توضیح المسائل(آقائے سیستانی)
 
خرید و فروخت کے احکام
(۲۰۰۸)ایک بیو پاری کے لئے مناسب ہے کہ خرید و فروخت کے سلسلے میں جن مسائل کا (عموماً)سامنا کرنا پڑتا ہے ان کے احکام سیکھ لے بلکہ اگر مسائل نہ سیکھنے کی وجہ سے کسی واجب حکم کے ترک کرنے یا حرام کام کے مرتکب ہونے کا اندیشہ ہو تو مسائل سیکھنا لازم ہے۔حضرت امام جعفر صادق علیہ الصلوٰة والسلام سے روایت ہے کہ جو شخص خرید و فروخت کرنا چاہتا ہو اس کے لئے ضروری ہے کہ ان کے احکام سیکھے اور اگر ان احکام کو سیکھنے سے پہلے خریدو فروخت کرے گا تو باطل یامشتبہ معاملات کرنے کی وجہ سے ہلاکت میں پڑے گا۔
(۲۰۰۹)اگر مسئلے سے ناواقفیت کی بنا پر یہ نہ جانتا ہو کہ اس نے جو معاملہ کیا ہے وہ صحیح ہے یا باطل تو جو مال اس نے حاصل کیا ہو اسے استعمال نہیں کر سکتا اور نہ ہی اس مال میں جو دوسرے کی تحویل میں دیا ہے بلکہ اسے چاہیئے کہ مسئلہ یا دکرے یا احتیاط پر عمل کرے چاہیئے مصالحت کے ذریعے ہو ۔مگر یہ کہ اسے علم ہو جائے کہ دوسرا فریق اس مال کو استعمال کرنے پر راضی ہے تو اس صورت میں وہ استعمال کر سکتا ہے اگر چہ معاملہ باطل ہو۔
(۲۰۱۰)جس شخص کے پاس مال نہ ہو اوراخراجات اس پر واجب ہوں،مثلاً بیوی بچوں کا خرچ ،تو ضروری ہے کہ کاروبار کرے اور مستحب کا موں کے لئے مثلاً اہل و عیال کی خوشحالی اور فقیروں کی مدد کرنے کے لئے کاروبار کرنا مستحب ہے۔

خریدو فروخت کے مستحبات
خرید و فروخت میں چند چیزوں کو مستحب شمار کیا گیا ہے:
(۱)فقر اور اس جیسی کیفیت کے سوا جنس کی قیمت میں خریداروں کے درمیان فرق نہ کرے۔
(۲)دکان میں بیٹھتے وقت کلمہ شہادتین کہے اور سودا کے وقت تکبیر کہے۔
(۳)جو چیز بیچ رہا ہو وہ کچھ زیادہ دے اور جو چیز خرید رہا ہو وہ کچھ کم لے۔
(۴)اگر کوئی شخص سودا کرنے کے بعد پشیمان ہو کر اس چیز کو واپس کرنا چاہے تو واپس لے لے۔

مکروہ معاملات
(۲۰۱۱) چند چیزوں کو سودا کرتے وقت مکروہ شمار کیا گیا ہے ان میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں:
(۱)جنس کے عیوب کو بیان نہ کرنا۔بشرطیکہ ملاوٹ نہ ہو ۔اگر ملاوٹ ہو تو حرام ہے۔
(۲)سودا میں سچی قسم کھانا اگر جھوٹی قسم کھائے توحرام ہے۔
(۳) کفن فروشی کاکاروبار کرنا۔
(۴)کسی مومن سے یا کسی ایسے شخص سے جس نے اس کے ساتھ نیکی کا وعدہ کیا ہے ان سے اپنی ضرورت سے زیادہ لینا۔
(۵)اذان صبح اور طلوع شمس کے درمیان سودا کرنا۔
(۶)جو شخص اسی شہر کا باشندہ ہے اور باہر سے آنے والے مسافر تاجروں کا وکیل بنے تا کہ اس کے لئے خریدوفروخت کرے بلکہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ اسے ترک کرے۔
(۷)اگر مسلمان کوئی جنس خرید رہا ہو تو اس کے سودے میں دخل اندازی کرکے خریدار بننے کا اظہار کرنا۔احتیاط مستحب یہ ہے کہ ایسا نہ کرے۔

حرام معاملات
(۲۰۱۲)بہت سے معاملات حرام ہیں ان میں سے چند یہ ہیں:
(۱)نشہ آور مشروبات ،غیر شکاری کتے اور سور کی خرید و فروخت حرام ہے اور احتیاط واجب کی بنا پر نجس مردار کے متعلق بھی یہی حکم ہے۔اس کے علاوہ دوسری نجاست کی خرید وفروخت اس صورت میں جائز ہے جبکہ عین نجس سے حلال فائدہ حاصل کرنا مقصود ہو مثلاً گوبر اور فضلے سے کھاد بنانا۔
(۲)غصبی مال کی خریدو فروخت جبکہ اس میں تصرف لازم آئے جیسے قبضہ لینا اور دینا۔
(۳)ایسی کرنسی سے سودا کرنا جس کی حیثیت ختم ہو گئی ہو یا جعلی کرنسی سے سودا کرنا جبکہ فریق اس سے بے خبر ہو لیکن فریق کے علم میں ہے تو یہ سودا جائز ہے۔
(۴)ان چیزوں کی خریدوفروخت جنہیں عام طور پر فقط حرام کام میں استعمال کرتے ہوں اور ان کی قدر و قیمت صرف اس حرام کی وجہ سے ہو مثلاً بت،صلیب ،جوئے کا سامان اورلہو و لعب کے آلات وغیرہ۔
(۵)وہ لین دین جس میں ملاوٹ ہو یعنی ایسی چیز کابیچنا جس میں دوسری چیز اس طرح ملائی گئی ہو کہ ملاوٹ کا پتا نہ چل سکے اور بیچنے والا بھی خریدار کو نہ بتائے۔مثلاً ایسا گھی بیچنا جس میں چربی ملائی گئی ہو ۔حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جو شخص ملاوٹ کر کے کوئی چیز کسی مسلمان کے ہاتھ بیچتا ہے یا مسلمان کو نقصان پہنچاتا ہے یا ان کے ساتھ مکروفریب سے کام لیتا ہے وہ میری امت میں سے نہیں ہے اور جو مسلمان اپنے مسلمان بھائی کو ملاوٹ والی چیز بیچتا ہے تو خداوند تعالیٰ اس کی روزی سے برکت اٹھا لیتا ہے اوراس کی روزی کے راستوں کو تنگ کر دیتا ہے اور اسے اس کے حال پر چھوڑ دیتا ہے۔

ملاوٹ کے مختلف موارد ہوتے ہیں
(۱)گھٹیا چیز کے ساتھ اعلیٰ چیز کو ملا دینا جیسے دودھ میں پانی ملانا،
(۲)جنس کی ظاہری شکل و صورت کو اچھی ہیئت میں پیش کرنا جیسے پرانی سبزی پر پانی چھڑک کر تازہ بنانا۔
(۳)ایک جنس کو کسی دوسری جنس کی شکل میں پیش کرنا جیسے خریدار کی اطلاع کے بغیر کسی چیز میں سونے کا پانی چڑھانا۔
(۴)جنس کے عیب کو چھپانا جبکہ خریدار اس پر اعتماد رکھتا ہو کہ وہ کسی قسم کا جنس کے بارے میں عیب پوشیدہ نہیں رکھے گا۔
(۲۰۱۳)جو پاک چیز نجس ہو گئی ہو اور اسے پانی سے دھو کر پاک کرنا ممکن ہو جیسے فرش اور برتن وغیرہ تو اسے فروخت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور اگر اسے دھونا ممکن نہ ہو تب بھی یہی حکم ہے لیکن اگر ا س کا حلال فائدہ عرف عام میں اس کے پاک ہونے پر منحصر نہ ہو مثلاً مٹی کا تیل بلکہ اگراس کا حلال فائدہ پاک ہونے پر موقوف ہو اوراس کا مناسب حد تک حلال فائدہ بھی ہو تب بھی اس کا بیچنا جائز ہے۔
(۲۰۱۴)اگر کوئی شخص نجس چیز بیچنا چاہے تو ضروری ہے کہ وہ اس کی نجاست کے بارے میں خریدار کو بتادے اور اگر اسے نہ بتائے تو وہ ا یک حکم واجب کی مخالفت کا مرتکب ہوگا۔مثلاً نجس پانی کو وضو یا غسل میں استعمال کرے گا اوراس کے ساتھ اپنی واجب نماز پڑھے گا یا اس نجس چیز کو کھانے یا پینے میں استعمال کرے گا۔ البتہ اگر یہ جانتا ہو کہ اسے بتانے سے کوئی فائدہ نہیں کیونکہ وہ لاپرواہ شخص ہے اور نجس و پاک کا خیال نہیں رکھتا تو اسے بتانا ضروری نہیں۔
(۲۰۱۵)اگر چہ کھانے والی اور نہ کھانے والی نجس دواؤں کی خریدو فروخت جائز ہے لیکن ان کی نجاست کے متعلق خریدار کو اس صورت میں بتا دیتا ضروری ہے جس کا ذکرسابقہ مسئلے میں کیا گیا ہے۔
(۲۰۱۶)جو تیل غیر اسلامی ممالک سے در آمد کئے جاتے ہیں اگر ان کے نجس ہونے کے بارے میں علم نہ ہو تو ان کی خرید وفروخت میں کوئی حرج نہیں اور جوچربی کسی حیوان کے مر جانے کے بعد حاصل کی جاتی ہے جیسے جیلیٹین ،اگر اسے کافر سے لیں یا غیر اسلامی ممالک سے منگائیں تو اس صورت میں جبکہ اس کے بارے میں احتمال ہو کہ ایسے حیوان کی ہے جسے شرعی طریقے سے ذبح کیا گیا ہے تو گو وہ پاک ہے اور اس کی خریدوفروخت جائز ہے لیکن اس کا کھانا حرام ہے اور بیچنے والے کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس کی کیفیت سے خریدار کو اس صورت میں آگاہ کرے جب آگاہی نہ ہونے کی صورت میں وہ کسی حرام کوانجام دے گا یا کسی واجب حکم کی مخالفت کا مرتکب ہو گا جیسے کہ مسئلہ ۲۰۱۲مین گزر چکا ہے۔
(۲۰۱۷)اگر لومڑی یا اس جیسے جانوروں کو شرعی طریقے سے ذبح نہ کیا جائے یا وہ خود مر جائیں تو ان کی کھال کی خرید و فروخت احتیاط کی بنا پر جائز نہیں۔لیکن اگر شک ہو تو کوئی اشکال نہیں۔
(۲۰۱۸)جو چمڑا غیر اسلامی ممالک سے در آمد کیا جائے یا کافر سے لیا جائے اگر اس کے بارے میں احتمال ہو کہ ایک ایسے جانور کا ہے جسے شرعی طریقے سے ذبح کیا گیا ہے تو اس کی خرید و فروخت جائز ہے اور زاسی طرح اس میں نماز بھی صحیح ہو گی۔
(۲۰۱۹)جو تیل اور چربی حیوان کے مرنے کے بعد حاصل کی جائے یا وہ چمڑا جو مسلمان سے لیا جائے اور انسان کو علم ہو کہ اس مسلمان نے یہ چیز کافر سے لی ہے لیکن یہ تحقیق نہیں کی کہ یہ ایسے حیوان کی ہے جسے شرعی طریقے سے ذبح کیا گیا ہے یا نہیں اگر چہ اس پر طہارت کا حکم لگتا ہے اور اس کی خرید فرخت جائز ہے لیکن اس تیل یا چربی کا کھانا جائز نہیں ہے۔
(۲۰۲۰)شراب اور تمام مائع منشیات کالین دین حرام اور باطل ہے۔
(۲۰۲۱) غصبی مال کا بیچنا باطل ہے مگر اس وقت جائز ہے کہ اس کا مالک اس کی اجازت دے اور بیچنے والے نے جو رقم خریدار سے لی ہو اسے واپس کرنا ضروری ہے۔
(۲۰۲۲)اگر خریدار سنجیدگی سے سودا کرنے کا ارادہ رکھتا ہو لیکن اس کی نیت یہ ہو کہ جو چیز خرید رہا ہے اس کی قیمت نہیں دے گا تو اس کا یہ سوچنا سودے کے صحیح ہونے میں مانع نہیں اور ضروری ہے کہ خریدار اس سودے کی قیمت بیچنے والے کو دے۔
(۲۰۲۳)اگر خریدار چاہے کہ جو مال اس نے ادھار خریدا ہے اس کی قیمت بعد میں حرام مال سے دے گا تب بھی معاملہ صحیح ہے البتہ ضروری ہے کہ جتنی قیمت اس کے ذمے ہو حلال مال سے دے تاکہ اس کا ادھار چکتا ہوجائے۔
(۲۰۲۴)حرام لہو و لعب کے آلات کی خریدوفروخت جائز نہیں ہے۔لیکن(حلال اور حرام میں استعمال ہونے والے)مشترکہ آلات مثلاً ریڈیو، ٹیپ ریکارڈ اور ویڈیو کی خریدو فروخت میں کوئی حرج نہیں۔
(۲۰۲۵)اگر کوئی چیز کہ جس سے جائز فائدہ اٹھا یا جا سکتا ہو اس نیت سے بیچی جائے کہ اسے حرام مصرف میں لایا جائے۔مثلاً انگوراس نیت سے بیچا جائے کہ اس سے شراب تیار کی جائے،چاہے سودے کے ضمن میں یا اس سے پہلے یہ ارادہ کیا جائے اور سودا اس کی بنیاد پر ہو جائے تو اس کاسودا حرام ہے۔لیکن اگر کوئی شخص انگور اس مقصد سے نہ بیچے اور فقط یہ جانتا ہو کہ خریدار انگور سے شراب تیار کرے گا توظاہر یہ ہے کہ سودے میں کوئی حرج نہیں۔
(۲۰۲۶)جاندار کا مجسمہ بنانا احتیاط کی بنا پر مطلقاً حرام ہے (مطلقاً سے مراد یہ ہے کہ مجسمہ کا مل بنایاجائے یا ناقص)لیکن انکی خریدوفروخت ممنوع نہیں ہے لیکن جاندار کی نقاشی جائز ہے۔
(۲۰۲۷)کسی ایسی چیز کا خریدنا حرام ہے جو جوئے یا چوری یا باطل سودے سے حاصل کی گئی ہو اور اس میں تصرف لازم آتا ہے تو حرام ہے اوراگر کوئی ایسی چیز خرید لے تو ضروری ہے کہ اس کے اصلی مالک کو لوٹا دے۔
(۲۰۲۸)اگر کوئی شخص ایسا گھی بیچے جس میں چربی کی ملاوٹ ہو اور اسے معین کردئیے ، مثلاً کہے کہ میں یہ ایک من گھی بیچ رہا ہوں تو اس صورت میں جب اس میں چربی کی مقدار اتنی زیادہ ہو کہ اسے گھی نہ کہا جائے تو معاملہ باطل ہے اور اگر چربی کی مقدار اتنی کم ہو کہ اسے چربی ملا ہو ا کہا جائے تو معاملہ صحیح ہے لیکن خریدنے والے کو مال عیب دار ہونے کی بنا پر خیار عیب کا حق حاصل ہے کہ وہ معاملہ ختم کر سکتا ہے اور اپنا پیسہ وا پس لے سکتا ہے۔اگر چربی گھی سے جدا ہو تو چربی کی جتنی مقدار کی ملاوٹ ہے اس کا معاملہ باطل ہے اور چربی کی جو قیمت بیچنے والے نے لی ہے وہ خریدار کی ہے اور چربی، بیچنے والے کا مال ہے اور خریدار اس میں جو خالص گھی ہے اس کا معاملہ بھی ختم کر سکتا ہے ۔لیکن اگر معین نہ کرے بلکہ صرف ایک من گھی بتا کر بیچے لیکن دیتے وقت چربی ملا ہوا گھی دے تو گاہک وہ گھی واپس کر کے خالص گھی کا مطالبہ کر سکتاہے۔
(۲۰۲۹)جس جنس کو ناپ تول کر بیچا جاتا ہے اگر کوئی بیچنے والا اسی جنس کے بدلے میں بڑھا کر بیچے مثلاً ایک من گیہوں کی قیمت ڈیڑھ من گیہوں وصول کرے تو یہ سود اور حرام ہے بلکہ اگر دو جنسوں میں سے ایک بے عیب اور دوسری عیب دار ہو یا ایک جنس بڑھیااور دوسری گھٹیا ہو یا ان کی قیمتوں میں فرق ہو تو اگر بیچنے والاجو مقدار میں ٹوٹا ہو اتانبا لے یا ثابت قسم کا پیتل دے کر اس سے زیادہ مقدار میں ٹوٹا ہو پیتل لے یا باسمتی چاول دے کر دھان لے یا گھڑا ہوا سونا دے کر اس سے زیادہ مقدار میں بغیر گھڑا ہو ا سونا لے تو یہ بھی سود اور حرام ہے۔
(۲۰۳۰)بیچنے والا جو چیز زائد لے اگر وہ اس جنس سے مختلف ہو جو وہ بیچ رہا ہے ۔مثلاً ایک من گیہوں کو ایک من گیہوں اور کچھ نقد رقم کے عوض بیچے تب بھی یہ سود اورحرام ہے۔بلکہ اگر وہ کوئی چیز زائد نہ لے لیکن یہ شرط لگائے کہ خریدار اس کے لئے کوئی کام کرے گاتو یہ بھی سود اور حرام ہے۔
(۲۰۳۱)جب کوئی شخص کوئی چیز کم مقدار میں دے رہا ہو اگر وہ اس کے ساتھ کوئی اور چیز شامل کر دے ، مثلاً ایک من گیہوں اور ایک رومال کو ڈیڑھ من گیہوں کے عوض بیچے تو اس میں کوئی حرج نہیں اس صورت میں جبکہ اس کی نیت یہ ہو کہ وہ رومال اس زیادہ گیہوں کے مقابلے میں ہے اور معاملہ بھی نقد ہو اور اسی طرح اگر دونوں طرف سے کوئی چیز بڑھا دی جائے مثلاً ایک شخص ایک من گیہوں اورایک رومال کو ڈیڑھ من گیہوں اور ایک رومال کے عوض بیچے تو اس کے لئے بھی یہی حکم ہے لہذا اگر ان کی نیت یہ ہو کہ ایک کارومال اور آدھا من گیہوں دوسرے کے رومال کے مقابلے میں ہے تو اس میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
(۲۰۳۲)اگر کوئی شخص ایسی چیز بیچے جو میڑ اور گز کے حساب سے بیچی جاتی ہے مثلاً کپڑا یا ایسی چیز بیچے جو گن کر بیچی جاتی ہے مثلاً اخروٹ اور انڈے اور زیادہ لے مثلاً دس انڈے دے اور گیارہ لے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔لیکن اگر ایسا ہو کہ معاملے میں دونوں چیزیں ایک ہی جنس سے ہوں اور مدت معین ہو تواس صورت میں معاملے کے صحیح ہونے اشکال میں ہے۔مثلاً دس اخروٹ نقد دے اور بارہ اخروٹ ایک مہینے کے بعد لے۔ کرنسی نوٹوں کا فروخت کرنا بھی اسی زمرے میں آتا ہے،مثلاً روپے کو کسی دوسری کرنسی کے بدلے میں مثلاً دینا ر یا ڈالر کے بدلے میں نقد یا معین مدت کے لیے بیچے تو اس میں کوئی حرج نہیں لیکن اگر اپنی ہی جنس کے بدلے میں بیچنا چاہے اور بہت زیادہ لے تو معاملہ معین مدت کے لئے نہیں ہونا چاہیے مثلاً ایک سو روپے نقد دے اور ایک سو دس روپے چھ مہینے کے بعد لے تو اس معاملے کے صحیح ہونے میں اشکال ہے۔
(۲۰۳۳)اگرکسی جنس کو اکثر شہروں میں ناپ تول کر بیچا جاتا ہو اور بعض شہروں میں اس کا لین دین گن کر ہوتا ہوتو ہو( مثلاً موسمبی مالٹے بعض شہروں میں تول کر بکتے ہیں اور بعض میں گن کر ) تو اقویٰ کی بنا پر اس جنس کو اس شہر کی نسبت جہاں گن کر لین دین ہوتا ہے دوسرے شہر میں زیادہ قیمت پر بیچنا جائز ہے ۔اسی طرح اس صورت میں جب شہر مختلف ہوں اور ایسا غلبہ درمیان میں نہ ہو (یعنی یہ نہ کہا جا سکے کہ اکثر شہروں میں یہ جنس ناپ تول کر بکتی ہے یا گن کر بکتی ہے)تو ہرشہرمیں وہاں کے رواج کے مطابق حکم لگایا جائے گا۔
(۲۰۳۴)ان چیزوں میں جو تول کر یا ناپ کر بیچی جاتی ہیں،اگر بیچی جانے والی چیز اور اس کے بدلے میں لی جانے والی چیز ایک جنس سے نہ ہوں اور لین دین بھی نقد ہو تو زیادہ لینے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اگر لین دین معین مدت کے لئے ہو تو اس میں اشکال ہے۔لہذا اگر کوئی شخص ایک من چاول کو دومن گیہوں کے بدلے میں ایک مہینے کی مدت تک بیچے تو اس لین دین کا صحیح ہو نا اشکال سے خالی نہیں۔
(۲۰۳۵)اگر ایک شخص پکے میووں کا سودا کچے میووں سے کرے تو زیادہ نہیں لے سکتا۔ اگر سود ا نقد اور برابر ہو تو مکروہ ہے اور ادھار ہو تو اشکال ہے۔
(۲۰۳۶)سود کے اعتبار سے گیہوں اور جو ایک جنس شمار ہوتے ہیں ۔لہذا مثال کے طور پر اگر کوئی شخص ایک من گیہوں دے اور اس کے بدلے میں ایک من پانچ سیر جو لے تو یہ سود ہے اورحرام ہے اور مثال کے طور پر اگر دس من جو اس شرط پر خریدے کہ گیہوں کی فصل اٹھانے کے وقت دس من گیہوں بدلے میں دے گا تو چونکہ جو اس نے نقد لئے ہیں اور گیہوں کچھ مدت بعد دے رہا ہے لہذا یہ اسی طرح ہے جیسے اضافہ لیا ہو اس لئے حرام ہے۔
(۲۰۳۷)باپ بیٹا اور میاں بیوی ایک دوسرے سے سود لے سکتے ہیں اور اسی طرح مسلمان ایک ایسے کافر سے جو اسلام کی پناہ میں نہ ہو سود لے سکتا ہے لیکن ایک ایسے کافر سے جو اسلام کی پناہ میں ہے سود کا لین دین حرام ہے۔البتہ معاملہ طے کر لینے کے بعد اگر سود دینا اس کی شریعت میں جائز ہو تو اس سے سود لے سکتاہے۔
(۲۰۳۸)داڑھی کا ٹنا اور اس کی اجرت لینا بنا بر احتیاط واجب جائز نہیں لیکن مجبوری ہو تو جائز ہے یا اس کا ترک ضرریا مشقت کا سبب بنے اور مشقت بھی ایسی کہ عام طور پر اسے برداشت نہ کیا جاسکے ۔چاہے تمسخر اور اہانت کیوں نہ ہو۔
(۲۰۳۹)غنا حرام ہے ۔اس سے مراد وہ باطل کلام ہے جسے ایسی لے کے ساتھ گایاجائے جو لہو ولعب کی محفلوں سے مخصوص ہو ۔ایسی لے کے ساتھ قرآن اور دعا یا اس جیسی چیزوں کا پڑھنا بھی جائز نہیں۔بنا بر احتیاط واجب مذکورہ چیزوں کے علاوہ دوسرا کلام بھی گا کر نہ پڑھے،غنا کا سننا بھی حرام ہے ۔اس کی اجرت لینا بھی حرام ہے اور یہ اجرت اس کی ملکیت نہیں بن سکتی۔اسی طرح اس کا سیکھنا اور اس کا سکھانا بھی جائز نہیں ہے۔موسیقی،یعنی آلات کو اس طرح بجانا جو لہو و لعب کی محفلوں سے مطابقت رکھے ،حرام ہے اور اس کے علاوہ حرام نہیں۔حرام موسیقی کو سکھانے کی اجرت بھی حرام ہے اور لینے والا اس کا مالک نہیں بن سکتا اور اس کا سیکھنا اور سکھانا حرام ہے۔

