طلاق کے احکام
(۲۴۵۷)جو مرد اپنی بیوی کو طلاق دے اس کے لئے ضروری ہے کہ بالغ اور عاقل ہو لیکن اگر دس سال کا بچہ اپنی بیوی کی کو طلاق دے تو اس کے بارے میں احتیاط کا خیال رکھیں اور اسی طرح ضروری ہے کہ مرد اپنے اختیار سے طلاق دے اور اگر اسے اپنی بیوی کو طلاق دینے پر مجبور کیا جائے تو طلاق باطل ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ وہ شخص طلاق کی نیت رکھتا ہو لہٰذا اگر وہ مثلاً مذاق میں یا نشے کی حالت میں طلاق کا صیغہ کہے تو طلاق صحیح نہیں ہے۔
(۲۴۵۸)ضروری ہے کہ عورت طلاق کے وقت حیض یا نفاس سے پاک ہو اور اس کے شوہر نے اس پاکی کے دوران اس سے ہمبستری نہ کی اور ہو اور ان دو شرطوں کی تفصیل آئندہ مسائل میں بیان کی جائے گی۔
(۲۴۵۹)عورت کو حیض یا نفاس کی حالت میں تین صورتوں میں طلاق دینا صحیح ہے:
۱)شوہر نے نکاح کے بعد اس سے ہمبستری نہ کی ہو۔
۲)معلوم ہو کہ وہ حاملہ ہے اور اگر یہ بات معلوم نہ ہو اور شوہر اسے حیض کی حالت میں طلاق دے دے اور بعد میں شوہر کو پتا چلے کہ وہ حاملہ تھی تو وہ طلاق باطل ہے اگرچہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ اسے دوبارہ طلاق دے۔
۳)مرد غیر حاضری یا ایسی ہی کسی اور وجہ سے اپنی بیوی سے جدا ہو اور یہ معلوم نہ ہو سکتا ہو کہ عورت حیض یا نفاس سے پاک ہے یا نہیں۔ لیکن اس صورت میں احتیاط لازم کی بنا پر ضروری ہے کہ مرد انتظار کرے تا کہ بیوی سے جدا ہونے کے بعد کم از کم ایک مہینہ گزر جائے اس کے بعد اسے طلاق دے۔
(۲۴۶۰)اگر کوئی شخص عورت کو حیض سے پاک سمجھے اور طلاق دے دے اور بعد میں پتا چلے کہ وہ حیض کی حالت میں تھی تو اس کی طلاق باطل ہے اور اگر شوہر اسے حیض کی حالت میں سمجھے اور طلاق دے دے اور بعد میں معلوم ہو کہ پاک تھی تو اس کی طلاق صحیح ہے۔
(۲۴۶۱)جس شخص کو علم ہو کہ اس کی بیوی حیض یا نفاس کی حالت میں ہے اگر وہ بیوی سے جدا ہو جائے مثلاً سفر اختیار کرے اور اسے طلاق دینا چاہتا ہو تو اسے چاہئے کہ اتنی مدت صبر کرے جس میں اسے یقین یا اطمینان ہو جائے کہ وہ عورت حیض یا نفاس سے پاک ہو گئی ہے اور جب وہ یہ جان لے کہ عورت پاک ہے اسے طلاق دے۔ اگر اسے شک ہو تب بھی یہی حکم ہے لیکن اس صورت میں غائب شخص کی طلاق کے بارے میں مسئلہ ۲۴۵۷ میں جو شرائط بیان ہوئی ہیں ان کا خیال رکھے۔
(۲۴۶۲) جو شخص اپنی بیوی سے جدا ہو اگر وہ اسے طلاق دینا چاہے تو اگر وہ معلوم کر سکتا ہو کہ اس کی بیوی حیض یا نفاس کی حالت میں ہے یا نہیں تو اگرچہ عورت کی حیض کی عادت یا ان دوسری نشانیوں کو جو شرع میں معین ہیں، دیکھتے ہوئے اسے طلاق دے اور بعد میں معلوم ہو کہ وہ حیض یا نفاس کی حالت میں تھی تو اس کی طلاق صحیح نہیں ہے۔
(۲۴۶۳)اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے جو حیض کی حالت میں ہو یا پاک ہو ہمبستری کرے اور پھر اسے طلاق دینا چاہے تو ضروری ہے کہ صبر کرے حتیٰ کہ اسے دوبارہ حیض آ جائے اور پھر وہ پاک ہو جائے لیکن اگر ایسی عورت کو ہمبستری کے بعد طلاق دی جائے جس کی عمر نو سال سے کم ہو یا معلوم ہو کہ وہ حاملہ ہے تو اس میں کوئی اشکال نہیں اور اگر عورت یائسہ ہو تب بھی یہی حکم ہے۔ (یائسہ کا مطلب مسئلہ ۲۴۰۵ میں گزر چکا ہے)۔
(۲۴۶۴)اگر کوئی شخص ایسی عورت سے ہمبستری کرے جو حیض یا نفاس سے پاک ہو اور اسی پاکی کی حالت میں اسے طلاق دے دے اور بعد میں معلوم ہو کہ وہ طلاق دینے کے وقت حاملہ تھی تو وہ طلاق باطل ہے اور احتیاط کا خیال رکھنا بہتر ہے۔ چاہے طلاق کی تجدید کے ذریعے کیوں نہ ہو۔
(۲۴۶۵)اگر کوئی شخص ایسی عورت سے ہمبستری کرے جو حیض یا نفاس سے پاک ہو پھر وہ اس سے جدا ہو جائے مثلاً سفر اختیار کرے لہٰذا اگر وہ چاہے کہ سفر کے دوران اسے طلاق دے اور اس کی پاکی یا ناپاکی کے بارے میں نہ جان سکتا ہو تو ضروری ہے کہ اتنی مدت صبر کرے کہ عورت کو اس پاکی کے بعد حیض آئے اور وہ دوبارہ پاک ہو جائے اور احتیاط واجب یہ ہے کہ وہ مدت ایک مہینے سے کم نہ ہو اور جو کچھ کہا گیا ہے اس کی رعایت رکھتے ہوئے طلاق دے دے اس کے بعد معلوم ہو جائے کہ طلاق اس پہلی پاکی میں واقع ہوئی ہے تو کوئی اشکال نہیں۔
(۲۴۶۶)اگر کوئی مرد ایسی عورت کو طلاق دینا چاہتا ہو جسے پیدائشی طور پر یا کسی بیماری کی وجہ سے حیض نہ آتا ہو اور اس کی عمر کی دوسری عورتوں کو حیض آتا ہو تو ضروری ہے کہ جب اس نے ایسی عورت سے جماع کیا ہو اس وقت سے تین مہینے تک اس سے جماع نہ کرے اور بعد میں اسے طلاق دے دے۔
(۲۴۶۷)ضروری ہے کہ طلاق کا صیغہ صحیح عربی میں لفظ ”طَالِقٌ“ کے ساتھ پڑھا جائے اور دو عادل مرد اسے سنیں۔ اگر شوہر خود طلاق کا صیغہ پڑھنا چاہے اور مثال کے طور پر اس کی بیوی کا نام فاطمہ ہو تو ضروری ہے کہ کہے ”زَوْجَتِیْ فَاطِمَةُ طَالِقٌ“ یعنی میری بیوی فاطمہ آزاد ہے اور اگر وہ کسی دوسرے شخص کو وکیل کرے تو ضروری ہے کہ وکیل کہے : ”زَوْجَةُ مُوَکِّلِیْ فَاطِمَةُ طَالِقٌ“اور اگر عورت معین ہو تو اس کا نام لینا لازم نہیں ہے۔ اگر مرد عربی میں طلاق کا صیغہ نہ پڑھ سکتا ہو اور وکیل بھی نہ بنا سکے تو وہ جس زبان میں چاہے ہر اس لفظ کے ذریعے طلاق دے سکتا ہے جو عربی لفظ کے ہم معنی ہو۔
(۲۴۶۸)جس عورت سے متعہ کیا گیا ہو مثلاً ایک سال یا ایک مہینے کے لئے اس سے نکاح کیا گیا ہو اسے طلاق دینے کا کوئی سوال نہیں۔ اس کا آزاد ہونا اس بات پر منحصر ہے کہ یا تو متعہ کی مدت ختم ہو جائے یا مرد اسے مدت بخش دے اور وہ اس طرح کہ اس سے کہے: ”میں نے مدت تجھے بخش دی۔“ اور کسی کو اس پر گواہ قرار دینا اور اس عورت کا حیض سے پاک ہونا لازم نہیں۔
طلاق کی عدت
(۲۴۶۹)جس لڑکی کی عمر (پورے )نو سال نہ ہوئی ہو… اور جو عورت یائسہ ہو چکی ہو… اس کی کوئی عدت نہیں ہوتی۔ یعنی اگرچہ شوہر نے اس سے مجامعت کی ہو، طلاق کے بعد وہ فوراً دوسرا شوہر کر سکتی ہے۔
(۲۴۷۰)جس لڑکی کی عمر (پورے) نو سال ہو چکی ہو اور جو عورت یائسہ نہ ہو، اس کا شوہر اس سے مجامعت کرے تو اگر وہ اسے طلاق دے تو ضروری ہے کہ وہ (لڑکی یا) عورت طلاق کے بعد عدت رکھے اور آزاد عورت کی عدت یہ ہے کہ جب اس کا شوہر اسے پاکی کی حالت میں طلاق دے تو اس کے بعد وہ اتنی مدت صبر کرے کہ دو دفعہ حیض سے پاک ہو جائے اور جونہی اسے تیسری دفعہ حیض آئے تو اس کی عدت ختم ہوتی ہے اور وہ دوسرا نکاح کر سکتی ہے لیکن اگر شوہر عورت سے مجامعت کرنے سے پہلے اسے طلاق دے دے تو اس کے لئے کوئی عدت نہیں یعنی وہ طلاق کے فوراً بعد دوسرا نکاح کر سکتی ہے۔ لیکن اگر شوہر کی منی جذب یا اس جیسی کسی اور وجہ سے اس کی شرمگاہ میں داخل نہ ہوئی ہو تو اس صورت میں اظہر کی بنا پر ضروری ہے کہ وہ عورت عدت رکھے۔
(۲۴۷۱)جس عورت کو حیض نہ آتا ہو لیکن اس کا سن عورتوں جیسا ہو جنہیں حیض آتا ہو اگر اس کا شوہر مجامعت کرنے کے بعد اسے طلاق دے دے تو ضروری ہے کہ طلاق کے بعد تین قمری مہینے کی عدت رکھے۔
(۲۴۷۲)جس عورت کی عدّت تین مہینے ہو اگر اسے چاند کی پہلی تاریخ کو طلاق دی جائے تو ضروری ہے کہ تین قمر مہینے تک یعنی جب چاند دیکھا جائے اس وقت سے تین مہینے تک عدت رکھے اور اگر اسے مہینے کے دوران (کسی اور تاریخ کو) طلاق دی جائے تو ضروری ہے اس مہینے کے باقی دنوں میں اس کے بعد آنے والے دو مہینے اور چوتھے مہینے کے اتنے دن جتنے دن پہلے مہینے سے کم ہوں عدت رکھے تاکہ تین مہینے مکمل ہو جائیں۔ مثلاً اگر اسے مہینے کی بیسویں تاریخ کو غروب کے وقت طلاق دی جائے اور یہ مہینہ انتیس دن کا ہو تو ضروری ہے کہ نو دن اس مہینے کے اور اس کے بعد دو مہینے اور اس کے بعد چوتھے مہینے کے بیس دن عدت رکھے بلکہ احتیاط واجب یہ ہے کہ چوتھے مہینے کے اکیس دن عدت رکھے تاکہ پہلے مہینے کے جتنے دن عدت رکھی ہے انہیں ملا کر دنوں کی تعداد تیس ہو جائے۔
(۲۴۷۳)اگر حاملہ عورت کو طلاق دی جائے تو اس کی عدت وضع حمل یا اسقاط حمل تک ہے۔ لہٰذا مثال کے طور پر اگر طلاق کے ایک گھنٹے بعد بچہ پیدا ہو جائے تو اس عورت کی عدت ختم ہو جائے گی۔ لیکن یہ حکم اس صورت میں ہے جب وہ بچہ صاحبہٴ عدت کا شرعی بیٹا ہو۔ لہٰذا اگر عورت زنا سے حاملہ ہوئی ہو اور شوہر اسے طلاق دے تو اس کی عدت بچے کے پیدا ہونے سے ختم نہیں ہوتی۔
(۲۴۷۴)جس لڑکی نے عمر کے نو سال مکمل کر لئے ہوں اور جو عورت یائسہ نہ ہو اگر وہ مثال کے طور پر کسی شخص سے ایک مہینے یا ایک سال کے لئے متعہ کرے تو اگر اس کا شوہر اس سے مجامعت کرے اور اس عورت کی مدت تمام ہو جائے یا شوہر اسے مدت بخش دے تو ضروری ہے کہ وہ عدت رکھے ۔پس اگر اسے حیض آئے تو احتیاط کی بنا پر ضروری ہے کہ وہ حیض کے برابر عدت رکھے اور نکاح نہ کرے اور اگر حیض نہ آئے تو پینتالیس دن شوہر کرنے سے اجتناب کرے اور حاملہ ہونے کی صورت میں اظہر کی بنا پر اس کی عدت بچے کی پیدائش یا اسقاط ہونے تک ہے۔ اگرچہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ جو مدت وضع حمل یا پینتالیس دن میں سے زیادہ ہو اتنی مدت کے لئے عدت رکھے۔
