٧/١
پیچھے کی طرف پلٹنا
قرآن
(اور محمد صرف اللہ کے رسول ہیں جن سے پہلے بہت سے رسول گذر چکے ہیں کیا اگر وہ مر جائیں یا قتل ہو جائیں توتم الٹے پیروں پلٹ جاؤگے تو جو بھی ایسا کریگا وہ خدا کا کوئی نقصان نہیںکریگا اور خدا تو عنقریب شکر گذاروںکو ان کی جزا دیگا)
حدیث
١٢١٣۔ امام باقر(ع): نے اس آیت:(اور پہلی جاہلیت جیسا بناؤ سنگارنہ کرو)کی تفسیر کے سلسلہ میں فرمایا: عنقریب دوسری جاہیت آنے والی ہے۔
١٢١٤۔ رسول خدا(ص): میں دو جاہلیتوں کے درمیان مبعوث ہوا ہوں، دوسری جاہلیت پہلی سے بدتر ہے ۔
١٢١٥۔ رسول خدا(ص): قیامت برپا نہیں ہوگی جب تک کہ علم محدود نہ ہو جائے۔
١٢١٦۔ رسول خدا(ص): آثار قیامت میں سے علم کا کم ہونا اور جہالت کا آشکار ہونا ہے ۔
١٢١٧۔ رسول خدا(ص): قیامت کی نشانیوں میں سے علم کا اٹھ جانا اور جہالت کاراسخ ہونا ہے ۔
١٢١٨۔ رسول خدا(ص): بیشک قیامت سے قبل کچھ ایسے دن آئیں گے جن میں جہالت پھیلیگی اور علم اٹھا لیا جائیگا۔
١٢١٩۔ امام علی (ع): یا درکھو! تم نے اپنے ہاتھوں کو اطاعت کے بندھنوں سے جھاڑ لیا ہے اور اللہ کی طرف سے اپنے گرد کھنچے ہوئے حصار میں جاہلیت کے احکام کی بنا پر رخنہ پیدا کر دیا ہے ۔ اللہ نے اس امت کے اجتماع پر یہ احسان کیا ہے کہ انہیں الفت کی ایسی بندشوں میں گرفتار کر دیا ہے کہ اسی کے زیر سایہ سفر کرتے ہیں اور اسی کے پہلو میں پناہ لیتے ہیں اور یہ وہ نعمت ہیں جس کی قدر و قیمت کو کوئی بھی نہیںسمجھ سکتا ہے اس لئے کہ ہر قیمت سے بڑی قیمت اور شرف و کرامت سے بالاتر کرامت ہے ، اور یاد رکھو! کہ تم ہجرت کے بعد پھر صحرائی بدو ہو گئے ہو اور باہمی دوستی کے بعد پھر گروہوں میں تقسیم ہو گئے ہو، تمہارا اسلام سے رابطہ صرف نام کارہ گیا ہے اور تم ایمان میں سے صرف علامتوں کو پہچانتے ہو۔
٧/٢
جاہلیت کی طرف پلٹنے کے اسباب
الف: امام کی عدم معرفت
١٢٢٠۔ رسول خدا(ص): جو شخص امام کے بغیر مرا اسکی موت جاہلیت کی موت ہے۔
١٢٢١۔ رسول خدا(ص): وہ شخص جو مر جائے اور اس کے اوپر کوئی امام نہ ہو اسکی موت، جاہلیت کی موت ہے۔
١٢٢٢۔ رسول خدا(ص): وہ شخص جو مر جائے اور اپنے امام کو نہ پہچانتا ہو اسکی موت ،جاہلیت کی موت ہے۔
١٢٢٣۔ رسول خدا(ص): وہ شخص جس کو اس عالم میں موت آئے کہ اسکی گردن پر کسی(امام )کی بیعت نہ ہو اسکی موت جہالت کی موت ہے۔
١٢٢٤۔ رسول خدا(ص): وہ شخص جس کو اس حالت میں موت آئے کہ میری اولاد میں سے اس کا کوئی امام نہ ہو اسکی موت جاہلیت کی موت ہے اور جو کچھ جاہلیت اور دوران اسلام کیا ہے اس کا اس سے مؤاخذہ کیا جائیگا۔