بیچنے والے اور خریدار کی شرائط
(۲۰۴۰)بیچنے والے اور خریدار کے لئے چھ شرائط ہیں:
(۱)بالغ ہوں۔
(۲)عاقل ہوں۔
(۳)سفیہ نہ ہوں یعنی اپنا مال احمقانہ کا موں میں خرچ نہ کرتے ہوں۔
(۴)خریدو فروخت کا ارادہ رکھتے ہوں۔پس اگر کوئی مذاق میں کہے کہ میں نے اپنا مال بیچا تو معاملہ باطل ہوگا۔
(۵)کسی نے انہیں خرید و فروخت پر مجبور نہ کیا ہو۔
(۶)جو جنس اور اس کے بدلے میں جو چیز ایک دوسرے کے دے رہے ہوں اس کے مالک ہوں۔ان کے بارے میں احکام آئندہ مسائل میں بیان کئے جائیں گے۔
(۲۰۴۱)کسی نابالغ بچے کے ساتھ سودا کرنا جو آزادانہ طور پر سودہ کر رہا ہو باطل ہے لیکن ان کم قیمت چیزوں میں جن کی خریدوفرخت کا رواج ہے اگر نابالغ مگر سمجھ دار بچے کے ساتھ لین دین ہو جائے(تو صحیح ہے)اور اگر سودا اس کے سر پرست کے ساتھ ہو اور نابالغ سمجھدار بچہ لین دین کا صیغہ جاری کرے تو سودا ہر صورت میں صحیح ہے بلکہ اگر جنس یا رقم کسی دوسرے آدمی کا مال ہو اور بچہ بحیثیت وکیل اس مال کے مالک کی طرف سے وہ مال بیچے یا اس رقم سے کوئی چیز خریدے تو ظاہر یہ ہے کہ سود صحیح ہے اگر چہ وہ سمجھدار بچہ آزادانہ طور پر اس مال یا رقم میں (حق)تصرف رکھتا ہو اور اسی طرح اگر بچہ اس کام میں وسیلہ ہوکہ رقم بیچنے والے کو دے اور جنس خریدار تک پہنچائے یا جنس خریدار کو دے اور رقم بیچنے والے کو پہنچائے تو اگرچہ بچہ سمجھدار نہ ہو تو سودا صحیح ہے۔کیونکہ دراصل وہ بالغ افراد نے آپس میں سودا کیا ہے۔
(۲۰۴۲)اگر کوئی شخص اس صورت میں کہ ایک نا بالغ بچے سے سودا کرنا صحیح نہ ہو اس سے کوئی چیز خریدے یا اس کے ہاتھ کوئی چیز بیچے تو ضروری ہے کہ جو جنس یا رقم اس بچے سے لے،اگر وہ خود بچے کا مال ہو تو اس کے سر پرست کو اور اگر کسی اور کا مال ہو تو اس کے مالک کودے دے یا اس کے مالک کی رضامندی حاصل کرے اور اگر سودا کرنے والا شخص اِس جنس یا رقم کے مالک کو نہ جانتا ہو اور اس کا پتا چلانے کا کوئی ذریعہ بھی نہ ہو تو اس شخص کے لئے ضروری ہے کہ جو چیز اس نے بچے سے لی ہو وہ اس چیز کے مالک کی طرف سے بعنوان مظالم کسی فقیر کو دے دے اور احتیاط لازم یہ ہے کہ اس کام میں حاکم شرع سے اجازت لے۔
(۲۰۴۳)اگر کوئی شخص ایک سمجھ دار بچے سے اس صورت میں سودا کرے جبکہ اس کے ساتھ سودا کرنا صحیح نہ ہو اور اس نے جو جنس یا رقم بچے کو دی ہو وہ تلف ہو جائے تو ظاہر یہ ہے کہ وہ شخص بچے سے اس کے بالغ ہونے کے بعد یا اس کے سرپرست سے مطالبہ کر سکتا ہے اور اگر بچہ سمجھ دار نہ ہو یا ممیز ہو مگر مال خود ضائع نہیں کیا لیکن مال اس کے پاس تلف ہوا ہو چاہے اس کی غفلت سے مال تلف ہوا ہو تو وہ ضامن نہیں۔
(۲۰۴۴)اگر خریدار یا بیچنے والے کو سودا کرنے پر مجبور کیا جائے اور سودا ہو جانے کے بعد وہ راضی ہو جائے او رمثال کے طور پر کہے کہ میں راضی ہوں تو سودا صحیح ہے لیکن احتیاط مستحب یہ ہے کہ معاملے کا صیغہ دوبارہ پڑھا جائے۔
(۲۰۴۵)اگر انسان کسی کا مال اس کی اجازت کے بغیر بیچ دے اور مال کا مالک اس کے بیچنے پر راضی نہ ہو اور اجازت نہ دے تو سودا باطل ہے۔
(۲۰۴۶)بچے کا باپ اور دادا نیز باپ کاوصی اور دادا کاوصی بچے کا مال فروخت کر سکتے ہیں اور ان میں کوئی موجود نہ ہو تو مجتہد عادل بھی دیوانے شخص یا یتیم بچے کا مال یا ایسے شخص کا مال جو غائب ہو فروخت کر سکتاہے۔
(۲۰۴۷)اگر کوئی شخص کسی کا مال غصب کر کے بیچ ڈالے اور مال کے بک جانے کے بعد اس کا مالک سودے کی اجازت دیدے تو سودا صحیح ہے اور جو چیز غصب کرنے والے نے خریدار کو دی ہو اور اس چیز سے جو منافع سودے کے وقت سے حاصل ہو وہ خریدار کی ملکیت ہے اور جوچیز خریدار نے دی ہو اوراس چیز سے جو منافع سودے کے وقت سے حاصل ہو وہ اس شخص کی ملکیت ہے جس کا مال غصب کیا گیا ہو۔
(۲۰۴۸)اگر کوئی شخص کسی کا مال غصب کر کے بیچ دے اور اس کا ارادہ یہ ہو کہ اس مال کی قیمت خود اس کی ملکیت ہو گی اور اگر مال کا مالک سودے کی اجازت دے دے تو سودا صحیح ہے لیکن مال کی قیمت مالک کی ملکیت ہو گی نہ کہ غاصب کی۔

جنس اور اس کے عوض کی شرائط
(۲۰۴۹)جو جنس بیچی جائے اور جو چیز اس کے بدلے میں لی جائے اس کی پانچ شرطیں ہیں:
(۱)ناپ،تول یا گنتی وغیرہ کی شکل میں اس کی مقدار معلوم ہو۔
(۲)بیچنے والا ان چیزوں کو تحویل میں دینے کا اہل ہو ۔اگر اہل نہ ہو تو سودا صحیح نہیں ہے۔لیکن اگر وہ اس کوکسی دوسری چیز کے ساتھ ملا کر بیچے جسے وہ تحویل میں دے سکتا ہو تو اس صورت میں لین دین صحیح ہے البتہ ظاہر یہ ہے کہ اگر خریدار اس چیز کو جو خریدی ہو اپنے قبضے میں لے سکتا ہو اگرچہ بیچنے والا اسے اس کی تحویل میں دینے کا اہل نہ ہوتو بھی لین دین صحیح ہے۔مثلاً جو گھوڑا بھاگ گیا ہوا گراسے بیچنے اورخریدنے والا اس گھوڑے کو ڈھونڈ سکتا ہو تو اس سودے میں کوئی حرج نہیں اور وہ صحیح ہو گا اور اس صورت میں کسی بات کے اضافے کی ضرورت نہیں ہے۔
(۳)وہ خصوصیات جو جنس اور عوض میں موجود ہوں اور ان کی وجہ سے سودے میں لوگوں کی دلچسپی میں فرق پڑتا ہو معلوم ہونی چاہئیں۔
(۴)کسی دوسرے کا حق ا س مال سے اس طرح وابستہ نہ ہو کہ مال مالک کی ملکیت سے خارج ہونے سے دوسرے کا حق ضائع ہوجائے۔
(۵)بیچنے والا خود اس جنس کو بیچے نہ کہ اس کی منفعت کو ۔پس مثال کے طور پر اگر مکان کی ایک سال کی منفعت بیچی جائے توصحیح نہیں ہے لیکن اگر خریدار نقد کی بجائے اپنی ملکیت کا منافع دے مثلاً کسی سے قالین یا دری وغیرہ خریدے او ر اس کے عوض میں اپنے مکان کا ایک سال کامنافع اسے دیدے تواس میں کوئی حرج نہیں۔ان سب کے احکام آئندہ مسائل میں بیان کئے جائیں گے۔
(۲۰۵۰)جس جنس کا سودا کسی شہر میں تول کر یا ناپ کر کیا جاتا ہو اس شہر میں ضروری ہے کہ اس جنس کو تول کر یا ناپ کر ہی خریدے لیکن جس شہر میں اس جنس کا سودا اسے دیکھ کر کیا جاتا ہو اس شہر میں وہ اسے دیکھ کر خرید سکتاہے۔
(۲۰۵۱)جس چیز کی خریدو فروخت تول کر کی جاتی ہو اس کا سودا پیمانے کے ذریعے بھی کیا جاسکتا ہے۔مثال کے طور پر اگر ایک شخص دس من گیہوں بیچنا چاہیے تو وہ ایک ایسا پیمانہ جس میں ایک من گیہوں سماتی ہو دس مرتبہ بھر کر دے سکتاہے۔
(۲۰۵۲)اگر معاملہ چوتھی شرط کے علاوہ جو شرائط بیان کی گئی ہیں ان میں سے کوئی ایک شرط نہ ہونے کی بنا پر باطل ہو لیکن بیچنے والا اور خریدار ایک دوسرے کے مال میں تصرف کرنے پر راضی ہوں تو ان کے تصرف کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
(۲۰۵۳)جو چیز وقف کی جا چکی ہو اس کا سودا باطل ہے۔لیکن اگر وہ چیز اس قدر خراب ہوجائے کہ جس فائدے کیلئے وقف کی گئی ہے وہ حاصل نہ کیا جاسکے یا وہ چیز خراب ہونے والی ہومثلاً مسجد کی چٹائی اس طرح پھٹ جائے کہ اس پر نماز نہ پڑھی جاسکے تو جو شخص متولی ہے یا جسے متولی جیسے اختیارات حاصل ہوں وہ اسے بیچ دے تو کوئی حرج نہیں اور احتیاط کی بنا پر جہاں تک ممکن ہو اس کی قیمت اسی مسجد کے کسی ایسے کام پر خرچ کی جائے جو وقف کرنے والے کے مقصد سے قریب تر ہو۔
(۲۰۵۴)جب ان لوگوں کے مابین جن کے لئے مال وقف کیا گیا ہو ایسا اختلاف پیدا ہوجائے کہ اندیشہ ہو کہ اگر وقف شدہ مال فروخت نہ کیا گیا تو مال یا کسی کی جان تلف ہوجائے گی توحکم محل اشکال ہے۔ہاں اگر وقف کرنے والا یہ شرط لگائے کہ وقف کے بیچ دینے میں کوئی مصلحت ہو توبیچ دیاجائے تو اس صورت میں اسے بیچنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
(۲۰۵۵)جو جائیداد کسی دوسرے کو کرائے پر دی گئی ہو اس کی خریدوفروخت میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن جتنی مدت کے لئے اس کرائے پر دی گئی ہو اتنی مدت کی آمدنی صاحب جائیداد کا مال ہے اور اگر خریداد کو یہ علم نہ ہو کہ وہ جائیداد کرائے پر دی جاچکی ہے یا اس گمان کے تحت کہ کرائے کی مدت تھوڑی ہے اس جائیدار کو خرید لے تو جب اسے حقیقت حال کاعلم ہو وہ سودا فسخ کر سکتا ہے۔

خرید وفروخت کا صیغہ
(۲۰۵۶)ضروری نہیں کہ خریدو فروخت کا صیغہ عربی زبان میں جاری کیا جائے۔ مثلاً اگر بیچنے والا فارسی(یااردو)میں کہے کہ میں نے یہ مال اتنی رقم پر بیچا اورخریدار کہے کہ میں نے قبول کیا تو سودا صحیح ہے لیکن یہ ضروری ہے کہ خریدار اور بیچنے والا سودا کرنے کا دلی ارادہ رکھتے ہوں یعنی یہ دو جملے کہنے سے ان کی مراد خریدوفروخت ہو۔
(۲۰۵۷)اگر سودا کرتے وقت صیغہ نہ پڑھا جائے لیکن بیچنے والا اس مال کے مقابلے میں جو وہ خریدار سے لے اپنا مال اس کی ملکیت میں دے دے تو سودا صحیح ہے اور دونوں اشخاص متعلقہ چیزوں کے مالک ہو جاتے ہیں۔

پھلوں کی خریدو فروخت
(۲۰۵۸)جن پھلوں کے پھول گر چکے ہوں اور ان میں دانے پڑ چکے ہوں ،اگر ان کے آفت(مثلاً بیماریوں اور کیڑوں کے حملوں)سے محفوظ ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں اس طرح علم ہو کہ اس درخت کی پیداوار کا اندازہ لگا سکیں تو اس کے چننے سے پہلے اس کا بیچنا صحیح ہے بلکہ اگر معلوم نہ بھی ہو کہ آفت سے محفوظ ہے یا نہیں تب بھی اگر دو سال یا اس سے زیادہ عرصے کی پیداوار یا پھلوں کی صرف اتنی مقدار جو اس وقت لگی ہو بیچی جائے بشرطیکہ اس کی کسی حد تک مالیت ہو تو معاملہ صحیح ہے۔اسی طرح اگر زمین کی پیداوار یا کسی دوسری چیز کو اس کے ساتھ بیچا جائے تو معاملہ صحیح ہے لیکن اس صورت میں احتیاط لازم یہ ہے کہ دوسری چیز(جو ضمناً بیچ رہا ہو وہ)ایسی ہو کہ اگر بیج پھل نہ بنیں تو خریدار کے سرمائے کوڈوبنے سے بچالے۔
(۲۰۵۹)جس درخت پر پھل لگا ہو، دانے بننے اور پھول گرنے سے پہلے اس کا بیچنا جائز ہے لیکن ضروری ہے کہ اس کے ساتھ کوئی اور چیز بھی بیچے جیسا کہ اس سے پہلے والے مسئلے میں بیان کیا گیا ہے یا ایک سال سے زیادہ مدّت کا پھل بیچے۔
(۲۰۶۰) درخت پر لگے ہوئے خرما کو بیچنے میں کوئی حرج نہیں چاہے پھل کچا ہو یا پک گیا ہو۔ لیکن یہ ضروری ہے کہ اس کی قیمت کے طور پر خرما نہ دیا جائے چاہے اسی درخت کا ہو یا کسی دوسرے درخت کا۔ البتہ اس کی قیمت میں رطب دی جا سکتی ہے، چاہے وہ پک چکی ہو یا ابھی اتنی کچی ہو کہ اسے خرما نہ کہا جا سکے۔ اگر کسی کا کھجور کا درخت کسی دوسرے شخص کے گھر میں ہو اور مالک کا وہاں پہنچنا مشکل ہو تو درخت کے پھل کا تخمینہ لگا کر درخت اس گھر والے کو فروخت کر دے اور قیمت میں بھی خرما ہی لے تو کوئی حرج نہیں۔
(۲۰۶۱)کھیرے،بینگن،سبزیاں اور ان جیسی(دوسری)چیزیں جو سال میں کئی دفعہ اترتی ہوں اگر وہ اگ آئی ہوں اور جو یہ طے کرلیا جائے کہ خریدار انہیں سال میں کتنی دفعہ توڑے گا تو انہیں بیچنے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن اگر پھل نہ لگا ہو تو انہیں بیچنے میں اشکال ہے۔
(۲۰۶۲)اگر دانہ آنے کے بعد گندم کے خوشے کو گندم سے جو خوداس سے حاصل ہوتی ہے یا کسی دوسرے خوشے کے عوض بیچ دیا جائے تو سودا صحیح نہیں ہے۔

نقد اور ادھا ر کے احکام
(۲۰۶۳)اگر کسی جنس کو نقد بیچا جائے تو سودا طے پا جانے کے بعد خریدار اور بیچنے والا ایک دوسرے سے جنس اوررقم کا مطالبہ کر کے اپنے قبضے میں لے سکتے ہیں ۔منقولہ چیزوں مثلاً قالین اور لباس کو قبضے میں دینے اور غیر منقولہ چیزوں مثلاً گھر اور زمین کو قبضے میں دینے سے مراد یہ ہے کہ ان چیزوں سے دست بردار ہو جائے اور انہیں فریق ثانی کی تحویل میں اس طرح دیدے کہ جب وہ چاہے اس میں تصرف کر سکے اور (واضح رہے کہ)مختلف چیزوں میں تصرف محتلف طریقے سے ہوتا ہے۔
(۲۰۶۴)ادھار کے معاملے میں ضروری ہے کہ مدت ٹھیک ٹھیک معلوم ہو ۔لہذا اگر ایک شخص کوئی چیز اس وعدے پر بیچے کہ وہ اس کی قیمت فصل اٹھنے پر لے گا تو چونکہ اس کی مدت ٹھیک ٹھیک معین نہیں ہوئی اس لئے باطل ہے۔
(۲۰۶۵)اگر کوئی شخص اپنا مال ادھار بیچے تو جومدت طے ہوئی ہو اس کی میعاد پوری ہونے سے پہلے وہ خریدار سے اس کے عوض کا مطالبہ نہیں کر سکتا لیکن اگر خریدار مر جائے اوراس کا اپنا مال ہوتو بیچنے والا طے شدہ میعاد پوری ہونے سے پہلے ہی جو رقم لینی ہواس کا مطالبہ اس کے ورثاء سے کر سکتاہے۔
(۲۰۶۶)اگر کوئی ایک چیز ادھار بیچے تو طے شدہ مدت گزرنے کے بعد وہ خریدار سے اس کے عوض کامطالبہ کر سکتا ہے لیکن اگر خریدار ادائیگی نہ کر سکتا ہو تو چاہئے کہ بیچنے والا اسے مہلت دے یا سوداختم کردے اور اگر وہ چیز جو بیچی ہے موجود ہو تو اسے واپس لے لے۔
(۲۰۶۷)اگر کوئی شخص ایک ایسے فرد کو جسے کسی چیز کی قیمت معلوم نہ ہو اس کی کچھ مقدار ادھار دے اور اس کی قیمت اسے نہ بتائے تو سودا باطل ہے۔لیکن اگر ایسے شخص کو جسے جنس کی نقد قیمت معلوم ہو ادھار پر مہنگے داموں بیچے مثلاً کہے کہ جو جنس میں تمہیں ادھار دے رہا ہوں اس کی قیمت سے جس پر میں نقد بیچتا ہوں ایک پیسہ فی روپیہ زیادہ لوں گا اورخریدار اس شرط کو قبول کرلے تو ایسے سودے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
(۲۰۶۸)اگر ایک شخص نے کوئی جنس ادھار فروخت کی ہو اور اس کی قیمت کی ادائیگی کے لئے مدت مقرر کی گئی ہو تو اگر مثال کے طور پر آدھی مدت گزرنے کے بعد(فروخت کرنے والا) واجب الادارقم میں کٹوتی کر دے اور باقی ماندہ رقم نقد لے لے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

معاملہٴ سلف کی شرائط
(۲۰۶۹)معاملہ سلف سے مراد یہ ہے کہ کو ئی شخص نقدرقم لے کر پورا مال مقرر ہ مدت کے بعد تحویل میں دینے کی شرط کے ساتھ بیچ دے لہذا اگر خریدار کہے کہ میں نے یہ رقم دے رہا ہوں تا کہ مثلاً چھ مہینے بعد فلاں چیزلے لوں اور بیچنے والا کہے کہ میں قبول کیا یا بیچنے والا رقم لے لے اور کہے کہ میں نے فلاں چیز بیچی اوراس کا قبضہ چھ مہینے بعد دوں گا تو سودا صحیح ہے۔
(۲۰۷۰)اگر کوئی شخص سونے یا چاندی کے سکے بطور سلف بیچے اور اس کے عوض چاندی یا سونے کے سکے لے تو سودا باطل ہے لیکن اگر کوئی ایسی چیز یا سکے جو سونے یا چاندی کے نہ ہوں بیچے اور ان کے عوض کوئی دوسری چیز یا سونے یا چاندی کے سکے لے تو سودا اس تفصیل کے مطابق صحیح ہے جو آئندہ مسئلے کی ساتویں شرط میں بتائی جائے گی اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ جو مال بیچے اس کے عوض رقم لے،کوئی دوسرا مال نہ لے۔
(۲۰۷۱)معاملہ سلف میں سات شرطیں ہیں:
(۱)ان خصوصیات کو جن کی وجہ سے کسی چیز کی قیمت میں فرق پڑتا ہو معین کر دیا جائے لیکن زیادہ تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں بلکہ اسی قدر کا فی ہے کہ لوگ کہیں کہ اس کی خصوصیات معلوم ہوگئی ہیں۔
(۲)اس سے پہلے کہ خریدار اور بیچنے والا ایک دوسرے سے جدا ہو جائیں ،خریدار پوری قیمت بیچنے والے کو دے یا اگر بیچنے والاخریدار کا اتنی ہی رقم کا مقروض ہو اور خریدار کو اس سے جو کچھ لینا ہوا سے مال کی قیمت میں حساب کر لے اور بیچنے والا اس بات کو قبول کر ے اور اگر خریدار اس مال کی قیمت کی کچھ مقدار بیچنے والے کو دیدے تو اگرچہ اس مقدار کی نسبت سے سوداصحیح ہے لیکن بیچنے والا سودا فسخ کر سکتا ہے۔
(۳)مدت کو ٹھیک ٹھیک معین کیا جائے،مثلاً اگر بیچنے والا کہے کہ قبضہ کٹائی پر دوں گا تو چونکہ اس سے مدت کا ٹھیک ٹھیک تعین نہیں ہوتا اس لئے سودا باطل ہے۔
(۴)جنس کا قبضہ دینے کے لئے ایسا وقت معین کیا جائے جس میں بیچنے والا جنس کا قبضہ دے سکے خواہ وہ جنس کمیاب ہو یا نہ ہو۔
(۵)جنس کا قبضہ دینے کی جگہ کا تعین احتیاط کی بنا پر مکمل طور پر کیا جائے ۔لیکن اگر طرفین کی باتوں سے جگہ کا پتا چل جائے تو کافی ہے اس کا نام لینا ضروری نہیں۔
(۶)اس جنس کا تول یا ناپ معین کیا جائے اور جس چیز کا سودا عموماً دیکھ کر کیا جاتا ہے اگراسے بطور سلف بیچا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن مثال کے طور پر اخروٹ اور انڈوں کی بعض قسموں میں تعداد کا فرق اتنا کم ہو کہ لوگ اسے اہمیت نہ دیں۔
(۷)جس چیز کو بطور سلف بیچا جائے اگر وہ ایسی ہوں جنہیں تول کر یا ناپ کر بیچا جاتا ہے تو اس کا عوض اسی جنس سے نہ ہو بلکہ احتیاط لازم کی بنا پر دوسری جنس میں سے بھی ایسی چیز نہ ہو جسے تول کریا ناپ کر بیچا جاتا ہے اور اگر وہ چیز جسے بیچا جارہا ہے ان چیزوں میں سے ہو جنہیں گن کر بیچا جاتا ہوتو احتیاط کی بنا پر جائز نہیں ہے کہ اس کا عوض خود اسی کی جنس سے زیادہ مقدار میں مقرر کرے۔

معاملہٴ سلف کے احکام
(۲۰۷۲)جو جنس کسی نے بطور سلف خریدی ہو اسے وہ مدت ختم ہونے سے پہلے بیچنے والے کے سوا کسی اور کے ہاتھ نہیں بیچ سکتا اور مدت ختم ہونے کے بعد اگرچہ خریدار نے اس کا قبضہ نہ بھی لیا ہو اسے بیچنے میں کوئی حرج نہیں۔البتہ پھلوں کے علاوہ جن غلوں مثلاً گیہوں اور جو وغیرہ کو تول کر یا ناپ کر فروخت کیاجاتا ہے انہیں اپنے قبضے میں لینے سے پہلے ان کا بیچنا جائز نہیں ہے ماسوا اس کے کہ گاہک نے جس قیمت پر خریدی ہو اسی قیمت پر یااس سے کم قیمت پر بیچے۔
(۲۰۷۳)سلف کے لین دین میں اگر بیچنے والا مدت ختم ہونے پر اس چیز کا قبضہ دے جس کا سودا ہوا ہے تو خریدار کے لئے ضروری ہے کہ اسے قبول کرے اگرچہ جس چیز کا سودا ہوا ہے اس سے بہتر چیز دے رہا ہو جبکہ اس چیز کی اس جنس میں شمار کیا جائے۔
(۲۰۷۴)اگر بیچنے والا جو جنس دے وہ جنس سے گھٹیا ہو جس کا سودا ہوا ہے خریدار اسے قبول کرنے سے انکار کر سکتا ہے۔
(۲۰۷۵)اگر بیچنے والا اس جنس کی بجائے جس کا سودا ہو اہے کوئی دوسری جنس دے اور خریدار اسے لینے پر راضی ہو جائے تو اشکال نہیں ہے۔
(۲۰۷۶)جو چیز بطور سلف بیچی گئی ہو اگر وہ خریدار کے حوالے کرنے کے لئے طے شدہ وقت پر دستیاب نہ ہو سکے تو خریدار کو اختیار ہے کہ انتظار کرے تاکہ بیچنے والا اسے مہیا کر دے یا سودافسخ کر دے اور جوچیز بیچنے والے کو دی ہو اسے واپس لے لے اور احتیاط کی بنا پر وہ چیز بیچنے والے کو زیادہ قیمت پر نہیں بیچ سکتا۔
(۲۰۷۷)اگر ایک شخص کوئی چیز بیچے اور معاہدہ کرے کہ کچھ مدت بعد وہ چیز خریدار کے حوالے کر دے گا اور اس کی قیمت بھی کچھ مدت بعد لے گا تو ایسا سودا باطل ہے۔

سونے چاندی کو سونے چاندی کے عوض بیچنا
(۲۰۷۸)اگر سونے کو سونے سے یا چاندی کو چاندی سے بیچا جائے تو چاہے وہ سکہ دار ہوں یانہ ہوں اگر ان میں سے ایک کا وزن دوسرے سے زیادہ ہو توایسا سوداحرام اور باطل ہے۔
(۲۰۷۹)اگر سونے کو چاندی سے یا چاندی کو سونے سے نقد بیچا جائے تو سوداصحیح ہے اور ضروری نہیں کہ دونوں کا وزن برابر ہو۔لیکن اگر معاملے میں مدت معین ہو تو باطل ہے۔
(۲۰۸۰)اگر سونے یا چاندی کو سونے یا چاندی کے عوض بیچا جائے توضروری ہے کہ بیچنے والا اور خریدار ایک دوسرے سے جدا ہونے سے پہلے جنس اوراس کا عوض ایک دوسرے کے حوالے کر دیں اور اگرجس کے بارے میں معاملہ طے ہو ا اس کی کچھ مقدار بھی ایک دوسرے کے حوالے نہ کی جائے تو معاملہ باطل ہے۔اگر بعض مقدار تحویل میں دی جائے تو اسی مقدار کا سودا صحیح ہے۔
(۲۰۸۱)اگر بیچنے والے یا خریدار میں سے کوئی ایک طے شدہ مال پورا پورا دوسرے کے حوالے کر دے لیکن دوسرا(مال کی صرف) کچھ مقدار حوالے کرے اور پھر وہ ایک دوسرے سے جدا ہو جائیں تو اگرچہ اتنی مقدار کے متعلق معاملہ صحیح ہے لیکن جس کو پورا مال نہ ملا ہو وہ سودا فسخ کر سکتاہے۔
(۲۰۸۲)اگر چاندی کی کان کی مٹی کو خالص چاندی سے اور سونے کی کان کی مٹی کو خالص سونے سے بیچا جائے تو سودا باطل ہے۔مگر یہ کہ جب جانتے ہوں کہ مثلاً چاندی کی مٹی کی مقدار خالص چاندی کی مقدار کے برابر ہے لیکن جیسا کہ پہلے کہا جاچکا ہے چاندی کی مٹی کو سونے کے عوض اور سونے کی مٹی کو چاندی کے عوض بیچنے میں کوئی اشکال نہیں۔