(۲۴۷۵)طلاق کی عدت اس وقت شروع ہوتی ہے جب صیغہ کا پڑھنا ختم ہو جاتا ہے خواہ عورت کو پتا چلے یا نہ چلے کہ اسے طلاق ہو گئی ہے۔ پس اگر اسے عدت (کے برابر مدت) گزرنے کے بعد پتا چلے کہ اسے طلاق ہو گئی ہے تو ضروری نہیں کہ وہ دوبارہ عدت رکھے۔
وفات کی عدت
(۲۴۷۶)اگر کوئی عورت بیوہ ہو جائے تو اس صورت میں جبکہ وہ آزاد ہو، اگر وہ حاملہ نہ ہو تو خواہ وہ نو سال سے چھوٹی ہو، کافر ہو، مطلقہ رجعیہ ہو، یائسہ ہو یا شوہر نے اس سے متعہ کیا ہو یا شوہر نے اس سے مجامعت نہ کی ہو چاہے شوہر کم عمر طفل ہو، دیوانہ ہو تو بھی ضروری ہے کہ چار قمری مہینے اور دس دن عدت رکھے اور اگر حاملہ ہو تو ضروری ہے کہ وضع حمل تک عدت رکھے۔ لیکن اگر چار مہینے اور دس دن گزرنے سے پہلے بچہ پیدا ہو جائے تو ضروری ہے کہ شوہر کی موت کے بعد چار مہینے دس دن تک صبر کرے اور اس عدت کو وفات کی عدت کہتے ہیں۔
(۲۴۷۷)جو عورت وفات کی عدت میں ہو اس کے لئے رنگ برنگا لباس پہننا، سرمہ لگانا اور اسی طرح دوسرے ایسے کام جو زینت میں شمار ہوتے ہیں حرام ہیں لیکن گھر سے باہر نکلنا حرام نہیں ہے۔
(۲۴۷۸) اگر عورت کو یقین ہو جائے کہ اس کا شوہر مر چکا ہے اس لئے عدت وفات رکھی اور عدت کے گزرنے کے بعد دوسری شادی کی۔ مگر بعد میں معلوم ہوا کہ عورت نے پہلے شوہر کی زندگی میں یا اس کے عدت وفات کے دوران دوسری شادی کی ہے تو اسے چاہیئے کہ دوسرے شوہر سے فوراً الگ ہو جائے اور احتیاط واجب کی بنا پر عدت گزارے۔ پس اگر دوسرے شوہر کے ساتھ حاملہ ہو تو بچہ جننے تک دوسرے شوہر کے ساتھ وطی شبہہ کی عدت رکھے (جو طلاق کی عدت کے برابر ہے) اور اس کے بعد پہلے شوہر کی عدت وفات گزارے یا پہلے عدت کی تکمیل کرے۔ اور اگر حاملہ نہ ہو اور پہلے شوہر کی وفات دوسرے شوہر کے ساتھ مجامعت سے پہلے ہوئی تھی تو پہلے عدت وفات رکھے اس کے بعد وطی شبہہ کی عدت گزارے۔ لیکن مجامعت پہلے شوہر کی وفات سے پہلے ہوئی تھی تو اس کی عدت مقدم ہے۔
(۲۴۷۹)جس عورت کا شوہر لا پتا ہو یا لا پتا ہونے کے حکم میں ہو اس کی عدت وفات شوہر کی موت کی اطلاع ملنے کے وقت سے شروع ہوتی ہے نہ کہ شوہر کی موت کے وقت سے۔ لیکن اس حکم کا اطلاق اس عورت کے لئے ہونا جو نابالغ یا پاگل ہو اشکال ہے اس لئے احتیاط کا لحاظ رکھنا واجب ہے۔
(۲۴۸۰)اگر عورت کہے کہ میری عدت ختم ہو گئی ہے تو اس کی بات قابل قبول ہے مگر یہ کہ وہ غلط بیان مشہور ہو تو اس صورت میں احتیاط کی بنا پر اس کی بات قابل قبول نہیں ہے۔ مثلاً وہ کہے کہ مجھے ایک مہینے میں تین دفعہ خون آتا ہے تو اس بات کی تصدیق نہیں کی جائے گی مگر یہ کہ اس کی سہیلیاں اور رشتے دار عورتیں اس بات کی تصدیق کریں کہ اس کی حیض کی عادت ایسی ہی تھی۔
طلاق بائن اور طلاق رجعی
(۲۴۸۱)طلاق بائن وہ طلاق ہے جس کے بعد مرداپنی عورت کی طرف رجوع کرنے کا حق نہیں رکھتا یعنی یہ کہ بغیر نکاح کے دوبارہ اسے اپنی بیوی نہیں بنا سکتا اور اس طلاق کی چھ قسمیں ہیں:
۱)اس عورت کو دی گئی طلاق جس کی عمر ابھی نو سال نہ ہوئی ہو۔
۲)اس عورت کو دی گئی طلاق جو یائسہ ہو۔
۳)اس عورت کو دی گئی طلاق جس کے شوہر نے نکاح کے بعد اس سے جماع نہ کیا ہو۔
۴)جس عورت کو تین دفعہ طلاق دی گئی ہو اسے دی جانے والی تیسری طلاق۔
۵)خلع اور مبارات کی طلاق۔
۶)حاکم شرع کا اس عورت کو طلاق دینا جس کا شوہر نہ اس کے اخراجات برداشت کرتا ہو نہ اسے طلاق دیتا ہو، جن کے احکام بعد میں بیان کئے جائیں گے۔
اور ان طلاقوں کے علاوہ جو طلاقیں ہیں وہ رجعی ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک عورت عدت میں ہو شوہر اس سے رجوع کر سکتا ہے۔
(۲۴۸۲)جس شخص نے اپنی عورت کو رجعی طلاق دی ہو اس کے لئے اس عورت کو اس گھر سے نکال دینا جس میں وہ طلاق دینے کے وقت مقیم تھی حرام ہے۔ البتہ بعض موقعوں پر جن میں سے ایک یہ ہے کہ عورت زنا کرے تو اسے گھر سے نکال دینے میں کوئی اشکال نہیں۔ نیز یہ بھی حرام ہے کہ عورت غیر ضروری کاموں کے لیے شوہر کی اجازت کے بغیر اس گھر سے باہر جائے۔ عدت کے دوران کے اخراجات شوہر پر واجب ہیں۔
رجوع کرنے کے احکام
(۲۴۸۳) رجعی طلاق میں مرد دو طریقوں سے عورت کی طرف رجوع کر سکتا ہے۔
۱)ایسی باتیں کرے جن سے پتا چلے کہ اس نے اسے دوبارہ اپنی بیوی بنا لیا ہے۔
۲)کوئی کام کرے اور اس کام سے رجوع کا قصد کرے اور ظاہر یہ ہے کہ جماع کرنے سے رجوع ثابت ہو جاتا ہے خواہ اس کا قصد رجوع کرنے کا نہ بھی ہو۔ بلکہ بعض (فقہاء) کا کہنا ہے کہ اگرچہ رجوع کا قصد نہ ہو صرف لپٹانے اور بوسہ لینے سے جماع ثابت ہو جاتا ہے البتہ یہ قول اشکال سے خالی نہیں ہے۔ ایسی صورت میں رجوع کرنے کا ارادہ نہ ہو تو دوبارہ طلاق دے دے۔
(۲۴۸۴) رجوع کرنے میں مرد کے لئے لازم نہیں کہ کسی کو گواہ بنائے یا اپنی بیوی کو (رجوع کے متعلق) اطلاع دے بلکہ اگر بغیر اس کے کہ کسی کو پتا چلے وہ خود ہی رجوع کر لے تو اس کا رجوع کرنا صحیح ہے۔ لیکن اگر عدت ختم ہو جانے کے بعد مرد کہے کہ میں نے عدت کے دوران ہی رجوع کر لیا تھا اور عورت اس کی تصدیق نہ کرے تو لازم ہے کہ شوہر اس بات کو ثابت کرے۔
(۲۴۸۵) جس مرد نے عورت کو رجعی طلاق دی ہو اگر وہ اس سے کچھ مال لے لے اور اس سے مصالحت کر لے کہ اب تجھ سے رجوع نہ کروں گا تو اگرچہ یہ مصالحت درست ہے اور مرد پر واجب ہے کہ رجوع نہ کرے لیکن اس سے مرد کے رجوع کرنے کا حق ختم نہیں ہوتا اور اگر وہ رجوع کرے تو رشتہ ازدواج برقرار رہے گا۔
(۲۴۸۶)اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو دو دفعہ طلاق دے کر اس کی طرف رجوع کر لے یا اسے دو دفعہ طلاق دے اور ہر طلاق کے بعد اس سے نکاح کرے یا ایک طلاق دے کر اس کی طرف رجوع کرے اور دوسری طلاق کے بعد نکاح کرے تو تیسری طلاق کے بعد وہ اس مرد پر حرام ہو جائے گی۔ لیکن اگر عورت تیسری طلاق کے بعد کسی دوسرے مرد سے نکاح کرے تو وہ پانچ شرطوں کے ساتھ پہلے مرد پر حلال ہو گی یعنی وہ اس عورت سے دوبارہ نکاح کر سکے گا۔
۱)دوسرے شوہر کا نکاح دائمی ہو۔ پس اگر مثال کے طور پر وہ ایک مہینے یا ایک سال کے لئے اس عورت سے متعہ کر لے تو اس مرد کے اس سے علیحدگی کے بعد پہلے شوہر اس سے نکاح نہیں کر سکتا۔
۲)دوسرا شوہر جماع کرے اور احتیاط واجب یہ ہے کہ جماع فرج میں کرے۔
۳)دوسرا شوہر اسے طلاق دے یا مر جائے۔
۴)دوسرے شوہر کی طلاق کی عدت یا وفات کی عدت ختم ہو جائے۔
۵)احتیاط واجب کی بنا پر دوسرا شوہر جماع کرتے وقت بالغ ہو۔
طلاق خلع
(۲۴۸۷) اس عورت کی طلاق کو جواپنے شوہر کی طرف مائل نہ ہو اور اس سے نفرت کرتی ہو اپنا مہر یا کوئی مال اسے بخش دے تاکہ وہ اسے طلاق دے دے، طلاق خلع کہتے ہیں۔ طلاق خلع میں معتبر ہے کہ عورت اپنے شوہر سے اس قدر شدید نفرت کرتی ہو کہ اسے وظیفہٴ زوجیت ادا نہ کرنے کی دھمکی دے۔
(۲۴۸۸) جب شوہر خود طلاق خلع کا صیغہ پڑھنا چاہے تو اگر اس کی بیوی کا نام مثلاً فاطمہ ہو تو عوض لینے کے بعد کہے: ”زَوْجَتِیْ فَاطِمَةٌ خَالَعْتُھَا عَلٰی مَابَذَلَتْ“اور احتیاط مستحب کی بنا پر ”ھِیَ طَالِقٌ“ بھی کہے یعنی میں نے اپنی بیوی فاطمہ کو اس مال کے عوض جو اس نے مجھے دیا ہے طلاق خلع دے رہا ہوں اور وہ آزاد ہے۔ اگر عورت معین ہو تو طلاق خلع میں نیز طلاق مبارات میں اس کا نام لینا لازم نہیں۔
(۲۴۸۹)اگر کوئی عورت کسی شخص کو وکیل مقرر کے تاکہ وہ اس کا مہر اس کے شوہر کو بخش دے اور شوہر بھی اسی شخص کو وکیل مقرر کرے تاکہ وہ اس کی بیوی کو طلاق دے دے تو اگر مثال کے طور پر شوہر کا نام محمد اور بیوی کا نام فاطمہ ہو تو وکیل صیغہٴ طلاق یوں پڑھے: ”عَنْ مُوَکِّلتِیْ فَاطِمَةَ بَذَلْتُ مَھْرَھَا لَمُوَکِّلِیْ مُحَمَّدٍ لِیَخْلَعَھَا عَلَیْہِ“اور اس کے بعد بلا فاصلہ کہے: ”زَوْجَةُ مُوَکِّلِیْ خَالَعْتُھَا عَلٰی مَابَذَلَتْ ھِیَ طَالِقٌ“اور اگر عورت کسی کو وکیل مقرر کرے کہ اس کے شوہر کو مہر کے علاو ہ کوئی اور چیز بخش دے تاکہ اس کا شوہر اسے طلاق دے دے تو ضروری ہے کہ وکیل لفظ ”مَھْرَھَا“کی بجائے اس چیز کا نام لے مثلاً اگر عورت نے سو روپے دئیے ہوں تو ضروری ہے کہ کہے: ”بَذَلَتْ مِاَةَ رُوْبِیَةِ“
طلاق مبارات
(۲۴۹۰)اگر میاں بیوی دونوں ایک دوسرے کو نہ چاہتے ہوں اور ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہوں اور عورت مرد کو کچھ مال دے تاکہ وہ اسے طلاق دے دے تو اسے طلاق مبارات کہتے ہیں۔
(۲۴۹۱)اگر شوہر مبارات کا صیغہ پڑھنا چاہے تو اگر مثلاً عورت کا نام فاطمہ ہو تو ضروری ہے کہ کہے: ”بَارَاْتُ زَوْجَتِیْ فَاطِمَةَ عَلٰی مَابَذَلَتْ“اور احتیاط لازم کی بنا پر ”فَھِیَ طَالِقٌ“بھی کہے یعنی میں اور میری بیوی فاطمہ اس ”عطا“ کے مقابل میں جو اس نے کی ہے ایک دوسرے سے جدا ہو گئے ہیں۔ پس وہ آزاد ہے اور اگر وہ شخص کسی کو وکیل مقرر کرے تو ضروری ہے وکیل کہے: ”عَنْ قَبِلِ مُوَکِّلِیْ بَارَاْتُ زَوْجَتَہ فَاطِمَةَ عَلٰی مَابَذَلَتْ فَھِیَ طَالِقٌ“اور دونوں صورتوں میں کلمہ ”عَلٰی مَابَذَلَت“ کی بجائے اگر ”بِمَا بَذَلَتْ“کہے تو کوئی اشکال نہیں ہے۔
(۲۴۹۲)خلع اور مبارات کی طلاق کا صیغہ اگر ممکن ہو تو صحیح عربی میں پڑھا جانا چاہئے اور اگر ممکن نہ ہوتو اس کا حکم طلاق کے حکم جیسا ہے جس کا بیان مسئلہ ۲۴۶۵ میں گزر چکا ہے۔ لیکن اگر عورت مبارات کی طلاق کے لئے شوہر کو اپنا مال بخش دے۔ مثلاً اردو میں کہے کہ ”میں نے طلاق لینے کے لئے فلاں مال تمہیں بخش دیا“ تو کوئی اشکال نہیں۔
