید بن غفلہ: کا بیان ہے ایک روز ابو بکر نکلے ، رسول خدا نے ان کا خیر مقدم کیاتو ابو بکر نے پوچھا، اے رسول خدا! آپ کس چیز کی بدولت مبعوث ہوئے؟ فرمایا: عقل کے سبب ، ابو بکر نے عرض کیا: عقل تک ہماری رسائی کیسے ہو سکتی ہے؟ رسول خدا نے فرمایا: عقل کی کوئی حد نہیں جو حلال خدا کو حلال اور حرام خدا کو حرام سمجھے اسے عقلمند کہا جاتا ہے ۔ لہذا جو اس کے علاوہ سعی و کوشش کر یگا وہ عابد کہا جائیگا اور اگر اس سے زیادہ کوشش کریگا تو سخی کہا جائیگا اور جو عبادت میں جد و جہد اور نیکیوں کی مشکلات کو برداشت کرتا ہے لیکن ایسی عقل کا حامل نہیں ہے جو اسے حکم خدا کی پیروی اور اسکی نواہی سے پرہیز کی طرف ہدایت کرے، یہی لوگ اپنے کام کے اعتبار سے خسارہ میں ہیں اور ان کی سعی و کوشش زندگانی دنیا میں تباہ و برباد ہوگئی در حالانکہ وہ اپنے گمان کے مطابق نیک کام انجام دے رہے ہیں۔
٣٦٤۔ امام علی (ع): عقلیں افکار کی پیشوا اور افکار دلوںکے پیشوا ہیں ، قلوب حواس کے پیشوا اور حواس اعضا کے پیشوا ہیں۔
٣٦٥۔ امام علی (ع): اطاعت ، عقل کے مطابق ہوتی ہے ۔
٣٦٦۔ امام علی (ع): جس کی عقل کامل ہوتی ہے اسکاکام نیک ہو تا ہے ۔
٣٦٧۔ امام علی (ع): جو شخص اپنی عقل کو خواہشات پر مقدم رکھتا ہے اسکی سعی مشکور ہوتی ہے ۔
٣٦٨۔ امام علی (ع): عقلمندی کی نشانیوں میں سے عادلانہ رویہ اختیار کرنا ہے ۔
٣٦٩۔ امام علی (ع): عنصر عقل( انسان ) کو عدالت سے کام لینے پر ابھارتا ہے ۔
٣٧٠۔ امام علی (ع): عقلمندی یہ ہیکہ جو جانتے ہو وہی کہو اور جو کہتے ہو اس پر عمل کرو۔
٣٧١۔ امام علی (ع):جو شخص اپنی زبان کوصحیح رکھتا ہے اسکی عقل سنورجاتی ہے ۔
٣٧٢۔ امام علی (ع): معذرت، عقلمندی کی نشانی ہے ۔
٣٧٣۔ امام علی (ع): عقلمندی کا نتیجہ نیکو کاروںکی ہمنشینی ہے ۔
٣٧٤۔ امام صادق(ع): عقلمندی کی بہترین سرشت، عبادت ہے ، اس کے لئے محکم ترین سخن علم ہے ؛ اسکی عظیم ترین بہرہ مندی حکمت اور اس کا عظیم ترین ذخیرہ نیکیاںہیں۔
ز۔ ہر شی کو اسکی جگہ پر رکھنا
٣٧٥۔ امام علی (ع): عاقل وہ ہے جو ہر شی کو اسکی جگہ پر رکھتا ہے اور جاہل اس کے بر خلاف ہوتا ہے ۔
٣٧٦۔امام علی (ع):آپ سے گذارش کی گئی کہ عاقل کی توصیف فرمائیں ۔ تو فرمایاکہ عاقل وہ ہے جو ہر شی کو اسکی جگہ پر رکھتا ہے! عرض کیاگیا، پھر جاہل کی تعریف کیا ہے ۔ فرمایایہ تو میں بیان کر چکا ۔
٣٧٧۔ امام علی (ع): عقلمند وہ ہے جو اپنے کام کو بحسن وخوبی انجام دیتا ہے اورموقع و محل کے اعتبار سے کوشش کرتا ہے۔
٣٧٨۔ امام علی (ع): عاقل کے لئے مناسب نہیںکہ حدود سے تجاوز کرے ، بلکہ ہر چیز کو اسکی جگہ پر قرار دے۔
فائدہ
جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں آثار عقل میں سے ہر چیز کو اسکی جگہ پر قرار دیناہے اور دوسری جانب ، یہی معنیٰ عدل کی تعریف میں گذر چکے ہےں ۔ لہذا ان دونوں احادیث کے موازنہ سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ آثار عقل میں سے عدل کی رعایت بھی ہے اور عاقل ، عدل کے مطابق عمل کرتا ہے۔ اور اس نتیجہ کی بعض احادیث میں وضاحت کی گئی ہے ۔
ح۔ بہتر کا انتخاب
٣٧٩۔ امام علی (ع): عقل تمہیں زیادہ نفع بخش کا حکم دیتی ہے اور جوانمردی زیادہ حسن و جمال کا۔
٣٨٠۔ امام علی (ع): جو شخص خیر کو شر سے جدا نہیں کر سکتاوہ چوپایوں کے مثل ہے ۔
٣٨١۔ امام علی (ع): عاقل وہ نہیں ہے کہ جو خوبی کو بدی سے پہچانے، بلکہ عاقل وہ ہے جو دوبرائیوں کے درمیان زیادہ مناسب کی تشخیص کرے۔
ط۔ عمر کو غنیمت سمجھنا
٣٨٢۔ امام علی (ع): عقلمند وہ ہے جو غیر مفید کاموں میں خود کو ضائع نہیں کرتا اور وہ چیز جو اس کے ساتھ ہمیشہ رہنے والی نہیں ہے اسے ذخیرہ نہیں کرتا۔
٣٨٣۔ امام علی (ع): اگر عقل سالم ہو تو ہر انسان اپنی فرصت کو غنیمت سمجھتا ہے ۔
ی۔ صحیح بات
٣٨٤۔ امام علی (ع): عقل کی نشانیوں میں سے صحیح بات کہنا ہے ۔
٣٨٥۔ امام علی (ع): اچھی گفتگو فراوانی عقل کی نشانی ہے ۔
٣٨٦۔ امام علی (ع): انسان کی عقل کا اندازہ اسکی اچھی گفتگو سے اور اس کے نسب کی پاکیزگی کا اندازہ اس کے بہترین افعال سے ہوتا ہے ۔
٣٨٧۔ امام صادق(ع): انسان تین طرح کے ہوتے ہیں ، عاقل ، احمق اور فاجر، عاقل وہ ہے جب اس سے کلام کیا جاتا ہے تو وہ جواب دیتا ہے ، جب وہ خود بولتا ہے تو سچ بولتا ہے اور جب سنتا ہے توسمجھتا ہے ، اور احمق وہ ہے جب کلام کرتا ہے تو جلد بازی کرتا ہے جب گفتگو کرتا ہے تو حیران ہوتا ہے اور جب برائیوں کی طرف ابھارا جاتا ہے تو اسے کر بیٹھتا ہے اور فاجر وہ ہے اگر اسے امانتدار سمجھوگے تو وہ خیانت کریگا اور اگر اس سے گفتگو کروگے تو تمہیں متھم کر دیگا۔
ک۔ تجربات کا تحفظ
٣٨٨۔امام علی (ع): عقلمندی ، تجربات کا تحفظ ہے اور بہترین تجربہ وہی ہے جس سے تمہیں نصیحت حاصل ہو۔
٣٨٩۔امام علی (ع): تجربات کا تحفظ عقلمندی کا سرمایہ ہے ۔
٣٩٠۔ امام حسن (ع): جب آپ سے آپ کے پدر بزرگوار نے عقل کے متعلق دریافت کیا۔ تو فرمایا: (عقلمندی) یہ ہے کہ جو کچھ دل کے سپرد کیا ہے وہ اسے محفوظ رکھے!