معاملہ فسخ کئے جانے کی صورتیں
(۲۰۸۳)معاملہ فسخ کرنے کے حق کو خیار کہتے ہیں اور خریدار او ر بیچنے والا گیارہ صورتوں میں معاملہ فسخ کر سکتے ہیں۔
(۱)جس مجلس میں معاملہ ہو اہے وہ بر خاست نہ ہوئی ہو ،اگرچہ سودا ہو چکا ہو ،اسے خیار مجلس کہتے ہیں۔
(۲)خریدوفروخت کے معاملے میں خریداریا بیچنے والا نیز دوسرے معاملات میں طرفین میں سے کوئی ایک مغبون ہوجائے اسے خیار غبن کہتے ہیں(مغبون سے مراد وہ شخص ہے جس کے ساتھ فراڈ کیا گیا ہو)خیار کی اس قسم کا منشا عرف عام میں شرط ارتکازی ہوتا ہے یعنی ہر معاملے میں فریقین کے ذہن میں یہ شرط موجود ہوتی ہے کہ جو مال حاصل کر رہا ہے اس کی قیمت مال سے بہت زیادہ کم نہیں جووہ ادا کررہا ہے اور اگر اس کی قیمت کم ہو تووہ معاملے کو ختم کرنے کا حق رکھتا ہے لیکن عرف خاص کی چند صورتوں میں ارتکازی شرط دوسری طرح ہو مثلاً یہ شرط ہو کہ اگر جو مال لیا ہووہ بلحاظ قیمت اس مال سے کم ہو جواس نے دیا ہے تو دونوں(مال) کے درمیان جو کمی بیشی ہو گی اس کا مطالبہ کر سکتا ہے اور اگر ممکن نہ ہوسکے تو معاملے کوختم کر دے اورضروری ہے کہ اس قسم کی صورتوں میں عرف خاص کا خیال رکھا جائے۔
(۳)سودا کرتے وقت یہ طے کیا جائے کہ مقررہ مدت تک فریقین کو یا کسی ایک فریق کو سودا فسخ کرنے کا اختیار ہوگا۔ اسے خیار شرط کہتے ہیں۔
(۴)فریقین میں سے ایک فریق اپنے مال کو اس کی اصلیت سے بہتر بتا کر پیش کرے جس کی وجہ سے دوسرا فریق اس میں دلچسپی لے یا اس کی دلچسپی اس میں بڑھ جائے اسے خیار تدلیس کہتے ہیں۔
(۵)فریقین میں سے ایک فریق دوسرے کے ساتھ شرط کرے کہ وہ فلاں کام انجام دے گا اور اس شرط پر عمل نہ ہویا شرط کی بجائے کہ ایک فریق دوسرے فریق کو ایک مخصوص قسم کا معین مال دے گا اورجو مال دیا جائے اس میں وہ خصوصیت نہ ہو،اس صورت میں شرط لگانے والا فریق معاملے کو فسخ کر سکتا ہے ۔اسے خیارتخلف شرط کہتے ہیں۔
(۶)دی جانے والی جنس یا اس کے عوض میں کوئی عیب ہو اسے خیار عیب کہتے ہیں۔
(۷)یہ پتا چلے کہ فریقین نے جس جنس کاسودا کیا ہے اس کی کچھ مقدار کسی اور شخص کا مال ہے۔اس صورت میں اگر اس مقدار کا مالک سودے پر راضٰی نہ ہوتو خریدنے والا سودا فسخ کر سکتا ہے یا اگر اتنی مقدار کی ادائیگی کر چکا ہوتو اسے واپس لے سکتا ہے۔اسے خیار شرکت کہتے ہیں۔
(۸)جس معین جنس کو دوسرے فریق نے نہ دیکھا ہو اگر اس جنس کا مالک اسے اس کی خصوصیات بتا ئے اور بعد میں معلوم ہو کہ جو خصوصیات اس نے بتائی تھیں وہ اس میں نہیں ہیں یا دوسرے فریق نے پہلے اس جنس کو دیکھا تھا اور اس کا خیال تھا کہ وہ خصوصیات اب بھی اس میں باقی ہیں لیکن دیکھنے کے بعد معلوم ہو کہ وہ خصوصات اب اس میں باقی نہیں ہیں تو اس صورت میں دوسر ا فریق معاملہ فسخ کر سکتا ہے۔اسے خیار وئت کہتے ہیں۔
(۹)خریدار نے جو جنس خریدی ہو اگر اس کی قیمت تین دن تک نہ دے اوربیچنے والے نے بھی وہ جنس خریدار کے حوالے نہ کی ہو توبیچنے والا سودے کو ختم کر سکتا ہے۔لیکن ایسا اس صورت میں ہوسکتا ہے جب بیچنے والے نے خریدار کو قیمت ادا کرنے کی مہلت دی ہولیکن مدت معین نہ کی ہو۔ اگراس کو بالکل مہلت نہ دی ہو توبیچنے والا قیمت کی ادائیگی میں معمولی سی تا خیر سے بھی سوداختم کر سکتا ہے۔اگر اسے تین دن سے زیادہ مہلت دی ہو تو مدت پوری ہونے سے پہلے سودا ختم نہیں کر سکتاہے۔اس سے یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ جنس بیچی ہے اگر وہ بعض ایسے پھلوں کی طرح ہو جوایک دن باقی رہنے سے ضائع ہو جاتے ہیں چنانچہ خریدار رات تک اس کی قیمت نہ دے اور یہ شرط بھی نہ کرے کہ قیمت دینے میں تاخیر کرے گا تو بیچنے والا سوداختم کر سکتا ہے ۔اسے خیار تاخیر کہتے ہیں۔
(۱۰)جس شخص نے کوئی جانور خرید اہو وہ تین دن تک سودافسخ کر سکتا ہے اور جو چیز اس نے بیچی ہو اگر اس کے عوض میں خریدار نے جانور دیا ہوتو جانور بیچنے والابھی تین دن تک سودا فسخ کر سکتا ہے۔اسے خیار حیوان کہتے ہیں۔
(۱۱)بیچنے والے نے جو چیز بیچی ہو اگر اس کا قبضہ نہ دے سکے ،مثلاً جو گھوڑا اس نے بیچا ہو وہ بھاگ گیا ہوتو اس صورت میں خریدار سودا فسخ کر سکتا ہے ۔اسے خیار تعذر تسلیم کہتے ہیں۔
(خیارات کی)ان تمام اقسام کے(تفصیلی)احکام آئندہ مسائل میں بیان کئے جائیں گے۔
(۲۰۸۴)اگر خریدار کو جنس کی قیمت کا علم نہ ہویا وہ سودا کرتے وقت غفلت برتے اور اس چیز کو عام قیمت سے مہنگا خریدے اور یہ قیمت خرید بڑی حد تک مہنگی ہو تو وہ سودا ختم کر سکتا ہے بشرطیکہ سوداختم کر تے وقت جس قدر فرق ہو وہ موجود بھی ہواگرفرق موجود نہ ہو تواس کے بارے میں معلوم نہیں کہ وہ سودا ختم کر سکتا ہے۔نیز اگر بیچنے والے کو جنس کی قیمت کا علم نہ ہویا سودا کرتے وقت غفلت برتے اور اس جنس کو اس کی قیمت سے سستا بیچے اور بڑی حد تک سستا بیچے تو سابقہ شرط کے مطابق سودا ختم کر سکتاہے۔
(۲۰۸۵)مشروط خرید و فروخت میں جبکہ مثال کے طور پر ایک لاکھ روپے کا مکان پچاس ہزار روپے میں بیچ دیا جائے اور طے کیا جائے کہ اگر بیچنے والا مقررہ مدت تک رقم واپس کر دے تو سودا فسخ کر سکتا ہے تو اگر خریدار اوربیچنے والا خریدو فروخت کی نیت رکھتے ہوں تو سودا صحیح ہے۔
(۲۰۸۶)مشروط خرید و فروخت میں اگر بیچنے والے کو اطمینان ہو کہ خریدار مقررہ مدت میں رقم ادا نہ کر سکنے کی صورت میں مال اسے واپس کر دے گا تو سودا صحیح ہے لیکن اگر وہ مدت ختم ہونے تک رقم ادا نہ کر سکے تو وہ خریدار سے مال کی واپسی کا مطالبہ کرنے کا حق نہیں رکھتا اور اگر خریدار مر جائے تو اس کے ورثاء سے مال کی واپسی کا مطالبہ نہیں کر سکتا۔
(۲۰۸۷)اگر کوئی شخص عمدہ چائے میں گھٹیا چائے کی ملاوٹ کر کے عمدہ چائے کے طور پر بیچے تو خریدار سوادفسخ کر سکتاہے۔
(۲۰۸۸)اگر خریدار کو پتا چلے کہ جو معین مال اس نے خریدا ہے وہ عیب دار ہے مثلاً ایک جانور خریدے اور (خریدنے کے بعد) اسے پتا چلے کہ اس کی ایک آنکھ نہیں ہے لہذا اگر یہ عیب مال میں سودے سے پہلے تھا اور اسے علم نہیں تھاتو وہ سودا فسخ کر سکتا ہے اور مال بیچنے والے کو واپس کر سکتا ہے اوراگر واپس کرنا ممکن نہ ہو مثلاً اس مال میں کوئی تبدیلی ہو گئی ہو یا ایسا تصرف کر لیا گیا ہو جو واپسی میں رکاوٹ بن رہا ہو تو اس صورت میں وہ بے عیب دار مال کی قیمت کے فرق کا حساب کر کے بیچنے والے سے (فرق کی)رقم واپس لے لے۔مثلاً اگراس نے کوئی مال چارروپے میں خریدا ہو اور اسے اس کے عیب دار ہونے کا علم ہو جائے تو اگر ایسا ہی بے عیب مال بازار میں آٹھ روپے کا اورعیب دار چھ روپے کا ہو تو چونکہ بے عیب اورعیب دار کی قیمت کا فرق ایک چوتھائی(بازار میں)آٹھ روپے کا اور عیب دار چھ روپے کا ہو تو چونکہ بے عیب اور عیب دار کی قیمت کا فرق ایک چوتھائی ہے اس لئے اس نے جتنی رقم دی ہے اس کا ایک چوتھائی یعنی ایک روپیہ بیچنے والے سے واپس لے سکتا ہے۔
(۲۰۸۹)اگر بیچنے والے کو پتا چلے کہ اس نے جس معین عوض کے بدلے اپنا مال بیچا ہے اس میں عیب ہے تو اگر وہ عیب اس عوض میں سودے سے پہلے موجود تھا اور اسے علم نہ ہوا ہو تو وہ سودافسخ کر سکتا ہے اور وہ عوض اس کے مالک کو واپس کر سکتا ہے ۔لیکن اگر تبدیلی یا تصرف کی وجہ سے واپس نہ کر سکے تو بے عیب اور عیب دار کی قیمت کا فرق اس قاعدے کے مطابق لے سکتا ہے جس کا ذکر سابقہ مسئلے میں کیا گیا ہے۔
(۲۰۹۰)اگر سودا کرنے کے بعد اور قبضہ دینے سے پہلے مال میں کوئی عیب پیدا ہو جائے تو خریدار سودا فسخ کر سکتا ہے نیز جو چیز مال کے عوض دی جائے اگراس میں سودا کرنے کے بعد اور قبضہ دینے سے پہلے کوئی عیب پیدا ہو جائے تو بیچنے والا سودا فسخ کر سکتا ہے اور اگر فریقین قیمت کا فرق لینا چاہیں تو سودا طے نہ ہونے کی صورت میں چیز کو لوٹانا جائز ہے۔
(۲۰۹۱)اگر کسی شخص کو مال کے عیب کا علم سودا کرنے کے بعد ہوتو اگروہ (سوداختم کرنا)چاہے تو ضروری ہے کہ فوراً سودے کو ختم کردے اور۔۔اختلاف کی صورتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے۔۔اگر معمول سے زیادہ تاخیر کرے تو وہ سودے کو ختم نہیں کر سکتا۔
(۲۰۹۲)جب کسی شخص کو کوئی چیز خریدنے کے بعد اس کے عیب کا پتاچلے تو خواہ بیچنے والا اس پر تیار نہ بھی ہوتوخریدار سودا فسخ کر سکتا ہے اوردوسرے خیارات کے لئے بھی یہی حکم ہے۔
(۲۰۹۳)دو صورتوں میں خریدار مال میں عیب ہونے کی بنا پر سودا فسخ نہیں کر سکتا اور نہ ہی قیمت کا فرق لے سکتا ہے۔
(۱)خریدتے وقت مال کے عیب سے واقف ہو۔
(۲)سودے کے وقت بیچنے والا کہے میں اس مال کوجو عیب بھی اس میں ہے اس کے ساتھ بیچتا ہوں۔لیکن اگروہ ایک عیب کا تعین کر دے اور کہے میں اس مال کو فلاں عیب کے ساتھ بیچ رہا ہوں اور بعد میں معلوم ہو کہ مال میں کوئی دوسرا عیب بھی ہے تو جو عیب بیچنے والے نے معین نہ کیا ہواس کی بناپر خریدار مال واپس کر سکتا ہے اور اگر واپس نہ کر سکے تو قیمت کا فرق لے سکتا ہے۔
(۲۰۹۴)اگر خریدار کو معلوم ہو کہ مال میں ایک عیب ہے اور اسے وصول کرنے کے بعد اس میں کوئی اور عیب نکل آئے تو وہ سودا فسخ نہیں کر سکتا۔لیکن بے عیب اور عیب دار مال کا فرق لے سکتا ہے۔لیکن اگر وہ عیب دارحیوان خریدے اورخیار کی مدت جو کہ تین دن ہے گزرنے سے پہلے اس حیوان میں کسی اور عیب کا پتا چل جائے تو گوخریدار نے اسے اپنی تحویل میں لے لیا ہو پھر بھی وہ اسے واپس کر سکتا ہے۔نیز اگر فقط خریدار کو کچھ مدت تک سودا فسخ کرنے کا حق حاصل ہو اور اس مدت کے دوران مال میں کوئی دوسرا عیب نکل آئے تو اگرچہ خریدار نے وہ مال اپنی تحویل میں لے لیا ہو تو بھی سودافسخ کر سکتا ہے۔
(۲۰۹۵)اگر کسی شخص کے پاس ایسا مال ہو جسے اس نے بچشم خود نہ دیکھا ہواور کسی دوسرے شخص نے مال کی خصوصیات اسے بتائی ہوں اوروہی خصوصیات خریدار کو بتائے اور وہ مال اس کے ہاتھ بیچ دے اور بعد میں اسے (یعنی مالک کو)پتاچلے کہ وہ مال اس سے بہتر خصوصیات کا حامل ہے تو وہ سودا فسخ کر سکتاہے۔

متفرق مسائل
(۲۰۹۶)اگر بیچنے والا خریدار کو کسی جنس کی قیمت خرید بتائے تو ضروری ہے کہ تمام چیزیں بھی اسے بتائے جن کی وجہ سے مال کی قیمت گھٹتی بڑھتی ہے۔اگرچہ اسی قیمت پر (جس پر خریدا ہے) یا اس سے بھی کم قیمت پر بیچے۔مثلاً اسے بتانا ضروری ہے کہ مال نقد خریدا ہے یا ادھار لہذا اس مال کی کچھ خصوصیات نہ بتائے اور خریدار کو بعد میں معلوم ہو تو وہ سودا فسخ کرسکتا ہے۔
(۲۰۹۷)اگر انسان کوئی جنس کسی کو دے اور اس کی قیمت معین کر دے اور کہے یہ جنس اس قیمت پر بیچو اور اس سے زیادہ جتنی قیمت وصول کرو گے وہ تمہاری محنت کی اجرت ہو گی تو اس صورت میں وہ شخص اس قیمت سے زیادہ جتنی قیمت بھی وصول کرے وہ جنس کے مالک کا مال ہو گا اور بیچنے والا مالک سے فقط محنتانہ لے سکتا ہے ۔لیکن اگر معاہدہ بطور جعالہ ہو اور مال کا مالک کہے:اگر تو نے یہ جنس اس قیمت سے زیادہ پر بیچی تو فاضل آمدنی تیرا مال ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
(۲۰۹۸)اگر قصاب نر جانور کا گوشت کہہ کر مادہ کا گوشت بیچے تو وہ گنہگا رہو گا۔لہذا اگر وہ اس گوشت کو معین کر دے اور کہے کہ میں یہ نر جانور کا گوشت بیچ رہا ہوں تو خریدار سودا فسخ کر سکتا ہے اور اگر قصاب اس گوشت کو معین نہ کرے اور خریدار کا جو گوشت ملا ہو(یعنی مادہ کاگوشت)وہ اس پر راضی نہ ہو تو ضروری ہے کہ قصاب اسے نر جانور کا گوشت دے۔
(۲۰۹۹)اگر خریدار بزا ز سے کہے کہ مجھے ایسا کپڑا چاہئے جس کا رنگ کچا نہ ہو اور بزاز ایک ایسا کپڑا س کے ہاتھ فروخت کرے جس کا رنگ کچا ہو تو خریدر سودا فسخ کر سکتا ہے۔
(۲۱۰۰)اگر فروخت کرنے والا فروخت کی ہوئی چیز کو خریدار کے حوالے نہ کر سکے مثلاً گھوڑے کا سودا کیا تھا ، بھاگ جائے تو اس صورت میں سودا باطل ہے اور خریدار اپنی رقم کا مطالبہ کر سکتا ہے۔

شراکت کے احکام
(۲۱۰۱)دو آدمی اگر باہم طے کریں کہ اپنے مشترکہ مال سے بیو پار کر کے جو کچھ نفع کمائیں گے اسے آپس میں تقسیم کر لیں گے اور وہ عربی یا کسی اور زبان میں شراکت کا صیغہ پڑھیں یا کوئی ایسا کام کریں جس سے ظاہر ہو تا ہو کہ وہ ایک دوسرے کے شریک بننا چاہتے ہیں تو اس کی شراکت صحیح ہے۔
(۲۱۰۲)اگر چند اشخاص اس مزدوری میں جو وہ اپنی محنت سے حاصل کرتے ہوں ایک دوسرے کے ساتھ شراکت کریں مثلاً چند حجام آپس میں طے کریں کہ جو اجرت حاصل ہو گی اسے آپس میں تقسیم کر لیں گے تو ان کی شراکت صحیح نہیں ہے۔لیکن اگر باہم طے کر لیں کہ مثلاً ہر ایک کی آدھی مزدوری معین مدت تک کے لئے دوسرے کی آدھی مزدوری کے بدلے میں ہوگی تو معاملہ صحیح ہے اور ان میں سے ہر ایک دوسرے کی مزدوری میں شریک ہوگا۔
(۲۱۰۳)اگر دو اشخاص آپس اس طرح شراکت کریں کہ ان میں سے ہر ایک اپنی ذمے داری پر جنس خریدے اور اس کی قیمت کی ادائیگی کا مقروض ہو لیکن جو جنس دونوں نے خریدی ہو اس کے نفع میں ایک دوسرے کے ساتھ شریک ہوں تو ایسی شراکت صحیح نہیں۔البتہ اگر ان میں سے ہر ایک دوسرے کو اپنا وکیل بنا ئے کہ جو کچھ وہ ادھار لے رہا ہے اس میں اسے شریک کر لے یعنی جنس کو اپنے اور اپنے حصہ دار کے لئے خریدے جس کی بنا پر دونوں مقروض ہو جائیں تو دونوں میں سے ہر ایک جنس میں شریک ہو جائے گا۔
(۲۱۰۴)جو اشخاص شراکت کے ذریعے ایک دوسرے کے شریک کار بن جائیں ان کے لئے ضروری ہے کہ بالغ اور عاقل ہوں ،نیز یہ کہ ارادے اور اختیارکے ساتھ شراکت کریں اور یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اپنے مال میں تصرف کر سکتے ہوں۔لہذا سفیہ… جو اپنا مال احمقانہ اور فضول کا موں پر خرچ کر تا ہے۔۔اپنے مال میں تصرف کا حق نہیں رکھتا۔اگر وہ کسی کے ساتھ شراکت کرے تو صحیح نہیں ہے۔
(۲۱۰۵)اگر شراکت کے معاہدے میں یہ شرط لگائی جائے کہ جو شخص کام کرے گا یا جو دوسرے شریک سے زیادہ کا م کرے گا یا جس کے کام کی دوسرے کے کام کے مقابلے میں زیادہ اہمیت ہے اسے منافع میں زیادہ حصہ ملے گا تو ضروری ہے کہ جیسا طے کیا گیا ہو متعلقہ شخص کو اس کے مطابق دیں اور اسی طرح اگر شرط لگائی جائے کہ جو شخص کا م نہیں کر ے گا یا زیادہ کا م نہیں کرے گا یا جس کے کام کی دوسرے کے کام کے مقابلے میں زیادہ اہمیت نہیں ہے اسے منافع کا زیادہ حصہ ملے گا تب بھی صحیح ہے اور جیسا کے طے کیا گیا ہو متعلقہ شخص کو اس کے مطابق دیں۔
(۲۱۰۶)اگر شرکاء طے کریں کہ سارا منافع کسی ایک شخص کا ہو گا یا سارا نقصان کسی ایک کو برداشت کرنا ہو گا تو شراکت صحیح ہونے میں اشکال ہے۔
(۲۱۰۷)اگر شرکاء یہ طے نہ کریں کہ کسی ایک شریک کو زیادہ منافع ملے گا ،تو اگر ان میں سے ایک کا سرمایہ جتنا ہو تو نفع و نقصان بھی ان کے مابین برابر تقسیم ہو گا اور ان کا سرمایہ برابر برابر نہ ہو توضروری ہے کہ نفع و نقصان سرمائے کی نسبت سے تقسیم کریں۔مثلاً اگر دو افراد شراکت کریں اور ایک کا سرمایہ دوسرے کے سرمائے سے دگنا ہو تو نفع و نقصان میں بھی اس کا حصہ دوسرے سے دگنا ہو گا خواہ دونوں ایک جتنا کا م کریں یا ایک تھوڑا کام کرے یا بالکل کا م نہ کرے۔
(۲۱۰۸)اگر شراکت کے معاہدے میں یہ طے کیا جائے کہ دونوں شریک مل کر خرید وفروخت کریں گے یا ہر ایک انفرادی طور پر لین دین کرنے کا مجاز ہو گایا ان میں سے فقط ایک شخص لین دین کرے گا یا تیسرا شخص اجرت پر لین دین کرے گا تو ضروری ہے کہ اس معاہدے پر عمل کریں۔
(۱۲۰۹)شراکت دو قسم کی ہے۔ ایک تو وہ جواجازت پر مبنی ہے اور وہ یہ ہے کہ مال تجارت تمام شرکاء کی مشترک ہونا مشہور ہو۔دوسری قسم وہ ہے جس میں ہر شرک اپنے مال کو شراکت کے لئے حاضر کرے اور ان میں سے ہر ایک اپنے نصف مال کو دوسرے کے نصف مال کا معاوضہ قرار دے۔اگر شراکت داراپنے شرکاء میں سے کسی ایک کو خریدو فروخت کے لئے معین نہ کریں تو جنس پر اجازت شراکت میں شرکاء میں سے کوئی بھی خریدو فروخت نہیں کر سکتا۔لیکن شراکت معارض میں اگر ضرر نہ پہنچائیں تو ہر ایک خریدوفروخت کر سکتا ہے۔
(۰ا۲۱)جوشریک شراکت کے سرمائے پر اختیار رکھتا ہو اس کے لئے ضروری ہے کہ شراکت کے معاہدے پر عمل کرے۔مثلاً اگراس سے طے کیا گیا ہو کہ ادھار خریدے گا یا نقد بیچے گا یا کسی خاص جگہ سے خریدے گا تو جو معاہد ہ طے پایا ہے اس کے مطابق عمل کرنا ضروری ہے اور اگر اس کے ساتھ کچھ طے نہ ہوا ہو تو ضروری ہے کہ معمول کے مطابق لین دین کرے تا کہ شراکت کو نقصان نہ ہو۔
(۲۱۱۱)جوشریک شراکت کے سرمائے سے سودے کرتا ہو اگر جو کچھ اس کے ساتھ طے کیا گیا ہو اس کے برخلاف خریدوفروخت کرے یا اگر کچھ طے نہ کیا گیا ہو اور معمول کے خلاف سودا کرے تو ان دونوں صورتوں میں اگرچہ اقویٰ قول کی بنا پر معاملہ صحیح ہے لیکن اگر معاملہ نقصان دہ یا شراکت کے مال میں سے کچھ مال ضائع ہو جائے تو جس شریک نے معاہدے یا معمول کے خلاف عمل کیا ہے وہ ذمے دار ہے۔
(۲۱۱۲)جو شریک شراکت کے سرمائے سے کاروبار کر تا ہو اگر وہ فضول خرچی نہ کرے اور سرمائے کی نگہداشت میں بھی کوتاہی نہ کرے اور پھر اتفاقاً اس سرمائے کی کچھ مقدار یا سارے کا سارا سرمایہ تلف ہو جائے تو وہ ذمے دار نہیں ہے۔
(۲۱۱۳)جو شریک شراکت کے سرمائے سے کاروبار کرتا ہو اگر وہ کہے کہ سرمایہ تلف ہو گیا ہے تو اگر وہ دوسرے شرکاء کے نزدیک معتبر شخص ہو تو ضروری ہے کہ اس کا کہنا مان لیں اور اگر دوسرے شرکاء کے نزدیک وہ معتبر شخص نہ ہو تو حاکم شرع کے پاس اس کے خلاف دعویٰ کر سکتے ہیں تا کہ حاکم شرع قضاوت کے اصولوں کے مطابق تنازعے کا فیصلہ کرے۔
(۲۱۱۴)اگر شراکت اذنی میں تمام شریک اس اجازت سے جوانہوں نے ایک دوسرے کو مال میں تصرف کیلئے دے رکھی ہو پھر جائیں تو ان میں سے کوئی بھی شراکت کے مال میں تصرف نہیں کر سکتا اور اگر ان میں سے ایک اپنی دی ہوئی اجازت سے پھر جائے تو دوسرے شرکاء کو تصرف کا کوئی حق نہیں لیکن جو شخص اپنی دی ہوئی اجازت سے پھر گیا ہو وہ شراکت کے مال میں تصرف کر سکتا ہے ۔لیکن مال میں سب کی شراکت باقی رہے گی۔
(۲۱۱۵)شراکت اذنی میں جب شرکاء میں سے کوئی ایک تقاضا کرے کہ شراکت کا سرمایہ تقسیم کر دیا جائے تو اگرچہ شراکت کے معینہ مدت میں ابھی کچھ وقت باقی ہو دوسروں کو اس کا کہنا مان لینا ضروری ہے مگر یہ کہ انہوں نے پہلے ہی(معاہدہ کرتے وقت) سرمائے کی تقسیم کو رد کر دیا ہو(یعنی قبول نہ کیا ہو)یا مال کی تقسیم شرکاء کے لئے قابل ذکر نقصان کا موجب ہو (تو اس کی بات قبول نہیں کرنی چاہیے)
(۲۱۱۶)اگر شرکاء میں سے کوئی مر جائے یا دیوانہ یا بے حواس ہو جائے تو دوسرے شرکاء شراکت کے مال میں تصرف نہیں کر سکتے اوراگر ان میں سے کوئی سفیہ ہو جائے یعنی اپنا مال فضول کاموں میں خرچ کرے تو اس کا بھی یہی حکم ہے۔
(۲۱۱۷)اگر شریک اپنے لئے کوئی چیز ادھار خریدے تو اس نفع و نقصان کا وہ خود ذمے دار ہے لیکن اگر شراکت کے لئے خریدے اور شراکت کے معاہدے میں ادھار معاملہ کرنا بھی شامل ہو تو پھر نفع ونقصان میں دونوں شریک ہوں گے۔
(۲۱۱۸)اگر شرکاء میں سے کوئی ایک شراکت کے سرمائے سے کوئی سودا کرے اور بعد میں معلوم ہو کہ شراکت باطل تھی تو اگر صورت یہ ہو کہ معاملہ کرنیکی اجازت میں شراکت کے صحیح ہونے کی قید نہ تھی یعنی اگر شرکاء جانتے ہوتے کہ شراکت درست نہیں ہے تب بھی وہ ایک دوسرے کے مال میں تصرف پر راضی تھے تو معاملہ صحیح ہے اور جو کچھ اس معاملے سے حاصل ہو وہ ان سب کا مال ہے۔اگر ایسا نہ ہو تواس صورت میں کہ جو لوگ دوسروں کے تصرف پر راضی نہیں تھے، یہ کہہ دیں کہ ہم اس معاملے پر راضی ہیں تو معاملہ صحیح ہے ورنہ باطل ہے۔ہر صورت میں ان میں سے جس نے بھی شراکت کے لئے کام کیا ہو اگر اس نے بلا معاوضہ کام کرنے کے ارادے سے نہ کیا ہو تو وہ اپنی محنت کا معاوضہ معمول کے مطابق دوسرے شرکاء سے ان کے مفاد کا خیال رکھتے ہوئے لے سکتا ہے ۔لیکن اگر کام کرنے کا معاوضہ اس فائدے کی مقدار سے زیادہ ہو جو وہ شراکت صحیح ہونے کی صورت میں لیتا تو وہ بس اسی قدر فائدہ لے سکتا ہے۔