(۲۴۹۳) اگر کوئی عورت طلاق خلع یا طلاق مبارات کی عدت کے دوران اپنی بخشش سے پھر جائے تو شوہر اس کی طرف رجوع کر سکتا ہے اور دوبارہ نکاح کئے بغیر اسے اپنی بیوی بنا سکتا ہے۔
(۲۴۹۴) جو مال شوہر طلاق مبارات دینے کے لئے ضروری ہے کہ وہ عورت کے مہر سے زیادہ نہ ہو لیکن طلاق خلع کے سلسلے میں کیا جانے والا مال اگر مہر سے زیادہ بھی ہو تو کوئی اشکال نہیں۔
طلاق کے مختلف احکام
(۲۴۹۵)اگر کوئی آدمی کسی نامحرم عورت سے اس گمان میں جماع کرے کہ وہ اس کی بیوی ہے تو خواہ عورت کو علم ہو کہ وہ شخص اس کا شوہر نہیں ہے یا گمان کرے کہ اس کا شوہر کہ اس کا شوہر ہے ضروری ہے کہ عدت رکھے۔
(۲۴۹۶)اگر کوئی آدمی کسی عورت سے یہ جانتے ہوئے زنا کرے کہ وہ اس کی بیوی نہیں ہے تو اگر عورت کو علم ہو کہ وہ آدمی اس کا شوہر نہیں ہے اس کے لئے عدت رکھنا ضروری نہیں۔ لیکن اگر اسے شوہر ہونے کا گمان ہو تو احتیاط لازم یہ ہے کہ وہ عورت عدت رکھے۔
(۲۴۹۷) اگر کوئی آدمی کسی عورت کو ورغلائے کہ وہ اپنے شوہر سے متعلق ازدواجی ذمے داریاں پوری نہ کرے تا کہ اس طرح شوہر اسے طلاق دینے پر مجبور ہو جائے اور وہ خود اس عورت کے ساتھ شادی کر سکے تو طلاق اور نکاح صحیح ہیں۔ لیکن دونوں نے بہت بڑا گناہ ہے۔
(۲۴۹۸) اگر عورت نکاح کے سلسلے میں شوہر سے شرط کرے کہ اگر اس کا شوہر سفر اختیار کرے یا مثلاً چھ مہینے اسے خرچ نہ دے یا طویل مدت کے لئے قیدی بن جائے تو طلاق کا اختیار عورت کو حاصل ہو گا تو یہ شرط باطل ہے۔ لیکن اگر وہ یوں شرط کرے کہ وہ شوہر کی طرف سے وکیل ہے کہ خاص شرائط کے تحت یا بغیر کسی قید شرط کے اپنے آپ کو اس کی طرف سے طلاق دے سکتی ہے تو یہ شرط صحیح ہے اور بعد میں شوہر اس کو اپنی وکالت سے نہیں ہٹا سکتا۔ اگر وہ عورت اس طرح خود کو طلاق دے دے تو طلاق صحیح ہے۔
(۲۴۹۹)جس عورت کا شوہر لا پتا ہو جائے اگر وہ دوسرا شوہر کرنا چاہے تو ضروری ہے ہے مجتہد عادل کے پاس جائے اور اس کے حکم کے مطابق عمل کرے جو خاص شرائط کے تحت جن کی تفصیل منہاج الصالحین میں ہے ان کے مطابق اسے طلاق دے سکتا ہے۔
(۲۵۰۰)دیوانے کے باپ دادا اس کی بیوی کو طلاق دے سکتے ہیں۔
(۲۵۰۱)اگر باپ یا دادا اپنے (نابالغ) لڑکے (یاپوتے) کا کسی عورت سے متعہ کر دیں اور متعہ کی مدت میں اس لڑکے کے مکلّف ہونے کی کچھ مدت بھی شامل ہو مثلاً اپنے چودہ سالہ لڑکے کا کسی عورت سے دو سال کے لئے متعہ کر دیں تو اگر اس میں لڑکے کی بھلاء ہو تو وہ (یعنی باپ یا دادا) اس عورت کی مدت بخش سکتے ہیں لیکن لڑکے دائمی بیوی کو طلاق نہیں دے سکتے۔
(۲۵۰۲)اگر کوئی شخص دو آدمیوں کی شرع کی مقرر کردہ علامت کی رو سے عادل سمجھے اور اپنی بیوی کو ان کے سامنے طلاق دے دے تو کوئی اور شخص جس کے نزدیک ان دو آدمیوں کی عدالت ثابت نہ ہو اس عورت کی عدت ختم ہونے کے بعد اس کے ساتھ خود نکاح کر سکتا ہے یا اسے کسی دوسرے کے نکاح میں دے سکتا ہے لیکن اگر ان کے عادل نہ ہونے کا یقین ہو تو اس عورت کے ساتھ عقد نہیں کر سکتا۔
(۲۵۰۳) وہ عورت جسے طلاق رجعی دی گئی وہ وہ عدت کے دوران اس مرد کے لئے شرعی بیوی کی حیثیت رکھتی ہے یہاں تک کہ عدت ختم ہو جائے۔ عورت پر لازم ہے کہ ہر قسم کے استمتاع سے شوہر کو نہ روکے۔ جائز بلکہ مستحب ہے کہ شوہر کے لئے بناؤ سنگھار کرے، اس کی اجازت کے بغیر اس کے گھر سے باہر نہ نکلے۔ اس کے اخراجات شوہر پر واجب ہیں بشرطیکہ وہ ناشزہ نہ ہو اس کا فطرہ اور کفن بھی شوہر پر واجب ہے۔ کسی ایک کے مرنے پر دوسرا وارث بن سکتا ہے اور مرد عدت کے دوران سالی سے شادی نہیں کر سکتا۔
غصب کے احکام
غصب کے معنی یہ ہیں کہ کو ئی شخص کسی ما ل پر یا حق پر ظلم ( اور د ھو نس یا د ھا ند لی ) کے ذر یعے قا بض ہو جا ئے اور یہ بہت بڑ ے گنا ہو ں میں ایک گنا ہ ہے جس کا مر تکب قیا مت کے د ن سخت عذ ا ب میں گر فتا ر ہو گا جنا ب ر سو ل ا کر م سے روا یت ہے : ”جو شخص کسی دوسرے کے ا یک با لشت ز مین غصب کر کے قیا مت کے د ن اس ز مین کو اس کے سا ت طبقوں سمیت طو ق کی طر ح اس کی گر د ن میں ڈ ا ل د یا جا ئے گا ۔
(۲۵۰۴) اگر کو ئی شخص لو گو ں کو مسجد سے یا مد ر سے یا پل یا دو سر ی ایسی جگہوں سے جو ر فا ع عا مہ کے لئے بنا ئی گئی ہوں استفا د ہ نہ کر نے دے تو اس نے اس کا حق غصب کیا ہے اسی طرح کو ئی مسجد میں ا پنے ( بیٹھنے کے ) لئے جگہ مختص کرے اور دو سرا کو ئی اسے اس جگہ سے نکال د ے اور اسے اس جگہ سے ا ستفا د ہ نہ کر نے د ے تو وہ گنا ہگا ر ہے ۔
(۲۵۰۵) اگر گر و ی ر کھوا نے ولا اور گر و ی ر کھنے وا لا یہ طے کر یں کہ جو چیز گر و ی ر کھی جا ر ہی ہو وہ گرو ی ر کھنے وا لے یا کسی تیسر ے شخص کے پا س ر کھی جا ئے تو گر و ی ر کھو ا نے و الا اس کا قر ض ادا کر نے سے پہلے اس چیز کو وا پس نہیں لے سکتا اور ا گر وہ چیز وا پس لی ہو تو ضر ور ی ہے کہ فو را لو ٹا د ے ۔
(۲۵۰۶) جو ما ل کسی کے پا س گر و ی ر کھا گیا ہو اگر کو ئی اور شخص اسے غصب کر لے تو ما ل کا مالک اور گر و ی ر کھنے وا لا دو نو ں غا صب سے غصب کی ہو ئی چیز کا مطا لبہ کر سکتے ہیں اور اگر وہ چیز غا صب سے وا پس لے لیں تو وہ گر و ی ہی ر ہے گی اور اگر وہ چیز تلف ہو جا ئے اور وہ اس کا عو ض حا صل کر یں تو عو ض بھی اصلی چیز کی طر ح گر و ی ر ہے گا ۔
( ۷ ۲۵۰ ) اگر انسا ن کو ئی چیز غصب کرے تو ضرو ر ی ہے کہ اس کے ما لک کو لو ٹا د ے اور ا گر وہ چیز ضا ئع ہو جا ئے اور اس کی کو ئی قیمت ہو تو ضر ور ی ہے کہ اس کا عو ض مسئلہ ۲۵۱۵ اور ۲۵۱۶میں بیا ن کی گئی تفصیل کے مطا بق ما لک کو د ے ۔
( ۲۵۰۸) جو چیز غصب کی گئی ہو اگر اس سے کو ئی نفع ہو مثلا غصب کی ہو ئی بھیڑ کا بچہ پیدا ہو تو وہ اس کے ما لک کا ما ل ہے نیز مثا ل کے طو ر پر اگر کسی نے کو ئی مکا ن غصب کر لیا ہو تو خوا ہ غا صب اس مکان میں نہ ر ہتے تو ضر و ر ی ہے ہ اس کا کر ا یہ ما لک کو د ے ۔
( ۹ ۲۵۰) اگر کو ئی شخص بچے یا د یوا نے سے کو ئی چیز جو اس ( بچے یا دیو ا نے ) کا ما ل ہو غصب کرے تو ضر ور ی ہے کہ وہ چیز اس کے سر پر ست کو د ے دے اور ا گر وہ چیز تلف ہو جا ئے تو ضر ور ی ہے کہ اس کا عو ض د ے ۔
( ۰ ۲۵۱) اگر دو ا ٓ د می مل کر کسی چیز کو غصب کر یں چنا نچہ وہ دو نو ں اس چیز پر تسلط ر کھتے ہو ں تو ان میں سے ہر ا یک اس پو ر ی چیز کا ضا من ہے ا گر چہ ا ن میں سے ہر ا یک جدا گا نہ طور پر اسے غصب نہ ر کھتا ہو ۔
(۲۵۱۱) اگر کو ئی شخص غصب کی ہو ئی چیز کو کسی دو سر ی چیز کو کسی دو سر ی چیز سے ملا د ے مثلا جو گہیو ں غصب کی ہوا سے جو ملا د ے تو ا گر ا ن کا جدا کر نا ممکن ہو تو خوا ہ اس میں ز حمت ہی کیو ں نہ ہو ضرو ر ی ہے کہ ا نہیں ا یک دو سر ے سے علیحد ہ کرے اور( غصب کی ہو ئی چیز ) اس کے مالک وا پس کر د ے ۔
(۲۵۱۲) اگر کو ئی شخص طلا ئی چیز مثلا سو نے کی با لیو ں کو غصب کرے اوراس کے بعد اسے پگھلا سے تو پگھلا نے سے پہلے اور پگھلا نے کے بعد کی قیمت میں جو فر ق ہو ضر ور ی ہے کہ وہ ما لک کو ادا کرے چنا نچہ ا گر قیمت میں جو فر ق پڑا ہو وہ نہ د ینا چا ہئے اور کہے کہ میں اسے پہلے کی طر ح بنا وٴں گا تو ما لک بھی اسے مجبو ر نہیں کہ اس کی با ت قبو ل کرے اور مالک بھی اسے مجبور نہیں کر سکتا کہ وہ اسے پہلے کی طر ح بنا د ے۔
(۲۵۱۳) جس شخص نے کو ئی چیز غصب کی ہو اگر وہ اس میں کو ئی ایسی تبدیلی کرے کہ اس چیز کی حا لت پہلے سے بہتر ہو جا ئے مثلا جو سو نا غصب کیا ہو اس کے بند ے د ے تو اگر ما ل کا مالک اسے کہے کہ مجھے ما ل سی حا لت میں ( یعنی بندے کی شکل میں ) دو تو ضرور ی ہے کہ اسے د ے دے اور جو ز حمت اس نے اٹھا ئی ہو (یعنی بند ے بنا نے پر محنت کی ہو ) اس کی مز دور ی نہیں لے سکتا اور اسی طر ح وہ یہ حق نہیں ر کھتا کہ ما لک کی ا جا ز ت کے بغیر اس چیز کو اس کی پہلی حا لت میں لے آ ئے لیکن اگر اس کی ا جا ز ت کے بغیر اس چیز کو پہلے جیسا کر د ے یا کسی شکل میں کرے تو دو نو ں صو ر توں میں قیمت کا جو فر ق ہے اس کا ضا من ہو نا یقینی نہیں۔
( ۲۵۱۴ ) جس شخص نے کوئی چیز غصب کی ہو ا گر وہ اس میں ا یسی تبدیلی کرے کہ اس چیز کی حالت پہلے سے بہتر ہو جا ئے اور صا حب ما ل اسے اس چیز اسے اس چیز کی پہلی حا لت میں وا پس کر نے کو کہے تو اس کے لیے واجب ہے کہ اسے اس کی پہلی حا لت میں لے آ ئے اور ا گر تبدیلی کرنے کی وجہ سے اس چیز کی قیمت پہلی حالت سے کم ہو جائے تو ضروری ہے کہ اس کا حق مالک دے لہٰذا اگر کو ئی شخص غصب کئے ہو ئے سو نے کا ہا ر بنا لے اور اس سو نے کا مالک کہے تمہا ر ے لیے لا ز م ہے کہ اسے پہلی شکل میں لے آ و تو ا گر پگھلا نے کے بعد سو نے کی قیمت اس سے کم ہو جا ئے جتنی ہار بنا نے سے پہلی تھی تو غا صب کے لیے ضر ور ی ہے کہ قیمتو ں میں جتنا فر ق ہو اس کے ما لک کو د ے۔