١٢٢٥۔ امام علی (ع): مسلمان کو اس شخص کے حکم پرجہاد کے لئے نہیں نکلنا چاہئے کہ جو امانتدار نہیںہے اور مصرف فی ئ(عمومی اموال) میں حکم خدا کو نافذ نہیں کرتا، ورنہ اگر اس راہ میں مرگیاتوہمارے حقوق کو تلف کرنے اور ہمارے خون کو بہانے میں ہمارے دشمنوںکا مددگار ہوگا، اور اسکی موت، جاہلیت کی موت ہوگی۔
ب: نشہ آور اشیاء کا استعمال
١٢٢٦۔رسول خدا(ص): کوئی ایسا نہیںہے کہ جو شراب پئے اور خدا اسکی نماز چالیس روز تک قبول کرے، اگر وہ مر جائے اور اس کے مثانہ میں شراب کے آثار باقی ہوں تو جنت اس پر حرام ہوگی، اور اگر ان چالیس دنوں میںمر یگا تووہ جاہلیت کی موت مریگا۔
١٢٢٧۔ رسول خدا(ص): شراب بدکردار ی اور گناہ کبیرہ کا سرچشمہ ہے ۔
١٢٢٨۔ رسول خدا(ص): شراب، تمام گناہوں کو جمع کرنے والی ، خباثتوں کا سرچشمہ اور برائیوںکی کنجی ہے۔
١٢٢٩۔ رسول خدا(ص) :شراب خور، بت پرست کے مانند خدا سے ملاقات کریگا۔
١٢٣٠۔ رسول خدا(ص):شراب خور، بت پرست کے مانند ہے نیز شراب خور، لات و عزّٰی کی پرستش کرنے والے کے مانند ہے ۔
١٢٣١۔ رسول خدا(ص): جو شخص شب میں شراب پیتا ہے وہ صبح کو مشرک ہوتا ہے، اور جو صبح کو شراب پیتا ہے وہ شام تک مشرک ہوتا ہے۔
١٢٣٢۔ ابو ال حسن (ع): شراب خور کافر ہے ۔
١٢٣٣۔ امام صادق(ع): جو شراب پیتا ہے وہ اپنی عقل کو کھو دیتا اور روح ایمان اس سے نکل جاتی ہے ۔
جاہلیت کی طرف پلٹنے کے اسباب کی تحقیق
قرآن کریم اور احادیث میں عہد بعثت رسول ؐ کوعقل و علم کی حاکمیت کا زمانہ اورآپکی بعثت سے پہلے والے زمانہ کو عہد جاہلیت سے تعبیر کیا گیا ہے ، اسکی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ آنحضرت کی بعثت سے قبل آسمانی ادیان کی تحریف کے سبب لوگوںکے لئے حقائق ہستی کی معرفت اور صحیح زندگی گذارنے کا کوئی صحیح طریقہ نہیںتھا، اور وہ چیز جو دین کے نام پر لوگوں کی گردنوںپر ڈالی جارہی تھی اس میںتوہمات و خرافات کی آمیزش تھی ، تحریف شدہ ادیان کو مفاد پرست، موقع کو غنیمت سمجھنے والے، اور عوام سے جھوٹی ہمدردی کا اظہارکرنے والے افراد نے جو کہ ان کے دکھ درد کو محسوس نہیںکرتے تھے، اپنی حکومت اور منفعت کا وسیلہ قرار دے رکھا تھا۔
رسول خدا(ص) کی بعثت،دورِعلم کا آغاز تھا اور ان کی اہمترین ذمہ داری لوگوںکے لئے حقائق کو روشن کرنا اور انہیں صحیح زندگی کے اسلوب سے روشناس کرنا تھا، اورگذشتہ ادیان کی تحریف اور معاشرہ میں دین کے نام پر جو بدعتیں و خرافات ایحاد کی جا رہی تھیں ان کے مقابل میں نبرد آزما ہونے کا درس دینا تھا۔ رسول خدا خود کو لوگوں کے لئے مہربان و شفیق باپ اور ہمدرد معلم سمجھتے تھے اور فرماتے تھے۔
