نکاح کے احکام
عقد ازدواج کے ذریعے عورت ،مرد پر اور مرد ،عورت پر حلال ہو جاتے ہیں اور عقد کی دو قسمیں ہیں…پہلی دائمی اور دوسری غیر دائمی… مقررہ وقت کیلئے عقد… عقد دائمی اسے کہتے ہیں جس میں ازدواج کی مدت معین نہ ہو اور وہ ہمیشہ کے لئے ہو اورجس عورت سے اس قسم کا عقد کیا جائے اسے دائمہ کہتے ہیں۔غیر دائمی عقد وہ ہے جس میں ازدواج کی مدت معین ہو۔مثلاً عورت کے ساتھ ایک گھنٹے یا ایک دن یا ایک مہینے یا ایک سال یا اس سے زیادہ مدت کیلئے عقد کیا جائے ۔لیکن اس عقد کی مدت عورت اور مرد کی عام عمر سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے کیونکہ اس صورت میں عقد باطل ہو جائے گا۔ جب عورت سے اس قسم کاعقد کیا جائے تو اسے متعہ یا صیغہ کہتے ہیں۔
احکام عقد
(۲۳۲۳)ازدواج خواہ دائمی ہو یا غیر دائمی اس میں صیغہ(نکاح کے بول)پڑھنا ضروری ہے۔عورت اور مرد کا محض رضا مند ہونا اور اسی طرح(نکاح نامہ)لکھنا کافی نہیں ہے۔نکاح کا صیغہ یا تو عورت اور مرد خود پڑھتے ہیں یا کسی کو وکیل مقرر کر لیتے ہیں تاکہ وہ ان کی طرف سے پڑھ دے۔
(۲۳۲۴)وکیل کامرد ہونالازم نہیں بلکہ عورت بھی نکاح کاصیغہ پڑھنے کیلئے کسی دوسرے کی جانب سے وکیل ہو سکتی ہے۔
(۲۳۲۵)عورت اور مرد کو جب تک اطمینان نہ ہو جائے کہ ان کے وکیل نے صیغہ پڑھ دیا ہے اس وقت تک وہ ایک دوسرے کو محرمانہ نظروں سے نہیں دیکھ سکتے اور اس بات کا گمان کہ وکیل نے صیغہ پڑھ دیا ہے کافی نہیں ہے بلکہ اگر وکیل کہہ دے کہ میں نے صیغہ پڑھ دیا ہے لیکن اس کی بات پر اطمینان نہ ہو تو احتیاط واجب کی بنا پر تعلقات قائم نہ کریں۔
(۲۳۲۶)اگر کوئی عورت کسی کو وکیل مقرر کرے اور کہے کہ تم میرا نکاح دس دن کیلئے فلاں شخص کے ساتھ پڑھ دو اور دس دن کی ا بتداء کو معین نہ کرے تو وہ (نکاح خواں)وکیل جن دس دنوں کے لئے چاہے اسے اس مرد کے نکاح میں دے سکتا ہے۔لیکن اگر وکیل کو معلوم ہو کہ عورت کا مقصد کسی خاص دن یا گھنٹے کا ہے تو پھر اسے چاہئے کہ عورت کے قصد کے مطابق صیغہ پڑھے۔
(۲۳۲۷)عقد دائمی یا عقد غیر دائمی کا صیغہ پڑھنے کیلئے ایک شخص دو اشخاص کی طرف سے وکیل بن جائے اور اس سے خود دائمی یا غیر دائمی نکاح کر لے لیکن احتیاط مستحب یہ ہے کہ نکاح دو اشخاص پڑھیں۔
نکاح پڑھنے کا طریقہ
(۲۳۲۸)اگر عورت اور مرد خود اپنے دائمی نکاح کا صیغہ پڑھیں تو مہر معین کرنے کے بعد پہلے عورت کہے زوّجتُک نفسی علی الصداق المعلوم یعنی میں نے اس مہر پر جو معین ہو چکا ہے اپنے آپ کو تمہاری بیوی بنایا اور اس کے لمحہ بھر بعد مرد کہے قبلت التزویج یعنی میں نے ازدواج کو قبول کیا تو نکاح صحیح ہے اور اگر وہ کسی دوسرے کو وکیل مقرر کریں کہ ان کی طرف سے صیغہ نکاح پڑھ دے تو اگر مثال کے طور پر مرد کا نام احمد اور عورت کا نام فاطمہ ہو اور عورت کا وکیل کہے زوجت موکلک احمد موکلتی فاطمة علی الصداق المعلوماور اس کے لمحہ بھر بعد مرد کا وکیل کہے قبلت التزویج لموکلی احمد علی الصداق المعلوم تو نکاح صحیح ہو گا اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ مرد جو لفظ کہے وہ عورت کے کہے جانے والے لفظ کے مطابق ہو مثلاً اگر عورت زوجت کہے تو مرد قبلت التزوج کہے اور قبلت النکاح نہ کہے۔
(۲۳۲۹)اگر خود عورت اور مرد چاہیں توغیر دائمی نکاح کا صیغہ نکاح کی مدت اور مہر معین کرنے کے بعد پڑھ سکتے ہیں ۔لہٰذا عورت کہے زوّجتک نفسی فی المدة المعلومة علی المھر المعلوم اور اس کے لمحہ بھر بعد مرد کہے قبلت تو نکاح صحیح ہے اوراگر وہ کسی اور شخص کو وکیل بنائیں اور پہلے عورت کا وکیل مرد کے وکیل سے کہے زوجت موکلتی موکلک فی المدة المعلومة علی المھر المعلوم اور اس کے بعد مرد کا وکیل معمولی توقف کے بعد کہے قبلت التزویج لموکلی ھذا تو نکاح صحیح ہو گا۔
نکاح کی شرائط
(۲۳۳۰)نکاح کی چند شرطیں ہیں جو ذیل میں درج کی جاتی ہیں:
(۱)احتیاط کی بنا پر نکاح کا صیغہ عربی میں پڑھا جائے اور اگر خود مرد اور عورت صیغہ صحیح عربی میں نہ پڑھ سکتے ہوں تو عربی کے علاوہ کسی دوسری زبان میں پڑھ سکتے ہیں اور کسی شخص کو وکیل بنانا لازم نہیں ہے ۔البتہ انہیں چاہیے کہ وہ الفاظ کہیں جو زوجت اور قبلت کو مفہوم ادا کر سکیں۔
(۲)مرد اور عورت یا ان کے وکیل جو کہ صیغہ پڑھ رہے ہوں وہ قصد انشاء رکھتے ہوں یعنی اگر خود مرد اور عورت صیغہ پڑھ رہے ہوں تو عورت کا زوجتک نفسی کہنا اس نیت سے ہو کہ خود مرد اور عورت صیغہ پڑھ رہے ہوں تو عورت کا زوجتک نفسیکہنا اس نیت سے ہو کہ خود کو اس کی بیوی قرار دے اور مرد کا قبلت التزویج کہنا اس نیت سے ہو کہ وہ اس کا اپنی بیوی بننا قبول کرے اور اگرمرد اور عورت کے وکیل صیغہ پڑھ رہے ہوں تو زوجت و قبلتکہنے سے ان کی نیت یہ ہو کہ وہ مرد اور عورت جنہوں نے انہیں وکیل بنایا ہے ایک دوسرے کے میاں بیوی بن جائیں۔
(۳)جو شخص صیغہ پڑھ رہا ہو تو ضروری ہے کہ وہ عاقل ہو اور احتیاط کی بنا پر اسے بالغ بھی ہونا چاہئے۔خواہ وہ اپنے لئے صیغہ پڑھے یا کسی دوسرے کی طرف سے وکیل بنایا گیا ہو۔
(۴)اگر عورت اور مرد کے وکیل یا ان سے سر پرست صیغہ پڑھ رہے ہوں تو وہ نکاح کے وقت عورت اور مرد کو معین کر لیں۔مثلاً ان کے نام لیں یا ان کی طرف اشارہ کریں ۔لہذا جس شخص کی کئی لڑکیاں ہوں اگر وہ کسی مرد سے کہے زوجتک احدی بناتی یعنی میں نے اپنی بیٹیوں میں سے ایک کو تمہاری بیوی بنایا اور وہ مرد کہے قبلت یعنی میں نے قبول کیا تو چونکہ نکاح کرتے وقت لڑکی کو معین نہیں کیا گیا اس لئے نکاح باطل ہے۔
(۵)عورت اور مرد ازدواج پر راضی ہوں۔ہاں اگر عورت بظاہر ناپسندیدگی سے اجازت دے اور معلوم ہو کہ دل سے راضی ہے تو نکاح صحیح ہے۔
(۲۳۳۱)اگر نکاح میں ایک حرف بھی غلط پڑھا جائے جو اس کے معنی بدل دے تو نکاح باطل ہے۔
(۲۳۳۲)وہ شخص جو نکاح کا صیغہ پڑھ رہا ہو اگر…خواہ اجمالی طور پر… نکاح کے معنی جانتا ہو اور اس کے معنی کو حقیقی شکل دینا چاہتا ہو تو نکاح صحیح ہے۔یہ لازم نہیں کہ وہ تفصیل کے ساتھ صیغے کے معنی جانتا ہو۔مثلاً یہ جاننا(ضروری نہیں ہے)کہ عربی زبان کے لحاظ سے فعل یا فاعل کونسا ہے۔
(۲۳۳۳)اگر کسی عورت کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر کسی مرد سے کر دیا جائے اور بعد میں عورت اور مرد اس نکاح کی اجازت دے دیں تو نکاح صحیح ہے۔اجازت کے لئے کوئی بات کہیں یا کوئی کام ایسا انجام دیں جو رضا پر دلالت کرے۔
(۲۳۳۴)اگر عورت اور مرد دونوں کو یا ان میں سے کسی ایک کو ازدواج پر مجبور کیاجائے اور نکاح پڑھے جانے کے بعد وہ اجازت دے دیں تو نکاح صحیح ہے اور بہتر یہ ہے کہ دوبارہ نکاح پڑھا جائے۔
(۲۳۳۵)باپ اور دادا اپنے نابالغ لڑکے یا لڑکی(پوتے یا پوتی) یا دیوانے فرزند کا جو دیوانگی کی حالت میں بالغ ہو ا ہو نکاح کر سکتے ہیں اور جب وہ بچہ بالغ ہو جائے یا دیوانہ عاقل ہو جائے تو انہوں نے اس کو جو نکاح کیا ہوا گر اس میں کوئی خرابی ہو تو انہیں اس نکاح کو بر قرار رکھنے یا ختم کرنے کا اختیار ہے اور اگر کوئی خرابی نہ ہو اور نابالغ لڑکے یا لڑکی میں سے کوئی ایک اپنے اس نکاح کو منسوخ کرے تو طلاق یا دوبارہ نکاح پڑھنے کی احتیاط ترک نہیں ہوتی۔