( ۲۵۱۵)اگر کو ئی شخص اس ز مین میں جو اس نے غصب کی ہو کھیتی با ڑ ی کر ے یا د ر خت لگائے تو فصل کی پیدا و ر در خت اور ان کا پھل خود اس کا ما ل ہے اور ز مین کا ما لک اس با ت پر را ضی نہ ہو کہ درخت اس ز مین میں ر ہیں تو جس نے وہ زمین غصب کی ہو ضر ور ی ہے کہ خوا ہ ایسا کر نا اس کے لئے نقصا ن دہ ہی کیو ں نہ ہو وہ فو را ا پنی فصل یا در ختو ں کو ز مین سے اکھڑ لے نیز ضر ور ی ہے کہ جتنی مد ت فصل اور در خت اس ز مین میں ر ہے ہو ں اتنی مد ت کا کر ا یہ ز مین کے ما لک کو د ے اور جو خرا بیا ں ز مین میں ر ہے ہو ں ا تنی مد ت کا کرا یہ ز مین میں پیدا ہو ئی ہو ں ا نہیں در ست کر ے مثلا جہا ں در ختو ں کو ا کھیڑ نے سے ز مین میں گڑ ھے پڑ گئے ہوں ا س جگہ کو ہموا ر کر ے اور ا گر ا ن خر ا بیو ں کی و جہ سے ز مین کی قیمت پہلے سے کم ہو جا ئے تو ضرو ر ی ہے کہ قیمت میں جو فر ق پڑ ے وہ بھی ادا کر ے اور وہ ز مین کے ما لک کو اس با ت پر مجبو ر نہیں کر سکتا کہ زمین اس کے ہاتھ بیچ دے یا کرائے پر دے دے نیز زمین کا مالک بھی اسے مجبور نہیں کر سکتا کہ درخت یا فصل اس کے ہا تھ بیچ د ے ۔
(۲۵۱۶) اگر ا یک ز مین کا ما لک اس با ت پر را ضی ہو جا ئے کہ فصل اور پھل اس کی ز مین میں ر ہیں تو جس شخص نے زمین غصب کی ہو اس کے لئے لا ز م نہیں کہ فصل اور در ختو ں کو ا کھیڑ ے لیکن ضر ور ی ہے کہ جب ز مین غصب کی ہو اس و قت سے لے کر ما لک کے را ضی ہو نے تک کی مد ت کا ز مین کا کرا یہ د ے ۔
( ۲۵۱۷) جو چیز کسی نے غصب کی ہو اگر وہ تلف ہو جا ئے اور ا گر وہ چیز گا ئے اور بھیڑ کی طر ح ہو جن کی خصو صیا ت کی بنا پر عقلا کی نظر میں فر دا فر دا مختلف ہو تی ہے تو ضر ور ی ہے کہ غا صب اس چیز کی قیمت ادا کرے اور ا گر اس و قت اور ضر ور ت مختلف ہو نے کی و جہ سے اس کی با زا ر کی قیمت بد ل جا گئی ہو تو ضر ور ی ہے کہ وہ قیمت د ے جو تلف ہو نے کے و قت تھی اور ا حتیا ط مستحب یہ ہے کہ غصب کر نے کے وقت سے لے کر تلف ہو نے تک اس چیز کی جو ز یا د ہ سے ز یا د ہ قیمت ر ہی ہو وہ د ے ۔
( ۲۵۱۸) جو چیز کسی نے غصب کی ہو اگر وہ تلف ہو جا ئے تو ا گر وہ گیہو ں اور جو کی ما نند ہو جن کی فر دا فر دا قیمت کا ذا تی خصو صیا ت کی بنا پر با ہم فر ق نہیں ہو تا تو ضر ور ی ہے کہ( غاصب نے )جو چیز غصب کی ہو اسی جیسی چیز مالک کو د ے لیکن جو چیز د ے ضرور ی ہے کہ اس کی قسم اپنی خصو صا ت میں اس غصب کی ہو ئی چیز کی قسم کے ما نند ہو جو کہ تلف ہو گئی ہے مثلا ا گر بڑ ھیا قسم کا چا و ل غصب کیا تھا تو گٹھیا قسم کا چا و ل نہیں د ے سکتا ۔
(۲۵۱۹) اگر ا یک شخص بھیڑ جیسی کو ئی چیز غصب کر ے اور وہ تلف ہو جا ئے توا گر اس کی با ز ا ر کی قیمت میں فر ق نہ پڑا ہو لیکن جتنی مد ت وہ غصب کر نے وا لے کے پا س ر ہی ہو اس مد ت میں مثلا فر بہ ہو گئی ہو لیکن یہ فر بہی غا صب کی بہتر دیکھ بھا ل سے نہ ہو اور پھر تلف ہو جا ئے تو ضرور ی ہے کہ فر بہ ہو نے کے و قت کی قیمت ادا کرے ۔
( ۲۵۲۰) جو چیز کسی نے غصب کی ہو اگر کو ئی اور شخص وہی چیز اس سے غصب کرے اور وہ تلف ہو جا ئے تو ما ل کا ما لک ا ن دو نو ں میں سے ہر ا یک سے اس کا عو ض کی کچھ مقدا ر کا مطالبہ کر سکتا ہے لہذا ا گر ما ل کا ما لک ا س کا عو ض پہلے غاصب سے لے لے تو پہلے غا صب نے جو کچھ د یا ہو وہ دو سر ے غا صب سے لے سکتا ہے لیکن اگر ما ل کا ما لک اس کاعو ض دوسرے غاصب سے لے لے تو اس نے جو کچھ د یا ہے اس کا مطا لبہ دوسرا غاصب پہلے سے نہیں کر سکتا ۔
( ۱ ۲۵۲) جس چیز کو بیچا جا ئے اگر اس میں معا ملے کی شر طو ں میں سے کو ئی ایک مو جو د نہ ہو مثلا جس چیز کی خر ید و فروخت وز ن کر کے کرنی ضر ور ی ہو اگر اس کا معا ملہ بغیر وز ن کئے کیا جا ئے تو معا ملہ با طل ہے اور ا گر بیچنے وا لا اور خرید ار معا ملہ سے قطع نظر اس با ت پر ر ضا ہو ں کہ ا یک دو سر ے کے ما ل میں تصر ف کر یں تو کو ئی ا شکا ل نہیں ہے ورنہ جو چیز ا نہو ں نے ایک دو سر ے سے لی ہو وہ غصبی ما ل کی ما نند ہے اور ا ن کے لئے ضر ور ی ہے کہ ا یک دوسرے کی چیز یں وا پس کر د یں ار دو نو ں سے جسکے بھی ہا تھو ں دو سر ے کا ما ل تلف ہو جائے تو خوا ہ اسے معلو م ہو یا نہ ہو کہ معاملہ با طل تھا ضرور ی ہے کہ اس کا عو ض د ے ۔
( ۲۵۲۲) جب ا یک کو ئی ما ل کسی بیچنے وا لے سے اس مقصد سے لے لے کہ اسے د یکھے یا کچھ مدت اپنے پا س ر کھے تا کہ ا گر پسند آ ئے تو خر ید لے تو ا گر وہ ما ل تلف ہو جا ئے تو مشہو ر قول کی بنا پر ضر ور ی ہے کہ اس کا عوض اس کے ما لک کو دے ۔
گم شد ہ ما ل پا نے کے ا حکا م
( ۲۵۲۳ ) اگر شخص کو کسی دو سر ے کا گم شد ہ ایسا ما ل ملے جو حیوا نا ت میں سے نہ ہو اور جس کی کو ئی اور نشا نی بھی نہ ہو جس کے ذ ر یعے اس کے ما لک کا پتا چل سکے تو خوا ہ اس کی قیمت ایک در ہم ۔۱۲ء۶ چنے سکہ دا ر چا ند ی سے کم ہو یا نہ ہو وہ ا پنے لئے لے سکتا ہے لیکن احتیا ط مستحب ہے کہ وہ شخص اس ما ل کو اس کے ما لک کی طرف سے فقیر و ں کو صد قہ کر د ے یہی حکم اس رو پے پیسے کا ہے جس پر کو ئی علا مت نہ ہو ہا ں اگر اس کی مقدا ر یا ز ما ن و مکا ن کی خصوصیات اس پیسے کے لیے علا مت بن سکتی ہو ں تو اس کے با ر ے میں مسئلہ ۲۵۲۴) کے مطا بق اعلا ن کرا نا ضر و ر ی ہے ۔
( ۲۵۲۴) اگر کو ئی شخص کو ئی ا یسی چیز پا ئے جس پر کو ئی ایسی نشا نی ہو جس کے ذریعے اس کے مالک کا پتا چلا یا جا سکے تو ا گر اسے معلو م ہو کہ اس کا ما لک ا یک ایسا کا فر ہے جس کا ما ل محتر م ہے تو اس صو ر ت میں کہ اس چیز کی قیمت ایک د ر ہم تک پہنچ جا ئے تو ضرور ی ہے کہ جس د ن وہ چیز ملی ہو اس سے ا یک سا ل تک لو گو ں کی بیٹھکو ں ( یا مجلسو ں ) میں اس کا اعلا ن کرے۔
(۲۵۲۵) اگر ا نسا ن خو د اعلا ن نہ کرنا چا ہے توا یسے آ د می کو ا پنی طر ف سے اعلا ن کر نے کے لئے کہہ سکتا ہے جس کے متعلق اسے اطمینا ن ہو کہ وہ اعلا ن کر د ے گا ۔
( ۲۵۲۶) اگر مذکو ر ہ شخص ایک سا ل تک اعلا ن کر ے اور ما ل کا ما لک نہ ملے تو اس صو رت میں جبکہ وہ ما ل حر م پا ک مکہ کے علا و ہ کسی چیز سے ملا ہووہ اسے اس کے ما لک کے لئے اپنے پا س ر کھ سکتا ہے اور اس کے عین ما ل کو محفو ظ ر کھ کر استفا د ہ بھی کر سکتا ہے تا کہ جب بھی وہ ملے اسے د ے دے یا ما ل کے ما لک کی طر ف سے فقیر و ں کو صد قہ کر د ے اور احتیا ط لا ز م یہ ہے کہ وہ خو د نہ لے اور ا گر وہ ما ل اسے حر م پا ک میں ملا ہو تو احتیا ط وا جب یہ ہے کہ اسے صدقہ کر د ے ۔
( ۲۵۲۷) اگرا یک سا ل تک اعلا ن کر نے کے بعد بھی ما ل ما لک نہ ملے اور جسے وہ ما ل ملا ہو وہ اس کے ما لک کے لئے اسے پا س ر کھ لے (یعنی جب ما لک ملے گا اسے دو ں گا ) اور وہ مال تلف ہو جا ئے تو ا گر ا س نے ما ل کی نگہدا شت میں کو تا ہی نہ بر تی ہو اور تعد ی بھی نہ کی ہو تو پھر وہ ذمہ دا ر نہیں ہے لیکن ا گر وہ ما ل اس کے ما لک کی طرف سے صد قہ کر چکا ہو تو ما ل کے مالک کو اختیا ر ہے کہ اس صد قے پر را ضی ہو جا ئے یا ا پنے ما ل کے عو ض کا مطا لبہ کرے اور صدقے کا ثوا ب صد قہ کر نے والے کو ملے گا ۔
(۲۵۲۸ ) جس شخص کو کو ئی ما ل ملا ہو اگر وہ اس طر یقے کے مطا بق جس کا ذکر ا و پر کیا گیا ہے عمداً اعلا ن نہ کر ے ( اعلا ن نہ کر کے اگر چہ ) اس نے گنا ہ کیا ہے لیکن اب اسے احتما ل ہو کہ اعلا ن کر نا مفید ہو گا تو پھر بھی اس پر وا جب ہے کہ اعلان کرے ۔
( ۲۵۲۹) اگر دیوا نے یا نا با لغ کو ئی ایسی چیز مل جا ئے جس میں علا مت مو جو د ہو اور اس کی قیمت ا یک د ر ہم کے مطا بق ہو تو اس کا سر پر ست اعلا ن کر ا سکتا ہے بلکہ ا گر ہو چیز سر پر ست نے بچے یا دیوا نے سے لے لی ہو تو اس پر وا جب ہے کہ اعلا ن کرے اور اگر ا یک سا ل تک اعلا ن کر ے پھر بھی ما ل کا ما لک نہ ملے تو ضرو ر ی ہے کہ جو کچھ مسئلہ ۲۵۲۶ میں بتا یا گیا ہے اس کے مطا بق عمل کر ے ۔
(۲۵۳۰) اگر ا نسا ن اس سا ل کے دو را ن جس میں وہ ( ملنے وا لے کے با ر ے میں ) اعلا ن کر ر ہا ہو ما ل کے ما لک کے ملنے سے نا ا مید ہو جا ئے تو ا حتیا ط کی بنا پر ۔۔ ضر ور ی ہے کہ حاکم شر ع کی ا جا ز ت سے ما ل کو صد قہ کر د ے
( ۲۵۳۱) اگر اس سا ل کے دورا ن جس میں ( ا نسا ن ملنے وا لے ما ل کے با ر ے میں ) اعلان کر رہا ہو ما ل تلف ہو جائے تو ا گر اس شخص نے اس ما ل کی نگہد ا شت میں کو تا ہی کی ہو یا تعدی یعنی بے جا استعما ل کرے تو وہ ضا من ہے کہ اس کا عو ض اس کے ما لک کو د ے اور ضروری ہے کہ اعلا ن کر تا ر ہے اور ا گر کو تا ہی یا تعد ی نہ کی ہو تو پھر اس پر وا جب نہیں ہے
( ۲۵۳۲) اگر کو ئی ما ل جس پر کو ئی نشا نی ( یا ما ر کہ ) ہو اور اس کی قیمت ا یک در ہم تک پہنچتی ہو ایسی جگہ ملے جس کے بار ے میں معلو م ہو کہ اعلا ن کے ذ ر یعے اس کا ما لک نہیں ملے گا تو ضر ور ی ہے کہ ( جس شخص کو وہ مال ملا ہو ) وہ پہلے دن ہی اسے ۔۔ احتیا ط لا ز م کی بنا پر حا کم شر ع کی ا جا ز ت سے اس کے ما لک کی طرف سے فقیر و ں کو صد قہ کر د ے اور ضرور ی نہیں کہ وہ ا یک سا ل ختم ہو نے تک انتظا ر کر ے۔