صلح کے احکام
(۲۱۱۹)صلح سے مراد ہے کہ انسان کسی دوسرے شخص کے ساتھ اس بات پر اتفاق کرے کہ اپنے مال سے یا اپنے مال کے منافع سے کچھ مقدار دوسرے کو دے دے یا اپناقرض یا حق چھوڑ دے تا کہ دوسرا بھی اس کے عوض اپنے مال یا منافع کی کچھ مقدار اسے دے دے یا قرض یا حق سے دستبراد ہو جائے۔ بلکہ اگر کوئی شخص عوض لئے بغیر کسی سے اتفاق کرے اورا پنا مال یا مال کے منافع کی کچھ مقدار اس کو دے دے یا اپنا قرض یا حق چھوڑ دے تب بھی صلح صحیح ہے۔
(۲۱۲۰)جو شخص اپنا مال بطور صلح دوسرے کو دے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ بالغ اور عاقل اورصلح کا قصد رکھتا ہو نیز یہ کہ کسی نے اسے صلح پر مجبور نہ کیا ہو اورضروری ہے کہ سفیہ یا دیوالیہ ہونے کی بنا پر اسے اپنے مال میں تصرف کرنے سے نہ روکا گیا ہو۔
(۲۱۲۱)صلح کا صیغہ عربی میں پڑھناضروری نہیں بلکہ جن الفاظ سے اس بات کا اظہار ہو کہ فریقین نے آپس میں صلح کی ہے (تو صلح)صحیح ہے۔
(۲۱۲۲)اگر کوئی شخص اپنی بھیڑیں چرواہے کو دے تا کہ وہ مثلاً ایک سال ان کی نگہداشت کرے اور ان کے دودھ سے خود استفادہ حاصل کرے اور گھی کی کچھ مقدار مالک کودے تو اگر چرواہے کی محنت اور اس گھی کے مقابلے میں وہ شخص بھیڑوں کے دودھ پر صلح کر لے تو معاملہ صحیح ہے بلکہ اگر بھیڑیں چرواہے کو ایک سال کے لئے اس شرط کے ساتھ اجارے پر دے کہ وہ ان کے دودھ سے استفادہ حاصل کرے اور اس کے عوض اسے کچھ گھی دے مگر یہ قید نہ لگائے کہ بالخصوص انہی بھیڑوں کے دودھ کا گھی ہو تو بھی اجارہ صحیح ہے۔
(۲۱۲۳)اگر کوئی قرض خواہ اس قرض کے بدلے جو اس مقروض سے وصول کرنا ہے یا ا پنے حق کے بدلے اس شخص سے صلح کرنا چاہے تو یہ صلح کرنا اس صورت میں صحیح ہے جب دوسرا اسے قبول کر لے لیکن اگر کوئی شخص اپنے قرض یا حق سے دستبرادار ہونا چاہے تو دوسرے کا قبول کرنا ضروری نہیں۔
(۲۱۲۴)اگر مقروض اپنے قرضے کی مقدار جانتا ہوجبکہ قرض خواہ کو علم نہ ہو اور قرض خواہ نے جوکچھ لینا ہو اس سے کم پر صلح کر لے مثلاً اس نے پچاس روپے لینے تھے اور دس روپے پر صلح کر لے تو باقی ماندہ رقم مقروض کے لئے حلال نہیں ہے۔سوائے اس صورت کے کہ وہ جتنے قرض کا دیندار ہے اس کے متعلق خود قرض خواہ کو بتائے اور اسے راضی کر لے یا صورت ایسی ہو کہ اگرقرض خواہ کو قرضے کی مقدار کا علم ہوتا تب بھی اسی مقدار (یعنی دس روپے)پر صلح کر لیتا۔
(۲۱۲۵)اگر دو آدمیوں کے پاس کوئی مال موجود ہو یا ایک دوسرے کے ذمے کوئی مال باقی ہو اور انہیں یہ علم ہو کہ ان دونوں اموال میں سے ایک مال دوسرے مال سے زیادہ ہے تو چونکہ ان دونوں اموال کو ایک دوسرے کے عوض میں فروخت کرنا سود ہونے کی بنا بر حرام ہے اس لئے ان دونوں میں ایک دوسرے کے عوض صلح کرنا بھی حرام ہے بلکہ اگران دونوں اموال میں سے ایک کے دوسرے سے زیادہ ہونے کا علم نہ بھی ہو لیکن زیادہ ہونے کا احتمال ہو تو احتیاط لازم کی بنا پر ان دونوں میں ایک دوسرے کے عوض صلح نہیں کی جاسکتی۔
(۲۱۲۶) اگر وہ اشخاص کو ایک شخص سے یا دو اشخاص کو دوسرے دو اشخاص سے قرضہ وصول کرنا ہو اور وہ اپنی اپنی طلب پر ایک دوسرے سے صلح کرنا چاہتے ہوں اور صلح کرنا سود کا باعث نہ ہو جیسا کہ سابقہ مسئلے میں کہا گیا ہے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ مثلاً اگر دونوں کو دس من گیہوں وصول کرنا ہو اور ایک کا گیہوں اعلیٰ اور دوسرے کا درمیانے درجے کا ہوا اور دونوں کی مدت پوری ہو چکی ہو تو ان دونوں کا آپس میں مصالحت کرنا صحیح ہے۔
(۲۱۲۷)اگر ایک شخص کو کسی سے اپنا قرضہ کچھ مدت کے بعد واپس لینا ہو اور وہ مقروض کے ساتھ مقررہ مدت سے پہلے معین مقدار سے کم صلح کر لے اور اس کا مقصد یہ ہو کہ اپنے قرضے کا کچھ حصہ معاف کر دے اور باقی ماندہ نقد لے لے تو اس میں کوئی حرج نہیں اور یہ حکم اس صورت میں ہے کہ قرضہ سونے یا چاندی کی شکل میں یا کسی ایسی جنس کی شکل میں ہو جو ناپ کر یا تول کر بیچی جاتی ہے اور اگر جنس اس قسم کی نہ ہو تو قرض خواہ کے لئے جائز ہے کہ اپنے قرضے سے کمتر مقدار پر مقروض یا کسی اور سے صلح کر لے یا بیچ دے جیسا کہ مسئلہ۲۲۴۸میں بیان ہو گا۔
(۲۱۲۸) اگر دو اشخاص کسی چیز پر آپس میں صلح کر لیں تو ایک دوسرے کی رضا مندی سے اس صلح کو توڑ سکتے ہیں۔ نیز اگر سودے کے سلسلے میں دونوں کو یا کسی ایک کو ایک کو سودا فسخ کرنے کا حق دیا گیا ہو تو جس کے پاس حق ہے وہ صلح کو فسخ کر سکتا ہے۔
(۲۱۲۹)جب تک خریدار اور بیچنے والا ایک دوسرے سے جدا نہ ہو گئے ہوں وہ سودے کو فسخ کر سکتے ہیں ۔نیز اگر خریدار ایک جانور خریدے تو وہ تین دن تک سودا فسخ کرنے کا حق رکھتا ہے۔اسی طرح اگرایک خریدار خریدی ہوئی جنس کی قیمت تین دن تک ادا نہ کرے اور جنس کو اپنی تحویل میں نہ لے تو جیسا کہ مسئلہ۲۰۸۱میں بیان ہو چکا ہے بیچنے والا سودے کو فسخ کر سکتا ہے ۔لیکن جو شخص کسی مال پر صلح کرے وہ ان تینوں صورتوں میں صلح فسخ کرنے کا حق نہیں رکھتا۔لیکن اگر صلح کا دوسرا فریق مصالحت کا مال دینے میں غیر معمولی تاخیر کرے یا یہ شرط رکھی گئی ہو کہ مصالحت کا مال نقد دیا جائے اور دوسرا فریق اس شرط پر عمل نہ کرے تو اس صورت میں صلح فسخ کی جاسکتی ہے۔اسی طرح باقی صورتوں میں بھی جب کاذکر خریدوفروخت کے احکام میں آیا ہے صلح فسخ کی جاسکتی ہے اور اگر مصالحت کے دونوں فریقوں میں سے ایک کو دھوکہ ہوا ہو تو وہ صلح کو ختم کر سکتا ہے لیکن اگر صلح جھگڑا ختم کرنے کے لئے ہوا ہے تو دھوکہ کھانے والا بھی احتیاط واجب کی بنا پر صلح کو ختم نہیں کر سکتا۔
(۲۱۳۰)جو چیز بذریعہ صلح ملے اگر وہ عیب دار ہو تو صلح فسخ کی جاسکتی ہے لیکن اگر متعلقہ شخص بے عیب اور عیب دار کے مابین قیمت کا فرق لینا چاہے تو اس میں اشکال ہے۔
(۲۱۳۱)اگر کوئی شخص اپنے مال کے ذریعے دوسرے سے صلح کرے اور اس کے ساتھ شرط ٹھہرائے اور کہے کہ جس چیز پر میں نے تم سے صلح کی ہے میرے مرنے کے بعد مثلاً تم اسے وقف کر دو گے اور دوسرا شخص بھی اس کو قبول کرلے تو ضروری ہے کہ اس شرط پر عمل کرے۔

کرائے کے احکام
(۲۱۳۲)کوئی چیز کرائے پردینے والے اور کرائے پر لینے والے کے لئے ضروری ہے کہ بالغ اور عاقل ہوں اور کرایہ لینے یا کرایہ دینے کا کام اپنے اختیار سے کریں۔یہ بھی ضروری ہے کہ اپنے مال میں تصرف کا حق رکھتے ہوں۔لہذا چونکہ سفیہ اپنے مال میں تصرف کرنے کا حق نہیں رکھتا اس لئے نہ وہ کوئی چیز کرائے پر لے سکتا ہے اور نہ دے سکتا ہے۔اسی طرح جو شخص دیوالیہ ہو چکا ہو وہ ان چیزوں کو کرائے پر نہیں دے سکتا جن میں وہ تصرف کا حق نہ رکھتا ہو اور نہ وہ ان میں سے کوئی چیز کرائے پر لے سکتا ہے لیکن اپنی خدمات کو کرائے پر پیش کر سکتاہے۔
(۲۱۳۳)انسان دوسرے کی طرف سے وکیل بن کر اس کا مال کرائے پر دے سکتا ہے یا کوئی مال اس کے لئے کرائے پر لے سکتا ہے۔
(۲۱۳۴)اگر بچے کا سر پرست یا اس کے مال کا منتظم بچے کا مال کرائے پر دے یا بچے کو کسی کا اجیر مقرر کر دے تو کوئی حرج نہیں اور اگر بچے کے بالغ ہونے کے بعد کی کچھ مدت کو بھی اجارے کی مدت کا حصہ قرار دیا جائے تو بچہ بالغ ہونے کے بعد باقی ماندہ اجارہ فسخ کر سکتا ہے اگرچہ صورت یہ ہو کہ اگر بچے کے بالغ ہونے کی کچھ مدت کو اجارہ کی مدت کا حصہ نہ بنایا جاتا تو یہ بچے کے لئے مصلحت کے خلاف ہوتا۔ہاں اگر وہ مصلحت شرعی لازمی مصلحت کے بر خلاف تھی یعنی جس کے بارے میں یہ علم ہو کہ شارع مقدس اس مصلحت کو ترک کرنے پر راضی نہیں ہے اس صورت میں اگر حاکم شرع کی اجازت سے اجارہ واقع ہو جائے تو بچہ بالغ ہونے کے بعد اجارہ فسخ نہیں کر سکتا۔
(۲۱۳۵)جس نابالغ بچے کا سر پر ست نہ ہو اسے مجتہد کی اجازت کے بغیرمزدوری پر نہیں لگا یا جا سکتا اور جس شخص کی رسائی مجتہد تک نہ ہو وہ ایک مومن شخص کی اجازت لیکر جو عادل ہو بچے کو مزدوری پر لگا سکتا ہے۔
(۲۱۳۶)اجارہ دینے والے اور اجارہ لینے والے کے لئے ضروری نہیں کہ صیغہ عربی زبان میں پڑھیں بلکہ اگر کسی چیز کا مالک دوسرے سے کہے کہ میں نے اپنا مال تمہیں اجارے پر دیا اور دوسرا کہے کہ میں نے قبول کیا تو اجارہ صحیح ہے بلکہ اگر وہ منہ سے کچھ بھی نہ کہیں اور مالک اپنا مال اجارے کے قصد سے مستا جر کو دے اور وہ بھی اجارے کے قصد سے لے تو اجارہ صحیح ہو گا۔
(۲۱۳۷)اگر کوئی شخص چاہے کہ اجارے کا صیغہ پڑھے بغیر کوئی کام کرنے کے لئے اجیر بن جائے تو جونہی وہ کام کرنے میں مشغول ہو گا اجارہ صحیح ہو جائے گا۔
(۲۱۳۸)جو شخص بول نہ سکتا ہو اگر وہ اشارے سے سمجھا دے کہ اس نے کوئی چیز اجارے پر دی ہے یا اجارے پر لی ہے تو اجارہ صحیح ہے۔
(۲۱۳۹)اگر کوئی شخص مکان یا دوکان یا کشتی یا کمرہ اجارے پر لے اور اس کا مالک یہ شرط لگائے کہ صرف وہ اس سے استفادہ کر سکتا ہے تو مستاجر اسے کسی دوسرے کو استعمال کیلئے اجارے پرنہیں دے سکتا بجز اس کے کہ وہ نیا اجارہ اس طرح ہو کہ اس فوائد بھی کرائے پر لینے والے سے مخصوص ہوں۔مثلاً ایک عورت ایک مکان یا کمرہ کرائے پر لے اور بعد میں شادی کرلے اور کمرہ یا مکان اپنی رہائش کے لئے کرائے پر دے دے(یعنی شوہر کو کرائے پر دے کیونکہ بیوی کی رہائش کا انتظام بھی شوہر کی ذمے داری ہے) اور اگر مالک ایسی کوئی شرط نہ لگائے تو کرائے پر لینے والا اسے دوسرے کو کرائے پر دے سکتا ہے۔البتہ مال کو کرایہ دار دوم کے سپرد کرنے کے لئے احتیاط کی بنا پر ضروری ہے کہ مالک سے اجازت لے لے۔لیکن اگر وہ چاہے کہ جتنے کرائے پر لیا ہے اس سے زیادہ کرائے پر دے اگرچہ کرایہ دوسری جنس سے ہو تو ضروری ہے کہ اس نے مرمت اور سفیدی وغیرہ کرائی ہو یا اس کی حفاظت کیلیے کچھ نقصان برادشت کیا ہو تو وہ اسے زیادہ کرائے پر دے سکتاہے۔
(۲۱۴۰)اگر مزدور،مالک سے یہ شرط طے کرے کہ وہ فقط اسی کا کام کرے گا تو بجز اس صورت کے جس کا ذکر سابقہ مسئلے میں کیا گیا ہے اس مزدور کو کسی دوسرے شخص کو بطور اجارہ نہیں دیا جاسکتا اور اگر اجیر ایسی کوئی شرط نہ لگائے تو اسے دوسرے کو اجارے پر دے سکتا ہے۔ لیکن جو چیز اس کو اجارے پر دے رہا ہے ضروری ہے کہ اس کی قیمت اس اجارے سے زیادہ نہ ہو جو اجیر کے لئے قرار دیا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص خود کسی کا اجیر بن جائے اور کسی دوسرے شخص کو وہ کام کرنے کے لئے اجرت پر رکھ لے تو اس کے لئے بھی یہی حکم ہے(یعنی وہ اسے کم اجرت پر نہیں رکھ سکتا)لیکن اگراس نے کام کی کچھ مقدار خود انجام دی ہو تو پھر دوسرے کو کم اجرت پر بھی رکھ سکتا ہے۔
(۲۱۴۱)اگر کوئی شخص مکان،دکان،کمرے اورکشتی کے علاوہ کوئی اور چیز مثلاً زمین کرائے پر لے اور زمین کا مالک اس سے یہ شرط نہ کرے کہ صرف وہی اس سے استفادہ کر سکتا ہے تو اگر جتنے کرائے پر اس نے وہ چیز لی ہے اس سے زیادہ کرائے پر دے تو اجارہ کے صحیح ہونے میں اشکال ہے۔
(۲۱۴۲)اگر کوئی شخص مکان یا دکان مثلاً ایک سال کے لئے سو روپیہ کرائے پر لے اور اس کا آدھا حصہ خود استعمال کرے تو دوسرا حصہ سو روپیہ کرائے پر چڑھا سکتا ہے لیکن اگر وہ چاہے کہ مکان یا دکان کا آدھا حصہ اس سے زیادہ کرائے پر چڑھا دے جس پر اس نے خود وہ دکان یا مکان کرائے پر لیا ہے مثلاً۱۲۰ روپے کرائے پر دے دے تو ضروری ہے کہ اس میں مرمت وغیرہ کا کام کرایا ہو۔

کرائے پر دئیے جانے والے مال کی شرائط
(۲۱۴۳)جو مال اجارے پر دیا جائے اس کی چند شرائط ہیں:
(۱)وہ مال معین ہو ۔لہذا اگر کوئی شخص کہے کہ میں نے اپنے مکانات میں سے ایک مکان تمہیں کرائے پر دیا تو یہ درست نہیں ہے۔
(۲)کرائے پر لینے والا اس مال کو دیکھ لے یا اجارے پر دینے والا شخص اپنے مال کی خصوصیات اس طرح بیان کرے کہ اس کے بارے میں مکمل معلومات حاصل ہو جائیں۔
(۳)اجارے پر دئیے جانے والے مال کو دوسرے فریق کے سپرد کرنا ممکن ہو لہذا اس گھوڑے کو اجارے پر دینا جو بھاگ گیا ہو اگر مستاجر اس کو نہ پکڑ سکے تو اجارہ باطل ہے اور اگر پکڑ سکے تو اجارہ صحیح ہے۔
(۴)اس مال سے استفادہ کرنا اس کے ختم یا کالعدم ہو جانے پر موقوف نہ ہو لہذا روٹی ،پھلوں اور دوسری خوردنی اشیاء کو کھانے کے لئے کرائے پر دینا صحیح نہیں ہے۔
(۵)مال سے وہ فائدہ اٹھا نا ممکن ہو جس کیلئے اسے کرائے پر دیا جائے۔لہذا ایسی زمین کا زراعت کے لئے کرائے پر دینا جس کے لئے بارش کا پانی کافی نہ ہو اور وہ دریا کے پانی سے بھی سیراب نہ ہوتی ہو صحیح نہیں ہے۔
(۶)جو چیز کرائے پر دی جارہی ہو وہ کرائے پر دینے والے کا اپنا مال ہو اور اگر کسی دوسرے کا مال کرائے پر دیا جائے تو معاملہ اس صورت میں صحیح ہے کہ جب اس مال کا مالک رضا مند ہو۔
(۲۱۴۴)جس درخت میں ابھی پھل نہ لگا ہو اس کا اس مقصد سے کرائے پر دینا کہ اس کے پھل سے استفادہ کیا جائے گا درست ہے اور اسی طرح ایک جانور کو اس کے دودھ کے لئے کرائے پر دینے کا بھی یہی حکم ہے۔
(۲۱۴۵)عورت اس مقصد کے لئے اجیر بن سکتی ہے کہ اس کے دودھ سے استفادہ کیا جائے(یعنی کسی دوسرے کے بچے کو اجرت پر دودھ پلا سکتی ہے)اور ضروری نہیں کہ وہ اس مقصد کے لئے شوہر سے اجازت لے لیکن اگر اس کے دودھ پلانے سے شوہر کی حق تلفی ہوتی ہو تو پھر اس کی اجازت کے بغیر عورت ا جیر نہیں بن سکتی۔

کرائے پر دئیے جانے والے مال سے استفادہ کی شرائط
(۲۱۴۶)جس استفادہ کے لئے مال کرائے پر دیا جاتا ہے اس کی چار شرطیں ہیں:
(۱)استفادہ کرنا حلال ہو ۔پس اگر کسی مال کی منفعت حرام ہو یا یہ شرط رکھی جائے کہ حرام سے استفادہ کیا جائے یا سودا کرنے سے پہلے حرام معاملے کو معین کیاجائے اور سودے کی بنیاد اسی پر رکھی جائے تو یہ سودا باطل ہے۔لہذا دکان کو شراب بیچنے یا شراب ذخیرہ کرنے کے لئے کرائے پر دینا اورحیوان کو شراب کی نقل و حمل کے لئے کرائے پر دینا باطل ہے۔
(۲)وہ عمل شریعت میں بلا معاوضہ انجام دینا واجب نہ ہو اور احتیاط کی بنا پر اسی قسم کے کو کاموں میں سے ہے حلال اور حرام کے مسائل سکھانا اور مردوں کی تجہیز وتکفین کرنا ۔لہذا اس کاموں کی اجرت لینا جائز نہیں ہے ۔اور احتیاط کی بنا پر معتبر ہے کہ اس استفادہ کے لئے رقم دینا لو گوں کی نظروں میں فضول نہ ہو۔
(۳)جو چیز کرائے پر دی جائے اگر وہ کثیر الفوائد(اور کثیر المقاصد)ہو تو جو فائدہ اٹھانے کی مستاجر کو اجازت ہو اسے معین کیا جائے۔مثلاً ایک ایسا جانور کرائے پر دیا جائے جس پر سواری بھی کی جاسکتی ہو اور مال بھی لادا جا سکتا ہو تو اسے کرائے پر دیتے وقت یہ معین کرنا ضروری ہے کہ مستاجر اسے فقط سواری کے مقصد کیلئے یا فقط بار برداری کے مقصد کے لئے استعمال کر سکتا ہے یا اس سے ہر طرح استفادہ کر سکتا ہے۔
(۴)استفادہ کرنے کی مدت کا تعین کر لیا جائے اور یہ استفادہ مدت معین کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے ۔مثلاً مکان یا دکان کرائے پر دے کر یا کام کا تعین کر کے حاصل کیا جاسکتا ہے۔مثلاً درزی کے ساتھ طے کر لیا جائے کہ وہ ایک معین لباس مخصوص ڈیزائن میں سئیے گا۔
(۲۱۴۷)اگراجارے کی ابتدا کا تعین نہ کیا جائے تو اس کے شروع ہونے کا وقت اجارے کا صیغہ پڑھنے کے بعد سے ہو گا۔
(۲۱۴۸)مثال کے طور پر اگر مکان ایک سال کے لئے کرائے پر دیا جائے اور معاہدے کی ابتدا کاوقت صیغہ پڑھنے سے ایک مہینے بعد سے مقرر کیا جائے تو اجارہ صحیح ہے اگر چہ جب صیغہ پڑھا جارہا ہو وہ مکان کسی دوسرے کے پاس کرائے پر ہو۔
(۲۱۴۹)اگر اجارے کی مدت کا تعین نہ کیاجائے بلکہ کرائے دار سے کہا جائے کہ جب تک تم ا س مکان میں رہو گے دس ہزار روپے ماہوار کرایہ دوگے تو اجارہ صحیح نہیں ہے۔
(۲۱۵۰)اگر مالک مکان،کرائے دار سے کہے کہ میں نے تجھے یہ مکان اس روپے ماہور کرائے پر دیا یا یہ کہے کہ یہ مکان میں نے تجھے ایک مہینے کے لئے دس روپے کرائے پر دیا اور اس کے بعد بھی تم جتنی مدت اس میں رہو گے اس کا کرایہ دس روپے ماہانہ ہو گا تو اس صورت میں جب اجارے کی مدت کی ابتداء کا تعین کر لیا جائے یا اس کی ابتداء کا علم ہو جائے تو پہلے مہینے کا اجارہ صحیح ہے۔
(۲۱۵۱)جس مکان میں مسافر اور زائر قیام کرتے ہوں اور یہ علم نہ ہو کہ وہ کتنی مدت تک وہاں رہیں گے ،اگر وہ مالک مکان سے طے کر لیں کہ مثلاً ایک رات کا ایک روپیہ دیں گے اور مالک مکان اس پر راضی ہو جائے تو اس مکان سے استفادہ کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن چونکہ اجارے کی مدت طے نہیں کی گئی لہذا پہلی رات کے علاوہ اجارہ صحیح نہیں ہے اور مالک مکان پہلی رات کے بعد جب بھی چاہے انہیں نکال سکتا ہے۔

