پہلا حصہ
عقل
دوسری فصل عقل کی قیمت

٢/١
خدا کا تحفہ
٣١۔ رسول خدا(ص): عقل خدا کا تحفہ ہے ۔
٣٢۔ امام علی(ع(: عقلیں عطایا ہیں ، آداب کسبی ہیں۔
٣٣۔ امام علی(ع(: عقل فطری چیز ہے اور علم کسبی ہے ۔
٣٤۔ امام علی(ع(: جب خدا اپنے بندہ کی بھلائی چاہتا ہے تو اسے پائدار عقل اور صحیح کردار سے نوازتا ہے ۔
٣٥۔ امام علی(ع(: جب خدا کسی انسان کو پائدار عقل اور صحیح کردار عطا کرتا ہے تو اس پر اپنی نعمتوں کو فراوان اور اپنے احسان کو زیادہ کرتا ہے ۔
٣٦۔ ابو ہاشم جعفری: میں امام رضا - کی خدمت میں حاضر تھا۔ عقل کا ذکر چھڑ گیاتو آپؑ نے فرمایا: اے ابو ہاشم! عقل خدا کا عطیہ ہے ...جو شخص زحمت سے خود کو عقلمند بنانا چاہتا ہے اس کے اندر جہالت کے سوا اور کسی چیز کا اضافہ نہیں ہوتا۔
٣٧۔ سنن ادریس ؑ میں ہے جب خدا اپنے بندوں کو دوست رکھتا ہے تو انہیں عقل سے سر فراز کرتا ہے اور اپنے انبیاء و اولیاء کو روح القدس سے مخصوص کیا ہے ۔

٢/٢
بہترین عطیہ
٣٨۔ رسول خدا(ص): خدا نے بندوں کے درمیان کوئی چیز عقل سے افضل تقسیم نہیںکی ہے ۔لہذا عقلمند کا سونا جاہل کے جاگنے سے بہتر ہے ، عاقل کا کھڑا رہنا جاہل کے چلنے سے افضل ہے خدا نے کسی نبی یا رسول کو اس وقت بھیجا جب ان کی عقل کامل اور تمام امت(والوں) کی عقلوں سے بہتر ہو گئی، جو کچھ نبی اپنے اندر پوشیدہ رکھتا ہے وہ کوشش کرنے والوںکی کوششوں سے افضل ہے اور بندہ الٰہی فرائض کو اس وقت انجام دیتا ہے جب انہیں سمجھ لیتا ہے ۔ سارے عبادتگذار اپنی کثرت عبادت کے سبب عقلمند کے مرتبہ کو نہیں پاسکتے عقلاء ہی اولو الالباب (صاحبان عقل) ہیں۔ خدا نے ان کے بارے میں فرمایا ہے (وما یذکر الا اولو الالباب) صرف صاحبان عقل ہی وعظ و نصیحت کو قبول کرتے ہیں۔
٣٩۔ رسول خدا(ص): بابرکت ہے وہ (ذات) جس نے اپنے بندوںکے درمیان عقل کو مختلف پیرا یوںمیں تقسیم کیا ہے ۔ کبھی دو انسانوںکے کردار، نیکیوں ، روزوں اور نمازوں کے لحاظ سے برابر ہو جاتے ہیں لیکن عقل کے اعتبار سے دونوں میں اتنا ہی فرق ہوتا ہے جتناذرہ اور کوہِ احد میں ہے۔ خدا نے اپنی مخلوق کے درمیان عقل سے بہتر کوئی حصہ تقسیم نہیںکیاہے۔
٤٠۔ تاریخ یعقوبی: رسول خدا(ص) سے پوچھا گیا: بندہ کو سب سے بہتر کون سی چیز عطا کی گی ئ ہے ؟ فرمایا: عقل فطری جو پیدا ئشی ہوتی ہے ۔ پھر پوچھا گیا۔ اگر کوئی اس سے بہرہ مند نہ ہو؟ فرمایا: عقل کسب کرے۔
٤١۔ جامع الاحادیث: امیر المومنینؑ سے پوچھا گیا کہ ا نسان کو سب سے افضل جو چیز عطا کی گئی ہے وہ کیا ہے ؟فرمایا: عقل فطری پوچھا گیا: اگر عقل فطری نہ ہو؟ فرمایا:وہ بھائی ہے کہ جس سے مشورہ کیا جائے۔
پھر پوچھاگیا: اگر یہ بھی نہ ہو؟ فرمایا: بزم میں خاموش رہے پوچھا گیا: اگر یہ بھی نہ ہو؟ فرمایا :موت سر پہ ہے۔
٤٢۔ امام علی(ع(: بہترین عطیہ عقل ہے ۔
٤٣۔ امام علی(ع(: کامل نعمتوںکی نشانی عقل کی فراوانی ہے ۔
٤٤۔ امام علی(ع(: سب سے افضل نعمت عقل ہے ۔
٤٥۔ امام علی(ع(: انسان کا سب سے بہترین حصہ اسکی عقل ہے ۔ اگر اسکی رسوائی ہوتی ہے تو عقل اسے عزت بخشتی ہے اگر وہ پستی کی طرف جاتا ہے تو عقل اسے رفعت عطا کرتی ہے اور اگر گمراہ ہوتا ہے تو عقل اسکی ہدایت کرتی ہے اور اگر کچھہ کہتا ہے تو عقل اسکی حفاظت کرتی ہے ۔
٤٦۔ امام علی(ع(: عقل سے بہتر کوئی نعمت نہیں۔
٤٧۔ امام حسن (ع): عقل بندوںکے لئے خدا کا بہترین عطیہ ہے کیوں کہ یہ دنیوی آفات سے نجات اور آخرت میں عذاب دوزخ سے سلامتی کا باعث ہے ۔
٤٨۔ امام علی(ع(: آپ سے منسوب دیوان میں ہے : خدا کی طرف سے انسان کے لئے بہترین حصہ اسکی عقل ہے نیکیوں میں سے کوئی بھی نیکی اس کے مرتبہ کو نہیںپہنچ سکتی ۔ جب رحمن انسان کی عقل کو کامل کرتا ہے تو اسکی بصیرت و اخلاق بھی کامل ہو جاتے ہیں۔

٢/٣
انسان کی اصل
٤٩۔ رسول خدا(ص): اے گروہ قریش! انسان کا حسب اس کا دین ہے ، اسکی جوانمردی اس کا اخلاق ہے اور اسکی عقل اسکی اصل ہے ۔
٥٠۔ امام علی(ع(: انسان کی اصل اسکی عقل ہے ، اسکی عقل اس کا دین ہے اور ہر ایک کی جوانمردی یہ ہے کہ وہ خود کو کہاں قراردیتاہے ۔
٥١۔ امام علی(ع(: ہوشیار انسان کی اصل اسکی عقل ہے۔ اسکی جوانمردی اسکا اخلاق ہے۔ اور اسکا دین اسکا حسب ہے ۔
٥٢۔ امام صادق ؑ: انسان کی اصل اسکی عقل ہے ، اسکی شرافت دین اورعظمت تقوے سے ہے تمام انسان آدم کی اولاد کے ہونے اعتبار سے برابر ہےں۔
٥٣۔ امام علی(ع(: انسان عقل و صورت کا مجموعہ ہے ، بے عقل شخص جو صرف انسان کی صورت رکھتا ہے کامل نہیں ہے اور بے جان مخلوق کی طرح ہے جو تجربی عقل کی جستجو کرتا ہے اسے چاہئے کہ اصول اور فصول (حواشی) کو بھی جانے ، کتنے لوگ ایسے ہیں جو فصول کی تلاش میں ہیں اور اصول کو نظر انداز کرتے ہیں، جس نے اصول کو حاصل کر لیا وہ فضول چیزوں سے بے نیاز ہو گیا۔
٥٤۔ امام علی(ع(: انسان کی عقل اس کا نظام ہے ، ادب اس کا استحکام ہے صداقت اس کا پیشوا ہے اور شکر اس کا کمال ہے ۔
٥٥۔ امام صادق(ع): عقل انسان کا پشت پناہ ہے عقل سے ہوشیاری، فہم ،حفظ اور علم حاصل ہوتا ہے عقل سے انسان کمال تک پہنچتا ہے عقل ہی انسان کا راہنما، بصیرت دینے والی اور اسکے ہر کام کی کنجی ہے ۔

