مناسك حج
ولى امر مسلمين و مرجع تقليد
حضرت آيت اللہ العظمى سيد على خامنہ اى (دام ظلہ الوارف)

مترجم:
معارف اسلام پبلشرز
-----------------
4
نام كتاب :مناسك حج
مترجم : معارف اسلام پبلشرز
ناشر :نور مطاف
اشاعت :پہلى
سنہ اشاعت : رمضان المبارك 1427 ھ_ق
تعداد :دوہزار
Web : www.maaref-foundation.com
E-mail: info@maaref-foundation.com
جملہ حقوق طبع بحق معارف اسلام پبلشرز محفوظ ہيں _
-----------------------------
5
و اذن فى الناس بالحج يا توك رجالا و على
كل ضامر يا تين من كل حج عميق
(سورہ حج آيت 27)
حج بيت اللہ كے باعظمت اعمال مختلف پہلوؤں سے قابل توجہ ہيں_ خاص طور پر ان كا عبادى پہلو خصوصى ظرافت كا حامل ہے چنانچہ حجاج كرام اعمال حج كو شروع سے آخر تك مراجع عظام كے فتاوى كے مطابق انجام دينے كو بڑى اہميت ديتے ہيں_يہ كتاب جو قارئين محترم كے ہاتھوں ميں ہے يہ مناسك حج كے سلسلے ميں رہبر انقلا ب حضرت آيت اللہ العظمى خامنہ اى (دام ظلہ) كے جديد ترين فتاوى كا ترجمہ ہے_
ہمارى دعا ہے كہ اسكے ترجمے اور تصحيح و غيرہ كے سلسلے ميں جن لوگوں
----------------
6
نے زحمات اٹھائي ہيں خدا تعالى انہيں اجر جزيل عطا فرمائے اور ہم راہبر معظم كے دفتر كے بھى شكر گزار ہيں جنہوں نے اس سلسلے ميں ہمارى مدد كى _
آخر ميں خدا تعالى كے تہ دل سے شكرگزار ہيں كہ اس نے ہميں اس گرانبہا كام كوانجام دينے كيلئے توفيق عظيم عنايت فرمائي_
اللہم عجل لوليك الفرج واجعلنا من اعوانہ و انصارہ

معارف اسلام پبلشرز
رمضان المبارك 1427
---------------
7

مقدمہ:
شرعاً حج سے مراد خاص اعمال كا مجموعہ ہے اور يہ ان اركان ميں سے ايك ركن ہے كہ جن پر اسلام كى بنياد ركھى گئي ہے جيسا كہ امام محمدباقر (ع) سے روايت ہے : '' بنى الاسلام على خمس على الصلوة و الزكاة و الصوم و الحج و الولاية'' اسلام كى بنياد پانچ چيزوں پر ركھى گئي ہے نماز ، زكات ، روزہ ، حج اور ولايت پر _
حج چاہے واجب ہو چاہے مستحب بہت بڑى فضيلت اور كثير اجر ركھتا ہے اور اسكى فضيلت كے بارے ميں پيغمبر اكرم (ص) اور اہل بيت (عليہم السلام) سے كثير روايات وارد ہوئي ہيں چنانچہ امام صادق (ع) سے روايت ہے:
''الحاج والمعتمر وفد اللہ ان سا لوہ اعطاہم وان
-------------
8
دعوہ اجابہم و ان شفعوا شفعہم و ان سكتوا ابتدا ہم و يعوضون بالدرہم الف الف درہم ''
حج اور عمرہ كرنے والے اللہ كا گروہ ہيں اگر اللہ سے سوال كريں تو انہيں عطا كرتاہے اور اسے پكاريں تو انہيں جواب ديتاہے، اگر شفاعت كريں تو انكى شفاعت كو قبول كرتاہے اگرچھپ رہيں تو از خود اقدام كرتاہے اور انہيںايك درہم كے بدلے دس لاكھ درہم ديئے جاتے ہيں_

وجوب حج كے منكر اور تارك حج كا حكم
حج كا وجوب كتاب و سنت كے ساتھ ثابت ہے اور يہ ضروريات دين ميںسے ہے اور جس بندے ميںاسكى آئندہ بيان ہونے والى شرائط كامل ہوں اور اسے اسكے وجوب كا بھى علم ہو اس كا اسے انجام نہ دينا كبيرہ گناہ ہے_
---------
9
اللہ تعالى اپنى محكم كتاب ميں فرماتا ہے:
''وللہ على الناس حج البيت من استطاع اليہ سبيلا و من كفر فان اللہ غنى عن العالمين''
اور لوگوں پر واجب ہے كہ محض خدا كيلئے خانہ كعبہ كا حج كريں جنہيں وہاں تك پہنچنے كى استطاعت (قدرت) ہو اور جس نے با وجود قدرت حج سے انكار كيا تو ( ياد ركھئے كہ ) خدا سارے جہان سے بے پروا ہے_
اور امام صادق سے روايت ہے :
جو شخص دنيا سے اس حال ميں چل بسے كہ اس نے حجةا لاسلام انجام نہ ديا ہو جبكہ كوئي حاجت اس كيلئے مانع نہ ہو يا ايسى بيمارى ميں بھى مبتلا نہ ہو جسكے ساتھ حج كى طاقت نہ ركھتا ہو اور كوئي حاكم ركاوٹ نہ بنے تو وہ يہودى يا نصرانى ہوكر مرے_