٣٩١۔ امام علی (ع): عاقل وہ شخص ہے جو اپنے تجربات سے نصیحت حاصل کرے۔
ل۔ حسن تدبیر
٣٩٢۔ رسول خدا(ص): نے حضرت علی (ع) کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا۔ کوئی عقل تدبیر کی مانند نہیں۔
٣٩٣۔ امام علی (ع): عقل کی فراوانی کی بہترین دلیل حسن تدبیر ہے ۔
٣٩٤۔ امام علی (ع): عقلمندی کی نشانی بیہودگی سے اجتناب اور حسن تدبیر ہے ۔
م۔صحیح گمان
٣٩٥۔ امام علی (ع): عاقل کا گمان پیشینگوئی ہے ۔
٣٩٦۔ امام علی (ع): صحیح گمان صاحبان عقل کی روش ہے ۔
٣٩٧۔ امام علی (ع): عقلمند کا گمان ، جاہل کے یقین سے زیادہ درست ہوتا ہے۔
٣٩٨۔ امام علی (ع): صاحبان عقل و خرد کا گمان ، حقیقت سے زیادہ قریب ہوتا ہے ۔
٣٩٩۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے ۔عقل ، صحیح گمان اور ماضی کی بنیاد پر مستقبل کی معرفت ہے ۔
ن ۔دنیا سے بے رغبتی
٤٠٠۔ امام علی (ع): عقل کی حد ناپائدار و فانی سے گریز اور پائدار و باقی سے لگاؤ ہے ۔
٤٠١۔ امام علی (ع): عقل کی فضیلت دنیا سے بے رغبتی ہے ۔
٤٠٢۔ امام علی (ع): نفس کو دنیا کے زرق و برق سے جدا رکھنا عقل کا نتیجہ ہے ۔
٤٠٣۔ امام علی (ع): جو عقلمند ہوتا ہے قناعت کرتاہے ۔
٤٠٤۔ امام علی (ع): عاقل وہ ہے جو پست و ناپائدار دنیا سے دل نہیں لگاتا اور خوبصورت و جاوداں اور بلند مرتبہ جنت سے رغبت رکھتا ہو۔
س۔ فضول باتوں کا ترک کرنا
٤٠٥۔ امام کاظم (ع):عاقلوںنے دنیا کی بیہودہ باتوں کو ترک کر دیا، چہ جائیکہ گناہ، ترک دنیا مستحب ہے اور ترک گناہ واجب ۔
٤٠٦۔ اما م علی (ع): جب عقلیں کم ہوجاتی ہیں تو فضول باتیں زیادہ ہو جاتی ہےں۔
٤٠٧۔ امام علی (ع): جو خود کو فضول باتوں سے باز رکھتا ہے ، عقلیں اسکی رائے کو درست بنا دیتی ہیں۔
٤٠٨۔ امام علی (ع): عاقل وہی ہے جو باطل کو ٹھکرادے۔
ع۔آخرت کا زاد راہ
٤٠٩۔ رسول خدا(ص): نے جمعہ کے کسی خطبہ میں۔ فرمایا: آگاہ ہو جاؤ! عقل کی علامتوں میں سے دار غرور (دنیا ) سے بے رغبتی اور دائمی ٹھکانہ کی طرف میلان پیدا کرنا ہے اور قبر وںکے لئے توشہ فراہم کرنا اور روز قیامت کے لئے آمادہ ہونا ہے ۔
٣٤١۔ امام علی (ع): عقل کی نشانی روز قیامت کے لئے توشہ مہیا کرنا ہے ۔
٤١١۔ امام علی (ع): جو اپنی دائمی قیامگاہ کو آباد کرتاہے وہ عقلمند ہے ۔
٤١٢۔ امام علی (ع): عقلمند وہ ہے جس نے اپنی شہوت کو بالائے طاق رکھ دیاہے اور دنیا کو آخرت کے عوض بیچ دیا۔
٤١٣۔ امام علی (ع): عقلمند نہیں ہے ، مگر یہ کہ خدا کی معرفت رکھتا ہو اور دار آخرت کے لئے عمل کرتا ہو۔
٤١٤۔ امام علی (ع): عاقل وہی ہے جو اپنی خواہشات پر غالب ہو اور اپنی آخرت کو دنیا کے بدلے فروخت نہ کیا ہو۔
٤١٥۔ امام علی (ع): جو عقلمند ہے وہ خواب غفلت سے بیدار ہو کر سفر کے لئے آمادہ ہو جاتا ہے اور اپنی قیامگاہ کو آباد کرتا ہے ۔
٤١٦۔ امام کاظم (ع): عاقل دنیا سے کنارہ کش اور آخرت کی طرف مائل ہوتے ہیں چونکہ وہ جانتے ہیں کہ دنیا طالب و مطلوب ہے، اور آخرت بھی چاہتی ہے اور چاہی جاتی ہے ، لہذا جو آخرت کا طلبگار ہو جائیگا دنیا خود اس کے پیچھے آئیگی یہاں تک کہ اس کے رزق کو پورا کریگی، لیکن جو دنیا کا طلبگار ہے اس سے آخرت اپنے حق کا مطالبہ کریگی، یہاں تک کہ اسے موت آجائیگی اور اسکی دنیا و آخرت کوتباہ کر دیگی۔
٤١٧۔ امام کاظم (ع): عقلمند نے دنیا اور دنیا کی چیزوںپر نظر ڈالی تو اسے معلوم ہوا کہ دنیا بغیر مشقت کے حاصل نہیں ہوتی ہے اور آخرت پر نظر ڈالی تو پتہ چلا کہ آخرت بھی بغیر مشقت کے حاصل نہیں ہو سکتی ہے ۔ لہذا اس نے ان دونوں میں سے مشقت سے اس کو حاصل کیا جو باقی رہنے والی ہے ۔
٤١٨۔ سوید بن غفلہ: کا بیان ہیکہ امیر المومنین ؑ کے منصب خلافت پر فائز ہونے کے بعد میں آپکی خدمت میں حاضرہوا، آپ ایک چھوٹی سی چٹائی پر تشریف فرماتھے کہ جس کے علاوہ آپ کے گھر میں کچھ بھی نہ تھا۔ میں نے عرض کیا: اے امیر المومنین ؑ! بیت المال آپ کے اختیار میں ہے لیکن میں آپ کے گھر میں گھر کے اسباب نہیں دیکھ رہا ہوں! فرمایا: اے ابن غفلہ ! عقلمند چھوٹ جانے والے مکان کے لئے اثاثہ جمع نہیں کرتا ، ہمارے لئے پر امن گھر ہے ہم نے اپنا بہترین سرمایہ وہاں منتقل کر دیا ہے ۔ اور عنقریب ہم بھی ادھر ہی سفر کرنے والے ہیں۔
ف۔نجات
٤١٩۔ رسول خدا(ص): خدا نے کسی کو عقل ودیعت نہیں کی مگر یہ کہ اس کے ذریعہ اسے ایک دن نجات دیگا۔
٤٢٠۔ تاریخ کبیر: قرہ بن ہبیرہ رسول خدا کی خدمت میں آیا اور کہا: ہمارے کچھ ارباب تھے خدا کے بجائے جنکی عبادت کی کی جاتی تھی ، خدا نے آپ کو مبعوث کیا، تو اس کے بعد ہم نے انہیں لاکھ پکارا مگرانہوں نے کوئی جواب نہ دیا اور ہم نے ان سے طلب کیا لیکن کچھ عطا نہ کیا، اور ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے خدا نے ہماری ہدایت کی، رسول خدا(ص) نے فرمایا: یقینا وہ کامیاب ہو گیا جسکوعقل عطا ہوئی ہے ۔ قرہ نے کہا: اے رسول خدا! مجھے دو لباس پہنا دیجئے جنہیں آپ پہن چکے ہیں، آپ ؐ نے ایسا ہی کیا، پس جب وہ موقف عرفات میں تھا تو رسول خدا(ص) نے اس سے فرمایا: تو اپنی بات کی تکرار کر، اس نے تکرار کی ، اس وقت رسول خدا نے فرمایا: کامیاب ہے وہ شخص جس کوعقل سے نوازاگیا ہے۔
٤٢١۔ امام علی (ع): عقل ہدایت اورنجات دیتی ہے اور جہالت ،گمراہ اور پست کرتی ہے۔
٤٢٢۔ امام علی (ع): فراوانی عقل ، نجات عطا کرتی ہے ۔
٤٢٣۔ امام علی (ع): عقلمندی کا تقاضانجات کے لئے عمل کرنا ہے ۔
٤٢٤۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے ۔ اگر زمام عقل کو آزاد چھوڑ دیا جائے اور خواہشات نفس،دینی رسم یا عصبیت ماسلف کی شکار نہ ہوتواپنے حامل کو نجات سے ہمکنار کریگی۔
٤٢٥۔ امام علی (ع): عقلمند کی رائے نجات دیتی ہے ۔
٤٢٦۔ امام علی (ع): عقل کی جڑ فکر و نظر ہے اور اس کا پھل سلامتی ہے ۔
ص۔ جنت پر اختتام
٤٢٧۔ رسول خدا(ص): نے علی (ع) سے اپنی وصیت میں ۔ فرمایا: عقل وہ ہے جس سے جنت کا اکتساب اور خوشنودی پروردگار حاصل ہو۔
٤٢٨۔ رسول خدا(ص): بہت سے عقلمند ایسے ہیں جو امر خدا کی معرفت رکھتے ہیں ، اگر چہ لوگوں کی نظروں میں حقیر اور کریہہ المنظرہوں لیکن آئندہ نجات یافتہ ہیں ، اور بہت سے خوش بیان اور حسین صورت ہیںلیکن روز قیامت ہلاک ہونے والے ہیں۔