( ۲۵۳۳) اگر کسی شخص کو کو ئی چیز ملے اور وہ ا سے ا پنا ما ل سمجھتے ہو ئے اٹھا لے اور بعد میں اسے پتا چلے کہ وہ اس کا ا پنا مال نہیں ہے تو جو ا حکا م اس سے پہلے و ا لے مسا ئل میں بیا ن کئے گئے ہیں ا نہیں ا ن کے مطا بق عمل کر ے
(۲۵۳۴) جو چیز ملی ہو ضر و ر ی ہے کہ اس کا اس طر ح اعلا ن کیا جا ئے کہ اگر اس کا ما لک سنے تو اسے غا لب گما ن ہو کہ وہ چیز اس کا ما ل ہے اور اعلا ن کر نے میں مختلف مو ا قع کے لحا ظ سے فرق ہو تا ہے مثلا بعض او قا ت اتنا کہنا کا فی ہے ”مجھے کو ئی چیز ملی ہے “ لیکن بعض صور تو ں میں ضر ور ی ہے کہ اس چیز کی جنس کا تعین کرے مثلا یہ کہے کہ سو نے کا ا یک ٹکرا مجھے ملا ہے “ اور بعض صو رتو ں میں اس چیز کی بعض خوصیا ت کا بھی اضا فہ ضر ور ی ہے مثلا کہے سو نے کی بالیاں مجھے ملی ہیں لیکن بہر حا ل ضرو ر ی ہے کہ اس چیز کی تمام خصوصیا ت کا ذکر نہ کر ے تا کہ وہ چیز معین نہ ہو جا ئے اعلا ن ایسی جگہ سے کیا جا ئے جہا ں سے ما لک کو اطلا ع ملنے کا احتما ل ہو۔
(۲۵۳۵) اگر کسی کو کو ئی چیز مل جا ئے او ر دو سرا شخص کہے کہ یہ میر ا ما ل ہے اور اس کی نشا نیا ں بھی بتا د ے تو وہ چیز اس دو سر ے شخص کو اس و قت د ینا ضر ور ی ہے جب اسے اطمینان ہو جائے کہ یہ اسی کا ما ل ہے یہ ضر ور ی نہیں کہ وہ شخص ایسی نشا نیا ں بتا ئے جن کی طر ف ما ل کا مالک بھی تو جہ نہیں د یتا ۔
( ۲۵۳۶) کسی شخص کو جو چیز ملی ہو اگر اس کی قیمت ا یک د ر ہم تک پہنچے تو ا گر وہ اعلا ن نہ کرے اور اس چیز کو مسجد یا کسی دو سر ی جگہ جہا ں لو گ جمع ہو تے ہو ں ر کھ د ے اور وہ چیز تلف ہو جا ئے یا کو ئی دوسرا شخص اسے اٹھا لے تو جس چیز کو مسجد یا کسی دو سری جگہ جہا ں لو گ جمع ہو تے ہو ں ر کھ د ے اور وہ چیز تلف ہو جا ئے یا کو ئی دو سرا شخص اسے اٹھا لے تو جس چیز کو وہ چیز پڑ ی ہو ئی ملی ہو وہ ذ مہ دا ر ہے ۔
(۲۵۳۷) اگر کسی شخص کو کو ئی ایسی چیز مل جا ئے جو ا یک سا ل تک با قی نہ ر ہتی ہو یا ا ن تما م خصوصیا ت کے سا تھ جب تک کہ وہ با قی ر ہے اس چیز کی حفا ظت کر ے جو اس کی قیمت میں ا ہمیت ر کھتی ہو ں اور ا حتیا ط لا ز م یہ ہے کہ اس مد ت کہ دو را ن اس کا اعلا ن بھی کر تا ر ہے اور اگر اس کا ما لک نہ ملے۔۔توا حتیا ط لا ز م کی بنا پر ۔۔ حا کم شر ع یا اس کے و کیل کی اجا ز ت سے اس کی قیمت کا تعین کر ے اور اسے بیچ د ے اور پیسو ں کو ا پنے پاس ر کھے اور اس کے ساتھ سا تھ اعلا ن بھی جا ر ی ر کھے اور ا گر ا یک سا ل تک ا ن کا ما لک نہ ملے تو ضر ور ی ہے کہ جو کچھ مسئلہ ۲۵۲۶ میں بتا یا گیا ہے اس کے مطا بق عمل کرے ۔
(۲۵۳۸) جس چیز کسی کو پڑ ی ہو ئی ملی ہو اگر و ضو کر تے و قت یا نما ز پڑ ھتے و قت وہ اس کے پا س ہو وہ اس کے پا س ہو اور ا گر وہ ما لک کے ملنے کی صو ر ت میں اسے نہ لو ٹا نا چاہتا ہو تو اس کا و ضو اور نما ز با طل نہیں ہو گئی ۔
( ۲۵۳۹) اگر کسی شخص کا جو تا ا ٹھا لیا جا ئے اوراس کی جگہ کسی اور کا جو تا ر کھ سکتا ہے اور اگر وہ شخص کہ جو جو تا ر کھا ہے وہ اس شخص کا ما ل ہے جو اس کا جو تا لے گیا ہے اور وہ اس با ت پر راضی ہو کہ جو تا وہ لے گیا ہے اس کے ا س عو ض اس کا جو تا ر کھ لے تو و ہ ا پنے جو تے کے بجائے وہ جو تا ر کھ سکتا ہے اسی طر ح ا گر وہ شخص اس کا جو تا نا حق اور ظلما لے گیا ہے تب بھی یہی حکم ہے لیکن اس صو رت میں ضر ور ی ہے کہ اس جو تے کی قیمت اس کے ا پنے جو تے کی قیمت سے ز یا د ہ قیمت ہو ور نہ زیا د ہ قیمت کے متعلق مجہو ل الما لک کا حکم جا ر ی ہو گا اور ا ن دو صو ر تو ں کے علا و ہ اس جو تے پر مجہول الما لک کا حکم جا ر ی ہو گا ۔
( ۲۵۴۰) اگر ا نسا ن کے پاس مجہو ل المالک مال ہو اور اس ما ل پر لفظ گم شد ہ کا ا طلا ق نہ ہو تا ہو تو اس صو رت میں کہ جب اسے اطمینا ن ہو کہ اس کے اس ما ل میں تصر ف کر نے پر ما ل کا مالک را ضی ہو گا تو جس طر ح بھی ہو اس ما ل میں تصر ف کر نا چا ہے اس کے لیے جا ئز ہے اگر ا طمینا ن نہ ہو تو ا نسا ن کے لیے لا ز م ہے کہ اس کے ما لک کو تلا ش کرے اور جب تک اس کے ملنے کی ا مید ہو اس و قت تک تلا ش کر ے اور اس کے ما لک کے ملنے سے ما یو س ہونے کے بعد اس مال کو بطور صدقہ فقیر کو دینا ضروری ہے احتیاط لازم یہ ہے کہ حاکم شرع کی اجازت سے صدقہ دے اور اگر بعد میں مال کا ما لک مل جا ئے اور صد قہ دینے پر را ضی نہ ہو تو احتیا ط وا جب کی بنا پر اسے اس کا عوض د ے د ے ۔
حیو انا ت کو شکا ر اورذ بح کر نے کے احکا م
( ۲۵۴۱) حیوا ن جنگلی ہو یا پا لتو … حرا م گو شت حیوا نو ں کے علا و ہ جن کا بیا ن کھا نے اور پینے وا لی چیز و ں کے احکا م میں آ ئے گا اس کو اس طر یقے کے مطا بق ذ بح کیا جا ئے جو بعد میں بتایا جا ئے گا تو اس کی جا ن نکل جا نے کے بعد اس کا گو شت حلا ل اور بد ن پا ک ہے لیکن ا و نٹ مچھلی اور ٹڈ ی کے حلا ل کر نے کا طر یقہ الگ ہے جسے آ ئند ہ مسا ئل میں بیان کیا جا ئے گا ۔
( ۲۵۴۲) وہ جنگلی حیوا ن جن کا گو شت حلا ل ہو مثلا ہر ن ، چکو ر اور پہا ڑ ی بکر ی اور وہ حیوا ن جن کا گو شت حلا ل ہو اور جو پا لتو ر ہے ہو ں اور بعد میں جنگلی بن گئے ہوں مثلاً پالتو گائے اور اونٹ جو بھاگ گئے ہوں اور جنگلی بن گئے ہوں اگر ا نہیں اس طر یقے کے مطا بق شکا ر کیا جائے جس کا ذ کر بعد میں ہو گا اور وہ پا ک اور حلا ل ہیں لیکن حلا ل گو شت والے پا لتو حیوا ن مثلا بھیڑ اور گھر یلو مر غ اور حلا ل گو شت وا لے وہ جنگلی حیوا ن جو تر بیت کی و جہ سے پا لتو بن جائیں شکار کر نے سے پا ک اور حلا ل نہیں ہو تے ۔
( ۲۵۴۳) حلا ل گو شت و الا جنگلی حیوا ن شکا ر کر نے سے اس صو رت میں پا ک اور حلا ل ہو تا ہے جب ہو بھا گ سکتا ہو یا اڑ سکتا ہو لہذا ہر ن کا وہ بچہ جو بھا گ نہ سکے اور چکو ر کا جو بچہ جو ا ڑ نہ سکے شکا ر کر نے سے پا ک اورحلا ل نہیں ہوتے اور ا گر کو ئی شخص ہر نی کو اور اس کے ایسے بچے کو اور اس کے ایسے بچے کو جو بھا گ نہ سکتا ہو ا یک ہی تیر سے شکا ر کرے تو ہر نی حلا ل او ر اس کا بچہ حرا م ہو گا ۔
(۲۵۴۴) حلا ل گو شت وا لے وہ حیو ا ن جو ا چھلنے والا خو ن نہ ر کھتا ہو مثلا مچھلی ا گر خو د بخو د مر جائے تو پا ک ہے لیکن اس کا گو شت کھا یا نہیں جا سکتا۔
(۲۵۴۵) حرا م گو شت والا وہ حیوا ن کو ا چھلنے والا خو ن نہ ر کھتا ہو مثلا سا نپ اس کا مر دہ پا ک ہے لیکن ذ بح کر نے سے وہ حلا ل نہیں ہو تا ۔
(۲۵۴۶) کتا اور سو ر ذ بح کر نے اور شکا ر کر نے سے پا ک نہیں ہو تے اور ا ن کا گو شت کھا نا بھی حرا م ہے اور وہ حرا م گوشت والا جو بھیڑیئے اور چیتے کی طر ح چیر پھا ڑ کر نے والا اور گوشت کھا نے ہو اگر اسے اس طر یقے کے مطا بق ذبح کیا جا ئے جس کا ذکر بعد میں کیا جائے گا یا تیر یا اسی طر ح کی طر ح کسی چیز سے شکا ر کیا جا ئے تو وہ پا ک ہے لیکن اس کا گوشت حلا ل نہیں ہو تا اور ا گر اس کا شکا ر ی کتے کے ذ ر یعے کیا جا ئے تو اس کا بد ن پا ک ہونے میں بھی اشکا ل ہے ۔
(۲۵۴۷) ہا تھی ر یچھ اور بند ر جو کچھ ذ کر ہو چکا ہے اس کے مطا بق در ندہ حیوا نو ں کا حکم ر کھتے ہیں لیکن حشرا ت ( کیڑے مکو ڑ ے ) اور وہ بہت چھو ٹے حیوا نا ت جو ز یر ز مین ر ہتے ہیں جیسے چو ہا اور گو ہ ( و غیر ہ ) اگر اچھلنے والا خو ن رکھتے ہو ں اور ا نہیں ر کھتے ہو ں اور ا نہیں ذ بح کیا جا ئے تو ان کا گو شت تو ان کا گو شت اور کھا ل پا ک نہیں ہو ں گے ۔
(۲۵۴۸)اگر زندہ حیوان کے پیٹ سے مُردہ بچّہ نکلے یا نکالا جائے تو اس کا گوشت کھانا حرام ہے۔
حیوا نا ت کو ذ بح کر نے کا طر یقہ
(۲۵۴۹) حیوا نا ت کو ذ بح کر نے کا طر یقہ یہ ہے کہ اس کی گر د ن کی چا ر بڑ ی ر گو ں کو مکمل طو ر پر کا ٹا جا ئے ان میں صر ف چیرا لگا نا مثلا صر ف گلا کا ٹنا احتیا ط کی بنا پر کا فی نہیں ہے اور حقیقت یہ چا ر ر گو ں کو کا ٹنا نہ ہو ا مگر ( شر عا ذ بیحہ اس و قت صحیح ہو تا ہے ) جب ان چا ر رگو ں کو کا ٹ کر گر ہ کے نیچے سے کا ٹا جا ئے او ر وہ چا ر ر گیں سا نس کی نا لی اور کھا نے کی نا لی اوردو مو ٹی ر گیں ہیں جو سا نس کی نا لی کے دو نو ں طرف ہو تی ہیں
(۲۵۵۰) اگر کو ئی شخص چا ر ر گو ں میں سے بعض کو کا ٹے اور پھر حیو ا ن کے مر نے تک صبر کرے اور با قی ر گیں بعد میں کا ٹے تو اس کا کو ئی فا ئد ہ نہیں لیکن اس صو رت میں جبکہ چاروں ر گیں حیوا ن کی جا ن نکلنے سے پہلے کا ٹ د ی جا ئیں مگر حسب معمو ل مسلسل نہ کا ٹی جائیں تو وہ حیوا ن پا ک اور حلا ل ہو گا اگر چہ احتیا ط مستحب یہ ہے کہ مسلسل کا ٹی جا ئیں
( ۲۵۵۱) اگر بھیڑ یا کسی بھیڑ کا گلااس طر ح پھاڑ د ے او ر چا ر ر گو ں میں سے جنہیں ذ بح کرتے و قت کا ٹنا ضر ور ی ہے کچھ بھی با قی نہ ر ہے تو وہ بھیڑ حرا م ہو جا تی ہے اور صر ف سا نس کی نالی با لکل با قی نہ ر ہے تب بھی یہی حکم ہے بلکہ اگر بھیڑ حرا م یا گر د ن کا کچھ حصہ پھا ڑ د ے اور چا رو ں ر گیں سر سے لٹکی ہو ئی یا بدن سے لگی ہو ئی با قی ر ہیں تو احتیا ط کی بنا پر وہ بھیڑ حرا م ہے لیکن اگر بد ن کا کو ئی دو سرا حصہ پھا ڑ ے تو اس صو رت میں جبکہ بھیڑ ابھی ز ند ہ ہو اور اس طر یقے کے مطابق ذ بح کی جا ئے جس کا ذ کر بعد میں ہو گا تو حلا ل اور پا ک ہو گئی
