|
حج کے احکام
(۱۹۹۴)بیت اللہ کی زیارت کرنے اور ان اعمال کو بجالانے کانام حج ہے جن کے وہاں بجالانے کا حکم دیا گیا ہے اور اس کی بجا آوری پر اس شخص کے لئے جمع مندرجہ ذیل شرائط پوری کرتا ہوتمام عمر میں ایک دفعہ واجب ہے۔
(اوّل)انسان بالغ ہو۔
(دوم)عاقل اور آزاد ہو۔
(سوم)حج پر جانے کی وجہ سے کوئی ایسا ناجائز کام کرنے پر مجبور نہ ہوجس کا ترک کرنا حج کرنے سے زیادہ اہم ہو یا کوئی ایسا واجب کام ترک نہ ہوتا ہو جوحج سے زیادہ اہم ہو۔لیکن اگر اس حالت میں بھی حج پر چلا جائے تو گناہگار ضرور ہے مگر حج صحیح ہے۔
(چہارم)استطاعت رکھتا ہو۔صاحب استطاعت ہونا چند چیزوں پر منحصر ہے۔
(۱)انسان راستے کا خرچ اوراسی طرح اگر ضرورت ہو تو سواری رکھتا ہو یا اتنا مال رکھتا ہو کہ ان چیزوں کو مہیا کر سکے۔
(۲)اتنی صحت اور طاقت ہو کہ زیادہ مشقت کے ہے بغیر مکہ مکرمہ جا کر حج کر سکتا ہو۔یہ شرط حج کے موقع سے مخصوص ہے اور اگر کوئی شخص مالی استطاعت رکھتا ہو مگر جسمانی طاقت حج کے وقت نہ رکھتا ہو یا اگر خود بجالائے تو اس کیلئے نقصان ہے اور صحت یابی کی بھی کوئی امید نہ ہو تو اسے چاہیے کہ کسی کونائب بنائے۔
(۳)مکہ مکرمہ جانے کیلئے راستے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو اور اگر راستہ بند ہو یاا نسان کو ڈر ہوکہ راستے میں اس کی جان یا آبرو چلی جائے گی یا اس کا مال چھین لیا جائے گاتو اس پر حج واجب نہیں ہے ۔لیکن اگروہ دوسرے راستے سے جاسکتا ہو تو اگرچہ وہ راستہ زیادہ طویل ہو تو ضروری ہے کہ اس راستے سے جائے بجز اس کے کہ وہ راستہ اس قدر دور اور غیر معروف ہو کہ لوگ کہیں کہ حج کا راستہ بند ہے۔
(۴)جب سارے شرائط موجود ہوں تو اس کے پاس اتنا وقت بھی ہو کہ مکہ مکرمہ پہنچ کر حج کے اعمال بجالاسکے۔
(۵)جن لوگوں کے اخراجات اس پر واجب ہوں مثلاً بیوی اور بچے لوگوں کے اخراجات ترک کرنا اس کیلئے گناہ ہوں تو ان کے اخراجات اس کے پاس موجود ہوں۔
(۶)حج سے واپسی کے بعد وہ معاش کیلئے کوئی ہنر یا کھیتی یا جائیداد رکھتا ہو یا کوئی دوسرا ذریعہ آمدنی رکھتا ہو۔یعنی ایسا نہ ہو کہ حج کے اخراجات کی وجہ سے حج سے واپسی پر مجبور ہو جائے اور تنگی دستی میں زندگی گزارنے پر مجبور ہوجائے۔
(۱۹۹۵)جس شخص کی ضرورت اپنے ذاتی مکان کے بغیر پوری نہ ہوسکے اس پر حج اس وقت واجب ہے جب اس کے پاس مکان کیلئے بھی رقم ہو۔
(۱۹۹۶)جو عورت مکہ مکرمہ جا سکتی ہو اگر واپسی کے بعداس کے پاس اس کااپنا کوئی مال نہ ہو اور مثال کے طور پر اس کا شوہر بھی فقیر ہو اور اسے خرچ نہ دیتا ہو اور وہ عورت عسرت میں زندگی گزازنے پر مجبور ہو جائے تواس پر حج واجب نہیں۔
(۱۹۹۷)اگر کسی شخص کے پاس حج کیلئے زادراہ اورسواری نہ ہو اور دوسرا کوئی اسے کہے کہ تم حج پر جاؤ میں تمہارے سفر کاخرچ دوں گا اور تمہارے سفر حج کے دوران تمہارے اہل وعیال کو بھی خرچ دیتا رہوں گا تو اگر اسے اطمینان ہو جائے کہ وہ شخص اسے خرچ دے گاتو اس پر حج واجب ہو جاتاہے۔