٤٢٩۔ انس: سوال کیا گیا، اے رسول خدا!کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی شخص حسن عقل کا مالک ہو اور کثرت سے گناہ بھی کرتا ہو؟ رسول خدا(ص) نے فرمایا: کوئی شخص ایسا نہیںہے جو گناہوں اور خطاؤں کا مرتکب نہ ہو، پس ہر وہ شخص جس کی فطرت عقلمندی اور طبیعت یقین ہوتو گناہ اسے ضرر نہیں پہنچا سکتے، کہا گیا: اے رسول خدا(ص)! یہ کیسے ممکن ہے؟ فرمایا: چوں کہ (عقلمند) جب خطا کا مرتکب ہوتا ہے تو توبہ و پشیمانی کے ذریعہ اسکی تلافی کرتا ہے ۔لہذا اس کے سارے گناہ محو ہو جاتے ہیں فقط نیکیاں باقی رہ جاتی ہیں جس کی بدولت وہ وارد بہتشت ہوگا۔
٤٣٠۔ امام علی (ع):کچھ گروہ بہشت بریں کی طرف (دوسروں پر) سبقت لے جائینگے کہ جو دوسروں کی نسبت نہ زیادہ نماز و روزہ کے پابند اور نہ ہی حج و عمرہ بجالائے ہوں گے لیکن انہوںنے مواعظ الٰہی کو سمجھ لیا تھا۔
٤٣١۔ امام صادق(ع): جو عقلمند ہوگا انشاء اللہ اس کا خاتمہ جنت پر ہوگا۔
٤٣٢۔ محمد بن عبد الجبار: نے امام جعفر صادق(ع) کے شاگردوں میں سے کسی ایک سے نقل کیا ہے کہ میں نے آپکی خدمت میں عرض کیا: عقل کیاہے؟ فرمایا: جس سے خدا کی عبادت کیجائے اور جنت حاصل کیجائے، میںنے کہا: وہ چیز جو معاویہ میں تھی؟ فرمایا: وہ چالاکی اور شیطنت ہے، جو عقل کی شبیہ ہوتی ہے لیکن عقل نہیں ہے۔
ق۔ ہر کام میں بھلائی
٤٣٣۔ امام علی (ع): عقل کے ذریعہ ہر کام کی بھلائی ہے ۔
٤٣٤۔ امام علی (ع): عقل ہر کام کی اصلاح کرتی ہے ۔
ر۔ دنیا و آخرت کی بھلائی
٤٣٥۔ امام علی (ع): عقل نیکیوں کا سرچشمہ ہے ۔
٤٣٦۔ امام علی (ع): عقل کے سبب نیکیاںحاصل ہوتی ہیں۔
٤٣٧۔ امام علی (ع): ہر دلیری کو عقل کی ضرورت ہے ۔
٤٣٨۔ امام علی (ع): عقل نفع بخش ہے ،علم سر فرازی ہے اور صبر دفاع کرنے والا ہے ۔
٤٣٩۔ امام علی (ع): عقلمندی سے کام لو تاکہ( منزل مقصود ) تک پہنچ جاؤ۔
٤٤٠۔ امام حسن (ع): عقل کے ذریعہ دنیا و آخرت حاصل ہوتی ہے اور جو عقل سے محروم ہوگا وہ آخرت سے بھی محروم ہوگا۔
٤٤١۔ امام زین العاب دین (ع): عقل نیکیوںکی رہبر ہے ۔
٤٤٢۔ عبد اللہ بن عجلان سکونی: کا بیان ہے میں کہ نے امام محمد باقر(ع) کی خدمت میں عرض کیا: جب میں چاہتا ہوں کہ مال کو صلہ رحم کے عنوان سے اپنے دوستوں کو عطا کروں، تو انہیں کس طرح عطا کروں؟ فرمایا: دین کی راہ میں ہجرت اور عقل وفہم کی بنیاد پر انہیں عطا کرو۔
٤٤٣۔ اما م صادق(ع): کام کا آغاز اور اسکی ابتدا اور اس کا استحکام و آبادکاری عقل کے باعث ہے وہ عقل کہ جسے خدا نے بندوںکی زینت اور ان کے لئے نورانیت کا سبب قرار دیا ہے ۔
٤٤٤۔ امام کاظم (ع): اے ہشام! وہ شخص جو مال کے بغیربے نیازی ، حسد سے دل کی حفاظت اور دین میں سلامتی چاہتا ہے اسے چاہئے کہ بارگاہ احدیت میں گڑ گڑائے اور اس سے عقل کے کامل ہونے کی دعا کرے، اس لئے کہ جو عقلمند ہو جاتا ہے جو کچھ اس کے پاس ہے اس پر قناعت کرتا ہے اور جوقناعت کرتا ہے وہ بے نیاز ہے ۔
٥/٣
وہ اشیاء جن سے عقل آزمائی جاتی ہے
الف: عمل
٤٤٥۔ امام علی (ع): عمل کی کیفیت سے عقل کی مقدار کا اندازہ ہوتا ہے ، لہذا اس کے لئے بہترین عمل کا انتخاب کرو اور اسے قوی و محکم بناؤ۔
٤٤٦۔ امام علی (ع): اچھی گفتگو اور اچھے عمل کے مالک بنو چونکہ انسان کی گفتگو اسکی فضیلت کی نشانی ہے اور اس کا عمل اسکی عقلمندی کی دلیل ہے ۔
٤٤٧۔ امام علی (ع): جو شخص اپنے کاموں کو بحسن وخوبی انجام دیتا ہے اپنی فراوانی عقل کا پتہ دیتاہے ۔
٤٤٨۔ امام علی (ع): عاقل وہ ہے جس کے افعال اس کے اقوال کی تصدیق کریں۔
ب: کلام
٤٤٩۔ امام علی (ع): انسان کا کلام اسکی عقل کی کسوٹی ہے ۔
٤٥٠۔ امام علی (ع): فی البدیہ گفتگو کے وقت انسان کی عقل کی آزمائی جاتی ہے ۔
٤٥١۔ امام علی (ع): انسان جو کچھ اپنی زبان پر جاری کرتا ہے اس سے اسکی عقل کا اندازہ ہوتا ہے ۔
٤٥٢۔ امام علی (ع): ہر شخص کی زبان اسکی عقلمندی کا پتہ دیتی ہے اور اس کا بیان اسکی فضیلت پر دلالت کرتا ہے ۔
٤٥٣۔ امام علی (ع): زبان ایسی میزان ہے جسے عقل سنگین اور نادانی سبک بناتی ہے ۔
٤٥٤۔ امام علی (ع): ایسے کلام سے اجتناب کرو کہ جس کی روش سے ناواقف اور حقیقت سے ناآشنا ہو۔ کیوں کہ تمہاری گفتگو تمہاری عقل کی نشانی اور تمہاری باتیں تمہاری میزان معرفت کا پتہ دیتی ہےں۔
٤٥٥۔ امام علی (ع): انسان جو کچھ اپنی زبان پر جاری کرتا ہے اس کے ذریعہ اسکی عقل پر دلیل قائم کی جاتی ہے ۔
٤٥٦۔ امام علی (ع): انسان کی گفتگو اسکی عقل کی نشانی ہے اور انسان کے نسب کی دلیل اس کا عمل ہے ۔
٤٥٧۔ امام علی (ع): جو شخص اپنی زبان پر قابو نہیں رکھتاوہ اپنی کم عقلی کو آشکار کرتا ہے ۔
٤٥٨۔ رسول خدا(ص): خدا نے جناب موسیٰ پر وحی کی : کہ بہت زیادہ باتیںکرکے بکواس کرنے والے نہ بنو، کیونکہ زیادہ باتیں علماء کے لئے باعث بدنامی ہیں اور کم عقلوں کی برائیوں کو آشکار کرتی ہیں ، لہذا میانہ روی سے کام لو؛ چونکہ میانہ روی کا سرچشمہ توفیق و درستی ہے ۔
ج: خاموشی
٤٥٩۔ امام علی (ع): خاموشی ،شرافت و نجابت کی نشانی اور عقل کا ثمرہ ہے ۔
٤٦٠۔ امام علی (ع): جو عقلمند ہو جاتا ہے وہ خاموش رہتا ہے ۔
٤٦١۔ امام علی (ع): جو شخص خود کو فضول باتوں سے باز رکھتا ہے با عظمت افراد اسکی عقلمندی کی گواہی دیتے ہیں۔
٤٦٢۔ امام علی (ع): انسان کی عقلمندی کی علامت یہ ہے کہ ہر وہ چیز جسے جانتا ہے زبان پر جاری نہ کرے۔
٤٦٣۔ امام علی (ع): عاقل وہ ہے جو اپنی زبان کوصرف ذکر خدامیں مصروف رکھتا ہے۔
٤٦٤۔امام علی (ع): عقلمند زبان نہیںکھولتا مگر یہ کہ ضرورت کے وقت یا دلیل و برہان کےلئے۔
د: رائے
٤٦٥۔ امام علی (ع): انسان کی رائے اسکی عقل کی میزان ہے ۔
٤٦٦۔ امام علی (ع): انسان کا گمان اسکی عقل کی میزان اور اس کا عمل اسکی اصل کا بہترین گواہ ہے ۔
٤٦٧۔ امام علی (ع): انسان کا گمان اسکی عقل کے مطابق ہوتا ہے ۔
٤٦٨۔ امام علی (ع): یقینا عقلمند اپنی عقل کے سبب رشد و ہدایت پر ہے اور اپنی رائے و نظر کے باعث ترقی پر ہے ، لہذااسکی رائے درست اور عمل قابل تعریف ہے ۔
ھ: قاصد
٤٦٩۔ امام علی (ع): تمہارا قاصد تمہاری عقل کا ترجمان ہوتا ہے اور تمہارا خط تمہارا بہترین ترجمان ہوتا ہے ۔
٤٧٠۔ امام علی (ع): تمہارا قاصد تمہاری عقل کا ترجمان اور تمہارا تحمل تمہاری بردباری کی دلیل ہے۔
٤٧١۔ امام علی (ع): قاصد کی عقل اور اس کے ادب سے بھیجنے والے کی عقل پر دلیل قائم کی جاتی ہے ۔
و: لکھنا
٤٧٢۔ امام علی (ع): انسان کا خط اسکی عقلمندی کی نشانی اور اسکی فضیلت کی دلیل ہے ۔
٤٧٣۔ امام علی (ع):جب تم خط لکھو، اس پر مہر لگانے سے پہلے اسکی نظر ثانی کرلو: کیوں کہ اپنی عقل پر مہر لگا رہے ہو۔