کرائے کے متفرق مسائل
(۲۱۵۲)جو مال مستاجر اجارے کے طور پر دے رہا ہو ضروری ہے کہ وہ مال معلوم ہو ۔لہذا اگر ایسی چیزیں ہوں جن کا لین دین تو ل کر کیا جاتا ہے مثلاً گیہوں،تو اس کا وزن معلوم ہوناضروری ہے اگر ایسی چیزیں ہو ں جن کا لین دین گن کر کیا جاتا ہے مثلاً رائج الوقت سکے تو ضروری ہے کہ ان کی تعداد معین ہو اور اگر وہ چیزیں گھوڑے اور بھیڑ کی طرح ہوں تو ضروری ہے کہ کرایہ لینے والا انہیں دیکھ لے یا مستاجر ان کی خصوصیات بتا دے۔
(۲۱۵۳)اگر زمین زراعت کے لئے کرائے پر دی جائے اور اس کی اجرت اسی زمین کی پیداور قرار دی جائے جو اس وقت موجود نہ ہو یا کلی طور پر کوئی چیز اس کے ذمے قرار دے اس شرط پر کہ وہ اسی زمین کی پیداور سے ادا کی جائے گی تو اجارہ صحیح نہیں ہے اور اگر اجرت(یعنی اس زمین کی پیداور)اجارہ کرتے وقت موجود ہو تو پھر کوئی حرج نہیں ہے۔
(۲۱۵۴)جس شخص نے کوئی چیز کرائے پر دی ہو وہ اس چیز کو کرایہ دارکی تحویل میں دینے سے پہلے کرایہ مانگنے کا حق نہیں رکھتا نیز اگر کوئی شخص کسی کام کے لئے اجیر بنا ہو تو جب تک وہ کام انجام نہ دے دے اجرت کا مطالبہ کرنے کا حق نہیں رکھتا مگر بعض صورتوں میں۔مثلاً حج کی ادئیگی کے لئے اجیر جسے عموماًعمل کے انجام دینے سے پہلے اجرت دے دی جاتی ہے(اجرت کا مطالبہ کرنے کا حق رکھتا ہے)
(۲۱۵۵)اگر کو ئی شخص کرائے پر دی گئی چیز کرایہ دار کی تحویل میں دے دے تو اگرچہ کرایہ دار اس چیز پر قبضہ نہ کرے یا قبضہ حاصل کرلے لیکن اجارہ ختم ہونے تک اس سے فائدہ نہ اٹھائے پھر بھی ضروری ہے کہ مالک کو اجرت ادا کرے۔
(۲۱۵۶)اگر ایک شخص کوئی کام ایک معین دن میں انجام دینے کے لئے اجیر بن جائے اور اس دن وہ کا م کرنے کے لئے تیار ہو جائے تو جس شخص نے اسے اجیر بنایا ہے خواہ وہ اس دن اس سے کام نہ لے تو ضروری ہے کہ اس کی اجرات اسے دے دے ۔مثلاً اگر کسی درزی کو ایک معین دن لباس سینے کے لئے اجیر بنائے اور درزی اس دن کام کرنے پر تیار ہو تو اگرچہ مالک اسے سینے کے لئے کپڑا نہ دے تب بھی ضروری ہے کہ اسے اس کی مزدوری دے دے۔قطع نظر اس سے کہ درزی بیکار رہا ہو یا اس نے اپنا یا کسی دوسرے کا کام کیا ہو۔
(۲۱۵۷)اگر اجارے کی مدت ختم ہو جانے کے بعد معلوم ہو کہ اجارہ باطل تھا تو مستاجر کے لئے ضروری ہے کہ عام طور پر اس چیز کا جو کرایہ ہو تا ہے مال کے مالک کو دے دے۔مثلاً اگر وہ ایک مکان سو روپے کرائے پر ایک سال کے لئے لے اور بعد میں پتا چلے کہ اجارہ باطل تھا تو اگر اس مکان کا کرایہ عام طور پرپچاس روپے ہو تو ضروری ہے کہ پچاس روپے دے اور اگر اس کا کرایہ عام طور پر دو سو روپے ہو تو مکان کرایہ پر دینے والا مالک مکان ہو یا اس کا وکیل مطلق ہو اور عام طور پرگھر کے کرائے کی جو شرح ہو اسے جانتا ہوتو ضروری نہیں ہے کہ مستاجر سو روپے سے زیادہ دے اور اگر اس کے برعکس صورت ہو تو ضروری ہے کہ مستاجر دو سو روپے سے زیادہ دے اور اگر اس کے برعکس صورت ہو تو ضروری ہے کہ مستاجر دو سوروپے دے نیز اگر اجارے کی کچھ مدت گزرنے کے بعد معلوم ہو کہ اجارہ باطل تھا تو جو مدت گزر چکی ہو اس پر بھی یہی حکم جاری ہو گا۔
(۲۱۵۸)جس چیز کو اجارے پر لیا گیا ہو اگر وہ تلف ہو جائے اور مستاجر نے اس کی نگہداشت میں کوتاہی نہ برتی ہو اور اسے غلط طور پر استعمال نہ کیا ہو تو (پھر وہ اس چیز کے تلف ہونے کا)ذمے دار نہیں ہے۔اسی طرح مثال کے طور پر اگر درزی کو دیا گیا کپڑا تلف ہو جائے تو اگر درزی نے بے احتیاطی نہ کی ہو اور کپڑے کی نگہداشت میں بھی کو تاہی نہ برتی ہو تو ضامن نہیں۔
(۲۱۵۹)جو چیز کسی کاریگر نے لی ہو اگر وہ اسے ضائع کر دے تو(وہ اس کا)ذمہ دار ہے۔
(۲۱۶۰)اگر قصاب کسی جانور کا سر کاٹ ڈالے اور اسے حرام کر دے تو خواہ اس نے مزدوری لی ہو یا بلامعاوضہ ذبح کیا ہو توضروری ہے کہ جانور کی قیمت اس کے مالک کو ادا کرے۔
(۲۱۶۱)اگر کوئی شخص ایک جانور کرائے پر لے اور معین کرے کہ کتنا بوجھ اس پر لادے گا تو اگر وہ اس پر معینہ مقدار سے زیادہ بوجھ لادے اور اس وجہ سے جانور مر جائے یا عیب دار ہو جائے تو مستاجر ذمے دارہے۔نیز اگر اس نے بوجھ کی مقدار معین نہ کی ہو اور معمول سے زیادہ بوجھ جانور پر لادے اور جانور مر جائے یا عیب دار ہوجائے تب بھی مستاجر ذمے دار ہے اور دونوں صورتوں میں مستاجر کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ معمول سے زیادہ اجرت اد ا کرے۔
(۲۱۶۲)اگر کوئی شخص حیوان کو ایسا(نازک)سامان لادنے کے لئے کرائے پر دے جو ٹوٹنے والا ہو اور جانور پھسل جائے یا بھاگ کھڑا ہو اور سامان کو توڑ پھوڑ دے تو جانور کا مالک ذمے دار نہیں ہے۔ہاں اگر مالک جانور کو معمول سے زیادہ مارے یا ایسی حرکت کرے جس کی وجہ سے جانور گر جائے اور لدا ہو ا سامان توڑ دے تو مالک ذمے دار ہے۔
(۲۱۶۳)اگر کوئی شخص بچے کا ختنہ کرے اور اپنے کام میں کوتاہی یا غلطی کرے۔مثلاً اس نے معمول سے زیادہ(چمڑا)کاٹا ہو اور وہ مر جائے یا اس میں کوئی نقص پیدا ہو جائے تو وہ ذمے دار ہے اور اگر اس نے کوتاہی یا غلطی نہ کی ہو او ربچہ ختنہ کرنے سے ہی مر جائے یا اس میں کوئی عیب پیدا ہو جائے چنانچہ اس بات کی تشخیص کے لئے کہ ختنہ کرنا بچے کے لئے نقصان دہ ہے یا نہیں اس کی طرف رجوع نہ کیا گیا ہو نیز وہ بھی یہ نہ جانتا ہو کہ بچے کو نقصان ہو گا تو اس صورت میں وہ ذمے دار نہیں ہے۔
(۲۱۶۴)اگر معالج اپنے ہاتھ سے کسی مریض کو دوا دے یا اس کیلئے دوا تیار کرنے کو کہے اور دوا کھانے کی وجہ سے مریض کو نقصان پہنچے یا وہ مرجائے تو معالج ذمہ دار ہے اگرچہ اس نے علاج کرنے میں کوتاہی نہ کی ہو۔
(۲۱۶۵)جب معالج مریض سے کہہ دے کہ اگر تمہیں کوئی ضرر پہنچا تو میں ذمے دار نہیں ہوں اورپوری احتیاط سے کام لے لیکن اس کے باوجود اگر مریض کو ضرر پہنچے یا وہ مر جائے تو معالج ذمے دار نہیں ہے۔
(۲۱۶۶)کرائے پر لینے والا اور جس شخص نے کوئی چیز کرائے پر دی ہو ، وہ ایک دوسرے کی رضامندی سے معاملہ فسخ کر سکتے ہیں اور اگر اجارے میں یہ شرط عائد کریں کہ وہ دونوں یا ان میں سے کوئی ایک معاملے کو فسخ کرنے کا حق رکھتا ہے تو وہ معاہدے کے مطابق اجارہ فسخ کر سکتے ہیں۔
(۲۱۶۷)اگر مال اجارہ پر دینے والے یا مستاجر کو پتا چلے کہ وہ گھاٹے میں رہا ہے تو اگر اجارہ کرنے کے وقت وہ اس امر کی جانب متوجہ نہ تھا کہ وہ گھاٹے میں ہے تو وہ اس تفصیل کے مطابق جو مسئلہ۲۰۸۰میں گزر چکی ہے اجارہ فسخ کر سکتا ہے لیکن اگر اجارے کے صیغے میں یہ شرط عائد کی جائے کہ اگر ان میں سے کوئی گھاٹے میں بھی رہے تو اسے اجارہ فسخ کرنے کا حق نہیں ہو گا تو پھر وہ اجارہ فسخ نہیں کر سکتے۔
(۲۱۶۸)اگر ایک شخص کوئی چیز اجارے پر دے اور اس سے پہلے کہ اس کا قبضہ مستاجر کو دے کوئی اور شخص اس چیز کو غصب کر لے تو مستاجر اجارہ فسخ کر سکتا ہے اور جو چیز اس نے اجارے پر دینے والے کو دی ہو اسے واپس لے سکتا ہے۔یا (یہ بھی کر سکتا ہے کہ) اجارہ فسخ نہ کرے اور جتنی مدت وہ چیز غاصب کے پاس رہی ہو اس کی عام طور پر جتنی اجرت بنے و ہ غاصب سے لے لے۔لہذا اگر مستاجر ایک حیوان کا ایک مہینے کا اجارہ دس روپے کے عوض کرے اور کوئی شخص اس حیوان کو دس دن کے لئے غصب کر لے اور عام طور پر اس کا دس دن کا اجارہ پندرہ روپے ہو تو مستاجر پندرہ روپے غاصب سے لے سکتا ہے۔
(۲۱۶۹)اگر کوئی دوسرا شخص مستاجر کو اجارہ کر دہ چیز اپنی تحویل میں نہ لینے دے یا تحویل میں لینے کے بعد اس پر نا جائز قبضہ کر لے یا اس سے استفادہ کرنے میں حائل ہو تو مستاجر اجارہ فسخ نہیں کر سکتا اور صرف یہ حق رکھتا ہے کہ اس چیز کا عام طور پر جتنا کرایہ بنتا ہو وہ غاصب سے لے لے۔
(۲۱۷۰) اگر اجارے کی مدت ختم ہونے سے پہلے مالک اپنا مال مستاجر کے ہاتھ بیچ ڈالے تو اجارہ فسخ نہیں ہوتا اور کرایہ دار کو چاہیئے کہ اس چیز کا کرایہ مالک کو دے اور اگر (مالک مستاجر کے علاوہ) اس (مال) کو کسی شخص کے ہاتھ بیچ دے تب بھی یہی حکم ہے۔
(۲۱۷۱)اگر اجارے کی مدت شروع ہونے سے پہلے جو چیز اجارے پرلی ہے وہ اس استفادے کے قابل نہ رہے جس کا تعین کیا گیا تھا تو اجارہ باطل ہو جاتا ہے اور مستاجر اجارہ کی رقم مالک سے واپس لے سکتا ہے ۔اگرصورت یہ ہو کہ مال سے تھوڑا سا استفادہ کیا جاسکتا ہو تو مستاجر اجارہ فسخ کر سکتا ہے۔
(۲۱۷۲)اگر ایک شخص کوئی چیز اجارے پر لے اور وہ کچھ مدت گزرنے کے بعد جو استفادہ مستاجر کیلئے طے کیا گیا ہو اس کے قابل نہ رہے تو باقی ماندہ مدت کیلئے اجارہ باطل ہو جاتا ہے اور مستاجر گزری ہوئی مدت کا اجارہ اجرة المثل یعنی جتنے دن وہ چیز استعمال کی ہو اتنے دنوں کی عام اجرت دے کر اجارہ فسخ کر سکتاہے۔
(۲۱۷۳)اگر کوئی شخص ایسا مکان کرائے پر دے جس کے مثلاً دو کمرے ہوں اور ان میں سے ایک کمرہ ٹوٹ پھوٹ جائے لیکن اجارے پر دینے والا اس کمرہ کو (مرمت کر کے)اس طرح بنا دے جس میں سابقہ کمرے کے مقابلے میں کافی فرق ہو تو اس کے لئے وہی حکم ہے جو اس سے پہلے والے مسئلے میں بتایا گیا ہے اور اگر اس طرح نہ ہو بلکہ اجارے پر دینے والا اسے فوراً بنا دے اور اس سے استفادہ حاصل کرنے میں بھی قطعاً فرق واقع نہ ہو تو اجارہ باطل نہیں ہوتا۔کرائے دار بھی اجارے کو فسخ نہیں کر سکتا لیکن اگر کمرے کی مرمت میں قدرے تاخیر ہو جائے اور کرائے دار اس سے استفادہ نہ کر پائے تو اس تاخیر کی مدت تک کا اجارہ باطل ہو جاتا ہے اور کرائے دار چاہے تو ساری مدت کا اجارہ بھی فسخ کر سکتا ہے البتہ جتنی مدت اس نے کمرے سے استفادہ کیا ہے اس کی اجرة المثل دے۔
(۲۱۷۴)اگر مال کرائے پر دینے والا یا مستاجر مر جائے تو اجارہ باطل نہیں ہو تا لیکن اگر مکان کا فائدہ صرف اس کی زندگی میں ہی اس کا ہو مثلاً کسی دوسرے شخص نے وصیت کی ہو کہ جب تک وہ (اجارے پر دینے والا) زندہ ہے مکان کی آمدنی اس کا مال ہو گا تو اگر وہ مکان کرائے پر دے دے اوراجارہ کی مدت ختم ہونے سے پہلے مر جائے تو اس کے مرنے کے وقت سے اجارہ باطل ہے اور اگر موجود مالک اس اجارہ کی تصدیق کردے تو اجارہ صحیح ہے اور اجارے پر دینے والے کے موت کے بعد اجارے کی جو مدت باقی ہو گی اس کی اجرت اس شخص کو ملے گی جو موجودہ مالک ہو۔
(۲۱۷۵)اگر کوئی شخص کسی معمار کو اس مقصد سے وکیل بنائے کہ وہ اس کے لئے کار یگر مہیا کرے تو اگر معمار نے جو کچھ اس شخص سے لے لیا ہے کاریگروں کو اس سے کم دے تو زائد مال اس پر حرام ہے اور اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ رقم اس شخص کو واپس کر دے لیکن اگر معمار اجیر بن جائے کہ عمارت کو مکمل کر دے گا اور وہ اپنے لئے یہ اختیار حاصل کر لے کہ خود بنائے گا یا دوسرے سے بنوائے گاتو اس صورت میں کہ کچھ کام خود کرے اور باقی ماندہ دوسروں سے اس اجرت سے کم پر کرائے جس پر وہ اجیر بنا ہے تو زائد رقم اس کیلئے حلال ہو گی۔
(۲۱۷۶)اگر رنگریز وعدہ کرے کہ مثلاًکپڑا نیل سے رنگے گاتو اگر وہ نیل کے بجائے اسے کسی اور چیز سے رنگ دے تو اسے اجرت لینے کا کوئی حق نہیں۔

جعالہ کے احکام
(۲۱۷۷)جعالہ سے مراد یہ ہے یہ انسان وعدہ کرے کہ اگر ایک کام اس کیلئے انجام دیا جائے گا تو وہ اس کے بدلے کچھ مال بطور انعام دے گا مثلاً یہ کہے کہ جو اس کی گمشدہ چیز برآمد کرے گا وہ اسے سو روپے (انعام)دے گا تو جوشخص اس قسم کا وعدہ کرے اسے جاعل اور جوشخص وہ کام انجام دے اسے عامل کہتے ہیں۔اجارے و جعالے میں بعض لحاظ سے فرق ہے۔ان میں سے ایک یہ ہے کہ اجارے میں صیغہ پڑھنے کے بعد اجیر کے لئے ضروری ہے کہ کام انجام دے اور جس نے اسے اجیر بنایا ہو وہ اجرت کے لئے اس کا مقروض ہو جاتا ہے لیکن جعالہ میں اگرچہ عامل ایک معین شخص ہو تا ہم ہو سکتا ہے کہ وہ کام میں مشغول نہ ہو ۔پس جب تک وہ کام انجام نہ دے ،جاعل ا س کا مقروض نہیں ہوتا۔
(۲۱۷۸)جاعل کے لئے ضروری ہے کہ بالغ اور عاقل ہو اور انعام کو وعدہ اپنے ارادے اور اختیار سے کرے اور شرعاً اپنے مال میں تصرف کر سکتا ہو۔اس بنا پر سفیہ کا جعالہ صحیح نہیں ہے اور بالکل اسی طرح دیوالیہ شخص کا جعالہ ان اموال میں صحیح نہیں ہے جن میں تصرف کا حق نہ رکھتا ہو۔
(۲۱۷۹)جاعل جو کام لو گوں سے کرانا چاہتا ہو ضروری ہے کہ وہ حرام یا بے فائدہ نہ ہو نہ ہی ان واجبات میں سے ہو جن کا بلا معاوضہ بجالانا شرعاً لازم ہو ۔لہذا اگر کوئی کہے کہ جو شخص شراب پیئے گا یا رات کے وقت کسی عاقلانہ مقصد کے بغیر ایک تاریک جگہ جائے گا یا واجب نماز پڑھے گا میں اسے دس روپے دوں گا تو جعالہ صحیح نہیں ہے۔
(۲۱۸۰)جس مال کے بارے میں معاہد ہ کیا جار ہا ہو ضروری نہیں ہے کہ اسے اس کی پوری خصوصیات کا ذکر کر کے معین کیا جائے بلکہ اگر صورت حال یہ ہو کہ کام کرنے والے کو معلوم ہو کہ اس کام کو انجام دینے کے لئے اقدام کرنا حماقت شمار نہ ہوگا تو کافی ہے۔مثلاً اگر جاعل یہ کہے کہ اگر تم نے اس مال کو دس روپے سے زیادہ قیمت پر بیچا تو اضافی رقم تمہاری ہو گی تو جعالہ صحیح ہے اور اسی طرح اگر جاعل کہے کہ جو کوئی میر ا گھوڑا ڈھونڈ کر لائے گا میں اسے گھوڑے میں نصف شراکت یا دس من گیہوں دوں گا تو بھی جعالہ صحیح ہے۔
(۲۱۸۱)اگر کام کی اجرت مکمل طور پر مبہم ہو مثلاً جاعل یہ کہے کہ جو میرا بچہ تلاش کر دے گا میں اسے رقم دو ں گا لیکن رقم کی مقدار کا تعین نہ کرے تو اگر کوئی شخص اس کام کو انجام دے تو ضروری ہے کہ جاعل اسے اتنی اجرت دے جتنی عام لوگوں کی نظروں میں اس عمل کی اجرت قرار پاسکے۔
(۲۱۸۲)اگر عامل نے جاعل کے قول و قرار سے پہلے ہی وہ کام کر دیا ہو یا قول وقرار کے بعد اس نیت سے وہ کام انجام دے کہ اس کے بدلے رقم نہیں لے گا تو پھر وہ اجرت کا حقدار نہیں۔
(۲۱۸۳)اس سے پہلے کہ عامل کام شروع کرے جاعل جعالہ کو منسوخ کر سکتاہے۔
(۲۱۸۴)جب عامل نے کام شروع کر دیا ہو اگر اس کے بعد جاعل جعالہ منسوخ کرنا چاہے تو اس میں اشکال ہے۔مگر یہ کہ عامل بھی راضی ہو۔
(۲۱۸۵)عامل کا م کو ادھورا چھوڑ سکتا ہے ۔لیکن اگر کام ادھورا چھوڑنے پر جاعل کو یا جس شخص کے لیے یہ کام انجام دیا جارہا ہے کوئی نقصان پہنچتا ہو تو ضروری ہے کہ کام کو مکمل کرے۔مثلاً اگر کوئی شخص کہے کہ جو کوئی میر آنکھ کا علاج مکمل نہ کرے تو آنکھ میں عیب پیدا ہو جائے تو ضروری ہے کہ اپنا آپریشن تکمیل تک پہنچائے اور اگر ادھورا چھوڑ دے تو جاعل سے اجرت لینے کا اسے کوئی حق نہیں۔
(۲۱۸۶)اگر عامل کام ادھورا چھوڑ دے اور کام ایسا ہوجیسے گھوڑا تلاش کرنا کہ جس کے مکمل کئے بغیر جاعل کو کو ئی فائدہ نہ ہو تو عامل،جاعل سے کسی چیز کا مطالبہ نہیں کر سکتا۔اگر جاعل اجرت کو کام مکمل کرنے سے مشروط کردے تب بھی یہی حکم ہے۔مثلاً وہ کہے کہ جو کوئی میر ا لباس سیئے گا میں اسے دس روپے دوں گا لیکن اگراس کی مراد یہ ہو کہ جتنا کام کیا جائے گا اتنی اجرت دے تو پھر جاعل کو چاہیے کہ جتنا کام ہو اہو اتنی اجرت عامل کو دے دے۔