(۲۳۳۶)جو لڑکی سن بلوغ کو پہنچ چکی ہو اور رشیدہ ہو یعنی اپنا بر ابھلا سمجھ سکتی ہو اگر وہ شادی کرنا چاہے اور کنواری ہو تو اسے چاہئے کہ اپنے باپ یا دادا سے اجازت لے یہی حکم اس کے لئے بھی ہے جو خود مختاری سے اپنی زندگی کے کاموں کو انجام دیتی ہو البتہ ماں اور بھائی سے اجازت لینا لازم نہیں۔
(۲۳۳۷)اگر لڑکی کنواری نہ ہویا کنواری ہو لیکن باپ یا دادا اس مرد کے ساتھ اسے شادی کرنے کی اجازت نہ دیتے ہوں جو عرفاً و شرعاً اس کا ہم پلہ ہو یا باپ اور دادا بیٹی کے شادی کے معاملے میں کسی طرح شریک ہونے کے لئے راضی نہ ہوں یا دیوانگی یا اس جیسی کسی دوسری وجہ سے اجازت دینے کی اہلیت نہ رکھتے ہوں تو ان تمام صورتوں میں ان سے اجازت لینا لازم نہیں ہے۔اسی طرح ان کے موجود نہ ہونے یا کسی دوسری وجہ سے اجازت لینا ممکن نہ ہو اور لڑکی کا شادی کرنا بے حد ضروری ہو تو باپ اور دادا سے اجازت لینا لازم نہیں ہے۔
(۲۳۳۸)اگر باپ یا دادا نابالغ لڑکے(یا پوتے)کی شادی کر دیں تو لڑکے(یا پوتے) کو چاہئے کہ بالغ ہونے کے بعد اس عورت کو خرچ دے بلکہ بالغ ہونے سے پہلے بھی جب اس کی عمر اتنی ہو جائے کہ وہ اس لڑکی سے لذت اٹھانے کی قابلیت رکھتا ہو اور لڑکی بھی اس قدر چھوٹی نہ ہو کہ شوہر اس سے لذت نہ اٹھا سکے تو بیوی کے خرچ کا ذمے دار لڑکا ہے۔اس صورت کے علاوہ بیوی کا خرچہ مرد کے ذمے نہیں۔
(۲۳۳۹)اگر باپ یا دادا اپنے نابالغ لڑکے(یا پوتے)کی شادی کردیں تو اگر لڑکے کے پاس نکاح کے وقت کوئی مال نہ ہوتو باپ یا دادا کو چاہئے کہ اس عورت کا مہر دے اور یہی حکم ہے اگر لڑکے(یا پوتے)کے پاس کو ئی مال ہو لیکن باپ یا دادا نے مہر ادا کرنے کی ضمانت دی ہو۔ان دو صورتوں کے علاوہ اگر اس کا مہر مہر المثل سے زیادہ نہ ہو یا کسی مصلحت کی بنا پر اس لڑکی کامہر مہر المثل سے زیادہ ہو تو باپ یا دادا بیٹے(یا پوتے)کے مال سے مہر ادا کر سکتے ہیں وگرنہ بیٹے(یا پوتے)کے مال سے مہر المثل سے زیادہ مہر نہیں دے سکتے مگر یہ کہ بچہ بالغ ہونے کے بعد ان کے اس کام کو قبول کرے۔
وہ صورتیں جن میں مرد یا عورت نکاح فسخ کر سکتے ہیں
(۲۳۴۰)اگر نکاح کے بعد مرد کو پتا چلے کہ عورت میں نکاح کے وقت مندرجہ ذیل چھ عیوب میں سے کوئی عیب موجود تھا تو اس کی وجہ سے نکاح کو فسخ کر سکتا ہے۔
(۱)دیوانگی۔اگرچہ کبھی کبھار ہوتی ہو۔ (۲)جذام۔ (۳)برص۔ (۴)اندھا پن۔
(۵)اپاہج ہونا۔ اگر چہ زمین پرنہ گھسٹتی ہو۔(۶)بچہ دانی میں گوشت یا ہڈی ہو ۔خواہ جماع او ر حمل کے لئے مانع ہو یا نہ ہو۔اگر مرد کو نکاح کے بعد پتا چلے کہ عورت نکاح کے وقت افضاء ہو چکی تھی یعنی ا س کا پیشاب اور حیض کا مخرج یا حیض اور پاخانے کا مخرج ایک ہو چکا تھا تو اس صورت میں نکاح کو فسخ کرنے میں اشکال ہے اوراحتیاط لازم یہ ہے کہ اگر عقد کو فسخ کرنا چاہے تو طلاق بھی دے۔
(۲۳۴۱)اگر عورت کو نکاح کے بعد پتا چلے کہ اس کے شوہر کا آلہء تناسل نہیں ہے ،یا نکاح کے بعد جماع کرنے سے پہلے ،یا جماع کرنے کے بعد،اس کا آلہ تناسل کٹ جائے،یا ایسی بیماری میں مبتلا ہو جائے کہ صحبت اور جماع نہ کر سکتا ہو خواہ وہ بیماری نکاح کے بعد اور جماع کرنے سے پہلے،یا جماع کرنے کے بعد ہی کیوں نہ لاحق ہو ئی ہو۔ان تمام صورتوں میں عورت طلاق کے بغیر نکاح کو ختم کر سکتی ہے۔اگر عورت کو نکاح کے بعد پتا چلے کہ اس کا شوہر نکاح سے پہلے دیوانہ تھا،نکاح کے بعد۔۔خواہ جماع سے پہلے یا جماع کے بعد۔۔ دیوانہ ہو جائے،یا اسے (نکاح کے بعد) پتا چلے کہ نکاح کے وقت اس کے فوطے نکالے گئے تھے یا مسل دئیے گئے تھے،یا اسے پتا چلے کہ نکاح کے وقت جذام یا برص میں مبتلا تھاتو ان تمام صورتوں میں اگر عورت ازدواجی زندگی بر قرار نہ رکھنا اور نکاح کو ختم کرناچاہیے تو احتیاط واجب یہ ہے کہ اس کا شوہریا اس کا سر پرست عورت کو طلاق دے۔لیکن اس صورت میں کہ اس کا شوہر جماع نہ کر سکتا ہواور عورت نکاح کو ختم کرنا چاہے تو اس پر لازم ہے کہ پہلے حاکم شرع یا اس کے وکیل سے رجوع کرے اور حاکم شرع اسے ایک سال کی مہلت دے گالہذا اگر اس دواران وہ اس عورت یا کسی دوسری عورت سے جماع نہ کر سکے تو اس کے بعد عورت نکاح کر ختم کر سکتی ہے۔
(۲۳۴۲)اگر عورت اس بنا پر نکاح ختم کر دے کہ اس کا شوہر نا مرد ہے تو ضروری ہے کہ شوہر اسے آدھا مہر دے۔لیکن اگر ان دوسرے نقائص میں سے جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے کسی ایک کی بناپر مرد یا عورت نکاح ختم کر دیں تو اگر مرد نے عورت کے ساتھ جماع نہ کیا ہو تو وہ کسی چیز کا ذمہ دار نہیں ہے اور اگر جماع کیا ہو تو ضروری ہے کہ پورا مہر دے۔
(۲۳۴۳)اگر مرد یا عورت جو کچھ وہ ہیں اس سے زیادہ بڑھا چڑھا کر اس کی تعریف کی جائے تا کہ وہ شادی کرنے میں دلچسپی لیں۔۔ خواہ یہ تعریف نکاح کے ضمن میں ہو یا اس سے پہلے اس صورت میں کہ اس تعریف کی بنیاد پر نکاح ہو اہو۔۔ لہذا اگر نکاح کے بعد دوسرے فریق کو اس بات کا غلط ہونا معلوم ہوجائے تو وہ نکاح کو ختم کر سکتا ہے اور اس مسئلے کے تفصیلی احکام منہاج الصالحین میں بیان کئے گئے ہیں۔
وہ عورتیں جن سے نکاح کرنا حرام ہے
(۲۳۴۴)ان عورتوں کے ساتھ جو انسان کر محرم ہوں ازدواج حرام ہے ،مثلاً ماں، بہن، بیٹی، پھوپھی، خالہ،بھیتجی، بھانجی،ساس۔
(۲۳۴۵)اگر کوئی شخص کسی عورت سے نکاح کرے چا ہے اس کے ساتھ جماع نہ بھی کرے تو اس عورت کی ماں ،نانی،اور دادی اور جتنا سلسلہ اوپر چلا جائے سب عورتیں اس مرد کی محرم ہو جاتی ہیں۔
(۲۳۴۶)اگر کوئی شخص کسی عورت سے نکاح کرے اور اس کے ساتھ ہم بستری کرے تو پھر اس عورت کی لڑکی،نواسی، اور جتنا سلسلہ نیچے چلا جائے سب عورتیں اس مرد کی محرم ہو جاتی ہیں خواہ وہ عقد کے وقت موجود ہوں یا بعد میں پیدا ہوں۔
(۲۳۴۷)اگر کسی مرد نے ایک عورت سے نکاح کیا ہو لیکن ہم بستری نہ کی ہو تو جب تک وہ عورت اس کے نکاح میں رہے… احتیاط واجب کی بنا پر…اس وقت تک اس کی لڑکی سے ازدواج نہ کرے۔
(۲۳۴۸)انسان کی پھوپھی اور خالہ اوراس کے باپ کی پھوپھی اور خالہ اور دادا کی پھوپھی اور خالہ باپ کی ماں(دادی)اور ماں کی پھوپھی اور خالہ اور نانی اور نانا کی پھوپھی اور خالہ اور جس قدریہ سلسلہ اوپر چلا جائے سب اس کے محرم ہیں۔
(۲۳۴۹)شوہر کا باپ اور دادا اور جس قدر یہ سلسلہ اوپر چلا جائے اور شوہر کا بیٹا،پوتا اور نواسا جس قدر بھی یہ سلسلہ نیچے چلا جائے اور خواہ وہ نکاح کے وقت دنیا میں موجود ہوں یا بعد میں پیدا ہوں سب اس کی بیوی کے محرم ہیں۔
(۲۳۵۰)اگر کوئی شخص کسی عورت سے نکاح کرے تو خواہ وہ نکاح دائمی ہو یا غیر دائمی جب تک وہ عورت اس کی منکوحہ ہے وہ اس کی بہن کے ساتھ نکاح نہیں کر سکتا۔
(۲۳۵۱)اگر کوئی شخص اس ترتیب کے مطابق جس کا ذکر طلاق کے مسائل میں کیا جائے گا اپنی بیوی کو طلاق رجعی دے دے تو وہ عدت کے دوران ان کی بہن سے نکاح نہیں کر سکتا لیکن طلاق بائن کی عدت کے دوران اس کی بہن سے نکاح کر سکتا ہے اور متعہ کی عدت کے دوران احتیاط واجب یہ ہے کہ عورت کی بہن سے نکاح نہ کرے۔
(۲۳۵۲)انسان اپنی بیوی کی اجازت کے بغیر اس کی بھتیجی یا بھانجی سے شادی نہیں کرسکتا لیکن اگر وہ بیوی کی اجازت کے بغیر ان سے نکاح کر لے اور بعد میں بیوی اجازت دیدے تو پھر کوئی اشکال نہیں۔