(أنالکم مثل الوالد أعلمکم)
یقینا میں تمہارے لئے باپ کے مثل ہوں ، تمہیں تعلیم دیتا ہوں۔
نبی اکرم ؐ خدا وند متعال کی جانب سے لوگوں کی صحیح زندگی کے طور طریقہ کو منظم کرنے کے لئے جو نبوت اور ضابطہ لیکر آئے تھے وہ عقلی میزان اور علمی معیار کے مطابق تھا کہ اگر علماء و دانشور اس کے حقائق کی چھان بین کریں تو مبدأ ہستی سے اس کے ارتباط کی صداقت ان کے لئے روز روشن کی طرح واضح ہو جائیگی:
(و یر ی الذین اوتوا العلم الذی انزل الیک من ربک ھو الحق و یھدی الیٰ صراط العزیز الحمید)
''اور جن لوگوں کو علم دیا گیا ہے وہ جانتے ہیں کہ جو کچھ آپ پر آپ کے پرروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے وہ بالکل حق ہے اور خدا ئے غالب و قابل حمد و ثنا کی طرف ہدایت کرنے والا ''
اس بنیاد پرآنحضرت لوگوںکو ان چیزوں کی پیروی سے شدت سے روکتے تھے کہ جن کے بارے میں وہ نہیں جاتے تھے ، اور ان کے سامنے اس آیت کی تلاوت فرماتے تھے:
(ولا تقف ما لیس لک بہ علم ان السمع و البصر و الفؤاد کل اولٰئک کان عنہ مسؤلا)
'' اور جس چیز کا تمہیں علم نہیںہے اس کے پیچھے مت جانا کہ روز قیامت سماعت، بصارت اور قوت قلب سب کے بارے میں سوال کیا جائیگا''
قرآن کی تنبیہہ
قرآن نے اسلام کے علمی و ثقافتی پیغامات کے تحفظ و دوام کی تاکیدہے اور مسلمانوں کو جوتنبیہہ کی ہے اس کے ذریعہ انہیں آگاہ کیا ہے کہ کہیں پیغمبر اکرم ؐ کے بعد عہد جاہلیت کی طرف نہ پلٹ جائیں، جیسا کہ ارشاد ہے:
(وما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل أفان مات او قتل انقلبتم علیٰ اعقابکم)
''اور محمد تو صرف ایک رسول ہیں جن سے پہلے بہت سے رسول گذر چکے ہیں کہ اگر وہ مر جائیں یا قتل ہو جائیں تو تم الٹے پیروں پلٹ جاؤ گے''۔
یہ اور سورئہ احزاب کی ٣٣ ویںآیت(ولا تبرجن تبرج الجاھلیۃ الاولیٰ)''اور وہ پہلی جاہلیت کا بناؤ سنگار نہیں کرینگی۔'' امام محمد باقر -کی تفسیر کے مطابق اس بات کو سمجھا رہی ہے کہ:(لیکون جاہلیۃ اخریٰ) عنقریب دوسری جاہلیت آنے والی ہے ۔
تاریخ اسلام میں جہل کی طرف پلٹنے کا ارشاد موجود ہے: یہاں تک کہ خود آنحضرت نے اس کے متعلق فرمایا ہے:
(بعثت بین جاھلیتین؛ لا خراھما شر من اولاھما)
میں دو جاہلیتوں کے درمیان مبعوث ہوا ہوں، دوسری جاہلیت پہلی سے بدتر ہے۔
پلٹنے کے اسباب
اہمترین مسئلہ، جاہلیت کی طرف پلٹنے کے اسباب کی شناخت ہے جس کو قرآن نے پیچھے کی طرف پلٹنے سے تعبیر کیا ہے۔ مجموعی طور پر پلٹنے کے اسباب کو دو حصوںمیں تقسیم کیا جا سکتا ہے ۔ فردی اور اجتماعی۔