حج كى اقسام:
جو حج مكلف انجام ديتا ہے يا تو اسے اپنى طرف سے انجا م ديتا ہے يا
----------------
10
كسى اور كى طرف سے _اس دوسرے كو ''نيابتى حج '' كہتے ہيں اور پہلا يا واجب ہے يا مستحب اور واجب حج يا بذات خود شريعت ميں واجب ہوتا ہے تو اسے ''حجة الاسلام'' كہتے ہيں اور يا كسى اور سبب كى وجہ سے واجب ہوتا ہے جيسے نذر كرنے كى وجہ سے يا حج كو فاسد كردينے كى وجہ سے _
اور حجة الاسلام اورنيابتى حج ميں سے ہر ايك كى اپنى اپنى شرائط اور احكام ہيں كہ جنہيں ہم پہلے باب ميں دو فصلوں كے ضمن ميں ذكر كريںگے_
نيز حج كى تين قسميں ہيں تمتع ، افراد ، قران
حج تمتع ان لوگوں كا فريضہ ہے كہ جن كا وطن مكہ مكرمہ سے اڑتاليس ميل تقريباً نوے كيلوميٹر دور ہے اور حج افراد اور قران ان لوگوں كا فريضہ ہے كہ جن كا وطن يا تو خود مكہ ہے يا مذكورہ مسافت سے كم فاصلے پر اور حج تمتع ، حج قران و افراد سے بعض اعمال و مناسك كے اعتبار سے مختلف ہے اور اسے ہم دوسرے باب ميں چند فصول كے ضمن ميں بيان كريں گے_
----------------------
11

باب اول:
حَجة الاسلام اورنيابتى حج كے بارے ميں
----------------
12

فصل اول : حجة الاسلام
مسا لہ 1_ جو شخص حج كى استطاعت ركھتا ہو اس پر اصل شريعت كے اعتبار سے پورى عمر ميں صرف ايك مرتبہ حج واجب ہوتا ہے اوراسے ''حجة الاسلام'' كہا جاتا ہے_
مسا لہ 2_ حجة الاسلام كا وجوب فورى ہے يعنى جس سال استطاعت حاصل ہوجائے اسى سال حج پر جانا واجب ہے اور كسى عذر كے بغير مؤخر كرنا جائز نہيں ہے اور اگر اسے مؤخر كرے تو گناہ گار ہے اور حج اسكے ذمے ثابت ہوجائيگا اور اسے آئندہ سال انجام دينا واجب ہے و على ہذا القياس_
----------
13
مسا لہ3_ اگر استطاعت والے سال حج كوانجام دينا بعض مقدمات پر موقوف ہو _جيسے سفر كرنا اور حج كے وسائل و اسباب كو مہيا كرنا_ تو اس پر واجب ہے كہ ان مقدمات كو حاصل كرنے كيلئے اس طرح مبادرت سے كام لے كہ اسے اسى سال حج كو پالينے كا اطمينان ہو_
اور اگر اس ميں كوتاہى كرے اور حج كو بجا نہ لائے تو گناہ گار ہے اور حج اسكے ذمے ميں ثابت اور مستقر ہو جائيگا اور اس پر اسے بجا لانا واجب ہے اگر چہ استطاعت باقى نہ رہے_

حجة الاسلام كے وجوب كے شرائط
حجة الاسلام مندرجہ ذيل شرائط كے ساتھ واجب ہوتا ہے:

پہلى شرط :
عقل پس مجنون پر حج واجب نہيں ہوتا_
------------------
14

دوسرى شرط:
بلوغ پس نابالغ پر حج واجب نہيں ہوتا اگر چہ وہ بلوغ كے قريب ہو اور اگر نابالغ بچہ حج بجا لائے تو اگر چہ اس كا حج صحيح ہے ليكن يہ حجة الاسلام سے كافى نہيں ہے_
مسا لہ 4:اگر بچہ احرام باندھ كر مشعر ميں وقوف كو بالغ ہونے كى حالت ميں پالے اور حج كى استطاعت بھى ركھتاہو تو اس كا يہ حج حجة الاسلام سے كافى ہے_
مسا لہ5: وہ بچہ جواحرام باندھے ہوئے ہے اگر محرمات ( جو كام احرام كى حالت ميں حرام ہيں ) ميں سے كسى كام كاارتكاب كرے تو اگر وہ كام شكار ہو تو اس كا كفارہ اسكے ولى پر ہوگا اور اسكے علاوہ ديگر كفارات تو ظاہر يہ ہے كہ وہ نہ تو ولى پر واجب ہيں اور نہ ہى بچے كے مال ميں :
مسا لہ 6: بچے كے حج ميں قربانى كى قيمت اسكے ولى پر ہے_
مسا لہ 7: واجب حج ميں شوہر كى اجازت شرط نہيں ہے پس بيوى پر حج
-----------
15
واجب ہے اگر چہ شوہر سفر حج پر راضى نہ ہو _
مسا لہ 8_ مستطيع شخص سے حجة الاسلام كے صحيح ہونے ميں والدين كى اجازت شرط نہيں ہے _

تيسرى شرط :
استطاعت اور يہ مندرجہ ذيل امور پر مشتمل ہے_
الف : مالى استطاعت
ب : جسمانى استطاعت
ج : سربى استطاعت (راستے كا با امن اور كھلا ہونا)
د : زمانى استطاعت

ہر ايك كى تفصيل

الف : مالى استطاعت :

يہ متعدد امور پر مشتمل ہے_
---------------
16
1_ زاد و راحلہ
2_ سفر كى مدت ميں اپنے اہل و عيال كے اخراجات
3_ ضروريات زندگي
4_ رجوع الى الكفاية
مندرجہ ذيل مسائل كے ضمن ميں انكى تفصيل بيان كرتے ہيں:

