احکام کی تعلیم
 

مقدمہ
بِسْمِ اﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
پوری تاریخ بشریت میں مصلحین اور خیر خواہوں کی ہمیشہ یہ تلاش و کوشش رہی ہے کہ ایک ایسے معاشرے کی داغ بیل ڈالیں، جس میں انسانی قدریں حاکم ہوں اور معاشرہ برائیوں سے پاک ہو۔
اس مقصد تک پہنچنے اور ایسے سماج کی تشکیل کے لئے کہ جسے بعض اوقات ''مدینہ فاضلہ'' کے نام سے یاد کرتے ہیں کچھ قوانین و ضوابط کے بارے میں بھی توجہ کی ہے تاکہ سماج کے افراد ؛اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں قدرتی وسائل سے استفادہ کرنے اور اپنے ہم نوع سے روابط برقراررکھنے کے سلسلہ میں صحیح راستہ پر چل سکیں۔
دین اسلام جو کہ بشری سعادتوں کی تضمین کا آخری مکتب ہے، ایسے معاشرے کی تشکیل کے اعتقاد کو درست سمجھتا ہے ،اور انسان کے فکرو اندیشہ کو صحیح رخ دینے کے سلسلے میں کچھ ایسے خاص اصول وقواعد پر اعتقادرکھتاہے جو کائنات کی ابتداء وانتہا کو مشخص کرتے ہیں اور انسان کو پست افکار وبے ہودہ حالات سے نجات دلاتے ہوئے با مقصد زندگی کی طرف راہنمائی کرتے ہیں۔
البتہ اسلام صرف صحیح اعتقاد کو مفید اور کار آمد نہیں سمجھتا بلکہ لوگوں سے اس امر کا بھی متقاضی ہے کہ کردار وعمل کے میدان میں بھی صحیح اور غلط راستہ کو پہچانیں اور اچھائیوں کو اپناتے ہوئے برائیوں سے پرہیز کریں۔(١)
اسلام کے جس شعبہ پر اس منصوبہ کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، اسے ''فقہ ''یا ''احکام'' کہتے ہیں جو درحقیقت میں یہ عملی قوانین کا ایک ایسا مجموعہ ہے جس کا سرچشمہ وحی الٰہی ہے،نیز ان کی تفسیر وتبیین معصومین علیہم السلام نے کی ہے ، یہ وہ قوانین(احکام) ہیں جو قطعاًنا قابل تغیرہیں اور ان کے اصول پر کسی قسم کا خدشہ پڑے بغیر(٢) یہ تمام موضوعات، بیرونی مصادیق اور رونما ہونے والے حوادث (٣)کا احاطہ کرتے ہیں۔
ان قوانین کی معلومات ہمیشہ دینی مدرسوں کے بنیادی اور اساسی اسباق میںشامل رہی ہے چنانچہ وثوق کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ اسلامی علمی معاشرہے کے تشکیل کی ایک اصلی بنیاد علم فقہ ہے، اور اسلامی علوم کے فقہاء کے عالی ترین اور قابل قدر دانشوروں میں شمار ہوتے ہیں اور ان کا نام دینی مدارس کی تاریخ کے افق پر ہمیشہ چمکتا ہوا نظر آتاہے۔ بقول امام خمینی:
'' علمائے اسلام صدیوں سے محرومین کی پناہ گاہ بنے رہے ہیں اور مستضعفین ہمیشہ بزرگ فقہائکے شیرین اور خوشگوار چشمۂ معرفت سے سیراب ہوتے رہے ہیں ''(٤)
علمائے اسلام نے اسلامی فقہ کے تحفظ اور شریعت مقدس کے دفاع میں بہت سی تلخیاں اور سختیاںبرداشت کی ہیں ،اور حلال وحرام اوردینی مسائل کی، کسی قسم کے دخل وتصرف کے بغیر ترویج کرتے رہے ہیں۔
..............