الف: فردی اسباب
ہر وہ چیز جو کتاب ''علم و حکمت، قرآن و حدیث کی روشنی میں'' کے عنوان ''موانع علم و حکمت'' اور اسی کتاب میںعنوان'' آفات عقل''کے تحت ذکر ہو چکی ہے ، وہ معاشرہ کے افراد کے پہلی جاہلیت کی طرف پلٹنے کے اسباب میں شمار ہوتی ہے اور پیغمبر نے ان موانع سے مقابلہ کرنے کے لئے حد بندی کی تھی ، اور یہ عقلی آفات و موانع جس مقدار میں بھی کسی شخص میں موجود ہوںگے اسے اتنا ہی جاہلیت کی سرحد سے قریب تر کریں گے ، لیکن پلٹنے کے تمام فردی اسباب میں سے شراب خوری سے متعلق روایات کی طرف نہایت توجہ دی گئی ہے ، اور اس چیز کا سبب بعد کی روایات میں بیان ہوا ہے کہ شراب تمام برائیوں ، بدکرداریوں اور تمام خباثتوں کی کنجی ہے ، در حقیقت نشہ آور اشیاء اور عقل کو زائل کرنے والی چیزوںکی عادت ڈالنا انواع و اقسام کے موانع معرفت کی زمین کو ہموار کرتا ہے ،ا ور انسان کے لئے جاہلیت کے عقائد، اخلاق اور اعمال میں مبتلا ہونے کے باعث ہوتا ہے۔
ب: اجتماعی اسباب
جاہلیت کی طرف الٹے پاؤں پلٹنے کے اجتماعی اسباب و علل وہ آفات ہیں کہ جو اسلامی نظام کےلئے خطرہ بنے ہوئے ہیںاور ان میں نہایت واضح وہ اختلاف ہے کہ جسکے بارے میں پیغمبر فرماتے ہیں:
(ما اختلفت امۃ بعد نبیھا الا ظھر اھل باطلھا علٰی اھل حقھا)
کسی نبی کی امت نے اس کے بعد اختلاف نہیں کیا مگر یہ کہ اہل باطل اہل حق پر کامیاب ہو گئے۔
اور جاہلیت کی طرف پلٹنے کے اسباب و عوامل میں سے سب سے زیادہ خطرناک گمراہ اماموںکی قیادت تھی جیسا کہ رسول خدا(ص) کا ارشاد گرامی ہے:
(ان اخوف ما اخاف علی امتی الائمۃ المضلون)
سب سے زیادہ خوف جو مجھے اپنی امت کے بارے میں ہے وہ گمراہ کرنے والے پیشواؤں سے ہے۔
حدیث میں ہے کہ عمر بن خطاب نے کعب سے پوچھا:
انی اسئلک عن امر فلا تکتمنی،قال: لا واللہ لا اکتمک شیأا اعلمہ ؛ قال : ما اخوف شیء تخافہ علیٰ امۃ محمد ؐ؟ قال: ائمۃ مضلین ۔ قال عمر: صدقت قد اسرّ الیّ ذالک و اعلمنیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔
میں تم سے ایک مسئلہ پوچھنا چاہتاہوں ، تم اسے چھپا نا نہیں ، کعب نے کہا: خدا کی قسم ، جو کچھ میں جانتا ہوں اسے آپ سے نہیں چھپاؤنگا، عمر نے کہا: امت پیغمبر کے سلسلے میں سب سے زیادہ کس چیز سے ڈرتے ہو؟ کعب نے کہا: گمراہ کرنے والے پیشواؤں سے ، عمر نے کہا: سچ کہتے ہو، رسول خدا(ص) نے مجھ سے مخفیانہ طور پر فرمایا تھا۔