1_ زاد و راحلہ
زاد سے مراد ہر وہ شے ہے كہ جسكى سفر ميں ضرورت ہوتى ہے جيسے كھانے پينے كى چيزيں اور اس سفر كى ديگر ضروريات اور راحلہ سے مراد ايسى سوارى ہے كہ جسكے ذريعے سفر طے كيا جا سكے _
مسا لہ 9_ جس شخص كے پاس نہ زاد و راحلہ ہے اور نہ انہيں حاصل كرنے كيلئے رقم اس پر حج واجب نہيں ہے اگر چہ وہ كما كر يا كسى اور ذريعے سے انہيں حاصل كرسكتا ہو _
--------
17
مسا لہ 10_ اگر پلٹنے كا ارادہ ركھتا ہو تو شرط ہے كہ اسكے پاس اپنے وطن يا كسى دوسرى منزل مقصود تك واپس پلٹنے كے اخراجات ہوں_
مسا لہ 11_ اگر اسكے پاس حج كے اخراجات نہ ہوں ليكن اس نے حج كے اخراجات يا انكى تكميل كى مقداركے برابر كسى شخص سے قرض واپس لينا ہواورقرض حال ہو يا اسكى ادائيگى كا وقت آچكا ہو اور مقروض مالدارہو اور قرض خواہ كيلئے قرض كا مطالبہ كرنے ميں كوئي حرج بھى نہ ہو تو قرض كا مطالبہ كرنا واجب ہے _
مسا لہ 12_ اگر عورت كا مہر اسكے شوہر كے ذمے ميں ہو اور وہ اسكے حج كے اخراجات كيلئے كافى ہو تو اگر شوہر تنگدست ہو تو يہ اس سے مہر كا مطالبہ نہيں كر سكتى اور مستطيع بھى نہيں ہوگى ليكن اگر شوہر مالدار ہے اور مہر كا مطالبہ كرنے ميں عورت كا كوئي نقصان بھى نہ ہو تو اس پر مہر كا مطالبہ كرنا واجب ہے تا كہ اسكے ساتھ حج كر سكے ليكن اگر مہر كا مطالبہ كرنے ميں عورت كا كوئي نقصان ہو مثلاً يہ لڑائي جھگڑے اور طلاق تك منتج ہو تو عورت پر مطالبہ كرنا واجب نہيں ہے اور عورت مستطيع بھى نہيں ہو گى _
---------
18
مسا لہ 13_ جس شخص كے پاس حج كے اخراجات نہيں ہيں ليكن وہ قرض ليكر اسے آسانى سے ادا كر سكتا ہو تو اس پر واجب نہيں ہے كہ وہ قرض ليكر اپنے آپ كو مستطيع بنائے ليكن اگر قرض لے لے تو اس پر حج واجب ہو جائيگا_
مسا لہ 14_ جو شخص مقروض ہے اور اسكے پاس حج كے اخراجات سے اتنا اضافى مال نہ ہو كہ جس سے وہ اپنا قرض ادا كر سكے تو اگر قرض كى ادائيگى كا وقت مخصوص ہو اور اسے اطمينان ہے كہ وہ ا س وقت اپنے قرض كو ادا كرنے پر قادر ہوگا تو اس پر واجب ہے كہ انہيں اخراجات كے ساتھ حج بجا لائے _
اور يہى حكم ہے اگر قرض كى ادائيگى كا وقت آچكا ہو ليكن قرض خواہ اسے مؤخر كرنے پر راضى ہو اور مقروض كو اطمينان ہو كہ جب قرض خواہ مطالبہ كريگا اس وقت يہ قرض كى ادائيگى پر قادر ہوگااور مذكورہ دو صورتوں كے علاوہ اس پر حج واجب نہيں ہے_
مسئلہ 15_ جس شخص كو شادى كرنے كى ضرورت ہے اس طرح كہ اگر
---------
19
شادى نہ كرے تو اسے مشقت ياحرج كا سامنا ہوگا اور اس كيلئے شادى كرنا ممكن بھى ہو تو اس پر حج واجب نہيں ہوگا مگر يہ كہ اس كے پاس حج كے اخراجات كے علاوہ شادى كرنے كا انتظام بھى ہو _
مسئلہ 16_ اگر استطاعت والے سال ميں اسے سفر حج كيلئے سوارى نہ ملتى ہو مگر اسكى رائج اجرت سے زيادہ كے ساتھ تو اگر يہ شخص زائد مال دينے پر قادر ہو اور يہ اس كے حق ميں زيادتى بھى نہ ہو تو اس پر اس زائدمال كا دينا واجب ہے تا كہ حج بجالا سكے پس صرف مہنگائي اور كرائے كا بڑھ جانا استطاعت كيلئے مضر نہيں ہے _ ليكن اگر يہ زائد مال كے دينے پر قادر نہيں ہے يا يہ اسكے حق ميں زيادتى ہو تو واجب نہيں ہے اور يہ مستطيع بھى نہيں ہوگا اور يہى حكم ہے سفر حج كى ديگر ضروريات كے خريدنے يا انكے كرائے پر لينے كا نيز يہى حكم ہے اگر يہ حج كے اخراجات كيلئے كوئي چيز بيچنا چاہتا ہے ليكن اسے خريدار صرف وہ ملتا ہے جو اسے اسكى رائج قيمت سے كم پر خريد تا ہے _
مسئلہ 17_ اگر كوئي شخص يہ سمجھتا ہو كہ اگر وہ اپنى موجودہ مالى حيثيت كے
--------
20
ساتھ حج پر جانا چاہے تو وہ اس طرح حج كيلئے استطاعت نہيں ركھتا جيسے ديگر لوگ حج بجالاتے ہيں ليكن اسے احتمال ہے كہ تلاش و جستجو كرنے سے اسے ايسا راستہ مل جائيگا كہ يہ اپنى موجودہ مالى حيثيت كے ساتھ حج كيلئے مستطيع ہو جائيگا تو اس پر تلاش و جستجو كرنا واجب نہيں ہے كيونكہ استطاعت كا معيار يہ ہے كہ يہ حج كيلئے اسى طرح استطاعت ركھتا ہوجو ديگر لوگوں كيلئے متعارف ہے _
ہاں ظاہر يہ ہے كہ اگر اسے اپنے مستطيع ہونے ميں شك ہو اور جاننا چاہتا ہو كہ استطاعت ہے يا نہيں تو اس پر واجب ہے كہ اپنى مالى حيثيت كے بارے ميں جستجو كرے