مزارعہ کے احکام
(۲۱۸۷)مزارعہ سے مراد یہ ہے کہ (زمین کا )مالک کاشتکار (مزارع) سے معاہد ہ کر کے اپنی زمین اس کے اختیار میں دے تا کہ وہ اس میں کاشتکاری کرے اور پیداور کا کچھ حصہ مالک کو دے۔
(۲۱۸۸)مزارعہ کی چند شرائط ہیں:
(۱)زمین کا مالک کاشتکار سے کہے کہ میں نے زمین تمہیں کھیتی باڑی کیلئے دی ہے اور کاشتکار بھی کہے کہ میں نے قبول کی ہے یا بغیر اس کے کہ زبانی کچھ کہیں مالک کاشتکار کو کھیتی باڑی کے ارادے سے زمین دے دے اور کاشتکار قبول کر لے۔
(۲)زمین کا مالک اور کاشتکار دونوں بالغ اور عاقل ہوں اوربٹائی کا معاہدہ اپنے ارادے اور اختیار سے کریں اور سفیہ نہ ہوں ۔اسی طرح ضروری ہے کہ مالک دیوالیہ نہ ہو لیکن اگر کاشتکار دیوالیہ ہو اور اس کا مزارعہ کرنا ان اموال میں تصرف نہ کہلائے جن میں اسے تصرف کرنا منع تھا تو ایسی صورت میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
(۳)مالک اور کاشتکار میں سے ہر ایک زمین کی پیداور میں سے کچھ حصہ نصف یا ایک تہائی وغیرہ لے لے۔لہذا اگر کوئی بھی اپنے لئے کو ئی حصہ مقرر نہ کرے یا مثلاً مالک کہے کہ اس زمین میں کھیتی باڑی کرو اور جوتمہارا جی چاہے مجھے دے دینا تو یہ درست نہیں ہے اور اسی طرح اگر پیدوار کی ایک معین مقدار مثلاً دس من کاشتکار یا مالک کے لئے مقرر کر دی جائے تو یہ بھی صحیح نہیں ہے۔
(۴)جتنی مدت کے لئے زمین کاشتکار کے قبضے میں رہنی چاہیے اسے معین کر دیں اور ضروری ہے کہ وہ مدت اتنی ہو کہ اس مدت میں پیداور حاصل ہونا ممکن ہو اور اگر مدت کی ابتدا ایک مخصوص دن سے اور مدت کا اختتام پیداورار ملنے کو مقرر کر دیں تو کافی ہے۔
(۵)زمین قابل کاشت ہو۔اگر اس میں ابھی کاشت کرناممکن نہ ہو لیکن ایسا کام کیا جا سکتا جوجس سے کاشت ممکن ہو جائے تو مزارعہ صحیح ہے۔
(۶)کاشتکار جو چیز کاشت کرنا چاہے ضروری ہے کہ اس کو معین کر دیا جائے،مثلاً معین کرے کہ چاول ہے یا گیہوں،اوراگر چاول ہے تو کونسی قسم کا چاول ہے۔لیکن اگر کسی مخصوص چیز کی کاشت پیش نظر نہ ہو تواس کا معین کرنا ضروری نہیں ہے۔اسی طرح اگر کوئی مخصوص چیز پیش نظر ہو اور اس کا علم ہو تو لازم نہیں ہے کہ اس کی وضاحت بھی کرے۔
(۷)مالک،زمین کو معین کر دے۔یہ شرط اس صورت میں ہے جبکہ مالک کے پاس زمین کے چند قطعات ہوں اور ان قطعات کے لوازم کاشتکاری میں فرق ہو۔لیکن اگر ان میں کوئی فرق نہ ہو تو زمین کو معین کرنا لازم نہیں ہے۔لہذا اگر مالک کاشتکار سے کہے کہ زمین کے ان قطعات میں سے کسی ایک میں کھیتی باڑی کرو اور اس قطعہ کو معین نہ کرے تو مزارعہ صحیح ہے۔
(۸)جو خرچ ان میں سے ہر ایک کو کرنا ضروری ہو اسے معین کر دیں لیکن جو خرچ ہر ایک کو کرنا ضروری ہو اگراس کا علم ہو تو پھر اس کی وضاحت کرنا لازم نہیں۔
(۲۱۸۹)اگر مالک کا شتکار سے طے کرے کہ پیداوار کی کچھ مقدار ایک کی ہوگی اور جو باقی بچے گا اسے وہ آپس میں تقسیم کر لیں گے تو مزارعہ باطل ہے اگرچہ انہیں علم ہو کہ اس مقدار کو علیحدہ کرنے کے بعد کچھ نہ کچھ باقی بچ جائے گا۔ ہاں اگر وہ آپس میں یہ طے کر لیں کہ بیج کی جو مقدار کا شت کی گئی ہے یا ٹیکس کی جو مقدار حکومت لیتی ہے وہ پیداوار سے نکالی جائے گی اور جو باقی بچے گا اس دونوں کے درمیان تقسیم کیا جائے گا تو مزارعہ صحیح ہے۔
(۲۱۹۰)اگر مزارعہ کے لئے کوئی مدت معین ہو کہ جس میں عموماًپیداورا دستیاب ہو جاتی ہے لیکن اگر اتفاقاً معین مدت ختم ہو جائے اور پیدوار دستیاب نہ ہوئی ہو تو اگر مدت معین کرتے وقت یہ بات بھی شامل تھی یعنی دونوں اس بات پر راضی تھے کہ مدت ختم ہونے کے بعد اگرچہ پیداور دستیاب نہ ہو مزارعہ ختم ہو جائے گا تو اس صورت میں اگر مالک اس بات پر راضی ہو کہ اجرت پر یا بغیر اجرت فصل اس کی زمین میں کھڑی رہے اور کاشتکار بھی راضی ہو تو کوئی حرج نہیں اور اگر مالک اس بات پر راضی نہ ہو تو کاشتکار کو مجبور کر سکتا ہے کہ فصل زمین میں سے کاٹ لے اور اگر فصل کاٹ لینے سے کاشتکار کو کوئی نقصان پہنچے تو لازم نہیں کہ مالک اسے اس کا عوض دے لیکن اگر چہ کاشتکار مالک کو کوئی چیز دینے پر راضی ہو تب بھی وہ مالک کو مجبور نہیں کر سکتا کہ وہ فصل اپنی زمین پر رہنے دے۔
(۲۱۹۱)اگر کوئی ایسی صورت پیش آجائے کہ زمین میں کھیتی باڑی کرنا ممکن نہ ہو مثلاً زمین کا پانی بند ہو جائے تو مزارعہ ختم ہو جاتا ہے اور اگر کاشتکار بلاوجہ کھیتی باڑی نہ کرے تو اگر زمین اس کے تصرف میں رہی ہو اور مالک کا اس میں کوئی تصرف نہ رہا ہو تو ضروری ہے کہ عام شرح کے حساب سے اس مدت کا کرایہ مالک کو دے۔
(۲۱۹۲)زمین کا مالک اور کاشتکار ایک دوسرے کی رضا مندی کے بغیر مزارعہ (کا معاہدہ)منسوخ نہیں کر سکتے۔لیکن اگر مزارعہ کے معاہدہ کے سلسلے میں انہوں نے شرط طے کی ہو کہ ان میں سے دونوں کویا کسی ایک کو معاملہ فسخ کرنے کا حق حاصل ہو گا تو جومعاہدہ انہوں نے کر رکھا ہو اس کے مطابق معاملہ فسخ کر سکتے ہیں۔اسی طرح اگر ان دونوں میں سے ایک فریق طے شدہ شرائط کے خلاف عمل کرے تو دوسرا فریق معاملہ فسخ کر سکتا ہے۔
(۲۱۹۳)اگر مزارعہ کے معاہدے کے بعد مالک یا کاشتکار مر جائے تو مزارعہ منسوخ نہیں ہو جاتا بلکہ ان کے وارث ان کی جگہ لے لیتے ہیں لیکن اگر کاشتکار مر جائے اور انہوں نے مزارعہ میں یہ شرط رکھی تھی کہ کاشتکار خود کا شت کرے گا تو مزارعہ منسوخ ہو جاتا ہے۔لیکن اگر جو کام اس کے ذمے تھے وہ مکمل ہو گئے ہوں تو اس صورت میں مزارعہ منسوخ نہیں ہوتا اور اس کا حصہ اس کے ورثاء کو دینا ضروری ہے،جو دوسرے حقوق کا شتکار کو حاصل ہوں وہ بھی اس کے ورثاء کو میراث میں مل جاتے ہیں اور ورثاء مالک کو اس بات پر مجبور کر سکتے ہیں کہ مزارعہ ختم ہونے تک فصل ا سکی زمین میں کھڑی رہے۔
(۲۱۹۴)اگر کاشت کے بعد پتا چلے کہ مزارعہ باطل تھا تو اگر جو بیج ڈالا گیا ہو وہ مالک کا مال ہو جوفصل ہاتھ آئے گی وہ بھی اسی کا مال ہو گی اور ضروری ہے کہ کاشتکاری کی اجرت اور جو کچھ اس نے خرچ کیا ہو اور کاشتکار کے مملوکہ جن بیلوں اور دوسرے جانوروں نے زمین پر کام کیا ہو ان کا کرایہ کاشتکار کو دے۔اگربیچ کاشتکار کا مال ہو تو فصل بھی اسی کا مال ہے اورضروری ہے کہ زمین کا کرایہ اور جو کچھ مالک نے خرچ کیاہو اور ان بیلوں اور دوسرے جانوروں کا کرایہ جومالک کامال ہوں اورجنہوں نے اس زراعت پر کام کیا ہو مالک کو دے اور دونوں صورتوں میں عام طور پر جوحق بنتا ہو اگر اس کی مقدار طے شدہ مقدار سے زیادہ ہو اور دوسرے فریق کو اس کا علم ہو توزیادہ مقدار دینا واجب نہیں۔
(۲۱۹۵)اگر بیج کا شتکار کا مال ہو اور کاشت کے بعدفریقین کو پتا چلے کہ مزارعہ باطل تھا تو اگر مالک اور کاشتکار رضامند ہوں کہ اجرت پر یا بلا اجرت فصل زمین پر کھڑی رہے تو کوئی اشکال نہیں ہے اور اگر مالک راضی نہ ہوتو احتیاط واجب ہے کہ فصل پکنے سے پہلے وہ کاشتکار کو مجبور نہ کرے کہ اسے کاٹ لے اور اسی طرح مالک کاشتکار کو مجبور نہیں کر سکتا کہ کرایہ دے گا اور مالک فصل کو زمین میں باقی رہنے دے۔اسی طرح زمین کا کرایہ بھی اس سے طلب نہ کرے۔
(۲۱۹۶)اگر کھیت پیداور جمع کرنے اور مزارعہ کی میعاد ختم ہونے کے بعد کھیت کی جڑیں زمین میں رہ جائیں اور دوسرے سال سر سبز ہو جائیں اور پید اوار دیں تو اگر مالک نے کاشتکار کے ساتھ زراعت کی جڑوں میں اشتراک کا معاہدہ نہ کیا ہو تو دوسرے سال کی پیدوار بیج کے مالک کامال ہے۔

مساقات اور مغارسہ کے احکام
(۲۱۹۷)اگر انسان کسی کے ساتھ اس قسم کا معاہدہ کرے مثلاً پھل دار درختوں کو جن کا پھل خود اس کا مال ہو یا اس پھل پر اس کا اختیار ہو ایک مقررہ مدت کے لئے کسی دوسرے شخص کے سپرد کردے تاکہ وہ ان کی نگہداشت کرے اور انہیں پانی دے اور جتنی مقدار وہ آپس میں طے کریں اس کے مطابق وہ ان درختوں کا پھل لے لے تو ایسا معاملہ مساقات (آبیاری)کہلاتا ہے۔
(۲۱۹۸)جو درخت پھل نہیں دیتے اور ان کی کوئی دوسری پیدوار ہو مثلاً پتے او ر پھول ہوں کہ جو کچھ نہ کچھ مالیت رکھتے ہوں،مثلاً مہندی(اور پان)کے درخت کہ اس کے پتے کام آتے ہیں ان کیلئے مساقات کا معاملہ صحیح ہے۔
(۲۱۹۹)مساقات کے معاملے میں صیغہ پڑھنا لازم نہیں بلکہ اگر درخت کا مالک مساقات کی نیت سے اسے کسی کے سپرد کر دے اور جس شخص کو کام کرنا ہو وہ بھی اسی نیت سے کام میں مشغول ہو جائے تو معاملہ صحیح ہے۔
(۲۲۰۰)درختوں کا مالک اور جو شخص درختوں کی نگہداشت کی ذمے داری لے توضروری ہے کہ دونوں بالغ اور عاقل ہوں اور کسی نے انہیں معاملہ کرنے پر مجبور نہ کیا ہو نیز یہ بھی ضروری ہے کہ سفیہ نہ ہوں۔اسی طرح ضروری ہے کہ مالک دیوالیہ نہ ہو ۔لیکن اگر باغبان دیوالیہ ہو اور مساقات کا معاملہ کرنے کی صورت میں ان اموال میں تصرف کرنا لازم نہ آئے جن میں تصرف کرنے سے اسے روکا گیا ہو تو کوئی اشکال نہیں ہے۔
(۲۲۰۱)مساقات کی مدت معین ہونی چاہیے اور اتنی مدت ہونا ضروری ہے کہ جس میں پیداور کا دستیاب ہوناممکن ہو۔ اگر فریقین اس مدت کی ابتدا معین کر دیں اور اس کا اختتام اس وقت کو قرار دیں جب اس کی پیداور دستیاب ہو تو معاملہ صحیح ہے۔
(۲۲۰۲)ضروری ہے کہ ہر فریق کا حصہ پیداوار کا آدھایا ایک تہائی یا اسی کی مانند ہو اور اگر یہ معاہدہ کریں کہ مثلاً سو من میوہ مالک کا اور باقی کا م کرنے والے کا ہوگا تو معاملہ باطل ہے۔
(۲۲۰۳)لازم نہیں ہے کہ مساقات کا معاملہ پیداور ظاہر ہونے سے پہلے طے کر لیں۔بلکہ اگر پیداوارظاہر ہونے کے بعد معاملہ کریں اور کچھ کام باقی رہ جائے جو کہ پیداوار میں اضافے کے لئے یا اس کی بہتری یا اسے نقصان سے بچانے کیلئے ضروری ہو تو معاملہ صحیح ہے۔لیکن اگر اس طرح کے کوئی کام باقی نہ رہے ہوں کہ جو آبیاری کی طرح درخت کی پرورش کے لئے ضروری ہیں یا میوہ توڑنے یا اس کی حفاظت جیسے کاموں میں سے باقی رہ جاتے ہیں تو پھر مساقات کے معاملہ کاصحیح ہونا محل اشکال ہے۔
(۲۲۰۴)خربوزے اور کھیرے وغیرہ کی بیلوں کے بارے میں مساقات کا معاملہ بنا بر اظہر صحیح ہے۔
(۲۲۰۵)جو درخت بارش کے پانی یا زمین کی نمی سے استفادہ کرتا ہو اور جسے آبپاشی کی ضرورت نہ ہو اگر اسے مثلاً دوسرے ایسے کاموں کی ضرورت ہو جومسئلہ۲۲۰۳ میں بیان ہو چکے ہیں تو ان کاموں کے بارے میں مساقات کا معاملہ کرنا صحیح ہے۔
(۲۲۰۶)دوافراد جنہوں نے مساقات کی ہو باہمی رضامندی سے معاملہ فسخ کر سکتے ہیں اور اگر مساقات کے معاہدے کے سلسلے میں یہ شرط طے کریں کہ ان دونوں کویا ان میں سے کسی ایک کو معاملہ فسخ کرنے کا حق ہو گا تو ان کے طے کردہ معاہدے کے مطابق معاملہ فسخ کرنے میں کوئی اشکال نہیں اور اگر مساقات کے معاملے میں کوئی شرط طے کریں اور اس شرط پر عمل نہ ہو تو جس شخص کے فائدے کے لئے وہ شرط طے کی گئی ہو وہ معاملہ فسخ کر سکتا ہے۔
(۲۲۰۷)اگر مالک مر جائے تو مساقات کا معاملہ فسخ نہیں ہوتا بلکہ اس کے وارث اس کی جگہ پاتے ہیں۔
(۲۲۰۸)درختوں کی پرورش جس شخص کے سپرد کی گئی ہو اگر وہ مر جائے اورمعاہدے میں یہ قیداور شرط عائد نہ کی گئی ہو کہ وہ خود درختوں کی پرورش کرے گا تو اس کے ورثاء اس کی جگہ لے لیتے ہیں اور اگر ورثاء نہ خوددرختوں کی پرورش کا کام انجام دیں اور نہ ہی ا س مقصد کے لئے کسی کو اجیر مقرر کریں تو حاکم شرع مردے کے مال سے کسی کو اجیر مقرر کر دے گا جو آمدنی ہو گی اسے مردے کے ورثاء اور درختوں کے مالک کے ما بین تقیسم کردے گا اور اگر فریقین نے معاملے میں یہ قید لگائی ہو کہ وہ شخص خود درختوں کی پرورش کرے گا تو اس کے مرنے کے بعد معاملہ فسخ ہو جائے گا۔
(۲۲۰۹)اگر یہ شرط طے کی جائے کہ تمام پیداوار مالک کا مال ہو گی تو مساقات باطل ہے لیکن ایسی صورت میں پیداوار مالک کا مال ہو گا اور جس شخص نے کام کیا ہو وہ اجرت کا مطالبہ نہیں کر سکتا۔لیکن اگر مساقات کسی اور وجہ سے باطل ہو تو ضروری ہے کہ مالک آبیاری اور دوسرے کام کرنے کی اجرت درختوں کی نگہداشت کرنے والے کو معمول کے مطابق دے لیکن اگر معمول کے مطابق اجرت طے شدہ اجرت سے زیادہ ہو اور وہ اس سے مطلع ہو تو طے شدہ اجرت سے زیادہ دینا لازم نہیں۔
(۲۲۱۰)مغارسہ یہ ہے کہ کوئی شخص زمین دوسرے کے سپرد کر دے تا کہ وہ درخت لگائے اور جو کچھ حاصل ہو وہ دونوں کا مال ہو تو بنا بر اظہر یہ معاملہ صحیح ہے اگر چہ احتیاط یہ ہے کہ ایسے معاملے کو ترک کرے۔لیکن اس معاملے کے نتیجے پر پہنچنے کے لئے کوئی اور معاملہ انجام دے تو بغیر اشکال کے وہ معاملہ صحیح ہے۔مثلاً فریقین کسی طرح باہم صلح اور اتفاق کر لیں یا نئے درخت لگانے میں شریک ہو جائیں پھر باغبان اپنی خدمات مالک زمین کو بیج بونے،درختوں کی نگہداشت اور آبیاری کرنے کے لئے ایک معین مدت تک زمین کی پیدوارا کے نصف فائدے کے عوض کرایہ پر پیش کرے۔

وہ اشخاص جو اپنے مال میں تصرف نہیں کر سکتے
(۲۲۱۱)جو بچہ بالغ نہ ہوا ہو وہ اپنی ذمے داری اوراپنے مال میں شرعاً تصرف نہیں کر سکتا اگرچہ اچھے اور برے کوسمجھنے میں حد کمال اور رشد تک پہنچ گیا ہو اور سر پرست کی اجازت اس بارے میں کوئی فائدہ نہیں رکھتی۔لیکن چند چیزوں میں تصرف کرنا صحیح ہے،ان میں سے کم قیمت والی چیزوں کی خریدوفروخت کرنا ہے جیسے کہ مسئلہ ۲۰۴۱میں گزر چکا ہے۔اسی طرح بچے کا اپنے خونی رشتے داروں اور قریبی رشتے داروں کے لئے وصیت کرنا جس کا بیان مسئلہ۲۶۵۵ میں آئے گا۔لڑکی میں بالغ ہونے کی علامت یہ ہے کہ وہ نو قمری سال پورے کر لے اور لڑکے کے بالغ ہونے کی علامت تین چیزوں میں سے ایک ہوتی ہے:
(۱)ناف کے نیچے اور شرمگاہ سے اوپر سخت بالوں کا اگنا۔
(۲)منی کا خارج ہونا۔
(۳)بنا بر مشہور عمر کے پندرہ قمری سال پورے کرنا۔
(۲۲۱۲)چہرے پر اور ہونٹوں کے اوپر سخت بالوں کا اگنا بعید نہیں کہ بلوغت کی علامت ہو لیکن سینے پر اور بغل کے نیچے بالوں کا اگنا اور آواز کا بھاری ہو جانا اور ایسی ہی دوسری علامات بلوغت کی نشانیاں نہیں ہیں مگر ان کی وجہ سے انسان بالغ ہونے کا یقین کرے۔
(۲۲۱۳)دیوانہ اپنے مال میں تصرف نہیں کر سکتا۔اسی طرح دیوالیہ یعنی وہ شخص جسے اس کے قرض خواہوں کے مطالبے پر حاکم شرع نے اپنے مال میں تصرف کرنے سے منع کر دیا ہو ،قرض خواہوں کی اجازت کے بغیر اس مال میں تصرف نہیں کر سکتا اور اسی طرح سفیہ یعنی وہ شخص جو اپنا مال احمقانہ اور فضول کاموں میں خرچ کرتا ہو، سر پرست کی اجازت کے بغیر اپنے مال میں تصرف نہیں کر سکتا۔
(۲۲۱۴)جو شخص کبھی عاقل اور کبھی دیوانہ ہو جائے اس کا دیوانگی کی حالت میں اپنے مال میں تصرف کرنا صحیح نہیں ہے۔
(۲۲۱۵)انسان کو اختیار ہے مرض الموت کے عالم میں اپنے آپ پر یا اپنے اہل و عیال اور مہمانوں پر اور ان کاموں پر جو فضول خرچی میں شمار نہ ہوں جتنا چاہے صرف کرے۔اگر اپنے مال کو اس کی (اصل)قیمت پر فروخت کرے یا کرائے پر دے تو کوئی اشکال نہیں ہے۔لیکن اگر مثلاً اپنا مال کسی کو بخش دے یا رائج قیمت سے سستا فروخت کرے تو جتنی مقدار اس نے بخش دی ہے یا جتنی سستی فروخت کی ہے اگر وہ اس کے مال کی ایک تہائی کے برابر یا اس سے کم ہو تو اس کا تصرف کرناصحیح ہے۔اگر ایک تہائی سے زیادہ ہو تو ورثاء کی اجازت دینے کی صورت میں اس کا تصرف کرنا صحیح ہے اور اگر ورثاء اجازت نہ دیں تو ایک تہائی سے زیادہ میں اس کا تصرف باطل ہے۔

وکالت کے احکام
وکالت سے مراد یہ ہے کہ جسے انسان خود کرنے کا حق رکھتا ہو جیسے کوئی معاملہ کرنا اسے دوسرے کے سپرد کر دے تا کہ وہ اس کی طرف سے وہ کام انجام دے مثلاً کسی کو اپنا وکیل بنائے تاکہ وہ اس کا مکان بیچ دے یاکسی عورت سے اس کا عقد کردے۔ لہذا سفیہ چونکہ اپنے مال میں تصرف کرنے کاحق نہیں رکھتا اس لئے وہ مکان بیچنے کے لئے کسی کو وکیل نہیں بنا سکتا۔
(۲۲۱۶)وکالت میں صیغہ پڑھنا لازم نہیں بلکہ اگر انسان دوسرے شخص کو سمجھا دے کہ اس نے اسے وکیل مقرر کیا ہے اور وہ بھی سمجھا دے کہ اس نے وکیل بننا قبول کر لیا ہے۔مثلاًایک شخص اپنا مال دوسرے کو دے تا کہ وہ اسے ا سکی طرف سے بیچ دے اور دوسرا شخص وہ مال لے لے تو وکالت صحیح ہے۔
(۲۲۱۷)اگر انسان ایک ایسے شخص کو وکیل مقرر کرے جس کی رہائش دوسرے شہر میں ہو اور اس کو وکالت نامہ بھیج دے اور وہ وکالت نامہ قبول کر لے تو اگرچہ وکالت نامہ اسے کچھ عرصے بعد ہی ملے پھر بھی وکالت صحیح ہے۔
(۲۲۱۸)مئوکل یعنی وہ شخص جو دوسرے کو وکیل بنائے اور وہ شخص جو وکیل بنے ضروری ہے کہ دونوں عاقل ہوں اور (وکیل بننے کا)اقدام قصد اور اختیار سے کریں اور مئوکل کے معاملے میں بلوغ بھی معتبر ہے۔مگر ان کاموں میں جن کو ممیز بچے کا انجام دینا صحیح ہے۔(ان میں بلوغ شرط نہیں ہے)۔
(۲۲۱۹)جوکام انسان انجام نہ دے سکتا ہو یا شرعاً انجام دینا ضروری نہ ہو اسے انجام دینے کے لئے وہ دوسرے کا وکیل نہیں بن سکتا۔مثلاً جو شخص حج کا احرام باندھ چکا ہو چونکہ اسے نکاح کا صیغہ نہیں پڑھنا چاہیے اس لئے وہ صیغہ نکاح پڑھنے کے لئے دوسرے کا وکیل نہیں بن سکتا۔
(۲۲۲۰)اگر کوئی شخص اپنے تمام کا م انجام دینے کے لئے دوسرے شخص کو وکیل بنائے تو صحیح ہے لیکن اگر اپنے کاموں میں سے ایک کام کرنے کے لئے دوسرے کو وکیل بنا ئے اور کام کا تعین نہ کرے تو وکالت صحیح نہیں ہے ۔ہاں اگر وکیل کو چند کاموں میں سے ایک کام جس کا وہ خود انتخاب کرے انجام دینے کیلئے وکیل بنائے مثلاً اس کو وکیل بنائے کہ یا اس کا گھر فروخت کرے یا کرائے پر دے تو وکالت صحیح ہے۔
(۲۲۲۱)اگر (مئوکل)وکیل کو معزول کر دے یعنی جو کام اس کے ذمے لگایا ہو اس سے بر طرف کر دے تو وکیل اپنی معزولی کی خبر مل جانے کے بعد اس کام کو (مئوکل کی جانب سے)انجام نہیں دے سکتا لیکن معزولی کی خبر ملنے سے پہلے اس نے وہ کام کر دیا ہو تو صحیح ہے۔
(۲۲۲۲)مئوکل خواہ موجود نہ ہو وکیل خود کو وکالت سے کنارہ کش کر سکتا ہے۔
(۲۲۲۳)جو کام وکیل کے سپرد کیا گیا ہو ، اس کام کے لئے وہ کسی دوسرے شخص کو وکیل مقرر نہیں کر سکتا لیکن اگر مئوکل نے اسے اجازت دی ہو کہ کسی کووکیل مقرر کر ے جس طرح اس نے حکم دیا ہے اسی طرح وہ عمل کر سکتا ہے لہٰذا اگر اس نے کہا ہو کہ میرے لیے ایک وکیل مقرر کرو تو ضروری ہے کہ اس کی طرف سے وکیل مقرر کرے لیکن از خود کسی کو وکیل مقرر نہیں کر سکتا۔
(۲۲۲۴)اگر وکیل مئوکل کی اجازت سے کسی کو اس کی طرف سے وکیل مقرر کرے تو پہلا وکیل دوسرے وکیل کو معزول نہیں کر سکتا اور اگر پہلا وکیل مر جائے یا مئوکل اسے معزول کر دے تب بھی دوسرے وکیل کی وکالت باطل نہیں ہوتی۔
(۲۲۲۵)اگر وکیل مئوکل کی اجازت سے کسی کو خود اپنی طرف سے وکیل مقرر کرے تو مئوکل اور پہلا وکیل اس وکیل کو معزول کر سکتے ہیں اور اگر پہلا وکیل مر جائے یا معزول ہو جائے تو دوسری وکالت باطل ہوجاتی ہے۔
(۲۲۲۶)اگر(مئوکل)کسی کام کے لئے چند اشخاص کو وکیل مقرر کر ے اور ان سے کہے کہ ان میں سے ہر ایک ذاتی طور پر اس کام کو کرے تو ان میں سے ہر ایک اس کام کو انجام دے سکتا ہے اور اگران میں سے ایک مر جائے تو دوسروں کی وکالت باطل نہیں ہوتی۔لیکن اگر یہ کہا ہو کہ سب مل کر انجام دیں تو ان میں سے کوئی تنہا اس کام کو انجام نہیں دے سکتا اور اگر ان میں سے ایک مر جائے تو باقی اشخاص کی وکالت باطل ہو جاتی ہے۔
(۲۲۲۷)اگر وکیل یا موکل مر جائے تو وکالت باطل ہو جاتی ہے ۔نیز جس چیز میں تصرف کے لئے کسی شخص کو وکیل مقرر کیاجائے اگر وہ چیز تلف ہوجائے مثلاً جس بھیڑ کو بیچنے کے لئے کسی کو وکیل مقرر کیا گیا ہو اگر وہ بھیڑ مر جائے تو وکالت باطل ہو جائے گی اور اسی طرح اگر وکیل یا مئوکل میں سے کو ئی ایک ہمیشہ کے لئے دیوانہ یا بے حواس ہو جائے تو وکالت باطل ہو جائے گی۔لیکن اگر کبھی کبھی دیوانگی یابے حواسی کا دورہ بھی پڑتا ہو تو وکالت کا باطل ہونا دیوانگی اور بے حواسی کی مدت میں حتیٰ کہ دیوانگی اور بے حواسی ختم ہو نے کے بعد بھی مطلقاً محل اشکال ہے۔
(۲۲۲۸)اگرانسان کسی کو اپنے کام کے لئے وکیل مقرر کرے اور اسے کوئی چیز دینا طے کرے تو کام کی تکمیل کے بعد ضروری ہے کہ جس چیز کا دینا طے یا ہو وہ اسے دیدے۔
(۲۲۲۹)جو مال وکیل کے اختیار میں ہو اگر وہ اس کی نگہداشت میں کوتاہی نہ کرے اور جس تصرف کی اسے اجازت دی گئی ہو اس کے علاوہ کوئی تصرف اس میں نہ کرے اور اتفاقاً وہ مال تلف ہو جائے تو اس کا ضامن نہیں ہے۔
(۲۲۳۰)جو مال وکیل کے اختیار میں ہو اگر وہ اس کی نگہداشت میں کوتاہی برتے یا جس تصرف کی اسے اجازت دی گئی ہوتو اس سے تجاوز کرے اور وہ مال تلف ہو جائے تو وہ (وکیل)ذمے دار ہے۔لہذا جس لباس کے لئے اسے کہا جائے کہ اسے بیچ دو اگر وہ اسے پہن لے اور وہ لباس تلف ہو جائے تو ضروری ہے کہ اس کو عوض دے۔
(۲۲۳۱)اگر وکیل کو مال میں جس تصرف کی اجازت دی گئی ہو اس کے علاوہ کوئی تصرف کرے مثلاً اسے جس لباس کے بیچنے کے لئے کہا جائے وہ پہن لے اور بعد میں وہ تصرف کرے جس کی اسے اجازت دی گئی ہو تو وہ تصرف صحیح ہے۔