گمراہ پیشواؤں سے اسلام کو عظیم خطرہ لاحق تھا اور یہ مسلمانوں کوعصر جاہلیت کی طرف پلٹانے میں اس قدر مؤثر تھے کہ رسول خدا نے مسلمانوں کے درمیان متفق علیہ اور معتبر حدیث میں فرمایا:
''من مات بغیر امام ، مات میتۃ جاھلیۃ''
جو امام کے بغیر مرا اسکی موت جاہلیت کی ہوگی، اس کے معنی یہ ہیں کہ ائمہ عدل و حق کا وجود عصر علم کے دوام یعنی اسلام حقیقی کی بقا کا ضامن ہے ، اور اس قیادت و رہبری کے نہ ہونے کی صورت میں اسلامی معاشرہ دو بارہ پہلی جاہلیت کی طرف پلٹ جائیگا۔
یہ تلخ حقیقت تاریخ اسلام میں رونما ہوئی جس کے سبب آج نہ فقط اسلامی معاشرے بلکہ پورا عالم علوم تجربی میں تعجب خیز تر قیوں کے باجود دوسری جاہلیت سے دو چار ہے ۔
رسول خدا(ص) نے دنیا کے تمام انسانوں کو یہ خوشخبری دی کہ اس عہد کی بھی ایک انتہا ہے اور یہ اس وقت ہوگا، جب ان کی نسل کا چشم و چراغ ، مہدی آل ؐمحمد ظہور کریگا، اور جب وہ آئیگا تو اسکی ہدایت و رہبری کے سبب دنیا کی جاہلیت کا قصہ تمام ہوگا، بدعات و خرافات کا قلع قمع ہوگا، عدل و انصاف کا بول بالا ہوگا، فساد و تباہی کا خاتمہ ہوگا، دنیا کے چپہ چپہ پر حقیقی علم ضوفشاں ہوگا، اس کتاب کی آٹھویں فصل کو ہم نے ان ہی بشارتوں سے مخصوص کیاہے ۔ دعا ہے کہ ایران میں حیات اسلام کی تجدید اس بشارت کا پیش خیمہ ہو۔
آٹھویں فصل
جاہلیت کا خاتمہ
١٢٣٤۔ رسول خدا(ص): نے ائمہ ٪کے سلسلہ میںفرمایا: ان کا نواں قائم ہے کہ خدا جس کے وسیلہ سے زمین کو ظلمت و تاریکی کے بعد نور سے ، ظلم و جور کے بعد عدل و انصاف سے۔ جہل و نادانی کے بعد علم سے بھر دیگا۔
١٢٣٥۔ امام علی (ع):نے پیشینگوئیوں اور فتنوں کے ذکر کے بعد فرمایا: ایسا ہی ہوگا، یہاں تک کہ زمانہ کی سختیوں اور لوگوں کی نادانیوں کے وقت خدا آخری زمانہ میں ایک ایسے شخص کو بھیجے گا کہ جس کی حمایت اپنے فرشتوںکے ذریعہ کریگا، اس کے یاورو انصار کو محفوظ رکھے گا، اپنی آیات سے اسکی مدد کریگا، اور اسے تمام اہل زمین پر کامیابی عطا کریگا تاکہ لوگ بادل خواستہ یا بادل نخواستہ دیندار ہو جائیں۔ اور وہ زمین کو انصاف و علم اور نورو برہان سے بھردیگا ، زمین اپنی تمام وسعتوں( عرض و طول) کے ساتھ اسکی فرمانبردار ہوگی، کوئی کافر نہ ہوگا مگر یہ کہ ایمان لے آئے کوئی بدکردار نہ ہوگا مگر یہ کہ صالح و نیک ہو جائے۔ درندے اسکی حکومت میں مہربان ہوں گے۔ زمین اپنی روئیدگی کو آشکار کریگی، آسمان اپنی بر کتیں نازل کریگا، خزانے اس کے لئے ظاہر ہوں گے ، اور وہ چالیس سال زمین و آسمان کے درمیان حکومت کریگا، خوشابحال وہ شخص جو اس کے زمانے کو دیکھے گا اور اس کے کلام کو سنے گا۔