حیوا ن کو ذ بح کر نے کی شرا ئط
(۲۵۵۲) حیوا ن کو ذ بح کر نے کی چند شر طیں ہیں :
(۱) جو شخص کسی حیوا ن کو ذ بح کر ے خو ا ہ مر د ہو یا عو رت اس کے لے ضر ور ی ہے کہ مسلما ن ہو اور وہ مسلما ن بچہ بھی جو سمجھدا ر ہو یعنی بر ے بھلے کی سمجھ ر کھتا ہو حیو ان کو ذ بح کر سکتا ہے لیکن غیر کفا ر اور ا ن فر قو ں کے لو گ جو جفا ر کے حکم میں ہیں مثلا نوا صب اگر کسی حیوا ن کو ذ بح کر یں تو وہ حلا ل نہیں ہو گا بلکہ کتا بی کا فر ( مثلا یہو د ی اور عیسا ئی ) بھی کسی حیوا ن کو ذ بح کر ے اگر چہ بسم اللہ بھی کہے تو بھی احتیا ط وا جب کی بنا پر حیوا ن حلا ل نہیں ہو گا ۔
(۲)حیوان کو اس چیز سے ذ بح کیا جا ئے جو لو ہے ( یا اسٹیل ) کی بنی ہو ئی ہو لیکن اگر لو ہے کی چیز دستیا ب نہ ہو تو اسے ایسی چیز مثلا شیشے اور پتھر سے بھی ذ بح کیا جا سکتا ہے جو اس کی چارو ں ر گیں کا ٹ د ے اگر چہ ذ بح کر نے کی ( فو ر ی ) ضرو ر ت پیش نہ آئی ہو ۔
( ۳ ) ذ بح کر تے وقت حیوا ن قبلے کی طر ف ہو حیو ا ن کا قبلہ ر خ ہو نا خوا ہ وہ بیٹھا ہو یا کھڑا ہو دو نوں حا لتو ں میں ایسا ہو جیسے انسا ن نما ز میں قبلہ رُ خ ہو تا ہے اور اگر حیوا ن دا ئیں طرف سے با ئیں طرف لیٹا ہوتو ضر ور ی ہے کہ حیوا ن کی گر دن اور اس کا پیٹ قبلہ رُخ ہو اور اس کے پاؤں ہا تھو ں اور منہ کا رخ ہو نا لا ز م نہیں ہے جو شخص جا نتا ہو کہ ذ بح کر تے و قت ضر ور ی ہے کہ حیوا ن قبلہ ر خ ہو ا گر وہ جا ن بو جھ اس کا منہ قبلے کی طرف نہ کر ے تو حیوا ن حرا م ہو جا تا ہے لیکن اگر ذ بح کر نے وا لا بھو ل جا ئے یا مسئلہ نہ جا نتا ہو یا قبلے کے با ر ے میں اسے اشتبا ہ ہو یا یہ نہ جا نتا ہو کہ قبلہ کس طرف ہے یا حیوا ن کا منہ قبلے کی طرف نہ کر سکتا ہو تو پھر اشکا ل نہیں اور ایسے مسلمان کا ذ بح کر نا ذ بح کر نا جو جا نور کے قبلہ رو ہو نے کا عقید ہ نہ ر کھتا ہو درست ہے چا ہے وہ جا نو ر کو قبلہ رو نہ ر کھے احتیا ط مستحب یہ ہے کہ حیوا ن کو ذ بح کر نے والا بھی قبلہ ر خ ہو ۔
(۴) کو ئی شخص کسی حیوا ن کو ذ بح کر تے و قت یا ذ بح سے کچھ پہلے ذ بح کر نے کی نیت سے خدا کا نا م لے اور صر ف بسم ا للہ کہہ د ے تو کا فی ہے بلکہ اگر صر ف اللہ کہہ د ے تو بعید نہیں کہ کا فی ہو اور ا گر ذ بح کر نے کی نیت کے بغیر خدا کا نا م لے تو ہو حیو ا ن پا ک ہو تا اور اس کا گو شت بھی حر ا م ہے لیکن اگر بھو ل جا نے کی و جہ سے خدا کا نا م نہ لے تو اشکا ل نہیں ہے ۔
(۵) ذ بح ہو نے کے بعد حیوا ن حر کت کر ے اگر چہ مثا ل کے طو ر پر صر ف آ نکھ یا د م کو حر کت د ے یا ا پنا پاؤں ز مین پر ما ر ے اور حکم اس صو رت میں ہے جب ذ بح کر تے و قت حیوا ن کا ز ند ہ ہو نا مشکو ک ہو اور اگر مشکو ک نہ ہو تو یہ شر ط ضر ور ی نہیں ہے۔
(۶) حیوا ن کے بد ن سے ا تنا خو ن نکلے جتنا معمو ل نکلتا ہے پس اگر خو ن اس کی رگوں میں ر گ جا ئے اور اس سے خو ن نہ نکلے یا خو ن نکلا ہو لیکن اس حیوا ن کی نو ع کی نسبت کم ہو تو وہ حیوا ن حلال نہیں ہو گا لیکن اگر خو ن کم نکلے کی و جہ یہ ہو کہ اس حیوا ن کا ذ بح کر نے سے پہلے خو ن بہہ چکا ہو تو اشکا ل نہیں ہے
(۷) حیوا ن کو گلے کو گلے کی طر ف سے ذ بح کیا جا ئے اور ا حتیا ط مستحب یہ ہے کہ گر دن کو اگلی طرف سے کا ٹا جا ئے اور چھر ی کو گر د ن کی پشت میں گھو نپ کر اس طر ح اگلی طرف نہ لا یا جا ئے کہ اس کی گر د ن پشت کی طر ف سے کٹ جا ئے ۔
( ۲۵۵۳) احتیا ط کی بنا پر جا ئز نہیں ہے کہ حیوا ن کی جا ن نکلے سے پہلے اس کا سر تن سے جدا کیا جا ئے اگر چہ ایسا کر نے سے حیوا ن حرا م نہیں ہو تا … لیکن لا پر وا ہی یا چھر ی تیز ہو نے کی و جہ سے جدا ہو جا ئے تو اشکا ل نہیں ہے اور اس طر ح حیوا ن کی بنا پر حیوا ن کی گر د ن چیر نا اور اس سفید رگ کو جو مہر ے سے حیوا ن کی د م تک جا تی ہے اور نخا ع ( حرا م مغز) کہلا تی ہے حیوا ن کی جا ن نکلنے کا نٹا جا ئز نہیں ہے۔
او نٹ کو نحر کر نے کا طر یقہ
( ۲۵۵۴) اگر ا و نٹ کو جا ن نکلنے کے کے بعد پا ک اورحلا ل کر نا مقصو د ہو ہے کہ ذ بح کے بجائے نحر کیا جا ئے ا ن شرا ئط کے سا تھ جو حیوا ن کو ذ بح کر نے کے لئے بتا ئی گئی ہیں چھر ی یا کوئی اور چیز جو لو ہے (یا اسٹیل ) بنی ہو ئی ہو اور کا ٹنے وا لی ہو ا و نٹ کی گر د ن اور سینے کے درمیا ن جو ف میں گھو نپ د یں بہتر یہ ہے کہ او نٹ اس و قت کھڑا ہو ۔
(۲۵۵۵) اگر ا ونٹ کی گر د ن کی گہرا ئی میں چھر ی گھو نپنے کی بجا ئے اسے ذبح کیا جا ئے (یعنی اس کی گر د ن کی چا ر ر گیں کا ٹی جا ئیں ) یا بھیڑ اور گا ئے یا ا ن جیسے دو سر ے حیوا نا ت کی گر د ن کہ گہرا ئی میں ا و نٹ کی طر ح چھر ی گھو نپی جائے تو ا ن کا گو شت حرا م اور بد ن نجس ہے لیکن ا گر ا ونٹ کی چا ر ر گیں کا ٹی جا ئیں اور ا بھی و ہ ز ند ہ ہو تو مذ کو ر ہ طر یقے کے مطا بق اس کی گر د ن کی گہر ا ئی میں چھر ی گھو نپی جا ئے تو اس کا گوشت حلال اور بدن پاک ہے نیز اگر گائے یا بھیڑ اور ان جیسے حوانات کی گردن کی گہرائی میں چھری گھونپی جائے تو اس کا گوشت حلال اور بدن پاک ہے نیز اگر گائے یا بھیڑ اور ان جیسے حیوانات کی گردن کی گہرائی میں چھری گھونپی جائے اور ا بھی وہ ز ند ہ ہو ں کہ ا نہیں ذ بح کر دیا جا ئے تو وہ پاک اور حلا ل ہیں ۔
(۲۵۵۶ ) اگر کو ئی حیو ا ن سر کش ہو جا ئے اور اس طر یقے کے مطا بق جو شر ع نے مقرر کیا ہے ذ بح ( یا نحر ) کر نا ممکن نہ ہو مثلا کنو یں میں گر جا ئے او ر اس با ت کا احتما ل ہو کے و ہیں مر جائے گا اور اس کا مذ کو ر ہ طر یقے کے مطا بق ذ بح ( یا نحر ) کر نا ممکن نہ ہو تو اس کے بد ن پر جہاں کہیں بھی ز خم لگا یا جا ئے اور اس ز خم کے نتیجے میں اس کی جا ن نکل جا ئے وہ حیوا ن حلا ل ہے اور اس کا رو بہ قبلہ ہو نا لا ز م نہیں لیکن ضر ور ی ہے کہ دو سر ی شر ا ئط جو حیوا ن کو ذ بح کر نے کے با ر ے میں بتائی گئی ہیں اس میں مو جو د ہو ں ۔
حیوا نا ت کو ذ بح کر نے کے مستحبا ت
(۲۵۵۷) فقہا ء رضو ان اللہ علہیم نے حیوا نا ت کو ذ بح کر نے میں کچھ چیز و ں کو مستحب شما ر کیا ہے :
(۱) بھیڑکو ذ بح کر تے و قت اس کے دو نو ں ہا تھ اور دو نو ں پاؤں با ند ھ د یئے جائیں اور دو سرا پاؤں کھلا ر کھا جا ئے اور گا ئے کو ذ بح کر تے و قت اس کے چا رو ں ہاتھ پاؤں با ند ھ د یئے جا ئیں اور د م کھلی ر کھی جا ئے اور ا و نٹ کو نحر کر تے و قت اگر وہ بیٹھا ہوا ہو تو اس کے دو نو ں ہا تھ نیچے سے گھٹنے تک یا بغل کے نیچے ا یک دو سر ے سے با ند ھ د یئے جا ئیں اور اس کے پاؤں کھلے ر کھے جا ئیں اور مستحب ہے کہ پرندے ا یک دو سر ے سے با ند ھ د یئے جا ئیں اور ا ن کے پاؤں کھلے ر کھے جائیں اور مستحب ہے کہ پر ند ے کوذ بح کر نے کے بعد چھو ڑ د یا جا ئے تا کہ وہ ا پنے پر اور با ل پھڑ پھڑا سکے ۔
( ۲) حیو ا ن کو ذ بح( یانحر ) کر نے سے پہلے اس کے سا منے پا نی ر کھا جا ئے ۔
( ۳ ) (ذ بح یا نحر کر تے و قت ) ایسا کا م کیا جا ئے کہ حیوا ن کو کم سے کم تکلیف ہو مثلا چھر ی خو ب تیز کر لی جا ئے اور حیوا ن کو جلد ی ذ بح کیا جائے ۔
حیوا نا ت کو ذ بح کر نے کے مکر و ہا ت
(۲۵۵۸) حیوانات کو ذبح کرتے وقت بعض روایات میں چند چیزیں مکروہ شمار کی گئی ہیں:
(۱) حیوان کی جان نکلنے سے پہلے اس کی کھال اُتارنا۔
(۲) حیوان کو ایسی جگہ ذبح کرنا جہاں اس کی نسل کا دوسرا حیوان اُسے دیکھ رہا ہو۔
(۳) شبِ جمعہ کو یا جمعہ کے دن ظہر سے پہلے حیوان کا ذبح کرنا۔ لیکن اگر ایسا کرنا ضرورت کے تحت ہو تو اس میں کوئی عیب نہیں۔
(۴) جس چوپائے کو انسان نے پالا ہو اسے خود اپنے ہاتھ سے ذبح کرنا۔
ہتھیا رو ں سے شکا ر کر نے کے احکا م
( ۲۵۵۹) اگر گو شت جنگلی حیو ا ن کا شکا ر ہتھیا رو ں کے ذ ر یعے کیا جا ئے اور وہ مر جا ئے تو پانچ شر طو ں کے سا تھ وہ حیوا ن حلا ل اور اس کا بد ن پا ک ہو تا ہے ۔
(۱) شکا ر کا ہتھیا ر چھر ی اورتلوا ر کی طر ح کا ٹنے والا ہو یا نیز ے اور تیر کی طر ح تیز ہو تا کہ تیز ہو نے کی و جہ سے حیوا ن کے بد ن کو چا ک کر د ے اور ا گر حیوا ن کا شکا ر جا ل یا لکڑ ی یا پتھر یا ا نہی جیسی چیز و ں کے ذر یعے کیا جا ئے تو وہ پا ک نہیں ہو تا اور اس کا کھانا بھی حرا م ہے اگر حیو ا ن کا شکا ر بندو ق سے کیا جا ئے اور اس کی گو لی ا تنی تیز ہو کہ حیوان کے بد ن میں گھس جا ئے اور اسے چا ک کر د ے تو وہ حیوا ن پا ک اور حلال ہے اگر گو لی تیز نہ ہو بلکہ دبا و کے سا تھ حیوا ن کے بد ن میں دا خل ہو اور اسے ما ر د ے یا ا پنی گر می کیو جہ سے اس کا بد ن جلا د ے اور اس جلنے کے اثر سے حیوا ن مر جا ئے تو اس حیو ا ن کے پا ک اور حلا ل ہو نے میں اشکا ل ہے ۔
(۲)ضر ور ی ہے کہ شکا ر ی مسلما ن ہو یا ایسا مسلما ن بچہ ہو جو بر ے بھلے کو سمجھتا ہو اور اگر غیر کتا بی کا فر یا و ہ شخص جو کا فر حکم میں ہو … جیسے ناصبی … کسی حیوا ن کا شکا ر کرے تو وہ شکا ر حلا ل نہیں ہے بلکہ کتا بی کا فر بھی اگرشکا ر کرے اور ا للہ کا نا م بھی لے تب بھی احتیا ط کی بنا پر وہ حیوا ن حلا ل نہیں ہو گا ۔