قرض کے احکام
(۲۲۳۲)مومنوں کو خصوصاً ان ضرورت مندوں کو قرض دینا مستحب کاموں میں سے ہے جس کے بارے میں احادیث معصومین ٪ میں زیادہ تاکید کی گئی ہے۔حضور اکر م ﷺنے فرمایا جو شخص کسی مومن بھائی کو قرض دیدے اور اسے واپس کرنے کی استطاعت تک اسے مہلت دے تو ایسے شخص کے مال میں اضافہ ہوتا ہے اور فرشتے اس پر درور بھیجتے ہیں یہاں تک کہ وہ اپنا قرض واپس لے لے۔حضرت امام جعفر صادق - سے منقول ہے کہ ایک مومن کسی دوسرے مومن کے لئے قرض دے دے تو اس کے لیے صدقہ کا اجر رکھتا ہے یہاں تک کہ وہ اپنا قرض واپس لے لے۔
(۲۲۳۳ )قرض میں صیغہ پڑھنا لازم نہیں بلکہ اگر ایک شخص دوسرے کوکوئی چیز قرض کی نیت سے دے اور دوسرا بھی اسی نیت سے لے تو قرض صحیح ہے۔
(۲۲۳۳ ب )جب بھی مقروض اپنا قرضہ ادا کرے تو قرض خواہ کو چاہیے کہ اسے قبول کر لے۔لیکن اگر قرض ادا کرنے کیلئے قرض خواہ کے کہنے سے یا دونوں کے کہنے سے ایک مدت مقرر کی ہو تو اس صورت میں قرض خواہ اس مدت کے ختم ہونے سے پہلے اپنا قرض واپس لینے سے انکار کر سکتاہے۔
(۲۲۳۴)اگر قرض کے صیغے میں قرض کی واپسی کی مدت معین کر دی جائے اور مدت کا تعین مقروض کی درخواست پر ہو یا جانبین کی درخواست پر قرض خواہ اس معین مدت کے ختم ہونے سے پہلے قرض کی ادائیگی کا مطالبہ نہیں کر سکتا۔لیکن اگر مدت کا تعین قرض خواہ کی درخواست پر ہوا ہو یا قرضے کی واپسی کے لئے کوئی مدت معین نہ کی گئی ہو تو قرض خواہ جب بھی چاہیے اپنے قرض کی ادائیگی کا مطالبہ کر سکتا ہے۔
(۲۲۳۵)اگر قرض خواہ اپنے قرض کی ادائیگی کامطالبہ کرے اور مقروض قرض ادا کر سکتا ہو تو اسے چاہیے کو فوراً ادا کرے اگر ادائیگی میں تاخیر کرے تو گنہگار ہے۔
(۲۲۳۶)اگر مقروض کے پاس ایک گھر کہ جس میں و ہ رہتا ہو اور گھر کے اسباب اور ان لوازمات کہ جن کی اسے ضررورت ہو اور ان کے بغیر سے پریشانی ہو اور کوئی چیز نہ ہو تو قرض خواہ اس سے قرض کی ادائیگی کا مطالبہ نہیں کر سکتا بلکہ اسے چاہیے کہ صبر کرے حتیٰ کہ مقروض قرض ادا کرنے کے قابل ہو جائے۔
(۲۲۳۷)جو شخص مقروض ہو اور اپنا قرض ادا نہ کر سکتا ہو تو اگر وہ کوئی ایسا کام کاج کر سکتا ہو جو اس کی شایان شان ہو تو احتیاط واجب یہ ہے کہ کام کاج کرے اور اپنا قرض ادا کرے۔بالخصوص ایسے شخص کے لئے جس کے لئے کام کرنا آسان ہو یا اس کاپیشہ ہی کام کاج کرناہو بلکہ اس صورت میں کام کا واجب ہونا قوت سے خالی نہیں۔
(۲۲۳۸)جس شخص کو اپنا قرض خواہ نہ مل سکے۔مستقبل میں اس کے یا اس کے وارث کے ملنے کی امید بھی نہ ہو تو ضروری ہے کہ وہ قرضے کامال قرض خواہ کی طرف سے فقیر کو دے دے اور احتیاط کی بنا پر ایسا کرنے کی اجازت حاکم شرع سے لے لے اور اگر مقروض کو قرض خواہ یا اس کے وارث کے ملنے کی امید ہو تو ضروری ہے کہ انتطار کرے اور اس کو تلاش کرے اور اگر وہ نہ ملے تو وصیت کرے کہ اگر وہ مر جائے اور قرض خواہ یا اس کا وراث مل جائے تو اس کا قرض اس کے مال سے ادا کیا جائے۔
(۲۲۳۹)اگر کسی میت کا مال اس کے کفن دفن کے واجب اخراجات اور قرض سے زیادہ نہ ہو تو اس کا مال انہی امور پر خرچ کرناضروری ہے اور اس کے وارث کو کچھ نہیں ملے گا۔
(۲۲۴۰)اگر کوئی شخص کچھ گندم،جو یا رقم یا ان جیسی مثلی چیزیں قرض میں لے لے جن کی قیمت بڑھتی گھٹتی رہتی ہے تو اسے چاہیے کہ ایسے ہی صفات کا مال لے کر واپس دے تو کافی ہے ۔لیکن قرض خواہ ان کے علاوہ پر بھی راضی ہو تو کوئی اشکال نہیں اور جو چیز قرض میں لی تھی قیمتی تھی تو جس دن قرض لیا تھا اسی وقت کی قیمت ادا کرے۔
(۲۲۴۱)کسی شخص نے جو مال قرض لیا ہواگر وہ تلف نہ ہوا ہو اور مال کا مالک اس کا مطالبہ کرے توضروری نہیں کہ مقروض وہی مال دے دے۔اگر مقروض دینا چاہیے تو قرض خواہ چاہے تو قبول نہیں کر سکتا۔
(۲۲۴۲)اگر قرض دینے والا شرط عائد کرے کہ وہ جتنی مقدار میں مال دے رہا ہے اس سے زیادہ واپس لے گا مثلاً ایک من گیہوں دے اور شرط عاید کرے کہ ایک من پانچ کلو واپس لوں گا یا دس انڈے دے اور کہے کہ گیارہ انڈے واپس لوں گا تو یہ سودا ور حرام ہے بلکہ اگر طے کرے کہ مقروض اس کے لئے کوئی کام کرے گا یا جو چیز لی ہو وہ کسی دوسری جنس کی کچھ مقدار کے ساتھ واپس کرے گا مثلاً طے کرے کہ (مقروض نے )جو ایک روپیہ لیا ہے واپس کرتے وقت اس کے ساتھ ماچس کی ایک ڈبیہ بھی دے تو یہ سود ہو گا اور حرام ہے،نیز اگر مقروض کے ساتھ شرط کرے کہ جو چیز قرض لے رہا ہے اسے مخصوص طریقہ سے واپس کرے گا مثلاً ان گھڑے سونے کی کچھ مقدار اسے دے اور شرط کرے کہ گھڑا ہو ا سونا واپس لے گا تب بھی یہ سود اور حرام ہو گا البتہ قرض خواہ کوئی شرط نہ لگائے بلکہ مقروض خود قرضے کی مقدار سے کچھ زیادہ واپس دے تو کوئی اشکال نہیں بلکہ (ایسا کرنا)مستحب ہے۔
(۲۲۴۳)سود دینا سود لینے کی طرح حرام ہے لیکن جو شخص سود پر قرض لے ظاہر یہ ہے کہ وہ اس کا مالک ہو جاتا ہے اگرچہ اولیٰ یہ ہے کہ اس میں تصرف نہ کرے اور اگر صورت یہ ہو کہ طرفین نے سود کا معاہدہ نہ بھی کیا ہوتا اور رقم کا مالک اس بات پر راضی ہوتا کہ قرض لینے والا اس رقم میں تصرف کرلے تو مقروض بغیر کسی اشکال کے اس رقم میں تصرف کر سکتا ہے۔
(۲۲۴۴)اگر کوئی شخص گیہوں یا اسی جیسی کوئی چیز سودی قرضے کے طور پر لے اور اس کے ذریعے کاشت کرے تو ظاہر یہ ہے کہ وہ پیداور کا مالک ہو جاتا ہے۔
(۲۲۴۵)اگر ایک شخص کوئی لباس خریدے اور بعدمیں اس کی قیمت کپڑے کے مالک کو سودی رقم سے یا ایسی حلال رقم سے جو سودی قرضے پر لی گئی رقم کے ساتھ مخلوط ہو گئی ہو ادا کرے تو اس لباس کے پہننے یا اس کے ساتھ نماز پڑھنے میں کوئی اشکال نہیں لیکن اگر بیچنے والے سے کہے کہ میں یہ لباس اس رقم سے خرید رہا ہوں تو اس لباس کو پہننا حرام ہے۔
(۲۲۴۶)اگر کوئی شخص کسی تاجرکو کچھ رقم دے اور دوسرے شہر میں اس تاجر سے کم رقم لے تو اس میں کوئی اشکال نہیں اور اسے صرف برات کہتے ہیں ۔
(۲۲۴۷)اگر کوئی شخص کسی کو کوئی چیز اس شرط پر دے کہ دوسرے شہر میں اس سے زیادہ لے گا جبکہ وہ چیز سونا یا چاندی ہو یا گندم یا جو جسے تول کر یا ناپ کر بیچا جاتا ہے، تو یہ سود اور حرام ہے ، ہاں جو شخص زیادہ لے رہا ہو اگر وہ اضافے کے مقابلے میں کوئی جنس دے یا کوئی کام کر دے تو پھر اشکال نہیں۔ تا ہم عام رائج نوٹ اگر قرضے کے طور پر دئیے جائیں تو زیادہ لینا جائز نہیں۔ہاں اگر نوٹ کو بیچا جائے،چاہے نقد یا ادھار جبکہ اس کی رقم دو جنسوں میں ہو جیسے ایک دینار ہو اور دوسرا روپیہ تو اضافہ لینے میں اشکال نہیں۔لیکن اگر ادھار ہو اور ایک ہی جنس ہو تو اضافہ لینے میں اشکال ہے۔
(۲۲۴۸)اگر کسی شخص نے کسی سے کچھ قرض لینا ہو اور وہ چیز ناپی یا تولی جانے والی جنس نہ ہو تو وہ شخص اس چیز کو مقروض یا کسی اور کے پاس کم قیمت پر بیچ کر اس کی قیمت نقد وصول کر سکتا ہے۔اسی بنا پر موجودہ دور میں جو چیک اور ہنڈیاں قرض خواہ یا کسی اور کے پا س کم قیمت پر بیچ کر اس کی قیمت نقد وصول کر سکتا ہے۔اسی بنا پر موجودہ دور میں جو چیک اور ہنڈیاں قرض خواہ مقروض سے لیتا ہے انہیں وہ بینک کے پاس یا کسی دوسرے شخص کے پاس اس سے کم قیمت پر…جسے عام طور پر بھاؤ گرنا کہتے ہیں… بیچ سکتا ہے اور با قی رقم نقد لے سکتا ہے۔

حوالہ دینے کے احکام
(۲۲۴۹)اگر کوئی اپنے قرض خواہ کو حوالہ دے کہ وہ اپنا قرض ایک اور شخص سے لے لے اور قرض خواہ اس بات کو قبول کر لے تو جب حوالہ ان شرائط کے ساتھ جن کاذکر بعد میں آئے گا مکمل ہو جائے تو جس شخص کے نام حوالہ دیا گیا ہے وہ مقروض ہو جائے گا اور اس کے بعد قرض خواہ پہلے مقروض سے اپنے قرض کا مطالبہ نہیں کر سکتا ۔
(۲۲۵۰)مقروض اور قرض خواہ اور جس شخص کا حوالہ دیا جا سکتا ہو ضروری ہے کہ سب بالغ اور عاقل ہوں اور کسی نے انہیں مجبور نہ کیا ہو نیز ضروری ہے کہ سفیہ نہ ہوں یعنی اپنا مال احمقانہ اور فضول کاموں میں خرچ نہ کرتے ہوں اور یہ بھی معتبر ہے کہ مقروض اور قرض خواہ دیوالیہ نہ ہوں۔ہاں اگر حوالہ ایسے شخص کے نام ہو جوپہلے سے حوالہ دینے والے کا مقروض نہ ہوتو اگر چہ حوالہ دینے والا دیوالیہ بھی ہو تو کوئی اشکال نہیں ہے۔
(۲۲۵۱) حوالہ کے تمام موقعوں پر حوالہ دئیے جانے والے شخص کا قبول کرنا ضروری ہے چاہے مقروض ہو یا نہ ہو۔
(۲۲۵۲)انسان جب حوالہ دے تو ضروری ہے کہ وہ اس وقت مقروض ہو لہذا اگر وہ کسی سے قرض لینا چاہتا ہو تو جب تک اس سے قرض نہ لے لے اسے کسی کے نام کا حوالہ نہیں دے سکتا تا کہ جو قرض اسے بعد میں دینا ہو وہ اس شخص سے لے لے۔
(۲۲۵۳)حوالہ کی جنس اور مقدار فی الواقع معین ہونا ضروری ہے ۔پس اگر حوالہ دینے والا کسی شخص کا دس من گیہوں اور دس روپے کا مقروض ہو اور قرض خواہ کو حوالہ دے کہ ان دونوں قرضوں میں سے کوئی ایک فلاں شخص سے لے لو اور اس قرضے کو معین نہ کرے تو حوالہ درست نہیں ہے۔
(۲۲۵۴) اگر قرض واقعی معین ہو لیکن حوالہ دینے کے وقت مقروض اور قرض خواہ کو اس کی مقدار یا جنس کا علم نہ ہو تو حوالہ صحیح ہے مثلاً اگر کسی شخص نے دوسرے کا قرضہ رجسٹر میں لکھا ہو اور رجسٹر دیکھنے سے پہلے حوالہ دے دے اور بعد میں رجسٹر دیکھے اور قرض خواہ کو قرضے کی مقدار بتا دے تو حوالہ صحیح ہو گا۔
(۲۲۵۵)قر ض خواہ کو اختیار ہے کہ حوالہ قبول نہ کرے اگر چہ جس کے نام کا حوالہ دیا جائے وہ دولت مند ہو او ر حوالہ کے ادا کرنے میں کوتاہی بھی نہ کرے۔
(۲۲۵۶)جو شخص حوالہ دینے والے کا مقروض نہ ہو اگر حوالہ قبول کرے تو اظہر یہ ہے کہ حوالہ ادا کرنے سے پہلے حوالہ دینے والے سے حوالے کی مقدار کا مطالبہ کر سکتا ہے۔مگر یہ کہ جو قرض جس کے نام حوالہ دیا گیا ہے اس کی مدت معین ہو اور ابھی وہ مدت ختم نہ ہوئی ہو تو اس صورت میں وہ مدت ختم ہونے سے پہلے حوالے دینے والے سے حوالے کی مقدار کا مطالبہ نہیں کر سکتا اگرچہ اس نے ادائیگی کر دی ہو اور اسی طرح اگر قرض خواہ اپنے قرض سے تھوڑی مقدار پر صلح کرے تو وہ حوالہ دینے والے دے فقط اتنی(تھوڑی)مقدار کا ہی مطالبہ کر سکتا ہے۔
(۲۲۵۷)حوالہ کی شرائط پوری ہونے کے بعد حوالہ دینے والا اور جس کے نام حوالہ دیاجا ئے حوالہ منسوخ نہیں کر سکتے اور وہ شخص جس کے نام کا حوالہ دیا گیا ہے حوالہ کے وقت فقیر نہ ہو اگر چہ وہ بعد میں فقیر ہو جائے تو قرض خواہ بھی حوالے کو منسوخ نہیں کر سکتا۔یہی حکم اس وقت ہے جب(وہ شخص جس کے نام کا حوالہ دیا گیا ہو)حوالہ دینے کے وقت فقیر ہو اور قرض خواہ جانتا ہو کہ وہ فقیر ہے لیکن اگر قرض خواہ کو علم نہ ہو کہ وہ فقیر ہے اور بعد میں اسے پتا چلے تو اگر اس وقت وہ شخص مالدار نہ ہوا ہو قرض خواہ حوالہ منسوخ کر کے اپنا قرض حوالہ دینے والے سے لے سکتا ہے۔لیکن اگر وہ مالدار ہو گیا ہو تو معاملے کو فسخ کرنے کا حق رکھنے میں اشکال ہے۔
(۲۲۵۸)اگر مقروض اور قرض خواہ اور جس کے نام کا حوالہ دیا گیا ہو یا ان میں سے کسی ایک نے اپنے حق میں حوالہ منسوخ کرنے کی شرط رکھی ہو تو شرط کے مطابق حوالہ منسوخ کر سکتے ہیں۔
(۲۲۵۹)اگر حوالہ دینے والا قرض خواہ کا قرضہ اد ا کردے یہ کام اس شخص کی خواہش پر ہو ا ہو جس کے نام کا حوالہ دیا گیا ہو جبکہ وہ حوالہ دینے والے کا مقروض ہو تو وہ جو کچھ دیا ہو اس سے لے سکتا ہے اور اگر اس کی خواہش کے بغیر ادا کیا ہو یا وہ حوالہ دہندہ کا مقروض نہ ہو تو پھراس نے جو کچھ دیا ہے اس کامطالبہ اس سے نہیں کر سکتا۔

رہن کے احکام
(۲۲۶۰)رہن یہ ہے کہ انسان قرض کے بدلے یا ضامن بن کر اپنا مال کسی کے پاس گروی رکھوائے کہ اگر رہن رکھوانے والا قرضہ نہ لوٹا سکے یا رہن نہ چھڑا سکے تو رہن لینے والا شخص اس کا عوض اس مال سے لے سکے۔
(۲۲۶۱)رہن میں صیغہ پڑھنا لازم نہیں ہے بلکہ اتنا کافی ہے کہ گروی دینے والا اپنا مال گروی رکھنے کی نیت سے گروی لینے والے کو دے دے اور وہ اسی نیت سے لے لے تو رہن صحیح ہے۔
(۲۲۶۲)ضروری ہے کہ گروی رکھوانے والا اور گروی رکھنے والا بالغ اور عاقل ہوں اورکسی نے انہیں اس معاملے کے لئے مجبور نہ کیا ہو اور یہ بھی ضروری ہے کہ مال گروی رکھوانے والا دیوالیہ اور سفیہ نہ ہو… دیوالیہ اور سفیہ کے معنی مسئلہ۲۲۱۳ میں بتائے جا چکے ہیں… اور اگر دیوالیہ ہو لیکن جو مال وہ گروی رکھوارہا ہے اس کا اپنا مال نہ ہو یا ان اموال میں سے نہ ہو جس کے تصرف کرنے سے منع کیا گیا ہوتو اشکال نہیں ہے۔
(۲۲۶۳)انسان وہ مال گروی رکھ سکتا ہے جس میں وہ شرعاً تصرف کر سکتا ہو اور اگر دوسرے کا مال اس کی اجازت سے گروی رکھ دے تو بھی صحیح ہے۔
(۲۲۶۴)جس چیز کو گروی رکھا جارہا ہو تو ضروری ہے کہ اس کی خریدو فروخت صحیح ہو۔لہذا اگر شراب یا اس جیسی چیز گروی رکھی جائے تو درست نہیں۔
(۲۲۶۵) جس چیز کو گروی رکھا جا رہا ہے اس سے جو فائدہ ہو گا وہ اس چیز کے مالک کی ملکیت ہو گا خواہ وہ گروی رکھی رکھوانے والا ہو یا کوئی دوسرا شخص ہو۔
(۲۲۶۶)گروی رکھنے والے نے جو مال بطور گروی لیا ہو اس مال کو اس کے مالک کی اجازت کے بغیر خواہ گروی رکھوانے والا ہو یا کوئی دوسرا شخص کسی دوسرے کی ملکیت میں نہیں دے سکتا۔مثلاً نہ وہ کسی دوسرے کو وہ مال بخش سکتا ہے نہ کسی کو بیچ سکتا ہے۔لیکن اگر وہ اس مال کو کسی کو بخش دے یا فروخت کر دے اور مالک بعد میں اجازت دے تو کوئی اشکال نہیں ہے۔
(۲۲۶۷)اگر گروی رکھنے والا اس مال کو جو اس نے بطور گروی لیا ہو اس کے مالک کی اجازت سے بیچ دے تو مال کی طرح اس کی قیمت گروی نہیں ہوگی اور یہی حکم ہے اگر مالک کی اجازت کے بغیر بیچ دے اور مالک بعد میں اجازت دے(یعنی اس مال کی جو قیمت وصول کی جائے وہ اس مال کی طرح گروی نہیں ہو گی)۔لیکن اگر گروی رکھوانے والا اس چیز کو گروی رکھنے والے کی اجازت سے بیچ دے تا کہ اس کی قیمت کو گروی قرار دے تو ضروری ہے کہ مالک کی اجازت سے بیچ دے اور اس کی مخالفت کرنے کی صورت میں معاملہ باطل ہے۔مگر یہ کہ گروی رکھنے والے نے اس کی اجازت دی ہو(تو پھر معاملہ صحیح ہے)۔
(۲۲۶۸)جس وقت مقروض کو قرض ادا کر دینا چاہئے اگر قرض خواہ اس وقت مطالبہ کرے اور مقروض ادائیگی نہ کرے تو اس صورت میں جبکہ قرض خواہ مال کو فروخت کر کے اپنا قرضہ اس کے مال سے وصول کرنے کا اختیار رکھتا ہو وہ گروی لئے ہوئے مال کو فروخت کر کے اپنا قرضہ وصول کر سکتا ہے۔اگر اختیار نہ رکھتا ہو تو اس کے لئے لازم ہے کہ مقروض سے اجازت لے اور اگراس تک پہنچ نہ ہو توضروری ہے کہ حاکم شرع سے اس مال کو بیچ کر اس کی قیمت سے اپنا قرضہ وصول کرنے کی اجازت لے اور دونوں صورتوں میں اگر قرضے سے زیادہ قیمت وصول ہو تو ضروری ہے کہ زائد مال مقروض کو دے دے۔
(۲۲۶۹)اگر مقروض کے پاس اس مکان کے علاوہ جس میں وہ رہتا ہو اور اس سامان کے علاوہ جس کی اسے ضرورت ہو اور کوئی چیز نہ ہو تو قرض خواہ اس سے اپنے قرض کا مطالبہ نہیں کر سکتا لیکن مقروض نے جو مال بطور گروی دیا ہو اگرچہ وہ مکان اور سامان ہی کیوں نہ ہو قرض خواہ اسے بیچ کر اپنا قرض وصول کر سکتا ہے۔