(۱۹۹۸)اگر کسی شخص کو مکہ مکرمہ جانے او ر واپس آنے کا خرچ اور جتنی مدت اسے وہاں جانے اور واپس آنے میں لگے اس کے لئے اس کے اہل و عیال کا خرچ دے دیا جائے کہ وہ حج کر لے تو اگرچہ وہ مقروض بھی ہو اور واپسی پر گزر بسر کرنے کے لئے مال بھی نہ رکھتا ہو اس پر حج واجب ہو جاتا ہے ۔لیکن اگراس طرح ہو کہ حج کے سفر کا زمانہ اس کے کاروبار اور کام کا زمانہ ہو کہ اگر حج پر چلا جائے تو اپنا قرض مقررہ وقت پر ادا نہ کر سکتا ہو یا اپنی گزر بسر کے اخراجات سال کے باقی دونوں میں مہیا نہ کر سکتا ہو تو اس پر حج واجب نہیں ہے۔
(۱۹۹۹)اگر کسی کو مکہ مکرمہ تک جانے اور آنے کے اخراجات نیز جتنی مدت وہاں جانے اور آنے میں لگے اس مدت کے لئے اس کے اہل وعیال کے اخراجات دے دئیے جائیں اور اس سے کہا جائے کہ حج پر جاؤ لیکن یہ سب مصارف اس کی ملکیت میں نہ دئیے جائیں تو اس صورت میں جبکہ اسے اطمینان ہو کہ دئیے ہوئے اخراجات کا اس سے پھر مطالبہ نہیں کیا جائے گا اس پر حج واجب ہوجاتا ہے۔
(۲۰۰۰)اگر کسی شخص کو اتنا مال دے دیا جائے جو حج کیلئے کافی ہو اور یہ شرط لگائی جائے کہ جس شخص نے مال دیا ہے مال لینے والامکہ مکرمہ کے راستے میں اس کی خدمت کرے گا تو جسے مال دیا جائے اس پر حج واجب نہیں ہوتا۔
(۲۰۰۱)اگر کوئی شخص بغرض تجارت مثال کے طور پر جدہ جائے اور اتنا مال کمائے کہ اگر وہاں سے مکہ جانا چاہے تو استطاعت رکھنے کی وجہ سے ضروری ہے کہ حج کرے اور اگر وہ حج کر لے تو خواہ بعد میں اتنی دولت کما لے کہ خود اپنے وطن سے بھی مکہ مکرمہ جا سکتا ہو تب بھی اس پر دوسرا حج واجب نہیں ہے۔
(۲۰۰۲) اگر کوئی شخص بغرض تجارت جدہ جائے اور اتنا مال کمائے کہ اگر وہاں سے مکہ جانا چاہے تو استطاعت رکھنے کی وجہ سے ضروری ہے کہ حج کرے اور اگر وہ حج کر لے تو خواہ وہ بعد میں اتنی دولت کمائے کہ خود اپنے وطن سے بھی مکہ مکرمہ جا سکتا ہو تب بھی اس پر دوسرا حج واجب نہیں ہے۔
(۲۰۰۳)اگر کوئی شخص اس شرط پر اجیر بنے کہ وہ خود ایک دوسرے شخص کی طرف سے حج کرے گا تو اگر وہ خود حج کو نہ جا سکے اورچاہیے کہ کسی دوسرے کو اپنی جگہ بھیچ دے تو ضروری ہے کہ جس نے اسے اجیر بنایا ہے اس سے اجازت لے۔
(۲۰۰۴)اگرکوئی شخص مستطیع ہو کر مکہ چلا جائے اور مقررہ وقت پر عرفات اور مشعرالحرام نہ پہنچ سکے تو جب بعد کے سالوں میں مستطیع نہ رہے تو اس پر حج واجب نہیں لیکن اگر گزشتہ سالوں میں مستطیع تھا اور حج پر نہیں گیا ہے تو چاہے اسے زحمت ہی کیوں نہ ہو حج بجالائے۔
(۲۰۰۵)اگر کوئی شخص مستطیع ہونے کے بعد حج ادا نہ کرے اور بعد میں بڑھاپے یا کمزوری یا بیماری کی وجہ سے حج نہ کر سکے یا کوئی رکاوٹ آجائے تو بعد میں اگر خود طاقت حاصل کرے تو خود حج بجالائے۔اس صورت میں بھی ایسا ہے کہ اگر پہلے سال میں حج کرنے کی استطاعت حاصل کرے مگر بیماری،کمزوری یا بڑھاپے کی وجہ سے حج نہ کر سکے اوراپنی طاقت سے نا امید ہو جائے تو ان تمام صورتوں میں احتیاط مستحب یہ ہے کہ اگر مرد منوب عنہ ہو تو نائب صرورہ ہونا چاہیے یعنی کوئی ایسا شخص ہو جس نے پہلے حج ادا نہ کیا ہو۔
(۲۰۰۶)جو شخص حج کرنے کیلئے کسی دوسرے کی طرف سے اجیر ہو توضروری ہے کہ اس کی طرف سے طواف النساء بھی کرے اور اگر نہ کرے تواجیر پر اس کی بیوی حرام ہو جائے گی۔
(۲۰۰۷)اگر کوئی شخص طواف النساء صحیح طور پر نہ بجالائے یا اس کو بجالانا بھول جائے اور چند روز بعد اسے یاد آئے اور راستے سے واپس ہو کر بجالائے تو صحیح ہے لیکن اگر واپس ہونا اس کے لئے باعث مشقت ہو تو طواف النساء کی بجا آوری کیلئے کسی کو نائب بنا سکتا ہے۔
|
|