2_ سفر كى مدت ميں اپنے اہل و عيال كے اخراجات
مسئلہ18_ مالى استطاعت ميں يہ شرط ہے كہ يہ حج سے واپس آنے تك اپنے اہل و عيال كے اخراجات ركھتا ہو
-----------
21
مسئلہ 19_ اہل و عيال _ كہ مالى استطاعت ميں جنكے اخراجات كا موجود ہونا شرط ہے _سے مراد وہ لوگ ہيں كہ جنہيں عرف عام ميں اہل و عيال شمار كيا جاتا ہے اگر چہ شرعاً اس پر ان كا خرچہ واجب نہ بھى ہو _

3_ ضروريات زندگي:
مسئلہ 20_ شرط ہے كہ اسكے پاس ضروريات زندگى اور وہ چيزيں ہوں كہ جنكى اسے عرفاً اپنى حيثيت كے مطابق زندگى بسر كرنے كيلئے احتياج ہے البتہ يہ شرط نہيں ہے كہ بعينہ وہ چيزيںاس كے پاس موجود ہوں بلكہ كافى ہے كہ اس كے پاس رقم و غيرہ ہو كہ جسے اپنى ضروريات زندگى ميں خرچ كرنا ممكن ہو _
مسئلہ 21_ عرف عام ميں لوگوں كى حيثيت مختلف ہوتى ہے چنانچہ رہائشے كيلئے گھر كا مالك ہونا جسكى ضروريات زندگى ميں سے ہے يا يہ عرف ميں اسكى حيثيت كے مطابق ہے يا كرائے كے ، يا عاريہ پر ليئے ہوئے يا
-----------
22
موقوفہ گھر ميں رہنا اس كيلئے حرج يا سبكى كا باعث ہو تو اسكے لئے استطاعت كے ثابت ہونے كيلئے گھر كا مالك ہونا شرط ہے _
مسئلہ 22_ اگر حج كيلئے كافى مال ركھتا ہوليكن اسے اسكى ايسى لازمى احتياج ہے كہ جس ميں اسے خرچ كرنا چاہتا ہے جيسے گھر مہيا كرنا يا بيمارى كا علاج كرانا يا ضروريات زندگى كو فراہم كرناتو يہ مستطيع نہيں ہے اور اس پر حج واجب نہيں ہے_
مسلئہ 23_ يہ شرط نہيں ہے كہ مكلف كے پاس خود زاد و راحلہ ہوں بلكہ كافى ہے كہ اس كے پاس اتنى رقم و غيرہ ہو كہ جسے زاد و راحلہ ميں خرچ كرنا ممكن ہو _
مسئلہ 24_ اگر كسى شخص كے پاس ضروريات زندگى _گھر ، گھريلو سامان ، سوارى ، آلات صنعت و غيرہ _ كى ايسى چيزيں ہيں جو قيمت كے لحاظ سے اسكى حيثيت سے بالاتر ہيں چنانچہ اگر يہ كر سكتا ہو كہ انہيں بيچ كر انكى قيمت كے كچھ حصے سے اپنى ضروريات زندگى خريد لے اور باقى قيمت كو حج كيلئے
--------------
23
خرچ كرے اور اس ميں اسكے لئے حرج ، كمى يا سبكى بھى نہ ہو اور قيمت كا فرق حج كے اخراجات يا انكى تكميل كى مقدار ہو تو اس پر ايسا كرنا واجب ہے اور يہ مستطيع شمار ہوگا _
مسئلہ 25_ اگر مكلف اپنى زمين يا كوئي اور چيز فروخت كرے تا كہ اسكى قيمت كے ساتھ گھر خريدے تو اگر اسے گھر كے مالك ہونے كى ضرورت ہو يا يہ عرف كے لحاظ سے اسكى حيثيت كے مطابق ہو تو زمين كى قيمت وصول كرنے سے يہ مستطيع نہيں ہو گا اگر چہ وہ حج كے اخراجات يا انكى تكميل كى مقدار ہو_
مسئلہ 26_ جس شخص كو اپنى بعض مملوكہ چيزوں كى ضرورت نہ رہے مثلا اسے اپنى كتابوں كى ضرورت نہ رہے اور ان كى قيمت سے مالى استطاعت مكمل ہوتى ہو يا يہ مالى استطاعت كيلئے كافى ہو تو ديگر شرائط كے موجود ہونے كى صورت ميں اس پر حج واجب ہے_
----------------
24

4_ رجوع الى الكفاية:
مسئلہ 27_ مالى استطاعت ميں '' رجوع الى الكفاية'' شرط ہے ( مخفى نہ رہے كہ يہ شرط حج بذلى ميں ضرورى نہيں ہے جيسا كہ اسكى تفصيل عنقريب آجائيگى )اور اس سے مراد يہ ہے كہ حج سے پلٹنے كے بعد اسكے پاس ايسى تجارت ، زراعت ، صنعت ، ملازمت ، يا باغ ، دكان و غيرہ جيسے ذرائع آمدنى كى منفعت ہو كہ جنكى آمدنى عرف ميں اسكى حيثيت كے مطابق اسكے اور اسكے اہل و عيال كے معاش كيلئے كافى ہو اور اس سلسلے ميں دينى علوم كے طلاب( خدا تعالى ان كا حامى ہو ) كيلئے كافى ہے كہ پلٹنے كے بعد انہيں وہ وظيفہ ديا جائے جو حوزات علميہ ( خدا تعالى انكى حفاظت كرے) ميں انكے درميان تقسيم كيا جاتا ہے_
مسئلہ 28_ عورت كيلئے بھى رجوع الى الكفاية شرط ہے بنابراين اگر اس كا شوہر ہو اور يہ اسكى زندگى ميں حج كى استطاعت ركھتى ہو تو اس كيلئے ''رجوع الى الكفاية'' وہ نفقہ ہے جسكى وہ اپنے شوہر كے ذمے ميں مالك
--------
25
ہے ليكن اگر اس كا شوہر نہيں ہے تو حج كيلئے اسكے مستطيع ہونے كيلئے مخارج حج كےساتھ ساتھ شرط ہے كہ اسكے پاس ايسا ذريعہ آمدنى ہو جواسكى حيثيت كے مطابق اسكى زندگى كيلئے كافى ہو ورنہ يہ حج كيلئے مستطيع نہيں ہوگى _
مسئلہ 29_ جس شخص كے پاس زاد و راحلہ نہ ہو ليكن كوئي اور شخص اسے دے اور اسے يوں كہے تو ''حج بجالا اور تيرا اور تيرے اہل و عيال كا خرچہ مير ے ذمے ہے ''تو اس پر حج واجب ہے اور اس پر اسے قبول كرنا واجب ہے اور اس حج كو حج بذلى كہتے ہيں اور اس ميں '' رجوع الى الكفايہ '' شرط نہيں ہے نيز خود زاد و راحلہ كا دينا ضرورى نہيں ہے بلكہ قيمت كا دينا بھى كافى ہے _
ليكن اگراسے حج كيلئے مال نہ دے بلكہ صرف اسے مال ہبہ كرے تو اگر وہ ہبہ كو قبول كرلے تو اس پر حج واجب ہے ليكن اس پر اس مال كو قبول كرنا واجب نہيں ہے پس اس كيلئے جائز ہے كہ اسے قبول نہ كرے اور اپنے آپ كو مستطيع نہ بنائے_
------
26
مسئلہ 30_ حج بذلى ، حجة الاسلام سے كافى ہے اور اگر اسكے بعد مستطيع ہوجائے تو دوبارہ حج واجب نہيں ہے_
مسئلہ 31_ جس شخص كو كسى ادارے يا شخص كى طرف سے حج پر جانے كى دعوت دى جاتى ہے تو اگر اس دعوت كے مقابلے ميں اس پركسى كام كو انجام دينے كى شرط لگائي جائے تو اسكے حج پر حج بذلى كا عنوان صدق نہيں كرتا_