٢/٤
انسان کی قیمت
٥٦۔ ابن عباس رسول خدا(ص) سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: انسانوں میں سب سے افضل سب سے زیادہ عقلمند انسان ہے ، ابن عباس نے کہا اور وہ آپکا نبی ہے ۔
٥٧۔ امام علی(ع(: ہر انسان کی قیمت اسکی عقل کے مطابق ہے ۔
٥٨۔ امام علی(ع(: ہر انسان کی قیمت کا اندازہ اس کے علم و عقل سے ہوتا ہے ۔
٥٩۔ امام علی(ع(: انسان اپنی عقل کا رہین منت ہے۔
٦٠۔ امام علی(ع(: انسان کی فضیلت کا عنوان عقل اور اس کا حسن اخلاق ہے ۔
٦١۔ امام علی(ع(: انسان کی فضیلت عقل سے ہے ۔
٦٢۔ امام علی(ع(: انسان کی دو فضیلتیں ہیں: عقل اورزبان، عقل سے فائدہ حاصل کرتا ہے اورزبان سے فائدہ پہنچاتا ہے ۔
٦٣۔ امام علی(ع(:، فضائل کی انتہا عقل ہے ۔
٦٤۔ امام علی(ع(: اعلیٰ ترین رتبہ عقل ہے۔
٦٥۔ امام علی(ع(: بزرگی و شرافت عقل و ادب سے ہے نہ کہ مال اور حسب سے ۔
٦٦۔ امام علی(ع(: انسان کا امتیاز اسکی عقل کی بدولت ہے اور حسن و جمال اسکی دلیری ہے ۔

٢/٥
اسلام کا پہلا پایہ
٦٧۔ امام علی(ع(ـ:اسلام کے سات ستون ہیں: پہلا ستون عقل جس پر صبر کا دار و مدار ہے، دوسرا ستون، آبرو مندی اور صداقت ہے ، تیسرا ستون،رائج طریقہ کے مطابق تلاوت قرآن، چوتھا ستون ، دوستی و دشمنی خدا کے لئے ہو ، پانچواں ستون، آل محمد کی ولایت کی معرفت اور ان کے حقوق کی رعایت، چھٹا ستون : دوستوں اور بھائیوں کی حمایت اور ان کے حقوق کی رعایت۔ ساتواں ستون: لوگوںکے ساتھ حسن سلوک۔

٢/٦
انسان کا دوست
٦٨۔ امام علی(ع(: اپنے فرزند امام حسن سے وصیت میں فرمایا: بیٹا! عقل انسان کا دوست ہے ۔
٦٩۔ امام علی(ع(: انسان اپنی معلومات کا دوست ہے ۔
٧٠۔ امام علی(ع(: عقل ایسا دوست ہے جس سے رابطہ ٹوٹ جاتا ہے اور خواہشات ایسا دشمن ہے کہ جس کی پیروی کی جاتی ہے ۔
٧١۔امام علی(ع(: عقل قابل تعریف دوست ہے ۔
٧٢۔ امام علی(ع(: عقل بہترین ساتھی ہے ۔
٧٣۔ امام رضا(ع): ہر انسان کا دوست اسکی عقل ہے اور اس کا دشمن اسکی جہالت ہے ۔

٢/٧
مومن کا دوست اور رہنما
٧٤۔ رسول خدا(ص): علم مومن کا دوست، عقل اس کا رہنما، عمل اس کا سر پرست، بردباری اس کا وزیر، صبر اس کے لشکر کا امیر، مہربانی اس کا باپ، اور نرمی اس کا بھائی ہے ۔
٧٥۔ امام علی(ع(: عقل مومن کا دوست ہے ۔
٧٦۔ امام علی(ع(: حسن عقل بہترین رہبرہے ۔
٧٧۔ امام صادق(ع): عقل، مومن کا رہنما ہے ۔

٢/٨
مومن کا پشت پناہ
٧٨۔ رسول خدا(ص): ہر چیزکے لئے ایک پشت پناہ ہے اور مومن کا پشت پناہ اسکی عقل ہے لہذا مومن اپنی عقل کے مطابق اپنے پروردگار کی عبادت کرتاہے ۔
٧٩۔ رسول خدا(ص): گھر کا دار و مداراسکی بنیادپر ہے ، دین کا ستون خدا وند متعال کی معرفت ، اسکی وحدانیت کایقین اور عقل قامع ہے ۔ لوگوں نے پوچھااے رسول خدا! قامع کیا ہے ؟ فرمایا: گناہوں سے پرہیز، اطاعت خدا کا شوق اور اس کے تمام احسانات و نعمات اور نیک آزمائش پر شکر کرنا ہے ۔
٨٠۔ رسول خدا(ص): ہر چیز کے لئے اوزار اور طاقت کی ضرورت ہوتی ہے اور مومن کا اوزار طاقت وعقل ہے ہر تاجر کا ایک سرمایہ ہوتا ہے اور مجتہدین کا سرمایہ عقل ہے ہر ویرانہ کے لئے آبادی ہے اور آخرت کی آبادی عقل ہے ۔ ہر سفر میں پناہ کےلئے خیمہ نصب کیا جاتا ہے اور مسلمانوںکا خیمہ عقل ہے ۔
٨١۔ امام علی(ع(: مومن ہشیار و عقلمند ہوتا ہے ۔

٢/٩
بہترین زینت
٨٢۔ امام علی(ع(: بہترین زینت عقل ہے اور بلدترین رتبہ علم ہے ۔
٨٣۔ امام علی(ع(: عقل سے زیادہ خوبصورت کوئی جمال نہیں۔
٨٤۔ امام علی(ع(: سب سے اچھازیور عقل ہے ۔
٨٥۔امام علی(ع(: مرد کی زینت اسکی عقل ہے ۔
٨٦۔ امام علی(ع(: عقل زینت ہے جہالت رسوائی ہے ۔
٨٧۔ امام علی(ع(: عقلمند کی زینت عقل ہے ۔
٨٨۔ امام علی(ع(: عقل ایسا نیا لباس ہے جو کہنہ نہیں ہوتا۔
٨٩۔ امام علی(ع(: انسان کا حسب اس کا علم ہے اور اس کا جمال اسکی عقل ہے ۔
٩٠۔ امام علی(ع(: حسن عقل ظاہر اور باطن کی زینت ہے ۔
٩١۔ امام علی(ع(: وہ شخص کامیاب نہیںہو سکتا کہ جس کو اسکی عقل نہ سنوار سکے۔
٩٢۔ امام علی(ع(: دین کی زینت عقل ہے ۔
٩٣۔ امام عسکری(ع): چہرے کا حسن ، ظاہری جمال ہے اور عقل کا حسن ، باطنی جمال ہے ۔
٩٤۔ اما م علیؑ: آپ سے منسوب دیوان میںہے۔
جوان لوگوں کے درمیان عقل کے ساتھ زندگی بسر کرتا ہے اس کا علم اور تجربہ عقل کے مطابق ہوتا ہے۔
صحیح عقل جوان کو لوگوںکے درمیان زینت عطا کرتی ہے، چاہے اس کا کار و بار بے رونق ہو۔
اور کم عقلی جوان کو لوگوں کے درمیان رسوا کرتی ہے چاہے اس کا خاندان کا منصب کتنا ہی بلند کیوںنہ ہو۔