(۲۳۵۳)اگر بیوی کو پتا چلے کہ اس کے شوہر نے اس کی بھتیجی یا بھانجی سے نکاح کر لیا ہے اور خاموش رہے تو اگر وہ بعد میں راضی ہو جائے تو نکاح صحیح ہے اور اگر رضامند نہ ہو تو ان کا نکاح باطل ہے۔
(۲۳۵۴)اگرانسان خالہ یا پھوپھی کی لڑکی سے نکاح کرنے سے پہلے(نعوذ باللہ) خالہ یا پھوپھی سے زنا کرے تو پھر وہ اس کی لڑکی سے احتیاط کی بنا پر شادی نہیں کر سکتا۔
(۲۳۵۵)اگر کوئی شخص اپنی پھوپھی کی لڑکی یا خالہ کی لڑکی سے شادی کرے اور اس سے ہم بستری کرنے کے بعد اس کی ماں سے زنا کرے تو یہ بات ان کی جدائی کاموجب نہیں بنتی اور اگر اس سے نکاح کے بعد لیکن جماع کرنے سے پہلے اس کی ماں سے زنا کرے تب بھی یہی حکم ہے۔اگر چہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ اس صورت میں طلاق دے کہ اس سے (یعنی پھوپھی زاد یا خالہ زاد بہن سے )جدا ہو جائے۔
(۲۳۵۶)اگر کوئی شخص اپنی پھوپھی یا خالہ کے علاوہ کسی اور عورت سے زنا کرے تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ اس کی بیٹی کے ساتھ شادی نہ کرے بلکہ اگر کسی عورت سے نکاح کرے اور اس کے ساتھ جماع کرنے سے پہلے ا سکی بیٹی کے ساتھ پہلے اس کی ماں کے ساتھ زنا کرے تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ اس عورت سے جدا ہو جائے۔لیکن اگر اس کے پہلے اس کی ماں کے ساتھ زنا کرے تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ اس عورت سے جدا ہو جائے۔لیکن اگر اس کے ساتھ جماع کرلے او ربعد میں اس کی ماں سے زنا کرے تو بے شک عورت سے جدا ہونا لازم نہیں۔
(۲۳۵۷)مسلمان عورت کافر مرد سے نکاح نہیں کر سکتی۔مسلمان مرد بھی اہل کتاب کے علاوہ کافر عورتوں سے نکاح نہیں کر سکتا۔لیکن یہودی اور عیسائی عورتوں کی مانند اہل کتاب عورتوں سے متعہ کرنے میں کوئی حرج نہیں اور احتیاط لازم کی بنا پر ان سے دائمی عقد نہ کیا جائے اور بعض فرقے مثلاً ناصبی جو اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہیں ،کفار کے حکم میں ہیں اور مسلمان مرد اور عورتیں ان کے ساتھ دائمی یا غیر دائمی نکاح نہیں کر سکتے۔
(۲۳۵۸)اگر کوئی شخص ایک ایسی عورت سے زنا کرے جو رجعی طلاق کی عدت گزاررہی ہو تو… احتیاط کی بنا پر… وہ عورت اس پر حرام ہو جاتی ہے اور اگر ایسی عورت کے ساتھ زنا کرے جو متعہ یا طلاق بائن یا وفات کی عدت گزاررہی ہو تو بعد میں اس کے ساتھ نکاح کر سکتا ہے اگر چہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ اس سے شادی نہ کرے۔رجعی طلاق اور بائن طلاق اور متعہ کی عدت اور وفات کی عدت کے معنی طلاق کے احکام میں بتائے جائیں گے۔
(۲۳۵۹)اگر کوئی شخص کسی ایسی عورت سے زنا کرے جو بے شوہر ہو مگر عدت میں نہ ہو تو احتیاط کی بنا پر تو بہ کرنے سے پہلے اس سے شادی نہیں کر سکتا۔لیکن اگر زانی کے علاوہ کوئی دوسرا شخص(اس عورت کے)توبہ کرنے سے پہلے اس کے ساتھ شادی کرنا چاہے تو کوئی اشکال نہیں۔ مگر اس صورت میں کہ وہ عورت زنا کار مشہور ہو تو احتیاط کی بنا پر اس (عورت) کے توبہ کرنے سے پہلے اس کے ساتھ شادی کرنا جائز نہیں ہے۔اسی طرح کوئی مرد زنا کار مشہور ہو تو توبہ کرنے سے پہلے اس کے ساتھ شادی کرنا جائز نہیں ہے اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص زنا کار عورت سے جس سے خود اس نے یا کسی دوسرے نے منہ کالا کیا ہو شادی کرنا چاہے تو حیض آنے تک صبر کرے اور حیض آنے کے بعد اس کے ساتھ شادی کرلے۔
(۲۳۶۰)اگر کوئی شخص ایک ایسی عورت سے نکاح کرے جو دوسرے کی عدت میں ہو تو اگر مرد اور عورت دونوں یا ان میں سے کوئی ایک جانتا ہو کہ عورت کی عدت ختم نہیں ہوئی اور یہ بھی جانتے ہوں کہ عدت کے دوران عورت سے نکاح کرنا حرام ہے تو اگرچہ مرد نے نکاح کے بعد عورت سے جماع نہ بھی کیا ہو تو وہ عورت ہمیشہ کیلئے اس پر حرام ہو جائے گی اور اگر دونوں اس سے بے خبر ہوں کہ عدت کے دوران ہونے یا عدت میں نکاح کے حرام ہونے سے تو دونوں کا نکاح باطل ہے،اگر ہمبستری بھی کی ہے تو ہمیشہ کے لئے حرام ہو جائیں گے۔اگر ہمبستری نہ کی ہو تو عدت کے ختم ہونے کے بعد دوبارہ نکاح کر سکتے ہیں۔
(۲۳۶۱)اگر کوئی شخص یہ جانتے ہوئے کہ عورت شوہر دار ہے اور(اس سے شادی کرنا حرام ہے)اس سے شادی کرے تو ضروری ہے کہ اس عورت سے جدا ہو جائے اور بعد میں بھی اس سے نکاح نہیں کرنا چاہیے۔ اگر اس شخص کو یہ علم نہ ہو کہ عورت شوہر دار ہے لیکن شادی کے بعد اس سے ہم بستری کی ہو تب بھی احتیاط کی بنا پر یہی حکم ہے۔
(۲۳۶۲)اگر شوہر دار عورت زنا کرے تو ۔۔احتیاط کی بناپر۔۔ وہ زانی پر ہمیشہ کے لئے حرام ہو جاتی ہے۔لیکن شوہر پر حرام نہیں ہو تی اور اگر توبہ واستغفار نہ کرے اور اپنے عمل پر باقی رہے(یعنی زنا کاری ترک نہ کرے)تو بہتر یہ ہے کہ اس کا شوہر اسے طلاق دیدے لیکن شوہر کو چاہیے کہ اس کا مہر بھی دے۔
(۲۳۶۳)جس عورت کو طلاق مل گئی ہو اور جوعورت متعہ میں رہی ہو اور اس کے شوہر نے متعہ کی مدت بخش دی ہو یا متعہ کی مدت ختم ہو گئی ہو اگر وہ کچھ عرصے کے بعد دوسرا شوہر کرے اور پھر اسے شک ہو کہ دوسرے شوہر سے نکاح کے وقت پہلے شوہر کی عدت ختم ہوئی تھی یا نہیں تووہ اپنے شک کی پروانہ کرے۔
(۲۳۶۴)اغلام کروانے والے لڑکے کی ماں،بہن،اور بیٹی اغلام کرے والے پر۔۔ جبکہ(اغلام کرنے والا)بالغ ہو… حرام ہو جاتے ہیں… اگر اغلام کروانے والا مرد ہو یا اغلام کرنے والا نابالغ ہو تب بھی احتیاط لازم کی بنا پر یہی حکم ہے۔لیکن اگر اسے گمان ہو کہ دخول ہوا تھا یا شک کرے کہ دخول ہو ا تھا یا نہیں تو پھروہ حرام نہیں ہوں گے۔
(۲۳۶۵)اگر کوئی شخص کسی عورت سے شادی کرے اور شادی کے بعد اس عورت کے باپ، بھائی یا بیٹے سے اغلام کرے تواحتیاط کی بنا پر وہ عورت اس پر حرام ہو جاتی ہے۔
(۲۳۶۶)اگر کوئی شخص احرام کی حالت میں جو اعمال حج میں سے ایک عمل ہے کسی عورت سے شادی کرے تو اس کا نکاح باطل ہے اور اگر اسے علم تھا کہ کسی عورت سے احرام کی حالت میں نکاح کرنا اس پر حرام ہے تو بعد میں وہ اس عورت سے کبھی بھی شادی نہیں کر سکتا چاہے عورت احرام میں نہ ہو۔
(۲۳۶۷)جو عورت احرام کی حالت میں ہو اگر وہ ایک ایسے مرد سے شادی کے جو احرام کی حالت میں نہ ہوتو اس کا نکاح باطل ہے اوراگر عورت کو معلوم تھا کہ احرام کی حالت میں شادی کرنا حرام ہے تواحتیاط واجب یہ ہے کہ بعد میں اس مرد سے شادی نہ کرے۔
(۲۳۶۸)اگر مردیا عورت طواف النساء نہ بجالائیں جو عمرہ مفردہ کے اعمال میں سے ایک ہے تو ایسے مرد عورت کے لئے جنسی لذت کا حصول جائز نہیں رہتا۔ یہاں تک کہ وہ طواف النساء بجالائیں۔لیکن اگر حلق یا تقصیر کے ذریعے احرام سے خارج ہونے کے بعد شادی کرے تو صحیح ہے چاہے طواف النساء انجام نہ دیا ہو ۔
(۲۳۶۹)اگر کوئی شخص نابالغ لڑکی سے نکاح کرے تواس لڑکی کی عمر نو سال ہونے سے پہلے اس کے ساتھ جماع کرنا حرام ہے۔لیکن اگر جماع کرے تو اظہر یہ ہے کہ لڑکی کے بالغ ہونے کے بعد اس سے جماع کرناحرام نہیں ہے خواہ اسے افضاء ہی ہوگیاہو۔۔افضاء کے معنی مسئلہ۲۳۴۰میں بتائی جا چکے ہیں۔۔ لیکن احوط یہ ہے کہ اسے طلاق دے دے۔
(۲۳۷۰)جس عورت کو تین طلاق دی جائے وہ شوہر پر حرام ہو جاتی ہے۔ہاں اگرا ن شرائط کے ساتھ جن کاذکر طلاق کے احکام میں کیا جائے گا وہ عورت دوسرے مرد سے شادی کرے تو دوسرے شوہر کی موت یا اس سے طلاق ہو جانے کے بعد اور عدت گزر جانے کے بعد اس کا پہلا شوہر دوبارہ اس کے ساتھ نکاح کر سکتاہے۔