مالى استطاعت كے عمومى مسائل
مسئلہ 32_جس وقت حج پر جانے كيلئے مال خرچ كرنا واجب ہوتا ہے اسكے آنے كے بعد مستطيع كيلئے اپنے آپ كو استطاعت سے خارج كرنا جائز نہيں ہے بلكہ احوط وجوبى يہ ہے كہ اس وقت سے پہلے بھى اپنے آپ كو استطاعت سے خارج نہ كرے _
مسئلہ 33_ مالى استطاعت ميں شرط نہيں ہے كہ وہ مكلف كے شہر ميں
----------
27
حاصل ہو بلكہ اس كا ميقات ميں حاصل ہو جانا كافى ہے پس جو شخص ميقات تك پہنچ كر مستطيع ہو جائے اس پرحج واجب ہے اور يہ حجة الاسلام سے كافى ہے _
مسئلہ 34_ مالى استطاعت اس شخص كيلئے بھى شرط ہے جو ميقات تك پہنچ كر حج پر قادر ہو جائے پس جو شخص ميقات تك پہنچ كر حج پر قادر ہو جائے جيسے قافلوں ميں كام كرنے والے و غيرہ تو اگر ان ميں استطاعت كى ديگر شرائط بھى ہوں جيسے اہل و عيال كا نفقہ ، ضروريات زندگى اور اسكى حيثيت كے مطابق جن چيزوں كى اسے اپنى زندگى ميں احتياج ہوتى ہے اور ''رجوع الى الكفاية'' تو اس پر حج واجب ہے اور يہ حجة الاسلام سے كافى ہے ورنہ اس كا حج مستحبى ہو گا اور اگر بعد ميں استطاعت حاصل ہوجائے تو اس پر حجة الاسلام واجب ہو گا _
مسئلہ 35_اگركسى شخص كو حج كے راستے ميں خدمت كيلئے اتنى اجرت كے ساتھ اجير بنايا جائے كہ جس سے وہ مستطيع ہو جائے تو اجارے كو قبول
---------------
28
كرنے كے بعد اس پر حج واجب ہے البتہ يہ اس صورت ميں ہے جب اعمال حج كو بجالانا اس خدمت كے ساتھ متصاوم نہ ہو جو اسكى ڈيوٹى ہے ورنہ يہ اسكے ساتھ مستطيع نہيں ہوگا جيسا كہ عدم تصادم كى صورت ميں اس پر اجارے كو قبول كرنا واجب نہيں ہے _
مسئلہ 36_ جو شخص مالى استطاعت نہ ركھتا ہو اور نيابتى حج كيلئے اجير بنے پھر اجارے كے بعد مال اجارہ كے علاوہ كسى اور مال كے ساتھ مستطيع ہو جائے تو اس پر واجب ہے كہ اس سال اپنے لئے حجة الاسلام بجالائے اور اجارہ اگر اسى سال كيلئے ہو تو باطل ہے ورنہ اجارے والا حج آئندہ سال بجالائے _
مسئلہ 37_ اگر مستطيع شخص غفلت كى وجہ سے يا جان بوجھ كر مستحب حج كى نيت كرلے اگر چہ اعمال حج كى تمرين كے قصد سے تا كہ آئندہ سال اسے بہتر طريقے سے انجام دے سكے يا اس لئے كہ وہ اپنے آپ كو غير مستطيع سمجھتا ہے پھر اس كيلئے ظاہر ہو جائے كہ وہ مستطيع تھا تو اسكے اس حج
-----------
29
كے حجة الاسلام سے كافى ہونے ميں اشكال ہے پس احوط كى بنا پر اس پر آئندہ سال حج كو بجالانا واجب ہے_مگر يہ كہ اس نے شارع مقدس كے اس حكم كى اطاعت كا قصدكيا ہو جو اس وقت ہے اس وہم كے ساتھ كہ وہ حكم، حكم استحبابى ہے تو پھر اس كا حج حجة الاسلام سے كافى ہے _