١٢٣٦۔ امام علی (ع): نے اس خطبہ میں جس میں زمانہ کے حوادث اور پیشینگوئیوںکی طرف اشارہ کیا ہے فرمایا: ان لوگوں نے گمراہی کے راستوں پر چلنے اور ہدایت کے راستوںکو چھوڑ نے کے لئے داہنے بائیں راستے اختیار کر لئے ہیںمگر تم اس امر میں جلدی نہ کرو جو بہر حال ہونے والا ہے اور جس کا انتظام کیا جا رہا ہے اور اسے دور نہ سمجھو جو کل آنے والا ہے کہ کتنے ہی جلدی کے طلبگار جب مقصد کو پالیتے ہیں تو سوچتے ہیںکاش اسے حاصل نہ کرتے۔ آج کادن کل کے سویرے سے کس قدر قریب ہے ۔ لوگو! یہ ہر وعدہ کے ورود اور ہراس چیز کے ظہور کی قربت کا وقت ہے جسے تم نہیں ۔ پہچانتے ہو۔ لہذا جو شخص بھی ان حالات تک باقی رہ جائے اس کا فرض ہے کہ روشن چراغ کے سہارے قدم آگے بڑھائے اور صالحین کے نقش قدم پر چلے تاکہ ہر گرہ کو کھول سکے اور ہر غلامی سے آزادی حاصل کر سکے ، ہرگروہ کوبوقت ضرورت منتشر کر سکے اور ہر انتشار کو جمع کر سکے اور لوگوں سے یوں مخفی رہے کہ قیافہ شناس بھی اس کے نقش قدم کو تاحد نظر نہ پاسکیں۔ اس کے بعد ایک قوم پر اس طرح صیقل کی جائیگی کہ جس طرح لوہار تلوار کی دھار پر صیقل کرتا ہے ۔ ان لوگوںکی آنکھوں کو قرآن کے ذریعہ روشن کیا جائیگا، اور ان کے کانوں میں تفسیر کو مسلسل پہنچایا جائیگا اور انہیں صبح و شام حکمت کے جاموں سے سیراب کیا جائیگا!
١٢٣٧۔ امام باقر(ع): جب ہمارا قائم ، قیام کریگا تو خدااپنے ہاتھ کو بندوںکے سروںپر رکھیگا جس کے سبب ان کی عقلیں اکٹھا ہو جائیں گی اور ان کی خرد کامل ہو جائے گی۔
١٢٣٨۔ فضیل بن یسار: کا بیان ہے کہ میں نے امام صادق(ع) کو فرماتے ہوئے سنا ہے : جب ہمارا قائم ، قیام کریگا اس کو لوگوں کی جہالت کا سامنا اس سے زیادہ کرنا ہوگا کہ جتنا رسول کو جاہلیت کے جاہلوں کا سامنا کرناپڑا تھا۔ میںنے کہا: وہ کس طرح؟ فرمایاؑ: بیشک رسول خدا(ص) جب لوگوںکے درمیان تشریف لائے تھے۔
اس وقت وہ لوگ پتھروں، چٹانوں اور تراشی ہوئی لکڑیوں کی پرستش کرتے تھے، لیکن جب ہمارا قائم قیام کریگا اور ان کے پاس آئیگا تو وہ سب کے سب کتاب خدا کی تاویل کریں گے اور اسی کے ذریعہ ان پر احتجاج کریں گے ، پھر فرمایا: لیکن خدا کی قسم، وہ اپنے عدل و انصاف کو ان کے گھروں میں اس طرح داخل کریگا کہ جس طرح ان کے گھروں میں سردی و گرمی داخل ہوتی ہے ۔
١٢٣٩۔ امام صادق(ع): علم ستائیس (٢٧) حروف کے مجموعہ کا نام ہے ۔ وہ تمام علوم جو انبیاء لیکر آئے وہ فقط دو حرف تھے اور لوگ اب تک ان دو حرف کے سوا اور کچھ نہیں جانتے ، لیکن جب قائم قیام کریگا تو دوسرے پچیس حروف کو ظاہر کریگا اور لوگوں کے درمیان ان کی اشاعت کریگا، اور ان دو حروف کو بھی انہیںکے ساتھ ضمیمہ کریگا یہاں تک کہ وہ علم کو ستائیس حروف پر مشتمل کر دیگا۔