٢/١٠
سب سے بڑی بے نیازی
٩٥۔رسول خدا(ص): جہالت سے بڑھکر کوئی فقر نہیں اور عقل سے زیادہ منفعت بخش کوئی سرمایہ نہیں ہے۔
٩٦۔ امام علی(ع(: عظیم ترین بے نیازی عقل ہے ۔
٩٧۔ امام علی(ع(: سب سے عظیم بے نیازی عقل ہے جو دنیا وآخرت میں سب سے بلند رتبہ شمار ہوتی ہے ۔
٩٨۔ امام علی(ع(: سب سے بڑی بے نیازی عقل ہے ۔
٩٩۔ امام علی(ع(: عقل سے زیادہ نفع بخش کوئی سرمایہ نہیںہے۔
١٠٠۔ امام علی(ع(: عقل کی بے نیازی کافی ہے ۔
١٠١۔ امام علی(ع(: عقل جیسی کوئی بے نیازی نہیںہے۔
١٠٢۔ امام علی(ع(: کوئی عقلمند نادارنہیں۔
١٠٣۔ امام علی(ع(: آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے : سب سے زیادہ گرانبہا سرمایہ ایسی عقل ہے جو سعادت سے نزدیک ہو ۔
١٠٤۔ امام صادق(ع): کوئی بے نیازی عقل سے بہتر نہیں ، کوئی فقر بیوقوفی سے بدتر نہیںہے۔

٢/١١
علم محتاجِ عقل ہے
١٠٥۔ امام علی(ع(: آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے ۔ عقل صاحب عقل کے لئے ہر گز ضرر رساں نہیں اور عقل کے بغیر علم کے صاحب علم کے لئے نقصاندہ ہے ۔
١٠٦۔ اما م علی(ع(: ہر وہ علم جس کی حمایت عقل نہ کرے گمراہی ہے ۔
١٠٧۔ امام علی(ع(: ہر وہ شخص جس کا علم اسکی عقل سے زیادہ ہوتاہے وہ علم اس کے لئے وبال ہوجاتاہے۔
١٠٨۔ امام علی(ع(: بندوں پر خدا کی سب سے بڑی بخشش علم ، عقل ،بادشاہت، اور عدل ہے ۔
١٠٩۔ امام علی(ع(: کوئی چیز اس عقل سے بہتر نہیںجو علم کے ہمراہ ہو، اس علم سے افضل نہیں جو حلم کے ساتھ ہو اور اس حلم سے برترنہیں جو قدرت کے ساتھ ہو۔
١١٠۔ امام علی(ع(: آپ ؑ سے منسوب دیوان میں ہے ۔
اگر تم صاحب علم ہو اور صاحب عقل نہیں ہو تو اس شخص کے مانند ہو کہ جسکے پاس جوتیاں ہوںلیکن پیر نہ ہوں
اگر عقلمند ہو اورعلم سے عاری ہوتو اس شخص کی طرح ہو کہ جس کے پیر ہوںلیکن جوتے نہ ہوں
دیکھو! ایسا انسان اپنی عقل کا نیام ہے اور تیر کے بغیر ترکش بے سود ہوتاہے ۔

٢/١٢
نادر اقوال
١١١۔ رسول خدا(ص): اللہ نے عقل کو اپنے اس ذخیرئہ نور سے پیدا کیا ہے جو اس کے علم سابق میں مخفی تھا کہ جس کی کسی نبی مرسل اور ملک مقرب کو اطلاع نہ تھی۔ پھر علم کو عقل کا نفس، فہم کو اسکی روح، زہد کو اس کا سر، حیاء کو اسکی آنکھیں، حکمت کو اسکی زبان، مہربانی کو اس کا منہ، اور رحمت کو اس کا دل قرار دیا۔ اس کے بعد عقل کی ان دس چیزوں یقین، ایمان، صداقت، سکون، اخلاص، مہربانی ،عطیہ، قناعت، تسلیم اور شکر کے ذریعہ اس کی تقویت کی۔
١١٢۔ امام علی(ع(: عقلیں ذخیرہ اور اعمال خزانے ہیں۔
١١٣۔ امام علی(ع(: عقل قوی ترین بنیاد ہے ۔
١١٤۔ امام علی(ع(: عقل تقرب کا باعث اور جہالت دوری کا سبب ہے ۔
١١٥۔ امام علی(ع(: عقل بہترین امید ہے ۔
١١٦۔ امام علی(ع(: عقل اچھی فکر کا باعث ہے ۔
١١٧۔ امام علی(ع(: عقل گرانقدر شرف ہے جو نابود نہیں ہوتا۔
١١٨۔ امام علی(ع(: انسان کارشد اسکی عقل سے ہے ۔
١١٩۔ امام علی(ع(: خدا وند سبحان کے نزدیک آگاہ عقل اور (آلودگیوں) سے پاک نفس سے زیادہ کوئی چیز سر خرو نہ ہوگی۔
١٢٠۔ امام علی(ع(: انسان کا حسب اسکی عقل ہے اور اسکی جوانمردی اس کا اخلاق ہے ۔
١٢١۔ امام علی(ع(: انسان کے کمال کی انتہاء اسکی صحیح عقل ہے ۔
١٢٢۔ امام علی(ع(: ہر چیز کی ایک انتہاء ہوتی ہے اور انسان کی انتہاء اسکی عقل ہے ۔
١٢٣۔ امام علی(ع(: خدا وند سبحان پائدار عقل اور صحیح کام کو پسند کرتا ہے ۔
١٢٤۔ امام علی(ع(: عقل دھوکا نہیں کھاتی۔
١٢٥۔امام علی(ع(: عقل شفاء ہے ۔
١٢٦۔ امام علی(ع(:عقل شمشیر براں ہے ۔
١٢٧۔ امام علی(ع(: کوئی بھی عدم، عدم عقل سے بدتر نہیں۔
١٢٨۔ امام علی(ع(: عقل کے بغیر دین کی اصلاح نہیں ہو سکتی ۔
١٢٩۔ امام علی(ع(: عقل کا فوت ہونا بد بختی ہے ۔
١٣٠۔ اما م علی(ع(: کوئی بھی بیماری کم عقلی سے زیادہ تکلیف دہ نہیںہے۔
١٣١۔ امام علی(ع(: ادب جب تک عقل کے ساتھ نہ ہو مفید نہیںہے۔
١٣٢۔ اما م حسن (ع): آگاہ ہو جاؤ! عقل پناہگاہ ہے اور بردباری زینت ہے۔
١٣٣۔ اما م کاظم (ع):نے ہشام بن حکم سے فرمایا اے ہشام! لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا۔ اے فرزند! دنیا ایسا گہرا سمندر ہے کہ جس میں بے شمار مخلوق غرق ہو چکی ہے۔ لہذا کوشش کرو کہ اس میں تمہاری کشتی ، تقوائے الٰہی، اس کا ساحل ایمان، بادبان(خدا پر) توکل، ناخدا عقل ،رہنما علم اورسوار صبرہو۔