٤٧٤۔ امام صادق(ع): انسان کے خط سے اسکی عقل و بصیرت پر برہان قائم کی جاتی ہے اور اس کے قاصد سے اسکی فہم و زیرگی کا اندازہ ہوتا ہے ۔
ز: تصدیق اور انکار
٤٧٥۔ امام صادق(ع): اگر کسی بزم میں کسی شخص کی عقل کو آزمانا چاہتے ہو تو اپنی گفتگو کے دوران کسی محال چیز کا تذکرہ کرو اگر وہ اس سے انکار کرے تو وہ عاقل اور اگر تصدیق کرے تو احمق ہے۔
ح: دوست
٤٧٦۔ امام علی (ع): انسان کا دوست اسکی عقل کی دلیل ہے اور اس کا کلام اسکی فضیلت کی نشانی ہے ۔
٥/٤
عقل کا معیار
٤٧٧۔ رسول خدا(ص): سات چیزیں صاحبان عقل کی عقلمندی پر دلالت کرتی ہین: مال سے مالدار کی عقل کااندازہ ہوتا ہے، حاجت حاجتمند کی عقل پر دلالت کرتی ہے ؛ مصیبت مصیبت زدہ کی عقل پر دلالت کرتی ہے ، غضب غضبناک ہونے والے کی عقل پر دلالت کرتا ہے ، خط صاحب خط کی عقل پر دلالت کرتا ہے ، قاصد بھیجنے والے کی عقل پر دلالت کرتا ہے ۔ہدیہ ہدیہ دینے والے کی عقل پر دلالت کرتا ہے ۔
٤٧٨۔ رسول خدا(ص): انسان کی عقل کو تین چیزوں سے آزماؤ! اسکی داڑھی کی لمبائی ، اسکی کنیت اور اسکی انگوٹھی کے نگینہ کے نقش سے۔
٤٧٩۔ امام علی (ع): چھ چیزوں کے ذریعہ مردوں کی عقل آزمائی جاتی ہے، ہمنشینی، معاملات،منصب و مقام سے کنارہ کشی، غنیٰ اور فقر۔
٤٨٠۔ امام علی (ع): چھہ چیزوں سے لوگوںکی عقلوں کو آزمایا جاتا ہے، غضب کے وقت بردباری ، خوف کے موقع پر صبر، خواہشات میںاعتدال، تمام حالات میں تقوائے الٰہی، لوگوں کےساتھ نیک برتاؤاور کم جنگ و جدال ۔
٤٨١۔ امام علی (ع): تین چیزوں سے مردوں کی عقلیں آزمائی جاتی ہیں، مال، منصب اور مصیبت ۔
٤٨٢۔ امام علی (ع): انسان تین جگہوں پر بدل جاتا ہے ، بادشاہوں کی قربت ، منصب اور فقر سے نجات کے بعد، جو شخص ان تین حالات میں تبدیل نہ ہو وہ عقل سلیم اور بہترین اخلاق کا مالک ہے ۔
٤٨٣۔ امام علی (ع): تین چیزیں ارباب عقل پر دلالت کرتی ہیں، قاصد، خط اور ہدیہ۔
٤٨٤۔ امام علی (ع): عقلمند کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس میں تین خصلتیں موجود ہوں: جب اس سے سوال کیا جائے تو وہ جواب دے، جب لوگ کلام کرنے سے عاجز ہو جائیں تو وہ زبان کھولے ، اور ایسی رائے کا اظہار کرتا ہے کہ جس میں اس کے اہل کے لئے بھلائی ہوتی ہے ، پس جس شخص میں ان تین خصلتوں میں سے کوئی بھی نہ ہو وہ احمق ہے۔
٤٨٥۔ امام علی (ع): بے پناہ وقار اور نہایت صبر و تحمل کے ذریعہ انسان کی عقلمندی اور اچھے کردار سے اس کے نسب کی شرافت پر استدلال ہوتا ہے ۔
٤٨٦۔ امام علی (ع): لالچ اور آرزئیں جب فریب دیتی ہیں تو جاہلوںکی عقلیں دھوکا کھا جاتی ہیں اور مردوں کی عقلیں آزمائی جاتی ہیں۔
٤٨٧۔ امام علی (ع): عقل کی سنجیدگی خوشی و غم کے وقت جانچی جاتی ہے۔
٤٨٨۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے: عقل معاملات کے ذریعہ آشکار ہوتی ہے اور مردوںکی خصلت کا اندازہ ان کے منصب سے ہوتا ہے ۔
٥/٥
عاقلوںکے صفات
٤٨٩۔ رسول خدا(ص): عاقل کی صفت یہ ہے کہ وہ نادانوںکی حماقت کو برداشت کرتا ہے ، جو اس پر ظلم کرتا ہے تو اس سے در گذر کرتاہے ، اپنے ما تحت لوگوں کے سا تھ تواضع سے پیش آتا ہے ، نیکیوں کے حصول میں اپنے سے بلند لوگوں پر سبقت لے جاتا ہے، جب کلام کرنا چاہتا ہے تو پہلے فکر کرتا ہے ۔ اگر کوئی خوبی ہوتی ہے تو زبان کھولتا ہے اور اس سے فائدہ حاصل کرتا ہے اور اگر بدی ہوتی ہے تو خاموشی اختیار کرتا ہے ۔اور محفوظ رہتاہے ، جب اس کے سامنے کوئی فتنہ آتا ہے تو ایسے موقع پر اللہ سے سلامتی چاہتا ہے اور اپنے ہاتھ اور زبان کوروکے رکھتا ہے ،اگر کوئی فضیلت دیکھتا ہے تو اسے حاصل کرنے کے لئے تیزی سے بڑھتا ہے ، شرم و حیا کو خود سے جدا نہیں کرتا اور حرص اس سے ظاہر نہیں ہوتی ان دس صفات کے ذریعہ عقلمند پہچانا جاتا ہے ۔
٤٩٠۔ رسول خدا(ص): نے(ان چیزوںکے متعلق کہ جن کا سر چشمہ عقل ہے) فرمایا: لیکن سنجیدگی ومتانت جن چیزوں کا سرچشمہ ہے ، وہ مہربانی ، دور اندیشی ، ادائے امانت ، ترک خیانت، صداقت، پاکدامنی ، ثروت، دشمن کے مقابلہ میں آمادگی ، برائیوں سے باز رہنا اور بیوقوفی کو ترک کرنا ہے یہ وہ صفات ہیں جو سنجیدگی و متانت کے سبب عقلمند کو نصیب ہوتی ہیں، پس خوش نصیب ہے وہ شخص کہ جو صاحب و قار ہے اور لا ابالی اور نادان نہیں ہے اور جس کا شعار عفو و بخشش اور نظر انداز کرنا ہے ۔
٤٩١۔ رسول خدا(ص): عقلمند وہی ہے جو خدا کے امر و نہی کوسمجھ لیتا ہے۔
٤٩٢۔ رسول خدا(ص): عاقل تنہائی میں اپنی عقل کے سبب خوش ہوتا ہے اور نادان ، خودہی سے وحشت کرتا ہے؛ اس لئے کہ ہر شخص کا دوست اسکی عقل اور اس کا دشمن اسکی نادانی ہے ۔
٤٩٣۔ رسول خدا(ص): عاقل، ہمیشہ خوبیوںکو کشف کرتا ہے اگر چہ لوگوں کے درمیان رسوا کن عیب ہو۔
٤٩٤۔ رسول خدا(ص): عقلمند نہایت خوفزدہ ہوتا ہے اور اسکی امیدیں اور آرزوئیں کم ہوتی ہےں۔
٤٩٥۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے ۔ عاقل جب کلام کرتا ہے تو اس کا کلام حکمت آمیز اور ضرب المثل کے ساتھ ہوتا ہے اور احمق جب کلام کرتا ہے تو قسم کے ساتھ ہوتا ہے ۔
٤٩٦۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے، عاقل صالحین سے رشک کرتا ہے تاکہ ان سے ملحق ہو جائے اور انہیں دوست رکھتا ہے تاکہ انکی دوستی کے سبب انکا شریک ہو جائے اگر چہ عمل میں انکے مانند نہ ہو۔
٤٩٧۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے، عاقل ، بیوقوفوں کی عیش و آرام کی زندگی کی نسبت عقلمندوں کی سخت زندگی سے زیادہ مانوس ہوتا ہے۔
٤٩٨۔ امام علی (ع): عقلمند وہ ہے جو دوسروں میں عبرت ڈھونڈتا ہے ۔
٤٩٩۔ امام علی (ع): عقلمند ، کمال کی جستجو میں ہوتا ہے اور جاہل ، مال کی تلاش میں ۔
٥٠٠۔ امام علی (ع): عقلمندوہ ہے جو علم ہوتے ہی ٹھہر جاتا ہے ۔
٥٠١۔ امام علی (ع): عاقل وہ ہے جب علم ہوتا ہے تو عمل کرتا ہے، جب عمل کرتا ہے توخلوص کےساتھ اور جب خلوص اختیار کرتاہے تو کنارہ کش ہو جاتا ہے ۔
٥٠٢۔امام علی (ع): عقلمند وہ ہے جو اپنی رائے پر شک کرے اور اسکا نفس جو کچھ اس کےلئے مزین کرتا ہے اس پر اعتماد نہ کرے۔
٥٠٣۔ امام علی (ع): عاقل وہ ہے جو ناراضگی اور رغبت و خوف کے وقت اپنے نفس پر قابو رکھتا ہے ۔
٥٠٤۔ امام علی (ع): عاقل وہ ہے جو اپنی زبان کو غیبت سے محفوظ رکھتا ہے ۔
٥٠٥۔ امام علی (ع): عاقل جب خاموش ہوتا ہے تو سوچتا ہے، جب زبان کھولتا ہے تو ذکر خد اکرتا ہے اور جب دیکھتاہے تو عبرت حاصل کرتا ہے ۔
٥٠٦۔ امام علی (ع): عقلمند اپنی لذت کا دشمن اور جاہل اپنی شہوت کا غلام ہوتا ہے ۔