ضامن ہونے کے احکام
(۲۲۷۰)اگر کوئی شخص کسی دوسرے کا قرضہ ادا کرنے کے لئے ضامن بننا چاہے تو اس کا ضامن بننا اس وقت صحیح ہو گا جب وہ کسی لفظ سے اگر چہ وہ عربی زبان میں نہ ہو یا کسی عمل سے قرض خواہ کو سمجھا دے کہ میں تمہارے قرض کی ادائیگی کے لئے ضامن بن گیا ہوں اورقرض خواہ بھی اپنی رضامندی کا اظہار کردے اور (اس سلسلے میں)مقروض کا رضا مند ہونا شرط نہیں ہے اور اس کی دو صورتیں ہیں:
(۱)ضامن قرضے کو مقروض کے ذمہ سے ہٹا کر اپنے ذمے لے۔اگر اس کی ادائیگی سے پہلے مر جائے تو دوسرے قرضوں کی طرح وراثت میں سب سے پہلے ادا کیا جائے گا۔ عام طور پر لفظ ضمان سے فقہاء کی مراد یہی ہے۔
(۲)ضامن پابند ہو جائے کہ وہ قرضہ ادا کرے گالیکن اس کے ذمے سے دوسری طرف منتقل نہیں ہوتا۔اگر وہ وصیت نہ کرے تو اس کی موت کے بعد اس کے مال میں سے ادا نہیں کیا جاسکتا۔
(۲۲۷۱)ضامن اور قرض خواہ دونوں کے لئے ضروری ہے کہ بالغ اور عاقل ہوں اور کسی نے انہیں اس معاملے پر مجبور نہ کیا ہو نیز ضروری ہے کہ وہ سفیہ بھی نہ ہوں اور اسی طرح ضروری ہے کہ قرض خواہ دیوالیہ نہ ہو ،لیکن یہ شرائط مقروض کے لئے نہیں ہیں۔مثلاً اگر کوئی شخص بچے،دیوانے یا سفیہ کا قرض ادا کرنے کیلئے ضامن بنے تو ضمانت صحیح ہے۔
(۲۲۷۲)جب کوئی شخص ضامن بننے کے لئے کوئی شرط رکھے مثلاً یہ کہے کہ اگر مقروض تمہارا قرض ادا نہ کر سکے گا تو میں تمہارا قرض ادا کروں گا توپہلی صورت میں اس کے ضامن ہونے میں اشکال ہے اور دوسری صورت میں اشکال نہیں۔
(۲۲۷۳)انسان جس شخص کے قرض کی ضمانت دے رہا ہے ضروری ہے کہ وہ مقروض ہو۔لہٰذا اگر کوئی شخص کسی دوسرے شخص سے قرض لینا چاہتا ہو تو جب تک وہ قرض نہ لے لے اس وقت تک کوئی شخص اس کا ضامن نہیں بن سکتا۔
(۲۲۷۴)انسان اسی صورت میں ضامن بن سکتا ہے جب قرض ،قرض خواہ اور مقروض(یہ تینوں)فی الواقع معین ہوں۔لہٰذا اگر دو اشخاص کسی ایک شخص کے قرض خواہ ہو ں اور انسان کہے کہ میں تم میں سے ایک کا قرض ادا کر دوں گا تو چونکہ اس نے اس بات کو معین نہیں کیا کہ وہ ان میں سے کس کا قرض ادا کرے گا اس لئے اس کا ضامن بننا باطل ہے۔نیز اگر کسی کو دواشخاص سے قرض وصول کرنا ہو اور کوئی شخص کہے کہ میں ضامن ہوں کہ ان دومیں سے ایک کا قرض تمہیں ادا کردوں گا تو چونکہ اس نے اس بات کو معین نہیں کیا کہ دونوں میں سے کس کا قرضہ ادا کرے گا اس لئے اس کا ضامن بننا باطل ہے۔اسی طرح اگر کسی نے ایک دوسرے شخص سے مثال کے طور پر دس من گیہوں اور دس روپے لینے ہوں اور کوئی شخص کہے کہ میں تمہارے دونوں قرضوں میں سے ایک کی ادائیگی کا ضامن ہوں اور اس چیز کو معین نہ کرے کہ وہ گیہوں کے لئے ضامن ہے یا روپوں کے لئے تو یہ ضمانت صحیح نہیں ہے۔
(۲۲۷۵)اگر کوئی شخص مقروض کی اجازت کے بغیر ضامن بن جائے کہ اس کا قرض ادا کرے تو بعد میں مقروض سے کسی چیز کا مطالبہ نہیں کر سکتا۔
(۲۲۷۶)اگر کوئی شخص کسی کا قرضہ ادا کرنے کیلئے ضامن بن جائے تو پھر وہ ضامن ہونے سے مکر نہیں سکتا۔
(۲۲۷۷)اگر قرض خواہ اپنا قرض ضامن کو بخش دے تو ضامن مقروض سے کوئی چیز طلب نہیں کر سکتا اور کچھ مقدار اگر بخش دی ہے تو اتنی مقدار مقروض سے طلب نہیں کر سکتا۔لیکن اگر سارا قرض یااس کی کچھ مقدار اسے ہبہ کرے یا خمس ،زکوٰة کی مد میں دیدے تو ضامن مقروض سے وہ چیز لے سکتا ہے۔
(۲۲۷۸)اگر کوئی شخص کسی کاضامن بنے کہ اسے قرض ادا کرے گا تو اپنے ضامن بننے سے پھر نہیں سکتا۔
(۲۲۷۸)احتیاط کی بنا پر ضامن اور قرض خواہ یہ شرط نہیں کر سکتے کہ جس وقت چاہیں ضامن کی ضمانت منسوخ کر دیں۔
(۲۲۸۰)اگر انسان ضامن بننے کے وقت قرض خواہ کا قرضہ ادا کرنے کے قابل ہو تو خواہ وہ (ضامن)بعد میں دیوالیہ ہو جائے قرض خواہ اس کی ضمانت منسوخ کر کے پہلے مقروض سے قرض کی ادائیگی کا مطالبہ نہیں کر سکتا اور اسی طرح اگر ضمانت دیتے وقت ضامن قرض ادا کرنے پر قادر نہ ہو لیکن قرض خواہ یہ بات جانتے ہو ئے اس کے ضامن بننے پر راضی ہو جائے تب بھی یہی حکم ہے۔
(۲۲۸۱)اگر انسان ضامن بننے کے وقت قرض خواہ کا قرضہ ادا کرنے پر قادر نہ ہو اور قرض خواہ صورت حال سے لا علم ہونے کی بنا پر اس کی ضمانت منسوخ کرنا چاہے تو اس میں اشکال ہے خصوصاً اس صورت میں جبکہ قرض خواہ کے اس امر کی جانب متوجہ ہونے سے پہلے ضامن قرضے کی ادائیگی پر قادر ہو جائے۔

کفالت کے احکام
(۲۲۸۲)کفالت سے مراد یہ ہے کہ کوئی شخص ذمہ لے کہ جس وقت قرض خواہ چاہے گا وہ مقروض کو اس کے سپرد کردے گا۔ جو شخص اس قسم کی ذمے داری قبول کرے اسے کفیل کہتے ہیں۔
(۲۲۸۳)کفالت اس وقت صحیح ہے جب کفیل کو ئی سے الفاظ میں خواہ عربی زبان کے نہ بھی ہوں یا کسی عمل سے قرض خواہ کو یہ بات سمجھا دے کہ میں ذمہ لیتا ہوں کہ جس وقت تم چاہو گے میں مقروض کو تمہارے حوالے کر دوں گا اور قرض خواہ بھی اس بات کو قبول کرلے اور احتیاط کی بنا پر کفالت کے صحیح ہونے کے لئے مقروض کی رضا مندی بھی معتبر ہے بلکہ احتیاط یہ ہے کہ کفالت کے معاملے میں اسی طرح مقروض کو بھی ایک فریق ہونا چاہیے یعنی مقروض اور قرض خواہ دونوں کفالت کو قبول کریں۔
(۲۲۸۴)کفیل کے لئے ضروری ہے کہ بالغ اور عاقل ہو اور اسے کفیل بننے پر مجبور نہ کیا گیا ہو اور وہ اس بات پر قادر ہو کہ جس کا کفیل بنے اسے حاضر کر سکے اور اسی طرح اس صورت میں جب مقروض کو حاضر کرنے کیلئے کفیل کو اپنامال خرچ کرنا پڑے تو ضروری ہے کہ وہ سفیہ اور دیوالیہ نہ ہو۔
(۲۲۸۵)ان پانچ چیزوں میں سے کوئی ایک کفالت کو کالعد م کردیتی ہے:
(۱)کفیل مقروض کو قرض خواہ کے حوالے کردے یا وہ خود اپنے آپ کو قرض خواہ کے حوالے کر دے۔
(۲)قرض خواہ کا قرضہ ادا کر دیا جائے۔
(۳)قرض خواہ اپنے قرضے سے دستبرادر ہو جائے ۔یا اسے کسی دوسرے کے حوالے کر دے۔
(۴)مقروض یا کفیل میں سے ایک مر جائے۔
(۵)قرض خواہ کفیل کو کفالت سے بری الذمہ قرار دے دے۔
(۲۲۸۶)اگر کوئی شخص مقروض کو قرض خواہ سے زبردستی آزاد کر ادے اور قرض خواہ کی پہنچ مقروض تک نہ ہوسکے تو جس شخص نے مقروض کو آزاد کرایا ہو ضروری ہے کہ وہ مقروض کو قرض خواہ کے حوالے کر دے یا اس کا قرض ادا کرے۔

امانت کے احکام
(۲۲۸۷)اگر ایک شخص کوئی مال کسی کو دے اور کہے کہ یہ تمہارے پاس امانت رہے گا اور وہ بھی قبول کرے یا کوئی لفظ کہے بغیر مال کا مالک اس شخص کو سمجھا دے کہ وہ اسے مال رکھوالی کیلئے دے رہا ہے اور وہ بھی رکھوالی کے مقصد سے لے لے تو ضروری ہے کہ امانت داری کے ان احکام کے مطابق عمل کرے جو بعد میں بیان ہوں گے۔
(۲۲۸۸)ضروری ہے کہ امانت دار اور وہ شخص جو مال بطور امانت دے دونوں بالغ اور عاقل ہو ں اور کسی نے انہیں مجبور نہ کیا ہو۔ لہذا اگر کوئی شخص کسی مال کو دیوانے یا بچے کے پاس امانت کے طور پر رکھے یا دیوانہ یا بچہ کوئی مال کسی کے پاس امانت رکھے تو صحیح نہیں ہے ہاں سمجھ دار بچہ کسی دوسرے کے مال کو اس کی اجازت سے کسی کے پاس رکھے تو جائز ہے ۔اسی طرح ضروری ہے کہ امانت رکھوانے والا سفیہ اور دیوالیہ نہ ہو لیکن اگر دیوالیہ ہو ، تا ہم جو مال اس نے امانت کے طور پر رکھوایا ہو وہ اس مال میں سے نہ ہو جس میں اسے تصرف کرنے سے منع کیا گیا ہے تو اس صورت میں کوئی اشکال نہیں ہے۔نیز اس صورت میں کو جب مال کی حفاظت کرنے کے لئے امانت دار کو اپنا ما ل خرچ کرنا پڑے تو ضروری ہے کہ وہ سفیہ اور دیوالیہ نہ ہو۔
(۲۲۸۹)اگر کوئی شخص بچے سے کوئی چیز اس کے مالک کی اجازت کے بغیر بطور امانت قبول کر لے تو ضروری ہے کہ وہ چیز اس کے مالک کو دے دے اور اگر وہ چیز خود بچے کا مال ہو تو لازم ہے کہ وہ چیز بچے کے سر پر ست تک پہنچا دے اور اگر وہ مال ان لوگوں کے پاس پہنچانے سے پہلے تلف ہو جائے تو ضروری ہے کہ اس کا عوض دے مگر اس ڈر سے کہ خدانخواستہ تلف ہو جائے اس مال کو اس کے مالک تک پہنچانے کی نیت سے لیا ہو تو اس صورت میں اگر اس نے مال کی حفاظت کر نے اور اسے مالک تک پہنچانے میں کوتاہی نہ کی ہو تو وہ ضامن نہیں ہے اور اگر امانت کے طور پر مال دینے والا دیوانہ ہو تب بھی یہی حکم ہے۔
(۲۲۹۰) جو شخص امانت کی حفاظت نہ کر سکتا ہو اگر امانت رکھوانے والا اس کی اس حالت سے باخبر نہ ہو تو ضروری ہے کہ وہ شخص امانت کو قبول نہ کرے۔
(۲۲۹۱)اگر انسان صاحب مال کو سمجھائے کہ وہ اس کے مال کی حفاظت کے لئے تیار نہیں اور اس مال کو امانت کے طور پر قبول نہ کرے اور صاحب مال پھر بھی مال چھوڑ کر چلا جائے اور وہ مال تلف ہو جائے تو جس شخص نے امانت قبول نہ کی ہو وہ ذمے دار نہیں ہے۔لیکن احتیاط مستحب یہ ہے کہ اگر ممکن ہو تو اس مال کی حفاظت کرے۔
(۲۲۹۲) جو شخص کسی کے پاس کوئی چیز بطور امانت رکھوائے تو وہ امانت کو جس وقت چاہے منسوخ کر سکتا ہے اور اسی طرح امین بھی جب چاہے اسے منسوخ کر سکتا ہے۔
(۲۲۹۳)اگر کوئی شخص امانت کی نگہداشت ترک کر دے اور امانت داری منسوخ کردے تو ضروری ہے کہ جس قدر جلد ہو سکے مال اس کے مالک یا مالک کے وکیل یا سر پرست کو پہنچائے یا اطلاع دے کہ وہ مال کی (مزید)نگہداشت کے لئے تیار نہیں ہے اور اگر وہ بغیر عذر کے مال ان تک نہ پہنچائے یا اطلاع نہ دے اور مال تلف ہو جائے تو ضروری ہے کہ اس کاعوض دے۔
(۲۲۹۴)جو شخص امانت قبول کرے اگر اس کے پاس اسے رکھنے کے لئے مناسب جگہ نہ ہو تو ضروری ہے کہ اس کے لئے مناسب جگہ حاصل کرے اور امانت کی اس طرح نگہداشت کرے کہ لوگ یہ نہ کہیں کہ اس نے نگہداشت میں کوتاہی کی ہے اور اگر وہ اس کام میں کوتاہی کرے اور امانت تلف ہوجائے تو ضروری ہے کہ اس کا عوض دے۔
(۲۲۹۵)جو شخص امانت قبول کرے اگر وہ ا س کی نگہداشت میں کوتاہی نہ کرے اور نہ ہی تعدی کرے اور اتفاقاً وہ مال تلف ہو جائے تو وہ شخص ذمہ دار نہیں ہے لیکن اگر وہ اس مال کی حفاظت میں کوتاہی کرے اور مال کو ایسی جگہ رکھے جہاں وہ ایسا غیر محفوظ ہو کہ اگر کوئی ظالم خبر پائے تولے جائے یا وہ اس مال میں تعدی کرے یعنی مالک کی اجازت کے بغیر اس مال میں تصرف کرے مثلاً لباس کو استعمال کرے یا جانور پر سورای کرے اور وہ تلف ہو جائے تو ضروری ہے کہ اس کا عوض اس کے مالک کو دے۔
(۲۲۹۶)اگر مال کا مالک اپنے مال کی نگہداشت کے لئے کوئی جگہ معین کر دے اور جس شخص نے امانت قبول کی ہو اس سے کہے کہ تمہیں چاہیے کہ یہیں مال کا خیال رکھو اور اگر اس کے ضائع ہو جانے کا احتمال ہو تب بھی تم اس کو کہیں اور نہ لے جانا تو امانت قبول کرنے والا اسے کسی اور جگہ نہیں لے جا سکتا اور اگر وہ مال کو کسی دوسری جگہ لے جائے اور وہ تلف ہو جائے تو امین ذمہ دارہے۔
(۲۲۹۷)اگر مال کا مالک اپنے مال کی نگہداشت کے لئے کوئی جگہ معین کرے لیکن ظاہراً وہ یہ کہہ رہا ہو کہ اس کی نظر میں وہ جگہ کوئی خصوصیت نہیں رکھتی بلکہ وہ جگہ مال کے لئے محفوظ جگہوں میں سے ایک ہو تو وہ شخص جس نے امانت قبول کی ہے اس مال کو کسی ایسی جگہ جو زیادہ محفوظ ہو یا پہلی جگہ جتنی محفوظ ہو لے جا سکتا ہے اور اگر مال وہاں تلف ہو جائے تو وہ ذمہ دار نہیں ہے۔
(۲۲۹۸)اگر مال کا مالک ہمیشہ کے لئے دیوانہ یا بے ہوش ہو جائے تو امانت کا معاملہ ختم ہو جائے گا اور جس شخص نے اس سے امانت قبول کی ہو اسے چاہئے کہ فوراً امانت اس کے سرپرست کو پہنچا دے یااس کے سر پرست کو خبر کر ے اور اگر شرعی عذر کے بغیر مال دیوانے کے سرپرست کو نہ پہنچائے اور اسے خبر کرنے میں بھی کوتاہی برتے اور مال تلف ہو جائے تو اسے چاہیے کہ اس کا عوض دے ۔لیکن اگر مال کے مالک پر کبھی کبھار دیوانگی یا بے ہوشی کا دورہ پڑتا ہو تو احتیاط واجب ہے کہ یہی کام کرے۔
(۲۲۹۹)اگر مال کا مالک مر جائے تو امانت کا معاملہ باطل ہو جاتا ہے لہذا۔اگر اس مال میں کسی دوسرے کا حق نہ ہو تو وہ مال اس کے وارث کو ملتا ہے اور ضروری ہے کہ امانت دار اس مال کو اس کے وارث تک پہنچائے یا اسے اطلاع دے۔اگر وہ شرعی عذر کے بغیر مال کو اس کے وارث کے حوالے نہ کرے اور خبر دینے میں بھی کوتاہی بر تے اور مال ضائع ہو جائے تو وہ ذمے دار ہے ۔لیکن اگر وہ مال اس وجہ سے وارث کو نہ دے اور اسے خبر دینے میں بھی کوتاہی کرے کہ جاننا چاہتا ہو کہ وہ شخص جو کہتا ہے کہ میں میت کا وارث ہوں واقعاً ٹھیک کہتا ہے یا نہیں یا یہ جاننا چاہتا ہو کہ کوئی اور شخص میت کا وارث ہے یا نہیں اور اگر(اس تحقیق کے بیچ)مال تلف ہو جائے تو وہ ذمے دار نہیں ہے۔
(۲۳۰۰)اگر مال کا مالک مر جائے اور مال کی ملکیت کا حق اس کے ورثاء کو مل جائے تو جس شخص نے امانتا قبول کی ہو ضروری ہے کہ مال تمام ورثاء کو دے یا اس شخص کو دے جسے مال دینے پر سب ورثاء رضامند ہوں ۔لہذا اگر وہ دوسرے ورثاء کی اجازت کے بغیر تمام مال فقط ایک وارث کو دے دے تو وہ دوسروں کے حصوں کا ذمے دار ہے۔
(۲۳۰۱)جس شخص نے امانت قبول کی ہو اگر وہ مر جائے یا ہمیشہ کے لئے دیوانہ یا بے ہوش وہ جائے تو امانت کا معاملہ باطل ہو جائے گا اورا س کے سر پرست یا وارث کو چاہیے کہ جس قدر ہو سکے مال کے مالک کو اطلاع دے یا امانت اس تک پہنچائے۔لیکن اگر کبھی کھبار (یا تھوڑی مدت کے لئے)دیوانہ یا بے ہوش ہوتا ہو تو احتیاط واجب ہے کہ ایسا ہی کرے۔
(۲۳۰۲)اگر امانت دار اپنے آپ میں موت کی نشانیاں دیکھے تو اگر ممکن ہو تو احتیاط کی بنا پر ضروری ہے کہ امانت کو اس کے مالک،سرپرست یا وکیل تک پہنچا دے یا اس کو اطلاع دے اور اگر یہ ممکن نہ ہو ضروری ہے کہ ایسا بندوبست کرے کہ اسے اطمینان ہو جائے کہ اس کے مرنے کے بعد مال اس کے مالک کو مل جائے گا۔مثلاً وصیت کرے اور اس وصیت پر گواہ مقرر کرے اور مال کے مالک کا نام اور مال کی جنس اور خصوصیات اور محل وقوع وصی اور گواہوں کو بتا دے۔
(۲۳۰۳)اگر امانت دار کے لئے کوئی سفر پیش آئے تو امانت کو اپنے اہل و عیال کے حوالے کرے۔لیکن اگر اس کی حفاظت خود اس شخص پر موقوف ہو تو سفر نہ کرے یا مال اس کے مالک، سر پرست یا ولی کے حوالے کرے یا انہیں آگاہ کرے۔

عاریہ کے احکام
(۲۳۰۴)عاریہ سے مراد یہ ہے کہ انسان اپنا مال دوسرے کو دے تا کہ وہ اس مال سے بغیر کسی معاوضے کے استفادہ کرے۔
(۲۳۰۵)عاریہ میں صیغہ پڑھنا لازم نہیں اور اگر مثال کے طور پر کوئی شخص کسی کو لباس عاریہ کے قصد سے دے اور وہ بھی اسی قصد سے لے تو عاریہ صحیح ہے۔
(۲۳۰۶)غصبی چیز یا اس چیز کو بطور عاریہ دینا جو کہ عاریہ دینے والے کا مال ہو لیکن اس کی آمدنی اس نے کسی دوسرے شخص کے سپرد کردی ہو مثلاً اسے کرائے پر دے رکھا ہو ،اس صور ت میں صحیح ہے جب غصبی چیز کا مالک یا وہ شخص جس نے عاریہ دی جانے والی چیز کو بطور اجارہ لے رکھا ہو اس کے بطور عاریہ دینے پر راضی ہو۔
(۲۳۰۷)جس چیز کی منفعت کسی شخص کے سپرد ہو مثلاً ا س چیز کو کرائے پر لے رکھا ہو تو اسے بطور عاریہ دے سکتا ہے لیکن احتیاط کی بنا پر مالک کی اجازت کے بغیر اس شخص کے حوالے نہیں کر سکتا جس نے اسے بطور عاریہ لیا ہے۔
(۲۳۰۸)اگر دیوانہ،بچہ،دیوالیہ یا سفیہ اپنا مال عاریتاً دیں تو صحیح نہیں ہے۔لیکن اگر (ان میں سے کسی کا) سر پرست عاریہ دینے کی مصلحت سمجھتا ہو اور جس شخص کا وہ سر پرست ہے اس کا مال عاریتاً دے دے تو اس میں کوئی اشکال نہیں۔اسی طرح جس شخص نے مال عاریتاًلیا ہو اس تک مال پہنچانے کیلئے بچہ وسیلہ بنے تو کوئی اشکال نہیں ہے۔
(۲۳۰۹)عاریتاً ہوئی چیز کی نگہداشت میں کوتاہی نہ کرے اور اس سے معمولی سے زیادہ استفادہ بھی نہ کرے اور اتفاقاً وہ چیز تلف ہو جائے تو وہ شخص ذمے دار نہیں ہے۔لیکن اگر طرفین آپس میں یہ شرط کریں کہ اگر وہ چیز تلف ہو جائے تو عاریتاً لینے والا ذمہ دار ہو گا یا جو چیز عاریتاً ہو و ہ سونا یا چاندی ہو تو اس کو عوض دینا ضروری ہے۔
(۲۳۱۰)اگر کوئی شخص سونا چاندی عاریتاً لے اور یہ طے کیا ہو اگر تلف ہو گیا تو ذمے دار نہیں ہو گا پھر تلف ہو جائے تو وہ شخص ذمے دار نہیں ہے۔
(۲۳۱۱)اگر عاریہ دینے والا مر اجائے تو عاریہ پر لینے کیلئے ضروری ہے کہ جو طریقہ امانت کے مالک کے فوت ہوجانے کی صورت میں مسئلہ ۲۳۰۰میں بتایا گیا ہے اسی کے مطابق عمل کرے۔
(۲۳۱۲)اگر عاریہ دینے والے کی کیفیت یہ ہو کہ وہ شرعاً اپنے مال میں تصرف نہ کر سکتا ہو مثلاً دیوانہ یا بے ہوش ہوجائے تو عاریہ لینے والے کے لئے ضروری ہے کہ اسی طریقے کے مطابق عمل کرے جو مسئلہ ۲۲۹۸ میں امانت کے بارے میں بیان کیا گیا ہے۔
(۲۳۱۳)جس شخص نے کوئی چیز عاریتاً دی ہو وہ جب بھی چاہے اسے منسوخ کر سکتا ہے اور جس نے کوئی چیز عاریتاً لی ہو وہ بھی جب چاہے اسے منسوخ کر سکتا ہے۔
(۲۳۱۴)کسی ایسی چیز کا عاریتاً دینا جس سے حلال استفادہ نہ ہو سکتا ہو مثلاً لہو ولعب اور قمار بازی کے آلات اور کھانے پینے میں استعمال کرے کیلئے سونے اور چاندی کے بر تن عاریتاً دینا۔۔ بلکہ احتیاط لازم کی بنا پر ہر قسم کے استعمال کے لئے عاریتاً دینا۔۔ باطل ہے اور تزئین وآرائش کے لئے عاریتاً دینا جائز ہے۔
(۲۳۱۵)بھیڑ(بکریوں) کو ان کے دودھ اور اون سے استفادہ کرنے کے لئے نیز نر حیوان کو مادہ حیوانا ت کے ساتھ ملاپ کے لئے عاریتاً دینا صحیح ہے۔
(۲۳۱۶)اگر کسی چیز کو عاریتاً لینے والا اسے اس کے مالک یا مالک کے وکیل یا سر پرست کو دے دے او ر اس کے بعد وہ چیز تلف ہو جائے تو اس چیز کو عاریتاً لینے والاذمے دار نہیں ہے لیکن اگر وہ مال کے مالک یا اس کے وکیل یا سر پرست کی اجازت کے بغیر مال کو خواہ ایسی جگہ لے جائے جہاں مال کا مالک اسے عموماً لے جاتا ہو مثلاً گھوڑے کو اس اصطبل میں باندھ دے جو اس کے مالک نے اس کے لئے تیار کیا ہو اور بعد میں گھوڑا تلف ہو جائے یا کوئی اسے تلف کردے تو عاریتاً لینے والاذمے دار ہے۔
(۲۳۱۷)اگر ایک شخص نجس چیز عاریتاً دے تو اس صورت میں اسے چاہیے کہ۔۔جیسا کہ مسئلہ ۲۰۱۴ میں گزر چکا ہے… اس چیز کے نجس ہونے کے بارے میں عاریتاً لینے والے شخص کو بتا دے۔
(۲۳۱۸)جو چیز کسی شخص نے عاریتاً لی ہو اسے اس کے مالک کی اجازت کے بغیر کسی دوسرے کو کرائے پر یا عاریتاً نہیں دے سکتا۔
(۲۳۱۹)جو چیز کسی شخص نے عاریتاً لی ہو اگر وہ اسے مالک کی اجازت سے کسی اور شخص کو عاریتاً دیدے تو اگر جس شخص نے پہلے وہ چیز عاریتاً لی ہو مر جائے یا دیوانہ ہو جائے تو دوسرا عاریہ باطل نہیں ہوتا۔
(۲۳۲۰)اگر کوئی شخص جانتا ہو کہ جو مال اس نے عاریتاً لیا ہے وہ غصبی ہے تو ضروری ہے کہ وہ مال اس کے مالک کو پہنچا دے اور وہ اسے عاریتاً دینے والے کو نہیں دے سکتا۔
(۲۳۲۱)اگر کوئی شخص ایسامال عاریتاً لے جس کے متعلق جانتا ہو کہ وہ غصبی ہے اور اس سے فائدہ اٹھائے اور اس کے ہاتھ وہ مال تلف ہو جائے تو مالک اس مال کا عوض اور جو فائدہ عاریتاً لینے والے نے اٹھایا ہے اس کا عوض اس سے یا جس نے مال غصب کیا ہو اس سے طلب کر سکتا ہے اور اگر مالک عاریتاً لینے والے سے عوض لے لے تو عاریتاً لینے والا جو کچھ مالک کو دے اس کامطالبہ عاریتاً دینے والے سے نہیں کر سکتا۔
(۲۳۲۲)اگر کسی شخص کو یہ معلوم نہ ہو کہ اس نے جو مال عاریتاً لیا ہے وہ غصبی ہے اور اس کے پاس ہوتے ہوئے وہ مال تلف ہو جائے تو اگر مال کا مالک اس کا عوض اس سے لے لے تو وہ بھی جو کچھ مال کے مالک کو دیا ہو اس کا مطالبہ عاریتاً دینے والے سے کر سکتا ہے لیکن اگر اس نے جو چیز عاریتاً لی ہو وہ سونا چاندی ہویا بطور عاریہ دینے والے نے اس سے شرط کی ہو کہ اگر وہ چیز تلف ہو جائے تو وہ اس کا عوض دے گا تو پھر اس نے مال کو جو عوض مال کے مالک کو دیا ہو اس کا مطالبہ عاریتاً دینے والے سے نہیں کر سکتا۔ لیکن اگر مالک نے اس مال سے استفادہ کے بدلے کوئی چیز لے لی ہو تو عاریہ دینے والے سے اس کا مطالبہ کر سکتا ہے۔