تیسری فصل تعقل


٣/١
تعقل کی تاکید

قرآن
(اسی طرح پروردگار اپنی آیات کو بیان کرتا ہے کہ شاید تمہیں عقل آجائے۔)
(وہی وہ ہے جو حیات و موت کا دینے والا ہے اور اسی کے اختیار میں دن و رات کی آمد و رفت ہے تم عقل کو کیوںنہیں استعمال کرتے ہو۔)
(خدا اسی طرح مردوں کو زندہ کرتا ہے اور تمہیںاپنی نشانیاں دکھاتا ہے کہ شاید تمہیں عقل آجائے۔)
(بیشک ہم نے تمہاری طرف وہ کتاب نازل کی ہے جسمیں خو د تمہارا بھی ذکر ہے تو کیا تم اتنی بھی عقل نہیںرکھتے ہو۔)
ملاحظہ کریں: بقرہ : ١٦٤، انعام : ٣٢،١٥١، اعراف: ١٦٩، ھود: ٥١، یوسف :٢،١٠٩، رعد: ٤،نحل : ١٢، ٦٧ حج: ٤٦، نور: ٦١، قصص:٦٠، عنکبوت: ٣٥، روم:٢٤و ٢٨، یۤس ۤ٦٢، ٦٨، ص ۤ:٢٩، غافر:٦٧و٧٠، زخرف: ٣، جاثیہ ٥و١٣، حدید: ١٧۔