(١)قال علی (علیہ السلام)الایمان معرفة بالقلب، وقول باللسان وعمل بالارکان(شرح نہج البلاغہ، ج ١٩، ص٥١)
(٢)حضرت ولی عصرعلیہ السلام کے اس خط کی طرف اشارہ ہے جس میں آپ نے ایسے حوادث کے موقع پر احادیث اہل بیت علیہم السلام کے راویوں کی طرف رجوع کرنے کا حکم فرمایا ہے (وسائل الشیعہ، ج ١٨، ص ١٠١)
(٣)عن الصادق علیہ السلام ):''...حتی جاء محمد ۖفجاء بالقرآن وبشریعتہ ومنھاجہ فحلالہ حلال الیٰ یوم القیامة وحرامہ حرام الیٰ یوم القیامة (اصول کافی ج ٢ ص ١٧ حدیث ٢)
(٤) صحیفہ ٔ نور،ج ٢ ،ص ٨٩.
کتنی کتابیں ایسی ہیں جو تقیہ کی حالت میں اور جیلوںکی کال کو ٹھریوں میں تالیف کی گئی ہیں۔(١) اور کتنے کتب خانے،جو علماء کی سیکڑوں سالوں کی محنتوں کا نتیجہ تھے، لوٹ کھسوٹ اور غارت گری کے شکار ہوچکے یا دشمنوں کے غیض و غضب اور کینہ پروری کی آگ میں جل کے خاکستر ہوچکے ہیں، اس سے بڑھ کر کتنے علمائ، دین کی حفاظت کرتے ہوئے جان کی بازی لگا کر اپنے خون سے فقہ کی کتابوں کے اور اق کو رنگین کرگئے ، یہی نہیں بلکہ بعض اوقات ان کی لاشوں کو نذر آتش کرکے ان کی راکھ ہوا میں اڑادی گئی!(٢)
لیکن ان تمام مشکلات اور سختیوں کے باوجود ان علماء نے ہمت نہیں ہاری اور اپنی تلاش وکوشش کو جاری رکھتے ہوئے فقہی مسائل کو ان کے منابع سے استنباط کرکے بہترین صورت میں ترتیب دے کر لوگوں کی دینی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے پیش کرتے رہے ہیں ۔
آج کل مراجع عظام کے رسالے جو ''توضیح المسائل'' کے عنوان سے لوگوں کے ہاتھ میں ہیں، یہ انھیں فقہاکی زحمتوںکاثمرہ ہیں،یہ کوئی آسان کام نہیں ہے بلکہ بعض اوقات ان توضیح المسائل'' میں موجودہ احکام میں سے صرف ایک حکم کے استنباط کے لئے طویل وقت صرف ہواہے ۔ لیکن چونکہ موجودہ ''توضیح المسائل'' عام لوگوں کے مطالعہ اوراستفادہ کے لئے تالیف کی گئی ہیں اور گزشتہ پچاس برسوں سے اسی روش پر باقی ہیں اور اس مدت کے دوران اس کی تالیف کے طریقہ میں کوئی خاص تبدیلی نہیں لائی گئی ہے، اس لئے اس میں بعض اصطلاحیںاہل فن سے مربوط ہیں اور بعض مقامات پر ان میں پیچیدہ ، مشکل اور غیر مانوس عبارتیں بھی پائی جاتی ہیں جو عام نوجوانوںکے لئے ناقابل فہم ہیں لہٰذا اسے نوجوانوں کی تعلیم وتربیت کامناسب متن قرار نہیں دیا جاسکتا، اگرچہ اس قسم کی عبارتیں اپنی جگہ پر ایک خاص طبقہ کی ضرورت سے بالاتر مقصد کے لئے مرتب کی گئی ہیں اور وہ اپنی جگہ پر مفید وقابل قدر ہیں، اس کی مثال ایک دواخانہ کی ہے جس سے معاثرے کے تمام لوگ استفادہ کرتے ہیں۔
..............
(١)جیسے کتاب '' اللمعة الدمشقیہ'' تالیف فقیہ نا مدارمحمد ابن مکی العاملی معروف بہ شہیداول.