( ۳) شکا ر ی ہتھیا ر اس حیو ا ن کو شکا ر کر نے کے لئے استعما ل کرے اور ا گر مثلا کو ئی شخص کسی جگہ کو نشا نہ بنا ر ہا ہو اور ا تفا قا ا یک حیوا ن کو مار دے تو وہ حیوا ن پا ک نہیں ہے اور اس کا کھا نا بھی حرا م ہے لیکن آ د می شکا ر کی غر ض سے کسی خا ص حیوا ن کا نشا نہ لے اور نشا نہ کسی دو سر ے حیوا ن پر لگے تو وہ حلا ل اور پا ک ہے ۔
(۴) ہتھیا ر چلا تے و قت شکا ر ی اللہ کا نا م لے اور بنا بر ا قو ی اگر نشا نے پر لینے سے پہلے اللہ کا نا م لے تو بھی کا فی ہے لیکن ا گر جا ن بو جھ کر ا للہ کا نا م نہ لے تو شکا ر حلا ل نہیں ہو تا البتہ بھو ل جا ئے تو کو ئی اشکا ل نہیں ۔
(۵) اگر شکا ر ی حیوا ن کے پا س اس وقت پہنچے جب وہ مر چکا ہو یا ا گر ز ند ہ ہو تو ذ بح کر نے کے لیے و قت نہ ہو یا ذ بح کر نے کے لئے وقت ہو تے ہو ئے وہ اسے ذ بح نہ کر ے حتی کہ وہ مر جا ئے تو جا نو ر حرا م ہے ۔
(۲۵۶۰) اگر دو اشخا ص (مل کر ) ا یک حیوا ن کا شکا ر کر یں اور ا ن میں سے ا یک مذ کو ر ہ پوری شرا ئط کیسا تھ شکا ر کرے لیکن دو سر ے شکا ر میں سے کچھ کم ہوں مثلا ا ن دو نو ں میں سے ایک اللہ تعا لی کا نا م لے اور دو سرا جا ن بو جھ کو اللہ تعا لی کا نا م نہ لے تو وہ حیوان حلا ل نہیں ہے۔
(۲۵۶۱) اگر تیر لگنے کے بعد مثا ل کے طو ر پر حیوا ن پا نی میں گر جا ئے اور ا نسا ن کو علم ہو کہ حیوان تیر لگنے اور پا نی میں گر نے سے مرا ہے تو وہ حیوا ن حلا ل نہیں ہے بلکہ ا گر ا نسا ن کو علم نہ ہو کہ وہ فقط تیر لگنے سے مرا ہے تب بھی وہ حیوا ن حلا ل نہیں ہے ۔
( ۲۵۶۲) اگر کو ئی شخص غصبی کتے یا غصبی ہتھیا ر سے کسی حیوا ن کا شکا ر کرے تو شکا ر حلا ل ہے اور خود شکا ر ی کا ما ل ہو جا تا ہے لیکن ا س با ت کے علا و ہ کہ اس نے گنا ہ کیا ہے ضرو ر ی ہے کہ ہتھیا ر یا کتے کی ا جر ت ا س کے ما لک کو د ے ۔
( ۲۵۶۳) اگر شکا ر کر نے کے ہتھیا ر مثلا تلوا ر سے حیوا ن کے بعض ا عضا ء مثلا ہا تھ اور پاؤں اس کے بد ن سے جدا کر د یئے جا ئیں تو ہو عضو حرا م ہیں لیکن ا گر مسئلہ ۲۵۵۹ میں مذ کو ر ہ شرائط کے سا تھ اس حیوا ن کو ذ بح کیا جا ئے تو اس کا با قی ما ند ہ بدن حلا ل ہو جا ئے گا لیکن ا گر شکا ر کے ہتھیا ر سے مذکو ر ہ شرا ئط کے سا تھ حیوا ن کے دو ٹکر ے کر د یئے جا ئیں اور سر اور گر دن ا یک حصے میں ر ہیں او ر انسا ن اس و قت شکا ر کے پا س پہنچے جن اس کی جا ن نکل چکی ہو تو دو نو ں حصے حلا ل ہیں اگر حیوا ن ز ند ہ ہو لیکن ا سے ذ بح کر نے کے لیے تب بھی یہی حکم ہے لیکن اگر ذ بح کر نے کے لیے و قت ہو اور ممکن ہو کہ حیوا ن کچھ د یر ز ند ہ ر ہے تو وہ حصہ جس میں سر اور گر د ن نہ ہو حرا م ہے اور وہ حصہ جس میں سر اور گر د ن ہو اگر شر ع کے معین کر دہ طریقے کے مطا بق ذ بح کیا جا ئے تو حلال ہے ور نہ وہ بھی حرا م ہے ۔
( ۲۵۶۴) اگر لکڑ ی یا پتھر یا کسی دو سر ی چیز سے جن سے شکا ر کر نا صحیح نہیں ہے کسی حیو ا ن کے دو ٹکر ے کر د یئے جا ئیں تو وہ حصہ جس میں سر اور گر د ن نہ ہو ں حرا م ہے اور اگر حیوا ن ز ند ہ ہو اور ممکن ہو کہ کچھ د یر ز ند ہ ر ہے اور اسے شر ع کے معین طر یقے کے مطا بق ذ بح کیا جا ئے تو وہ حصہ جس میں سر اور گر د ن ہو ں حلا ل ہے ور نہ وہ حصہ بھی حرا م ہے ۔
(۲۵۶۵) جب کسی حیو ان کا شکا ر کیا جا ئے یا اسے ذ بح کیا جا ئے اور اس کے پیٹ سے زند ہ بچہ نکلے تو ا گر اس بچے کو شر ع کے معین کر د ہ طر یقے کے مطا بق ذ بح کیا جا ئے تو حلال ورنہ حرام ہے ۔
(۲۵۶۶)اگر کسی حیوا ن کا شکا ر کیا جا ئے یا اسے ذ بح کیا جا ئے اور اس کے پیٹ سے مر د ہ بچہ نکلے تو اس صو رت میں کہ جب بچہ اس حیوا ن کو ذ بح کر نے سے پہلے نہ مرا ہو اور اسی طر ح جب وہ بچہ اس حیوا ن کے پیٹ سے د یر سے نکلنے کی وجہ سے نہ مرا ہو ا گر اس بچے کی بنا و ٹ مکمل ہو اور ا و ن یا با ل اس کے بد ن پر ا گے ہو ئے ہو ں تو وہ بچہ پا ک اور حلا ل ہے
شکا ر ی کتے سے شکا ر
( ۲۵۶۷) اگر شکا ر ی کتا کسی حلا ل گو شت وا لے جنگلی حیوا ن کا شکا ر کرے تواس حیوا ن کے پاک ہو نے اور حلا ل ہو نے کے لیے چھ شر طیں ہیں :۔
(۱) کتا اس طر ح سدھا یا ہوا ہو کہ جب بھی اسے شکا ر پکڑ نے کے لیے بھیجا جا ئے چلا جا ئے اور جب اسے جا نے سے رو کا جا ئے تو ر ک جا ئے لیکن ا گر شکا ر سے نز د یک ہو نے اور شکا ر کو د یکھنے کے بعد اسے جا نے سے رو کا جا ئے اور نہ ر کے تو کو ئی حر ج نہیں ہے اور لا ز م نہیں ہے کہ اس کی عا د ت ایسی ہو کہ ا پنے ما لک کے پہنچنے سے پہلے شکا ر سے کچھ کھا لے تو بھی حر ج نہیں ہے اور اسی طر ح اگر اسے شکا ر کاخو ن پینے کی عا د ت ہو تو کو ئی ا شکا ل نہیں لیکن یہ شر ط ضرور ی ہے کہ اس کا ما لک شکا ر اس سے لینا چا ہے تو رو کا و ٹ نہ ڈا لے اور مقا بلے پر ا تر نہ آ ئے ۔
(۲) اس کا ما لک اسے شکا ر کے لیے بھیجے اور ا گر وہ ا پنے آ پ ہی شکا ر کے لیے جائے اور کسی حیوا ن کو شکا ر کر لے تو اس حیوا ن کا کھا نا حرا م ہے بلکہ کتا ا پنے آ پ شکارکے پیچھے لگ جا ئے اور بعد میں اس کا ما لک ہا نک لگا ئے تا کہ وہ جلد ی شکا ر تک پہنچے تو ا گر وہ ما لک کی آ وا ز کیو جہ سے بھا گے پھر بھی احتیا ط وا جب کی بنا پر اس شکا ر کو کھا نے سے ا جتنا ب کر نا ضرور ی ہے ۔
(۳)جو شخص کتے کو شکا ر کے پیچھے لگا ئے ضر ور ی ہے کہ مسلما ن ہو اس تفصیل کے مطابق جو اسلحہ شکا ر کر نے کی شرا ئط میں بیا ن ہو چکی ہے۔
(۴ ) کتے کو شکا ر کے پیچھے بھیجتے و قت شکا ر ی اللہ تعا لی کا نا م لے اور ا گر جا ن بو جھ کر اللہ تعالی کا نا م نہ لے تو وہ حرا م ہے لیکن اگر بھو ل جا ئے تو اشکا ل نہیں ۔
(۵) شکا ر کو کتے کے کا ٹنے سے جو ز خم آ ئے وہ اس سے مر ے لہذا اگر کتاشکا ر کا گلا گھونپ د ے یا شکا ر دو ڑ نے یا ڈر جا نے کی و جہ سے مر جا ئے تو حلا ل نہیں ہے ۔
(۶) جس شخص نے کتے کو شکا ر کے پیچھے بھیجا ہوا گر وہ ( شکا ر کئے گئے حیوا ن کے پاس ) اس و قت پہنچے جب وہ مرچکا ہو یا ا گر ز ند ہ ہو تو اسے ذ بح کر نے کے لیے وقت نہ ہو …لیکن شکا ر کے پا س پہنچنا غیر معمو لی تا خیر کی و جہ سے نہ ہو اور ا گر ایسے وقت پہنچے جب اسے ذ بح کرنے کے لیے و قت ہو لیکن وہ حیوا ن ہو لیکن وہ حیوا ن کو ذبح نہ کر ے حتی کہ مر جا ئے تو وہ حیوا ن حلا ل نہیں ہے ۔
(۲۵۶۸) جس شخص نے کتے کو شکا ر کے پیچھے بھیجا ہو ا گر وہ شکا ر کے پا س اس و قت پہنچنے جب وہ اسے ذ بح کر سکتا ہو تو ذ بح کر نے کے لوا ز ما ت مثلا اگر چھر ی نکا لنے کی و جہ سے و قت گز ر جا ئے اور حیوا ن مر جا ئے تو حلا ل ہے لیکن اگر اس کے پا س ایسی کو ئی چیز نہ ہو جس سے حیوا ن کو ذ بح کر ے اور وہ مر جا ئے تو بنا برا حتیا ط وہ حلا ل نہیں ہو تا البتہ اس صو رت میں اگر وہ شخص اس حیوا ن کو چھو ڑ د ے تا کہ کتا اسے ما ر ڈا لے تو وہ حیوا ن حلا ل ہو جا تا ہے ۔
(۲۵۶۹) اگر کئی کتے شکار کے پیچھے بھیجے جائیں اور وہ سب مل کر کسی حیوان کا شکار کریں تو اگر وہ سب کے سب ان شرائط کو پورا کرتے ہوں جو مسئلہ ۲۵۶۷ میں بیان کی گئی ہیں تو شکار حلال ہے اور اگر ان میں سے ایک کتا بھی ان شرائط کو پورا نہ کرے تو شکار حرام ہے۔
(۲۵۷۰) اگر کو ئی شخص کتے کو کسی حیوا ن شکا ر کے لیے بھجے اور وہ کتا کو ئی دو سرا حیوا ن شکا ر کرلے تو وہ شکا ر حلا ل اور پاک ہیں ۔اور اگر جس حیوان کے پیچھے بھیجا گیا ہو اسے بھی اور ایک اور حیوان کو بھی شکار کر لے تو وہ دونوں حلال اور پاک ہیں۔
(۲۵۷۱) اگر چند اشخا ص مل کر ا یک کتے کو شکا ر کے پیچھے بھیجیں اور ا ن میں سے ا یک شخص جان بوجھ کر خدا کا نام نہ لے تو وہ شکار حرام ہے نیز جو کتے شکار کے پیچھے بھیجے گئے ہوں اگر ان میں سے ایک کتا اس طر ح سد ھا یا ہوا نہ ہو جیسا کہ مسئلہ ۲۵۶۷ میں بتایا گیا ہے تو وہ شکار حرام ہے۔
(۲۵۷۲) اگربا ز یا شکا ر ی کتے کے علا و ہ کو ئی اور حیوا ن کسی جا نور کا شکا ر حلا ل نہیں ہے لیکن اگر کو ئی شخص اس شکا ر کے پاس پہنچ جا ئے اور وہ ا بھی ز ند ہ ہو اور اس طر یقے کے مطا بق جو شرع میں معین ہے اسے ذ بح کر لے تو پھر وہ حلا ل ہے۔
مچھلی اور ٹڈ ی شکا ر
(۲۵۷۳) اگر اس مچھلی کو جو پیدا ئش کے لحا ظ سے چھلکے و ا لی ہو … اگر چہ کسی عا ر ضی و جہ سے اس کا چھلکا اتر گیا ہو پا نی میں سے ز ند ہ پکڑ لیا جا ئے اور وہ پا نی سے با ہر آ کر مر جا ئے تو وہ پاک ہے اوراس کا کھا نا حلا ل ہے اگر وہ پا نی میں مر جائے تو پا ک ہے لیکن اس کا کھا نا حرام ہے مگر یہ کہ وہ مچھیرے کے جال کے اندر پانی میں مر جائے تو اس صورت میں اس کا کھانا حلال ہے ۔جس مچھلی کے چھلکے نہ ہو ں اگر چہ اسے پا نی سے زند ہ پکڑ لیا جا ئے اور پا نی کے با ہر مر ے وہ حرا م ہے ۔
(۲۵۷۴) اگر مچھلی ( ا چھل کر) پا نی سے با ہر آ گر ے یا پا نی کی لہر پھینک دے یا پا نی جذب ہو جا ئے اور مچھلی خشکی پررہ جا ئے تو ا گر اس کے مر نے سے پہلے کو ئی شخص اسے ہاتھ سے یا کسی اور ذ ر یعے سے پکڑ لے تو وہ مر نے کے بعد حلا ل ہے اگر پکڑ نے سے پہلے مر جائے تو حرا م ہے ۔