٥٠٧۔ امام علی (ع): عقلمند وہ ہے جو اپنی شہوت کو کچل دیتا ہے۔
٥٠٨۔ امام علی (ع): عقلمند خواہشات نفسانی کے اسباب پر غالب ہوتا ہے ۔
٥٠٩۔ امام علی (ع): عاقل وہ ہے جو عقل کے ذریعہ اپنی خواشات نفسانی کا گلا گھونٹ دیتا ہے ۔
٥١٠۔ امام علی (ع): عاقل اپنے عمل پر اعتماد کرتا ہے اور جاہل اپنی آرزوپر۔
٥١١۔ امام علی (ع): عاقل ، عاقل سے الفت پیدا کرتا ہے اور جاہل ، جاہل سے۔
٥١٢۔ امام علی (ع): عقلمند وہ ہے کہ جن چیزوں سے جاہل رغبت رکھتا ہے وہ ان سے بیزار رہتا ہے۔
٥١٣۔ امام علی (ع): سختی عقلمند کو افراط پرنہیں ابھارتی اور ناتوانی اسے کام سے نہیں روکتی۔
٥١٤۔ امام علی (ع): عاقل وہ ہے جو اپنے کام کو محکم رکھتا ہے۔
٥١٥۔ امام علی (ع): عاقل اپنے کام میں سعی و کوشش کرتا ہے اور اپنی آرزؤوں کا دامن کوتاہ رکھتا ہے ۔
٥١٦۔امام علی (ع): عاقل پر جو چیزیں و اجب ہیں ان کے متعلق اپنے نفس سے باز پرس کرتا ہے اور جو چیزیں اس کے لئے منفعت بخش ہیں ان کے متعلق خود کو زحمت میں نہیں ڈالتا۔
٥١٧۔ امام علی (ع): عاقل وہ ہے جو مغفرت کے ذریعہ گناہوںکی پر دہ پوشی کرتا ہے ۔
٥١٨۔ امام علی (ع): عاقل وہ ہے جو قضائے (الہی) کے سامنے سراپا تسلیم ہوتا ہے اور دور اندیشی سے کام لیتا ہے۔
٥١٩۔ امام علی (ع): عاقل وہ ہے جو سخاوت کرتاہے ۔
٥٢٠۔ امام علی (ع): عقلمند خود کو ناچیز شمار کرتا ہے لہذا بلند ہو جاتا ہے ۔
٥٢١۔ امام علی (ع): عقلمند تہذیب و ادب کے ذریعہ نصیحت حاصل کرتا ہے اور چو پائے مارکے ذریعہ ۔
٥٢٢۔ امام علی (ع): یقینا عقلمند وہ ہے کہ جس کی نظر مستقبل پر ہوتی ہے ۔ اور اپنی نجات کے لئے کوشش کرتا ہے اور جس چیز سے چھٹکارا نہیں ہے اس کو انجام دیتا ہے ۔
٥٢٣۔ امام علی (ع): عقلمند لالچ کافریفتہ نہیں ہوتا۔
٥٢٤۔ امام علی (ع): ہر عقلمند محزون ہوتا ہے ۔
٥٢٥۔ امام علی (ع): عقلمند مہموم و مغموم ہوتا ہے ۔
٥٢٦۔ امام علی (ع): ہر عاقل مغموم ہوتا ہے ۔
٥٢٧۔ امام علی (ع): عاقل کے لئے ہرکام میں نیکی ہے اور جاہل ہمیشہ نقصان میں ہے ۔
٥٢٨۔ امام علی (ع): ہوا و ہوس کا ترک کرناعاقلوںکی عادت ہے ۔
٥٢٩۔ امام علی (ع): عقلمندوںکی پہچان یہ ہے کہ ان میں شہوت و غفلت کم ہوتی ہے۔
٥٣٠۔ امام علی (ع): عاقل کا سرمایہ اس کے علم و عمل میں ہے اور جاہل کا سرمایہ اس کے مال و آرزو میں ہے ۔
٥٣١۔ امام علی (ع): حکمت ، عاقل کی گمشدہ ہے ، لہذا حکمت جہاں بھی وہ عاقل کا حق ہے۔
٥٣٢۔ امام علی (ع): عاقل کوحکمت سے شغف ہوتاہے اور جاہل کوحماقت سے۔
٥٣٣۔ امام علی (ع): عاقل اپنی حکمت کے باعث بے نیاز اور اپنی قناعت کے سبب معزز ہوتا ہے۔
٥٣٤۔ امام علی (ع): عاقل اپنے علم کے باعث بے نیاز ہوتا ہے۔
٥٣٥۔ امام علی (ع): عاقل کا سینہ اس کے اسرار کا صندوق ہے ۔
٥٣٦۔ امام علی (ع): عاقل کی زبان اس کے قلب کے پیچھے ہوتی ہے اور احمق کا قلب اسکی زبان کے پیچھے ہوتا ہے۔
٥٣٧۔ امام علی (ع): احمق کا قلب اس کے دہن میں ہوتا ہے اور عاقل کی زبان اس کے قلب میں ۔
٥٣٨۔ امام علی (ع): عاقل کا کلام غذا ہے اور جاہل کا جواب خاموشی ہے ۔
٥٣٩۔ امام علی (ع): جاہل کی ناراضگی اس کے کلام سے اور عاقل کی ناراضگی اس کے عمل سے آشکار ہوتی ہے۔
٥٤٠۔ امام علی (ع): عاقل اس وقت تم سے قطع تعلق ہوتا ہے جب تمہارے اندر حیلہ گری پیدا ہو جاتی ہے۔
٥٤١۔ امام علی (ع): عاقل کی جوانمردی اس کا دین ہے اور اس کا حسب اس کا ادب ہے ۔
٥٤٢۔ امام علی (ع): عاقل کی سلطنت اسکی خوبیوں کو نشر کرتی ہے ۔
٥٤٣۔ امام علی (ع): عاقل کے علاوہ بیوقوفوں سے کوئی در گذرنہیں کرتا۔
٥٤٤۔ امام علی (ع): عاقل کا نصف تحمل اور دوسرا نصف تغافل ہے۔
٥٤٥۔ امام علی (ع): جو کچھ تمہارے اورپر گذرے اسے برداشت کرو کیوں کہ برداشت کرنے سے عیوب چھپے رہتے ہیں اور بیشک عاقل کا نصف تحمل اور دوسرا نصف تغافل ہے۔
٥٤٦۔ امام علی (ع): عاقل کے سوا کوئی خود کو حقیر نہیں سمجھتا ، صاحب کمال کے علاوہ کوئی خود کو ناقص نہیں شمار کرتا اور جاہل کے سوا اپنی رائے سے کوئی خوش نہیں ہوتا۔
٥٤٧۔ امام علی (ع): نادان کو سرزنش نہ کرو کہ وہ تمہارا دشمن ہو جائیگا اور عقلمند کو سرزنش کرو کہ وہ تم سے محبت کریگا۔
٥٤٨۔ امام علی (ع): اپنے عقلمند دشمن پر نادان دوست سے زیادہ اعتماد کرو۔
٥٤٩۔ امام علی (ع): عقلمند کی دشمنی ، نادان کی دوستی سے بہتر ہے ۔
٥٥٠۔ امام علی (ع): مہربان عاقل سب سے زیادہ لوگوںکی حاجت کو محسوس کرتا ہے ۔
٥٥١۔ امام علی (ع): تم پر صبر لازم ہے چونکہ عاقل اسے اختیارکرتا ہے اورجاہل گریز کرتا ہے ۔
٥٥٢۔ امام علی (ع): عاقل کی دردناک سرزنش اسکی لغزشوں کی طرف اشارہ کرنا ہے ۔
٥٥٣۔ امام علی (ع): اگر تم نے عاقل سے کنایہ میںکوئی بات کہی تو گویا دردناک صورت میں اسکی سرزنش کی ۔
٥٥٤۔ امام علی (ع): عاقلوں کی سزا، کنایہ ہے ۔
٥٥٥۔ امام علی (ع): عاقل سے تعریض کی صورت میں کوئی بات کہنا، اسکی بدترین سر زنش ہے ۔
٥٥٦۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے۔ عاقل کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ وہ ایسی باتیں زبان پر نہیں لاتا کہ جن کی وجہ سے اس کو جھٹلایا جا سکے۔
٥٥٧۔ امام علی (ع):عاقل دنیا میں گرانبار ہے اور احمق سبکدوش ہے۔
٥٥٨۔ امام علی (ع): مرد تین طرح کے ہوتے ہیں: عاقل، احمق اور فاجر، عاقل کا مذہب دینداری ہے اسکی سرشت بردباری اور فکر و رائے اسکی فطرت ہے، جب اس سے سوال کیا جاتا ہے تو جواب دیتا ہے جب کلام کرتا ہے تو درست ہوتاہے اور جب سنتا ہے تو اسے قبول کرتا ہے، جب گفتگو کرتا ہے تو سچ بولتا ہے اور جب کوئی اس پر اعتماد کرتا ہے تو وفا کرتا ہے ۔احمق، جب کسی اچھے کام سے آگاہ ہوتا ہے تو غفلت برتتا ہے، جب اسے کسی اچھے مقام سے نیچے لایاجاتا ہے تو وہ نیچے آجاتا ہے، جب اسے نادانی کی طرف ابھارا جاتا ہے تو وہ نادانی پر اتر آتا ہے، جب گفتگو کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے اور جب اسے سمجھایا جاتا ہے تو وہ آگاہ نہیں ہوتا وہ کچھ نہیں سمجھتا ہے۔ فاجر ،کو جب امانتداربناؤ گے تو وہ تم سے خیانت کریگا ، اگر اسکی ہمنشینی اختیار کروگے تو وہ تمہیں رسو اکریگا اور اگر اس پر اعتماد کروگے تو وہ تمہارا خیر خواہ نہیں ہوگا۔
٥٥٩۔ امام حسن (ع): عقلمند سے جو نصیحت چاہتا ہے وہ اسے دھوکا نہیں دیتا۔