حدیث
١٣٤۔ رسول خدا(ص): عقل سے راہنمائی حاصل کرو تاکہ ہدایت یافتہ ہو جاؤ، عقل کی نافرمانی نہ کرو ورنہ پشیمان ہوگے۔
١٣٥۔ رسول خدا(ص): بہترین چیز جس سے خدا کی عبادت و بندگی ہوتی ہے وہ عقل ہے ۔
١٣٦۔ رسول خدا(ص): دنیا و آخرت میںتمام اعمال کا پیشوا عقل ہے ۔
١٣٧۔ ابن عمر رسول خدا سے نقل کرنے ہیں کہ آپؐ نے آیت(تبارک الذی بیدہ الملک) کو (ایکم احسن عملا) تک پڑھا، پھر فرمایا: تم میں سب سے بہترین عمل والا وہ شخص ہے جس کی عقل سب سے بہتر ہے اور سب سے زیادہ محرمات خدا سے پرہیز کرنے والا اور طاعت خدا میںسب سے زیادہ جلدی کرنے والا ہے ۔
١٣٨۔ رسول خدا(ص): نے اپنی وصیت میں ابن مسعود سے فرمایا: اے ابن مسعود! جب بھی کوئی کام انجام دو تو علم و عقل کے معیار پر انجام دو اور تدبر و علم کے بغیر کام انجام نہ دو اس لئے کہ خدا وند متعال کا ارشاد ہے(اس عورت کے مانند نہ ہو جاؤ کہ جس نے اپنے دھاگوںکو مضبوط و محکم بنانے کے بعد خود ہی توڑ ڈالا ہو)
١٣٩۔ رسول خدا(ص) :دور جاہلیت کے تمہارے بہترین افراد، اسلام میں بھی تمہارے بہترین افراد ہیں اگر غور و فکر سے کام لیں۔
١٤٠۔ رسول خدا(ص): رسولوں کے بعد اہل جنت کا سردارسب سے زیادہ عقلمند شخص ہوگا۔ اور لوگوں میں سب سے افضل انسان وہ ہے جوان میں زیادہ عقلمند ہے ۔
١٤١۔ رسول خدا(ص): اے علی ! جب لوگ نیک اعمال کے ذریعہ خدا سے تقرب حاصل کریں تو تم عقلمندی کو اپنا شعار بنا لیناکہ اس کے ذریعہ تم خدا کا تقرب اور دنیوی و اخروی درجات کو پا لوگے۔
١٤٢۔ عطا: ابن عباس عائشہ کے پاس گئے اور کہا اے ام المومنین، ایک شخص معمولی شب زندہ داری کرتا ہے اور زیادہ سوتا ہے دوسرا شخص بیشتر شب زندہ داری کرتا ہے اور کم سوتا ہے آپکی نظر میں کون زیادہ محبوب ہے ؟! عائشہ نے کہا:(میں نے یہی سوال رسول خدا(ص) سے پوچھا) تو آپؐ نے فرمایا: جسکی عقل زیادہ بہتر ہو، میں نے کہا: یا رسول اللہ ؐمیں آپ سے ان دونوں کی عبادت کے متعلق سوال کررہی ہوں؟ تو آنحضرت نے فرمایا : اے عائشہ ان دونوں سے انکی عقل کے مطابق سوال کیا جائیگا، جو زیادہ عقل مند ہے وہی دنیا و آخرت میں افضل ہے ۔
١٤٣۔ ابو ایوب انصاری رسول خدا(ص) سے نقل کرتے ہیںکہ آپؐ نے فرمایا: دو شخص وارد مسجد ہوئے دونوں نے نماز پڑھی جب وہ پلٹے تو ایک کی نما ز کا وزن کوہ احد کے سے زیادہ تھا جبکہ دوسرے کی نمازکا وزن ایک ذرہ کے برابر بھی نہیںتھا ، ابو حمید ساعدی نے پوچھا: اے رسول خدا(ص)!ایسا کیوںہے ؟ فرمایا:ایسا اس وقت ہوتا ہے جبکہ ان دونوں میں سے ایک محرمات الٰہی سے زیادہ پرہیز کرتا ہو اور کار خیر کی طرف جلدی کرنے میں زیادہ دلچسپی ہو اور چاہے مستحبات میں دوسرے سے پیچھے ہی کیوں نہ ہو۔
١٤٤۔ خدا ئے تبارک و تعالیٰ: حدیث معراج میں فرماتا ہے ، اے احمد! عقل کے زائل ہونے سے پہلے اسے استعمال کرو، جو عقل سے کام لیتاہے وہ نہ خطا کرتا ہے اور نہ سرکشی ۔
١٤٥۔ امام علی(ع(: بیشتر تفکر اور غور خوض کثرت تکرار اور تحصیل علم سے زیادہ مفید ہے ۔
١٤٦۔ امام علی(ع(: عقل سے راہنمائی حاصل کرو اور خواہشات کی مخالفت کرو کامیاب ہوجاؤگے۔
١٤٧۔ امام علی(ع(: عقل بلند ہستیوں تک پہنچنے کا زینہ ہے ۔
١٤٨۔ امام علی(ع(: انسان کا رتبہ اسکی عقل کے مطابق ہے ۔
١٤٩۔ امام علی(ع(: انسان کا کمال اسکی عقل کی وجہ سے ہے اور اسکی قیمت اسکی فضیلت کی بنا پر ہے ۔
١٥٠۔ امام علی(ع(: انسان کا کمال عقل سے ہے ۔
١٥١۔ امام علی(ع(: خوبصورتی کا تعلق زبان سے اور کمال کا تعلق عقل سے ہے ۔
١٥٢۔ امام علی(ع(: لوگ ایک دوسرے پرعلم و عقل کے ذریعہ فضیلت رکھتے ہیں نہ کہ اموال و حسب کے ذریعہ۔
١٥٣۔ امام علی(ع(: جہالت سے اتنی ہی بے رغبتی ہوتی ہے جتنی عقل سے رغبت ہوتی ہے ۔
١٥٤۔ امام علی(ع(: جو شخص عقل سے نصیحت لیتا ہے اسے یہ دھوکا نہیں دیتی۔
١٥٥۔ امام علی(ع(: جو شخص عقل سے مدد چاہتا ہے اسکی یہ مدد کرتی ہے ۔
١٥٦۔ امام علی(ع(ــ: جو شخص عقل سے راہنمائی حاصل کرتا ہے اسکی یہ راہنمائی کرتی ہے ۔
١٥٧۔ امام علی(ع(: جو شخص اپنی عقل سے عبرت حاصل کرتا ہے راستہ پا جاتا ہے ۔
١٥٨۔ امام علی(ع(: جو اپنی عقل کا مالک ہو جاتا ہے وہ حکیم ہے ۔
١٥٩۔ امام علی(ع(: عقل عیوب کا پردہ ہے۔
١٦٠۔ امام کاظم (ع):نے ہشام بن حکم سے فرمایا: اے ہشام! اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی کتاب میں صاحبان عقل و فہم کو بشارت دی ہے پس فرمایا: (میرے ان بندوںکو بشارت دے دیجئے جو باتوں کو سنتے ہیں اور جو بات اچھی ہوتی ہے اسکی اتباع کرتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جنہیںخدا نے ہدایت دی ہے اور یہی وہ لوگ ہےں جو صاحبان عقل ہیں)
اے ہشام! خدا وند عالم نے لوگوں پر اپنی دلیلوں کو عقل کے ذریعہ مکمل کیا ہے ، (قوتِ ) بیان کے ذریعہ انبیاء کی مدد اور برہان کے ذریعہ اپنی ربوبیت کی طرف انکی راہنمائی کی ہے۔ فرمایا: (تمہارا معبود ایک معبود ہے نہیں کوئی معبود مگر اس رحمن و رحیم کے، بیشک زمین و آسمان کی خلقت، روز و شب کی رفت و آمد، ان کشتیوں میں جو دریاؤں میں لوگوں کے فائدہ کےلئے چلتی ہیں، اور اس پانی میں جسے خدانے آسمان سے نازل کرکے اسکے ذریعہ مردہ زمینوں کو زندہ کر دیا ہے اور اس میں طرح طرح کے چوپائے پھیلا دئیے ہیں اور ہواؤں کے چلنے میں اور آسمان و زمین کے درمیان مسخر کئے جانے والے بادل میں صاحبان عقل کےلئے اللہ کی نشانیاں پائی جاتی ہیں)
اے ہشام! خدا نے بعنوان مدبراپنی معرفت کےلئے ان چیزوں کو نشانی قرار دیا ہے (اور اس نے تمہارے لئے رات و دن اور آفتاب و ماہتاب سب کو تمہارا تابع کر دیا ہے اور ستارے بھی اسی کے حکم کے تابع ہیں بیشک اس میں بھی صاحبان عقل کےلئے قدرت کی بہت سی نشانیاں پائی جاتی ہیں)اور فرمایا:(وہی خدا ہے جس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفے سے پھر علقہ سے پھر تم کو بچہ بنا کر باہر لاتا ہے پھر زندہ رکھتا ہے کہ توانائیوں کو پہنچو پھر بوڑھے ہو جائے اور تم میں سے بعض کو پہلے ہی اٹھا لیا جاتا ہے اور تم کو اس لئے زندہ رکھتا ہے کہ اپنی مقررہ مدت کو پہنچ جاؤ اور شاہد تمہیں عقل بھی آجائے)خدا فرماتا ہے (اور رات و دن کی رفت و آمد میں اور جو رزق خدا نے آسمان سے نازل کیا ہے جسکے ذریعہ مردہ زمینوں کو زندہ کر دیا ہے اور ہواؤںکو چلانے میں اور آسمان و زمین کے درمیان مسخر کئے جانے والے بادل میں صاحبان عقل کےلئے اللہ کی نشانیاں ہیں) خدا فرماتا ہے (خدا مردہ زمینوں کا زندہ کرنے والا ہے اور ہم نے تمام نشانیوںکو واضح کر کے بیان کر دیا ہے تاکہ تم عقل سے کام لے سکو) نیز فرماتا ہے (اور انگور کے باغات ہیں اور زراعت ہے اور کھجوریںہیں جن میں بعض دو شاخ کی ہیں اور بعض ایک شاخ کی ہیں اور سب ایک ہی پانی سے سینچے جاتے ہیں اور ہم بعض کو بعض پر کھانے میں ترجیح دیتے ہیں اور اس میں بھی صاحبان عقل کےلئے نشانیاں پائی جاتی ہیں) خدا کاارشاد ہے (اور اسکی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ وہ بجلی کو خوف اور امید کا مرکز بنا کر دکھلاتا ہے اور آسمان سے پانی برساتا ہے پھر اسکے ذریعہ مردہ زمینوںکو زندہ بناتا ہے بیشک اس میں بھی عقل رکھنے والی قوم کےلئے بہت سی نشانیاں ہیں) اور فرمایا( کہہ دیجئے کہ آؤ ہم تمہیں بتائیںکہ تمہارے پروردگار نے تمہارے لئے کیا کیا حرام کیا ہے خبردار کسی کو اسکا شریک نہ بنانا اور ماں باپ کےساتھ اچھا برتاؤ کرنا اپنی اولاد کو غربت کی بنا پر قتل نہ کرنا کہ ہم تمہیں بھی رزق دے رہے ہیں اور انہیں بھی اور بدکاریوں کے قریب نہ جانا وہ ظاہر ہوں یا پوشیدہ اور کسی ایسے نفس کو جسے خدا نے حرام کر دیا ہے قتل نہ کرنا مگر یہ کہ تمہارا کوئی حق ہو یہ وہ باتیں ہیں جنکی خدا نے نصیحت کی ہے تاکہ تمہیں عقل آجائے) پروردگار کا ارشاد ہے (کیا اس میں تمہارے مملوک غلام و کنیز میںکوئی تمہارا شریک ہے کہ تم سب برابر ہو جاؤ اور تمہیں انکا خوف اسی طرح ہو جس طرح اپنے نفوس کے بارے میں خوف ہوتا ہے ۔ بیشک ہم اپنی نشاینوںکو صاحبان عقل کےلئے اسی طرح واضح کرکے بیان کرتے ہیں)
اے ہشام! خدا نے اپنے انبیاء و رسل کو اپنے بندوںکی طرف اس لئے بھیجا ہے تاکہ وہ خدا کی معرفت حاصل کریں ۔ انبیاء کی دعوت پر اچھی طرح سے لبیک کہنے والے وہ افراد ہیں جنہوںنے خدا کو اچھی طرح سے پہچانا ہے ۔ امر خدا کے متعلق لوگوں میں سب سے زیادہ جاننے والا وہ شخص ہے جس کی عقل سب سے بہتر ہے ۔ اور جو سب سے زیادہ کامل العقل ہے دنیا و آخرت میں اس کا درجہ سب سے بلند ہے ۔
١٦١۔ جابر بن عبد اللہ: رسول خدا(ص) نے اس آیت( اور یہ مثالیں ہم تمام عالم انسانیت کےلئے بیان کر رہے ہیں اور علماء کے علاوہ انہیں کوئی نہیں سمجھتاہے ) کی تلاوت کی اور فرمایا: عالم وہ ہے جو خدا کی معرفت رکھتا ہے اور اس کے حکم کی طاعت اور اس کے غضب سے دوری اختیار کرتا ہے۔
١٦٢۔ رسول خدا(ص)ــ: اللہ تعالیٰ نے عقل کو تین حصوں (خدا کی اچھی طرح معرفت، اسکی بہترین طاعت اور اس کے حکم کے سامنے مناسب ثابت قدمی) میں تقسیم کیا ہے ، جس کے اندر یہ حصے ہوں گے اسکی عقل کامل ہے اور جس میں یہ نہیں ہوں گے وہ عاقل نہیں ہے ۔
١٦٣۔ رسول خدا(ص): بہت سے عقلمند ایسے ہیں جنہوںنے امر خدا کو سمجھ لیا ہے لیکن لوگوں کی نظروں میں حقیر اورکریہہ المنظر شمار ہوتے ہیں جبکہ کل یہی نجات پائیں گے اور بہت سے افرادلوگوں کی نظروں میں شستہ زبان اور حسین منظر شمار ہوتے ہیں جبکہ کل قیامت میں یہی ہلاک ہوں گے۔
١٦٤۔ رسول خدا(ص): انسان کا دین اس وقت تک ہرگز مکمل نہیںہو سکتا جب تک کہ اسکی عقل مکمل نہ ہو جائے۔
١٦٥۔ رسول خدا(ص): ملائکہ نے عقل ہی کے ذریعہ طاعت خدا کے لئے جد و جہد کی اوربنی آدم میں سے مومنین نے بھی اپنی عقل کے مطابق طاعت خدا کے سلسلہ میں سعی و کوشش کی ۔ خدا کی سب سے زیادہ اطاعت کرنے والے وہی لوگ ہیں جو زیادہ عقل رکھتے ہیں۔
١٦٦۔ ابن عباس:رسول خدا(ص) سے روایت کرتے ہیں : لوگوں میںسے زیادہ با فضل انسان وہ ہے جوان میں سب سے زیادہ عقلمند ہے ، ابن عباس نے کہا: اور وہ تمہارانبی ہے ۔
١٦٧۔ امام صادق(ع): تمہیں کیا ہو گیا ہے جو ایک دوسرے سے الگ رہتے ہو! ، مومنین میں سے بعض بعض سے افضل ہیں، بعض کی نمازیں دوسروں سے زیادہ ہیںاور بعض کی نگاہیںبعض سے زیادہ گہری ہیںیہی درجات ہیں۔
نوٹ: یہ تمام آیات و روایات جو لوگوں کو تفکر، تدبر، تذکر، تفقہ اور بصیرت کی دعوت دے رہی ہیں ،ان میں معرفت اور زندگی کے صحیح راستوں کے انتخاب کی تاکید کی گئی ہے ۔