(۲۵۷۵) جو شخص مچھلی کا شکا ر کر ے ا س کے لا ز م نہیں کہ مسلما ن ہو یا مچھلی کو پکڑ نے وقت خدا کا نا م لے لیکن یہ ضروری ہے کہ مسلما ن د یکھے یا کسی اور طر یقے سے اسے ( یعنی مسلما ن کو) یہ اطمینا ن ہو گیا ہو کہ مچھلی کو پا نی سے ز ند ہ پکڑ ا ہے یا وہ مچھلی اس کے جا ل میں پا نی کے اندر مر گئی ہے ۔
(۲۵۷۶) جس مر ی ہو ئی مچھلی کے متعلق معلوم نہ ہو کہ اسے پا نی سے ز ند ہ پکڑا گیا ہے یا مر د ہ حا لت میں پکڑا گیا ہے اگر وہ مسلما ن کے ہا تھ میں ہو تو حلا ل ہے جو اس میں تصر ف کر ر ہا ہے جو اس کے حلا ل ہو نے کا ثبو ت ہے لیکن اگر کا فر کے ہا تھ میں ہو تو خوا ہ وہ کہے کہ اس نے اسے ز ند ہ پکڑا ہے حرام ہے مگر یہ کہ انسان کو اطمینان ہو کہ اس کافر نے مچھلی کو پانی سے زندہ پکڑا ہے یا وہ مچھلی اس کے جا ل میں پا نی کے ا ند ر مر گئی ہے ( تو حلا ل ہے )۔
(۲۵۷۷) ز ند ہ مچھلی کا کھا نا جا ئز ہے ۔
(۲۵۷۸) اگر ز ند ہ مچھلی کو بھو ن لیا جا ئے یا اسے پا نی کے با ہر مر نے سے پہلے ذ بح کر د یا جائے تو اس کا کھا نا جا ئز ہے
(۲۵۷۹) اگر پا نی سے با ہر مچھلی کے دو ٹکڑ ے کر لیے جا ئیں اور ان میں سے ا یک ٹکڑا ز ند ہ ہو نے کی حا لت میں پا نی میں گر جا ئے تو جو ٹکڑا پا نی با ہر وہ جا ئے اسے کھا نا جا ئز ہے ۔
(۲۵۸۰) اگر ٹڈ ی کو ہا تھ سے یا کسی او ر ذ ر یعے سے ز ند ہ پکڑ لیا جا ئے تو وہ مر جانے کے بعد حلال ہے اور یہ لا ز م نہیں کہ اسے پکڑ نے وا لا مسلما ن ہو اور اسے پکڑ تے و قت اللہ تعا لی کا نا م لے لیکن ا گر مر د ہ ٹڈ ی کا فر کے ہا تھ میں ہو اور یہ معلو م نہ ہو کہ اس نے اسے ز ند ہ پکڑا تھا یا نہیں تو ا گر چہ وہ کہے کہ اس نے اسے ز ند ہ پکڑا تھا تو وہ حرا م ہے ۔
(۲۵۸۱) جس ٹڈ ی کے پرا بھی تک نہ اگے ہو ں اور اڑ نہ سکتی ہو اس کا کھا نا حرا م ہے ۔
کھا نے پینے کی چیز و ں کے احکا م
(۲۵۸۲) ہر وہ پر ند ہ جیسے شا ہین، عقا ب اور با ز جو چیر نے پھا ڑ نے اور پنجے و الا ہو حرا م ہے اسی طر ح کوئے کی تما م قسمیں یہا ں تک کہ پہا ڑ ی کو ئے بھی ا حتیا ط وا جب کی بنا پر حرا م ہیں ہر وہ پر ند ہ جو ا ڑ تے و قت پر و ں کو ما ر تا کم اور بے حرکت زیادہ رکھتا ہے وہ پر ند ہ جو ا ڑ تے وقت پر و ں کو ما ر تا ز یاد ہ اور بے حر کت کم رکھتا ہے وہ حلا ل ہے اسی فر ق کی بنا پر حرا م گو شت پر ند و ں میں سے ا ن کی پروا ز کی کیفیت د یکھ کر پہچا نا جا سکتا ہے لیکن ا گر کسی پر ند ے کی پر اوزکی کیفیت معلو م نہ ہو تو اگر وہ پر ند ہ پو ٹا سنگدا نہ اور پاؤں کی پشت پر کا نٹا ر کھتا ہو تو ہو حلا ل ہے اور ا گر ان میں سے کو ئی ا یک علامت بھی نہ ر کھتا ہو تو وہ حرا م ہے احتیا ط لا ز م یہ ہے کہ کوئے کی تمام اقسا م حتیٰ کہ ز ا غ ( پہا ڑ ی کوئے ) سے بھی اجتناب کیا جا ئے اور جن پر ند و ں کا ذ کر ہو چکا ہے ا ن کے علا و ہ دو سر ے تمام پر ند ے مثلا مر غ کبو تر اور چڑ یا ں یہا ں تک کہ شتر مر غ اور مو ر بھی حلا ل ہیں لیکن بعض پر ند و ں جیسے ہد ہد اور ا با بیل کو ذ بح کر ما مکر و ہ ہے جو حیوانات اڑ تے ہیں مگر پر نہیں ر کھتے مثلا چمگا دڑ حرا م ہیں اور ا حتیا ط وا جب کی بنا پر زنبور (بھڑ، شہد کی مکھی ، تتیا ) مچھر اور ا ڑ نے وا لے دوسرے کیڑ ے مکو ڑ و ں کا بھی یہی حکم ہے
(۲۵۸۳) اگر اس حصے کو جس میں رو ح ہو ز ند ہ حیوا ن سے جدا کر لیا جا ئے مثلا ز ند ہ بھیڑ کی چکتی یا گو شت کی کچھ مقدا ر کا ٹ کی جا ئے تو ہو نجس اور حرا م ہے
(۲۵۸۴)حلا ل گو شت حیوا نا ت کے کچھ اجزا حرا م ہیں اور ا ن کی تعدا د چو دہ ہے :
(۱) خو ن (۲ ) فضلہ (۳)عضو تنا سل (۴)شر مگا ہ (۵)بچہ دا نی (۶)غدو د (۷) کپورے(۸)وہ چیز یں جو بھیجے میں ہو تی ہے اور چنے کے دا نے کی شکل میں ہو تی ہے (۹)حرا م مغز جو ر یڑھ کی ہڈ ی میں ہو تا ہے (۱۰)بنا بر احتیا ط لازم وہ رگیں جو ر یڑ ھ کی ہڈ ی کے ددنو ں طرف ہو تی ہیں (۱۱)پتہ (۱۲) تلی(۱۳)مثا نہ (۱۴)آ نکھ کا ڈیلا
یہ سب چیز یں پر ندو ں کے علا و ہ حلا ل گو شت حیوا نا ت میں حرا م ہیں اور پر ند و ں کا خون اوران کا فضلہ بلا اشکا ل حرا م ہیں لیکن ا ن دو چیز و ں ( خون اور فضلے ) کے علا و ہ پر ند و ں میں وہ چیز یں ہوں جو ا و پر بیا ن ہو ئی ہیں تو ا ن کا حرا م ہو نا احتیا ط وا جب کی بنا پر ہے مچھلی کا فضلہ اور ٹڈ ی کا دل فضلہ بھی اسی حکم میں شا مل ہے ا ن کے علا و ہ ا ن دو نو ں میں اور کچھ حرا م نہیں ۔
(۲۵۸۵) حرا م گو شت کا پیشا ب پینا حرا م ہے اور اسی طر ح حلا ل گو شت حیوا ن … حتیٰ کہ احتیا ط لا ز م کی بنا پر اونٹ… کا پیشا ب کا بھی یہی حکم ہے لیکن علا ج کے لئے او نٹ گا ئے اور بھیڑ کا پیشا ب پینے میں اشکا ل نہیں ہے ۔
(۲۵۸۶) چکنی مٹی کھا نا حرا م ہے نیز مٹی اور بجر ی کھا نا احتیا ط لا ز م کی بنا پر یہی حکم ر کھتا ہے البتہ (ملتا نی مٹی کے مما ثل ) داغستا نی اور آ ر مینیا نی مٹی و غیر ہ علا ج کے لیے بحا لت مجبو ر ی کھا نے میں اشکا ل نہیں ہے حصو ل شفا ء کی غر ض سے ( سید الشہدا ء امام حسین - کے مزار مبا ر ک کی مٹی یعنی ) خا ک شفا ء کی تھوڑ ی سے مقدا ر کھا نا جا ئز ہے بہتریہ ہے کہ خا ک شفا ء کی کچھ مقدا ر پا نی میں حل کر لی جا ئے تا کہ وہ حل ہو کر ختم ہو جا ئے اور بعد میں اس پا نی کو پی لیا جا ئے اسی طرح احتیا ط کی بنا پر ایسی مٹی کے با ر ے میں بھی یہی ر عا یت ر کھی جا ئے جس کے با ر ے میں یقین نہ ہو کہ اسے تر بت اقد س سے اٹھا یا گیا ہے اور ا س پر کو ئی گوا ہ بھی نہ ہو۔
(۲۵۸۷) نا ک کا پا نی اور سینے کا بلغم جو منہ میں آ جا ئے اس کا نگلنا حرا م نہیں ہے نیز اس غذا کے نگلنے میں جو خلا ل کر تے و قت دا نتو ں کے ر یخو ں سے نکلے کو ئی اشکا ل نہیں ہے ۔
(۲۵۸۸) کسی ایسی چیز کا کھا نا حرا م ہے جو مو ت کا سبب بنے یا انسا ن کے لیے سخت نقصان دہ ہو۔
( ۲۵۸۹) گھو ڑ ے ، خچر اور گد ھے کا گو شت کھا نا مکر و ہ ہے اور ا گر کو ئی ا ن سے بد فعلی کر ے تو وہ حیوا ن حرا م ہو جا تا ہے اور جو نسل بد فعلی کے بعد پیدا ہو احتیا ط وا جب کی بنا پر و ہ بھی حر ام ہو جا تی ہے اور ا ن کا پیشا ب او ر لید نجس ہو جا تی ہے اور ضر ور ی ہے کہ ا نہیں شہر سے با ہر لے جا کر دو سر ی جگہ بیچ د یا جا ئے اور ا گر بد فعلی کر نے وا لا اس حیوا ن کا ما لک نہ ہو تو اس پر لا ز م ہے کہ ا س حیوا ن کی قیمت اس کے ما لک کو د ے اگر کو ئی شخص حلا ل گو شت حیوا ن مثلا گا ئے یا بھیڑ سے بد فعلی کر ے تو ا ن کا پیشا ب اور گو بر نجس ہو جا تا ہے اور ا ن کا گو شت کھا نا حرا م ہے اور ا حتیا ط وا جب کی بنا پر اس کا دو دھ پینے کا اور ا ن کی جو نسل بد فعلی کے بعد پیدا ہو اس بھی یہی حکم ہے ضر و ر ی ہے کہ ایسے حیوا ن کو فو را ذ بح کر کے جلا دیا جائے اور جس نے اس حیوا ن کے سا تھ بد فعلی کی ہو اگروہ اس کا ما لک نہ ہو تو اس قیمت اس کے ما لک کو د ے۔
(۲۵۹۰) اگر بکر ی کا بچہ سو ر نی کا دو د ھ اتنی مقدا ر میں پی لے کے اس کا گو شت اور ہڈ یا ں اس سے قو ت حا صل کر یں تو خو د وہ اور اس کی نسل حرا م ہو جا تی ہے اور ا گر وہ اس سے کم مقدار میں میں دو د ھ پیئے تو احتیا ط کی بنا پر لا ز م ہے کہ اس کا استبرا ء کیا جا ئے اور اس کے بعد وہ حلا ل ہو جا تا ہے اس کا استبر ا ء یہ ہے کہ سا ت د ن پا ک دو د ھ پیئے اور اسے دو د ھ کی حا جت نہ ہو تو سا ت د ن گھاس کھا ئے بھیڑ کا شیر خو ا ر بچہ اور گا ئے کا بچہ اوردو سرے حلا ل گوشت حیوا نو ں کے بچے احتیاط لا ز م کی بنا پر ۔۔ بکر ی کے بچے کے حکم میں ہیں نجا ست کھانے والے حیوا ن کا گو شت کھا نا بھی حرا م ہے اور اگر اس کااستبرا ء کیا جا ئے تو حلا ل ہو جاتا ہے اور اس کے استبر ا ء کی تر کیب مسئلہ ۲۱۹میں بیا ن ہو ئی ہے ۔
(۲۵۹۱) شرا ب پینا حرا م ہے اور بعض ا حا د یث میں اسے گنا ہ کبیر ہ بتا یا گیا ہے حضرت امام جعفر صاد ق - سے روایت ہے کہ آ پ نے فر ما یا : شرا ب برا ئیو ں کی جڑ اور گنا ہو ں کا منبع ہے جو شخص شراب پیئے وہ ا پنی عقل کھو بیٹھا ہے اور اس و قت خدا تعا لی کو نہیں پہچا نتا کو ئی بھی گناہ کر نے سے نہیں چو کتاکسی شخص کا احترا م نہیں کرتا اپنے قر یبی ر شتہ داروں کے حقو ق کا پاس نہیں کر تا کھلم کھلا برا ئی کر نے سے نہیں شر ما تا پس ا یما ن اور خدا شنا سی کی رو ح اس کے بدن سے نکل جاتی ہے اور نا قص خیبث رو ح جو خدا کی ر حمت سے دُو ر ہو تی ہے اس کے بدن میں ر ہ جا تی ہے خدا اور اس کے فر شتے نیز انبیا ء و مر سلین اور مو منین اس پر لعنت بھیجتے ہیں چالیس د ن تک اس کی نما ز قبو ل نہیں ہو تی “۔
(۲۵۹۲) جس دسترخوان شرا ب پی جا ر ہی ہو اس پر چنی ہو ئی کو ئی چیز کھا نا حرا م ہے اور اسی طر ح اس دستر خوا ن پر بیٹھنا جس پر شر اب پی جا ر ہی ہو تو ا حتیا ط وا جب کی بنا پر حرا م ہے ۔
(۲۵۹۳) ہر مسلما ن پر وا جب ہے کہ اس کے اڑو س پڑو س میں جب کو ئی دو سرا مسلما ن بھوک یا پیاس سے جا ن بلب ہو تو اسے رو ٹی اور پا نی د ے کر مر نے سے بچا ئے بشر طیکہ اس طر ح اس کی ا پنی جان خطر ے میں نہ پڑ ے اور ا س طر ح وہ شخص مسلما ن نہ بھی ہو تو یہی حکم ہے کیو نکہ وہ ا یک انسان ہے اور اس کا قتل جا ئز نہیں ۔
|