دائمی عقد کے احکام
(۲۳۷۱)جس عورت کا دائمی نکاح ہو جائے اس کے لئے حرام ہے کہ شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر نکلے خواہ اس کا نکلنا شوہر کے حق کے منافی نہ بھی ہو۔مگر یہ کہ کوئی اہم ضرورت پیش آئے یا گھر میں رہنا اس کیلئے نقصان کا باعث بنے یا گھر اس کے مناسب نہ ہو۔نیز اس کیلئے ضروری ہے کہ جب بھی شوہر جنسی لذتیں حاصل کرنا چاہیے تو اس کی خواہش پوری کے اور شرعی عذر کے بغیر شوہر کو ہم بستری سے نہ روکے۔اس کی غذا،لباس،رہائش اور زندگی کی باقی ضروریات کا انتظام جب تک ہو اپنی ذمے داری پوری کرے شوہر پر واجب ہے۔اگر وہ یہ چیزیں مہیا نہ کرے تو خواہ ان کے مہیا کرنے پر قدرت رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو وہ بیوی کا مقروض ہے۔اسی طرح عورت کے حقوق میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مرد اسے اذیت و آزار نہ پہنچائے اور کسی شرعی وجہ کے بغیر اس کے ساتھ سختی کے ساتھ پیش نہ آئے۔
(۲۳۷۲)اگر کوئی عورت ہم بستری اور جنسی لذتوں کے سلسلے میں شوہر کا ساتھ دے کر اس کی خواہش پوری نہ کرے تو روٹی،کپڑے اور مکان کو وہ ذمے دار نہیں ہے اگرچہ وہ شوہر کے پاس ہی رہے اور اگر وہ کبھی کبھار اپنی ذمے داریوں کو پورا نہ کرے تو احتیاط واجب کے مطابق روٹی،کپڑے اور مکان کاشوہر پر حق ساقط نہیں ہو تا اور ہر صورت میں بلااشکال اس کا مہر کالعد م نہیں ہوتا۔
(۲۳۷۳)مرد کو یہ حق نہیں کہ بیوی کو گھر یلو خدمت پر مجبور کرے۔
(۲۳۷۴)بیوی کے سفر کے اخراجات وطن میں رہنے کے اخراجات سے زیادہ ہو ں توا گر اس نے سفر شوہر کی اجازت سے کیا ہو تو شوہر کی ذمے داری ہے کہ وہ ان اخراجات کو پورا کرے۔لیکن اگر وہ سفر گاڑی یا جہاز وغیرہ کے ذریعے ہو تو کرائے اور سفر کے دوسرے ضروری اخراجات کی وہ خود ذمے دار ہے ۔لیکن اگر اس کا شوہر اسے سفر میں ساتھ لے جانا چاہتا ہو و اس کے لئے ضروری ہے کہ بیوی کے سفر اکراجات براداشت کرے،اسی طرح علاج وغیرہ کیلئے بھی اخراجات مرد کے ذمے ہیں۔
(۲۳۷۵)جس عورت کاخرچ اس کے شوہر ہے ذمے ہو اورشوہو اسے خرچ نہ دے تو وہ اپنا خرچ شوہر کیاجازت کے بغیر اس کے مال سے لے سکتی ہے اور اگر نہ لے سکتی ہو اور مجبور ہو کہ اپنی معاش کا خود بندوبست کوے اور شکایت کرنے کے لئے حاکم شرع تک اس کی رسائی نہ ہوتا کہ وہ سک شوہر کو خرچ دینے پر مجبور کرے تو جس وقت وہ اپنی معاش کا بندوبست کرنے میں مشغول ہو اس وقت شوہر کا اطاعت اس پر واجب نہیں ہے۔
(۲۳۷۶)اگر کسی مرد کی مثلاً دو دائمی بیویاں ہوں اور وہ ان میں سے ایک کے پاس ایک رات رہے تو اس پر واجب ہے کہ چار راتوں میں سے کوئی ایک رات دوسری کے پاس بھی گزارے اور اس صورت کے علاوہ عورت کے پاس رہنا واجب نہیں ہے۔ہاں لازم ہے کہ اس کے پاس رہنا بالکل ہی ترک نہ کر دے اور اولیٰ اور احوط یہ ہے کہ چار راتوں میں سے ایک رات دائمی منکوحہ بیوی کے پاس رہے۔
(۲۳۷۷)شوہر اپنی جوان بیوی سے چارمہینے سے زیادہ کے لئے ہم بستری ترک نہیں کر سکتا مگر یہ کہ ہم بستری اس کیلئے نقصان دہ یا بہت زیادہ تکلیف کا باعث ہو یا اس کی بیوی خود چار مہینے سے زیادہ مدت کے لئے ہم بستری ترک کرنے پر راضی ہو یا شادی کرتے وقت نکاح کے ضمن میں چار مہینے سے زیادہ مدت کے لئے ہم بستری ترک کی شرط رکھی گئی ہو اور اس حکم میں احتیاط کی بنا پر شوہر کے موجود ہونے یا مسافر ہونے میں کوئی فرق نہیں ہے اور احتیاط کی بنا پر یہ جائز نہیں کہ غیر ضروری سفر کو بغیر کسی عذر یا عورت کی رضامندی کے بغیر چار ماہ سے زیا دہ طول دیا جائے۔
(۲۳۷۸)اگر دائمی نکاح میں مہر معین نہ کیا جائے تو نکاح صحیح ہے اور اگر مرد،عورت کے ساتھ جماع کرے تو اسے چاہئے کہ اس کا مہر اسی جیسی عورتوں کے مہر کے مطابق دے۔البتہ اگر متعہ میں مہر معین نہ کیا جائے تو متعہ باطل ہو جاتا ہے۔
(۲۳۷۹)اگر دائمی نکاح پڑھتے وقت مہر دینے کے لئے مدت معین نہ کی جائے تو عورت مہر لینے سے پہلے شوہر کو جماع کرنے سے روک سکتی ہے، قطع نظر اس سے کہ مرد مہر دینے پر قادر ہو یا نہ ہو ۔لیکن اگر وہ مہر لینے سے پہلے جماع پر راضی ہو اور شوہر اس سے جماع کرے تو بعد میں وہ شرعی عذر کے بغیر شوہر کو جماع کرنے سے نہیں روک سکتی۔
متعہ (معینہ مدت کا نکاح)
(۲۳۸۰)عورت کے ساتھ متعہ کرنا اگر چہ لذت حاصل کرنے لے لئے نہ ہو تب بھی صحیح ہے۔
(۲۳۸۱)احتیاط واجب یہ ہے جہ شوہر نے جس عورت سے متعہ کیا ہو اس کے ساتھ چار مہینے سے زیادہ جماع تر ک نہ کرے۔
(۲۳۸۲)جس عورت کے ساتھ متعہ کیا جارہا ہو اگر وہ نکاح میں یہ شرط عائد کرے کہ شوہر اس سے جماع نہ کرے تو نکاح اور اس کی عائد کرد ہ شرط صحیح ہے اور شوہر اس سے فقط دوسری لذتیں حاصل کر سکتا ہے۔لیکن اگر وہ بعد میں جماع کے لئے راضی ہو جائے تو شوہر اس سے جماع کر سکتا ہے۔دائمی عقد میں بھی یہی حکم ہے۔
(۲۳۸۳)جس عورت کے ساتھ متعہ کیا گیا ہو خواہ وہ حاملہ ہو جائے تب بھی خرچ کا حق نہیں رکھتی۔
(۲۳۸۴)جس عورت کے ساتھ متعہ کیا گیا ہو وہ ہمخوابی رات گزرنے کے حق نہیں رکھتی اور شوہر سے میراث بھی نہیں پاتی اور شوہر بھی اس سے میراث نہیں پاتا۔۔لیکن اگر۔۔ان میں سے کسی ایک فریق نے یا دونوں نے۔۔میراث پانے کی شرط رکھی ہو تو اس شرط کا صحیح ہونا محل اشکال ہے لیکن احتیاط کا خیال رکھے۔
(۲۳۸۵)جس عورت سے متعہ کیا گیا ہو اگر چہ اسے یہ معلوم نہ ہو کہ وہ خرچ اور ہم بستری کا حق نہیں رکھتی اس کا نکاح صحیح ہے اور اس وجہ سے کہ وہ ان امور سے ناواقف تھی اس کا شوہر پر کوئی حق نہیں بنتا۔
(۲۳۸۶)جو عورت سے متعہ کیا گیا ہو وہ شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر جا سکتی ہے لیکن اس کے باہر جانے کی وجہ سے شوہر کی حق تلفی ہو تو اس کا باہر جانا حرام ہے اور اس صورت میں جبکہ اس کے باہر جانے سے شوہر کی حق تلفی نہ ہوتی ہو تب بھی احتیاط مستحب کی بنا پر شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر نہ جائے۔
(۲۳۷۷)اگر کوئی عورت کسی مرد کو وکیل بنائے کہ معین مدت کیلئے اور معین رقم کے عوض اس کا خود اپنے ساتھ صیغہ پڑھے اور وہ شخص اس کا دائمی نکاح اپنے ساتھ پڑھ لے یا مدت مقرر کئے بغیر یا رقم کا تعین کئے بغیرمتعہ کا صیغہ پڑھ دے تو جس وقت عورت کو ان امور کا پتا چلے اگر وہ اجازت دے دے تو نکاح صحیح ہے ورنہ باطل ہے۔
(۲۳۸۸)اگر محرم ہونے کے لئے مثلاً باپ یا دادا اپنی نا بالغ لڑکی یا لڑکے کا نکاح معینہ مدت کے لئے کسی سے پڑھیں تو اس صورت میں اگر اس نکاح کی وجہ سے کوئی فساد نہ ہوتو نکاح صحیح ہے۔لیکن اگر نابالغ لڑکا شادی کی اس پوری مدت میں جنسی لذت لینے کی بالکل صلاحیت نہ رکھتا ہو یا لڑکی ایسی ہو کہ وہ اس سے بالکل لذت نہ لے سکتا ہوتو نکاح کا صحیح ہونا محل اشکال ہے۔
(۲۳۸۹)اگر باپ یا دادا اپنی بچی کو جو دوسری جگہ ہو اور یہ معلوم نہ ہو کہ وہ زندہ بھی ہے یا نہیں محرم بن جانے کی خاطر کسی عورت سے نکاح کر دیں اور زوجیت کی مدت اتنی ہو کہ جس عورت سے نکاح کیا گیا ہو اس سے استمتاع ہو سکے تو ظاہری طور پر محرم بننے کا مقصد حاصل ہو جائے گا اگر بعد میں معلوم ہو کہ نکاح کے وقت وہ بچی زندہ نہ تھی تو نکاح باطل ہے اور وہ لوگ جو نکاح کی وجہ سے بظاہر محرم بن گئے تھے نا محرم ہیں۔