٣/٢
ہمیشہ غور و فکر سے کام لو
قرآن
(اور یقینا ہم نے انسان و جنات کی ایک کثیر تعداد کو گویا جہنم کے لئے پیدا کیا ہے کہ ان کے پاس دل ہیں مگر سمجھتے نہیں ہیں اور آنکھیں ہیں مگر دیکھتے نہیں اور کان ہیں مگر سنتے نہیں، یہ چوپایوں جیسے ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں اور یہی لوگ اصل میںغافل ہیں)
(اور وہ ان لوگوں پر خباثت کو لازم قرار دیتا ہے جو عقل سے کام نہیں لیتے ہیں)
( جو اس دنیا میں اندھا ہے وہ قیامت میں بھی اندھا اور بھٹکا ہوا رہیگا)
(حیف ہے تمہارے اوپر اور تمہارے ان خداؤں پر جنہیں تم نے خدا ئے برحق کو چھوڑ کر اختیار کیاہے کیا تمہیں اتنی بھی عقل نہیں ہے)
(اور پھر کہیں گے کہ اگر ہم بات سن لیتے اور سمجھتے ہوتے تو آج جہنم والوں میں نہ ہوتے)
(اور وہ لوگوں جو کافر ہیںا ان کےلئے آتش جہنم ہے اور نہ انکی قضا آئیگی کہ مر جائیں اور نہ عذاب میں کمی کی جائیگی ہم ہر کافر کو سزا دیںگےں اور یہ وہاں فریاد کرینگے کہ پروردگار ہمیں نکال لے ہم اب نیک عمل کریںگے اسکے بر خلاف جو پہلے کیا کرتے تھے تو کیا ہم نے تمہیں اتنی عمر نہیں دی تھی جسمیں عبرت حاصل کرنے والے عبرت حاصل کر سکتے تھے اور تمہارے پاس ڈرانے والا بھی آیا تھا لہذا اب عذاب کا مزہ چکھو کہ ظالمین کا کوئی مدد گار نہیں ہے )
(کیا آپ کا خیال یہ ہے کہ ان کی اکثریت کچھ سنتی اور سمجھتی ہے ہر گز نہیں یہ سب جانوروںجیسے ہیں بلکہ ان سے بھی کچھ زیادہ ہی گمراہ ہیں)
ملاحظہ فرمائیںـ:٤٤و٧٦۔آل عمران: ٦٥، یونس ١٦، عنکبوت: ٣٥،٤٣۔ صافات ١٣٨۔ فاطر:٣٧۔ جاثیہ: ٢٣۔ احقاف:٢٦