(٢)جیسے شہیداول (اور شہید ثالث)
قدیم زمانے سے آج تک دینی مدارس میں مختلف علمی مضامین، منجملہ'' فقہ'' کو مختلف درجوںمیں پڑھانے کے لئے مخصوص کتابیں معین کی جاتی رہی ہیں، یہ رسم نہ تھی اور نہ ہے کہ جدید طلاب کو '' شیخ انصاری کی مکاسب'' (١) پڑھائی جائے یا علم اصول میں ابتداء سے ہی '' محقق خراسانی کی کفایہ''(٢) پڑھائی جائے، اور یا فلسفہ میں شروع سے ہی''ملا صدراکی ''ا سفار'' شروع کروائی جائے بلکہ ابتداء میں سادہ، رواں اور چھوٹی کتابیں پڑھائی جا تی ہیں، اور رفتہ رفتہ مفصل اور عمیق کتابوں کو پڑھایا جاتاہے۔
اس وقت حوزۂ علمیہ (دینی مدارس) میں فقہ کی تعلیم درج ذیل تین مرحلوں میں منقسم ہے:
١۔غیراستدلالی فقہ،جیسے: توضیح المسائل'' اور ''العروة الوثقی''(٤)
٢۔نیم استدلالی فقہ، جیسے : ''الروضة البھیة''(٥)اور '' شرائع ُالاسلام''(٦)
٣۔استدلالی فقہ، جیسے: ''جواہر الکلام'' (٧)اور ''الحدائق الناضرہ''(٨)
..............
(١)یہ کتاب معاملات (لین دین) کے احکام پر مشتمل ہے اور جلیل القدر فقیہ شیخ مرتضی انصاری کی تالیف ہے آج کل یہ کتاب حوزہ ٔعلمیہ(دینی مدارس) کی عالی درجات میں پڑھائی جاتی ہے .
(٢)یہ اصول فقہ کی کتاب ہے جو گرانقدر دانشور محمدکاظم خراسانی کی تالیف ہے، یہ اس وقت حوزہ علمیہ کی عالی سطح میں پڑھائی جاتی ہے.
(٣)یہ کتاب اسلامی فلسفہ کی ایک بے نظیر کتاب ہے جسے صدر الدین محمد شیرازی نے تالیف کیا ہے.
(٤)یہ کتاب علم فقہ میں ہے اور اس میں فقہ کے اہم مسائل موجود ہیں بلکہ فقہی موضوع میں فرعی مسائل کے اعتبار سے بے نظیر کتاب ہے، اسے بزرگ فقیہ سید محمدکاظم یزدی نے تالیف فرمایا ہے ۔
(٥) یہ کتاب علم فقہ میں ہے جسے قابل قدر دانشور زین الدین علی ابن احمد عاملی معروف بہ شہید ثانی''نے تالیف کیا ہے .یہ کتاب حقیقت میں شہید اول شمس الدین محمد مکی کی تالیف کردہ ''اللمعة الدمشقیة''کی شرح ہے.
(٦)یہ فقہ کی کتاب ہے،اور علامہ محقق جعفر ابن حسن یحییٰ بن سعید معروف بہ محقق حلی کی تالیف کردہ ہے، اور برسوں تک حوزہ علمیہ میں اسے پڑھایا جاتا رہا ہے.
(٧)یہ کتاب شیعہ فقہ کی ایک عظیم دائرة المعارف ہے جو شیخ محمد حسن نجفی کی تالیف کردہ ہے.
(٨)یہ فقہ کی ایک مفصل کتاب ہے جسے قابل قدر محدث اور فقیہ شیخ یوسف بحرانی نے تالیف فرمایا ہے.