(۲۳۹۰)جو عورت کے ساتھ متعہ کیا گیا ہو اگر مرد اس کی نکاح میں معین کی ہوئی مدت بخش دے تو اگر اس نے اس کے ساتھ ہمبستری کی ہو تو مرد کو چاہیے کہ مقرر کیا ہو ا تمام مہر اسے دے دے اور اگر ہمبستری نہ کی ہو تو آدھا مہر دینا واجب ہے۔
(۲۳۹۱)مرد یہ کر سکتا ہے کہ جس عورت کے ساتھ اس نے پہلے متعہ کیا ہو اورا بھی اس کی عدت ختم نہ ہوئی ہو اس سے دائمی عقد کر لے یا دوبارہ متعہ کرلے۔لیکن اگر متعہ کی مدت مکمل نہیں ہوئی ہے اور وہی شخص اس عورت کے ساتھ دائمی نکاح پڑھے تو یہ نکاح باطل ہے۔لیکن یہ کر سکتا ہے کہ مدت بخشے اور اس کے بعدعقد دائمی کرے۔
نگاہ ڈالنے کے احکام
(۲۳۹۲)مرد کے لئے نامحرم عورت کا جسم دیکھنا اور اسی طرح اس کے بالوں کو دیکھنا خواہ لذت کے ارادے سے ہو یا اس کے بغیر حرام میں مبتلا ہونے کا خوف ہو یا نہ ہو ،حرام ہے۔اس کے چہرے پر نگاہ ڈالنا اور ہاتھوں کو کہینوں تک دیکھنا اگر لذت کے ارادے سے ہو یا حرام میں مبتلا ہونیکا خوف ہو تو حرام ہے ۔بلکہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ لذت کے ارادے کے بغیر اور حرام میں مبتلا ہونے کا خوف نہ ہو تب بھی نہ دیکھے،اسی طرح عورت کیلئے نامحرم مرد کے جسم پر نظر ڈالنا حرام ہے۔لیکن اگر عورت مرد کے جسم کے ان حصوں مثلاً سر دونوں ہاتھوں اور دونوں پنڈلیوں پر جنہیں عرفاً چھپانا ضروری نہیں ہے ۔لذت کے ارادے کے بغیر نظر ڈالے اور حرام میں مبتلا ہونے کا خوف نہ ہو تو کوئی اشکال نہیں ہے۔
(۲۳۹۳)وہ بے پردہ عورتیں جنہیں اگر کوئی پر دہ کرنے کے لئے کہے تو اس کو اہمیت نہ دیتی ہوں،ان کے بدن کی طرف دیکھنے میں اگر لذت کا قصد اور حرام میں مبتلا ہونے کا خوف نہ ہوتو کوئی اشکال نہیں ۔اس حکم میں کافر اور غیر کافر عورتوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔اسی طرح ان کے ہاتھ ،چہرے اور جسم کے دیگر حصے جنہیں چھپانے کی وہ عادی نہیں۔کوئی فرق نہیں ہے۔
(۲۳۹۴)عورت کو چاہیے کہ وہ… علاوہ ہاتھ اور چہرے کے… سر کے بال اور اپنا بدن نا محرم مرد سے چھپائے اور احتیاط لازم یہ ہے کہ اپنا بدن اور سر کے بال اس لڑکے سے بھی چھپائے جو ابھی بالغ تو نہ ہو ا ہو لیکن (اتنا سمجھدار ہو کہ) اچھے اور برے کو سمجھتا ہو اور احتمال ہو کہ عورت کے بدن پر اس کی نظر پڑنے سے اس کی جنسی خواہش بیدار ہو جائے گی۔لیکن عورت نا محرم مرد کے سامنے چہرہ اور کلائیوں تک ہاتھ کھلے رکھ سکتی ہے لیکن اس صورت میں کہ حرام میں مبتلا ہونے کا خوف ہو یا کسی مرد کو (ہاتھ اور چہرہ) دکھانا حرام میں مبتلا کرنے کے ارادے سے ہو تو ان دونوں صورتوں میں ان کا کھلا رکھنا جائز نہیں ہے۔
(۲۳۹۵)بالغ مسلمان کی شرمگاہ دیکھنا حرام ہے۔اگر چہ ایسا کرنا شیشے کے پیچھے سے یا آئینے میں یا صاف شفاف پانی وغیرہ میں ہی کیوں نہ ہو اور احتیاط لازم کی بنا پر یہی حکم ہے کافر اور اس بچے کی شرمگاہ کی طرف دیکھنے کا جو اچھے برے کا سمجھتا ہو ۔البتہ میاں بیوی ایک دوسرے کا پورا بدن دیکھ سکتے ہیں۔
(۲۳۹۶)جو مرد اور عورت آپس میں محرم ہوں اگر وہ لذت کی نیت نہ رکھتے ہوں تو شرمگاہ کے علاوہ ایک دوسرے کا پورا بدن دیکھ سکتے ہیں۔
(۲۳۹۸)اگر کوئی مرد کسی نا محرم عورت کو پہنچانتا ہو اگر وہ بے پردہ عورتوں میں سے نہ ہو تو احتیاط کی بنا پر اسے اس کی تصویر نہیں دیکھنا چاہیے۔
(۲۳۹۹)اگر ایک عورت کسی دوسری عورت کا اپنے شوہر کے علاوہ کسی مرد کا اینما کر نا چاہے یا اس کی شر مگاہ کو دھو کر پاک کرنا چاہے تو ضروری ہے کہ اپنے ہاتھ پر کوئی چیز لپیٹ کے تا کہ اس کا ہاتھ اس (عورت یا مرد)کی شرمگاہ پر نہ لگے۔اگر ایک مرد کسی دوسرے مردیا اپنی بیوی کے علاوہ کسی دوسری عورت کا اینما کر نا چاہیے یا اس کی شرمگاہ دھو کر پاک کرنا چاہے تو اس کے لئے بھی یہی حکم ہے۔
(۲۴۰۰)اگر عورت نا محرم مرد سے اپنی کسی ایسی بیماری کا علاج کرانے پر مجبور ہو جس کا علاج وہ بہتر طور پر کر سکتا ہو تو وہ عورت اس نامحرم مرد سے اپنا علاج کر اسکتی ہے۔چنانچہ وہ مرد علاج کے سلسلے میں اس کو دیکھنے یا اس کے بدن کو ہاتھ لگانے پر مجبورت ہوتو(ایسا کرنے میں)کوئی اشکال نہیں۔لیکن اگر وہ محض دیکھ کر علاج کر سکتا ہو توضروری ہے کہ اس عورت کے بدن کو ہاتھ نہ لگائے اور اگر صرف ہاتھ لگانے سے علاج کر سکتا ہو تو پھر ضروری ہے کہ اس عورت پر نگاہ نہ ڈالے۔
(۲۴۰۱)اگر انسان کسی شخص کا علاج کرنے کے سلسلے میں اس کی شرمگاہ پر نگاہ ڈالنے پر مجبور ہو تو احتیاط واجب کی بنا پر اسے چاہیے کہ آئینہ سامنے رکھے اور اس میں دیکھے۔لیکن اگر شرمگاہ پرنگاہ ڈالنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ ہو تو (ایسا کرنے میں)کوئی اشکال نہیں۔اگر شرمگاہ پر نگاہ ڈالنے کی مدت آئینے میں دیکھنے کی مدت سے کم ہو تب بھی یہی حکم ہے۔
مختلف ازدواجی مسائل
(۲۴۰۲)جو شخص شادی نہ کرنے کی وجہ سے حرام فعل میں مبتلا ہو تا ہو اس پر واجب ہے کہ شادی کرے۔
(۲۴۰۳)اگر شوہر نکاح میں مثلاً یہ شرط عائد کرے کہ عورت کنواری ہو اور نکاح کے بعد معلوم ہو کہ وہ کنواری نہیں تو شوہر نکاح کاو فسخ کر سکتا ہے۔ البتہ اگر فسخ کرے تو کنواری ہونے اور کنواری کے مابین مقرر کر دہ مہر میں جو فرق ہو وہ لے سکتا ہے۔
(۲۴۰۴)نا محرم مرد اور عورت کا کسی ایسی جگہ ساتھ ہونا جہاں اور کوئی نہ ہو جبکہ اس صورت میں بہکنے کا اندیشہ بھی ہو حرام ہے چاہے وہ جگہ ایسی ہو جہاں کوئی اور ابھی آسکتا ہو ۔البتہ اگر بہکنے کا اندیشہ نہ ہوتو کوئی اشکال نہیں ہے۔
(۲۴۰۵)اگر کوئی مرد،عورت کا مہر نکاح میں معین کر دے اور اس کا ارادہ یہ ہو کہ وہ مہر نہیں دے گا تو (اس سے نکاح نہیں ٹوٹتا بلکہ)صحیح ہے۔لیکن ضروری ہے کہ مہر ادا کرے۔
(۲۴۰۶)جو مسلمان اسلام سے خارج ہو جائے اور کفر اختیار کرے تو اسے مرتد کہتے ہیں اور مرتد کی دو قسمیں ہیں:(۱)مرتد فطری(۲)مرتد ملی۔
مرتد فطری وہ شخص ہے جس کی پیدائش کے وقت اس کے ماں باپ دونوں یا ان میں سے کوئی ایک مسلمان ہو اور وہ خود بھی اچھے برے کے پہچاننے کے بعد مسلمان ہو ا ہو لیکن بعد میں کافر ہو جائے اور مرتد ملی اس کے بر عکس ہے(یعنی وہ شخص ہے جس کی پیدائش کے وقت ماں باپ دونوں یا ان میں سے ایک بھی مسلمان نہ ہو)۔
(۲۴۲۰۷)اگر عورت شادی کے بعد مرتد ہو جائے تو اس کا نکاح ٹوٹ جاتا ہے اور اگر اس کے شوہر نے اس کے ساتھ جماع نہ کیا ہو تو اس کے لئے عدت نہیں ہے۔اگر جماع کے بعد مرتد ہو جائے لیکن یا ئسہ ہو چکی ہو یا بہت چھوٹی ہو تب بھی یہی حکم ہے۔لیکن اگر اس کی عمر حیض آنے والی عورتوں کے برابر ہو تو اسے چاہئے کہ اس دستور کے مطابق جس کا ذکر طلاق کے احکام میں کیا جائے گا عدت گزارے۔(علماء کے مابین)مشہور یہ ہے کہ اگر عدت کے دوران مسلمان ہو جائے تو اس کا نکاح(نہیں ٹوٹتا یعنی) باقی رہتا ہے۔یہ حکم وجہ سے خالی نہیں ہے۔اگر چہ بہتر یہ ہے کہ احتیاط کی رعایت ترک نہ ہو اور یائسہ اس عورت کو کہتے ہیں جس کی عمر پچاس سال ہو گئی ہو اور عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے اسے حیض نہ آتا ہو اور دوبارہ آنے کی امید بھی نہ ہو ۔