٥٦٠۔ امام حسن (ع): میں تمہیں خبر دیتا ہوں ایسے بھائی کے بارے میں جو میری نظر میں لوگوں میں سب سے افضل تھااور وہ چیز کہ جس کے سبب میری نظر میں افضل تھا وہ دنیا کا اسکی نظر میں ہیچ ہونا ہے......وہ جہالت کے تسلط سے خارج تھا اور اپنے ہاتھ اطمینان بخش منفعت ہی کے لئے بڑھاتا تھا۔
٥٦١۔ اما م حسین (ع): جب عاقل پر کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ دور اندیشی کے سبب اندوہ کو دور کرتاہے اور عقل کو چارہ سازی کی طرف ابھارتا ہے ۔
٥٦٢۔ امام صادق(ع): عقلمند بخشنے والا اور جاہل فریبکار ہے ۔
٥٦٣۔ امام صادق(ع): صاحب فہم و عقل ، درد مند، محزون اور شب زندہ دار ہوتا ہے ۔
٥٦٤۔ اما م صادق(ع): عقلمند ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاتا۔
٥٦٥۔امام صادق(ع): مصباح الشریعہ میں آپ سے منسوب کلام میں ہے ، عقلمند حق کو قبول کرنے میںمنکسر، قول میں منصف اور باطل کے مقابل سرکش ہوتاہے اور اپنے کلام سے حجت قائم کرتا ہے ، دنیا کو ترک کر دیتا ہے اور اپنے دین سے دستبردار نہیں ہوتا۔
٥٦٦۔ امام صادق(ع): عقلمند کسی کو سبک نہیں شمار کرتا ۔
٥٦٧۔ امام صادق(ع): مصباح الشریعہ میں آپ سے منسوب کلام میں ہے ، عاقل ایسی باتیں نہیں کرتاکہ عقلیں جن کا انکار کریں، تہمت کی جگہوں پر نہیںجاتااور جس شخص کے سبب گرفتار ہے اس کے ساتھ بھی نرمی کو نظر انداز نہیں کرتا۔
٥٦٨۔ امام کاظم (ع):نے ہشام بن حکم سے فرمایا: اے ہشام! عاقل، حکمت کے ہوتے ہوئے دنیا کی تھوڑی پونجی پر بھی راضی رہتا ہے لیکن تھوڑی حکمت کے ساتھ دنیا کو قبول نہیں کرتالہذا سکی تجارت نفع بخش ہے ۔
اے ہشام! عقلاء نے دنیا کی فضیلتوں کو ٹھکرادیا ہے چہ جائیکہ گناہوںکو ! حالانکہ ترک دنیا مستحب اور ترک گناہ واجب ہے ....اے ہشام ! عقلمند جھوٹ کی خواہش کے باوجود جھوٹ نہیں بولتا ہے ......۔
اے ہشام! عاقل اس شخص سے کلام نہیں کرتا کہ جس سے اپنی تکذیب کا خوف ہوتا ہے اور اس شخص سے کوئی حاجت طلب نہیںکرتا کہ جس سے یہ ڈر ہوتا ہے کہ منع کر دیگا، جو اسکی قدرت میں نہیں ہے اس کا وعدہ نہیں کرتا، جس چیز کی آرزو کے سبب اسکی سرزنش ہوتی ہے اسکی تمنا نہیں کرتا اور اپنی عجز و ناتوانی کے باعث جس چیز کے چھوٹنے کا ڈر ہوتا ہے اس کا اقدام نہیںکرتا۔
٥٦٩۔ امام کاظم (ع): نے ہشام بن حکم سے، فرمایا: اے ہشام ! ہر چیز کی ایک علامت ہے اور عقلمند کی علامت تفکر ہے ، اور تفکر کی علامت خاموشی ہے، ہر شی کے لئے ایک سواری ہوتی ہے اور عاقل کی سواری تواضع ہے ، تمہاری جہالت کے لئے یہی کافی ہے کہ جس سے تمہیں روکا گیا ہے اس کو انجام دیتے ہو۔
اے ہشام ! اگر تمہارے ہاتھ میں اخروٹ ہو اور لوگ اسے موتی کہیں توتمہیں اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا جبکہ تمہیں اخروٹ کا علم ہے ، اور اگر تمہارے ہاتھ میں موتی ہواور لوگ اسے اخروٹ کہیں تواس سے تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچیگا جبکہ تمہیں موتی ہونے کا علم ہے ۔
اے ہشام! خدا نے اپنے انبیاء و مرسلین کو لوگوں کی طرف نہیں بھیجا مگر یہ کہ خدا کی معرفت حاصل کریں، لوگو ں میں خدا کی اچھی معرفت رکھنے والا انبیاء و مرسلین کو سب سے بہتر طریقہ پر قبول کرتا ہے، اور سب سے اچھی عقل رکھنے والا احکام الہی کا سب سے بڑا عالم ہے اور سب سے بڑ ے عقلمند کادنیا و آخرت میں سب سے بلند مرتبہ کا ہوگا۔
اے ہشام! ہر بندہ کی پیشانی کو ایک فرشتہ پکڑے ہوئے ہے جو بھی ان میں سے خاکساری کرتا ہے خدا اسے بلند کردیتا ہے اور جو تکبر کرتا ہے خدا اسے پست کر دیتا ہے ۔
اے ہشام! لوگوں پر خدا کی دو حجتیں ہیں! ظاہری حجت اور باطنی حجت ، حجت ظاہری انبیاء و مرسلین اور ائمہ ہیں اورحجت باطنی، عقلیں ہیں۔
اے ہشام ! عاقل وہ ہے کہ جسے حلال کام شکر گذاری سے روگرداں نہیں کرتا اور حرام اس کے صبر پر غالب نہیں ہوتا۔
اے ہشام ! جس نے تین چیزوں کو تین چیزوں پر مسلط کیا گویا اس نے عقل کی نابودی کےلئے خواہشات نفس کی مدد کی جس نے اپنی فکر کی روشنی کو طولانی آرزؤں کے ذریعہ تاریک، اپنی فضول کلامی کے سبب حکمت کی خوبیوںکو محو اور خواہشات نفسانی کے باعث اپنے نور عبرت کو خاموش کر دیا ہے، ایسے شخص نے گویا اپنی عقل کی تباہی کےلئے اپنی ہوا و ہوس کی مدد کی اور جس نے اپنی عقل کو تباہ کر دیاگویا اس نے اپنے دین و دنیا کو برباد کردیا۔
اے ہشام! کس طرح تمہارا عمل خدا کی بارگاہ میں شائستہ قرار پا سکتا ہے حالانکہ تم نے اپنی عقل کو امر پروردگار سے منحرف کر رکھا ہے اور اپنی عقل پر خواہشات کو غالب کرنے میں اسکی پیروی کی ہے ؟!
اے ہشام ! تنہائی پرصبرکرنا، عقل کی توانائی کی علامت ہے ، پس جو بھی خدائے تبارک و تعالیٰ کی معرفت رکھتا ہے وہ دنیا پرست اور اہل دنیا سے کنارہ کش ہوجاتا ہے ، اور خدا کے پاس جو کچھ ہے اسکی طرف مائل ہوتا ہے خدا و حشت میں اس کا مونس، تنہائی میں ساتھی ، تنگدستی میں بے نیازی اور حسب و نسب نہ ہونے کے باوجود اسے عزت دینے والا ہے ۔
اے ہشام! مخلوق، خدا کی اطاعت کےلئے پیدا کی گئی ہے ، اور طاعت کے بغیرنجات نہیں ہے اور طاعت علم کے سبب، علم ، تحصیل کے باعث اور تحصیل کا تعلق عقل سے ہے۔علم، خدا رسیدہ عالم کے بغیر حاصل نہیںہو سکتا اور خدا رسیدہ عالم کے لئے معرفت عقل کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
اے ہشام! عاقل کا کم عمل قابل قبول اور کئی گنا ہے ، لیکن نفس پرست اور جاہل کا کثیر عمل قابل قبول نہیںہے ۔
٥/٦
ارباب عقل کے صفات
قرآن
(اس نے تمہارے لئے زمین کو گہوارہ بنایا ہے اور اس نے تمہارے لئے راستے بنائیں ہیں اور آسمان سے پانی برسایا ہے جس کے ذریعہ ہم نے مختلف قسم کے نباتات کا جوڑا پیدا کیاہے ، کہ تم خود بھی کھاؤ اور اپنے جانوروںکو بھی چراؤ، بیشک اس میں صاحبان عقل کے لئے بڑی نشانیاں پائی جاتی ہےں)
( کیا انہیں اس بات نے رہنمائی نہیں دی کہ ہم نے ان سے پہلے کتنی نسلوںکو ہلاک کر دیا جو اپنے علاقہ میں نہایت اطمینان سے چل پھر رہے تھے بیشک اس میں صاحبان عقل کے لئے بڑی نشانیاں ہیں)
حدیث
٥٧٠۔ امام باقر ؑ: رسول خدا(ص) نے فرمایا: تم میں سب سے بہتر ارباب عقل ہیں ، دریافت کیا گیا: اے رسول خدا! ارباب عقل کون ہیں؟ فرمایا: وہ حسن اخلاق کے مالک ، باوقاربردبار ، صلہ رحم، والدین کے ساتھ نیکی ، فقرائ، پڑوسیوں اور یتیموںکی دیکھ بھال کرتے ہیں ، کھانا کھلاتے ہیں ، دنیا میں سلامتی پھیلاتے ہیں اور نمازیں پڑھتے ہیں جب کہ لوگ خواب غفلت میں ہوتے ہیں ۔