ب_ جسمانى استطاعت:
اس سے مراد يہ ہے كہ جسمانى لحاظ سے حج كو انجام دينے كى قدرت ركھتا ہو پس اس مريض اور بوڑھے پر حج واجب نہيں ہے جو حج پر جانہيں سكتے يا جن كيلئے جانے ميں حرج اورمشقت ہے _
مسئلہ 38_ جسمانى استطاعت كا باقى رہنا شرط ہے پس اگر راستے كے درميان ميں احرام سے پہلے بيمار ہو جائے تو اگر اس كا حج پر جانا استطاعت والے سال ميں ہو اور بيمارى اس سے سفر كو جارى ركھنے كى قدرت كو سلب كرلے تو اس سے منكشف ہو گا كہ اس ميں جسمانى استطاعت نہيں تھى اور
-----------
30
ايسے شخص پر حج كيلئے كسى كو نائب بنانا واجب نہيں ہے ليكن اگر يہ حج كے اس پر مستقر ہونے كے بعد حج پر جا رہا ہو اور بيمارى كى وجہ سے سفر كو جارى ركھنے سے عاجز ہو جائے اور آئندہ سالوں ميں بھى اسے بغير مشقت كے حج پر قادر ہونے كى اميد نہ ہو تو اس پر واجب ہے كہ كسى اور كو نائب بنائے اور اگر اسے اميد ہو تو اس سے خود حج كو بجالانے كا وجوب ساقط نہيں ہوگا_اور اگر احرام كے بعد بيمار ہو تو اسكے اپنے خاص احكام ہيں _

ج_ سربى استطاعت:
اس سے مراد يہ ہے كہ حج پر جانے كا راستہ كھلا اور باامن ہو پس اس شخص پر حج واجب نہيں ہے كہ جس كيلئے راستہ بند ہو اس طرح كہ اس كيلئے ميقات يا اعمال حج كى تكميل تك پہنچنا ممكن نہ ہو اسى طرح اس شخص پر بھى حج واجب نہيں ہے كہ جس كيلئے راستہ كھلا ليكن نا امن ہو چنانچہ اس راستے ميں اسے اپنى جان ، بدن ، عزت يا مال كا خطرہ ہو _
--------
31
مسئلہ 39_ جس شخص كے پاس حج كے اخراجات ہوں اور وہ حج پرجانے كيلئے تيارہوجائے جيسا كہ حج كيلئے اپنا نام لكھو ادے ليكن چونكہ اسكے نام قرعہ نہيں نكلا اسلئے اس سال حج پر نہ جا سكا تو يہ شخص مستطيع نہيں ہے اور اس پر حج واجب نہيں ہے ليكن اگر آئندہ سالوں ميں حج كرنا اس سال اپنا نام لكھوانے اور مال دينے پر موقوف ہو تو احوط وجوبى يہ ہے كہ اس كام كو انجام دے _

د_زمانى استطاعت:
اس سے مراد يہ ہے كہ ايسے وقت ميں استطاعت حاصل ہو جس ميں حج كو درك كرنا ممكن ہو پس اس بندے پر حج واجب نہيں ہے كہ جس پر اس طرح وقت تنگ ہو جائے كہ وہ حج كو درك نہ كر سكتا ہو يا سخت مشقت اور سخت حرج كے ساتھ درك كر سكتا ہو _
----------
32

دوسرى فصل :نيابتى حج
نائب و منوب عنہ كى شرائط كو بيان كرنے سے پہلے حج كى وصيت اور اس كيلئے نائب بنانے كے بعض موارد اور ان كے احكام كو ذكر كرتے ہيں _
مسئلہ 40_ جس پر حج مستقر ہو جائے پھر وہ بڑھا پے يا بيمارى كى وجہ سے حج پر جانے سے عاجر ہو يا اس كيلئے حج پر جانے ميں عسر و حرج ہو اور بغير حرج كے قادر ہونے سے مايوس ہو حتى كہ آئندہ سالوں ميں بھى تو اس پر نائب بنانا واجب ہے ليكن جس پر حج مستقر نہ ہوا تواس پر نائب بنانا واجب نہيں ہے _
مسئلہ 41_ نائب جب حج كو انجام دے دے تو منوب عنہ كہ جو حج كو
-----------
33
انجام دينے سے معذور تھا اس سے حج كا وجوب ساقط ہو جائيگا اور اس پر دوبارہ حج بجا لانا واجب نہيں ہے اگر چہ نائب كے انجام دينے كے بعد اس كا عذر ختم بھى ہو جائے _ہاں اگر نائب كے عمل كے دوران ميںاس كا عذر ختم ہو جائے تو پھر منوب عنہ پر حج كا اعادہ كرنا واجب ہے اور ايسى حالت ميں اس كيلئے نائب كا حج كافى نہيں ہے _
مسئلہ 42_ جس شخص پر حج مستقر ہے اگر وہ راستے ميں فوت ہو جائے تو اگر وہ احرام اور حرم ميں داخل ہونے كے بعدفوت ہو تو يہ حجة الاسلام سے كافى ہے اور اگر احرام سے پہلے فوت ہو جائے تو اس كيلئے يہ كافى نہيں ہے اور اگر احرام كے بعد ليكن حرم ميں داخل ہونے سے پہلے فوت ہو تو احوط وجوبى كى بناپريہ كافى نہيں ہے _
مسئلہ 43_ جو شخص فوت ہو جائے اور اسكے ذمے ميں حج مستقر ہو چكا ہو تو اگر اس كا اتنا تركہ ہو جو حج كيلئے كافى ہو اگر چہ ميقات سے ، تو اس كى طرف سے اصل تركہ سے حج كيلئے نائب بنانا واجب ہے مگر يہ كہ اس نے
---------
34
تركہ كے تيسرے حصے سے مخارج حج نكالنے كى وصيت كى ہو تو يہ اسى تيسرے حصے سے نكالے جائيں گے اور يہ مستحب وصيت پر مقدم ہوں گے اور اگر يہ تيسرا حصہ كافى نہ ہو تو باقى كو اصل تركہ سے ليا جائيگا_
مسئلہ 44_ جن موارد ميں نائب بنانا مشروع ہے ان ميں يہ كام فوراً واجب ہے چاہے يہ نيابت زندہ كى طرف سے ہو يا مردہ كى طرف سے _
مسئلہ 45_ زندہ شخص پر شہر سے نائب بنانا واجب نہيں ہے بلكہ ميقات سے نائب بنا دينا كافى ہے اگر ميقات سے نائب بنانا ممكن ہو ورنہ اپنے وطن يا كسى دوسرے شہر سے اپنے حج كيلئے نائب بنائے اسى طرح وہ ميت كہ جسكے ذمے ميں حج مستقر ہو چكا ہے تو اسكى طرف سے ميقات سے حج كافى ہے اور اگر نائب بنانا ممكن نہ ہو مگر ميت كے وطن سے يا كسى دوسرے شہر سے تو يہ واجب ہے اور حج كے مخارج اصل تركہ سے نكالے جائيں گے ہاں اگر اس نے اپنے شہر سے حج كرانے كى وصيت كى ہو تو وصيت كو نافذ كرنا واجب ہے اور ميقات كى اجرت سے زائد كو تركہ كے تيسرے حصے
-------
35
سے نكالا جائيگا _
مسئلہ 46_ اگر وصيت كرے كہ اسكى طرف سے استحباباً حج انجام ديا جائے تو اسكے اخراجات تركہ كے تيسرے حصے سے نكالے جائيں گے _
مسئلہ 47_ جب ورثاء يا وصى كو ميت پر حج كے مستقر ہونے كا علم ہو جائے اور اسكے ادا كرنے ميں شك ہو تو ميت كى طرف سے نائب بنانا واجب ہے ليكن اگر استقرار كا علم نہ ہو اور اس نے اسكى وصيت بھى نہ كى ہو تو ان پر كوئي شے واجب نہيں ہے _