حدیث
١٦٨۔ رسول خدا(ص): عقل سے رہنمائی حاصل کروتا کہ ہدایت پا جاؤ اور عقل کی نافرمانی مت کرو کہ پشیمان ہوگے۔
١٦٩۔ امام علی(ع(: جو شخص عقل کے استعمال سے عاجز ہے وہ اس کے حاصل کرنے سے زیادہ عاجز ہے۔
١٧٠۔ امام علی(ع(: عقلمند ادب سے نصیحت حاصل کرتے ہیں اور چوپائے مار کھائے بغیر قابو میں نہیں آتے ۔
١٧١۔ امام علی(ع(: جہالت سے اتنی ہی بے رغبتی ہوتی ہے جتنی عقل سے رغبت ہوتی ہے ۔
١٧٢۔ امام علی(ع(: جو شخص عقل میں جتنا پیچھے ہوتا ہے وہ جہالت میں اتنا ہی آگے ہوتا ہے ۔
١٧٣۔ امام علی(ع(: ہم خدا کی پناہ چاہتے ہیں عقل کے خواب غفلت سے اور لغزشوں کی برائیوں سے ۔
١٧٤۔ امام علی(ع(: جو شخص غور و فکر نہیں کرتا وہ بے وقعت ہو جاتا ہے اور جو بے وقعت ہو جاتا ہے اسکی کوئی عزت نہیں ہوتی۔
١٧٥۔ امام علی(ع(: اے لوگو! جن کے نفس مختلف اور دل متفرق ہیں، بدن حاضر اور عقلیں غائب ہیں، میں تمہیں مہربانی کے ساتھ حق کی دعوت دیتا ہوں اور تم اس سے اس طرح فرار کر رہے ہو جیسے شیر کی ڈکار سے بکریاں۔
١٧٦۔ امام علی(ع(:نے اپنے اصحاب کومخاطب کرکے فرمایا: اے وہ قوم جسکے بدن حاضر ہیں اور عقلیں غائب تمہارے خواہشات گوناگوں ہیں اور تمہارے حکام تمہاری بغاوت میں مبتلا ہیں، تمہارا امیر اللہ کی اطاعت کرتا ہے اور تم اسکی نافرمانی کرتے ہو اور شام کا حاکم اللہ کی معصیت کرتا ہے اور اسکی قوم اسکی اطاعت کرتی ہے ۔
١٧٧۔ امام صادق(ع): جب خداا پنے کسی بندہ سے نعمت سلب کرنا چاہتا ہے تو سب سے پہلے اسکی عقل کو بدل دیتا ہے ۔
١٧٨۔ امام کاظم (ع)نے ہشام بن حکم سے فرمایا: اے ہشام! اللہ تبارک و تعالیٰ نے عقل کے ذریعہ لوگوں پر اپنی حجتیں تمام کی ہیں....پھر صاحبان عقل کو وعظ و نصیحت کی اور انہیں آخرت کی ترغیب دلائی اور فرمایا( اور یہ زندگانی دنیا صرف کھیل تماشہ ہے اور دار آخرت صاحبان تقویٰ کے لئے سب سے بہتر ہے ۔ کیا تمہاری عقل میں یہ بات نہیں آرہی ہے )
اے ہشام! پھر وہ لوگ جو فکر کرنے والے نہیں ہیں خدا نے انہیں اپنے عقاب سے ڈرایا اورفرمایا (پھر ہم نے سب کو تباہ و برباد بھی کر دیا، تم ان کی طرف سے برابر صبح کو گذرتے ہو ، اور رات کے وقت بھی تو کیا تمہیں عقل نہیں آرہی ہے ) اور فرمایا( ہم اس بستی پر آسمان سے عذاب نازل کرنے والے ہیں کہ یہ لوگ بڑی بدکاری کر رہے ہیں، اور ہم نے اس بستی میں سے صاحبان عقل و ہوش کےلئے کھلی ہوئی نشانی باقی رکھی ہے )
اے ہشام! عقل علم کے ساتھ ہے جیسا کہ خدا کا ارشاد ہے (اور یہ مثالیں ہم تمام عالمِ انسانیت کےلئے بیان کررہے ہیں لیکن انہیں صاحبان علم کے علاوہ کوئی نہیں سمجھ سکتا ہے )
اے ہشام! پھر خدا نے غور وخوض نہ کرنے والوںکی مذمت کی اور فرمایا( جب ان سے کہا جاتا ہے جو کچھ خد انے نازل کیا ہے اسکی اتباع کرو تو کہتے ہیں کہ ہم اسکی اتباع کرینگے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے، کیا یہ ایسا ہی کرینگے چاہے انکے باپ دادا بے عقل ہی رہے ہوں اور ہدایت یافتہ نہ رہے ہوں) اور فرمایا( جو لوگ کافر ہو گئے ہیں انکو پکارنے والے کی مثال اس شخص کی ہے جو جانوروں کو آواز دے اور جانور پکار اور آواز کے علاوہ کچھ نہ سنیں اور سمجھیں یہ کفار بہرے ، گونگے اور اندھے ہیں، انہیں عقل سے سروکار نہیں ہے ) اور فرمایا( اور ان میں بعض ایسے بھی ہیں جو بظاہر کان لگا کر سنتے بھی ہیں لیکن کیا آپ بہروںکو بات سنانا چاہتے ہیں جبکہ وہ سمجھتے بھی نہیںہیں) اور فرمایا( کیا آپکا خیال یہ ہے کہ انکی اکثریت کچھ سنتی اور سمجھتی ہے ہرگز نہیں یہ سب چوپایوںجیسے ہیں بلکہ ان سے بھی کچھ زیادہ ہی گمراہیں) اور فرمایا( یہ کبھی تم سے اجتماعی طور پر جنگ نہیںکرینگے مگر یہ کہ محفوظ بستیوں میںہوں یا دیواروںکے پیچھے ہوں انکی دھاک آپس میں بہت ہے اور تم یہ خیال کرتے ہو کہ یہ سب متحد ہیںہر گز نہیں انکے دلوں میں سخت تفرقہ ہے اور یہ اس لئے کہ اس قوم کے پاس عقل نہیں ہے)۔اور فرمایا:( اور تم اپنے نفسوں کو بھلا بیٹھے جبکہ تم کتاب کی تلاوت بھی کرتے ہو کیا تمہیں اتنی بھی عقل نہیں ہے)
اے ہشام! خدا وند عالم نے اکثریت کی مذمت کی اور فرمایا( اور اگر آپ روئے زمین کی اکثریت کا اتباع کرینگے تو یہ آپ کو راہ خدا سے بہکا دینگے ) اور فرمایا( اور اگر آپ ان سے سوال کریں کہ زمین و آسمان کا خالق کون ہے تو کہیں گے کہ اللہ تو پھر کہئے کہ ساری حمد اللہ کےلئے ہے اور انکی اکثریت بالکل جاہل ہے ) اور فرمایا( اور اگر آپ ان سے پوچھیں گے کہ کس نے آسمان سے پانی برسایا اور پھر زمین کو مردہ ہونے کے بعد زندہ کیا ہے تو یہ کہیں گے کہ اللہ، تو پھر کہہ دیجئے کہ ساری حمد اسی کےلئے ہے اور انکی اکثریت عقل کا استعمال نہیں کر رہی ہے )
اے ہشام! پھر اللہ تعالیٰ نے اقلیت کی مدح کی اور فرمایا( اور ہمارے بندوں میں شکر گذار بندے کم ہیں) اور فرمایا( اور وہ بہت کم ہیں) اور فرمایا( اور فرعون والوں میں سے ایک مرد مومن نے جو اپنے ایمان کو چھپائے ہوئے تھا یہ کہا کہ کیا تم لوگ اس شخص کو صرف اس بات پر قتل کر رہے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا پروردگار اللہ ہے ) اور فرمایا( اور صاحبان ایمان کو بھی لے لو اور ان کے ساتھ ایمان والے بہت ہی کم ہیں) اور فرمایا( لیکن ان کی اکثریت اس بات کو نہیں جانتی) اور فرمایا( او رانکی اکثریت اس بات کو نہیںسمجھتی ۔)
١٧٩۔ا مام رضا(ع): بے عقل دینداروں کی طرف توجہ نہیں کی جائیگی۔
١٨٠۔ اسحاق بن عمار: میں نے امام جعفر صادق(ع) کی خدمت میں عرض کیا: میں آپ پر فدا ہو جاؤں! میرا پڑوسی بہت زیادہ نمازیں پڑھتا ہے ، بے پناہ صدقہ دیتا ہے، کثرت سے حج کرتا ہے اور نہایت معقول انسان ہے ، امام نے فرمایا: اے اسحاق! اس کی عقل کیسی ہے ؟ میں نے عرض کیا: میری جان آپ پر فدا ہو جائے ، عقل سے کو را ہے ، پھر آپؑ نے فرمایا: اس کے اعمال اسی وجہ سے قابل قبول نہیں ہیں۔

٣/٣
عقل کا حجت ہونا
١٨١۔ رسول خدا(ص): حق جہاں بھی ہو اس کے ساتھ رہو، جو چیزیں تم پر مشتبہ ہو جائیں انہیں اپنی عقل کے ذریعہ جدا کرو ، کیوں کہ عقل تم پر خدا کی حجت اور تمہارے پاس اسکی امانت اور برکت ہے ۔
١٨٢۔ امام علی(ع(: عقل حق کا رسول ہے ۔
١٨٣۔ امام علی(ع(: عقل ، باطنی شریعت اور شریعت، ظاہری عقل ہے ۔
١٨٤۔ اما م صادق(ع): نبی بندوں پر خدا کی حجت ہے اور عقل بندوں اور خدا کے درمیان حجت ہے ۔
١٨٥۔ امام کاظم (ع): نے ہشام بن حکم سے فرمایا: اے ہشام! خدا کی لوگوںپر دو حجتیں ہیں: حجت ظاہری اور حجت باطنی، حجت ظاہری انبیاء و مرسلین،اور ائمہ ہیں لیکن حجت باطنی عقل ہے۔
١٨٦۔ امام کاظم (ع): نے نیز ہشام بن حکم سے فرمایا: اے ہشام ! اللہ تبارک و تعالیٰ نے لوگوں پر عقل کے ذریعہ حجتیں تمام کی ہیں، (قوت) بیان کے ذریعہ انبیاء کی مدد کی ہے اور براہین کے ذریعہ انہیں اپنی ربوبیت سے آشنا کیاہے ۔
١٨٧۔ ابویعقوب بغدادی : ابن سکیت نے امام رضاکی خدمت میں عرض کیا.....خدا کی قسم میں نے آپ کے مثل کسی کو نہیں دیکھا، آج خلق پر خدا کی حجت کون ہے ؟ فرمایاؑ: عقل ہے کہ جس کے ذریعہ خدا کے متعلق سچ بولنے والوں کی پہچان اور ان کی تصدیق ہوتی ہے ، خدا پرجھوٹ باندھنے والوں کی شناخت اور ان تکذیب کی ہوتی ہے، ابو یعقوب کہتے ہیںکہ ابن سکیت نے کہا: خدا کی قسم ، یہی( واقعی) جواب ہے ۔