اس بناء پر معاشرے کے افراد کے فہم وادراک اور ضرورت کے مطابق کچھ کتابیںتالیف کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ مؤمنین کسی مشکل کے بغیر اپنے شرعی فرائض کو سیکھ سکیں اور بہتر طور پر اپنی دینی معلومات میں اضافہ کرسکیں۔
اگرچہ اس سلسلے میں اب تک قابل قدر کوششیں کی جاچکی ہیں اور کچھ کتابیں شائع بھی ہوچکی ہیں، جن میں سے ہر ایک اپنی جگہ پر قابل استفادہ ہے، لیکن ایسی کتابیں، جو افراد کے تعلیمی مدارج اور ان کے پیشہ کے مطابق ان کی ضروریات کو پورا کرسکیں ، تالیف نہیں کی گئی ہیں، لہٰذااس طرح کی کتابیں تالیف کرنے کی ضرورت کا پوری طرح احساس کیا جارہا ہے۔
اس ضرورت نے ہمیںاس امر کی ترغیب دلائی کہ ملک میں موجودہ تعلیمی نظام کو مد نظر رکھتے ہوئے فقہی مسائل کو، فقہاکے فتاویٰ میں کسی قسم کی تبدیلی لائے بغیر اور صرف عبارتوں اوراصطلاحات کو عام فہم بناکر مثالوں کے ساتھ ، کتابی صورت میںتالیف کریں۔
ممکن ہے معاشرے میں بہت سے لوگ ایسے ہوں جنہوں نے ابتدائی تعلیم بھی حاصل نہ کی ہو لیکن دینی مسائل میں یونیورسٹی سطح کے افرادسے زیادہ آگاہ ہوں لہٰذا اس کتاب کی تالیف کے دوران اکثر لوگوں کی سطح فکری کو مدنظر رکھا گیا ہے ۔
بہر کیف جو کچھ اس سلسلے میں اب تک تیار کیا جاچکا ہے یا تیار ہورہا ہے وہ حسب ذیل ہے:
*تعلیم احکام: بچوں کے لئے ۔
* تعلیم احکام : سطح ایک کے لئے ۔
*تعلیم احکام : سطح عالی ۔یونیورسٹی کے طلاب کے لئے۔
* تدریس احکام کی روش: اساتذہ اور دینیعلوم کے طلاب کے لئے ۔

چند نکات کی یاد دہانی:
١۔اس کتاب کا متن ؛ جمہوریہ اسلامی ایران کے بانی حضرت آیت اللہ العظمیٰ امام خمینی (قدس سرہ)کے فتاویٰ کے مطابق ہے۔
٢۔تین مراجع یعنی حضرت آیت اللہ العظمیٰ اراکی، حضرت آیت اللہ العظمیٰ گلپائیگانی اور حضرت آیت اللہ العظمیٰ خوئی کے فتاویٰ اضافہ کئے گئے ہیں ۔اختلاف کی صورت میں اسی صفحہ پراس علامت(ز) کے ذریعہ ان کے فتاویٰ کو مشخص کردیا گیا ہے۔
٣۔ کتاب کے متن میں عام طور سے ضروری اور کلی مسائل بیان کئے گئے ہیں اور جزئی مسائل کو کم بیان کیا گیا ہے اور ان میں کوئی خاص اختلاف نہیں ہے ، اس کے علاوہ تمام اختلافی فتاویٰ ایسے نہیں ہیں کہ اگر مقلد متن پر عمل کرے تو اس نے اپنے مرجع تقلید کے فتویٰ کے خلاف عمل کیا ہو، یا کسی واجب کو ترک کیا ہو، مثال کے طور پر اگر متن میں موجود مسئلہ بعنوان فتوی ذکر ہوا ہو لیکن کسی دوسرے کا مرجع تقلید اس مسئلہ میں احتیاط واجب کا قائل ہو ، اور اس کا مقلد ان کے فتویٰ پر عمل کرے تو اس نے اسی احتیاط پر عمل کیا ہے اور کوئی مشکل نہیں ہے۔
٤۔مسائل کو انتخاب کرتے وقت کوشش یہ رہی ہے کہ جوانوںکی ضرورت کے پیش نظر مسائل کا انتخاب کیاجائے، اگر کہیں کوئی فرعی مسئلہ حذف ہوگیا ہے تو عنوان کچھ اس انداز سے رکھا گیا ہے تا کہ فتویٰ میں کوئی مشکل پیش نہ آئے، مثال کے طور پر مطہرات کی بحث میں، باوجود اس کے کہ مطہرات دس ہیں،اس کتاب میں صرف پانچ کے ذکر پر اکتفا کیا گیا ہے لیکن مسئلہ کو حسب ذیل صورت میں پیش کیا گیا ہے:
''تمام نجس چیزیں پاک ہوجاتی ہیں اور پاک کرنے والی عمدہ چیزیں حسب ذیل ہیں...''