نائب كى شرائط :
1_ بلوغ ، احوط كى بناپر ،پس نابالغ كا حج اپنے غير كى طرف سے حجة الاسلام كے طور پر كافى نہيں ہے بلكہ كسى بھى واجب حج كے طور پر _
2_ عقل ، پس مجنون كا حج كافى نہيں ہے چاہے وہ دائمى ہو يا اسے جنون كے دورے پڑتے ہوں البتہ اگر جنون كے دورے كى حالت ميں حج انجام
------------
36
دے _
3_ ايمان ، احوط كى بناپر ،پس مؤمن كى طرف سے غير مؤمن كا حج كافى نہيں ہے _
4_ اس كا حج كے اعمال اور احكام سے اس طرح واقف ہونا كہ اعمال حج كو صحيح طور پر انجام دينے پر قادر ہو اگر چہ اس طرح كہ ہر عمل كے وقت معلم كى راہنمائي كے ساتھ اسے انجام دے_
5_ اس سال ميں خود اس كا ذمہ واجب حج كے ساتھ مشغول نہ ہو ہاں اگر اسے اپنے اوپر حج كے وجوب كا علم نہ ہو تو اسكے نيابتى حج كے صحيح ہونے كا قائل ہونا بعيد نہيں ہے _
6_ حج كے بعض اعمال كے ترك كرنے ميں معذور نہ ہو _ اس شرط اور اس پر مترتب ہونے والے احكام كى وضاحت اعمال حج ميں آجائيگي_
مسئلہ 48_نائب بنانے كے كافى ہونے ميں شرط ہے كہ نائب كے منوب عنہ كى طرف سے حج كے بجا لانے كا وثوق ہو ليكن يہ جان لينے كے
--------
37
بعد كہ اس نے حج انجام دے ديا ہے اس بات كا وثوق شرط نہيں ہے كہ اس نے حج كو صحيح طور پر انجام ديا ہے بلكہ اس ميں اصالة الصحة كافى ہے (يعنى اس كا عمل صحيح ہے)_

منوب عنہ كى شرائط :
منوب عنہ ميں چند چيزيں شرط ہيں_
اول : اسلام ، پس كافر كى طرف سے حج كافى نہيں ہے _
دوم : يہ كہ منوب عنہ فوت ہو چكا ہو يا بيمارى يا بڑھاپے كى وجہ سے خود حج بجالانے پر قادر نہ ہو يا خود حج بجالانے ميں اسكے لئے حرج ہو اور آئندہ سالوں ميں بھى بغير حرج كے حج پر قادر ہونے كى اميد نہ ركھتا ہو البتہ اگر نيابت واجب حج ميں ہو _ ليكن مستحب حج ميں غير كى طرف سے نائب بننا مطلقا صحيح ہے _
-------
38