١٢٤٠۔ امام صادق(ع) : نے جب کوفہ کا ذکر کیا تو فرمایا: عنقریب کو فہ مومنوں سے خالی ہو جائیگا اور علم وہاں سے ایسے نکل جائیگا جیسے سوراخ سے سانپ نکل جاتا ہے ، پھراس شہر میںظاہر ہوگا جسے قم کہا جاتا ہے ، جو علم و فضیلت کا سر چشمہ ہوگا، روئے زمین پر دین کے اعتبار سے کوئی ناتواں و کمزور باقی نہ ہوگا حتی کہ حجلہ نشین عورتیں بھی ، اورا یسا اس وقت ہوگا جب ہمارے قائم کا ظہور نزدیک ہوگا پھر خدا قم اور اہل قم کو حجت کا جانشین قرار دیگا، اگر ایسا نہ ہوگا تو زمین اپنے اہل کے ساتھ دھنس جائیگی۔
اور زمین پر کوئی حجت باقی نہ رہیگی، پھر علم شہر قم سے مشرق و مغرب کے تمام شہروں میںپھیلیگا تاکہ خلق پر خدا کی حجت تمام ہو جائے اور زمین پر کوئی ایسا باقی نہ رہیگا کہ جس تک دین اور علم نہ پہنچا ہو، اس کے بعد قائم ؑ ظاہر ہوگا اور بندوں پر خدا کی ناراضگی و غضب کاوسیلہ ہوگا، اس لئے کہ خدا اپنے بندوں سے انتقام نہیںلیگا مگر یہ کہ وہ لوگ حجت کے منکر ہو جائیں۔
١٢٤١۔ سید ابن طاؤوس: کا بیان ہیکہ زیارت امام زمانہ - میں ہے: خدایا! محمد اور اہلبیت محمد(ص) پر درود بھیج، اور ہمیں ہمارے سردار، ہمارے آقا، ہمارے امام ، ہمارے مولا صاحب الزمان کا دیدار کرادے، وہ ہی زمانہ کے لوگوں کے لئے پناہگاہ اور ہمارے زمانہ کے افراد کو نجات دینے والے ہیں، ان کی گفتار آشکار اور رہنمائی روشن ہے، وہ ضلالت و گمراہی سے ہدایت دینے والے اور جہالت ونادانی سے نجات دینے والے ہیں۔
خدایا!میں اپنی جہالت و نادانی کے سبب تجھ سے معذرت چاتا ہوں۔
بار الٰہا! میں اپنی نادانی کے باعث تیری پناہ چاہتا ہوں۔
پروردگارا!! میری لغزش ، خطا، میری نادانی اور کاموں میں مجھے میرے اسراف سے بخش دے اور ان چیزوں کو معاف کر دے کہ جن کو تو مجھ سے بہتر جانتا ہے۔
خدایا! محمد و آل محمدپردرود بھیج اور ان کے قائم کے ظہور میں تعجیل فرما، اور ان کے سبب زمین کو اسکی ظلمت و تاریکی کے بعد نور سے اور جہالت کے بعد علم سے بھر دے ، اور ہمیں عقلِ کامل ، عزم محکم، قلب پاکیزہ، علم کثیر اور اچھے ادب کی توفیق عطا فرما اور ان سب کو ہمارے لئے مفید قرار دے اور ہمارے لئے مضر قرار نہ دے۔
بار الٰہا! محمد اور ان کی آل پاک پر درود بھیج ، اور اے برائیوں کو نیکیوںمیں تبدیل کرنے والے اپنے فضل و رحمت کے سبب ہماری اس کوشش کو قبول فرما، اے ارحم الراحمین۔
|