٥٧١۔ رسول خدا(ص): تم میں سب سے بہتر صاحبان عقل ہیں ، پوچھا گیا: اے رسول خدا! صاحبان عقل کون ہیں؟ فرمایا: صاحبان عقل ، سچے بردبار ِ، خوش اخلاق ، کھانا کھلانے والے،سلامتی پھیلانے والے اور شب زندہ داری میں مصروف ہوتے ہیں، جبکہ لوگ سوئے ہوتے ہیں۔
٥٧٢۔ امام علی (ع): حوادث کی تبدیلیوں میں صاحبان عقل و خرد کے لئے عبرت و نصیحت ہے۔
٥٧٣۔ امام علی (ع): صاحبان عقل و نظر کی صفت یہ ہے کہ دار بقا کی طرف متوجہ ، دار فنا سے روگرداں اور جنتِ مأوٰی کے دلدادہ ہوتے ہیں۔
٥٧٤۔ امام علی (ع):حُب علم ، حسن حلم اور ثواب کا در پے ہونا صاحبان عقل و خرد کی فضیلتوں میں سے ہے۔
٥٧٥۔ امام علی (ع): عاقل اعمال کو خالص کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں۔
٥٧٦۔ امام علی (ع): صاحبان عقل و خرد کے لئے مثالیں پیش کی جاتی ہےں۔
٥٧٧۔امام علی (ع):جو شخص صاحبان عقل و خرد سے مشورہ کرتا ہے وہ دور اندیشی اوردرستی سے ہمکنار ہوتا ہے ۔
٥٧٨۔امام علی (ع): جو شخص صاحبان عقل و خرد سے مشورہ کرتا ہے صحیح معنیٰ میں وہی سر فراز ہوتا ہے ۔
٥/٧
صاحبان عقل کے صفات
قرآن
( بیشک زمیں و آسمان کی خلقت ، لیل و نہار کی آمد و رفت میں صاحبان عقل کے لئے ، قدرت خدا کی نشانیاں ہیں ، جو لوگ اٹھتے ، بیٹھتے لیٹتے خدا کو یاد کرتے ہیں اور آسمان و زمین کی تخلیق میں غور و فکر کرتے ہیں ، کہ خدایا تونے یہ سب بیکار نہیںپیدا کیا ہے ، تو پاک و بے نیاز ہے ہمیں عذاب جہنم سے محفوظ رکھ)
( جو باتوں کوغورسے سنتے ہیں اور جو بات اچھی ہوتی ہے اس کا اتباع کرتے ہیں ، یہی وہ لوگ ہیں جنہیں خدا نے ہدایت دی اور یہی وہ لوگ ہیں جو صاحبان عقل ہیں)
( یقینا ان کے واقعات میں صاحبان عقل کے لئے سامان عبرت ہے )
حدیث
٥٧٩۔ رسول خدا(ص): عقلمند وہ ہے جو اپنے دین میں انہماک کے سبب دوسری چیزوں سے روگرداںہوتا ہے ۔
٥٨٠۔ امام علی (ع): نرمی، صواب و درستی کی کنجی اور صاحبان عقل کی صفت ہے ۔
٥٨١۔ امام علی (ع): عقلمند سے زیادہ کوئی شجاع نہیںہے۔
٥٨٢۔ امام علی (ع):مروت عقلمند ہی کے لئے کامل ہوتی ہے۔
٥٨٣۔ امام علی (ع): عقلمند کے دل کی بصیرت اپنے انجام کو دیکھتی ہے اور اس کے نشیب و فراز سے واقف ہوتی ہے ۔
٥٨٤۔ امام علی (ع): جو صاحبان عقل سے کمک لیتا ہے وہ راہ رشد و ہدایت کو پاجاتا ہے ۔
٥٨٥۔ امام علی (ع): آگاہ ہو جاؤ! عقلمند وہ ہے جو درست فکر کے ذریعہ گونا گوں آراء کا استقبال کرتاہے اور عواقب پر نظر رکھتا ہے ۔
٥٨٦۔ امام علی (ع): عقلمند وہی ہے جو کینہ کو آسانی سے نکال پھینکتا ہے ۔
٥٨٧۔ امام علی (ع): مجھے اس شخص پر تعجب ہے جو بے پناہ دوستوںکی تلاش میں ہوتا ہے؛ لیکن عقلمند اور پرہیزگار علماء کی ہمنشینی اختیار نہیں کرتا؛ کہ جنکی فضیلتوں سے بہرہ مند ہو اور جنکے علوم اسکی ہدایت کریں اور جنکی ہمنشینی اسے آراستہ کرے۔
٥٨٨۔ امام علی (ع): عقلمند دوست کی ہمنشینی روح کی زندگی ہے ۔
٥٨٩۔ امام باقر(ع): اے جابر....دنیا کو اس منزل کی طرح سمجھو کہ جسمیں جاکر ٹھہرتے ہو اور پھر وہاں سے کوچ کر جاتے ہو؛ چونکہ دنیا عقلمند اور خدا کی معرفت رکھنے والے افراد کے نزدیک گذرنے والے سایہ کے مانند ہے ۔
٥٩٠۔ امام صادق(ع): صاحبان عقل وہی لوگ ہیں جنہوںنے غور و فکر سے کا م لیا اور اس کے سبب محبت خدا کو حاصل کر لیا۔
٥٩١۔ امام کاظم (ع): نے ہشام بن حکم ۔ سے فرمایا: اے ہشام! آگاہ عقلمند وہ ہے جو جس چیز کی طاقت نہیں رکھتا اسے چھوڑ دیتاہے ۔
٥/٨
کامل عقل کے علامات
٥٩٢۔ رسول خدا(ص): اللہ نے عقل کو تین چیزوں میں تقسیم کیا ہے ، جس شخص میں یہ چیزیں پائی جائیں گی اسکی عقل کامل ہے اور جس میں یہ چیزیںنہیںہوں گی وہ عقلمند نہیںہے : خدا کی حسن معرفت ، خدا کی حسن طاعت اور امر خدا پر حسن صبر۔
٥٩٣۔ رسول خدا(ص):خدا کی عبادت عقل سے بہتر کسی اور چیز کے ذریعہ نہیںہوئی اور مومن عقلمند نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس میں یہ دس چیزیں جمع نہ جائیں!اس سے نیکی کی امید ہوتی ہے اور برائی کی توقع نہیں ہوتی ، دوسروںکی کم خوبیوںکو زیادہ اور اپنی زیادہ خوبیوںکو کم سمجھتاہے ؛ ساری زندگی تحصیل علم سے نہیںتھکتا ہے، حاجت مندوںکی آمد و رفت سے ملول و پریشان نہیںہوتا؛ خاکساری اس کے نزدیک عزت سے زیادہ محبوب ہے، فقر اس کے نزدیک بے نیازی سے زیادہ پسندیدہ ہے ، دنیا سے اس کا حصہ فقط معمولی غذا ہے ؛ لیکن دسواں اور دسواں کیا ہے ؟ کسی کو دیکھتا ہے توکہتاہے : یہ مجھ سے زیادہ پرہیزگار ہے لوگ دو طرح کے ہوتے ہیں: ایک وہ شخص جو اس (مومن) سے بہتر اور اس سے زیادہ پرہیزگار ہوتا ہے ؛ دوسرا وہ شخص جو اس سے بدتر اور پست ہوتا ہے ۔ لہذا جو شخص اس سے بہتر اور اس سے زیادہ پرہیزگار ہے اس کے ساتھ انکساری سے پیش آتاہے تاکہ اس سے ملحق ہو جائے۔ اور جو اس سے بدتر اور پست ہے جب اس سے ملاقات کرتا ہے تو کہتاہے : شاید اسکی خوبی پوشیدہ ہو اور برائی آشکار اور شاید اس کا انجام بخیرہو، جب ایسا کر تا ہے تو اسکی عظمت بڑھتی ہے اور اپنے زمانہ والوںکا سردار قرار پاتا ہے۔
٥٩٤۔ امام علی (ع): اللہ کی عبادت عقل سے بہتر کسی اور چیز کے ذریعہ نہیں ہو ئی؛ کسی انسان کی عقل کامل نہیں ہوتی جب تک کہ اس میں چند خصال نہ ہوں : کفر و شر سے محفوظ ہو، رشد و خیر کی اس سے توقع ہو، اپنے اضافی مال کو بخشتا ہو، فضول کلامی سے گریز کرتا ہو؛ دنیا سے اس کا حصہ معمولی غذا ہو؛ پوری زندگی علم سے سیر نہ ہو، خدا کی بارگاہ میں خاکساری کو دو سروں کے ساتھ سر بلندی سے پیش آنے سے زیادہ پسند کرتا ہے ، تواضع اسکی نظر میں شرف سے زیادہ محبوب ہے؛دوسروں کی کم خوبیوںکو زیادہ اور اپنی زیادہ خوبیوں کو کم سمجھتا ہے ؛ تمام لوگوںکو خود سے بہتر اور خود کو سب سے بدتر سمجھتا ہے ، اور یہ اہم ترین خصلت ہے ۔
٥٩٥۔ امام علی (ع): تمہاری عقل کا کمال یہ ہے کہ تم اپنی عقل کے ذریعہ خود کو استوار کرو۔
٥٩٦۔ امام علی (ع): جس شخص کی عقل قوی ہوگی وہ زیادہ عبرت حاصل کریگا۔
٥٩٧۔ امام علی (ع): جس شخص کی عقل کامل ہو جاتی ہے دین میں اس کے اعمال و افکار اچھے ہو جاتے ہیں۔
٥٩٨۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصار میںہے ، عقلمند انسان کی مثال سخت و موٹے جسم کی سی ہے جو دیر میں گرم ہوتا ہے اور اسکی گرمی کافی دیر بعد ختم ہوتی ہے ۔
٥٩٩۔ امام علی (ع): جس شخص کی عقل کامل ہوتی ہے وہ اپنی شہوتوں کوسبک سمجھتا ہے ۔
٦٠٠۔ امام علی (ع): جب عقل کامل ہو تی ہے تو شہوت گھٹ جاتی ہے ۔
٦٠١۔ امام علی (ع): جب عقل کامل ہوتی ہے تو کلام کم ہوجاتاہے ۔
٦٠٢۔ امام علی (ع): کامل عقل بری فطرت پر غالب ہوتی ہے ۔