٥۔ یہ ایک تدریسی کتاب ہے جو معلم کے توسط سے پڑھائی جاتی ہے اس کے باوجود کوشش کی گئی ہے کہ اسے ایسے تالیف کیا جائے تاکہ اس کا براہ راست مطالعہ کرنا بھی مفید ہو اور مطالعہ کرنے والے بھی شرعی مسائل کو سمجھ سکیں ۔
٦۔ قارئین کرام اگر مسائل کی تفصیلات جاننا چاہیں یا مسائل کے متن کو ان کے منابع میں دیکھنا چاہیں تو اس کے لئے ہر صفحہ کے آخر پر مسائل کے حوالے تحریر کردئے گئے ہیں۔
اس کے علاوہ مراجع تقلید کے حواشی بھی ان کی توضیح المسائل کے مسئلہ نمبر کے ساتھ درج کئے گئے ہیں ۔
٧۔ ہم مراجع عظام سے معذرت خواہ ہیں کہ اختصار کے پیش نظر حواشی میں ان کے اسم گرامی کے ساتھ پورے القاب نہیںلاسکے ہیں اور صرف مشہور لقب پر اکتفا کیا ہے۔
٨۔ موجود کتاب، اشاعت سے پہلے، متعدد بار پڑھائی جاچکی ہے، نیز ممکن حد تک نواقص بھی برطرف کئے جا چکے ہیں، حوزہ علمیہ کے افاضل احباب کی عنایتوںاور ان کے مطالعہ اور راہنمائی کے علاوہ، ہائی اسکول کے چند نوجوانوں نے بھی اس کا مطالعہ کیا اور طباعت سے پہلے تحقیق کی ہے، تا کہ مخاطب کی علمی سطح کے مطابق ہوںلہٰذا میںیہاں پر تمام مخلصین کا شکر گزار ہوں۔
اختصار کے پیش نظر حواشی میں مندرجہ ذیل علائم سے استفادہ کیا گیا ہے:
ج =جلد ، ص =صفحہ ، م = مسئلہ ، س =سوال
٩۔ اس کتاب کو تالیف کرتے وقت درج ذیل کتابوں سے استفادہ کیا گیا ہے :
* تحریرالوسیلہ ۔ ۔امام خمینی ۔۔ناشر: دارالانوار، بیروت ۔
*العروةالوثقیٰ۔۔(دوجلدی)۔۔مراجع تقلید کے حواشی کے ساتھ، ناشر، انتشارات علمیہ اسلامیہ۔
* وسیلتہ النجاة۔۔ حاشیہ آیت اللہ العظمیٰ گلپائیگانی ۔۔ ناشر: دارالتعارف للمطبوعات ،بیروت
* رسالۂ توضیح المسائل۔۔ امام خمینی۔۔ناشر: بنیاد ثپروھشہای اسلامی، آستان قدس رضوی
*رسالۂ توضیح المسائل۔۔ آیت اللہ الظمیٰ گلپائگانی ۔۔ ناشر:،دارالقرآن الکریم .
*رسالۂ توضیح المسائل۔آیت اللہ الغظیٰ اراکی۔۔ ناشر،دفتر تبلیغات اسلامی۔ حوزہ علمیہ قم
* رسالۂ توضیح المسائل۔۔آیت اللہ العظمیٰ خوئی ۔۔ مبطع، علمی پریس
*استفتاآت امام خمینی۔۔ناشر:،دفتر تبلیغات اسلامی حوزہ علمیہ قم۔
امید ہے (انشاء اللہ ) یہ تالیف، عزیز نوجوانوں کے لئے احکام کو سمجھنے میں مفید ثابت ہوگی، بارگاہ الٰہی میں دست بہ دعا ہوں کہ ہمارے نوجوانوں کو زندگی کے تمام مراحل میں مدد فرمائے ۔
آخر میں ان تمام حضرات کا شکریہ ادا کرتا ہوں، جنہوں نے اس کتاب کا مطالعہ کرکے میری راہنمائی فرمائی اور خداوند متعال کی عنایتوں کا شکر گزار ہوں کہ اس نے مجھے یہ توقیق بخشی۔
ہم دوستوں کی تعمیری تجاویز کا خیر مقدم اور استقبال کریں گے۔
رَبَّنَاتَقَبَّلْ مِنَّا اِنَّکَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمِ(١)
..............
(١)سورہ بقرہ آیت ١٢٧.

موسم گرما: ١٩٩٣ئ۔
محمد حسین فلاح زادہ برقوئی
قم المقدسہ