چند مسائل :
مسئلہ 49_ نائب اور منوب عنہ كے درميان ہم جنس ہونا شرط نہيں ہے پس عورت مرد كى طرف سے نائب بن سكتى ہے اور مرد عورت كى طرف سے نائب بن سكتا ہے _
مسئلہ 50_ صرورہ ( جس نے حج نہ كيا ہو) صرورہ اور غير صرورہ كى طرف سے نائب بن سكتا ہے چاہے نائب يا منوب عنہ مرد ہو ياعورت _
مسلئہ 51_ منوب عنہ ميں نہ بلوغ شرط ہے نہ عقل_
مسلئہ 52_ نيابتى حج كى صحت ميں نيابت كا قصد اور منوب عنہ كو معين كرنا شرط ہے اگر چہ اجمالى طور پر ليكن نا م كا ذكر كرنا شرط نہيں ہے_
مسئلہ 53_ اس بندے كو اجير بنانا صحيح نہيں ہے كہ جسكے پاس، حج تمتع كے اعمال كو مكمل كرنے كا وقت نہ ہو اور اس وجہ سے اس كافريضہ حج افراد كى طرف عدول كرنا ہو ہاں اگر اجير بنائے اور اتفاق سے وقت تنگ ہو جائے تو اس پر عدول كر نا واجب ہے اور يہ حج تمتع سے كافى ہے اور اجرت كا بھى
--------
39
مستحق ہو گا _
مسئلہ 54_ اگر اجير احرام اور حرم ميں داخل ہونے كے بعد فوت ہو جائے تو پورى اجرت كا مستحق ہو گا البتہ اگر اجارہ منوب عنہ كے ذمہ كو برى كرنے كيلئے ہو جيسا كہ اگر اجارہ مطلق ہو اور اعمال كو انجام دينے كے ساتھ مقيد نہ ہو تو ظاہر حال يہى ہوتا ہے _
مسئلہ 55_ اگر معين اجرت كے ساتھ حج كيلئے اجير بنايا جائے اور وہ اجرت حج كے اخراجات سے كم پڑ جائے تو اجير پر حج كے اعمال كو مكمل كرنا واجب نہيں ہے جيسے كہ اگر وہ حج كے اخراجات سے زيادہ ہو تو اس كا واپس لينا جائز نہيں ہے_
مسئلہ 56_ نائب پر واجب ہے كہ جن موارد ميں اسكے حج كے منوب عنہ سے كافى نہ ہونے كا حكم لگايا جائے _ نائب بنانے والے كو اجرت واپس كردے البتہ اگر اجارہ اسى سال كے ساتھ مشروط ہو ورنہ اس پر واجب ہے كہ بعد ميں منوب عنہ كى طرف سے حج بجالائے _
----------
40
مسئلہ 57_ جو شخص حج كے بعض اعمال انجام دينے سے معذور ہے اسے نائب بنانا جائز نہيں ہے اور معذور وہ شخص ہے جو مختار شخص كے فريضے كو انجام نہ دے سكتا ہو مثلاً تلبيہ يا نماز طواف كو صحيح طور پر انجام نہ دے سكتا ہو يا طواف اور سعى ميں خود چلنے كى قدرت نہ ركھتا ہو يا رمى جمرات پر قادر نہ ہو ، اس طرح كہ اس سے حج كے بعض اعمال ميں نقص پيدا ہوتا ہو ، پس اگر عذر اس نقص تك نہ پہنچائے جيسے صرف بعض تروك احرام كے ارتكاب ميں معذور ہو تو اسكى نيابت صحيح ہے _
مسئلہ 58_ اگر نيابتى حج كے دوران ميں عذر كا طارى ہونا نائب كے اعمال ميں نقص كا سبب بنے تو اجارے كا باطل ہو جانا بعيد نہيں ہے اور اس صورت ميں احوط وجوبى يہ ہے كہ اجرت اور منوب عنہ كى طرف سے دوبارہ حج بجالانے پر مصالحت كريں_
مسئلہ 59_ جو لوگ مشعر الحرام ميں اختيارى وقوف سے معذور ہيں انہيں نائب بنانا صحيح نہيں ہے پس اگر انہيں اس طرح نائب بنايا جائے تو وہ
--------
41
اس پر اجرت كے مستحق نہيں ہوں گے جيسے كار وانوں كے خدام كہ جو كمزور لوگوں كے ہمراہ رہنے اور كاروان كے بعض كاموں كو انجام دينے پر مجبور ہوتے ہيں چنانچہ طلوع فجر سے پہلے ہى مشعر سے منى كى طرف نكل جاتے ہيں پس اگر ايسے لوگوں كو نيابتى حج كيلئے اجير بنايا جائے تو ان پر اختيار ى وقوف كو درك كرنا اور حج كو بجالانا واجب ہے _
مسلئہ 60_معذور نائب كے حج كے كافى نہ ہونے ميں فرق نہيں ہے كہ وہ اجير ہو يا مفت ميں حج كوانجام دے رہا ہو اور كافى نہ ہونے ميں كوئي فرق نہيں ہے كہ خود نائب اپنے معذور ہونے سے جاہل ہو يا منوب عنہ اس سے جاہل ہو اور اسى طرح ہے اگر ان ميں سے كوئي ايك اس بات سے جاہل ہو كہ يہ ايسا عذر ہے كہ جسكے ساتھ نائب بنانا جائز نہيں ہوتا جيسا كہ اس بات سے جاہل ہو كہ مشعر الحرام ميں وقوف اضطرارى پر اكتفا كرنا صحيح نہيں ہے _
مسئلہ 61_ نائب پر واجب ہے كہ وہ تقليد ياا جتہاد كے لحاظ سے اپنے
-----------
42
فريضے پر عمل كرے _
مسئلہ 62_ اگر نائب احرام اور حرم ميں داخل ہونے كے بعد فوت ہو جائے تو يہ منوب عنہ سے كافى ہے اور اگر احرام كے بعد ليكن حرم ميں داخل ہونے سے پہلے فوت ہو تو احوط وجوبى كى بناپركافى نہيں ہے اور اس حكم كے لحاظ سے كوئي فرق نہيں ہے كہ نائب اجير ہو يا مفت ميں كام انجام دے رہا ہو يا اسكى نيابت حجة الاسلام ميں ہو يا كسى اور حج ميں _
مسئلہ 63_ جس شخص نے اپنى طرف سے حجة الاسلام انجام نہيں ديا اسكے لئے احوط استحبابى يہ ہے كہ نيابتى حج كے اعمال مكمل كرنے كے بعد جب تك مكہ ميں ہے اپنے لئے عمرہ مفردہ بجالائے اگر يہ كر سكتا ہو _
مسئلہ 64_ نيابتى حج كے اعمال سے فارغ ہونے كے بعد نائب كيلئے اپنى طرف سے اور غير كى طرف سے طواف كرنا جائز ہے اسى طرح اس كيلئے عمرہ مفردہ بجا لانا بھى جائز ہے _
مسئلہ 65_ جيسا كہ حج كيلئے نائب ميں احوط كى بنا پر ايمان شرط ہے اسى
-----------
43
طرح اعمال حج ميں سے ہر اس كام ميں بھى شرط ہے كہ جس ميں نيابت صحيح ہے جيسے طواف ، رمى ،قرباني_
مسئلہ 66_ نائب پر واجب ہے كہ وہ اعمال حج ميں منوب عنہ كى طرف سے نيابت كا قصد كرے اور اس پر واجب ہے كہ منوب عنہ كى طرف سے طواف النساء كو انجام دے _