٦٠٣۔ امام علی (ع): جتنی انسان کی عقل بڑھتی ہے اتنا ہی قضا و قدرپراسکا اعتقاد قوی ہو جاتا ہے اور حوادث زمانہ کوہلکا سمجھتا ہے۔
٦٠٤۔امام علی (ع): انسان کا خود کو کم سمجھنا متانت و سنجیدگی کی علامت اور فراوانی فضیلت کی نشانی ہے ۔
٦٠٥۔ امام علی (ع): عقلمندی کی انتہاجہالت کا اعتراف ہے ۔
٦٠٦۔ امام علی (ع) :عقل اس وقت کامل ہوتی ے جبکہ ہمیشہ اسکی تکمیل کے لئے کوشاں رہے۔
٦٠٧۔ امام علی (ع): بے فائدہ کاموںکو ترک کرنے سے تمہاری عقل کامل ہوتی ہے ۔
٦٠٨۔ امام علی (ع):۔سالک الی اللہ کی توصیف میں ۔ فرمایا: اس نے اپنی عقل کو زندہ رکھا ہے اور اپنے نفس کو مار ڈالا ہے اس کا جسم نحیف ہو گیا ہے اور اسکابھاری بھرکم بدن ہلکا ہو گیا ہے اس کے لئے بہترین ضوء پاش نور ہدایت چمک اٹھا ہے اور اس نے راستے کو واضح کرکے اسی پر اسے گامزن کردیا ہے تمام دروازوں نے اسے سلامتی کے دروازہ اور ہمیشگی کے گھر تک پہنچا دیاہے اور اس کے قدم طمانینتِ بدن کے ساتھ امن وراحت کی منزل میں ثابت ہو گئے ہیں کہ اس نے اپنے دل کو استعمال کیا ہے اور اپنے رب کو راضی کر لیا ہے ۔
٦٠٩۔ امام زین العاب دین (ع):کمال عقل کی نشانی آزار رسانی سے بچناہے ۔
٦١٠۔ اما م صادق(ع): عقل کا کمال تین چیزوںکے باعث ہے : خدا کے لئے تواضع، حسن یقین اور نیک کاموںکے علاوہ خاموش رہنا۔
٦١١۔ امام کاظم (ع): نے ہشام بن حکم سے فرمایا: اے ہشام! تنہائی میں صبر عقل کی قدر تمندی کی نشانی ہے جو شخص خدا کی معرفت رکھتا ہے وہ دنیا اور دنیا پرستوں سے کنارہ کش ہوجاتا ہے اور جو کچھ خدا کے پاس ہے اسکی طرف مائل ہوتا ہے ، وحشت میں خدا اس کا مونس، تنہائی میں اس کا ساتھی ، تنگدستی میں اس کےلئے بے نیازی اور حسب و نسب نہ ہونے کی صورت میں اسے عزت بخشنے والا ہے ۔
٥/٩
عقلمند ترین انسان
٦١٢۔ رسول خدا(ص): کامل ترین انسان عاقل ہے جوخدا کا بڑااطاعت گذار وبڑا حکم کی تعمیل کرنے والاہے ۔
٦١٣۔ رسول خدا(ص): کامل ترین انسان عاقل جو خدا سے زیادہ ڈرنے والا اور اسکی اطاعت کرنے والا ہے ۔
٦١٤۔ رسول خدا(ص): تم میں سے عاقل ترین وہ ہے جو محرمات خدا سے پرہیز اور احکام الہی کا جاننے والا ہے۔
٦١٥۔ رسول خدا(ص): خدا کے کچھ برگزیدہ بندے ہیں جنہیںوہ جنت کے بلند و بالا مقام میں جگہ دیگا کیونکہ وہ دنیا میں سب سے بڑے عقلمند تھے ،پوچھا گیاوہ لوگ کس طرح کے تھے؟ فرمایا: ان کی ساری کوشش ان چیزوںکے لئے ہوتی تھی کہ جس سے خوشنودی خدا حاصل ہو سکے، دنیا ان کی نظروں میں حقیر ہوگئی تھی اور وہ کثرت دنیا کی طرف مائل نہ تھے ، انہوںنے مختصر مدت کے لئے دنیا میں صبر و تحمل سے کام لیا اور طولانی راحت و چین حاصل کر لیا۔
٦١٦۔ رسول خدا(ص): آگاہ ہو جاؤ!عقلمند ترین انسان وہ بندہ ہے جو اپنے رب کو پہچانتا ہے اور اسکی طاعت کرتا ہے ، خدا کے دشمن کو پہچانتا ہے اور اسکی نافرمانی کرتا ہے، اپنی قیامگاہ کو پہچانتا ہے اور اسے سنوارتاہے ،اوراسے معلوم ہے کہ عنقریب رخت سفر باندھناہے لہذا اس کے لئے زاد راہ مہیا کرلیا ہے ۔
٦١٧۔ رسول خدا(ص): عاقل ترین انسان خائف ونیکو کار ہے اور نادان ترین انسان بدکار امان دینے والا ہے ۔
٦١٨۔ رسول خدا(ص): عقلمند ترین انسان وہ ہے جو لوگوں پرزیادہ مہربان ہوتاہے ۔
٦١٩۔ امام علی (ع): لوگوں میں سب سے بڑا عقلمند وہ ہے جو ان میں سب سے زیادہ با حیا ہے ۔
٦٢٠۔ امام علی (ع): لوگوںمیں سب سے برا عقلمند وہ ہے جو ان میں خدا کا سب سے بڑامطیع ہے ۔
٦٢١۔ امام علی (ع): تم میں سب سے بڑا عقلمند وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ اطاعت گذار ہے ۔
٦٢٢۔ امام علی (ع):تم میں سب سے بڑا عاقل وہ ہے جو عاقلوںکا اتباع کرتا ہے ۔
٦٢٣۔ امام علی (ع): لوگوںمیں سب سے بڑا عقلمند وہ ہے جو ان میں خدا سے سب سے زیادہ قربت رکھتا ہے ۔
٦٢٤۔ امام علی (ع): عقلمندترین انسان وہ ہے جو حق کے سامنے سراپا تسلیم ہواور اس کے حق کو ادا کرے اور حق کے سبب باعزت قرار پائے؛ لہذاحق پر قائم رہنے اور اس پر اچھی طرح عمل کرنے کو بے وقعت نہیںسمجھتا۔
٦٢٥۔ امام علی (ع): عقلمندترین انسان وہ ہے ، جو ہر قسم کی پستی سے بہت دور رہتا ہے۔
٦٢٦۔ امام علی (ع): عقلمند ترین انسان وہ ہے جس کی سنجیدگی اسکی بیہودگی پر غالب ہو اور عقل کی مدد سے خواہشات نفسانی پر کامیاب ہو۔
٦٢٧۔ امام علی (ع): عقلمند ترین انسان وہ ہے جو جاہلوں کو سزا دینے میں صرف خاموشی کا مظاہرہ کرتا ہے۔
٦٢٨۔ امام علی (ع): عقلمند ترین انسان وہ ہے جو کاموںکے انجام پرسب سے زیادہ نظر رکھتاہے ۔
٦٢٩۔ امام علی (ع): عاقل وہ ہے جو اپنے عیوب پر نظر رکھتا ہے اور دوسروںکے عیوب سے چشم پوشی کرتا۔
٦٣٠۔ امام علی (ع): عقلمند ترین انسان وہ ہے جو لوگوںکی معذرت کوسب سے زیادہ قبول کرتا ہے۔
٦٣١۔ امام علی (ع): سب سے بہتر عقلمندی حق کو حق سے پہچاننا ہے ۔
٦٣٢۔ امام علی (ع): سب سے بہتر عقلمندی بیہودگی سے اجتناب ہے ۔
٦٣٣۔ امام علی (ع): عقلمندی کے لحاظ سے لوگوںمیں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے کسب معاش کے لئے بہترین تدبیرکرے ، اور آخرت کی اصلاح کے لئے سب سے زیادہ اہتمام کرے۔
٦٣٤۔ امام علی (ع): سب سے بہتر عقلمندی رشد و ہدایت ہے ۔
٦٣٥۔ امام علی (ع): سب سے بہتر عقلمندی انسان کا اپنے آپ کو پہچاننا ہے ؛ جس نے خود کو پہچان لیا عقلمند ہے اور جس نے خود کو نہ پہچانا وہ گمراہ ہے ۔
٦٣٦۔ امام علی (ع): سب سے بڑی عقلمندی نصیحت آموزی ہے ، سب سے بہتر دور اندیشی مدد چاہنا ہے ، اور سب سے بڑی حماقت غرورہے ۔
٦٣٧۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصارمیںہے ، عقلمندی کے لحاظ سے مناسب ترین انسان اور فضائل کے اعتبار سے کامل ترین انسان وہ ہے جو زمانے کی ہمراہی دشمنی کو چھوڑ کر صلح سے کرتا ہے ، دوستوں کے ساتھ مسالمت آمیز زندگی بسر کرتا ہے ، اور زمانہ کی عفو و بخشش کو قبول کرتا ہے ۔
٦٣٨۔ امام صادق(ع):عقلمندی میں سب سے کامل انسان وہ ہے جو ان میں سب سے زیادہ با اخلاق ہے ۔
٦٣٩۔ امام صادق(ع): سب سے بہتر فطرتِ عقل ، عبادت ہے ، اس کے لئے سب سے محکم چیز علم ہے ، سب سے اچھی بہرہ مندی حکمت ہے اور سب سے عمدہ ذخیرہ نیکیاں ہیں۔
٦٤٠۔ وہب بن منبِّہ: لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا: بیٹا! خداکی معرفت حاصل کرو اس لئے کہ جو شخص خدا کے بارے میں بیشتر معرفت رکھتا ہے وہ عقلمندترین انسان ہے اور شیطان عقلمند سے فرار کرتا ہے اور اسے فریب نہیں دے سکتا۔
|