(۲۴۰۸)اگر مرد عقد کے بعد مرتد فطری ہو جائے تو اس کی بیوی اس پر حرام ہو جاتی ہے۔اگر اس نے بیوی ہمبستری کی ہو اور عورت یائسہ یا عمر میں چھوٹی نہ ہو تو عورت کو چاہئے کہ عدت وفات کے برابر عدت رکھے جس کا ذکر احکام طلاق میں بیان ہو گا بلکہ احتیاط واجب کی بنا پر اگر نزدیکی نہ کی ہو یا عورت یائسہ ہو یا کم عمر ہو تب بھی عدت وفات کے برابر عدت گزارے۔ اگر عدت کے دوران مرد توبہ کرے اور دونوں اکٹھے زندگی گزارنا چاہیں تو احتیاط واجب کی بنا پر دوبارہ عقد پڑھیں اور جدا ہونا چاہیں تو طلاق دی جائے۔
(۲۴۰۹)اگر کوئی مرد شادی کے بعد مرتد ملی ہو جائے تو اس کا نکاح ٹوٹ جاتا ہے۔لہذا اگر اس نے اپنی بیوی کے ساتھ جماع نہ کیا یا وہ عورت یائسہ یا بہت چھوٹی ہو تو اس کے لئے عدت نہیں ہے اور اگر وہ مرد جماع کے بعد مرتد ہو اور اس کی بیوی ان عورتوں کی ہم سن ہو جنہیں حیض آتا ہے تو ضروری ہے کہ وہ عورت طلاق کی عدت کے برابر جس کاذکر طلاق کے احکام میں آئے گا عدت رکھے۔مشہور یہ ہے کہ اگر اس کی عدت ختم ہونے سے پہلے اس کا شوہر مسلمان ہو جائے تو اس کا نکاح قائم رہتا ہے۔
(۲۴۱۰)اگر عورت عقد میں مرد پر شرط عائد کرے کہ اسے(ایک معین)شہر سے باہر نہ لے جائے اور مرد بھی اس شرط کو قبول کرلے تو ضروری ہے کہ اس عورت کو اس کی رضامندی کے بغیر اس شہر سے باہر نہ لے جائے۔
(۲۴۱۱ )اگر کسی عورت کی پہلے شوہر سے لڑکی ہو تو بعد میں اس کا دوسراشوہر اس لڑکی کا نکاح اپنے اس لڑکے سے کر سکتا ہے جو اس بیوی سے نہ ہو نیز اگر کسی لڑکی کا نکاح اپنے بیٹے سر کرے تو بعد میں اس لڑکی کی ماں سے خود بھی نکاح کر سکتا ہے۔
(۲۴۱۲)اگر کوئی عورت زنا سے حاملہ ہوجائے تو بچے کر گرانا اس کے لئے جائز نہیں ہے۔صرف اسی صورت میں جائز ہے کہ اس کا باقی رہنا عورت کیلئے ضرر کا باعث ہو جا ناقابل برداشت ہو،یا اسے زیادہ تکلیف اٹھانی پڑے۔مگر اس صورت میں بھی بچے میں جان آنے سے پہلے سقط کیا جاسکتا ہے۔لیکن اس کا بھی دیت دیں گے۔لیکن بچے میں جان آنے کے بعد کسی بھی صورت میں حمل ساقط کرانا جائز نہیں۔
(۲۴۱۳) اگر کوئی مرد کسی ایسی عورت سے زنا کرے جو شوہر دار نہ ہو اور کسی دوسرے کی عدت میں بھی نہ ہو چنانچہ بعد میں اس عورت سے شادی کر لے اور کوئی بچّہ پیدا ہو جائے تو اس صورت میں کہ جب وہ یہ نہ جانتے ہوں کہ بچّہ حلال نطفے سے ہے یا حرام نطفے سے تو وہ بچّہ حلال زادہ ہے۔
(۲۴۱۴)اگر کسی مرد کو یہ معلوم نہ ہو کہ ایک عورت عدت میں ہے اور اس سے نکاح کرے تو اگر عورت کو بھی اس بارے میں علم نہ ہو اور ان کے ہاں بچہ پیدا ہو تو وہ حلال زادہ ہو گا اور شرعاً ان دونوں کا بچہ ہو گا لیکن اگر عورت کو علم تھا کہ وہ عدت میں ہے اور عدت کے دوران نکاح کرنا حرام ہے تو شرعاً وہ بچہ باپ کا ہو گا اور مذکورہ دونوں صورتوں میں ان دونوں کا نکاح باطل ہے اور جیسے کہ بیان ہو چکا ہے کہ وہ دونوں ہمیشہ کیلئے ایک دوسرے پر حرام ہیں۔
(۲۴۱۵) اگر کوئی عورت یہ کہے کہ میں یائسہ ہوں تو اس کی یہ بات قبول نہیں کرنی چاہیئے لیکن اگر کہے کہ میں شوہر دار نہیں ہوں تو اس کی بات مان لینی چاہیئے لیکن اگر وہ غلط بیاں ہو تو اس صورت میں احتیاط یہ ہے کہ اس کے بارے میں تحقیق کی جائے۔
(۲۴۱۶)اگر کوئی شخص کسی ایسی عورت سے شادی کرے جس نے کہا ہو کہ میرا شوہر نہیں ہے اور بعدمیں کوئی اور شخص کہے کہ وہ عورت اس کی بیوی ہے تو جب تک شرعاً یہ بات ثابت نہ ہو جائے کہ وہ سچ کہہ رہا ہے اس کی بات کو قبول نہیں کرنا چاہیے۔
(۲۴۱۷)جب تک لڑکا یا لڑکی دو سال کے بہ ہو جائیں باپ ، بچوں کو ان کی ماں سے جدا نہیں کر سکتا اور احوط او ر اولیٰ یہ ہے کہ بچے کو سات سال تک اس کی ماں سے جدانہ کرے۔
(۲۴۱۸)اگر رشتہ مانگنے والے کی دیانت داری اور اخلاق سے خوش ہو تو بہتر یہ ہے کہ لڑکی کا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دینے سے انکار نہ کرے۔پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت ہے کہ جب بھی کوئی شخص تمہاری لڑکی کا رشتہ مانگنے آئے اور تم اس شخص کے اخلاق اور دیانتداری سے خوش ہو تو اپنی لڑکی کی شادی اس سے کر دو ،اگر ایسا نہ کرو گے تو زمین پر بہت بڑا فتنہ پھیل جائے گا۔
(۲۴۱۹)اگر بیوی شوہر کے ساتھ اس شرط پر اپنے مہر کی مصالحت کرے(یعنی اسے مہر بخش دے) کہ وہ دوسری شادی نہیں کرے گا تو واجب ہے کہ وہ دوسری شادی نہ کرے اور بیوی بھی مہر لینے کا کوئی حق نہیں دے۔
(۲۴۲۰)ولدا لزنا اگر شادی کرلے اور اس کے ہاں بچہ پیدا ہو تو وہ حلال زادہ ہے۔
(۲۴۲۱)اگر کوئی شخص رمضان کے روزوں میں یا عورت کے حائض ہونے کی حالت میں اس سے جماع کرے تو گنہگار ہے لیکن اگر اس جماع کے نتیجے میں ان کے ہاں کوئی بچہ پیدا ہو تو وہ حلال زادہ ہے۔
(۲۴۲۲)جس عورت کو یقین ہو کہ اس کا پہلا شوہر سفر میں فوت ہو گیا ہے اگر وہ وفات کی عدت کے بعد شادی کرے تو بعداز اں اس کا پہلا شوہر سفر سے (زندہ سلامت) واپس آجائے تو ضروری ہے کہ دوسرے شوہر سے جدا ہو جائے اور وہ پہلے شوہر پر حلال ہوگی۔لیکن اگر دوسرے شوہر نے اس سے جماع کیا ہوتو عورت کے لئے ضروری ہے کہ عدت گزارنے اور دوسرے شوہر کو چاہئے کہ اس جیسی عورتوں کے مہر کے مطابق اسے مہر ادا کرے۔لیکن عدت(کے زمانے)کا خرچ پہلے شوہر پر واجب ہے۔
دودھ پلانے کے احکام
(۲۴۲۳)اگر کوئی عورت ایک بچے کو ان شرائط کے ساتھ دودھ پلائے جو مسئلہ ۲۴۳۳ میں بیان ہوں گی تو وہ بچہ مندرجہ ذیل لوگوں کو محرم بن جاتا ہے:
(۱)خود وہ عورت… اور اسے رضاعی ماں کہتے ہیں۔
(۲)عورت کا شوہر جو کہ دودھ کا مالک ہے…رضاعی باپ کہتے ہیں۔
(۳)اس عورت کا باپ اور ماں…اور جہاں تک یہ سلسلہ اوپر چلا جائے ورہ اس عورت کے رضاعی ماں باپ ہی کیوں نہ ہوں۔
(۴)اس عورت کے وہ بچے جو پیدا ہو چکے ہوں یا بعد میں پیدا ہوں۔
(۵)اس عورت کی اولاد کی اولاد خواہ یہ سلسلہ جس قدر بھی نیچے چلا جائے اور اولاد کی اولاد خواہ حقیقی ہو خواہ رضاعی۔
(۶)اس عورت کی بہنیں اور بھائی خواہ وہ رضاعی ہی کیوں نہ ہوں یعنی دودھ پینے کی وجہ سے اس عورت کے بہن اور بھائی بن گئے ہوں۔
(۷)اس عورت کا چچا اور پھوپھی خواہ وہ رضاعی ہی کیوں نہ ہوں۔
(۸)اس عورت کاماموں اور خالہ خواہ وہ رضاعی ہی کیوں نہ ہوں۔
(۹)اس عورت کے اس شوہر کی اولاد جو دودھ کا مالک ہے… اور جہاں تک بھی یہ سلسلہ نیچے چلا جائے اگرچہ اس کی اولاد رضاعی ہی کیوں نہ ہو۔
(۱۰)اس عورت کے اس شوہر کے ماں باپ جو دودھ کا مالک ہے… اور جہاں تک بھی یہ سلسلہ اوپر چلا جائے۔
(۱۱)اس عورت کے اس شوہر کے بہن بھائی جو دودھ کا مالک ہے خواہ وہ اس کے رضاعی بہن بھائی ہی کیوں نہ ہوں۔
(۱۲)اس عورت کو جو شوہر دودھ کا مالک ہے اس کے چچا اور پھوپھیوں اور ماموں اور خالائیں اور جہاں تک یہ سلسلہ اوپر جلد جائے اور اگرچہ خواہ اس کے رضاعی ہی کیوں نہ ہوں۔ اور ان کے علاوہ کئی اور لوگ بھی دودھ پلانے کی وجہ سے محرم بن جاتے ہیں جن کا ذکر آئندہ مسائل میں کیا جائے گا۔