٣/٤
اعمال کے حساب میں عقل کا دخل
١٨٨۔ امام علی(ع(: خدا نے دنیا میں بندوں کو جتنی عقل عطا کی ہے اسی کے مطابق حساب لیگا۔
١٨٩۔ امام باقر(ع): خدا نے جو چیزیں موسیٰ بن عمران پر نازل کی ہیں ان میں سے بعض کو ذکر کرتے ہوئے فرمایا: جب موسیٰ پر وحی نازل ہوی....تو اس وقت خدا نے فرمایا: میں نے اپنے بندوں کو جتنی عقل عطا کی ہے اسی کے مطابق حساب لونگا۔
١٩٠۔ امام باقر(ع): خدا نے دنیا میں بندوں کو جتنی عقل عطا کی ہے اسی کے مطابق روز قیامت دقیق حساب لیگا۔
١٩١۔ امام باقر(ع): میں نے علی(ع( کی کتاب پر نظر ڈالی تو مجھے یہ بات ملی کہ: ہر انسان کی قیمت اور اسکی قدر و منزلت اسکی معرفت کے مطابق ہے اور خدا نے دنیا میں بندوںکو جتنی عقل عطا کی ہے اسی کے مطابق اسکا حساب لیگا۔

٣/٥
اعمال کی جزا میں عقل کااثر
١٩٢۔ رسول خدا(ص): اگر تمہارے پاس کسی شخص کے نیک چال چلن کے متعلق خبر پہنچے تو تم اس کے حسن عقل کو دیکھو، کیونکہ جزاعقل کے اعتبارسے دی جاتی ہے ۔
١٩٣۔رسول خدؐا: اگر کسی کوبہت زیادہ نماز گذار اور زیادہ روزہ دار پاؤ تواس پر فخر و ماہات نہ کرو جب تک کہ اسکی عقل کو پرکھ نہ لو۔
١٩٤۔ رسول خدا(ص): وہ شخص جونمازی، زکات دینے والاحج و عمرہ بجالانے والا اور مجاہدہے اسے روز قیامت اسکی عقل کے مطابق جزا دی جائیگی۔
١٩٥۔ رسول خدا(ص): جنت کے سو درجے ہیں، نناوے درجے صاحبان عقل کے لئے ہیں اور ایک درجہ بقیہ تمام افراد کے لئے ہے ۔
١٩٦۔ رسول خدا(ص): ایک شخص پہاڑ کی بلندی پر ایک گرجا گھرمیں عبادت کیا کرتا تھا، آسمان سے بارش ہوئی زمین سر سبز ہو گئی جب اس نے گدھے کو چرتے دیکھا تو کہا: پروردگارا!! اگر تیرا بھی گدھا ہوتا تو میں اپنے گدھے کے ساتھ اسے بھی چراتا، چنانچہ جب یہ خبر بنی سرائیل کے انبیاء میں سے کسی نبی کو ملی تو انہوںنے اس عابد کے لئے بد دعا کرنی چاہی تو خدا وند عالم نے اس نبی پر وحی نازل کی ، '' میں بندوںکو ان کی عقل کے مطابق جزا دونگا''۔
١٩٧۔ تحف العقول: ایک گروہ نے پیغمبر اسلامؐ کی خدمت میںایک شخص کی تعریف کی اور اسکی تمام خوبیوں کو بیان کیا تو رسول خدا(ص) نے فرمایا: اس شخص کی عقل کیسی ہے؟ انہوںنے کہا: اے رسولخدؐا! ہم آپکو عبادت میں اسکی کوشش و جانفشانی اور اسکی دوسری خوبیوں کی خبر دے رہے ہیں اور آپ ہم سے اسکی عقل کے بارے میں پوچھ رہے ہیں؟! آپؐ نے فرمایا: احمق اپنی حماقت کے سبب گنہگار سے زیادہ فسق و فجور کا مرتکب ہوتا ہے ، یقینا بندے روز قیامت اپنی عقل کے مطابق بلند درجات پر فائز ہونگے اور اپنے پروردگار کا تقرب حاصل کرینگے ۔
١٩٨۔ رسول خدا(ص):( لوگوںنے جب آپکے سامنے کسی شخص کی بہترین عبادت کی تعریف کی) تو آپ نے فرمایا: اسکی عقل کو دیکھو؛ اس لئے کہ روز قیامت بندوں کو انکی عقل کے مطابق جزا دی جائیگی۔
١٩٩۔ امام باقر(ع): موسیٰ بن عمران ؑنے دیکھا کہ بنی اسرائیل کاا یک شخص طولانی سجدے کر تا ہے اور گھنٹوںخاموش رہتا ہے۔جہاں بھی موسیٰ ؑجاتے تھے وہ بھی ساتھ ہو لیتا تھا ایک روز جناب موسیٰ کسی کام کے تحت ایک ہری بھری اور سبزوادی سے گذرے تو اس مرد عبادت گذار نے ایک سرد آہ بھری ، جناب موسیٰ نے اس سے کہا: کیوں آہ بھر رہے ہو؟! اس نے کہا: مجھے اس چیز کی تمنا ہے کہ کاش میرے پروردگار کاکوئی گدھا ہوتا تو میں اسے یہاںچراتا ، جناب موسیٰؑ اسکی اس بات سے اس قدر غمگین ہوئے کہ کافی دیر تک اپنی نظروں کو زمین کی طرف جھکائے رکھا، اتنے میں جناب موسیٰ پر وحی نازل ہوئی کہ اے موسیٰ میرے بندہ کی بات تم پر اتنی گراں کیوں گذری ؟!میں نے اپنے بندوں کو جتنی عقل عطا کی ہے اسی کے مطابق حساب لونگا۔
٢٠٠۔ سلیمان دیلمی( کابیان ہے کہ) میں نے امام جعفر صادق(ع) کی خدمت میں ایک شخص کی عبادت، دینداری اور فضیلتوں کا تذکرہ کیا تو آپ ؑ نے فرمایا: اسکی عقل کیسی ہے ؟! میںنے کہا: مجھے نہیں معلوم، فرمایا: ثواب عقل کے مطابق دیا جائیگا اس لئے کہ بنی اسرائیل کا ایک شخص سر سبز و شاداب، درختوں اور پانی سے لبریز جزیرہ میں خدا کی عبادت کیا کرتا تھا۔ فرشتوں میں سے ایک فرشتہ اس کے قریب سے گذرا تو اس نے کہا پروردگارا! اپنے اس بندہ کا ثواب مجھے دکھا دے ، پس خدا وند نے اسے اپنے اس بندہ کا ثواب دکھایا لیکن فرشتہ کی نظر میں وہ ثواب بہت معمولی تھا تو خدا نے فرشتہ پر وحی کی کہ اس کے ہمراہ ہو جاؤ، فرشتہ انسانی شکل میں اس کے پاس آیا اور عابد نے اس سے پوچھا تم کون ہو؟ کہا: میں ایک عبادت گذار شخص ہوں مجھے تمہاری اس جگہ عبادت کی اطلاع ملی تو میں تمہارے پاس آیا ہوں تاکہ میں بھی تمہارے ساتھ خد اکی عبادت کروں، لہذا پورے دن وہ فرشتہ اس عابد کے ساتھ رہا، دوسرے روز فرشتہ نے اس سے کہا تمہاری جگہ پاک و پاکیزہ ہے صرف عبادت کے لئے موزوں ہے ، مرد عابد نے کہا: ہماری اس جگہ میں ایک عیب ہے ، فرشتہ نے پوچھا : وہ عیب کیاہے ؟ کہا: ہمارے پروردگارکے پاس کوئی چوپایہ نہیںہے ، اگر خدا کے پاس ایک گدھا ہوتا تو ہم یہاں پر اسے چراتے اس لئے کہ یہ گھاس تلف ہو رہی ہے ، فرشتہ نے اس سے کہا: تمہارا پروردگار گدھا کیا کریگا؟ مرد عابد نے کہا: اگر خدا کے پاس گدھا ہوتا تو یہ گھاس برباد نہ ہوتی ، پس خدا نے فرشتہ پر وحی نازل کی ، کہ میں اس کو اسکی عقل کے مطابق ثواب دونگا۔