(۲۴۲۴)اگر کوئی عورت کسی بچے کو ان شرائط کے ساتھ دودھ پلائے جن کا ذکر مسئلہ ۲۴۳۳ میں کیا جائے گا تو اس بچے کا باپ ان لڑکیوں سے شادی نہیں کر سکتا جنہیں وہ عوررت جنم دے اور اگران میں سے کوئی ایک لڑکی ابھی اس کی بیوی ہو تو اس کا نکاح ٹوٹ جائے گا البتہ اس کا اس عورت کی رضائی لڑکیوں سے نکاح کرنا جائز ہے۔ اگرچہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ ان کے ساتھ بھی نکاح نہ کرے نیز احتیاط کی بنا پر وہ اس عورت کے اس شوہر کی بیٹیوں سے نکاح نہیں کر سکتا جو دودھ کا مالک ہے اگرچہ وہ اس شوہر کی رضاعی بیٹیاں ہوں لہٰذا اگر اس وقت ان میں سے کوئی عورت اس کی بیوی ہو تو احتیاط واجب کی بنا پر اس کا نکاح ٹوٹ جاتا ہے۔
(۲۴۲۵)اگر کوئی عورت کسی بچے کو ان شرائط کے ساتھ دودھ پلائے جن کا ذکر مسئلہ ۲۴۳۳ میں کیا جائے گا تو اس عورت کا شوہر جو کہ دودھ کا مالک ہے اس بچے کی بہنوں کا محرم نہیں بن جاتا لیکن احتیاط مستحب یہ ہے کہ وہ ان سے شادی نہ کرے نیز شوہر کے رشتہ دار بھی اس بچے کے بھائی بہنوں کے محرم نہیں جاتے۔
(۲۴۲۶)اگر کوئی عورت ایک بچے کو دودھ پلائے تو وہ اس کے بھائیوں کی محرم نہیں بن جاتی اور اس عورت کے رشتہ دار بھی اس بچے کے بھائی بہنوں کے محرم نہیں بن جاتے۔
(۲۴۲۷)اگر کوئی شخص اس عورت سے جس نے کسی لڑکی کو پورا دودھ پلایا ہو نکاح کر لے اور اس سے مجامعت کر لے تو پھر وہ اس لڑکی سے نکاح نہیں کر سکتا۔
(۲۴۲۸)اگر کوئی شخص کسی لڑکی سے نکاح کرے تو پھر وہ اس سے نکاح نہیں کر سکتا جس نے اس لڑکی کو پورا دودھ پلایا ہو۔
(۲۴۲۹)کوئی شخص اس لڑکی سے نکاح نہیں کر سکتا جسے اس شخص کی ماں یا دادی نے دودھ پلایا ہو۔ نیز اگر کسی شخص کے باپ کے بیوی نے (یعنی اس کی سوتیلی ماں نے) اس شخص کے باپ کا مملوکہ دودھ کسی لڑکی کو پلایا ہو تو اس شخص اس لڑکی سے نکاح نہیں کر سکتا اور اگر کوئی شخص کسی دودھ پیتی بچی سے نکاح کرے اور اس کے بعد اس کی ماں یا دادی یا اس کی سوتیلی ماں اس بچی کو دودھ پلا دے تو نکاح ٹوٹ جاتا ہے۔
(۲۴۳۰)جس لڑکی کو کسی شخص کی بہن یا بھابھی نے بھائی کے دودھ سے پورا دودھ پلایا ہو وہ شخص اس لڑکی سے نکاح نہیں کر سکتا۔ جب کسی شخص کی بھانجی، بھتیجی یا بہن یا بھائی کی پوتی یا نواسی نے اس بچّی کو دودھ پلایا ہو تب بھی یہی حکم ہے۔
(۲۴۳۱)اگر کوئی عورت اپنی لڑکی کے بچے کو (یعنی اپنے نواسے یا نواسی کو)پورا دودھ پلائے تو وہ لڑکی اپنے شوہر پر حرام ہو جائے گی۔ اگر کوئی عورت اس بچے کو دودھ پلائے جو اس کی لڑکی کے شوہر کی دوسری بیوی سے پیدا ہوا ہو تب بھی یہی حکم ہے لیکن اگر کوئی عورت اپنے بچے کو (یعنی اپنے پوتے یا پوتی کو) دودھ پلائے تو اس کے بیٹے کی بیوی (یعنی دودھ پلائی کی بہو) جو اس دودھ پیتے بچے کی ماں ہے اپنے شوہر پر حرام نہیں ہو گی۔
(۲۴۳۲) اگر کسی لڑکی کی سوتیلی ماں اس لڑکی کے شوہر کے بچے کو اس لڑکی کے باپ کا مملوکہ دودھ پلا دے تو اس احتیاط کی بنا پر جس کا ذکر مسئلہ ۲۴۳۳ میں کیا گیا ہے ، وہ لڑکی اپنے شوہر پر حرام ہو جاتی ہے، خواہ و ہ بچہ اس لڑکی کے بطن سے یا کسی دوسری عورت کے بطن سے ہو۔
دودھ پلا کر محرم بننے کی شرائط
(۲۴۳۳) بچے کو دودھ پلانا جو محرم بننے کا سبب بنتا ہے، اس کی آٹھ شرطیں ہیں:
۱)بچہ زندہ عورت کادودھ پیئے۔ پس اگر وہ مردہ عورت کے پستان سے دودھ پیئے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں۔
۲)عورت کا دودھ فعل حرام کا نتیجہ نہ ہو۔ پس اگر ایسے بچے کا دودھ جو ولدالزنا ہو کسی دوسرے بچے کو دیا جائے تو اس دودھ کے توسط سے وہ دوسرا بچہ کسی کا محرم نہیں بنے گا۔
۳)بچہ پستان سے دودھ پینے۔ پس اگر دودھ اس کے حلق میں انڈیلا جائے تو بیکار ہے۔
۴)دودھ خالص ہو اور کسی دوسری چیز سے ملا ہوا نہ ہو۔
۵)دودھ ایک ہی شوہر کا ہو۔ پس جس عورت کو دودھ اُترتا ہو اگر اسے طلاق ہو جائے اور وہ عقد ثانی کر لے اور دوسرے شوہر سے حاملہ ہو جائے اور بچہ جننے تک اس کے پہلے شوہر کا دودھ اس میں باقی ہو مثلاً اگر اس بچے کو خود بچہ جننے سے قبل پہلے شوہر کا دودھ آٹھ دفعہ اور وضع حمل کے بعد دوسرے شوہر کا دودھ سات دفعہ پلائے تو وہ بچہ کسی کا بھی محرم نہیں بنتا۔
۶)بچہ کسی بیماری کی وجہ سے دودھ کی قے نہ کر دے اور اگر قے کر دے تو بچہ محرم نہیں بنتا۔
۷)بچے کو اس قدر دودھ پلایا جائے کہ اس کی ہڈیاں دودھ سے مضبوط ہوں اور بدن کا گوشت بھی اس سے بنے اور اگر بات کا علم نہ ہو کہ اس قدر دودھ پیا ہے یا نہیں اگر اس نے ایک دن اور ایک رات یا پندرہ دفعہ پیٹ بھر کر دودھ پیا ہو تب بھی (محرم ہونے کے لئے) کافی ہے جیسا کہ اس کا (تفصیلی) ذکر آنے والے مسئلے میں کیا جائے گا۔ لیکن اگر اس بات کا علم ہو کہ اس کی ہڈیاں اس دودھ سے مضبوط نہیں ہوئیں اور اس کا گوشت بھی اس سے نہیں بنا حالانکہ بچے نے اس ایک دن اور ایک رات یا پندرہ دفعہ دودھ پیا ہو تو اس جیسی صورت میں احتیاط کا خیال کرنا ضروری ہے۔ پس مذکورہ موارد میں شادی نہ کی جائے۔
۸)بچے کی عمر کے دو سال مکمل نہ ہوئے ہوں اور اگر اس کی عمر دو سال ہونے کے بعد اسے دودھ پلایا جائے تو وہ کسی کا محرم نہیں بنتا بلکہ اگر مثال کے طور پر وہ عمر کے دو سال مکمل ہونے سے پہلے آٹھ دفعہ اور اس کے بعد سات دفعہ دودھ پیئے تب بھی وہ کسی کا محرم نہیں بنتا۔ لیکن اگر دودھ پلانے والی عورت کو بچہ جنے ہوئے دو سال سے زیادہ مدت گزر چکی ہو اور اس کا دودھ ابھی باقی ہو اور وہ کسی بچے کو دودھ پلائے تو وہ بچہ ان لوگوں کا محرم بن جاتا ہے جن کا ذکر اوپر کیا گیا ہے۔
(۲۴۳۴) سابقہ مسئلہ سے یہ واضح ہو گیا کہ محرمیت کا سبب بننے والے دودھ کے تین معیار ہیں:
۱)بچہ دودھ اس حد تک پیئے کہ اس سے گوشت بنے اور ہڈیاں مضبوط ہو جائیں۔ اس کے لئے شرط یہ ہے کہ صرف دودھ سے ہو، دودھ کے ساتھ بچہ اور کوئی غذا نہ کھائے۔ لیکن اگر معمولی مقدار میں غذا کھائے تو کوئی حرج نہیں۔ اگر بچہ دو عورتوں کا دودھ پیئے اور بعض گوشت اور ہڈیاں ایک سے بن کر مستحکم ہو جائیں اور بعض دودسری کے دودھ سے تو دونوں محرم ہوں گی اور اس کی رضاعی ماں بن جائیں گی۔ اگر دونوں کے دودھ سے مل کر بنے ہوں تو حرمت ثابت نہیں ہو گی۔
۲)وقت کا حساب: اس کی شرط یہ ہے کہ بچہ چوبیس گھنٹے کے دوران اور کسی کا دودھ نہ پیئے لیکن اگر پانی پیئے ، دوائی دی جائے یا اتنی کم غذا کھائے کہ یہ نہ کہا جا سکے کہ چوبیس گھنٹوں کے دوران غذا کھائی ہے تو کوئی اشکال نہیں۔ پورے دن رات میں جب بھی بچے کو غذا کی ضرورت پڑے تو دودھ پیئے جس سے اسے نہ روکا جائے بلکہ احتیاط واجب یہ ہے کہ چوبیس گھنٹے کا حساب اس وقت شروع کیا جائے جب بچہ بھوکا ہو اور اس کا آخر وہ وقت شمار کیا جائے کہ بچہ سیر ہو۔
۳)تعداد کا حساب: اس کے لئے شرط یہ ہے کہ پندرہ مرتبہ مسلسل اسی عورت کا دودھ پیئے اور اس پندرہ دفعہ کے دوران اور کسی کا دودھ نہ پیئے۔ لیکن اس دوران غذ ا کھانا ضرر کا باعث نہیں اور پندرہ دفعہ کے دوران وقت کا فاصلہ ہو جائے تو بھی کوئی ضرر نہیں لیکن ہر دفعہ میں بچہ سیر ہو کر دودھ پیئے۔ وہ اس طرح کہ بچے کو بھوک لگی ہو اسی وقت دودھ پی کر سیر ہو جائے۔ لیکن اگر دودھ پینے کے دوران ذرا رُک جائے یا صبر کرے مگر چھاتی مُنہ میں لینے سے سیر ہونے تک کو ایک دفعہ شمار کیا جا سکے تو کوئی اشکال نہیں۔
(۲۴۲۵)اگر کوئی عورت اپنے شوہر کا دودھ کسی بچے کو پلائے۔ بعد ازاں عقدِ ثانی کر لے اور دوسرے شوہر کا دودھ کسی اور بچے کو پلائے تو وہ دونوں بچے آپس میں محرم نہیں بنتے۔
(۱۵۳۶)اگر کوئی عورت ایک شوہر کا دودھ کئی بچوں کو پلائے تو وہ سب بچے آپس میں نیز اس آدمی اور اس عورت کے جس نے انہیں دودھ پلایا ہو محرم بن جاتے ہیں۔
(۲۴۳۷) اگر کسی شخص کی کئی بیویاں ہوں اور ان میں سے ہر ایک ان شرائط کے ساتھ جو بیان کی گئی ہیں ایک ایک بچے کو دودھ پلا دے تو وہ سب بچے آپس میں اور اس آدمی اور ان تمام عورتوں کے محرم بن جاتے ہیں۔
(۲۴۳۸) اگر کسی شخص کی دو بیویوں کو دودھ اُترتا ہو اور ان میں سے ایک کسی بچے کو مثال کے طور پر آٹھ مرتبہ اور دوسری سات مرتبہ دودھ پلا دے تو وہ بچہ کسی کا بھی محرم نہیں بنتا۔
(۲۴۳۹) اگر کوئی عورت ایک شوہر کا پورا دودھ ایک لڑکے اور ایک لڑکی کو پلائے تو اس لڑکی کے بہن بھائی اس لڑکے کے بہن بھائیوں کے محرم نہیں بن جاتے۔
(۲۴۴۰)کوئی شخص اپنی بیوی کی اجازت کے بغیر ان عورتوں سے نکاح نہیں کر سکتا جو دودھ پینے کی وجہ سے اس کی بیویاں یا بھانجیاں بن گئی ہوں نیز اگر کوئی شخص کسی لڑکے سے اغلام کرے تو وہ اس لڑکے کی رضاعی بیٹی، بہن، ماں اور دادی سے یعنی ان عورتوں سے جو دودھ پینے کی وجہ سے اس کی بیٹی، بہن ماں اور دادی بن گئی ہوں نکاح نہیں کر سکتا۔ احتیاط کی بنا پر اس صورت میں جبکہ لواطت کرنے والا بالغ نہ ہو یا لواطت کروانے والا بالغ ہو تب بھی یہی حکم ہے۔
(۲۴۴۱) جس عورت نے کسی شخص کے بھائی کو دودھ پلایا ہو وہ اس شخص کی محرم نہیں بن جاتی۔
(۲۴۴۲)کوئی آدمی دو بہنوں سے (ایک وقت میں نکاح) نہیں کر سکتا اگرچہ و ہ رضاعی بہنیں ہی ہوں یعنی دودھ پینے کی وجہ سے ایک دوسری کی بہنیں بن گئی ہوں اور اگر وہ عورتوں سے شادی کرے اور بعد میں اسے پتا چلے کہ وہ آپس میں بہنیں ہیں جبکہ ان کی شادی ایک ہی وقت میں ہوئی ہو اظہر یہ ہے کہ دونوں نکاح باطل ہیں اور اگر نکاح ایک ہی وقت میں نہ ہوا ہو تو پہلا نکاح صحیح اور دوسرا باطل ہے۔
(۲۴۴۳)اگر کوئی عورت اپنے شوہر کا دودھ ان اشخاص کو پلائے جن کا ذکر ذیل میں کیا گیا ہے تو اس عورت کا شوہر اس پر حرام نہیں ہوتا۔
۱) اپنے بھائی اور بہن کو۔
۲) اپنے چچا، پھوپھی، ماموں اور خالہ کو۔
۳) اپنے چچا اور ماموں کی اولاد کو۔
۴) اپنے بھتیجے کو۔
۵) اپنے جیٹھ یا دیور اور نند کو۔
۶) اپنے بھانجے یا اپنے شوہر کے بھانجے کو۔
۷) اپنے شوہر کے چچا، پھوپھی، ماموں اور خالہ کو۔
۸) اپنے شوہر کی دوسری بیوی کے نواسے یا نواسی کو۔
(۲۴۴۴) اگر کوئی عورت کسی شخص کی پھوپھی زاد یا خالہ زاد بہن کو دودھ پلائے تو وہ (عورت) اس شخص کی محرم نہیں بنتی۔
(۲۴۴۵)جس شخص کی دو بیویاں ہوں اگر اس کی ایک بیوی دوسری بیوی کے چچا کے بیٹے کو دودھ پلائے تو جس عورت کے چچا کے بیٹے نے دودھ پیا ہے وہ اپنے شوہر پر حرام نہیں ہو گی۔
دودھ پلانے کے آدابْ
(۲۴۴۶) بچے کو دودھ پلانے کا حق اس کی ماں کو حاصل ہے۔ باپ کو یہ حق حاصل نہیں کہ بچے کو دودھ کے لئے کسی دوسری عورت کے حوالے کرے۔ مگر اس صورت میں جائز ہے کہ ماں دودھ پلانے کی اجرت طلب کرے اور باپ کسی دوسری عورت کو ڈھونڈے جو مفت دودھ پلانے پر راضی ہو یا ماں سے کم اجرت پر راضی ہو۔ تب ہی باپ بچے کو کسی دایہ کے سپرد کر سکتا ہے۔ لیکن اس کے بعد اگر ماں اسے قبول نہ کرے اور اپنی مرضی سے بچے کو دودھ پلائے تو اجرت طلب نہیں کر سکتی۔
(۲۴۴۷)مستحب ہے کہ بچے کے لئے جو دایہ منتخب کی جائے وہ مسلمان ہو، عاقل ہو، جسمانی، اخلاقی اور نفسیاتی اعتبار سے پسندیدہ صفات کی مالک ہو۔ یہ مناسب نہیں کہ دایہ کافر، احمق، بوڑھی یا بدصورت ہو۔ یہ مکروہ ہے کہ کسی ایسی دایہ کو منتخب کیا جائے جس کا دودھ ایسے بچے سے ہو جو حرام کاری سے پیدا ہوا ہو۔
دودھ پلانے کے مسائل
(۲۴۴۸)عورتوں کے لئے بہتر ہے کہ وہ ہر ایک کے بچے کو دودھ نہ پلائیں کیونکہ ہو سکتا ہے وہ یہ یاد نہ رکھ سکیں کہ انہوں نے کس کس کو دودھ پلایا ہے اور (ممکن ہے کہ) بعد میں دو محرم ایک دوسرے سے نکاح کر لیں۔
(۲۴۴۹)اگر ممکن ہو تو مستحب ہے کہ بچے کو پورے ۲۱ مہینے دودھ پلایا جائے اور دو سال سے زیادہ دودھ پلانا مناسب نہیں ہے۔
(۲۴۵۰)اگر دودھ پلانے کی وجہ سے شوہر کا حق تلف ہوتا ہو تو عورت شوہر کی اجازت کے بغیر کسی دوسرے شخص کے بچے کو دودھ نہیں پلا سکتی۔
(۲۴۵۱)اگر کسی عورت کا شوہر ایک شیر خوار بچی سے نکاح کرے اور وہ عورت اس بچی کو دودھ پلائے تو مشہور قول کی بنا پر وہ عورت اپنے شوہر کی ساس بن جاتی ہے اور اس پر حرام ابدی ہو جاتی ہے۔ احتیاط کی بنا پر اسے طلاق دے اور کبھی اس کے ساتھ شادی نہ کرے۔ اگر دودھ خود اسی شوہر کا ہے تو وہ بچی بھی اس کے لیے حرام ابدی ہو جاتی ہے اور اگر دودھ عورت کے سابق شوہر کا ہے تو احتیاط کی بنا پر عقد باطل ہو جاتا ہے۔
(۲۴۵۲)اگر کوئی شخص چاہے کہ اس کی بھابھی اس کی محرم بن جائے تو بعض فقہاء نے فرمایا ہے کہ اسے چاہئے کہ کسی شیر خوار بچی سے مثال کے طور پر دو دن کے لئے متعہ کر لے اور ان دو دنوں میں ان شرائط کے ساتھ جن کا ذکر مسئلہ ۲۴۳۳ میں کیا گیا ہے اس کی بھابھی اس بچی کو دودھ پلائے تاکہ وہ اس کی بیوی کی ماں بن جائے۔ لیکن یہ حکم اس صورت میں جب بھابھی بھائی کے مملوک دودھ سے اس بچی کو پلائے محل اشکال ہے۔
(۲۴۵۳)اگر کوئی مرد کسی عورت سے شادی کرنے سے پہلے کہے کہ رضاعت کی وجہ سے وہ عورت مجھ پر حرام ہے مثلاً کہے کہ میں نے اس عورت کی ماں کا دودھ پیا ہے تو اگر اس بات کی تصدیق ممکن ہو تو وہ اس عورت سے شادی نہیں کر سکتا اور اگر وہ یہ بات شادی کے بعد کہے اور خود عورت بھی اس بات کو قبول کرے تو ان کا نکاح باطل ہے۔ لہٰذا اگر مرد نے اس عورت سے ہمبستری نہ کی ہو یا کی ہو لیکن ہمبستری کے وقت عورت کو معلوم نہ ہو کہ وہ اس مرد پر حرام ہے تو عورت کا کوئی مہر نہیں اور اگر عورت کو ہمبستری کے بعد پتا چلے کہ وہ اس مرد پر حرام تھی تو ضروری ہے کہ شوہر اس جیسی عورتوں کے مہر کے مطابق اسے دے۔
(۲۴۵۴) اگر کوئی عورت شادی سے پہلے کہہ دے کہ رضاعت کی وجہ سے میں اس مرد پر حرام ہوں اور اس کی تصدیق ممکن ہو تو وہ اس مرد سے شادی نہیں کر سکتی اور اگر وہ یہ بات شادی کے بعد کہے تو اس کا کہنا ایسا ہی ہے جیسے کہ مرد شادی کے بعد کہے کہ وہ عورت اس پر حرام ہے اور اس کے متعلق حکم سابقہ مسئلے میں بیان ہو چکا ہے۔
(۲۴۵۵) دودھ پلانا جو محرم بننے کا سبب ہے دو چیزوں سے ثابت ہوتا ہے:
۱)ایک شخص یا ایک ایسی جماعت کا خبر دینا جس کی بات پر یقین یا اطمینان ہو جائے۔
۲)دو عادل مرد اس کی گواہی دیں لیکن ضروری ہے کہ وہ دودھ پلانے کی شرائط کے بارے میں بھی بتائیں مثلاً کہیں کہ ہم نے فلاں بچے کو چوبیس گھنٹے فلاں عورت کے پستان سے دودھ پیتے دیکھا ہے اور اس نے اس دوران اور کوئی چیز بھی نہیں کھائی اور اسی طرح ان باقی شرائط کو بھی واشگاف الفاظ میں بیان کریں جن کا ذکر مسئلہ ۲۴۳۳ میں کیا گیا ہے۔ البتہ ایک مرد اور دو عورتوں یا چار عورتوں کی گواہی سے جو سب کے سب عادل ہوں رضاعت کا ثابت ہونا محل اشکال ہے اس لئے احتیاط پر عمل کیا جائے۔
(۲۴۵۶)اگر اس بات میں شک ہو کہ بچے نے اتنی مقدار میں دودھ پیا ہے جو محرم بننے کا سبب ہے یا نہیں پیا ہے یا گمان ہو کہ اس نے اتنی مقدار میں دودھ پیا ہے تو بچہ کسی کا محرم نہیں ہوتا لیکن بہتر یہ ہے کہ احتیاط کی جائے۔
|